• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فرض نماز کے وقت سنت پڑھنا

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
اس حدیث کا جو مفہوم آپ لے رہے ہیں اس میں غلطی ہو۔
محترم کچھ غور وفکر بھی کر لیا کریں. صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار بھی اس بات پر دال ھیں کہ جب اقامت کہ دی جاۓ تو فرض نماز کے سوا کوئ نماز نہیں ھے.
حدیث بھی اس بات پر دلیل ھے اور صحابہ کرام کے آثار بھی. اب کونسا شک رہ جاتا ھے؟؟؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
بالکل نہیں گمان کر سکتا ھے. لیکن محترم ھو سکتا ھے کہ ان تک اس سلسلے کی حدیث ھی نہ پہونچی ھو.
قطع نظر اس بحث کے میں ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ہم یہ بہت آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ صحابہ یا تابعین تک فلاں حدیث نہیں پہنچی ہوگی۔ یہ عقلا ممکن ہے لیکن ہر جگہ نہیں۔ جو اعمال ایسے ہیں جو سب کے سامنے ہوتے ہیں اور کثرت سے ہوتے ہیں اس میں یہ بھی ممکن نہیں کہ کسی ایک تک وہ عمل نہ پہنچا ہو۔ یا کسی نے وہ عمل ہوتا دیکھا ہو، اسے اس کے خلاف معلوم ہو لیکن اس کے بارے میں معلوم نہ کیا ہو۔
فجر سے پہلے کی سنتیں، تکبیر تحریمہ میں ہاتھ اٹھانا، زور سے آمین کہنا، رکوع میں گھٹنے پکڑنا، رفع یدین کرنا وغیرہ اس قسم کے اعمال ہیں کہ روز ہوتے ہیں اور کثرت سے ہوتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ صحابہ کرام رض و تابعین جماعت کی مکمل پابندی کرتے تھے۔ اگر ان میں سے کوئی فجر سے پہلے کی سنتیں اس طرز پر پڑھتا ہے اور اسے حدیث نہیں پہنچی یا اس کا استحضار نہیں تھا تو دوسروں نے کیوں نہیں ٹوکا؟ اگر کوئی رکوع میں تطبیق کرتا ہے یا قیام میں ہاتھ نیچے کھلے چھوڑتا ہے اور اسے احادیث اور نبی ﷺ کا عمل معلوم نہیں تھا تو دوسرے صحابہ نے کیوں نہیں دیکھا؟ حالاں کہ صحابہ کرام کا عمل ایسی صورتوں میں یہ تھا کہ حضرت عمر رض قراءت میں فرق ہونے پر حضرت ہشام بن حکیم رض کو پکڑ کر نبی کریم ﷺ کے پاس لے گئے تھے۔
اس لیے بجائے یہ کہنے کے کہ ان تک حدیث نہیں پہنچی ایسے ظاہر معاملات میں کوئی اور تاویل کرنی چاہیے۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
قطع نظر اس بحث کے میں ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ہم یہ بہت آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ صحابہ یا تابعین تک فلاں حدیث نہیں پہنچی ہوگی۔ یہ عقلا ممکن ہے لیکن ہر جگہ نہیں۔ جو اعمال ایسے ہیں جو سب کے سامنے ہوتے ہیں اور کثرت سے ہوتے ہیں اس میں یہ بھی ممکن نہیں کہ کسی ایک تک وہ عمل نہ پہنچا ہو۔ یا کسی نے وہ عمل ہوتا دیکھا ہو، اسے اس کے خلاف معلوم ہو لیکن اس کے بارے میں معلوم نہ کیا ہو۔
فجر سے پہلے کی سنتیں، تکبیر تحریمہ میں ہاتھ اٹھانا، زور سے آمین کہنا، رکوع میں گھٹنے پکڑنا، رفع یدین کرنا وغیرہ اس قسم کے اعمال ہیں کہ روز ہوتے ہیں اور کثرت سے ہوتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ صحابہ کرام رض و تابعین جماعت کی مکمل پابندی کرتے تھے۔ اگر ان میں سے کوئی فجر سے پہلے کی سنتیں اس طرز پر پڑھتا ہے اور اسے حدیث نہیں پہنچی یا اس کا استحضار نہیں تھا تو دوسروں نے کیوں نہیں ٹوکا؟ اگر کوئی رکوع میں تطبیق کرتا ہے یا قیام میں ہاتھ نیچے کھلے چھوڑتا ہے اور اسے احادیث اور نبی ﷺ کا عمل معلوم نہیں تھا تو دوسرے صحابہ نے کیوں نہیں دیکھا؟ حالاں کہ صحابہ کرام کا عمل ایسی صورتوں میں یہ تھا کہ حضرت عمر رض قراءت میں فرق ہونے پر حضرت ہشام بن حکیم رض کو پکڑ کر نبی کریم ﷺ کے پاس لے گئے تھے۔
اس لیے بجائے یہ کہنے کے کہ ان تک حدیث نہیں پہنچی ایسے ظاہر معاملات میں کوئی اور تاویل کرنی چاہیے۔
محترم شیخ!
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم واضح ھے. صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار بھی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے موافق ھیں. اب ایسی صورت میں کس پر عمل کیا جاۓ گا؟؟؟
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر (جس پر صحابہ کا بھی عمل تھا) یا ان آثار پر عمل کیا جاۓ گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے مخالف ھیں؟؟؟ (مخالف کے لفظ کے لۓ معاف کیجۓ گا. میں ان آثار کے متعلق یہ کہنا چاہتا ھوں کہ وہ صحابہ کا اپنا اجتہاد ھے)
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
قطع نظر اس بحث کے میں ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ہم یہ بہت آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ صحابہ یا تابعین تک فلاں حدیث نہیں پہنچی ہوگی۔ یہ عقلا ممکن ہے لیکن ہر جگہ نہیں۔ جو اعمال ایسے ہیں جو سب کے سامنے ہوتے ہیں اور کثرت سے ہوتے ہیں اس میں یہ بھی ممکن نہیں کہ کسی ایک تک وہ عمل نہ پہنچا ہو۔ یا کسی نے وہ عمل ہوتا دیکھا ہو، اسے اس کے خلاف معلوم ہو لیکن اس کے بارے میں معلوم نہ کیا ہو۔
فجر سے پہلے کی سنتیں، تکبیر تحریمہ میں ہاتھ اٹھانا، زور سے آمین کہنا، رکوع میں گھٹنے پکڑنا، رفع یدین کرنا وغیرہ اس قسم کے اعمال ہیں کہ روز ہوتے ہیں اور کثرت سے ہوتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ صحابہ کرام رض و تابعین جماعت کی مکمل پابندی کرتے تھے۔ اگر ان میں سے کوئی فجر سے پہلے کی سنتیں اس طرز پر پڑھتا ہے اور اسے حدیث نہیں پہنچی یا اس کا استحضار نہیں تھا تو دوسروں نے کیوں نہیں ٹوکا؟ اگر کوئی رکوع میں تطبیق کرتا ہے یا قیام میں ہاتھ نیچے کھلے چھوڑتا ہے اور اسے احادیث اور نبی ﷺ کا عمل معلوم نہیں تھا تو دوسرے صحابہ نے کیوں نہیں دیکھا؟ حالاں کہ صحابہ کرام کا عمل ایسی صورتوں میں یہ تھا کہ حضرت عمر رض قراءت میں فرق ہونے پر حضرت ہشام بن حکیم رض کو پکڑ کر نبی کریم ﷺ کے پاس لے گئے تھے۔
اس لیے بجائے یہ کہنے کے کہ ان تک حدیث نہیں پہنچی ایسے ظاہر معاملات میں کوئی اور تاویل کرنی چاہیے۔
جب صحابہ کرام کے آثار باہم متعارض ھوں تو ایسی صورت میں کس کی طرف رجوع کیا جاۓ گا؟؟؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
محترم شیخ!
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم واضح ھے. صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار بھی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے موافق ھیں. اب ایسی صورت میں کس پر عمل کیا جاۓ گا؟؟؟
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر (جس پر صحابہ کا بھی عمل تھا) یا ان آثار پر عمل کیا جاۓ گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے مخالف ھیں؟؟؟ (مخالف کے لفظ کے لۓ معاف کیجۓ گا. میں ان آثار کے متعلق یہ کہنا چاہتا ھوں کہ وہ صحابہ کا اپنا اجتہاد ھے)
محترم عمر بھائی۔ یہ تو ممکن نہیں کہ صحابہ کرام نبی کریم ﷺ کے قول کے خلاف اجتہاد کر لیں۔ ہوتا یہ ہے کہ قول نبی ﷺ کا محمل ان صحابہ کے یہاں کچھ اور ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر نہی کو نہی تنزیہی پر محمول کرتے ہیں۔ (یہ جو اصول ہے کہ نہی میں اصل تحریم ہے یہ ان کے لیے ہے جو قول کے شاہد نہیں ہیں۔ لیکن جن کے سامنے سارا معاملہ ہوتا ہے ان کے لیے اصل وہ ہوتا ہے جو وہ سمجھتے ہیں جبکہ وہ ہوں بھی عرب العرباء میں سے۔)
اب بعد میں آنے والے بھی اجتہاد کریں گے۔ اگر ان کا اجتہاد ان صحابہ کے موافق ہوا جو اس قول میں نہی کو تحریم کے لیے سمجھتے ہیں تو وہ بھی تحریم پر محمول کریں گے۔ اور اگر ان کے موافق ہوا جو تنزیہ پر محمول کرتے ہیں تو وہ بھی تنزیہ پر محمول کریں گے۔ یہ ایک مثال ہے فقط۔
جب صحابہ کرام کے آثار باہم متعارض ھوں تو ایسی صورت میں کس کی طرف رجوع کیا جاۓ گا؟؟؟
ایسے مقامات پر فقہاء کرام کا طرز مختلف رہا ہے۔ احناف کا عام طرز یہ ہے کہ وہ تمام نصوص سے ایک قاعدہ کلیہ اخذ کرتے ہیں اور پھر اس قاعدہ سے ہٹی ہوئی تمام نصوص کی اس کے ساتھ تطبیق کرتے جاتے ہیں۔ فقہ حنفی میں فقہ ابن مسعود رض و فقہ علی رض کا طرز واضح طور پر غالب نظر آتا ہے۔
امام مالکؒ کا تو مشہور طرز ہے کہ وہ اہل مدینہ کے عمل کو دیکھتے ہیں اور اسی کے مطابق تطبیق کرتے ہیں۔
امام شافعیؒ نے کتاب الام میں عینہ کی بحث کے دوران صراحت سے کہا ہے کہ ہم اس قول کو لیں گے جس کی تائید قیاس کرے۔ چنانچہ وہ متعارض آثار میں اپنے قیاس یا اجتہاد کے مطابق اثر کو لیتے ہیں۔
یہی طرز امام طحاویؒ کا ہے کہ وہ احادیث کے ذکر کے بعد نظر ذکر کرتے ہیں جو کہ قیاس ہوتی ہے اور اسی کے ذریعے ایک جانب کو ترجیح دیتے ہیں۔
تو ایسے میں آپ جو طرز مناسب سمجھیں وہ ہمیشہ کے لیے اختیار کر لیں۔

تو اس سلسلے میں کیا کہیں؟؟؟
یہ کہ جن صحابہ کرام رض کا عمل سنتیں ادا کرنے کا تھا وہ نبی کریم ﷺ کی نہی کو کسی خاص موقع پر محمول فرماتے تھے۔ مثال کے طور پر صفوں کے بیچ میں کھڑے ہو کر سنتیں ادا کرنا جب کہ نماز بھی ہو رہی ہو وغیرہ۔

میں نے اس پر گہرائی سے تحقیق نہیں کی۔ ویسے سرسری دیکھنے پر میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ امام مالکؒ کا مسلک سب سے بہترین اور جامع ہے کہ اگر پہلی رکعت میں مل جانے کا ظن غالب ہو تو سنتیں پڑھ لی جائیں اور اگر پہلی رکعت نکلنے کا خوف ہو تو نہ پڑھی جائیں۔ اس میں جو صحابہ سنتیں ادا کرتے تھے ان کے فعل کی بھی رعایت ہو جاتی ہے اور جو نہیں کرتے تھے ان کے فعل کی بھی۔ اس کی تحقیق کر لی جائے۔
واللہ اعلم
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
جناب اشماریہ بهائی

ایک سوال سمجہنے کی غرض سے میرا ہے اور مجہے واقعی سمجہنا ہے ۔
کیا فجر کی سنت دو رکعتیں (فرض نماز کی اقامت ہوجانے کے بعد) فرض نماز کے بعد ادا نہیں کی جا سکتی ہیں ۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
"ﺗﻮ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﺟﻮ ﻃﺮﺯ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﺳﻤﺠﮭﯿﮟ ﻭﮦ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮ ﻟﯿﮟ-"

ازراہ کرم ہمیشہ کے لئے کیوں وہ بهی سمجہا دیں تاکہ کوئی خلش نا رہے۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
میں اب تک جتنا سمجھا ھوں اسکے مطابق فرض نماز کے وقت سنت نہیں پڑھی جاۓ.
اس پر حدیث اور کچھ صحابہ کے آثار دال ھیں. مزید فجر کے بعد سنت پڑھنا حدیث سے ثابت ہے لہذا اسمیں اب کوئ شک نہیں رہ جاتا. رھا صحابہ کا معاملہ تو یہ انکا اپنا اجتہاد ھے اور یہ بھی ھو سکتا ھے کہ ان تک حدیث نہ پہونچی ھو.
واللہ اعلم بالصواب.
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
کیا فجر کی سنت دو رکعتیں (فرض نماز کی اقامت ہوجانے کے بعد) فرض نماز کے بعد ادا نہیں کی جا سکتی ہیں ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نماز فجر کے بعد فجر کی دو سنت ادا کرنے کی ممانعت

صحيح البخاري كتاب مواقيت الصلاة بَاب الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَجْرِ حَتَّى تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ شَهِدَ عِنْدِي رِجَالٌ مَرْضِيُّونَ وَأَرْضَاهُمْ عِنْدِي عُمَرُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَشْرُقَ الشَّمْسُ وَبَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ (حدیث متفق علیہ، مرفوع اورمتواتر ہے)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ شُعْبَةَ عَنْ قَتَادَةَ سَمِعْتُ أَبَا الْعَالِيَةِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ حَدَّثَنِي نَاسٌ بِهَذَا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھے بہت محبوب تھے وہ فرماتے ہیں بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا صبح کی نماز کے بعد نماز پڑھنے سے یہاں تک کہ سورج بلند ہوجائے اور بعد نمازعصر کے یہاں تک کہ سورج غروب ہوجائےـ

صحيح البخاري كتاب مواقيت الصلاة بَاب الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَجْرِ حَتَّى تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ بَيْعَتَيْنِ وَعَنْ لِبْسَتَيْنِ وَعَنْ صَلَاتَيْنِ نَهَى عَنْ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَجْرِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَبَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ وَعَنْ اشْتِمَالِ الصَّمَّاءِ وَعَنْ الِاحْتِبَاءِ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ يُفْضِي بِفَرْجِهِ إِلَى السَّمَاءِ وَعَنْ الْمُنَابَذَةِ وَالْمُلَامَسَةِ (حدیث متواتر حدیث مرفوع)
، ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو قسم کی بیع اور دو قسم کے لباس اور دو نمازوں سے منع فرمایا: فجر کے بعد نماز پڑھنے سے جب تک کہ آفتاب اچھی طرح نہ نکل آئے اور عصر کے بعد نماز سے جب تک کہ اچھی طرح آفتاب غروب نہ ہو جائے اور ایک کپڑے میں اشتمال صما اور احتباء سے جو کہ پورے طور پر شرمگاہ کیلئے پردہ نہیں ہو سکتے اور بیع منابذہ اور ملابسہ سے۔

صحيح البخاري كتاب مواقيت الصلاة بَاب لَا تُتَحَرَّى الصَّلَاةُ قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عَطَاءُ بْنُ يَزِيدَ الْجُنْدَعِيُّ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا صَلَاةَ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ وَلَا صَلَاةَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغِيبَ الشَّمْسُ ٭
ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی نماز نہیں صبح کی نماز کے بعد یہاں تک کہ سورج بلند ہوجائے اور نہ نماز عصر کے بعد یہاں تک کہ سورج غروب ہوجائےـ

صحيح البخاري كِتَاب الْجُمُعَةِ بَاب مَسْجِدِ بَيْتِ
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ سَمِعْتُ قَزَعَةَ مَوْلَى زِيَادٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُحَدِّثُ بِأَرْبَعٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْجَبْنَنِي وَآنَقْنَنِي قَالَ لَا تُسَافِرْ الْمَرْأَةُ يَوْمَيْنِ إِلَّا مَعَهَا زَوْجُهَا أَوْ ذُو مَحْرَمٍ وَلَا صَوْمَ فِي يَوْمَيْنِ الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى وَلَا صَلَاةَ بَعْدَ صَلَاتَيْنِ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَبَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ وَلَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ مَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَسْجِدِ الْأَقْصَى وَمَسْجِدِي٭
ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ــــــــــــــــــــــــــ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا ـــــــــــــــــــــــــ کہ کوئی نماز نہیں (ان) دو نمازوں کے بعد صبح کی نماز کے بعد یہاں تک کہ سورج بلند ہوجائے اور عصر کی نماز کے بعد یہاں تک کہ سورج غروب ہوجائےـ

سنن ابن ماجه كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ فَاتَتْهُ الرَّكْعَتَانِ قَبْلَ صَلَاةِ الْفَجْرِ مَتَى يَقْضِيهِمَا
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَيَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ قَالَا حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ كَيْسَانَ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَامَ عَنْ رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ فَقَضَاهُمَا بَعْدَ مَا طَلَعَتْ الشَّمْسُ

ایک بار نیند کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فجر کی سنتیں رہ گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورج بلند ہوجانےکے بعد قضاء فرمائیں ۔

سنن الترمذي - (ج 2 / ص 208)
حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْعَمِّيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ يُصَلِّ رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ فَلْيُصَلِّهِمَا بَعْدَ مَا تَطْلُعُ الشَّمْسُ
ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جس کسی نے فجر کی سنت نہ پڑھیں ہوں تو وہ انہیں طلوع آفتاب کے بعد پڑھے۔
سنن أبي داود كتاب الصلاة بَاب فِيمَنْ يَقْرَأُ السَّجْدَةَ بَعْدَ الصُّبْحِ
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الصَّبَّاحِ الْعَطَّارُ حَدَّثَنَا أَبُو بَحْرٍ حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ عُمَارَةَ حَدَّثَنَا أَبُو تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيُّ قَالَ
لَمَّا بَعَثْنَا الرَّكْبَ قَالَ أَبُو دَاوُد يَعْنِي إِلَى الْمَدِينَةِ قَالَ كُنْتُ أَقُصُّ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ فَأَسْجُدُ فَنَهَانِي ابْنُ عُمَرَ فَلَمْ أَنْتَهِ ثَلَاثَ مِرَارٍ ثُمَّ عَادَ فَقَالَ إِنِّي صَلَّيْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ فَلَمْ يَسْجُدُوا حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ

ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیچھے نمازیں پڑھی ہیں وہ (نماز فجر کے بعد) سورج نکلنے تک نماز نہیں پڑھا کرتے تھے۔
 
Top