• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فضائل اہلحدیث

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نام کتاب
فضائل اہلحدیث

تألیف
حافظ ابوبکر احمد بن علی بن ثابت الخطیب البغدادی رحمہ اللہ

مترجم
الشیخ خالد گرجاکھی حفظہ اللہ

نظر ثانی
الشیخ عبدالعظیم حسن زئی اور حافظ عبدالحمید گوندل حفظہما اللہ

ناشر

دارالتقوی کراچی
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
تعارف
الحمد ﷲ الذی اصح حدیث دینہ باسنادہ الرفیع ۔ واوثق سنتہ باسناد رسولہ محمدن الشفیع۔ والصلوۃ والسلام علی من اسند شرعتہ بالصحۃ الکاملۃ واحسن الضنیع ۔ وعلی آلہ واصحابہ ھداۃ السبیل من غیر شذ وذ و تدلیس شنیع ۔ اللہم صل وسلم علی ما طلع القمران و تعاقبت الملوان
حدیث کا لفظ عربی زبان میں گفتگو کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ گفتگو کا تعلق حق تعالیٰ سے ہو یا انبیاء علیہم السلام یاعامۃ الناس سے، مگر فن حدیث کی اشاعت اوررواج کے بعد یہ لفظ حقیقت عرفیہ کے طور پر رسول اللہ ﷺ فداہ ابی وامی کے اقوال و افعال وغیرہ پر بولا جاتا ہے۔ خصوصاً دینی امور اور اسلامی مسائل میں جب حدیث کا تذکرہ آجائے تو اس سے مراد صرف حدیث نبوی ﷺ ہوگی۔ ائمہ فن کبھی بعض صحابہ کے ارشادات کو بھی اس میں شامل فرمالیتے ہیں۔ موطا امام مالک، مصنف ابوبکر بن ابی شیبہ اور مسند طیالسی وغیرہ کو آثار کی کثرت کے باوجود عموماً حدیث ہی کی کتب میں شامل سمجھا گیا ہے۔ تدوین فن حدیث کے جمع و تدوین کی رفتار بالکل طبعی ہے۔ ابتداء میں رسول اللہ ﷺ کے ارشادات، آپ ﷺ کی زندگی کے واقعات ،آپ کے سیر اور مغازی ، سفر و حضر کے حوادث ذہنوں میں منقش تھے۔ جیسے دنیا میں دیکھے بھالے اہم واقعات ذہنوں میں مرتسم ہوتے ہیں۔ سالہا سال تک وہ ذہن سے نہیں اترتے۔ عقیدت کے بناء پر یا استدلال کے لئے آپ ﷺ کا تذکرہ ہوتا تو یہ ذہنی نقوش حروف کی صورت اختیار کرلیتے۔ بعض اوقات نبی ﷺ کے بعینہٖ الفاظ دہرائے جاتے اور عموماً الفا ظ کی پابندی کی بجائے مفہوم اداء فرمایا جاتا۔ مگر چونکہ آپ ﷺ کی طرف کسی غلط چیز کی نسبت نہ صرف حرام بلکہ اس کی جزاء حتماً جہنم تھی اس لئے صحابہ رضی اللہ عنہم مفہوم کی ادائیگی میں پوری احتیاط کرتے اور کوشش فرماتے کہ کوئی غلط چیز آپ ﷺ کی طرف منسوب نہ ہونے پائے۔ چند سال میں ان نقوش و الفاظ اور اسی دور کے محفوظ تذکروں نے علم اور فن کی صورت اختیار کرلی ۔ اسلامی حکومت کی سرپرستی، عامۃ المسلمین کے احترام اور دین حق کی محبت کی وجہ سے اسے دنیا میں ایک مقدس اورمعزز پیشہ تصور کیاگیا۔ مساجد ، معابد اور مدار س حدیث نبوی ﷺ کے تذکروں سے گونجنے لگے۔ اور اس فن کے ماہرین کی للہیت اور خلوص کا یہ مقام تھا کہ وہ بادشاہوں کوحقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ بادشاہ اپنی دولت ان کے قدموں میں ڈالنا فخر سمجھتے اور یہ کجکلاہانِ بے کلاہ اور تاجداران بے تاج اسے بے نیازی سے ٹھکرا دیتے۔ ان میں خوبی یہ تھی کہ دنیا کے ہر اعزاز سے بے نیاز تھے اس علم کی خدمت اپنا خوشگوار فرض تصور فرماتے تھے۔ اسکی حفاظت اپنا ذمہ سمجھتے تھے۔ عقائد ،اعمال، فروع اور اصول میں وہ قرآن اور سنت ہی کو حجت سمجھتے تھے اور اس کے خلاف دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ وہ قلبی طور پر مطمئن تھے کہ حق وہی ہے جو ان کو کتاب و سنت سے ملا ہے۔ اسے کسی دوسری کسوٹی پر نہیں پرکھا جاسکتا بلکہ لوگوں کی کسوٹیاں اس پر آزمائی جانی چاہئیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
[FONT=&quot]فرعی اختلاف[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot]عبادات، معاملات وغیرہ میں فرعی اختلاف صحابہ اور تابعین میں موجود تھے۔ اس میں بعض انفرادی آراء بھی پائی جاتی تھیں۔ سیدنا عمررضی اللہ عنہ اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا حج تمتع سے انکار ۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا جنبی کے تیمم سے انکار، سیدنا ابن مسعودرضی اللہ عنہ کا نماز میں تشبیک کرنا، قرآن عزیز کے متعارف مجموعہ پر اعتراض اورابن عباس رضی اللہ عنہ کا متعۃ النکاح کے جواز کی طرف رجحان وغیرہ امور۔ مگر وہ ان چیزوں کو گوارا فرماتے تھے وہ سمجھتے تھے۔ ہر آدمی اپنے فہم اور علم کا پابند ہے۔ ان اختلافات کی بنیاد نہ تو عناد پر ہے نہ جامد تقلید پر۔ بلکہ اہل علم نے جو کچھ نیک دلی سے سمجھا اس پر عمل کر لیا۔ اہل حدیث نے فرعی اختلافات پر اپنے مسلک اور مکتب فکر کی بنیاد اسی روش پر رکھی۔ ائمہ تابعین کابھی یہی طریق رہا۔ اس کا پتہ کتب حدیث ،شروح حدیث اور فقہاء حدیث کی تصانیف سے تفصیلاً چل سکتا ہے کہ کس وسعت قلب سے ان اختلافات کو گوارا اور برداشت فرمایا گیا ۔ اور اس اختلاف سے وحدت اسلامی کوکوئی نقصان نہیں پہنچا بلکہ عقائد اور اصول میں اس وقت کوئی اختلاف نہیں ہوا اور اگر کہیں کوئی بدعی عقیدہ پیدا ہوا اسے دبا دیا گیا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اور عمر بن عبدالعزیز کا حروریہ سے مناظرہ (جامع فضل العلم ص 103/2ص196/2)اورسیدنا عمر کا صیغ اسلمی کی سرکوبی سے واضح ہوتا ہے کہ عقائد میں اختلاف گوارا نہیں کیاجاتا تھا۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot]اہلحدیث کا مسلک بھی یہی تھا کہ فروع میں اپنی تحقیق پر عمل کیا جائے۔ اختلاف کو گوارا کیا جائے اس میں تشدد نہ کیا جائے اور اصو ل کی پوری پختگی سے پابندی کی جائے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
عباسی انقلاب

دوسری صدی ہجری کے آغاز میں اموی حکومت کا چراغ گُل ہوگیا اور اس کی جگہ عباسی حکومت نے لے لی۔ اور قلمدان وزارت پر قابض ہوگئے۔ فارسی عناصر آگے بڑھے عرب معتوب ہوکر حکومت سے دور دور رہنے لگے۔ یونانی نظریات نے اسلامی روایات کو متاثر کرنا شروع کیا۔ اسلامی عقائد میں شکوک و شبہات پیدا ہونا شروع ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی تقلید اور جمود نے فرعی اختلافات کی سرپرستی شروع کی اور جمود کے سایہ میں چار مکاتب، اسلام کی ترجمانی کے ذمہ دار قرار پائے اور بتدریج تقلید کو واجب کہاجانے لگا۔
یہ دونوں امر مسلک اہلحدیث کے مزاج اور اس کے خمیر سے مناسبت نہیں رکھتے تھے۔ اس لئے ائمہ حدیث نے دونوں مقام پر علیحدگی اختیار کی بلکہ ضرورت اور استعداد کے مطابق اس سے تصادم فرمایا ۔ ائمہ حدیث کی حیثیت افراط و تفریط میں برزخ اور مقام اعتدال کی رہی۔ عقائد میں فلاسفہ متکلمین کے غلو سے الگ تاویل کی ظلمتوں سے بچ کر انہوں نے کتاب و سنت کے دامن میں پناہ لی۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ، امام عبدالعزیز رحمہ اللہ کنانی، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ، ابن القیم رحمہ اللہ، وغیرہ کی مصنفات ا سکی صریح شاہد ہیں کہ ان لوگوں نے فلسفہ اور علم کلام کو سمجھ کر اسی زبان اوراسی لہجہ میں ان کی کمزوریوں کو واضح فرمایا۔
صحاح ستہ اور فن حدیث کی دوسری کتابیں اس کی بیّن دلیل ہیں۔ محدّثین احادیث کو بلا تعصب نقل کرتے ہیں۔ رجال کا تذکرہ بھی اسی انداز سے کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں عملاً کسی کو ترجیح ہو نقل میں کمی بیشی نہیں کرتے۔ کلام اورفقہ کے علاوہ بھی ہر مقام اختلاف میں ان کے سوچنے کا یہی طریق ہے وہ اپنی تحقیقی راہ رکھتے ہیں جس میں حزم اور اعتدال ملحوظ رکھاگیا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
مغالطہ

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اہلحدیث صر ف ان لوگو ں کا نام ہے جنہوں نے فن حدیث کو جمع کیا۔اسانید اور متون کو حسب ضرورت مرتب اور مدون کیا۔
یقینا ائمہ حدیث نے یہ خدمت بڑی جانفشانی سے کی اور اس پر بڑی محنت فرمائی۔ پوری تین صدیاں حفظ ،ضبط تدوین اور علوم سنت کی اشاعت میں صرف فرمائیں دوسرے مکاتب فکر کے علماء نے بھی ان لوگوں کے ساتھ تعاون کیا طحاوی، ترکمائی، بیہقی اور نابلسی کانام ان میں سرفہرست ہے۔ موالک اور حنابلہ میں بڑے بڑے اکابر نے یہ خدمت سرانجام دی ہے۔شکر اللہ مساعیہم یہ لوگ اس خدمت کے وقت بھی اپنے مکتب فکر کی رعایت نظر انداز نہیں فرماتے تھے۔
لیکن ائمہ حدیث نے فن کی خدمت بے لاگ ہوکر فرمائی۔ سب کے لئے سنت کا مواد فراہم کیا اور اپنی سوچ کا انداز رسول اللہ ﷺ اور صحابہ اور تابعین کے انداز فکر پر رکھا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:۔
ومن اھل السنۃ والجماعۃ مذھب قدیم معروف قبل ان یخلق اللہ ابا حنیفۃ وما لکاوالشافعی واحمد فانہ مذہب الصحابۃ الذین تلقوہ عن ننبیہم ومن خالف ذالک کان مبتدعا عند اھل السنۃ والجماعۃ (منہاج السنۃ ص256ج1)
اہل سنت کا ایک قدیم اور مشہور مذہب ہے جو ان ائمہ امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور احمد رحمہم اللہ کی پیدائش سے بھی پہلے تھا۔ یہ صحابہ کامذہب تھا جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سیکھا تھا جو اسکی مخالفت کرے وہ اہل سنت کے نزدیک بدعتی ہے۔
حافظ سیوطی، ابو القاسم لال کائی 418؁ھ سے نقل فرماتے ہیں :۔
ثم کل من اعتقد مذھبا فانی صاحب مقالۃ التی اخذ بہا فیتسب والی رایہ یستند الا اصحاب الحدیث فان صاحب مقالتہم رسول اللہ ﷺ فہم الیہ ینتسبون و الی علمہ یستندون و بہ یستدلون ۔(صون المنطق ص 110)
ہر فرقہ اپنے مقتدا کی طرف نسبت کرتا ہے اور اس کے علم سے سند لیتا ہے۔ لیکن اہلحدیث ان کے صاحب ِ مقالہ اور مقتدا رسول اللہ ﷺ ہیں۔ وہ اپنی نسبت آپ ﷺ ہی کی طرف کرتے ہیں اور آپ ﷺکے علم سے استدلال کرتے اور سندلیتے ہیں۔
ا س مکتب فکر کا اعتراف خود محققین احناف کو بھی ہے چنانچہ علامہ چلپی کشف الظنون میں فرماتے ہیں ۔
واکثر التصانیف فی اصول الفقہ لاھل الاعتزال المخالفین لنا فی الاصول ولاھل الحدیث المخالفین لنا فی الفروع ولا اعتماد علی تصانیفہم ۔(مجمع قدیم ص89ج1)
اصول فقہ میں زیادہ تر تصانیف معتزلہ اور اہل حدیث کی ہیں۔ اول اصول میں ہماری مخالف ہیں اور دوسرے فروع میں ۔
علامہ عبدالکریم شہرستانی فرماتے ہیں :۔
ثم المجتہدون من ائمۃ الامۃ محصورون فی صنفین لا یعدون الی ثالث اصحاب الحدیث و اصحاب الرائے۔(الملل والنحل علی ہامش کتاب الفصل لابن حزم ص45ج2)
مجتہد دو ہی قسم کے ہیں۔ تیسری کوئی قسم نہیں۔ اہل حدیث اور اہل الرائے۔
اس قسم کی تصریحات مقدمہ ابن خلدون ۔حجۃ اللہ ۔ تفہیمات مشکل الحدیث ابن خوراک میں بکثرت ملتی ہیں۔
یہ مغالطہ کہ اہل حدیث صرف اصحاب فن کانام ہے تعصب کی پیداوار یا قلت مطالعہ کا نتیجہ ہے ۔
حافظ ابوبکر احمد بن علی بن ثابت الخطیب البغدادی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’شرف اصحاب الحدیث‘‘میں اسی مکتب فکر کے فضائل کو کسی قدر ربط سے لکھا ہے عقائد اور کلام میں ان کی مساعی اور فروع میں ان کی مقدس کوششوں کا تذکرہ فرمایا ۔اہل علم اس موضوع پر اتنا موادیکجا مشکل پاسکیں گے۔ اسے ’’دارالتقویٰ‘‘ ارباب ذوق کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کرتا ہے قارئین کا تعلق کسی بھی مکتب فکر سے ہو ان سے اس مکتب فکر کے متعلق انصاف کی امید رکھتاہے۔
پہلی صدی سے تیسری صدی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی قلمرو میں حجاز سے فارس تک اور ادھر حدود شام اور اقصاء مغرب تک اصحاب الحدیث چھائے ہوئے تھے۔ تدوین حدیث کے مدارس جابجا قائم تھے۔ آج جس دور میں سنت کو ہم سرمایہ ایمان سمجھتے ہیں یہ اس دور کے اصحاب الحدیث کی مساعی کا نتیجہ ہے۔ ایران اور افغانستان جہاں شیعیت اور حنفیت کا طوطی بولتا ہے، یہاں اس وقت گلستانِ نبوت کے ہزاروں عندلیب اپنے خوشنوا نغموں سے ان گلزاروں کو معمور کررہے تھے۔آج قدرت کی بے نیازیوں کا یہ عالم ہے کہ پوراایران رفض کے زیرنگین ہے جہاں کی ساری سربلندیاں محرم کی سینہ کوبی سے آگے نہیں بڑھ سکیں۔ افغانستان پر تقلیدی جمود کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ قرآن و سنت کا نام لینے پر بعض اصحابِ حال کو ترک وطن کے سواء کوئی چارہ نہ رہا۔
خطیب بغدادی رحمہ اللہ چوتھی صدی کے آخر 24رجب 392؁ء میں پیدا ہوئے اس وقت قلتِ علم اور حکومت کے استبداد کی وجہ سے عساکر سنت پیچھے ہٹ رہے تھے۔ مختلف فقہیں حکومتوں کی سرپرستی میں اپنے پاؤں جما رہی تھیں ۔مصر، شام، حجاز، عرا ق اور فارس سب جگہ اسلام کی ترجمانی ان مختلف مکاتب کے توسط سے ہورہی تھی۔ حکومتیں عقیدت کی وجہ سے یاسیاسی عوامل کے سبب سے اس جامد دعوت کی سرپرستی پر مجبور تھیں۔
اور یہ بیچارے اصحاب الحدیث بادشاہی درباروں سے دور علم کی خدمت اور سنت کی اشاعت کیلئے کسی اچھے وقت کے امیدوار اور منتظر تھے۔ لیکن یہ چوتھی صدی حریت فکر کی دعوت کیلئے کچھ زیادہ سازگار نہ تھی۔
ان حالات سے متاثر ہوکر خطیب بغدادی رحمہ اللہ کو ’’شرف اصحاب الحدیث‘‘ لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ائمہ اربعہ کی اتباع میں بڑے اصحابِ کمال اور ارباب علم و تقویٰ موجود تھے۔ جن کی خدماتِ ملّی کے سامنے آنکھیں جھکتی ہیں اور سرنگوں ہوتا ہے لیکن اصحاب الحدیث اس انداز فکر سے مطمئن نہ تھے۔ وہ ان شخصی پابندیوں کو کسی قیمت پر بھی پسند نہیں کرتے تھے نہ ہی وہ ان موشگافیوں کو پسند فرماتے تھے جو عقائد میں متکلمین اسلام نے پیدا کی تھیں۔ فروع فقیہہ میں جہاں اجتہاد کی ضرورت تھی وہاں ان مقلدین نے تقلید اور جمود کو ضروری سمجھا اور تلفیق سے گھبرانے لگے۔ اور عقائد میں جہاں صرف نصوص پر قناعت کرکے کتاب و سنت سے تمسک ضروری تھا وہاں فکر و نظر کے ایسے سیلاب بہائے کہ ایمان و دیانت کی حدود کوبسا اوقات مسمار کرکے رکھ دیا
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
وہ ظالم گر گئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا

محدّثین اس قلب حقائق کو پسند نہیں فرماتے تھے جس کی داغ بیل چوتھی صدی میں امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے سامنے رکھی گئی انہوں نے فقہ العراق پر اس انداز سے تنقید کی کہ اس کی تلخی آج بھی داعیانِ تقلید و جمود محسوس کر رہے ہیں ۔
اس وقت فتنہء عقائد فلسفہ اور کلا م کی صورت میں تھا۔ آج ارباب جمود نے عقائد کے ایسے باب کو کھولا ہے جسکا کتاب و سنت سے دور کابھی تعلق نہیں بلکہ فقہاء عراق رحمہم اللہ بھی اس سے ناآشنا تھے ۔قدُما متکلمین اس سے بے خبر تھے یہ ساری بے اعتدلیاں محدثین کے معتدل طریق فکر کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہیں جسکی دعوت امام ابوبکر خطیب نے شرف اصحاب الحدیث میں دی ہے۔
شرف اصحاب الحدیث کے عربی متن کی اشاعت جمعیۃ اہلحدیث نے پہلے کی ہے اب ترجمہ آپکی خدمت میں پیش ہورہا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق کو قبول کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔(آمین)
عبدہ
خالد بن نور السلفی
کان اللہ لہ​
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
مختصر حالات

امام ابوبکر الخطیب البغدادی رحمہ اللہ
نام ۔احمد بن علی
کنیت۔ابوبکر
لقب۔خطیب
وطن۔بغداد
پیدائش۔392ہجری
وفات۔463ہجری
امام ذھبی رحمہ اللہ تذکرۃ الحفاظ (جلد3صفحہ 312) میں فرماتے ہیں:
خطیب بغدادی رحمہ اللہ بڑے حافظ، امام اور شام و عراق کے محدّث تھے۔ آپ کے والد بھی بہت بڑے محدّث اور زنجان کے خطیب تھے۔ کنیت ابوبکر اور نام احمد بن علی بن ثابت ہے۔ 24جمادی الاخری 392؁ھ بروز جمعرات بغداد میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم سے آپ گیارہ سال کی عمر میں فارغ ہوگئے۔ پھر طلبِ علم حدیث میں لمبے لمبے سفر کئے۔ اور اس فن میں ایک ممتاز حیثیت حاصل کر لی۔
ان کے شاگرد ابن ماکولا کہتے ہیں:
خطیب رحمہ اللہ حدیث نبوی کی معرفت، حفظ، ضبط، اتقان اور حدیثوں کی علتوں اور سندوں کے جاننے اور صحیح و غریب مضرو منکر اور ساقط کے معلوم کرنے میں ان خاص لوگوں میں تھے جن کا میں نے مشاہدہ کیا ہے امام دارقطنی رحمہ اللہ کے بعد خطیب جیسا کوئی محدث پیدا نہیں ہوا۔ اور شاید خطیب نے خود بھی اپنے جیسا کسی کو نہ پایا ہوگا۔
ابو اسحق شیرازی کہتے ہیں:
خطیب رحمہ اللہ حدیث کو پہچاننے اور یاد رکھنے میں امام دارقطنی رحمہ اللہ کے مثل تھے۔
حافظ سمعانی نے فرمایا:
خطیب رحمہ اللہ ہیبت اور وقار والے ثقہ، مستعد، خوشخط، بڑے ضابط اور فصیح تھے حافظوں کا ان پر خاتمہ ہوگیا۔
ابن شافع نے کہا:
علوم حدیث میں حفظ و اتقان کا خطیب پر خاتمہ ہوگیا۔
سمعانی کہتے ہیں:
خطیب رحمہ اللہ کی 52تصنیفات ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ تاریخ ابن خلکا ن میں مرقوم ہے کہ خطیب رحمہ اللہ کی تقریباً 100کے قریب تصنیفات ہیں اور اگر ان کی تصنیف سوائے تاریخ بغداد کے اور کوئی بھی نہ ہوتی تو صرف یہ تاریخ ہی ان کے فضل اور وسعت معلومات کی شہادت کے لئے کافی تھی تذکرۃ الحفاظ میں آپ کی بعض تصانیف کے نام بھی ہیں ان میں اس کتاب ’’شرف اصحاب الحدیث‘‘ کا ذکر بھی ہے۔
شجاع دہلی نے کہا کہ خطیب بغدادی امام تھے مصنف تھے ان جیسا کوئی نہ تھا۔
فضل بن عمرنسوی کہتے ہیں میں جامع منصو ر میں امام خطیب رحمہ اللہ کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک علوی آیا اور امام صاحب سے عرض کی کہ یہ تین سو دینار ہیں آپ اسے قبول فرمائیے اور اپنی ضرورت میں خرچ کریں آپ نے نہایت لاپرواہی سے انکار کردیا اس نے ان دیناروں کو آپ کی جائے نماز پرڈال دیا آپ جھلا کر جائے نماز جھاڑ کر وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور وہ شخص اپنا سامنہ لے کر اپنے دینار سمیٹ کر چل دیا۔
ابو زکریا تبری کابیان ہے کہ میں جامع دمشق میں پڑھتا تھا اور مسجد ہی کے ایک حجرہ میں رہتا تھا کبھی کبھی امام خطیب رحمہ اللہ میرے پاس تشریف لاتے اِدھر اُدھر کی کچھ باتیں کرکے مجھ سے فرماتے دیکھو بھائی ہدیہ قبول کرنا بھی مسنون طریقہ ہے۔ یہ کہہ کر ایک پڑیا میرے سامنے رکھ کر چلے جاتے میں اسے کھولتا تو اس میں پانچ اشرفیاں نکلتیں جو آپ مجھے قلم دوات کے خرچ کے لئے دے جایا کرتے تھے۔
آپ خوش آواز بلند لہجہ تھے جس وقت جامع مسجد میں احادیث پڑھتے تھے تو مسجد گونج اٹھتی تھی الفاظ حدیث کے اعراب ظاہر کرکے نہایت صحت کیساتھ پڑھتے تھے۔ حج کے زمانہ میں جب آپ چاہ زمزم کے پاس پہنچتے ہیں تو اس حدیث کو یاد کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (جس کا مفہوم ہے)
زمزم کا پانی جس مقصد کے لئے پیاجائے اسے پورا کرتاہے۔
آپ تین مقصد دل میں رکھتے اور تین مرتبہ زمزم کا پانی پیتے:
ایک تو یہ کہ تاریخ بغداد آپ لکھ سکیں
دوسرے یہ کہ بغداد کی مشہور جامع منصورمیں آپ درس حدیث دیں۔
تیسرے یہ کہ بشر حانی کے پڑوس میں آپ دفن ہوں آپ کی یہ تینوں دعائیں قبول ہوئیں۔ دس ضخیم جلدوں میں آپ نے تاریخ بغداد لکھی۔ جامع بغداد کے آپ مدرس بنے اورانتقال کے بعد آپ کی تربت بھی وہیں ہوئی جہاں آپکی دعا تھی۔ آپ کا مرتبہ حکومت کی نظر میں اتنا بڑا تھا کہ رئیس الروساء نے حکم دیا تھا کہ کوئی شخص وعظ اور خطبہ وغیرہ میں حدیث بیان نہ کرے جب تک کہ امام خطیب رحمہ اللہ سے اجازت نہ حاصل کر لے۔کیونکہ حدیث کی پرکھ میں آپ کو کمال حاصل تھا۔
یہودیوں نے خلیفہ اسلام کے سامنے ایک عہدنامہ پیش کیا۔ جس کا مضمون یہ تھا کہ یہودان خیبر سے جزیہ نہ لیاجائے۔ اس عہدنامہ پر بڑے بڑے صحابہ رضی اللہ عنہم کے دستخط تھے اور عہد نامہ نبی ﷺ کا کیا ہوا بتلایا جاتا تھا سلطنت میں ایک کھلبلی مچ گئی آخر امام خطیب رحمہ اللہ کے سامنے اسے پیش کیا گیا آپ نے بیک نگاہ دیکھتے ہی فرمایا کہ یہ جعلی ہے۔ یہودیوں کی شرارت ہے۔ انہوں نے خود اسے بنا لیا ہے۔ آپ سے ثبوت طلب کیاگیا۔ تو آپ نے فرمایا دیکھو اس پر ایک گواہی تو سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ہے۔ فتح خیبر 7ھ ؁ میں ہوا اور امیر معاویہ اس وقت اسلام بھی نہیں لائے تھے وہ 8 ھ؁ میں فتح مکہ والے سال مسلمان ہوئے تھے پھر ان کے دستخط اس عہد نامہ پر جو ان کے اسلا م سے ایک سال قبل لکھا گیا کہاں سے آگئے؟ علاوہ ازیں دوسری شہادت سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی ہے۔ حالانکہ جنگ خیبر سے پہلے وہ انتقال فرماچکے تھے ۔ 5ھ ؁ غزوہ خندق کے زمانہ میں انتقال ہوا اور 7ھ ؁ میں خیبر کی زمینیں رسول اللہ ﷺ کے قبضہ میں آئیں ۔ تو اپنے انتقال کے دوسال بعد وہ کسی عہدنامہ پر دستخط کیسے کرتے؟
یہ ایک واقعہ ہی نہیں اس جیسے بیسیوں واقعات نے دنیا کو مجبور کر دیاتھا کہ وہ باور کرلیں کہ امام خطیب رحمہ اللہ اپنے زمانے کے بے مثل امام اور زبردست علامہ اور لاثانی محدّث تھے۔
باوجود اس علم و فضل اور زہد و قناعت ، بے نفسی اور بے غرضی کے آپ بڑے سخی تھے۔ محدّثین اور طلبہ حدیث کے ساتھ عموماً اچھا سلوک کرتے تھے۔ انتقال سے پہلے اپنا تمام مال محدّثین پر تقسیم کر دیا۔ اپنی تمام کتابیں راہِ للہ وقف کر دیں۔علم حدیث کے تقریباً ہر فن میں آپ کی کوئی نہ کوئی تصنیف ہے آپ کی تصانیف کی عام مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ آ ج تمام علماء اور طلباء ان کے یکسر محتاج ہیں مخلوق ان کی تصانیف کی طرف مائل ہے۔ بڑے بڑے بلندپایہ شعراء نے آپ کی تصانیف کی تعریف میں زور قلم دکھایا ہے اور ان کی حلاوت کو، ان کی لذت کو، ان کی تحقیق کو، اور ان کی خوش اسلوبی اور حسن بیان اور بلند پایہ تحقیق کو نہایت پسند کیا ہے اور بہت تعریف کی ہے بلکہ دنیا کی کسی چیز کو وہ اتنا محبوب نہیں سمجھتے جتنی محبت انہیں امام خطیب رحمہ اللہ کی تصانیف سے ہے۔
امام خطیب رحمہ اللہ ماہِ رمضان کے نصف میں 463 ھ میں بیمار ہوئے۔ اول ذی الحجہ کو حالت نازک ہوگئی اور7ذی الحجہ کو انتقال ہوگیا ۔جنازہ کی نماز قاضی ابو الحسین نے پڑھائی اور آپ اپنی مقبول دعاء اور دلی تمنا کے مطابق بشر حانی کی قبر کے پاس دفن کئے گئے۔ ان کے جنازے کے آگے ایک جماعت یوں پکارتی جاتی تھی یہ وہ شخص ہے جو حدیثِ نبوی سے اعتراض کو دفع کرتا تھا۔ یہ وہ بزرگ ہیں جو رسول اللہ ﷺ سے کذب کو دور کرتے تھے۔ یہ وہ ہیں جو حدیث پیغمبر کے حافظ تھے۔ ان کا جنازہ اٹھانے والوں میں ابو اسحق شیرازی بھی تھے۔
علی بن حسین کہتے ہیں کہ خطیب کی وفات کے بعد خواب میں دیکھا کہ ایک شخص میرے سامنے کھڑ ا ہے۔ میں نے اس سے خطیب کا حال پوچھا اس نے کہا وسط جنت میں جاؤ وہاں نیکوں سے ملاقات ہوتی ہے۔نیز بعض صلحاء نے خواب میں دیکھ کر آپ کا حال پوچھا۔ آپ نے جواب دیا کہ آرام و آسائش اور نعمت والی جنت میں ہوں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ شرح نخبہ میں فرماتے ہیں کہ حدیث کے ہر فن پر خطیب رحمہ اللہ کی ایک مستقل کتاب موجود ہے۔
حافظ ابن نقطہ نے سچ فرمایا ہے کہ ہر مصنف کو علم ہے کہ محدّثین خطیب رحمہ اللہ کے بعد انہی کی کتابوں سے بہرہ یاب ہوتے رہے۔
ہم بلا خوف تردید کہہ سکتے ہیں کہ امام خطیب رحمہ اللہ مصنف شرف اصحاب الحدیث خاص خدمت حدیث کیلئے ہی پیدا کئے گئے تھے او ریہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے۔(رحمۃ اللہ علیہ)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
و صلی اللہ علیٰ سیدنا محمد و آلہ وسلم
شیخ امام حافظ ابو بکر احمد بن علی بن ثابت خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :۔
سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے سزاوار ہیں جس نے اپنے برگزیدہ مخلوق کے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا۔ اور اپنی مخلوق میں سے سب سے زیادہ پسندیدہ رسولوں کی معرفت اس دین کو بھیجا۔ اور ہمیں ان کی شریعت و ملت کا پابند اور اپنے نبی کے حریم سے مدافعت کرنے والا اور آپ کی سنتوں کا عامل بنایا۔ ہم اس کی ایسی حمد وثناء کرتے ہیں ، جس کے وہ لائق ہے ہم اسی سے بھلائی اور نیکی چاہتے ہیں اور ہم اس کے فضل کی زیادتی کے لئے اسی کی طرف رغبت کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ خاتم النبیین ہمارے سردار تمام انبیاء سے افضل اور تمام مخلوق سے بہتر محمد رسول اللہ ﷺ پر درود و سلام بھیجے۔ اور آپ کے بہترین اور بزرگ صحابہ پر اور قیامت تک جو بھی بھلائی کے ساتھ ان کی پیروی کریں۔
حمدو صلوٰۃ کے بعد اللہ عزوجل تمہیں بھلائیوں کی توفیق دے۔ اور ہم سب کو بدعتوں اور شک و شبہ سے بچائے تم نے جو ذکر کیا کہ مبتدعین لوگ سنت اور احادیث کے پابند لوگوں پر عیب گیری کرتے ہیں۔ اور حدیث کے پڑھنے اور یاد کرنے والوں پر طعنہ زنی کرتے ہیں۔ اور جو کچھ وہ پاک نفس سچے ائمہ سے صحیح طورپر نقل کرتے ہیں اس کی تکذیب کرتے ہیں۔ اور ملحدین کی باتیں لے کر حق والوں کا مذاق اڑاتے ہیں (کہ جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھی استہزاء کرتا ہے اور انہیں ان کی گمراہی میں اور بڑھاتا ہے اور وہ سرکش ہوتے جاتے ہیں) تو جان لو کہ خواہش کے پیروکار لوگ اور جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی سیدھی راہ سے بہکا دیا ہے ان کا یہ کام کوئی تعجب خیز امر نہیں۔ ان کی ذلت تو اسی سے ظاہر ہے کہ انہیں نہ تو قرآن کریم کے احکام پر نظر ہے نہ اس کی کھلی آیتیں ان کی دلیل ہیں۔ بلکہ ان لوگوں نے حدیثِ رسول ﷺکو پس پشت ڈال دیا۔ اور اللہ کے دین میں اپنی رائے اور قیاس کو دخل دیدیا۔ ان کے نوعمر لوگ ہزلیات میں پڑگئے۔ اور ان کے عمر رسیدہ لوگ فضولیات اور حجت بازی میں مشغول ہوگئے۔ ان لوگوں نے اپنے دین کو جھگڑوں کا نشانہ بنا لیا اور ہلاکت کے گڑھے میں اور شیطان کے پھندوں میں اپنی جانیں ڈالدیں۔ شک و شبہ کی وجہ سے حق اٹھ گیا اور وہ اس حالت کو پہنچ گئے کہ احادیث رسول ﷺ کی کتابیں اگر انکے سامنے پیش کی جائیں تو انہیں ایک طرف ڈال دیتے ہیں اور دیکھے بغیر منہ پھیر کر بھاگنے لگتے ہیں۔ اور ان عمل کرنے والوں اور ان کی روایت کرنے والوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ محض دین حق کی دشمنی اور مسلمانوں کے قابل احترام اماموں پر طعنہ زنی کرکے۔
لطف تو یہ ہے کہ یہ لوگ عوام میں بیٹھ کر بڑے فخر سے ڈینگیں مارتے ہیں کہ ہماری تو عمر علم کلام میں گذری۔ اپنے سوا یہ تمام لوگوں کو گمراہ جانتے ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ بس نجات وہی پائیں گے۔اس لئے کہ وہ کسی کی نہیں مانتے اور خود کو عدل وتوحید والے سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اگرغور سے دیکھا جائے تو ان کی توحید، شرک و الحاد ہے اس لئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے شریک اس کی مخلوق میں سے اوروں کوبھی بناتے ہیں۔ ان کے عدل کوبھی اسی طرح اگر جانچا جائے تو وہ یہ ہے کہ یہ لوگ صحیح اور ٹھیک راستے سے ہٹ کر کتاب و سنت کے مضبوط احکام کے خلاف ہوگئے ہیں۔ تم دیکھو گے کہ ایسے علم کے محتاجوں کو جب کبھی کسی مسئلہ کی ضرورت پڑتی ہے تو کسی فقہ کے جاننے والے کی طرف لپکتے ہیں۔ اسی سے مسئلہ دریافت کرتے ہیں اور اسی کے قول پر عمل کا دارومدار رکھتے ہیں۔ پھر اسی فتوے کو دوسروں تک پہنچاتے رہتے ہیں اور پورے مقلد ہوجاتے ہیں حالانکہ خود کو محقق سمجھتے ہیں۔ لیکن ان کے اقوال کو چمٹ جاتے ہیں بس ادھر فتویٰ صادر ہوا ادھر ان کا عمل شروع ہوا۔ حالانکہ بہت ممکن ہے کہ ان کے فتوے غلط ہوں۔ اور ان میں غور و خوض کی ضرورت ہو ہم نہیں سمجھتے کہ تقلید کو حرام جان کر پھر بھی …کیوں حلال کرلی جاتی ہے ؟اور ایک گناہ کو کبیرہ جانتے ہوئے پھر اسے کس طرح آسانی سے کرنے لگتے ہیں ؟سچ تو یہ ہے کہ جو چیز دنیا اور آخرت میں کوئی نفع نہ دے سکے اسے پھینک دینااور احکام شریعت پر کاربند ہوجانا ہی زیادہ مناسب اور افضل ہے۔
ہمیں بہ سند امام مالک رحمہ اللہ کا یہ فرمان پہنچا ہے کہ وہ اس حجت بازی کوناپسند کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اگر ایک بڑھ بولا شخص آج ہمارے پاس آیا ہم نے اس کی مانی پھر اس سے زیادہ تیز زبان کوئی اور آیا اس کی مانی تو پھر جبرئیل علیہ السلام جو وحی لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے وہ توسب رد ہو جائیگی۔
امام ابو یوسف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بزرگوں کا مشہور مقولہ ہے کہ دین اسلام کو جو شخص علم کلام میں ڈھونڈے وہ بے دین ہے۔ اور جو عجیب و غریب حدیثوں کے پیچھے پڑ جائے وہ جھوٹا ہے۔ اور جو کیمیا سے مال تلاش کرے وہ مفلس ہوگا۔
امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نے تین مرتبہ فرمایا کہ دین صرف احادیث میں ہے رائے قیاس میں نہیں۔
فضل بن زیاد نے امام مالک رحمہ اللہ سے کرابیسی اور اس کے خیالات کی نسبت دریافت کیا تو آپ نے ناراض ہوکر فرمایا کہ یہ جو دفتر کے دفتر ان لوگوں نے رائے قیاس کے لکھ لئے ہیں انہی سے دین پر مصیبت آئی ہے۔ انہی کتابوں کی وجہ سے احادیث رسول ﷺ کو لوگوں نے چھوڑ دیا ہے اور ان کتابوں کی طرف متوجہ ہوگئے ۔
امام مالک رحمہ اللہ کا قول ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے بعد کے خلفاء نے جو طریقے فرمائے ہیں انہیں مضبوط تھامنا ہی اللہ عزو جل کی کتاب کی تصدیق ہے۔ یہی اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری یہی اس کے دین کی قوت ہے۔ سنت پر عمل کرنے والا ہدایت والا ہے۔ اسے تھامنے والا غالب ہے۔ پیچھے ڈالنے والا مسلمانوں کی راہ سے ہٹا ہوا اور برائی میں پھنسا ہوا ہے۔
امام اوزاعی فرماتے ہیں بزرگانِ سلف سے جو احادیث منقول ہیں انہی پر عامل رہو اگرچہ لوگ تمہیں چھوڑدیں لوگوں کی رائے اور قیاس کی تابعداری سے بچو۔ اگرچہ وہ اپنی باتوں کو بنا سنوار کر کے پیش کریں اگر ایسا کروگے تو آخر دم تک سیدھی راہ پر قائم رہوگے۔
امام یزید بن ذریع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رائے قیاس کرنے والے اور اس پر چلنے والے لوگ سنت رسول ﷺ اور احادیث پیغمبر ﷺ کے دشمن ہیں۔
امام خطیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر یہ رائے قیاس جیسی مذموم چیز والے لوگ ان علوم میں اپنے آپ کو مشغول کرتے جو انہیں نفع پہنچا سکتے اور اگر یہ لوگ رسولِ رب العالمین ﷺ کی حدیثیں طلب کرتے اور فقہاء اور محدثین کے آثار کی اقتداء کرتے تو وہ خود دیکھ لیتے کہ انہیں کسی اور چیز کی ضرورت باقی نہ رہتی۔ حدیثیں انہیں رائے قیاس سے بے نیاز کردیتیں اس لئے کہ علم حدیث میں اصول، توحید، وعدے، وعید، رب العالمین کی صفتیں ، جنت دوزخ کا ذکر، اچھے برے لوگوں کا انجام، آسمان و زمین کے عجائبات، ملائکہ مقربین کا ذکر، صف باندھ کر عبادت کرنے والے، تسبیح و تقدیس بیان کرنے والے فرشتوں کا بیان،نبیوں اور رسولوں کے واقعات ،زاہدوں اور اولیاء اللہ کا ذکر،بہترین نصیحتیں اوروعظ سمجھ بوجھ والے بزرگوں کے کلام ، عرب و عجم کے بادشاہوں کی سوانح ، اگلی امتوں کے قصے، رسول اللہ ﷺ کے واقعات، جہاد و جنگ، آپ کے احکام، آپ کے فیصلے، آپ کے وعظ اور خطبے، آپ کی نبوت کی نشانیاں اور معجزے، آپ کی بیویوں کے، اولاد کے، رشتہ داروں کے، اصحاب کے احوال، ان کے فضائل و مناقب ، اخبار، ان کے نسب نامے، ان کی عمریں، قرآن کریم کی تفسیر، اس کی خبروں اور اس کی نصیحتوں کا بیان، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے احکام اسلامی میں محفوظ فیصلے، ائمہ کرام اور فقہاء مجتہدین میں سے کون کون کس کس کے قول کی طرف مائل ہے وغیرہ تمام باتیں موجود ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے اہل حدیث کو شریعت کے ارکان بتائے ہیں۔ انہی کے ہاتھوں ہر بری بدعت کا خاتمہ ہوتا ہے۔ اللہ کی مخلوق میں یہ اللہ کے امین ہیں۔ نبی ﷺ اور آپ کی امت کے درمیان واسطہ ہیں آپ کے دین کے حفظ اور یاد کرنے میں پوراانہماک اور کامل کوشش کرنے والے ہیں۔ انکے انوار روشن ہیں۔ انکے فضائل مشہور ہیں۔ ان کی نشانیاں ظاہر ہیں۔ ان کا مذہب پاک ہے۔ ان کی دلیلیں پختہ ہیں۔ ہر فرقہ کسی نہ کسی خواہش کی تابعداری میں پڑا ہوا ہے اور کسی نہ کسی کی رائے قیاس کو اچھا جان کر اس پر جم گیا ہے۔ لیکن اہلحدیث کی جماعت ہے کہ ان کا ہتھیار صرف کتاب اللہ ہے اور ان کی دلیل صرف حدیث رسول اللہ ﷺ ہے۔ ا ن کے امام صرف اللہ کے پیغمبر ہیں ان کی نسبت بھی صرف محمد ﷺ ہی کی طرف ہے (یعنی محمدی) وہ خواہشوں کے پیچھے نہیں پڑتے۔ وہ رائے قیاس کی طرف توجہ بھی نہیں کرتے۔ وہ رسول اللہ ﷺ کی حدیثوں کے روایت کرنیوالے ان کے امین اور نگہبان ہیں۔ یہ دین کے محافظ اور اس کے نگہبان ہیں۔ یہ علم سے بھرپور ظروف اور صحیح علم والے ہیں۔ جس حدیث میں اختلاف ہو اس کا فیصلہ وہی کرینگے۔ انہی کا حکم سنا جائیگا اور مانا جائیگا۔ سمجھدار علماء، بلند پایہ فقہاء، کامل زاہد، پورے فاضل، زبردست قاری، بہترین خطیب یہی ہیں جمہور عظیم انہی کو کہا جاتا ہے۔ انہی کی راہ سیدھی ہے۔ بدعتیوں کو رسوا کرنے والے یہی ہیں۔ ان کے مخالفین اپنے عقائد کے اظہار پر بھی قادر نہیں ہیں۔ ان کے ساتھ فریب کرنے والوں کو اللہ نیچا دکھائے گا۔ ان سے دشمنی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ ذلیل و رسوا کریگا۔ ان کی برائی چاہنے والے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ انہیں چھوڑنے والے ہرگز فلاح نہیں پاسکتے۔ ہر وہ شخص جو اپنے دین کابچاؤچاہتا ہو ان کے ارشادات کا محتاج ہے۔ ان کی طرف بری نگاہ سے دیکھنے والوں کی بینائی ضعیف ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ان کی مدد پر قادر ہے۔
نبی ﷺ فرماتے ہیں(جس کا مفہوم ہے)
میری امت میں سے ایک جماعت حق پر ہمیشہ باقی رہے گی۔ اللہ ان کا مددگار ہوگا ان کے دشمن انہیں ضرر نہ پہنچاسکیں گے۔ یہاں تک کہ قیامت آجائے۔
امام علی بن مدینی رحمۃاللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں اس سے مراد جماعت اہلحدیث ہے جو لوگ رسول اللہ ﷺ کا دین مانتے ہیں اور آپ کے علم کی حفاظت کرتے ہیں اگر یہ نہ ہوتے تو ہم معتزلہ، رافضیہ، جہمیہ، مرجیہ اور رائے قیاس والوں کے سامنے کوئی حدیث پیش نہ کرسکتے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ منصور جماعت دین کی نگہبان بنائی ہے اور دشمنانِ دین کے ہتھکنڈے بے اثر کر دئے ہیں۔ اس لئے کہ وہ شرع متین کو مضبوط تھامنے والے اور صحابہ اور تابعین کی روش پر قائم ہیں۔ ان کا کام ہی یہ ہے کہ حدیثوں کو حفظ کریں اور ا سکی تلاش میں تری ،خشکی ، جنگل او رپہاڑ چھان ماریں۔ نہ کسی کی رائے قیاس کودل میں وقعت دیں نہ کسی کی نفسانی خواہشوں کی پیروی کریں۔
یہی وہ جماعت ہے جس نے سنت رسول ﷺ کو زبانی بھی یاد کیا اور عمل بھی اسی پر رکھا۔ جنہوں نے دل میں بھی اسی کو جگہ دی اورنقل بھی اسی کو کیا۔ کھرے اور کھوٹے کو الگ الگ کر دکھایا حقیقتاً یہ انہی لوگوں کا حصہ تھا اور یہی اس کے اہل تھے۔ بہت سے ملحدوں نے ہر چند چاہا کہ اللہ کے دین میں خلط ملط کریں لیکن اس پاک جماعت کی وجہ سے ان کی کچھ نہ چل سکی ارکان دین کے محافظ امر دین پر قائم یہی لوگ ہیں۔ جب کبھی موقعہ آجائے یہ حدیث رسول ﷺ کے بچاؤ کے لئے اپنی جانوں کو ہتھیلیوں پر لے کر باہر نکل آتے ہیں یہی لوگ اللہ کا لشکر ہیں اور یقینا یہ اللہ کا لشکر ہی فلاح پائے گا۔
ایک اور حدیث میں اتنی زیادتی بھی آئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس علم حدیث کو ہر بعد والے زمانے میں عادل لوگ لیں گے۔ جو زیادتی کرنے والوں کی زیادتی اور باطل پرستوں کی حیلہ جوئی اور جاہلوں کی معنی سازی اس سے دور کرتے رہیں گے۔
احمد بن سنان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے خواب میں دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ دو جماعتوں کے درمیان تشریف فرماہیں ایک حلقہ میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ہیں اوردوسرے میں ابن ابی داؤد ہیں۔ اور رسول اللہ ﷺ قرآن کی آیت فَاِنْ یَّکْفُرْ بِہَا ھٰؤُلٓائِ (یعنی اگر یہ لوگ اس کے ساتھ کفر کریں )پڑھتے ہیں اور آپ اشارہ کرتے ہیں ابن داؤد اور اس کے ساتھیوں کی طرف جو اہل الرائے تھے۔
پھر پڑھتے ہیں فَقَدْ وَکَّلْنَا بِہَا قَوْمًا لَّیْسُوْا بِہَا بَکَافِرِیْنَ (الانعام:89) (یعنی ہم نے ایک ایسی قوم بھی اس کی طرفدار بنائی ہے جواس کے ساتھ کبھی کفر نہیں کرے گی) ، اور آپ اشارہ کرتے ہیں امام احمد رحمہ اللہ اور ان کے ساتھیوں کی طرف۔
امام خطیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابو محمد عبداللہ بن مسلم بن قتیبہ رحمہ اللہ اپنی کتاب تاویل مختلف الحدیث میں بدعتی گروہ جو اعتراضات اہلحدیث پر کرتے ہیں انہیں بیان کرکے ان کا پورا جواب دیتے ہیں جو کہ ہر اس شخص کو جو نیک نیتی کے ساتھ اللہ کی جانب سے توفیق والا ہوتو کافی وافی ہیں۔
میں بھی اپنی اس کتاب میں ان شاء اللہ تعالیٰ بیان کروںگا کہ نبی ﷺ نے کس طرح لوگوں کو اپنی حدیثیں پہنچانے کا حکم فرمایا ہے۔ اورکیسی کیسی رغبتیں انہیں دلائی ہیں۔ آپ کی حدیثیں نقل کرنے کی کیا کیا فضیلتیں ہیں۔ پھر میں اس بارے میں صحابہ اور تابعین اور علماء دین سے بھی جو کچھ وارد ہے اسے بیان کروں گا جس سے اہلحدیث کے فضائل ان کے درجات ان کے مناقب اور ان کی بزرگیاں معلوم ہونگی۔
اللہ عزوجل سے ہماری دعا ہے کہ وہ ہمیں ان کی محبت کی وجہ سے نفع دے اور انہیں کے طریقہ پر زندہ رکھے اور اسی پر مارے۔ اور انہیں کے ساتھ حشر کرے۔ وہ خبر رکھنے والا جاننے والا اور ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
پہلا باب
رسول اللہ ﷺ کااپنی حدیثیں حفظ کرنے اور انہیں دوسروں کو پہنچانے کا حکم

(رسول اللہ ﷺ کا فرمان (جس کا مفہوم ہے)کہ میری ایک حدیث بھی یاد ہو تو پہنچا دو)
(اور ایک اور حدیث جس کا مفہوم ہے کہ )(اورمجھ پر جھوٹ نہ بولو)​
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (جس کا مفہوم ہے) میری ایک ہی حدیث یاد ہوتو بھی پہنچا دو ۔بنی اسرائیل کی باتیں بیان کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولنے والا جہنمی ہے۔ اس حدیث کی کئی سندیں ہیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
حدثوا عن بنی اسرائیل ولا حرج
بنی اسرائیل کی باتیں بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ میری حدیثیں روایت کرو اور مجھ پر جھوٹ نہ بولو (اس حدیث کو علامہ خطیب رحمہ اللہ نے قریباً دس بارہ سندوں سے بیان فرمایا ہے)
 
Top