بسم اللہ الرحمن الرحیم
و صلی اللہ علیٰ سیدنا محمد و آلہ وسلم
شیخ امام حافظ ابو بکر احمد بن علی بن ثابت خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :۔
سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے سزاوار ہیں جس نے اپنے برگزیدہ مخلوق کے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا۔ اور اپنی مخلوق میں سے سب سے زیادہ پسندیدہ رسولوں کی معرفت اس دین کو بھیجا۔ اور ہمیں ان کی شریعت و ملت کا پابند اور اپنے نبی کے حریم سے مدافعت کرنے والا اور آپ کی سنتوں کا عامل بنایا۔ ہم اس کی ایسی حمد وثناء کرتے ہیں ، جس کے وہ لائق ہے ہم اسی سے بھلائی اور نیکی چاہتے ہیں اور ہم اس کے فضل کی زیادتی کے لئے اسی کی طرف رغبت کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ خاتم النبیین ہمارے سردار تمام انبیاء سے افضل اور تمام مخلوق سے بہتر محمد رسول اللہ ﷺ پر درود و سلام بھیجے۔ اور آپ کے بہترین اور بزرگ صحابہ پر اور قیامت تک جو بھی بھلائی کے ساتھ ان کی پیروی کریں۔
حمدو صلوٰۃ کے بعد اللہ عزوجل تمہیں بھلائیوں کی توفیق دے۔ اور ہم سب کو بدعتوں اور شک و شبہ سے بچائے تم نے جو ذکر کیا کہ مبتدعین لوگ سنت اور احادیث کے پابند لوگوں پر عیب گیری کرتے ہیں۔ اور حدیث کے پڑھنے اور یاد کرنے والوں پر طعنہ زنی کرتے ہیں۔ اور جو کچھ وہ پاک نفس سچے ائمہ سے صحیح طورپر نقل کرتے ہیں اس کی تکذیب کرتے ہیں۔ اور ملحدین کی باتیں لے کر حق والوں کا مذاق اڑاتے ہیں (کہ جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھی استہزاء کرتا ہے اور انہیں ان کی گمراہی میں اور بڑھاتا ہے اور وہ سرکش ہوتے جاتے ہیں) تو جان لو کہ خواہش کے پیروکار لوگ اور جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی سیدھی راہ سے بہکا دیا ہے ان کا یہ کام کوئی تعجب خیز امر نہیں۔ ان کی ذلت تو اسی سے ظاہر ہے کہ انہیں نہ تو قرآن کریم کے احکام پر نظر ہے نہ اس کی کھلی آیتیں ان کی دلیل ہیں۔ بلکہ ان لوگوں نے حدیثِ رسول ﷺکو پس پشت ڈال دیا۔ اور اللہ کے دین میں اپنی رائے اور قیاس کو دخل دیدیا۔ ان کے نوعمر لوگ ہزلیات میں پڑگئے۔ اور ان کے عمر رسیدہ لوگ فضولیات اور حجت بازی میں مشغول ہوگئے۔ ان لوگوں نے اپنے دین کو جھگڑوں کا نشانہ بنا لیا اور ہلاکت کے گڑھے میں اور شیطان کے پھندوں میں اپنی جانیں ڈالدیں۔ شک و شبہ کی وجہ سے حق اٹھ گیا اور وہ اس حالت کو پہنچ گئے کہ احادیث رسول ﷺ کی کتابیں اگر انکے سامنے پیش کی جائیں تو انہیں ایک طرف ڈال دیتے ہیں اور دیکھے بغیر منہ پھیر کر بھاگنے لگتے ہیں۔ اور ان عمل کرنے والوں اور ان کی روایت کرنے والوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ محض دین حق کی دشمنی اور مسلمانوں کے قابل احترام اماموں پر طعنہ زنی کرکے۔
لطف تو یہ ہے کہ یہ لوگ عوام میں بیٹھ کر بڑے فخر سے ڈینگیں مارتے ہیں کہ ہماری تو عمر علم کلام میں گذری۔ اپنے سوا یہ تمام لوگوں کو گمراہ جانتے ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ بس نجات وہی پائیں گے۔اس لئے کہ وہ کسی کی نہیں مانتے اور خود کو عدل وتوحید والے سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اگرغور سے دیکھا جائے تو ان کی توحید، شرک و الحاد ہے اس لئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے شریک اس کی مخلوق میں سے اوروں کوبھی بناتے ہیں۔ ان کے عدل کوبھی اسی طرح اگر جانچا جائے تو وہ یہ ہے کہ یہ لوگ صحیح اور ٹھیک راستے سے ہٹ کر کتاب و سنت کے مضبوط احکام کے خلاف ہوگئے ہیں۔ تم دیکھو گے کہ ایسے علم کے محتاجوں کو جب کبھی کسی مسئلہ کی ضرورت پڑتی ہے تو کسی فقہ کے جاننے والے کی طرف لپکتے ہیں۔ اسی سے مسئلہ دریافت کرتے ہیں اور اسی کے قول پر عمل کا دارومدار رکھتے ہیں۔ پھر اسی فتوے کو دوسروں تک پہنچاتے رہتے ہیں اور پورے مقلد ہوجاتے ہیں حالانکہ خود کو محقق سمجھتے ہیں۔ لیکن ان کے اقوال کو چمٹ جاتے ہیں بس ادھر فتویٰ صادر ہوا ادھر ان کا عمل شروع ہوا۔ حالانکہ بہت ممکن ہے کہ ان کے فتوے غلط ہوں۔ اور ان میں غور و خوض کی ضرورت ہو ہم نہیں سمجھتے کہ تقلید کو حرام جان کر پھر بھی …کیوں حلال کرلی جاتی ہے ؟اور ایک گناہ کو کبیرہ جانتے ہوئے پھر اسے کس طرح آسانی سے کرنے لگتے ہیں ؟سچ تو یہ ہے کہ جو چیز دنیا اور آخرت میں کوئی نفع نہ دے سکے اسے پھینک دینااور احکام شریعت پر کاربند ہوجانا ہی زیادہ مناسب اور افضل ہے۔
ہمیں بہ سند امام مالک رحمہ اللہ کا یہ فرمان پہنچا ہے کہ وہ اس حجت بازی کوناپسند کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اگر ایک بڑھ بولا شخص آج ہمارے پاس آیا ہم نے اس کی مانی پھر اس سے زیادہ تیز زبان کوئی اور آیا اس کی مانی تو پھر جبرئیل علیہ السلام جو وحی لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے وہ توسب رد ہو جائیگی۔
امام ابو یوسف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بزرگوں کا مشہور مقولہ ہے کہ دین اسلام کو جو شخص علم کلام میں ڈھونڈے وہ بے دین ہے۔ اور جو عجیب و غریب حدیثوں کے پیچھے پڑ جائے وہ جھوٹا ہے۔ اور جو کیمیا سے مال تلاش کرے وہ مفلس ہوگا۔
امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نے تین مرتبہ فرمایا کہ دین صرف احادیث میں ہے رائے قیاس میں نہیں۔
فضل بن زیاد نے امام مالک رحمہ اللہ سے کرابیسی اور اس کے خیالات کی نسبت دریافت کیا تو آپ نے ناراض ہوکر فرمایا کہ یہ جو دفتر کے دفتر ان لوگوں نے رائے قیاس کے لکھ لئے ہیں انہی سے دین پر مصیبت آئی ہے۔ انہی کتابوں کی وجہ سے احادیث رسول ﷺ کو لوگوں نے چھوڑ دیا ہے اور ان کتابوں کی طرف متوجہ ہوگئے ۔
امام مالک رحمہ اللہ کا قول ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے بعد کے خلفاء نے جو طریقے فرمائے ہیں انہیں مضبوط تھامنا ہی اللہ عزو جل کی کتاب کی تصدیق ہے۔ یہی اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری یہی اس کے دین کی قوت ہے۔ سنت پر عمل کرنے والا ہدایت والا ہے۔ اسے تھامنے والا غالب ہے۔ پیچھے ڈالنے والا مسلمانوں کی راہ سے ہٹا ہوا اور برائی میں پھنسا ہوا ہے۔
امام اوزاعی فرماتے ہیں بزرگانِ سلف سے جو احادیث منقول ہیں انہی پر عامل رہو اگرچہ لوگ تمہیں چھوڑدیں لوگوں کی رائے اور قیاس کی تابعداری سے بچو۔ اگرچہ وہ اپنی باتوں کو بنا سنوار کر کے پیش کریں اگر ایسا کروگے تو آخر دم تک سیدھی راہ پر قائم رہوگے۔
امام یزید بن ذریع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رائے قیاس کرنے والے اور اس پر چلنے والے لوگ سنت رسول ﷺ اور احادیث پیغمبر ﷺ کے دشمن ہیں۔
امام خطیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر یہ رائے قیاس جیسی مذموم چیز والے لوگ ان علوم میں اپنے آپ کو مشغول کرتے جو انہیں نفع پہنچا سکتے اور اگر یہ لوگ رسولِ رب العالمین ﷺ کی حدیثیں طلب کرتے اور فقہاء اور محدثین کے آثار کی اقتداء کرتے تو وہ خود دیکھ لیتے کہ انہیں کسی اور چیز کی ضرورت باقی نہ رہتی۔ حدیثیں انہیں رائے قیاس سے بے نیاز کردیتیں اس لئے کہ علم حدیث میں اصول، توحید، وعدے، وعید، رب العالمین کی صفتیں ، جنت دوزخ کا ذکر، اچھے برے لوگوں کا انجام، آسمان و زمین کے عجائبات، ملائکہ مقربین کا ذکر، صف باندھ کر عبادت کرنے والے، تسبیح و تقدیس بیان کرنے والے فرشتوں کا بیان،نبیوں اور رسولوں کے واقعات ،زاہدوں اور اولیاء اللہ کا ذکر،بہترین نصیحتیں اوروعظ سمجھ بوجھ والے بزرگوں کے کلام ، عرب و عجم کے بادشاہوں کی سوانح ، اگلی امتوں کے قصے، رسول اللہ ﷺ کے واقعات، جہاد و جنگ، آپ کے احکام، آپ کے فیصلے، آپ کے وعظ اور خطبے، آپ کی نبوت کی نشانیاں اور معجزے، آپ کی بیویوں کے، اولاد کے، رشتہ داروں کے، اصحاب کے احوال، ان کے فضائل و مناقب ، اخبار، ان کے نسب نامے، ان کی عمریں، قرآن کریم کی تفسیر، اس کی خبروں اور اس کی نصیحتوں کا بیان، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے احکام اسلامی میں محفوظ فیصلے، ائمہ کرام اور فقہاء مجتہدین میں سے کون کون کس کس کے قول کی طرف مائل ہے وغیرہ تمام باتیں موجود ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے اہل حدیث کو شریعت کے ارکان بتائے ہیں۔ انہی کے ہاتھوں ہر بری بدعت کا خاتمہ ہوتا ہے۔ اللہ کی مخلوق میں یہ اللہ کے امین ہیں۔ نبی ﷺ اور آپ کی امت کے درمیان واسطہ ہیں آپ کے دین کے حفظ اور یاد کرنے میں پوراانہماک اور کامل کوشش کرنے والے ہیں۔ انکے انوار روشن ہیں۔ انکے فضائل مشہور ہیں۔ ان کی نشانیاں ظاہر ہیں۔ ان کا مذہب پاک ہے۔ ان کی دلیلیں پختہ ہیں۔ ہر فرقہ کسی نہ کسی خواہش کی تابعداری میں پڑا ہوا ہے اور کسی نہ کسی کی رائے قیاس کو اچھا جان کر اس پر جم گیا ہے۔ لیکن اہلحدیث کی جماعت ہے کہ ان کا ہتھیار صرف کتاب اللہ ہے اور ان کی دلیل صرف حدیث رسول اللہ ﷺ ہے۔ ا ن کے امام صرف اللہ کے پیغمبر ہیں ان کی نسبت بھی صرف محمد ﷺ ہی کی طرف ہے (یعنی محمدی) وہ خواہشوں کے پیچھے نہیں پڑتے۔ وہ رائے قیاس کی طرف توجہ بھی نہیں کرتے۔ وہ رسول اللہ ﷺ کی حدیثوں کے روایت کرنیوالے ان کے امین اور نگہبان ہیں۔ یہ دین کے محافظ اور اس کے نگہبان ہیں۔ یہ علم سے بھرپور ظروف اور صحیح علم والے ہیں۔ جس حدیث میں اختلاف ہو اس کا فیصلہ وہی کرینگے۔ انہی کا حکم سنا جائیگا اور مانا جائیگا۔ سمجھدار علماء، بلند پایہ فقہاء، کامل زاہد، پورے فاضل، زبردست قاری، بہترین خطیب یہی ہیں جمہور عظیم انہی کو کہا جاتا ہے۔ انہی کی راہ سیدھی ہے۔ بدعتیوں کو رسوا کرنے والے یہی ہیں۔ ان کے مخالفین اپنے عقائد کے اظہار پر بھی قادر نہیں ہیں۔ ان کے ساتھ فریب کرنے والوں کو اللہ نیچا دکھائے گا۔ ان سے دشمنی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ ذلیل و رسوا کریگا۔ ان کی برائی چاہنے والے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ انہیں چھوڑنے والے ہرگز فلاح نہیں پاسکتے۔ ہر وہ شخص جو اپنے دین کابچاؤچاہتا ہو ان کے ارشادات کا محتاج ہے۔ ان کی طرف بری نگاہ سے دیکھنے والوں کی بینائی ضعیف ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ان کی مدد پر قادر ہے۔
نبی ﷺ فرماتے ہیں(جس کا مفہوم ہے)
میری امت میں سے ایک جماعت حق پر ہمیشہ باقی رہے گی۔ اللہ ان کا مددگار ہوگا ان کے دشمن انہیں ضرر نہ پہنچاسکیں گے۔ یہاں تک کہ قیامت آجائے۔
امام علی بن مدینی رحمۃاللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں اس سے مراد جماعت اہلحدیث ہے جو لوگ رسول اللہ ﷺ کا دین مانتے ہیں اور آپ کے علم کی حفاظت کرتے ہیں اگر یہ نہ ہوتے تو ہم معتزلہ، رافضیہ، جہمیہ، مرجیہ اور رائے قیاس والوں کے سامنے کوئی حدیث پیش نہ کرسکتے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ منصور جماعت دین کی نگہبان بنائی ہے اور دشمنانِ دین کے ہتھکنڈے بے اثر کر دئے ہیں۔ اس لئے کہ وہ شرع متین کو مضبوط تھامنے والے اور صحابہ اور تابعین کی روش پر قائم ہیں۔ ان کا کام ہی یہ ہے کہ حدیثوں کو حفظ کریں اور ا سکی تلاش میں تری ،خشکی ، جنگل او رپہاڑ چھان ماریں۔ نہ کسی کی رائے قیاس کودل میں وقعت دیں نہ کسی کی نفسانی خواہشوں کی پیروی کریں۔
یہی وہ جماعت ہے جس نے سنت رسول ﷺ کو زبانی بھی یاد کیا اور عمل بھی اسی پر رکھا۔ جنہوں نے دل میں بھی اسی کو جگہ دی اورنقل بھی اسی کو کیا۔ کھرے اور کھوٹے کو الگ الگ کر دکھایا حقیقتاً یہ انہی لوگوں کا حصہ تھا اور یہی اس کے اہل تھے۔ بہت سے ملحدوں نے ہر چند چاہا کہ اللہ کے دین میں خلط ملط کریں لیکن اس پاک جماعت کی وجہ سے ان کی کچھ نہ چل سکی ارکان دین کے محافظ امر دین پر قائم یہی لوگ ہیں۔ جب کبھی موقعہ آجائے یہ حدیث رسول ﷺ کے بچاؤ کے لئے اپنی جانوں کو ہتھیلیوں پر لے کر باہر نکل آتے ہیں یہی لوگ اللہ کا لشکر ہیں اور یقینا یہ اللہ کا لشکر ہی فلاح پائے گا۔
ایک اور حدیث میں اتنی زیادتی بھی آئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس علم حدیث کو ہر بعد والے زمانے میں عادل لوگ لیں گے۔ جو زیادتی کرنے والوں کی زیادتی اور باطل پرستوں کی حیلہ جوئی اور جاہلوں کی معنی سازی اس سے دور کرتے رہیں گے۔
احمد بن سنان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے خواب میں دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ دو جماعتوں کے درمیان تشریف فرماہیں ایک حلقہ میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ہیں اوردوسرے میں ابن ابی داؤد ہیں۔ اور رسول اللہ ﷺ قرآن کی آیت
فَاِنْ یَّکْفُرْ بِہَا ھٰؤُلٓائِ (یعنی اگر یہ لوگ اس کے ساتھ کفر کریں )پڑھتے ہیں اور آپ اشارہ کرتے ہیں ابن داؤد اور اس کے ساتھیوں کی طرف جو اہل الرائے تھے۔
پھر پڑھتے ہیں
فَقَدْ وَکَّلْنَا بِہَا قَوْمًا لَّیْسُوْا بِہَا بَکَافِرِیْنَ (الانعام:89) (یعنی ہم نے ایک ایسی قوم بھی اس کی طرفدار بنائی ہے جواس کے ساتھ کبھی کفر نہیں کرے گی) ، اور آپ اشارہ کرتے ہیں امام احمد رحمہ اللہ اور ان کے ساتھیوں کی طرف۔
امام خطیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابو محمد عبداللہ بن مسلم بن قتیبہ رحمہ اللہ اپنی کتاب تاویل مختلف الحدیث میں بدعتی گروہ جو اعتراضات اہلحدیث پر کرتے ہیں انہیں بیان کرکے ان کا پورا جواب دیتے ہیں جو کہ ہر اس شخص کو جو نیک نیتی کے ساتھ اللہ کی جانب سے توفیق والا ہوتو کافی وافی ہیں۔
میں بھی اپنی اس کتاب میں ان شاء اللہ تعالیٰ بیان کروںگا کہ نبی ﷺ نے کس طرح لوگوں کو اپنی حدیثیں پہنچانے کا حکم فرمایا ہے۔ اورکیسی کیسی رغبتیں انہیں دلائی ہیں۔ آپ کی حدیثیں نقل کرنے کی کیا کیا فضیلتیں ہیں۔ پھر میں اس بارے میں صحابہ اور تابعین اور علماء دین سے بھی جو کچھ وارد ہے اسے بیان کروں گا جس سے اہلحدیث کے فضائل ان کے درجات ان کے مناقب اور ان کی بزرگیاں معلوم ہونگی۔
اللہ عزوجل سے ہماری دعا ہے کہ وہ ہمیں ان کی محبت کی وجہ سے نفع دے اور انہیں کے طریقہ پر زندہ رکھے اور اسی پر مارے۔ اور انہیں کے ساتھ حشر کرے۔ وہ خبر رکھنے والا جاننے والا اور ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔