• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فرض نماز کے وقت سنت پڑھنا

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
مصنف ابن أبي شيبة: في الرجل يدخل المسجد في الفجر:
(1) حدثنا أبو بكر قال حدثنا هشيم قال انا حصين وابن عون عن الشعبي عن مسروق أنه دخل المسجد والقوم في صلاة الغداة ولم يكن صلى الركعتين فصلاهما في ناحية ثم دخل مع القوم في صلاتهم.
مسروق رحمۃ اللہ علیہ مسجد میں داخل ہوئے تو لوگ صبح کی نماز با جماعت پڑھ رہے تھے اور انہوں نے فجر کی سنت نہیں پڑھی تھیں۔ پس انہوں نے ایک طرف ہوکر سنتیں پڑھیں پھر لوگوں کے ساتھ نماز میں شامل ہوئے۔
(2) حدثنا عباد بن العوام عن حصين عن القاسم بن أبي أيوب عن سعيد بن جبير أنه جاء إلى المسجد والامام في صلاة الفجر فصلى الركعتين قبل أن يلج المسجد عند باب المسجد
سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد کی طرف آئے امام فجر کی نماز پڑھا رہا تھا انہوں نے مسجد میں داخل ہونے سے پہلے دروازہ کے پاس دو رکعات پڑھیں (پھر جماعت کے ساتھ شامل ہوئے)۔
(3) حدثنا أبو أسامة عن عثمان بن غياث قال حدثني أبو عثمان قال رأيت الرجل يجئ وعمر بن الخطاب في صلاة الفجر فيصلي الركعتين في جناب المسجد ثم يدخل مع القوم في صلاتهم.
ابو عثمان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ایک شخص مسجد آیا اور مسجد کی ایک جانب دو رکعتیں پڑھیں جبکہ عمر بن الخطاب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نماز پڑھا رہے تھے پھر جماعت کے ساتھ شامل ہؤا۔
(4) حدثنا ابن إدريس عن مطرف عن أبي إسحاق عن حارثة بن مضرب أن ابن مسعود وأبا موسى خرجا من عند سعيد بن العاصي فأقيمت الصلاة فركع ابن مسعود ركعتين ثم دخل مع القوم في الصلاة وأما أبو موسى فدخل في الصف.
ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سعید بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں سے نکلے اور صبح کی جماعت کھڑی ہوچکی تھی۔ عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ دو رکعت سنت پڑھ کر جماعت میں شامل ہوئے اور ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بغیر سنت ادا کیئے جماعت کے ساتھ شامل ہو گئے۔
(5) حدثنا معتمر عن داود بن إبراهيم قال قلت لطاوس أركع الركعتين والمقيم يقيم قال هل تستطيع ذلك.
طاؤس رحمۃ علیہ سے پوچھا گیا کہ (فجر کی) جماعت کے ہوتے فجر کی دو رکعت پڑھ لے؟ انہوں نے کہا کہ کیا اس پر کسی کو قدرت ہے (اتنی جلدی دو رکعت پڑھ لے کہ اس کی رکعت نہ نکلے)۔
(6) حدثنا معتمر عن الحكم بن ابان عن عكرمة قال اقرأ ولا تقرأ وإن قرأت فخففت صلاتهما ولو بالطريق يعني ركعتي الفجر.
عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ سے (فجر کی جماعت کے وقت سنت فجر کے بارے پوچھا گیا کہ پڑھوں کہ نہیں؟) انہوں نے کہا کہ چاہے تو پڑھ لے چاہے تو نہ پڑھ۔ اگر پڑھے تو اپنی نماز کو مختصر کردے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
(7) حدثنا عبد الله بن موسى عن عثمان بن الاسود عن مجاهد قال إذا دخلت المسجد والناس في صلاة الصبح ولم تركع ركعتي الفجر فاركعهما وإن ظننت أن الركعة الاولى تفوتك.
مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر تم مسجد آؤ اور جماعت کھڑی ہوچکی ہو اور کسی نے فجر کی دو سنت نہ پڑھی ہو تو وہ انہیں پڑھ لے اگرچہ اس کو ایک رکعت کے نکل جانے کا خوف کیوں نہ ہو۔
(8) حدثنا وكيع عن دلهم بن صالح عن وبرة قال رأيت ابن عمر يفعاه حدثني من راه فعله مرتين جاء مرة وهم في الصلاة فصلاهما في جانب المسجد ثم دخل مره أخرى فصلى معهم ولم يصلهما.
وبرہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دو دفعہ دیکھا کہ ایک دفعہ انہوں نے جمات کھڑی ہونے کے وقت مسجد کی ایک جانب دو رکعت سنت پڑھی پھر جماعت کے ساتھ شامل ہوئے اور ایک دفعہ بغیر فجر کی سنت ادا کیئے ہی جماعت کے ساتھ شامل ہوگئے۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
مصنف ابن أبي شيبة: في الرجل يدخل المسجد في الفجر:
(1) حدثنا أبو بكر قال حدثنا هشيم قال انا حصين وابن عون عن الشعبي عن مسروق أنه دخل المسجد والقوم في صلاة الغداة ولم يكن صلى الركعتين فصلاهما في ناحية ثم دخل مع القوم في صلاتهم.
مسروق رحمۃ اللہ علیہ مسجد میں داخل ہوئے تو لوگ صبح کی نماز با جماعت پڑھ رہے تھے اور انہوں نے فجر کی سنت نہیں پڑھی تھیں۔ پس انہوں نے ایک طرف ہوکر سنتیں پڑھیں پھر لوگوں کے ساتھ نماز میں شامل ہوئے۔
(2) حدثنا عباد بن العوام عن حصين عن القاسم بن أبي أيوب عن سعيد بن جبير أنه جاء إلى المسجد والامام في صلاة الفجر فصلى الركعتين قبل أن يلج المسجد عند باب المسجد
سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد کی طرف آئے امام فجر کی نماز پڑھا رہا تھا انہوں نے مسجد میں داخل ہونے سے پہلے دروازہ کے پاس دو رکعات پڑھیں (پھر جماعت کے ساتھ شامل ہوئے)۔
(3) حدثنا أبو أسامة عن عثمان بن غياث قال حدثني أبو عثمان قال رأيت الرجل يجئ وعمر بن الخطاب في صلاة الفجر فيصلي الركعتين في جناب المسجد ثم يدخل مع القوم في صلاتهم.
ابو عثمان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ایک شخص مسجد آیا اور مسجد کی ایک جانب دو رکعتیں پڑھیں جبکہ عمر بن الخطاب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نماز پڑھا رہے تھے پھر جماعت کے ساتھ شامل ہؤا۔
(4) حدثنا ابن إدريس عن مطرف عن أبي إسحاق عن حارثة بن مضرب أن ابن مسعود وأبا موسى خرجا من عند سعيد بن العاصي فأقيمت الصلاة فركع ابن مسعود ركعتين ثم دخل مع القوم في الصلاة وأما أبو موسى فدخل في الصف.
ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سعید بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں سے نکلے اور صبح کی جماعت کھڑی ہوچکی تھی۔ عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ دو رکعت سنت پڑھ کر جماعت میں شامل ہوئے اور ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بغیر سنت ادا کیئے جماعت کے ساتھ شامل ہو گئے۔
(5) حدثنا معتمر عن داود بن إبراهيم قال قلت لطاوس أركع الركعتين والمقيم يقيم قال هل تستطيع ذلك.
طاؤس رحمۃ علیہ سے پوچھا گیا کہ (فجر کی) جماعت کے ہوتے فجر کی دو رکعت پڑھ لے؟ انہوں نے کہا کہ کیا اس پر کسی کو قدرت ہے (اتنی جلدی دو رکعت پڑھ لے کہ اس کی رکعت نہ نکلے)۔
(6) حدثنا معتمر عن الحكم بن ابان عن عكرمة قال اقرأ ولا تقرأ وإن قرأت فخففت صلاتهما ولو بالطريق يعني ركعتي الفجر.
عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ سے (فجر کی جماعت کے وقت سنت فجر کے بارے پوچھا گیا کہ پڑھوں کہ نہیں؟) انہوں نے کہا کہ چاہے تو پڑھ لے چاہے تو نہ پڑھ۔ اگر پڑھے تو اپنی نماز کو مختصر کردے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
(7) حدثنا عبد الله بن موسى عن عثمان بن الاسود عن مجاهد قال إذا دخلت المسجد والناس في صلاة الصبح ولم تركع ركعتي الفجر فاركعهما وإن ظننت أن الركعة الاولى تفوتك.
مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر تم مسجد آؤ اور جماعت کھڑی ہوچکی ہو اور کسی نے فجر کی دو سنت نہ پڑھی ہو تو وہ انہیں پڑھ لے اگرچہ اس کو ایک رکعت کے نکل جانے کا خوف کیوں نہ ہو۔
(8) حدثنا وكيع عن دلهم بن صالح عن وبرة قال رأيت ابن عمر يفعاه حدثني من راه فعله مرتين جاء مرة وهم في الصلاة فصلاهما في جانب المسجد ثم دخل مره أخرى فصلى معهم ولم يصلهما.
وبرہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دو دفعہ دیکھا کہ ایک دفعہ انہوں نے جمات کھڑی ہونے کے وقت مسجد کی ایک جانب دو رکعت سنت پڑھی پھر جماعت کے ساتھ شامل ہوئے اور ایک دفعہ بغیر فجر کی سنت ادا کیئے ہی جماعت کے ساتھ شامل ہوگئے۔
محترم اس پر علماۓ محدثین کے اقوال تو ذکر کریں. اسکی سندیں صحیح ھیں یا ضعیف یہ تو نقل کریں
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
محترم اس پر علماۓ محدثین کے اقوال تو ذکر کریں. اسکی سندیں صحیح ھیں یا ضعیف یہ تو نقل کریں
محترم! کچھ محنت خود بھی کرلیا کریں اس کی افادیت سے آپ تبھی واقف ہوں گے۔

یہ کونسی بات ھوئ؟؟؟
حدیث میں کونسی بات محتمل ھے؟؟؟
حدیث بالکل واضح اور صریح ھے.
صحابہ کرام کا عمل بھی بہت واضح اور صریح ہے۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
صحابہ کے بعض آثار ملتے ہیں ۔ ان تمام اثر کے متعلق یہ کہاجائے گا کہ ان صحابیوں کو نبی ﷺ کے اقامت کے بعد نماز نہ پڑھنے کی خبر نہیں تھی اگرہوتی تو صحابہ نبی ﷺ کے عمل کے خلاف عمل نہ کرتے ۔
صحابہ سے تو یہ ثابت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے اقامت کے بعد سنت پڑھنے والے کو ماراکرتے ۔
بیہقی شریف کی روایت ہے :
إنه کان إذا رأی رجلاً یُصلّی وھو یسمع الاقامة ضرب۔
’یعنی حضرت عمررضی اللہ عنہ جب کسی آدمی کو دیکھتے کہ نماز پڑھتا ہے حالانکہ تکبیر سن چکا ہے تو آپ اس کو مارتے۔
یہ سزا خلیفہ کی طرف سے تعزیرا تھی ۔
اسی طرح بیہقی کی روایت ہے :
عن ابن عمر أنه أبصر رجلا يصلي الركعتين والمؤذن يقيم ، فحصبه۔( السنن الکبری للبیہقی: 4551)
ترجمہ: عبداللہ بن عمرؓ نے دیکھا ایک شخص کو کہ وقت اقامت مؤذن کے سنت فجر کی پڑھنےلگا تو اس کو کنکر مارا۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
صحابہ کا عمل اور انکا اجتہاد ایک طرف. لیکن حدیث رسول کا مطلب؟؟؟
محترم! اہلحدیث کہلانے والوں میں سب سے بڑی خرابی ہی یہ ہے کہ وہ اشکال کے مضمرات کی طرف نظر نہیں کرتے۔ اب یہاں ہی دیکھ لیں۔ کیا کوئی شخص اس بات کا گھمان کر سکتا ہے کہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے خلاف عمل کی جرأت کرسکتا ہے؟ لازم ہے کہ یا تو صحابی کی طرف منصوب بات جھوٹی ہے یا پھر ہمیں حدیث کا صحیح استحضار نہیں۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
اہلحدیث کہلانے والوں میں سب سے بڑی خرابی ہی یہ ہے
لگتا ھے اہل حدیثوں سے خاندانی دشمنی ھے. تبھی تو تعصب آپکی تحریر سے مترشح ھے.
کیا کوئی شخص اس بات کا گھمان کر سکتا ہے کہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے خلاف عمل کی جرأت کرسکتا ہے؟
بالکل نہیں گمان کر سکتا ھے. لیکن محترم ھو سکتا ھے کہ ان تک اس سلسلے کی حدیث ھی نہ پہونچی ھو.
اتنی واضح صریح حدیث کے باوجود آپ کا انکار کرنا قابل افسوس ھے.
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
بالکل نہیں گمان کر سکتا ھے. لیکن محترم ھو سکتا ھے کہ ان تک اس سلسلے کی حدیث ھی نہ پہونچی ھو.
محترم! آپ کی یہ بات بجا مگر یہ بھی تو بعید از قیاس ہے کہ اتنے سارے صحابہ اور تابعیں کرام کو یہ حدیث نہ پہنچی ہو۔ یہ امکان کیوں نہیں کہ اس حدیث کا جو مفہوم آپ لے رہے ہیں اس میں غلطی ہو۔
 
Top