عبدالرحمن بھٹی
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 13، 2015
- پیغامات
- 2,435
- ری ایکشن اسکور
- 293
- پوائنٹ
- 165
آپ کے ذمہ یہی کام ہے اس فورم میں۔ ۔۔ ابتسامہ!دادا گیری!!!
آپ کے ذمہ یہی کام ہے اس فورم میں۔ ۔۔ ابتسامہ!دادا گیری!!!
محترم جناب @اشماریہ صاحب.امام حاكم رحمه الله (المتوفى405)نے کہا:
حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ ، ثنا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، ثنا أَسَدُ بْنُ مُوسَى ، ثنا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنَّهُ جَاءَ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي صَلَاةَ الْفَجْرِ فَصَلَّى مَعَهُ ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ ، فَقَالَ: لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " مَا هَاتَانِ الرَّكْعَتَانِ ؟ " فَقَالَ: لَمْ أَكُنْ صَلَّيْتُهُمَا قَبْلَ الْفَجْرِ ، فَسَكَتَ وَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا " " قَيْسُ بْنُ فَهْدٍ الْأَنْصَارِيُّ صَحَابِيٌّ ، وَالطَّرِيقُ إِلَيْهِ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِهِمَا " وَقَدْ رَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ فَهْدٍ [المستدرك على الصحيحين للحاكم 1/ 399 رقم 1019]۔
أسد بن موسى بن إبراهيم المرواني الأموي، يقال له: أسد السنة. في (تاريخ بغداد) (13 / 383) من طريق ((الربيع بن سليمان يقول: سمعت أسد بن موسى، قال....)) قال الأستاذ ص 65 ((منكر الحديث عند ابن حزم)) أقول قد قال البخاري: ((مشهور الحديث)) وهذا بحسب الظاهر يبطل قول ابن حزم، لكن يجمع بينهما قول ابن يونس ((حدث بأحاديث منكرة وأحسب الآفة من غيره)) وقول النسائي ((ثقة ولو لم يصنف كان خيراً له)) وذلك أنه لما صنف احتاج إلى الرواية عن الضعفاء فجاءت في ذلك مناكير، فحمل ابن حزم على أسد، ورأى ابن يونس أن أحاديثه عن الثقات معروفة، وحقق البخاري فقال ((حديثه مشهور)) يريد والله أعلم مشهور عمن روى عنهم فما كان فيه من إنكار فمن قبله، وقد قال ابن يونس أيضاً والبزار وابن قانع حافظ الحنفية: ثقة، وقال العجلي: ثقة صاحب سنة. وفي (الميزان): ((استشهد به البخاري، واحتج به النسائي وأبو داود وما علمت به باياً)).اس کے آگے معلمیؒ یہ تفصیل بیان کرتے ہیں: وذلك أنه لما صنف احتاج إلى الرواية عن الضعفاء فجاءت في ذلك مناكير، فحمل ابن حزم على أسد، ورأى ابن يونس أن أحاديثه عن الثقات معروفة، وحقق البخاري فقال «حديثه مشهور» يريد والله أعلم مشهور عمن روى عنهم فما كان فيه من إنكار فمن قبله
اسد بن موسی کے بارے میں مزید آپ تقریب التهذيب لابن حجر میں دراسۃ میں دیکھیں جو کہ شاید محمد عوامة کی ھے. واللہ اعلم. صفحہ نمبر 36 میں دیکھیں.اس میں راوی ہیں اسد بن موسی جن کی تحقیق کا آپ نے لنک بھی دیا ہے۔ یہ بلاشبہ ثقہ ہیں۔ لیکن ان میں ایک چھوٹا سا مسئلہ ہے کہ یہ منکر احادیث بھی روایت کرتے ہیں۔
جزاک اللہ عمر بھائی۔محترم جناب @اشماریہ صاحب.
اس حدیث کے سلسلے میں بھی وضاحت کر دیں.
اسکی تحقیق میں نے جہاں سے اقتباس لیا ھے وھاں سے دیکھی جا سکتی ھے.
قابل صد احترام عمر بھائیأسد بن موسى بن إبراهيم المرواني الأموي، يقال له: أسد السنة. في (تاريخ بغداد) (13 / 383) من طريق ((الربيع بن سليمان يقول: سمعت أسد بن موسى، قال....)) قال الأستاذ ص 65 ((منكر الحديث عند ابن حزم)) أقول قد قال البخاري: ((مشهور الحديث)) وهذا بحسب الظاهر يبطل قول ابن حزم، لكن يجمع بينهما قول ابن يونس ((حدث بأحاديث منكرة وأحسب الآفة من غيره)) وقول النسائي ((ثقة ولو لم يصنف كان خيراً له)) وذلك أنه لما صنف احتاج إلى الرواية عن الضعفاء فجاءت في ذلك مناكير، فحمل ابن حزم على أسد، ورأى ابن يونس أن أحاديثه عن الثقات معروفة، وحقق البخاري فقال ((حديثه مشهور)) يريد والله أعلم مشهور عمن روى عنهم فما كان فيه من إنكار فمن قبله، وقد قال ابن يونس أيضاً والبزار وابن قانع حافظ الحنفية: ثقة، وقال العجلي: ثقة صاحب سنة. وفي (الميزان): ((استشهد به البخاري، واحتج به النسائي وأبو داود وما علمت به باياً)).
وقد أساء الأستاذ إلى نفسه جداً إذ يقتصر على كلمة ابن حزم في صدد الطعن، مع علمه بحقيقة الحال ولكن !
(
التنكيل
بما في تأنيب الكوثري من الأباطيل
الجزء الأول
تأليف
العلامة الشيخ عبد الرحمن بن يحيى المعلمي العتمي اليماني
رحمه الله تعالى
1313 – 1386): قام على طبعه وتحقيقه والتعليق عليه
محمد ناصر الألباني
طبع
على نفقة الشيخ محمد نصيف وشركاه)
روایت جو آپ نے نقل فرمائی وہ یہ ہے:
ثنا الربيع بن سليمان المرادي ، ونصر بن مرزوقبخبر غريب غريب قالا : ثنا أسد بن موسى ، ثنا الليث بن سعد ، حدثني يحيى بن سعيد ، عن أبيه ، عن جده قيس بن عمرو ، أنه صلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم الصبح ، ولم يكن ركع ركعتي الفجر ، فلما سلم رسول الله صلى الله عليه وسلم ، قام فركع ركعتي الفجر ، ورسول الله صلى الله عليه وسلم ينظر إليه ، فلم ينكر ذلك عليه "
اس میں راوی ہیں اسد بن موسی جن کی تحقیق کا آپ نے لنک بھی دیا ہے۔ یہ بلاشبہ ثقہ ہیں۔ لیکن ان میں ایک چھوٹا سا مسئلہ ہے کہ یہ منکر احادیث بھی روایت کرتے ہیں۔
نسائیؒ کا قول ہے:
ثقة ولو لم يصنف كان خيراً له
"ثقہ ہیں۔ اور اگر یہ کتاب نہ لکھتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا۔"
اس کے آگے معلمیؒ یہ تفصیل بیان کرتے ہیں: وذلك أنه لما صنف احتاج إلى الرواية عن الضعفاء فجاءت في ذلك مناكير، فحمل ابن حزم على أسد، ورأى ابن يونس أن أحاديثه عن الثقات معروفة، وحقق البخاري فقال «حديثه مشهور» يريد والله أعلم مشهور عمن روى عنهم فما كان فيه من إنكار فمن قبله
"یہ اس وجہ سے ہے کہ جب انہوں نے تصنیف کی تو ضعفاء سے روایات کے محتاج ہو گئے تو اس میں مناکیر لے آئے۔ تو ابن حزم نے اسد پر حملہ کیا۔ اور ابن یونس کی رائے یہ ہے کہ ان کی احادیث ثقات سے معروف ہیں۔ اور بخاریؒ نے تحقیق کی تو کہا: ان کی حدیث مشہور ہے۔ ان کا ارادہ تھا (اللہ بہتر جانتا ہے) جن سے انہوں نے روایت کی ہیں ان سے مشہور ہیں اور جو اس میں انکار ہے وہ ان کی طرف سے ہے۔"
(التنکیل 1۔413، ط: المکتب الاسلامی)
ظاہر ہے ان میں اگر ہم نکارۃ مان بھی لیں تب بھی اتنی کم ہوگی کہ کوئی حدیث ثقات کے مخالف ثابت ہو جائے تب ہی اسے منکر کہیں گے (ھذا رایی فقط)
لیکن اب یہاں اس روایت کی طرف آئیے۔
اسے روایت کیا ہے سفیان بن عیینہ اور عبد اللہ بن نمیر نے۔ سفیان سے امام شافعی اور بیہقی نے اور ابن نمیر سے ابو داودؒ اور کئی نے۔
ان سب نے روایت کرتے ہوئے یحیی بن سعید کے بجائے سعد بن سعید کا ذکر کیا ہے جس کی سند گزر چکی ہے۔
سفیان کہتے ہیں عطاء بن ابی رباح نے اس حدیث کو سعد بن سعید سے سنا ہے۔
رہ گئے سعد کے دو بھائی تو ابو داودؒ فرماتے ہیں کہ عبد ربہ اور یحیی اس حدیث کو مرسلا روایت کرتے ہیں۔
لیکن جب اسد بن موسی روایت کرتے ہیں تو ایک تو یحیی بن سعید سے روایت کرتے ہیں اور وہ بھی متصل۔
اسی لیے ابن خزیمہ نے یہ روایت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: غریب غریب۔ اور لفظ غریب محدثین کے یہاں منکر کے لیے بکثرت استعمال ہوتا ہے۔
تفصیل کے لیے یہ لنک دیکھ لیجیے۔ رہ گئی بات یہ کہ بقول مبارکپوریؒ حاکم نے اس کے طریق کو صحیح قرار دیا ہے تو حاکم کا تساہل معروف ہے۔
اس روایت پر دوسرا اشکال سعید بن قیس کے حوالے سے ہے۔ ان کے عدم سماع کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے لیکن حاکم کے تساہل کی وجہ سے وہ جواب کمزور معلوم ہوتا ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے سعید بن قیس مستور الحال ہیں۔ صرف ابن حبان نے ان کے لیے صحابی ہونے کا قول کیا ہے لیکن انہیں شاید ان کے والد یا سعید بن قیس بن صخر رض سے غلطی لگ گئی ہے۔ اور کسی کے یہاں ان کی تعدیل یا جرح نہیں ملتی۔ (یہ مستور ہونے کا قول کسی اور کا ہے۔ اس پر تحقیق کر لی جائے۔ مجھے بھی ان کا ذکر اس حوالے سے کہیں نہیں ملا۔ بخاری اور ابو حاتم رحمہما اللہ نے بھی تعدیل یا جرح نہیں کی۔) و اللہ اعلم
اس کے علاوہ اگر اس روایت کو صحیح مان لیں تب بھی روایات بخاری سے اس کی تطبیق یا ترجیح کا کیا حل ہوگا؟ جبکہ وہ کثرت میں ہیں اور صریح ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ عام نوافل کی طرح نہیں ہے بلکہ اس میں کوئی اضافی خصوصیت ہے تو یہ بات خود محتاج دلیل ہوگی۔
ھذا ما ظہر لی۔ و اللہ اعلم۔ وہو الموفق الی الصواب۔
اسد بن موسی کے بارے میں مزید آپ تقریب التهذيب لابن حجر میں دراسۃ میں دیکھیں جو کہ شاید محمد عوامة کی ھے. واللہ اعلم. صفحہ نمبر 36 میں دیکھیں.
اسکرین شاٹ منسلک کر رھا ھوں.
میں نے جن راوی اسد بن موسی کا عرض کیا ہے وہ اس طریق میں بھی ہیں۔
اور اس طریق کو حاکمؒ نے جو صحیح کہا ہے اس کے بارے میں میں نے عرض کیا تھا کہ حاکم متساہل ہیں۔
دو توثیق اور ھو گئ. (مجھے علم ھے کہ آپ خود توثیق کے قائل ھیں.)أسد بن موسى بن إبراهيم القرشي،الأموي،المصري،البصري۔
آپ اسدالسنہ کے لقب سے ملقب اورثقہ امام ہیں ۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
أسد بن موسى الأموي المعروف بأسد السنة وثقوه [مقدمة فتح الباري: ص: 457]۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
الإِمَامُ، الحَافِظُ، الثِّقَةُ [سير أعلام النبلاء للذهبي: 10/ 162]۔
آپکا اقتباس پڑھا. اگر مزید وضاحت ھو جاتی تو بہتر تھا. میرا مطلب ھے کہ عربی عبارت نقل کر کے آپ واضح کر دیں. (تکلیف دھی کے لۓ معذرت)اس کے بعد میں نے یہ بتایا تھا کہ ان کی یہ روایت واقعتا ثقات کے خلاف ہے سند کے اعتبار سے۔
ان شاء اللہ.ان شاء اللہ میں دیکھتا ہوں۔
جناب میں یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ صحابہ کے افعال باہم متعارض ھوں اور ایک جماعت کا فعل حدیث کے موافق جبکہ دوسرے کا مخالف ھو تو ایسی صورت میں کیا کیا جاۓ گا؟؟؟ایسے مقامات پر فقہاء کرام کا طرز مختلف رہا ہے۔ احناف کا عام طرز یہ ہے کہ وہ تمام نصوص سے ایک قاعدہ کلیہ اخذ کرتے ہیں اور پھر اس قاعدہ سے ہٹی ہوئی تمام نصوص کی اس کے ساتھ تطبیق کرتے جاتے ہیں۔ فقہ حنفی میں فقہ ابن مسعود رض و فقہ علی رض کا طرز واضح طور پر غالب نظر آتا ہے۔
امام مالکؒ کا تو مشہور طرز ہے کہ وہ اہل مدینہ کے عمل کو دیکھتے ہیں اور اسی کے مطابق تطبیق کرتے ہیں۔
امام شافعیؒ نے کتاب الام میں عینہ کی بحث کے دوران صراحت سے کہا ہے کہ ہم اس قول کو لیں گے جس کی تائید قیاس کرے۔ چنانچہ وہ متعارض آثار میں اپنے قیاس یا اجتہاد کے مطابق اثر کو لیتے ہیں۔
یہی طرز امام طحاویؒ کا ہے کہ وہ احادیث کے ذکر کے بعد نظر ذکر کرتے ہیں جو کہ قیاس ہوتی ہے اور اسی کے ذریعے ایک جانب کو ترجیح دیتے ہیں۔
تو ایسے میں آپ جو طرز مناسب سمجھیں وہ ہمیشہ کے لیے اختیار کر لیں۔