بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
دین اسلام کے ماننے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ پاک وصاف رہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی طہارت ( پاکیزگی ) نصف ایمان ہے۔ اس بات کو تو تقریبآ سب ہی جانتے ہیں۔
مگر پاک کیسے ہوں گے؟
دین اسلام ہمیں پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ جو کہ قرآن مجید اور صحیح احادیث میں محفوظ ہے ۔ آئیں سب سے پہلے غسل کے بارے میں دیکھتے ہیں کہ ہمارا دین اسلام ( قرآن مجید اور صحیح احادیث) اس عمل میں ہمیں کیا سکھاتا ہے ۔ بعض لوگ شرم کی وجہ سے ایسے مسائل پوچھنے سے کتراتے ہیں جبکہ یہ صحیح نہیں ہے ۔ ہمیں علم حاصل کرنے کے لیے ہر قسم کی معلومات کے متعلق پوچھنا ضروری ہے ورنہ غلطی پر غلطی ہوتی رہے گی اور گناہ لازم ہو گا ۔ اس لیےیہاں غسل کے متعلق لکھتاہوں ۔ انشاء اللہ آئندہ وضوء کے بارے میں لکھوں گا۔ تاکہ شرمیلے لوگوں کے عمل کی اصلاح ہو جائے ۔
غسل کن کن حالات میں کرنا چاہیئے۔
۱ : اسلام قبول کرنے کے بعد غسل کرنا چاہیئے۔ ( صحیح ابن خزیمہ سندہ صحیح) ۔
۲: جب مرد اور عورت کی شرمگائیں مل جائیں تو غسل فرض ہو جاتا ہے ۔ ( صحیح مسلم)۔
۳: احتلام ہو تو بھی غسل فرض ہو جاتا ہے ۔ ( صحیح بخاری )۔
۴: جمعہ کے دن غسل کرنا ضروری ہے ۔ ( صحیح بخاری و صحیح مسلم )۔
۵: جو شخص میت کو نہلائے اسے غسل کرنا چاہیئے ۔ ( رواہ الترمذی، صححہ ابن حبان و ابن حزم، نیل، صححہ الا لبانی، صححہ الحاکم و الذھبی)۔
۶: احرام باندھتے وقت غسل کرنا چاہیئے ۔ ( رواہ الحاکم و سندہ صحیح، المستدرک )۔
۷: عورت کو اذیت ماہانہ اور نفاس کے بعد غسل کرنا فرض ہے۔ (صحیح بخاری)۔
غسل کے متفرق مسائل
حالت جنابت میں رکے ہوئے پانی میں غسل نہ کرے۔( صحیح مسلم)۔
پانی میں فضول خرچی نہ کرے ۔ ( احمد و ابو داود و ابن ماجہ و سندہ صحیح، التعلیقات )۔
غسل کے لیے تقریباً سوا صاع یعنی چار کلو گرام پانی کافی ہے ۔ ( صحیح بخاری )۔
برہنہ ہوکر پانی میں داخل نہ ہو۔ ( ابن خزیمہ، صححہ الحاکم و الذھبی۔ المستدرک)۔
نہاتے وقت پردہ کر لے ۔ ( رواہ ابو داود و النسائی و احمد و سندہ حسن۔ التعلیقات للالبانی علی المشکوٰۃ )۔
اسلام قبول کرنے کے بعد بیری( کے پتوں) اور پانی سے نہائے ۔ (ابن خزیمہ و اسناد صحیح)۔
اگر عورت کے بال مضبوطی سے گندے ہوئے ہوں تو انہیں کھولنے کی ضرورت نہیں۔ ( صحیح مسلم) ۔
مرد عورت کے اور عورت مرد کے بچے ہوئے پانی سے غسل نہ کرے۔ ( ابوداود و النسائی سندہ صحٰح ، التعلیقات )۔
مرد اپنی بیوی کے بچے ہوئے پانی سے غسل کر سکتا ہے ۔ (صحیح مسلم)۔ فرض غسل کرنے کے بعد دوبارہ وضوء کرنے کی ضرورت نہیں۔ ( رواہ الترمذی و صححہ)۔
غسل کرنے کا طریقہ
حمام میں داخل ہونے کی دعاء بسم اللہ اعوذباللہ من الخبث و الخبائث ( رواہ العمری بسند صحیح ، فتح الباری جزء ۱ ) ۔
برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے ہاتھوں کو تین مرتبہ دھوئے۔ بائیاں ہاتھ ہر گز پانی میں نہ ڈالیں پانی دائیں ہاتھ سے لیں ۔ ( صحیح مسلم )۔ پھر بائیں ہاتھ سے اپنی شرم گاہ اور نجاست کو دھوئے۔ ( صحیح بخاری )
پھر بائیں ہاتھ کو زمین پر دو تین مرتبہ خوب رگڑے اور پھر اسے دھو ڈالے ۔ ( صحیح بخاری و صحیح مسلم )۔
پھر اسی طرح وضوء کرے جس طرح صلٰوۃ کے لیئے وضوء کیا جاتا ہے۔ ( صحیح بخاری )۔
یعنی تین مرتبہ کلی کرے ،تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالے، کلی اور ناک مین پانی ایک چلو سے ڈالیں۔ (صحیح بخاری،رواہ ابن خزیمہ سندہ حسن،رواہ احمد و روی النسائی و ابو داود و ابن حبان و بلوغ الامانی جزء ۲ فتح الباری جزء ۱ )
تین دفعہ چہرہ دھوئے اور تین دفعہ دونوں ہاتھ کہنیوں تک دھوئے ۔ ( رواہ النسائی اسناد صحیح ، فتح الباری جزء ۱ )۔
پھر انگلیاں پانی سے تر کرے اور سر کے بالوں کی جڑوں میں خلال کرے ، یہاں تک کہ سر کی جلد تر ہو جانے کا یقین ہو جائے پھر سر پر تین مرتبہ پانی بہائے ۔ ( صحیح بخاری )
پھر باقی تمام بدن پر پانی بہائے ۔ پہلے دائیں طرف پھر بائیں طرف ۔ ( صحیح بخاری )
پھر دونوں پیر ( پاؤں)تین تین مرتبہ دھوئے انگلیوں کے خلال کے ساتھ ، پہلے دائیاں پھر بائیاں۔ ( صحیح بخاری)
محمد سعید کویت
دین اسلام کے ماننے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ پاک وصاف رہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی طہارت ( پاکیزگی ) نصف ایمان ہے۔ اس بات کو تو تقریبآ سب ہی جانتے ہیں۔
مگر پاک کیسے ہوں گے؟
دین اسلام ہمیں پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ جو کہ قرآن مجید اور صحیح احادیث میں محفوظ ہے ۔ آئیں سب سے پہلے غسل کے بارے میں دیکھتے ہیں کہ ہمارا دین اسلام ( قرآن مجید اور صحیح احادیث) اس عمل میں ہمیں کیا سکھاتا ہے ۔ بعض لوگ شرم کی وجہ سے ایسے مسائل پوچھنے سے کتراتے ہیں جبکہ یہ صحیح نہیں ہے ۔ ہمیں علم حاصل کرنے کے لیے ہر قسم کی معلومات کے متعلق پوچھنا ضروری ہے ورنہ غلطی پر غلطی ہوتی رہے گی اور گناہ لازم ہو گا ۔ اس لیےیہاں غسل کے متعلق لکھتاہوں ۔ انشاء اللہ آئندہ وضوء کے بارے میں لکھوں گا۔ تاکہ شرمیلے لوگوں کے عمل کی اصلاح ہو جائے ۔
غسل کن کن حالات میں کرنا چاہیئے۔
۱ : اسلام قبول کرنے کے بعد غسل کرنا چاہیئے۔ ( صحیح ابن خزیمہ سندہ صحیح) ۔
۲: جب مرد اور عورت کی شرمگائیں مل جائیں تو غسل فرض ہو جاتا ہے ۔ ( صحیح مسلم)۔
۳: احتلام ہو تو بھی غسل فرض ہو جاتا ہے ۔ ( صحیح بخاری )۔
۴: جمعہ کے دن غسل کرنا ضروری ہے ۔ ( صحیح بخاری و صحیح مسلم )۔
۵: جو شخص میت کو نہلائے اسے غسل کرنا چاہیئے ۔ ( رواہ الترمذی، صححہ ابن حبان و ابن حزم، نیل، صححہ الا لبانی، صححہ الحاکم و الذھبی)۔
۶: احرام باندھتے وقت غسل کرنا چاہیئے ۔ ( رواہ الحاکم و سندہ صحیح، المستدرک )۔
۷: عورت کو اذیت ماہانہ اور نفاس کے بعد غسل کرنا فرض ہے۔ (صحیح بخاری)۔
غسل کے متفرق مسائل
حالت جنابت میں رکے ہوئے پانی میں غسل نہ کرے۔( صحیح مسلم)۔
پانی میں فضول خرچی نہ کرے ۔ ( احمد و ابو داود و ابن ماجہ و سندہ صحیح، التعلیقات )۔
غسل کے لیے تقریباً سوا صاع یعنی چار کلو گرام پانی کافی ہے ۔ ( صحیح بخاری )۔
برہنہ ہوکر پانی میں داخل نہ ہو۔ ( ابن خزیمہ، صححہ الحاکم و الذھبی۔ المستدرک)۔
نہاتے وقت پردہ کر لے ۔ ( رواہ ابو داود و النسائی و احمد و سندہ حسن۔ التعلیقات للالبانی علی المشکوٰۃ )۔
اسلام قبول کرنے کے بعد بیری( کے پتوں) اور پانی سے نہائے ۔ (ابن خزیمہ و اسناد صحیح)۔
اگر عورت کے بال مضبوطی سے گندے ہوئے ہوں تو انہیں کھولنے کی ضرورت نہیں۔ ( صحیح مسلم) ۔
مرد عورت کے اور عورت مرد کے بچے ہوئے پانی سے غسل نہ کرے۔ ( ابوداود و النسائی سندہ صحٰح ، التعلیقات )۔
مرد اپنی بیوی کے بچے ہوئے پانی سے غسل کر سکتا ہے ۔ (صحیح مسلم)۔ فرض غسل کرنے کے بعد دوبارہ وضوء کرنے کی ضرورت نہیں۔ ( رواہ الترمذی و صححہ)۔
غسل کرنے کا طریقہ
حمام میں داخل ہونے کی دعاء بسم اللہ اعوذباللہ من الخبث و الخبائث ( رواہ العمری بسند صحیح ، فتح الباری جزء ۱ ) ۔
برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے ہاتھوں کو تین مرتبہ دھوئے۔ بائیاں ہاتھ ہر گز پانی میں نہ ڈالیں پانی دائیں ہاتھ سے لیں ۔ ( صحیح مسلم )۔ پھر بائیں ہاتھ سے اپنی شرم گاہ اور نجاست کو دھوئے۔ ( صحیح بخاری )
پھر بائیں ہاتھ کو زمین پر دو تین مرتبہ خوب رگڑے اور پھر اسے دھو ڈالے ۔ ( صحیح بخاری و صحیح مسلم )۔
پھر اسی طرح وضوء کرے جس طرح صلٰوۃ کے لیئے وضوء کیا جاتا ہے۔ ( صحیح بخاری )۔
یعنی تین مرتبہ کلی کرے ،تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالے، کلی اور ناک مین پانی ایک چلو سے ڈالیں۔ (صحیح بخاری،رواہ ابن خزیمہ سندہ حسن،رواہ احمد و روی النسائی و ابو داود و ابن حبان و بلوغ الامانی جزء ۲ فتح الباری جزء ۱ )
تین دفعہ چہرہ دھوئے اور تین دفعہ دونوں ہاتھ کہنیوں تک دھوئے ۔ ( رواہ النسائی اسناد صحیح ، فتح الباری جزء ۱ )۔
پھر انگلیاں پانی سے تر کرے اور سر کے بالوں کی جڑوں میں خلال کرے ، یہاں تک کہ سر کی جلد تر ہو جانے کا یقین ہو جائے پھر سر پر تین مرتبہ پانی بہائے ۔ ( صحیح بخاری )
پھر باقی تمام بدن پر پانی بہائے ۔ پہلے دائیں طرف پھر بائیں طرف ۔ ( صحیح بخاری )
پھر دونوں پیر ( پاؤں)تین تین مرتبہ دھوئے انگلیوں کے خلال کے ساتھ ، پہلے دائیاں پھر بائیاں۔ ( صحیح بخاری)
محمد سعید کویت