• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فرض غسل کا صحیح طریقہ

Allah Rakha

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 25، 2011
پیغامات
7
ری ایکشن اسکور
24
پوائنٹ
0
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
دین اسلام کے ماننے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ پاک وصاف رہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی طہارت ( پاکیزگی ) نصف ایمان ہے۔ اس بات کو تو تقریبآ سب ہی جانتے ہیں۔
مگر پاک کیسے ہوں گے؟
دین اسلام ہمیں پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ جو کہ قرآن مجید اور صحیح احادیث میں محفوظ ہے ۔ آئیں سب سے پہلے غسل کے بارے میں دیکھتے ہیں کہ ہمارا دین اسلام ( قرآن مجید اور صحیح احادیث) اس عمل میں ہمیں کیا سکھاتا ہے ۔ بعض لوگ شرم کی وجہ سے ایسے مسائل پوچھنے سے کتراتے ہیں جبکہ یہ صحیح نہیں ہے ۔ ہمیں علم حاصل کرنے کے لیے ہر قسم کی معلومات کے متعلق پوچھنا ضروری ہے ورنہ غلطی پر غلطی ہوتی رہے گی اور گناہ لازم ہو گا ۔ اس لیےیہاں غسل کے متعلق لکھتاہوں ۔ انشاء اللہ آئندہ وضوء کے بارے میں لکھوں گا۔ تاکہ شرمیلے لوگوں کے عمل کی اصلاح ہو جائے ۔
غسل کن کن حالات میں کرنا چاہیئے۔
۱ : اسلام قبول کرنے کے بعد غسل کرنا چاہیئے۔ ( صحیح ابن خزیمہ سندہ صحیح) ۔
۲: جب مرد اور عورت کی شرمگائیں مل جائیں تو غسل فرض ہو جاتا ہے ۔ ( صحیح مسلم)۔
۳: احتلام ہو تو بھی غسل فرض ہو جاتا ہے ۔ ( صحیح بخاری )۔
۴: جمعہ کے دن غسل کرنا ضروری ہے ۔ ( صحیح بخاری و صحیح مسلم )۔
۵: جو شخص میت کو نہلائے اسے غسل کرنا چاہیئے ۔ ( رواہ الترمذی، صححہ ابن حبان و ابن حزم، نیل، صححہ الا لبانی، صححہ الحاکم و الذھبی)۔
۶: احرام باندھتے وقت غسل کرنا چاہیئے ۔ ( رواہ الحاکم و سندہ صحیح، المستدرک )۔
۷: عورت کو اذیت ماہانہ اور نفاس کے بعد غسل کرنا فرض ہے۔ (صحیح بخاری)۔
غسل کے متفرق مسائل
حالت جنابت میں رکے ہوئے پانی میں غسل نہ کرے۔( صحیح مسلم)۔
پانی میں فضول خرچی نہ کرے ۔ ( احمد و ابو داود و ابن ماجہ و سندہ صحیح، التعلیقات )۔
غسل کے لیے تقریباً سوا صاع یعنی چار کلو گرام پانی کافی ہے ۔ ( صحیح بخاری )۔
برہنہ ہوکر پانی میں داخل نہ ہو۔ ( ابن خزیمہ، صححہ الحاکم و الذھبی۔ المستدرک)۔
نہاتے وقت پردہ کر لے ۔ ( رواہ ابو داود و النسائی و احمد و سندہ حسن۔ التعلیقات للالبانی علی المشکوٰۃ )۔
اسلام قبول کرنے کے بعد بیری( کے پتوں) اور پانی سے نہائے ۔ (ابن خزیمہ و اسناد صحیح)۔
اگر عورت کے بال مضبوطی سے گندے ہوئے ہوں تو انہیں کھولنے کی ضرورت نہیں۔ ( صحیح مسلم) ۔
مرد عورت کے اور عورت مرد کے بچے ہوئے پانی سے غسل نہ کرے۔ ( ابوداود و النسائی سندہ صحٰح ، التعلیقات )۔
مرد اپنی بیوی کے بچے ہوئے پانی سے غسل کر سکتا ہے ۔ (صحیح مسلم)۔ فرض غسل کرنے کے بعد دوبارہ وضوء کرنے کی ضرورت نہیں۔ ( رواہ الترمذی و صححہ)۔
غسل کرنے کا طریقہ
حمام میں داخل ہونے کی دعاء بسم اللہ اعوذباللہ من الخبث و الخبائث ( رواہ العمری بسند صحیح ، فتح الباری جزء ۱ ) ۔
برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے ہاتھوں کو تین مرتبہ دھوئے۔ بائیاں ہاتھ ہر گز پانی میں نہ ڈالیں پانی دائیں ہاتھ سے لیں ۔ ( صحیح مسلم )۔ پھر بائیں ہاتھ سے اپنی شرم گاہ اور نجاست کو دھوئے۔ ( صحیح بخاری )
پھر بائیں ہاتھ کو زمین پر دو تین مرتبہ خوب رگڑے اور پھر اسے دھو ڈالے ۔ ( صحیح بخاری و صحیح مسلم )۔
پھر اسی طرح وضوء کرے جس طرح صلٰوۃ کے لیئے وضوء کیا جاتا ہے۔ ( صحیح بخاری )۔
یعنی تین مرتبہ کلی کرے ،تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالے، کلی اور ناک مین پانی ایک چلو سے ڈالیں۔ (صحیح بخاری،رواہ ابن خزیمہ سندہ حسن،رواہ احمد و روی النسائی و ابو داود و ابن حبان و بلوغ الامانی جزء ۲ فتح الباری جزء ۱ )
تین دفعہ چہرہ دھوئے اور تین دفعہ دونوں ہاتھ کہنیوں تک دھوئے ۔ ( رواہ النسائی اسناد صحیح ، فتح الباری جزء ۱ )۔
پھر انگلیاں پانی سے تر کرے اور سر کے بالوں کی جڑوں میں خلال کرے ، یہاں تک کہ سر کی جلد تر ہو جانے کا یقین ہو جائے پھر سر پر تین مرتبہ پانی بہائے ۔ ( صحیح بخاری )
پھر باقی تمام بدن پر پانی بہائے ۔ پہلے دائیں طرف پھر بائیں طرف ۔ ( صحیح بخاری )
پھر دونوں پیر ( پاؤں)تین تین مرتبہ دھوئے انگلیوں کے خلال کے ساتھ ، پہلے دائیاں پھر بائیاں۔ ( صحیح بخاری)
محمد سعید کویت
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بهائ صاحب الله آپ کو جزاے خیر دے.حدیث کے مطابق سوا صاع پانی یعنی تقریبا ۴ کلوگرام غسل کے لئے کافی هے. ۴ کلو گرام پانی تقریبا ۴ لیٹر کے برابر هوتا هے. کیا کوئ صاحب مجهے یه سمجها پائیں گے که ۴ لیٹر پانی میں یک کامل غسل کس طرح کیا جاسکتا هے.اگر یه ناممکن نهیں هے تو بهت مشکل ضرور هے. خیال رهے که یک کامل غسل کے لئے مندرجه زیل امور پر عمل کرنا ضروری هے
برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے ہاتھوں کو تین مرتبہ دھوئے۔ بائیاں ہاتھ ہر گز پانی میں نہ ڈالیں پانی دائیں ہاتھ سے لیں ۔ ( صحیح مسلم )۔ پھر بائیں ہاتھ سے اپنی شرم گاہ اور نجاست کو دھوئے۔ ( صحیح بخاری )
پھر بائیں ہاتھ کو زمین پر دو تین مرتبہ خوب رگڑے اور پھر اسے دھو ڈالے ۔ ( صحیح بخاری و صحیح مسلم )۔
پھر اسی طرح وضوء کرے جس طرح صلٰوۃ کے لیئے وضوء کیا جاتا ہے۔ ( صحیح بخاری )۔
یعنی تین مرتبہ کلی کرے ،تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالے، کلی اور ناک مین پانی ایک چلو سے ڈالیں۔ (صحیح بخاری،رواہ ابن خزیمہ سندہ حسن،رواہ احمد و روی النسائی و ابو داود و ابن حبان و بلوغ الامانی جزء ۲ فتح الباری جزء ۱ )
تین دفعہ چہرہ دھوئے اور تین دفعہ دونوں ہاتھ کہنیوں تک دھوئے ۔ ( رواہ النسائی اسناد صحیح ، فتح الباری جزء ۱ )۔
پھر انگلیاں پانی سے تر کرے اور سر کے بالوں کی جڑوں میں خلال کرے ، یہاں تک کہ سر کی جلد تر ہو جانے کا یقین ہو جائے پھر سر پر تین مرتبہ پانی بہائے ۔ ( صحیح بخاری )
پھر باقی تمام بدن پر پانی بہائے ۔ پہلے دائیں طرف پھر بائیں طرف ۔ ( صحیح بخاری )
پھر دونوں پیر ( پاؤں)تین تین مرتبہ دھوئے انگلیوں کے خلال کے ساتھ ، پہلے دائیاں پھر بائیاں۔ ( صحیح بخاری)
جزاک اللہ خیراً
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
السلام علیکم
اب فائنلی بات کیا ہے؟
سر کا مسح کرنا یا نہ کرنا۔یا دونوں طریقے ٹھیک ہیں۔
ایک بار پھر توجہ کرنے کی گزارش
جزاکم الله خیرا
لگتا ہے ابھی تک ارسلان بھائی کو فائنل بات کا جواب نہیں ملا
اور ہمیں بھی فائنل صحیح جواب کا انتظار ہے

الله تونے ہمارے لئے جو آسان دین بنایا ہے اسکو آسانی سے سمجھنے کی توفیق بھی دے آمین
 
شمولیت
جون 23، 2011
پیغامات
187
ری ایکشن اسکور
977
پوائنٹ
86
جزاکم الله خیرا
لگتا ہے ابھی تک ارسلان بھائی کو فائنل بات کا جواب نہیں ملا
اور ہمیں بھی فائنل صحیح جواب کا انتظار ہے

الله تونے ہمارے لئے جو آسان دین بنایا ہے اسکو آسانی سے سمجھنے کی توفیق بھی دے آمین
جزاک اللہ بھائیو فائنل جواب کا مجھے بھی انتظار ہے کافی عرصے سے میں خود انتظار میں ہوں کہ کوئی فائنل واضع جواب آ جائے جس پہ مطئمن ہوکر ہم عمل پیرا ہوسکیں ان شاءاللہ
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
جب حدیث میں یہ بات واضح موجود ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے سر کا مسح نہیں کیا ۔
اور سرکا مسح کرنا ثابت نہیں ہے
تو یہی فائنل ہوا کہ سر کا مسح غسل والے وضوء میں نہیں ہے
 

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,118
ری ایکشن اسکور
4,480
پوائنٹ
376
جب حدیث میں یہ بات واضح موجود ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے سر کا مسح نہیں کیا ۔
اور سرکا مسح کرنا ثابت نہیں ہے
تو یہی فائنل ہوا کہ سر کا مسح غسل والے وضوء میں نہیں ہے
اسی کو امام نسائی نے ثابت کیا ھے اورابن حجر وغیرہ نے ترجیح دی ہے ،اس پو راقم کا ایک مضمون بھی ہے اللہ کرے وہ مل جائے تو اسے ادھر شایع کیا جائے گا ،وہ ہمارے اخبار النصیحہ میں شایع بھی ہوا تھا۔
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
جب حدیث میں یہ بات واضح موجود ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے سر کا مسح نہیں کیا ۔
اور سرکا مسح کرنا ثابت نہیں ہے
تو یہی فائنل ہوا کہ سر کا مسح غسل والے وضوء میں نہیں ہے
صحيح بخارى ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے كہ جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم غسل جنابت كرتے تو اپنے ہاتھوں سے ابتدا كرتے اور ہاتھ دھو كر پھر نماز والے وضوء كى طرح وضوء كرتے، پھر پانى ميں اپنى انگلياں ڈال كر پانى بالوں كى جڑوں تك پہنچاتے اور خلال كرتے، اور پھر اپنے سر پر تين چلو پانى بہا كر اپنے سارے جسم پر پانى بہاتے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 248 ).

یہاں تو واضح لکھا ہے کے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم غسل جنابت كرتے تو اپنے ہاتھوں سے ابتدا كرتے اور ہاتھ دھو كر پھر نماز والے وضوء كى طرح وضوء كرتے
کیا نماز والے وضوء میں سر کا مسح نہیں ہے ؟

اسی کو امام نسائی نے ثابت کیا ھے اورابن حجر وغیرہ نے ترجیح دی ہے ،اس پو راقم کا ایک مضمون بھی ہے اللہ کرے وہ مل جائے تو اسے ادھر شایع کیا جائے گا ،وہ ہمارے اخبار النصیحہ میں شایع بھی ہوا تھا۔
صحيح بخارى کی حديث کے بعد پھر دوسری حدیث سے آپ ثابت کرینگے ؟
 
شمولیت
جون 23، 2011
پیغامات
187
ری ایکشن اسکور
977
پوائنٹ
86
صحيح بخارى ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے كہ جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم غسل جنابت كرتے تو اپنے ہاتھوں سے ابتدا كرتے اور ہاتھ دھو كر پھر نماز والے وضوء كى طرح وضوء كرتے، پھر پانى ميں اپنى انگلياں ڈال كر پانى بالوں كى جڑوں تك پہنچاتے اور خلال كرتے، اور پھر اپنے سر پر تين چلو پانى بہا كر اپنے سارے جسم پر پانى بہاتے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 248 ).

یہاں تو واضح لکھا ہے کے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم غسل جنابت كرتے تو اپنے ہاتھوں سے ابتدا كرتے اور ہاتھ دھو كر پھر نماز والے وضوء كى طرح وضوء كرتے
کیا نماز والے وضوء میں سر کا مسح نہیں ہے ؟



صحيح بخارى کی حديث کے بعد پھر دوسری حدیث سے آپ ثابت کرینگے ؟
جزاک اللہ حافظ نوید بھائی
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
جزاکم الله خیرا
لگتا ہے ابھی تک ارسلان بھائی کو فائنل بات کا جواب نہیں ملا
اور ہمیں بھی فائنل صحیح جواب کا انتظار ہے

الله تونے ہمارے لئے جو آسان دین بنایا ہے اسکو آسانی سے سمجھنے کی توفیق بھی دے آمین
السلام علیکم
صحیح کہا نوید بھائی جان
ابھی تک فائنل جواب نہیں ملا
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
جب حدیث میں یہ بات واضح موجود ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے سر کا مسح نہیں کیا ۔
اور سرکا مسح کرنا ثابت نہیں ہے
تو یہی فائنل ہوا کہ سر کا مسح غسل والے وضوء میں نہیں ہے
وضو کی طرح وضو میں سر کا مسح ہے،اس بات کا جواب آپ کے پاس کیا ہے؟
جب آپ یہ سمجھ کر غسل جنابت کا وضو کریں گے کہ میں نماز والے وضو کی طرح وضو کر رہا ہوں تو لازمی ہے کہ سر کا مسح کریں گے اگر نہیں کرے گے تو کیا آپ نماز والے وضو میں سر کے مسح کے بھی منکر ہیں؟اس بات کا جواب دیجیے۔
 
Top