• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فرض نماز کے وقت سنت پڑھنا

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نماز فجر کے بعد فجر کی دو سنت ادا کرنے کی ممانعت

صحيح البخاري كتاب مواقيت الصلاة بَاب الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَجْرِ حَتَّى تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ شَهِدَ عِنْدِي رِجَالٌ مَرْضِيُّونَ وَأَرْضَاهُمْ عِنْدِي عُمَرُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَشْرُقَ الشَّمْسُ وَبَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ (حدیث متفق علیہ، مرفوع اورمتواتر ہے)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ شُعْبَةَ عَنْ قَتَادَةَ سَمِعْتُ أَبَا الْعَالِيَةِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ حَدَّثَنِي نَاسٌ بِهَذَا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھے بہت محبوب تھے وہ فرماتے ہیں بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا صبح کی نماز کے بعد نماز پڑھنے سے یہاں تک کہ سورج بلند ہوجائے اور بعد نمازعصر کے یہاں تک کہ سورج غروب ہوجائےـ

صحيح البخاري كتاب مواقيت الصلاة بَاب الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَجْرِ حَتَّى تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ بَيْعَتَيْنِ وَعَنْ لِبْسَتَيْنِ وَعَنْ صَلَاتَيْنِ نَهَى عَنْ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَجْرِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَبَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ وَعَنْ اشْتِمَالِ الصَّمَّاءِ وَعَنْ الِاحْتِبَاءِ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ يُفْضِي بِفَرْجِهِ إِلَى السَّمَاءِ وَعَنْ الْمُنَابَذَةِ وَالْمُلَامَسَةِ (حدیث متواتر حدیث مرفوع)
، ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو قسم کی بیع اور دو قسم کے لباس اور دو نمازوں سے منع فرمایا: فجر کے بعد نماز پڑھنے سے جب تک کہ آفتاب اچھی طرح نہ نکل آئے اور عصر کے بعد نماز سے جب تک کہ اچھی طرح آفتاب غروب نہ ہو جائے اور ایک کپڑے میں اشتمال صما اور احتباء سے جو کہ پورے طور پر شرمگاہ کیلئے پردہ نہیں ہو سکتے اور بیع منابذہ اور ملابسہ سے۔

صحيح البخاري كتاب مواقيت الصلاة بَاب لَا تُتَحَرَّى الصَّلَاةُ قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عَطَاءُ بْنُ يَزِيدَ الْجُنْدَعِيُّ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا صَلَاةَ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ وَلَا صَلَاةَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغِيبَ الشَّمْسُ ٭
ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی نماز نہیں صبح کی نماز کے بعد یہاں تک کہ سورج بلند ہوجائے اور نہ نماز عصر کے بعد یہاں تک کہ سورج غروب ہوجائےـ

صحيح البخاري كِتَاب الْجُمُعَةِ بَاب مَسْجِدِ بَيْتِ
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ سَمِعْتُ قَزَعَةَ مَوْلَى زِيَادٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُحَدِّثُ بِأَرْبَعٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْجَبْنَنِي وَآنَقْنَنِي قَالَ لَا تُسَافِرْ الْمَرْأَةُ يَوْمَيْنِ إِلَّا مَعَهَا زَوْجُهَا أَوْ ذُو مَحْرَمٍ وَلَا صَوْمَ فِي يَوْمَيْنِ الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى وَلَا صَلَاةَ بَعْدَ صَلَاتَيْنِ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَبَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ وَلَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ مَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَسْجِدِ الْأَقْصَى وَمَسْجِدِي٭
ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ــــــــــــــــــــــــــ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا ـــــــــــــــــــــــــ کہ کوئی نماز نہیں (ان) دو نمازوں کے بعد صبح کی نماز کے بعد یہاں تک کہ سورج بلند ہوجائے اور عصر کی نماز کے بعد یہاں تک کہ سورج غروب ہوجائےـ

سنن ابن ماجه كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ فَاتَتْهُ الرَّكْعَتَانِ قَبْلَ صَلَاةِ الْفَجْرِ مَتَى يَقْضِيهِمَا
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَيَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ قَالَا حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ كَيْسَانَ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَامَ عَنْ رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ فَقَضَاهُمَا بَعْدَ مَا طَلَعَتْ الشَّمْسُ

ایک بار نیند کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فجر کی سنتیں رہ گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورج بلند ہوجانےکے بعد قضاء فرمائیں ۔

سنن الترمذي - (ج 2 / ص 208)
حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْعَمِّيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ يُصَلِّ رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ فَلْيُصَلِّهِمَا بَعْدَ مَا تَطْلُعُ الشَّمْسُ
ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جس کسی نے فجر کی سنت نہ پڑھیں ہوں تو وہ انہیں طلوع آفتاب کے بعد پڑھے۔
سنن أبي داود كتاب الصلاة بَاب فِيمَنْ يَقْرَأُ السَّجْدَةَ بَعْدَ الصُّبْحِ
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الصَّبَّاحِ الْعَطَّارُ حَدَّثَنَا أَبُو بَحْرٍ حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ عُمَارَةَ حَدَّثَنَا أَبُو تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيُّ قَالَ
لَمَّا بَعَثْنَا الرَّكْبَ قَالَ أَبُو دَاوُد يَعْنِي إِلَى الْمَدِينَةِ قَالَ كُنْتُ أَقُصُّ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ فَأَسْجُدُ فَنَهَانِي ابْنُ عُمَرَ فَلَمْ أَنْتَهِ ثَلَاثَ مِرَارٍ ثُمَّ عَادَ فَقَالَ إِنِّي صَلَّيْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ فَلَمْ يَسْجُدُوا حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ

ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیچھے نمازیں پڑھی ہیں وہ (نماز فجر کے بعد) سورج نکلنے تک نماز نہیں پڑھا کرتے تھے۔
اسں سے مراد نفل نمازیں ہیں -

ایک اور تھریڈ میں بھی حدیث نمبر جامع الترمذي: 422
بیان ہو چکی ہے کہ :

خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فَصَلَّيْتُ مَعَهُ الصُّبْحَ، ثُمَّ انْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَنِي أُصَلِّي، فَقَالَ: «مَهْلًا يَا قَيْسُ، أَصَلَاتَانِ مَعًا»، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لَمْ أَكُنْ رَكَعْتُ رَكْعَتَيِ الفَجْرِ، قَالَ: «فَلَا إِذَنْ» رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم جماعت کروانے کے لیے تشریف لائے , اقامت کہی گئی , میں نے بھی آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صبح کی نماز ادا کی , پھر جب آپ فارغ ہوئے تو مجھے دیکھا کہ میں نمازپڑھنے لگا ہوں, تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے قیس! ٹھہرو! کیا دو نمازیں اکٹھی پڑھ رہے ہو؟ تو میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم میں نے فجر کی دو سنتیں ادا نہیں کی تھیں, تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر کوئی حرج نہیں ۔

مزید یہ کہ نیند یا بھول کی وجہ سے اگرکوئی فرض نماز رہ جائے تو نبی کریم صل اللہ علیہ و آ له وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ: "جب بھی نیند سے بیدار ہو یا یاد آ جائے کہ فرض نماز رہ گئی ہے تو فوراً اس کو ادا کرلو
یہی اس کا کفارہ ہے
" (متفق علیہ) -


ابو داؤد میں ایک صحیح روایت ہے کہ ایک صحابی رسول حضرت صفوان بن معطل زکوانی رضی الله عنہ (یہ بدری صحابی ہیں اور واقعہ افک میں منافقین کی طرف سے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کو بھی تہمت کا نشانہ بنایا گیا تھا)- ان کی بیوی نے ایک مرتبہ نبی کریم صل اللہ علیہ و آ له وسلم سے ان کی شکایت کی کہ صفوان صبح دیر تک سوتے ہیں اور فجر کی نماز قضاء کر دیتے ہیں - انہوں (صفوان بن معطل رضی الله عنہ) نے عذر پیش کیا کہ یہ ان کی خاندانی عادت ہے اس لئے اکثر نماز فجر قضاء ہو جاتی ہے- جس پر نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ "اے صفوان : جب بھی آنکھ کھلے نماز پڑھ لیا کر" - اس حدیث میں یہ نہیں ہے کہ فجر کی فرض نماز سورج نکلنے کے بعد ہی پڑھو- بلکہ آنکھ کھلتے ہی اٹھتے ساتھ ہی پڑھ لینی چاہیے - اس سے ثابت ہوتا ہے کہ احادیث نبوی میں سورج کے طلوع ہوتے وقت جو نماز کی ممانعت ہے وہ دیگر نوافل کی ہے - نا کہ فجر کی سنتوں یا فرائض کی- فجر کے فرائض اور سنتیں اس حکم سے مستثنیٰ ہیں- (واللہ اعلم)-
 
Last edited:

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فَصَلَّيْتُ مَعَهُ الصُّبْحَ، ثُمَّ انْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَنِي أُصَلِّي، فَقَالَ: «مَهْلًا يَا قَيْسُ، أَصَلَاتَانِ مَعًا»، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لَمْ أَكُنْ رَكَعْتُ رَكْعَتَيِ الفَجْرِ، قَالَ: «فَلَا إِذَنْ» رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم جماعت کروانے کے لیے تشریف لائے , اقامت کہی گئی , میں نے بھی آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صبح کی نماز ادا کی , پھر جب آپ فارغ ہوئے تو مجھے دیکھا کہ میں نمازپڑھنے لگا ہوں, تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے قیس! ٹھہرو! کیا دو نمازیں اکٹھی پڑھ رہے ہو؟ تو میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم میں نے فجر کی دو سنتیں ادا نہیں کی تھیں, تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر کوئی حرج نہیں ۔
صحیح بخاری کی ایک صحیح صریح مرفوع حدیث کی معارض ضعیف حدیث سے استدلال سمجھ سے بالا ہے وہ بھی ان لوگوں سے جو دوسروں کی ہر بات پر ضعیف ضعیف کہنے کے عادی ہیں۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
مزید یہ کہ نیند یا بھول کی وجہ سے اگرکوئی فرض نماز رہ جائے تو نبی کریم صل اللہ علیہ و آ له وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ: "جب بھی نیند سے بیدار ہو یا یاد آ جائے کہ فرض نماز رہ گئی ہے تو فوراً اس کو ادا کرلو
یہی اس کا کفارہ ہے
" (متفق علیہ) -
فرائض کی بات نہیں ہو رہی۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ "اے صفوان : جب بھی آنکھ کھلے نماز پڑھ لیا کر" - اس حدیث میں یہ نہیں ہے کہ فجر کی فرض نماز سورج نکلنے کے بعد ہی پڑھو- بلکہ آنکھ کھلتے ہی اٹھتے ساتھ ہی پڑھ لینی چاہیے -
یہ بھی فرض کی بابت ہے نہ کہ فجر کی فرض نماز کے بعد سنت پڑھنے کی۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
احادیث نبوی میں سورج کے طلوع ہوتے وقت جو نماز کی ممانعت ہے وہ دیگر نوافل کی ہے - نا کہ فجر کی سنتوں یا فرائض کی- فجر کے فرائض اور سنتیں اس حکم سے مستثنیٰ ہیں- (واللہ اعلم)-
محترم یہ تو ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ کے مصداق ہے کہ احادیث فرض نماز سے متعلق پیش کی گئیں اور نتیجہ سنت فجر پر منطبق کردیا۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
دو توثیق اور ھو گئ. (مجھے علم ھے کہ آپ خود توثیق کے قائل ھیں.)

آپکا اقتباس پڑھا. اگر مزید وضاحت ھو جاتی تو بہتر تھا. میرا مطلب ھے کہ عربی عبارت نقل کر کے آپ واضح کر دیں. (تکلیف دھی کے لۓ معذرت)
حدیث عبد اللہ بن نمیر:
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة قال: حدثنا عبد الله بن نمير قال: حدثنا سعد بن سعيد قال: حدثني محمد بن إبراهيم، عن قيس بن عمرو، قال: رأى النبي صلى الله عليه وسلم رجلا يصلي بعد صلاة الصبح ركعتين، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «أصلاة الصبح مرتين؟» فقال له الرجل: إني لم أكن صليت الركعتين اللتين قبلها، فصليتهما. قال: فسكت النبي صلى الله عليه وسلم
سنن ابن ماجہ 1۔365، ط: دار احیاء الکتب العربیۃ

حدثنا ابن نمير، حدثنا سعد بن سعيد، حدثني محمد بن إبراهيم التيمي، عن قيس بن عمرو، قال: رأى النبي صلى الله عليه وسلم رجلا يصلي بعد صلاة الصبح ركعتين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أصلاة الصبح مرتين؟» فقال الرجل: إني لم أكن صليت الركعتين اللتين قبلهما، فصليتهما الآن، قال: فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم
مسند احمد 39۔171، ط: الرسالۃ

حدثنا أبو بكر، نا ابن نمير، نا سعد بن سعيد، حدثني محمد بن إبراهيم، عن قيس بن عمرو، رضي الله عنه قال: رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا يصلي بعد الصبح ركعتين فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أصلاة الصبح مرتين؟» فقال الرجل: إني لم أكن صليت التي قبلها قال: فصليتها الآن، فسكت النبي صلى الله عليه وسلم "
الآحاد و المثانی 4۔176، ط: دار الرایہ

حدثنا عبد الله بن أحمد بن حنبل، حدثني أبي ح، وحدثنا عبيد بن غنام، ثنا أبو بكر بن أبي شيبة، قالا: ثنا عبد الله بن نمير، ثنا سعيد، حدثني محمد بن إبراهيم، عن قيس بن عمرو، قال: رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا يصلي بعد صلاة الصبح ركعتين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أصلاة الصبح مرتين؟» فقال الرجل: إني لم أكن صليت قبلها فصليتهما الآن، فسكت النبي صلى الله عليه وسلم
المعجم الکبیر 18۔367، ط: مکتبۃ ابن تیمیہ
ابن نمیر کی ملاقات اور روایت سعد سے ہے سعید سے نہیں۔

حدثنا عثمان بن أبي شيبة، حدثنا ابن نمير، عن سعد بن سعيد، حدثني محمد بن إبراهيم، عن قيس بن عمرو، قال: رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا يصلي بعد ركعتين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «صلاة الصبح ركعتان»، فقال الرجل: إني لم أكن صليت الركعتين اللتين قبلهما، فصليتهما الآن، فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم
سنن ابی داود 2۔22، المکتبۃ العصریۃ

حدثنا عبد الله بن محمد بن عبد العزيز , ثنا أبو بكر بن أبي شيبة , ثنا عبد الله بن نمير , ثنا سعد بن سعيد , يحدثني محمد بن إبراهيم , عن قيس بن عمرو , قال: رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا يصلي بعد صلاة الصبح ركعتين , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أصلاة الصبح مرتين؟» , فقال الرجل: إني لم أكن صليت الركعتين اللتين قبلهما فصليتهما الآن , قال: فسكت عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم. قيس هذا هو جد يحيى بن سعيد
سنن الدارقطنی 2۔228، ط: الرسالۃ

حدثنا أبو بكر قال: حدثنا ابن نمير، عن سعيد بن سعيد، قال: حدثني محمد بن إبراهيم، عن قيس بن عمر، قال: رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا يصلي بعد صلاة الصبح ركعتين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «صلاة الصبح مرتين» فقال الرجل: إني لم أكن صليت الركعتين اللتين قبلهما فصليتهما الآن، فسكت
مصنف ابن ابی شیبہ 2۔59، ط: الرشد

أنبأ أبو علي الروذباري، أنبأ أبو بكر بن داسة، ثنا أبو داود، ثنا عثمان بن أبي شيبة، ثنا عبد الله بن نمير، عن سعد بن سعيد، حدثني محمد بن إبراهيم، عن قيس بن عمرو قال: رأى النبي صلى الله عليه وسلم رجلا يصلي بعد صلاة الصبح ركعتين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " صلاة الصبح ركعتان " فقال الرجل: إني لم أكن صليت الركعتين اللتين قبلهما، فصليتهما الآن، فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم " قال أبو داود: ثنا حامد بن يحيى قال: قال سفيان كان عطاء بن أبي رباح يحدث بهذا الحديث، عن سعد بن سعيد قال أبو داود روى عبد ربه، ويحيى ابنا سعيد هذا الحديث مرسلا أن جدهم صلى مع النبي صلى الله عليه وسلم قال الشيخ: وقد روي من وجه آخر
السنن الکبری 2۔680، ط: دار الکتب العلمیۃ
وجہ آخر کا ذکر آگے آ جائے گا ان شاء اللہ

أنا الْقَاضِي أَبُو عُمَرَ الْهَاشِمِيُّ , نا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ اللُّؤْلُؤِيُّ , نا أَبُو دَاوُدَ , نا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , نا ابْنُ نُمَيْرٍ , عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ , قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ قَيْسِ بْنِ عَمْرٍو , قَالَ: رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يُصَلِّي بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ رَكْعَتَيْنِ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «صَلَاةُ الصُّبْحِ رَكْعَتَانِ» فَقَالَ الرَّجُلُ: إِنْ لَمْ أَكُنْ صَلَّيْتُ الرَّكْعَتَيْنِ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا فَصَلَّيْتُهُمَا الْآنَ , فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
الفقیہ و المتفقہ للخطیب 1۔303، ط: دار ابن الجوزی

حدیث سفیان بن عیینہ:
حدثنا بشر بن موسى، ثنا الحميدي، ح وحدثنا أحمد بن عمرو الخلال المكي، ثنا يعقوب بن حميد، ثنا سفيان بن عيينة، عن سعد بن سعيد، عن محمد بن إبراهيم، عن قيس بن سعد، قال: مر بي النبي صلى الله عليه وسلم وأنا أصلي ركعتين بعد الصبح فقال: «ما هذه الصلاة؟» فقلت: إني لم أكن صليت ركعتي الفجر فهما هاتان، فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم
المعجم الکبیر 18۔367، ط: مکتبۃ ابن تیمیہ

حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا سعد بن سعيد بن قيس الأنصاري، عن محمد بن إبراهيم بن الحارث التيمي، عن قيس جد سعد، قال: أبصرني رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنا أصلي ركعتين بعد الصبح، فقال: «ما هاتان الركعتان يا قيس؟» ، فقلت: يا رسول الله إني لم أكن صليت ركعتي الفجر فهما هاتان الركعتان، «فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم» قال سفيان: وكان عطاء بن أبي رباح، يروي هذا الحديث، عن سعد بن سعيد
مسند الحمیدی 2۔117، ط: دار السقاء

نا أبو الحسن عمر بن حفص، ثنا سفيان، عن سعد بن سعيد، عن محمد بن إبراهيم، عن قيس جد سعد، أنه صلى مع النبي صلى الله عليه وسلم الصبح، ثم قام يصلي ركعتين، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «ما هاتان الركعتان؟» فقال: يا رسول الله ركعتا الفجر لم أكن صليتهما، فهما هاتان، قال: فسكت عنه النبي صلى الله عليه وسلم
صحیح ابن خزیمہ 2۔164، ط: المکتب الاسلامی

أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، وأبو بكر، وأبو زكريا، قالوا: حدثنا أبو العباس قال: أخبرنا الربيع قال: أخبرنا الشافعي قال: أخبرنا سفيان، عن ابن قيس، عن محمد بن إبراهيم التيمي، عن جده قيس قال: رآني رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأنا أصلي ركعتين بعد الصبح، فقال: «ما هاتان الركعتان يا قيس؟»، فقلت: إني لم أكن صليت ركعتي الفجر، فسكت عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم،
ورواه الحميدي، وغيره عن سفيان عن سعد بن سعيد بن قيس الأنصاري، عن محمد بن إبراهيم التيمي، عن قيس جد سعد
معرفۃ السنن الآثار 3۔ 424، ط: جامعۃ الدراسات الاسلامیۃ

حدیث اسد بن موسی عن اللیث بن سعد:
ثنا الربيع بن سليمان المرادي، ونصر بن مرزوق بخبر غريب غريب قالا: ثنا أسد بن موسى، ثنا الليث بن سعد، حدثني يحيى بن سعيد، عن أبيه، عن جده قيس بن عمرو، أنه صلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم الصبح، ولم يكن ركع ركعتي الفجر، فلما سلم رسول الله صلى الله عليه وسلم، قام فركع ركعتي الفجر، ورسول الله صلى الله عليه وسلم ينظر إليه، فلم ينكر ذلك عليه
صحیح ابن خزیمہ 2۔164، المکتب الاسلامی

أخبرنا محمد بن إسحاق بن خزيمة، ووصيف بن عبد الله الحافظ، بأنطاكية قالا: حدثنا الربيع بن سليمان، قال: حدثنا أسد بن موسى، قال: حدثنا الليث بن سعد، قال: حدثنا يحيى بن سعيد، عن أبيه،عن جده قيس بن قهد: «أنه صلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم الصبح، ولم يكن ركع ركعتي الفجر، فلما سلم رسول الله صلى الله عليه وسلم قام يركع ركعتي الفجر، ورسول الله صلى الله عليه وسلم ينظر إليه فلم ينكر ذلك عليه».
صحیح ابن حبان 4۔429، ط: الرسالۃ

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ شَاهِينَ، نا الرَّبِيعُ، نا أَسَدُ بْنُ مُوسَى، نا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَيْسِ بْنِ قَهْدٍ أَنَّهُ «صَلَّى مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصُّبْحَ وَلَمْ يَكُنْ رَكَعَ رَكْعَتَيِ الْفَجْرَ , فَلَمَّا [ص:351] سَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ يَرْكَعُ رَكْعَتَيِ الْفَجْرَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظُرُ فَلَمْ يُنْكِرْ عَلَيْهِ»
معجم الصحابہ لابن قانع 2۔350، ط: مکتبۃ الغرباء الاثریۃ

حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب، ثنا الربيع بن سليمان، ثنا أسد بن موسى، ثنا الليث بن سعد، عن يحيى بن سعيد، عن أبيه، عن جده، أنه جاء والنبي صلى الله عليه وسلم يصلي صلاة الفجر فصلى معه، فلما سلم قام فصلى ركعتي الفجر، فقال: له النبي صلى الله عليه وسلم «ما هاتان الركعتان؟» فقال: لم أكن صليتهما قبل الفجر، فسكت ولم يقل شيئا «قيس بن فهد الأنصاري صحابي، والطريق إليه صحيح على شرطهما» وقد رواه محمد بن إبراهيم التيمي، عن قيس بن فهد
المستدرک 1۔409، ط: العلمیۃ

مندرجہ بالا روایات میں آپ واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں عبد اللہ بن نمیر اور سفیان بن عیینہ یہ روایت سعد بن سعید سے روایت کرتے ہیں جبکہ اسد بن موسی یحیی بن سعید سے۔ نیز سعد بن سعید محمد بن ابراہیم سے روایت کرتے ہیں اور وہ قیس رض سے۔ لیکن اسد بن موسی کی روایت میں یحیی بن سعید اپنے والد سعید سے اور وہ قیس رض سے روایت کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسد بن موسی اس روایت کی سند میں ابن نمیر اور سفیان بن عیینہ دونوں کی مخالفت کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ یحیی بن سعید اور عبد ربہ بن سعید سے یہ روای موقوفا مروی ہے جیسا کہ اس کی طرف ابو داؤدؒ نے اس حدیث کے فورا بعد اشارہ کیا ہے۔ لیکن اسد بن موسی نے باقاعدہ سند روایت کی ہے۔
نیز امام ترمذیؒ فرماتے ہیں:
حدثنا محمد بن عمرو السواق، قال: حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن سعد بن سعيد، عن محمد بن إبراهيم، عن جده قيس [ص:285] قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأقيمت الصلاة، فصليت معه الصبح، ثم انصرف النبي صلى الله عليه وسلم فوجدني أصلي، فقال: «مهلا يا قيس، أصلاتان معا»، قلت: يا رسول الله، إني لم أكن ركعت ركعتي الفجر، قال: «فلا إذن»،: «حديث محمد بن إبراهيم لا نعرفه مثل هذا إلا من حديث سعد بن سعيد»، وقال سفيان بن عيينة: «سمع عطاء بن أبي رباح، من سعد بن سعيد هذا الحديث»، «وإنما يروى هذا الحديث مرسلا»، «وقد قال قوم من أهل مكة بهذا الحديث، لم يروا بأسا أن يصلي الرجل الركعتين بعد المكتوبة قبل أن تطلع الشمس»: " وسعد بن سعيد هو أخو يحيى بن سعيد الأنصاري، وقيس هو جد يحيى بن سعيد الأنصاري، ويقال: هو قيس بن عمرو، ويقال: ابن قهد، [ص:286] وإسناد هذا الحديث ليس بمتصل محمد بن إبراهيم التيمي لم يسمع من قيس «، وروى بعضهم هذا الحديث عن سعد بن سعيد، عن محمد بن إبراهيم، أن النبي صلى الله عليه وسلم خرج فرأى قيسا» وهذا أصح من حديث عبد العزيز، عن سعد بن سعيد "
یہی بات سنن کبری کے حوالے میں مذکور ہے کہ عطاء بن ابی رباح نے یہ حدیث سعد بن سعید سے سنی ہے۔ یعنی یہ تیسرے وہ فرد ہو گئے جن کی اسد بن موسی نے مخالفت کی ہے۔ اس لیے یہ روایت اسد بن موسی کی مناکیر میں شامل ہے۔
یہ میری اپنی تحقیق اور رائے تھی۔ لیکن کتابوں کا تتبع کیا تو اس پر تائید بھی مل گئی۔ امام طحاویؒ فرماتے ہیں:
حدثنا الربيع المرادي، حدثنا أسد بن موسى، حدثنا الليث بن سعد، حدثني يحيى بن سعيد، عن أبيه، عن جده قيس بن قهد: " أنه صلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم الصبح ولم يكن صلى ركعتي الفجر، فلما سلم رسول الله صلى الله عليه وسلم سلم معه، ثم قال: فركع ركعتي الفجر ورسول الله عليه السلام ينظر إليه، فلم ينكر ذلك عليه " قال أبو جعفر: فكان هذا الحديث مما ينكره أهل العلم بالحديث على أسد بن موسى، منهم إبراهيم بن أبي داود، فسمعته يقول: رأيت هذا الحديث في أصل الكتب موقوفا على يحيى بن سعيد
شرح مشکل الآثار 10۔324، ط: الرسالۃ

حافظ ابن حجرؒ نے ابن مندہؒ سے نقل کیا ہے:
وأخرجه ابن مندة من طريق أسد بن موسى، عن الليث، عن يحيى، عن أبيه، عن جده. وقال: غريب تفرد به أسد موصولا، وقال غيره- عن الليث، عن يحيى: إن حديثه مرسل. واللَّه أعلم.
الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ 5۔373، ط: العلمیۃ
فللہ الحمد۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
جناب میں یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ صحابہ کے افعال باہم متعارض ھوں اور ایک جماعت کا فعل حدیث کے موافق جبکہ دوسرے کا مخالف ھو تو ایسی صورت میں کیا کیا جاۓ گا؟؟؟
اگر فعل نادر ہے تو یہ سمجھا جائے گا کہ ان تک حدیث نہیں پہنچی ہوگی۔ اور اگر فعل غیر نادر ہے تو غور کیا جائے گا کہ ان کا یہ عمل ایسا کیوں تھا؟ اس کا واضح مطلب ہوگا کہ ان کے نزدیک حدیث کا وہ معنی نہیں تھا جو ہم سمجھ رہے ہیں۔ اس صورت میں حدیث کی ایسی تشریح کی جائے گی جو فریقین میں سے ہر ایک کے مطابق ہو تاکہ کوئی ایک بھی مخالف حدیث نہ ٹھہرے۔ واللہ اعلم
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اسں سے مراد نفل نمازیں ہیں -

ایک اور تھریڈ میں بھی حدیث نمبر جامع الترمذي: 422
بیان ہو چکی ہے کہ :

خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فَصَلَّيْتُ مَعَهُ الصُّبْحَ، ثُمَّ انْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَنِي أُصَلِّي، فَقَالَ: «مَهْلًا يَا قَيْسُ، أَصَلَاتَانِ مَعًا»، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لَمْ أَكُنْ رَكَعْتُ رَكْعَتَيِ الفَجْرِ، قَالَ: «فَلَا إِذَنْ» رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم جماعت کروانے کے لیے تشریف لائے , اقامت کہی گئی , میں نے بھی آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صبح کی نماز ادا کی , پھر جب آپ فارغ ہوئے تو مجھے دیکھا کہ میں نمازپڑھنے لگا ہوں, تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے قیس! ٹھہرو! کیا دو نمازیں اکٹھی پڑھ رہے ہو؟ تو میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم میں نے فجر کی دو سنتیں ادا نہیں کی تھیں, تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر کوئی حرج نہیں ۔
یہ حدیث ضعیف ہے۔ خود امام ترمذیؒ نے اس پر جرح کی ہے۔ اسی تھریڈ میں پیچھے بیان ہو چکی ہے۔

مزید یہ کہ نیند یا بھول کی وجہ سے اگرکوئی فرض نماز رہ جائے تو نبی کریم صل اللہ علیہ و آ له وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ: "جب بھی نیند سے بیدار ہو یا یاد آ جائے کہ فرض نماز رہ گئی ہے تو فوراً اس کو ادا کرلو
یہی اس کا کفارہ ہے
" (متفق علیہ) -

اس کا فجر کی سنتوں سے کیا تعلق ہے؟

ابو داؤد میں ایک صحیح روایت ہے کہ ایک صحابی رسول حضرت صفوان بن معطل زکوانی رضی الله عنہ (یہ بدری صحابی ہیں اور واقعہ افک میں منافقین کی طرف سے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کو بھی تہمت کا نشانہ بنایا گیا تھا)- ان کی بیوی نے ایک مرتبہ نبی کریم صل اللہ علیہ و آ له وسلم سے ان کی شکایت کی کہ صفوان صبح دیر تک سوتے ہیں اور فجر کی نماز قضاء کر دیتے ہیں - انہوں (صفوان بن معطل رضی الله عنہ) نے عذر پیش کیا کہ یہ ان کی خاندانی عادت ہے اس لئے اکثر نماز فجر قضاء ہو جاتی ہے- جس پر نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ "اے صفوان : جب بھی آنکھ کھلے نماز پڑھ لیا کر" - اس حدیث میں یہ نہیں ہے کہ فجر کی فرض نماز سورج نکلنے کے بعد ہی پڑھو- بلکہ آنکھ کھلتے ہی اٹھتے ساتھ ہی پڑھ لینی چاہیے - اس سے ثابت ہوتا ہے کہ احادیث نبوی میں سورج کے طلوع ہوتے وقت جو نماز کی ممانعت ہے وہ دیگر نوافل کی ہے - نا کہ فجر کی سنتوں یا فرائض کی- فجر کے فرائض اور سنتیں اس حکم سے مستثنیٰ ہیں- (واللہ اعلم)-
ایک تو اس حدیث کا سنتوں سے کیا تعلق ہے؟
دوسرا اس کی عربی روایت مکمل نقل فرمائیے۔ مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے اس روایت میں یہ بھی تھا کہ سورج طلوع ہو جاتا ہے۔ نیز یہ ان کی خاندانی عادت نہیں تھی بلکہ یہ سقی کا کام کرتے تھے اور رات بھر کام کی وجہ سے جب سوتے تھے تو اٹھ نہیں سکتے تھے۔
اور یاد رہے کہ سورج نکلنے سے پہلے فرض نماز پڑھنے میں یا فرائض سے پہلے سنن پڑھنے سے کسی کو انکار نہیں ہے۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
یہ حدیث ضعیف ہے۔ خود امام ترمذیؒ نے اس پر جرح کی ہے۔ اسی تھریڈ میں پیچھے بیان ہو چکی ہے۔

اس کا فجر کی سنتوں سے کیا تعلق ہے؟


ایک تو اس حدیث کا سنتوں سے کیا تعلق ہے؟
دوسرا اس کی عربی روایت مکمل نقل فرمائیے۔ مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے اس روایت میں یہ بھی تھا کہ سورج طلوع ہو جاتا ہے۔ نیز یہ ان کی خاندانی عادت نہیں تھی بلکہ یہ سقی کا کام کرتے تھے اور رات بھر کام کی وجہ سے جب سوتے تھے تو اٹھ نہیں سکتے تھے۔
اور یاد رہے کہ سورج نکلنے سے پہلے فرض نماز پڑھنے میں یا فرائض سے پہلے سنن پڑھنے سے کسی کو انکار نہیں ہے۔
جامع ترمذی کی حدیث کی تخریج یہاں اس لنک میں موجود ہے - یہ حدیث صحیح ہے-

http://mohaddis.com/View/Tarimdhi/422

اگر ضعیف ہے تو ان محدثین کے نام بتائیں جنہوں نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے؟؟-

ترمذی کی روایت سے متعلق مزید تفصیل محترم @اسحاق سلفی صاحب نے اپنے مراسلے نمبر 40 میں بیان کردی ہے - لنک یہاں موجود ہے - آپ دیکھ سکتے ہیں-

http://forum.mohaddis.com/threads/سنت-فجر-کی-قضا-نماز-فجر-کے-بعد.13452/page-4

فجر کے فرض اورسنتوں کی اہمیت میں تھوڑا فرق ہے - نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی جب فجر کی نماز قضاء ہوئی تو آپ نے فرض کے ساتھ سنتیں بھی ادا کیں - لہذا طلوع آفتاب کے وقت ممانعت اگر فجر کی سنتوں کی ہے تو فرض کی بھی ہونی چاہیے -

حدیث صفوان بن معطل رضی الله عنہ کا عربی متن یہاں موجود ہے -

[2459-
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: جَائَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ وَنَحْنُ عِنْدَهُ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ زَوْجِي صَفْوَانَ بْنَ الْمُعَطَّلِ يَضْرِبُنِي إِذَا صَلَّيْتُ وَيُفَطِّرُنِي إِذَا صُمْتُ، وَلا يُصَلِّي صَلاةَ الْفَجْرِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، قَالَ: وَصَفْوَانُ عِنْدَهُ، قَالَ: فَسَأَلَهُ عَمَّا قَالَتْ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَمَّا قَوْلُهَا يَضْرِبُنِي إِذَا صَلَّيْتُ فَإِنَّهَا تَقْرَأُ بِسُورَتَيْنِ وَقَدْ نَهَيْتُهَا، قَالَ: فَقَالَ: < لَوْ كَانَتْ سُورَةً وَاحِدَةً لَكَفَتِ النَّاسَ >، وَأَمَّا قَوْلُهَا يُفَطِّرُنِي فَإِنَّهَا تَنْطَلِقُ فَتَصُومُ وَأَنَا رَجُلٌ شَابٌّ فَلا أَصْبِرُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَوْمَئِذٍ: < لا تَصُومُ امْرَأَةٌ إِلا بِإِذْنِ زَوْجِهَا >، وَأَمَّا قَوْلُهَا إِنِّي لا أُصَلِّي حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَإِنَّا أَهْلُ بَيْتٍ قَدْ عُرِفَ لَنَا ذَاكَ، لا نَكَادُ نَسْتَيْقِظُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، قَالَ: < فَإِذَا اسْتَيْقَظْتَ فَصَلِّ >.
قَالَ أَبو دَاود: رَوَاهُ حَمَّادٌ -يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ- عَنْ حُمَيْدٍ أَوْ ثَابِتٍ عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ۔


تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۴۰۱۲)، وقد أخرجہ: ق/الصیام ۵۳ (۱۷۶۲)، حم (۳/۸۰، ۸۴)، دي/الصوم ۲۰ (۱۷۶۰) (صحیح)

ترجمہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی ، ہم آپ کے پاس تھے، کہنے لگی: اللہ کے رسول! میرے شوہر صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ جب صلاۃ پڑھتی ہوں تو مجھے مارتے ہیں، اور صیام رکھتی ہوں تو صیام توڑوا دیتے ہیں، اور فجر سورج نکلنے سے پہلے نہیں پڑھتے۔
صفوان اس وقت آپ ﷺ کے پاس موجود تھے، تو آپ ﷺ نے ان سے ان باتوں کے متعلق پوچھا جو ان کی بیوی نے بیان کیا تو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! اس کا یہ الزام کہ صلاۃ پڑھنے پر میں اسے مارتا ہوں تو بات یہ ہے کہ یہ دو دو سورتیں پڑھتی ہے جب کہ میں نے اسے (دو دو سورتیں پڑھنے سے) منع کر رکھا ہے ،آپ ﷺ نے فرمایا:'' لوگ اگر ایک ہی سورت پڑھ لیں تب بھی کافی ہے'' ۔
صفوان نے پھر کہا کہ اور اس کا یہ کہنا کہ میں اس سے صیام افطار کرا دیتا ہوں تو یہ صیام رکھتی چلی جاتی ہے ، میں جوان آدمی ہوں صبر نہیں کر پاتا، تو رسول اللہ ﷺ نے اس دن فرمایا: '' کوئی عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر ( نفل صیام) نہ رکھے''۔
رہی اس کی یہ بات کہ میں سورج نکلنے سے پہلے صلاۃ نہیں پڑھتا تو ہم اس گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں جس کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ سورج نکلنے سے پہلے ہم اٹھ ہی نہیں پاتے، آپ ﷺ نے فرمایا:'' جب بھی جاگو صلاۃ پڑھ لیا کرو''

اس حدیث میں صفوان بن معطل رضی الله عنہ کا دیر سے اٹھنا ان کی خاندانی عادت بیان کیا گیا ہے - یہ صحیح نہیں کہ " ان کا سقی کا کام تھا اور رات بھر کام کی وجہ سے جب سوتے تھے تو اٹھ نہیں سکتے تھے"- بہر حال نبی کریم صل اللہ علیہ و آ له وسلم کا یہ فرمان کہ : "جب بھی جاگو صلاۃ پڑھ لیا کرو" یعنی فجر کی فرض اور سنتیں دونوں- اس حدیث میں وقت کی قید نہیں لگائی گئی - تو پھر قضاء سنتوں کے لئے بعد طلوع شمس کی قید کیوں؟؟
 
Last edited:

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
حدیث عبد اللہ بن نمیر:
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة قال: حدثنا عبد الله بن نمير قال: حدثنا سعد بن سعيد قال: حدثني محمد بن إبراهيم، عن قيس بن عمرو، قال: رأى النبي صلى الله عليه وسلم رجلا يصلي بعد صلاة الصبح ركعتين، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «أصلاة الصبح مرتين؟» فقال له الرجل: إني لم أكن صليت الركعتين اللتين قبلها، فصليتهما. قال: فسكت النبي صلى الله عليه وسلم
سنن ابن ماجہ 1۔365، ط: دار احیاء الکتب العربیۃ

حدثنا ابن نمير، حدثنا سعد بن سعيد، حدثني محمد بن إبراهيم التيمي، عن قيس بن عمرو، قال: رأى النبي صلى الله عليه وسلم رجلا يصلي بعد صلاة الصبح ركعتين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أصلاة الصبح مرتين؟» فقال الرجل: إني لم أكن صليت الركعتين اللتين قبلهما، فصليتهما الآن، قال: فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم
مسند احمد 39۔171، ط: الرسالۃ

حدثنا أبو بكر، نا ابن نمير، نا سعد بن سعيد، حدثني محمد بن إبراهيم، عن قيس بن عمرو، رضي الله عنه قال: رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا يصلي بعد الصبح ركعتين فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أصلاة الصبح مرتين؟» فقال الرجل: إني لم أكن صليت التي قبلها قال: فصليتها الآن، فسكت النبي صلى الله عليه وسلم "
الآحاد و المثانی 4۔176، ط: دار الرایہ

حدثنا عبد الله بن أحمد بن حنبل، حدثني أبي ح، وحدثنا عبيد بن غنام، ثنا أبو بكر بن أبي شيبة، قالا: ثنا عبد الله بن نمير، ثنا سعيد، حدثني محمد بن إبراهيم، عن قيس بن عمرو، قال: رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا يصلي بعد صلاة الصبح ركعتين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أصلاة الصبح مرتين؟» فقال الرجل: إني لم أكن صليت قبلها فصليتهما الآن، فسكت النبي صلى الله عليه وسلم
المعجم الکبیر 18۔367، ط: مکتبۃ ابن تیمیہ
ابن نمیر کی ملاقات اور روایت سعد سے ہے سعید سے نہیں۔

حدثنا عثمان بن أبي شيبة، حدثنا ابن نمير، عن سعد بن سعيد، حدثني محمد بن إبراهيم، عن قيس بن عمرو، قال: رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا يصلي بعد ركعتين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «صلاة الصبح ركعتان»، فقال الرجل: إني لم أكن صليت الركعتين اللتين قبلهما، فصليتهما الآن، فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم
سنن ابی داود 2۔22، المکتبۃ العصریۃ

حدثنا عبد الله بن محمد بن عبد العزيز , ثنا أبو بكر بن أبي شيبة , ثنا عبد الله بن نمير , ثنا سعد بن سعيد , يحدثني محمد بن إبراهيم , عن قيس بن عمرو , قال: رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا يصلي بعد صلاة الصبح ركعتين , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أصلاة الصبح مرتين؟» , فقال الرجل: إني لم أكن صليت الركعتين اللتين قبلهما فصليتهما الآن , قال: فسكت عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم. قيس هذا هو جد يحيى بن سعيد
سنن الدارقطنی 2۔228، ط: الرسالۃ

حدثنا أبو بكر قال: حدثنا ابن نمير، عن سعيد بن سعيد، قال: حدثني محمد بن إبراهيم، عن قيس بن عمر، قال: رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا يصلي بعد صلاة الصبح ركعتين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «صلاة الصبح مرتين» فقال الرجل: إني لم أكن صليت الركعتين اللتين قبلهما فصليتهما الآن، فسكت
مصنف ابن ابی شیبہ 2۔59، ط: الرشد

أنبأ أبو علي الروذباري، أنبأ أبو بكر بن داسة، ثنا أبو داود، ثنا عثمان بن أبي شيبة، ثنا عبد الله بن نمير، عن سعد بن سعيد، حدثني محمد بن إبراهيم، عن قيس بن عمرو قال: رأى النبي صلى الله عليه وسلم رجلا يصلي بعد صلاة الصبح ركعتين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " صلاة الصبح ركعتان " فقال الرجل: إني لم أكن صليت الركعتين اللتين قبلهما، فصليتهما الآن، فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم " قال أبو داود: ثنا حامد بن يحيى قال: قال سفيان كان عطاء بن أبي رباح يحدث بهذا الحديث، عن سعد بن سعيد قال أبو داود روى عبد ربه، ويحيى ابنا سعيد هذا الحديث مرسلا أن جدهم صلى مع النبي صلى الله عليه وسلم قال الشيخ: وقد روي من وجه آخر
السنن الکبری 2۔680، ط: دار الکتب العلمیۃ
وجہ آخر کا ذکر آگے آ جائے گا ان شاء اللہ

أنا الْقَاضِي أَبُو عُمَرَ الْهَاشِمِيُّ , نا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ اللُّؤْلُؤِيُّ , نا أَبُو دَاوُدَ , نا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , نا ابْنُ نُمَيْرٍ , عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ , قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ قَيْسِ بْنِ عَمْرٍو , قَالَ: رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يُصَلِّي بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ رَكْعَتَيْنِ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «صَلَاةُ الصُّبْحِ رَكْعَتَانِ» فَقَالَ الرَّجُلُ: إِنْ لَمْ أَكُنْ صَلَّيْتُ الرَّكْعَتَيْنِ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا فَصَلَّيْتُهُمَا الْآنَ , فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
الفقیہ و المتفقہ للخطیب 1۔303، ط: دار ابن الجوزی

حدیث سفیان بن عیینہ:
حدثنا بشر بن موسى، ثنا الحميدي، ح وحدثنا أحمد بن عمرو الخلال المكي، ثنا يعقوب بن حميد، ثنا سفيان بن عيينة، عن سعد بن سعيد، عن محمد بن إبراهيم، عن قيس بن سعد، قال: مر بي النبي صلى الله عليه وسلم وأنا أصلي ركعتين بعد الصبح فقال: «ما هذه الصلاة؟» فقلت: إني لم أكن صليت ركعتي الفجر فهما هاتان، فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم
المعجم الکبیر 18۔367، ط: مکتبۃ ابن تیمیہ

حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا سعد بن سعيد بن قيس الأنصاري، عن محمد بن إبراهيم بن الحارث التيمي، عن قيس جد سعد، قال: أبصرني رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنا أصلي ركعتين بعد الصبح، فقال: «ما هاتان الركعتان يا قيس؟» ، فقلت: يا رسول الله إني لم أكن صليت ركعتي الفجر فهما هاتان الركعتان، «فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم» قال سفيان: وكان عطاء بن أبي رباح، يروي هذا الحديث، عن سعد بن سعيد
مسند الحمیدی 2۔117، ط: دار السقاء

نا أبو الحسن عمر بن حفص، ثنا سفيان، عن سعد بن سعيد، عن محمد بن إبراهيم، عن قيس جد سعد، أنه صلى مع النبي صلى الله عليه وسلم الصبح، ثم قام يصلي ركعتين، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «ما هاتان الركعتان؟» فقال: يا رسول الله ركعتا الفجر لم أكن صليتهما، فهما هاتان، قال: فسكت عنه النبي صلى الله عليه وسلم
صحیح ابن خزیمہ 2۔164، ط: المکتب الاسلامی

أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، وأبو بكر، وأبو زكريا، قالوا: حدثنا أبو العباس قال: أخبرنا الربيع قال: أخبرنا الشافعي قال: أخبرنا سفيان، عن ابن قيس، عن محمد بن إبراهيم التيمي، عن جده قيس قال: رآني رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأنا أصلي ركعتين بعد الصبح، فقال: «ما هاتان الركعتان يا قيس؟»، فقلت: إني لم أكن صليت ركعتي الفجر، فسكت عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم،
ورواه الحميدي، وغيره عن سفيان عن سعد بن سعيد بن قيس الأنصاري، عن محمد بن إبراهيم التيمي، عن قيس جد سعد
معرفۃ السنن الآثار 3۔ 424، ط: جامعۃ الدراسات الاسلامیۃ

حدیث اسد بن موسی عن اللیث بن سعد:
ثنا الربيع بن سليمان المرادي، ونصر بن مرزوق بخبر غريب غريب قالا: ثنا أسد بن موسى، ثنا الليث بن سعد، حدثني يحيى بن سعيد، عن أبيه، عن جده قيس بن عمرو، أنه صلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم الصبح، ولم يكن ركع ركعتي الفجر، فلما سلم رسول الله صلى الله عليه وسلم، قام فركع ركعتي الفجر، ورسول الله صلى الله عليه وسلم ينظر إليه، فلم ينكر ذلك عليه
صحیح ابن خزیمہ 2۔164، المکتب الاسلامی

أخبرنا محمد بن إسحاق بن خزيمة، ووصيف بن عبد الله الحافظ، بأنطاكية قالا: حدثنا الربيع بن سليمان، قال: حدثنا أسد بن موسى، قال: حدثنا الليث بن سعد، قال: حدثنا يحيى بن سعيد، عن أبيه،عن جده قيس بن قهد: «أنه صلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم الصبح، ولم يكن ركع ركعتي الفجر، فلما سلم رسول الله صلى الله عليه وسلم قام يركع ركعتي الفجر، ورسول الله صلى الله عليه وسلم ينظر إليه فلم ينكر ذلك عليه».
صحیح ابن حبان 4۔429، ط: الرسالۃ

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ شَاهِينَ، نا الرَّبِيعُ، نا أَسَدُ بْنُ مُوسَى، نا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَيْسِ بْنِ قَهْدٍ أَنَّهُ «صَلَّى مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصُّبْحَ وَلَمْ يَكُنْ رَكَعَ رَكْعَتَيِ الْفَجْرَ , فَلَمَّا [ص:351] سَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ يَرْكَعُ رَكْعَتَيِ الْفَجْرَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظُرُ فَلَمْ يُنْكِرْ عَلَيْهِ»
معجم الصحابہ لابن قانع 2۔350، ط: مکتبۃ الغرباء الاثریۃ

حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب، ثنا الربيع بن سليمان، ثنا أسد بن موسى، ثنا الليث بن سعد، عن يحيى بن سعيد، عن أبيه، عن جده، أنه جاء والنبي صلى الله عليه وسلم يصلي صلاة الفجر فصلى معه، فلما سلم قام فصلى ركعتي الفجر، فقال: له النبي صلى الله عليه وسلم «ما هاتان الركعتان؟» فقال: لم أكن صليتهما قبل الفجر، فسكت ولم يقل شيئا «قيس بن فهد الأنصاري صحابي، والطريق إليه صحيح على شرطهما» وقد رواه محمد بن إبراهيم التيمي، عن قيس بن فهد
المستدرک 1۔409، ط: العلمیۃ

مندرجہ بالا روایات میں آپ واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں عبد اللہ بن نمیر اور سفیان بن عیینہ یہ روایت سعد بن سعید سے روایت کرتے ہیں جبکہ اسد بن موسی یحیی بن سعید سے۔ نیز سعد بن سعید محمد بن ابراہیم سے روایت کرتے ہیں اور وہ قیس رض سے۔ لیکن اسد بن موسی کی روایت میں یحیی بن سعید اپنے والد سعید سے اور وہ قیس رض سے روایت کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسد بن موسی اس روایت کی سند میں ابن نمیر اور سفیان بن عیینہ دونوں کی مخالفت کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ یحیی بن سعید اور عبد ربہ بن سعید سے یہ روای موقوفا مروی ہے جیسا کہ اس کی طرف ابو داؤدؒ نے اس حدیث کے فورا بعد اشارہ کیا ہے۔ لیکن اسد بن موسی نے باقاعدہ سند روایت کی ہے۔
نیز امام ترمذیؒ فرماتے ہیں:
حدثنا محمد بن عمرو السواق، قال: حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن سعد بن سعيد، عن محمد بن إبراهيم، عن جده قيس [ص:285] قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأقيمت الصلاة، فصليت معه الصبح، ثم انصرف النبي صلى الله عليه وسلم فوجدني أصلي، فقال: «مهلا يا قيس، أصلاتان معا»، قلت: يا رسول الله، إني لم أكن ركعت ركعتي الفجر، قال: «فلا إذن»،: «حديث محمد بن إبراهيم لا نعرفه مثل هذا إلا من حديث سعد بن سعيد»، وقال سفيان بن عيينة: «سمع عطاء بن أبي رباح، من سعد بن سعيد هذا الحديث»، «وإنما يروى هذا الحديث مرسلا»، «وقد قال قوم من أهل مكة بهذا الحديث، لم يروا بأسا أن يصلي الرجل الركعتين بعد المكتوبة قبل أن تطلع الشمس»: " وسعد بن سعيد هو أخو يحيى بن سعيد الأنصاري، وقيس هو جد يحيى بن سعيد الأنصاري، ويقال: هو قيس بن عمرو، ويقال: ابن قهد، [ص:286] وإسناد هذا الحديث ليس بمتصل محمد بن إبراهيم التيمي لم يسمع من قيس «، وروى بعضهم هذا الحديث عن سعد بن سعيد، عن محمد بن إبراهيم، أن النبي صلى الله عليه وسلم خرج فرأى قيسا» وهذا أصح من حديث عبد العزيز، عن سعد بن سعيد "
یہی بات سنن کبری کے حوالے میں مذکور ہے کہ عطاء بن ابی رباح نے یہ حدیث سعد بن سعید سے سنی ہے۔ یعنی یہ تیسرے وہ فرد ہو گئے جن کی اسد بن موسی نے مخالفت کی ہے۔ اس لیے یہ روایت اسد بن موسی کی مناکیر میں شامل ہے۔
یہ میری اپنی تحقیق اور رائے تھی۔ لیکن کتابوں کا تتبع کیا تو اس پر تائید بھی مل گئی۔ امام طحاویؒ فرماتے ہیں:
حدثنا الربيع المرادي، حدثنا أسد بن موسى، حدثنا الليث بن سعد، حدثني يحيى بن سعيد، عن أبيه، عن جده قيس بن قهد: " أنه صلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم الصبح ولم يكن صلى ركعتي الفجر، فلما سلم رسول الله صلى الله عليه وسلم سلم معه، ثم قال: فركع ركعتي الفجر ورسول الله عليه السلام ينظر إليه، فلم ينكر ذلك عليه " قال أبو جعفر: فكان هذا الحديث مما ينكره أهل العلم بالحديث على أسد بن موسى، منهم إبراهيم بن أبي داود، فسمعته يقول: رأيت هذا الحديث في أصل الكتب موقوفا على يحيى بن سعيد
شرح مشکل الآثار 10۔324، ط: الرسالۃ

حافظ ابن حجرؒ نے ابن مندہؒ سے نقل کیا ہے:
وأخرجه ابن مندة من طريق أسد بن موسى، عن الليث، عن يحيى، عن أبيه، عن جده. وقال: غريب تفرد به أسد موصولا، وقال غيره- عن الليث، عن يحيى: إن حديثه مرسل. واللَّه أعلم.
الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ 5۔373، ط: العلمیۃ
فللہ الحمد۔
محترم جناب اشماریہ صاحب!
معذرت چاہتا ھوں. میں اس سلسلے میں زیادہ علم نہیں رکھتا. محترم رضا میاں صاحب نے دوسرے والے تھریڈ میں کچھ جواب دیا ھے شاید آپ کے لۓ مفید ھو.
تکلیف کے لۓ معذرت چاہتا ھوں.
کم علم ھونے کے باوجود آپ کو پریشان کیا (بظنی) اسکے لۓ تہ دل سے معافی چاہتا ھوں. (شاید مجھے مزید پڑھنے کی ضرورت ھے. ابھی فی الحال امتحان کی تیاریوں میں مصروف ھوں. اسکے بعد ان شاء اللہ عربی پر جم کر محنت کروں گا. کیونکہ کسی خیر خواہ نے مجھے مشورہ دیا ھے کہ علوم الحدیث میں عربی بہت مضبوط ھونی چاہۓ. عربی مضبوط کرنے کے بعد ان شاء اللہ علوم الحدیث پر دھیان دوں گا. کیونکہ مجھے حدیث اور علوم الحدیث سے حد درجہ محبت ھے)
امید ھیکہ درگذر فرمائیں گے.
اللہ ھمیں عمل کی توفیق عطا فرماۓ.
جزاک اللہ خیرا
 
Top