حدیث عبد الرحمن بن غنم (تابعی)رحمہ اللہ
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
حدثنا روح ، حدثنا همام ، حدثنا عبد الله بن أبي حسين المكي ، عن شهر بن حوشب ، عن عبد الرحمن بن غنم ، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال : من قال قبل أن ينصرف ويثني رجله من صلاة المغرب ، والصبح : لا إله إلا الله ، وحده لا شريك له ، له الملك وله الحمد ، بيده الخير ، يحيي ويميت ، وهو على كل شيء قدير عشر مرات ، كتب له بكل واحدة عشر حسنات ، ومحيت عنه عشر سيئات ، ورفع له عشر درجات ، وكانت حرزا من كل مكروه ، وحرزا من الشيطان الرجيم ، ولم يحل لذنب يدركه إلا الشرك ، وكان من أفضل الناس عملا ، إلا رجلا يفضله ، يقول : أفضل مما قال.
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: جس نے فجر اور مغرب کی نماز پڑھنے کے بعد اپنا پاؤں جائے نماز سے پھیرنے سے پہلے دس مرتبہ یہ پڑھے :''لا إله إلا الله ، وحده لا شريك له ، له الملك وله الحمد ، بيده الخير ، يحيي ويميت ، وهو على كل شيء قدير'' تو ہربار پڑھنے کے عوض اس کے لئے دس نیکیاں لکھی جائیں گی ، اور دس گناہ مٹائے جائیں گے اور دس درجات بلند کئے جائیں گے اور یہ کلمات اس کے لئے اس دن ہر تکلیف دہ چیز سے نیز شیطان مردود سے حفاظت کا ذریعہ بنیں گے اورشرک کے علاوہ کوئی گناہ اس کے حصہ میں نہیں آسکتا اوراس دن وہ سب سے بہتر عمل کرنے والا شمار ہوگا الایہ کہ کوئی اس سے بہتر بات کہہ دے۔[مسند أحمد ط الميمنية: 4/ 227 واخرجہ ایضا الترمذی رقم 3474 من طریق شھربن حوشب بہ موصولاعن ابی ذر، لیکن لیس فیہ تقیید بعد صلاۃ المغرب، وایضا اخطاء شہربن حوشب فی وصلہ والصواب ارسالہ کما قال الدارقطی۔ انظر: علل الدارقطني: 6/ 248]۔
یہ روایت ضعیف ہے اس میں دو علتیں ہیں:
الف: ارسال:
یہ روایت مرسل ہے کیونکہ اسے عبدالرحمن بن غنم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے روایت کررہے ہیں اور یہ صحابی نہیں ہے ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ انہوں نے نہیں پایا۔ لہٰذا یہ روایت مرسل ہے اور مرسل حدیث ضعیف ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اس حدیث کا مرسل ہونا ہی راجح قرار دیا ہے ، چنانچہ:
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
والصحيح عن ابن أبي حسين المرسل ابن غنم ، عن النبي صلى الله عليه وسلم.
صحیح بات یہ ہے کہ یہ حدیث مرسل ہے یعنی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسے ابن غنم روایت کررہے ہیں (اور انہوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہی نہیں کیونکہ یہ صحابی نہیں ہیں)[علل الدارقطني: 6/ 248]۔
ب: شہربن حوشب کا اضطراب شدید:
اس روایت کا دار مدار شہربن حوشب پرہے اور یہ ا س روایت کو بیان کرنے میں سند و متن دونوں اعتبار سے شہربن حوشب بہت زیادہ اضطراب کا شکار ہوا ہے
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
ويشبه أن يكون الاضطراب فيه من شهر ، والله اعلم
اس روایت میں اضطراب کاذمہ دار شہربن حوشب ہی معلوم ہوتا ہے واللہ اعلم [علل الدارقطني: 6/ 248]۔
اس اٍضطراب کی تفصیل میں نہ جاتے ہوئے ہم صرف علامہ البانی رحمہ اللہ کے الفاظ میں خلاصہ نقل کرنے پراکتفاء کرتے ہیں ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وفي تصحيحه نظر لأنه من رواية شهر بن حوشب عن عبد الرحمن بن غنم وقد اضطرب شَهْر في إسناده ومتنه على ابْنُ غَنْم: أما الإسناد فمرة يقول: عن ابْنُ غَنْم مرفوعاًَ. وابْنُ غَنْم مُخْتَلَفٌ في صحبته، فهو مرسل. وهو رواية أحمد (4\ 227) ومرة يقول: عنه عن أبي ذَرٍّ مرفوعاً، وهو رواية التِّرْمِذِيّ وكذا النَّسَائِيّ في عمل اليوم والليلة (رقم12). وتارة يقول: عنه عن مُعَاذ. وهو رواية النَّسَائِيّ (126). وأخرى يقول: عنه عن فاطمة رضي الله عنها، وهو رواية لأحمد (6\ 298). فهذا اضطراب شديد من شَهْر يدل على ضعفه كما تقدم، ولذلك قال النَّسَائِيّ عقبه: وشَهْر بن حَوْشَب ضعيف، سُئِلَ ابْنُ عون عن حديث شَهْر؟ فقال: إن شَهْراً تركوه (أي طعنوا عليه وعابوه)، وكان شُعْبة سَيِّئَ الرأي فيه، وتركه يحيى القطان. وأما المتن: فتارة يذكر صلاة الفجر دون المغرب، كما في حديث أبي ذَرٍّ. وتارة يجمع بينهما، كما في حديث ابْنُ غَنْم المرسل، وحديث فاطمة، وأخرى يذكر العصر مكان المغرب، وذلك في حديث مُعَاذ، وتارة يذكر «يحيى ويُمِيِت» وتارة لا يذكرها، وتارة يزيد قبلها «بيده الخير»، وتارة لا يذكرها، وتارة يذكر: «قبل أن ينصرف ويَثْنِي رجليه». وتارة لا يذكرها. وتارة يضطرب في بيان ثواب ذلك بما لا ضرورة لبيانه الآن. وبالجملة فهذا الاضطراب في إسناده ومتنه لو صدر من ثقة لم تطمئن النفس لحديثه فكيف وهو من شهر الذي بالضعف اشتهر ؟
اس حدیث کو صحیح قرار دینا محل نظر ہے کیونکہ اسے شہربن حوشب نے عبدالرحمن بن غنم سے بیان کیا ہے اور شہربن حوشب اس حدیث کو ابن غم سے نقل کرنے میں سند ومتن دونوں اعتبار سے اضطراب کا شکار ہوا ہے ، جہاں تک سند کامعاملہ ہے تو کبھی یہ ابن غنم سے اسے مرفوعا نقل کرتاہے اورابن غنم کے صحابی ہونے میں اختلاف ہے لہٰذا یہ طریق مرسل ہوا یہ روایت مسند احمد (4\ 227) میں ہے ۔ اور کبھی ابن غنم عن ابی ذر کے واسطہ سے نقل کرتا ہے یہ ترمذی اور نسائی عمل اليوم والليلة (رقم12) کی روایت ہے ۔ اور کبھی ابن غنم عن معاذ کے واسطہ سے نقل کرتاہے یہ نسائی (126). کی روایت ہے ۔ اور کبھی ابن غنم عن فاطمہ رضی اللہ عنہا کے واسطہ سے نقل کرتاہے یہ مسنداحمد(6\ 298). کی روایت ہے ، تو یہ شہربن حوشب کا شدید اضطراب جو اس کے ضعیف ہونے پردلالت کرتاہے کمامضی ۔ اوراسی لئے امام نسائی نے اس کی روایت کو نقل کرنے کے بعد کہاکہ شہربن حوشب ضعیف ہے ۔اورابن عون سے حدیث شہرکے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: کہ محدثین نے اسے متروک سمجھا ہے (یعنی اس پر طعن کیا ہے اور اس پرجرح کی ہے) ۔اور امام شعبہ رحمہ اللہ اس کے بارے میں بری رائے رکھتے تھے۔اورامام یحیی بن سعید القطان نے اسے متروک سمجھا ۔
اورجہاں تک متن میں اضطراب کی بات ہے تو کبھی یہ مغرب کے بجائے صرف نماز فجر کا ذکر کرتاہے جیساکہ (اس کی نقل کردہ ) ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے۔اورکبھی دنوں نمازوں کو ایک ساتھ ذکر کرتاہے جیساکہ ابن غنم کی مرسل حدیث اور حدیث فاطمہ میں ہے ۔ اور کبھی مغرب کی جگہ عصر کی نماز کا ذکر کرتاہے اور ایسا معاذ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے ۔اورکبھی «يحيى ويُمِيِت» کے الفاظ بھی بیان کرتاہے اور کبھی ان الفاظ کو چھوڑ دیتا ہے ۔ اورکبھی ان الفاظ سے قبل «بيده الخير» کا اٍضافہ کرتا ہے اورکبھی یہ اضافہ نہیں کرتا ۔ اورکبھی «قبل أن ينصرف ويَثْنِي رجليه» کے الفاظ ذکر کرتاہے اور کبھی ان کا ذکر نہیں کرتا۔ اورکبھی اس عمل کے ثواب کو بیان کرنے میں اضطراب کا شکار ہوتا ہے جس کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔الغرض یہ کہ ایک ہی حدیث کی سند و متن میں اس طرح کے اضطراب کا صدور اگر کسی ثقہ راوی سے ہوجائے تو اس کی حدیث بھی محل نظر ہوجائے گی چہ جائے کہ ایسے اٍضطراب کا صدور شہربن حوشب کی طرف سے ہو جو ضعیف ہونے میں مشہہور ہو[تمام المنة ص: 229]۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ضعیف تسلیم کرنے بعد شواہد کے پیش نظر اس کے الفاظ کو قوی قرار دیا ہے لیکن ان تمام شواہد میں فجراورمغرب کی نماز کے بعد کی قید نہیں ہے بلکہ مجموعی سیاق اس بات پردلالت کرتا ہے کہ ان الفاظ کو صبح وشام کے اذکار کے طور پر ذکر کیا گیا ۔
اورعلامہ البانی رحمہ اللہ کا بھی قدیم موقف یہی تھا کہ نماز کے قید کے ساتھ یہ روایت صحیح نہیں ہے البتہ صبح وشام کے اذکار کے طور پر یہ روایت صحیح ہے جیساکہ علامہ موصوف نے سلسلہ صحیحہ رقم 113رقم 114کے تحت وضاحت کی تھی ، لیکن بعد میں علامہ البانی رحمہ اللہ کو ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے منقول بھی ایک روایت ملی جس میں نماز کے بعد کی قید ہے اور محض اسی روایت کو بناد بناکر علامہ البانی رحمہ اللہ نے شہربن حوشب کی روایت کو حسن لغیرہ کہا [سلسلہ صحیحہ رقم 114] اوربعض دیگرروایات کے عموم کو بھی اسی پرمحمول کیا دیکھئے[صحیح الترغیب :ج 1 ص 322] حالانکہ ان روایات کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے اپنے قدیم موقف میں صبح و شام کے اذکار کے شمار کیا تھا دیکھئے [سلسلہ صحیحہ رقم 113]۔
عرض ہے کہ ابوامامہ رضی اللہ عنہ کے حدیث جسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے مرکزی شاہد باور کیا ہے وہ شاہد بننے کے قابل ہی نہیں تفصیل اگلی سطور میں۔