رسول اللہ ﷺ کا اہلحدیث کے ایمان کی تعریف کرنا
رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے سوال کیا کہ تمہیں سب سے زیادہ اچھے ایمان والے کون لوگ معلوم ہوتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا فرشتے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا(جس کا مفہوم ہے) وہ کیوں ایماندار نہ ہوں گے؟ وہ تو رب العالمین کے درباری ہیں۔
صحابہ نے کہا پھر انبیاء ہوں گے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا وہ کیوں ایمان نہیں لائیں گے ان پر تو وحی الٰہی نازل ہوتی ہے۔
صحابہ نے کہا پھر ہم۔ آپ ﷺ نے فرمایا تم کیوں ایمان نہ لاتے میں تو تم میں موجود ہوں۔ پھر خود آپ ﷺ نے اپنے سوال کا جواب بتا دیا فرمایا تمام مخلوق میں سے زیادہ عمدہ ایمان والی وہ جماعت ہے جو تمہارے بعد آئے گی صرف کتابوں میں لکھا دیکھے گی اور اس پر ایمان لائے گی۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ نے فرمایا (جس کا مفہوم ہے) مجھے بتاؤ تو ایمان والوں میں سب سے افضل ایمان والا کون ہے ؟ہم نے کہا فرشتے ہیں فرمایا وہ تو ہیں اور انہیں تو ہونا چاہیئے ان کوتو اللہ نے جس مرتبے پر رکھا ہے وہ انہی کا حصہ ہے نہیں ان کے سوا اور کوئی بتاؤ؟ ہم نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ انبیاء ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے نبوت ورسالت کے ساتھ سرفراز فرمایا آپ ﷺ نے فرمایا وہ تو ایسے ہی ہیں اور انہیں ایسا ہونا بھی چاہیئے بھلا وہ کیوں نہ ہوں اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل وکرم سے انہیں نبوت و رسالت کے ساتھ سرفراز فرمایا ہے کوئی اور بتاؤ؟ ہم نے کہا اے اللہ کے رسول پھرتو اللہ کی راہ میں شہید ہوجانے والے ہیں کہ جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کی خدمت کرتے ہوئے شہادت کے مرتبہ کے ساتھ سرفراز فرماتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا بیشک وہ ایسے ہی ہیں وہ ایسے کیوں نہ ہوتے اللہ تعالیٰ نے انہیں تو شہادت جیسی نعمت انعام فرمائی ان کے سوا اور بتلاؤ؟ ہم نے کہا اے اللہ کے رسول اب آپ ہی ارشاد فرمائیے آپ ﷺ نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے میرے بعد آئیں گے وہ مجھے نہیں دیکھیں گے لیکن مجھ پر ایمان لائیں گے اور مجھے نہیں دیکھا لیکن میری تصدیق کرینگے وہ کتابوں کے اوراق میں لکھا دیکھیں گے اوراس کے مطابق عمل کریں گے۔
شیخ خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے کہ اس وصف کے سب سے زیادہ مستحق اور اس حدیث کا اعلیٰ مصداق اہلحدیث ہیں اور جو ان کے راستہ اور رویہ پر ہیں ۔
بہ کثرت درود پڑھنے کی وجہ سے اھلحدیث روز قیامت رسول اللہ ﷺکے قریب ہوں گے
سیدنا ابن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (جس کا مفہوم ہے) قیامت کے روز تمام لوگوں سے قریب مجھ سے وہ لوگ ہونگے جو سب سے زیادہ مجھ پر درود پڑھتے ہوں۔
ابو نعیم رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ زبردست بزرگی اور اعلیٰ فضیلت حدیثوں کی روایت کرنے والے اور حدیثوں کے نقل کرنے والوں کے ساتھ مخصوص ہے اس لئے کہ کوئی جماعت رسول اللہ ﷺ پر درود پڑھنے میں ان علمائے حدیث کی جماعت سے بڑھ کر نہیں نہ تو درود شریف کے لکھنے میں نہ پڑھنے میں۔
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (جس کا مفہوم ہے) جو شخص مجھ سے کسی علم کو لکھے اور اس کے ساتھ ہی مجھ پر درود بھی لکھے تو جب تک وہ کتاب پڑھی جائے گی اسے اجر ملتا رہے گا۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا(جس کا مفہوم ہے) . جو شخص مجھ پر کسی کتاب میں درود لکھے تو جب تک میرانام اس کتاب میں رہے گا فرشتے اس کے لئے استغفار کرتے رہیں گے۔
امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر محدّثین کو صرف یہی فائدہ ہوتا تو بھی بہت تھا کہ جب تک ان کی کتابوں میں درود ہے ان پر اللہ کی رحمتیں اترتی رہتی ہیں ۔
محمد بن ابو سلیمان کہتے ہیں میں نے اپنے والد کو خواب میں دیکھا پوچھا کہ ابا جان آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کیا سلوک کیا ؟فرمایا مجھے بخش دیا۔ میں نے کہا کس عمل پر ؟فرمایا کہ صرف اس عمل پر کہ میں ہر حدیث میں ﷺ لکھا کرتا تھا ۔
ابو القاسم عبداللہ مروزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں اور میرے والد ایک جگہ بیٹھ کر رات کے وقت حدیثوں کامطالعہ کیاکرتے تھے ایک مرتبہ وہاں پر ایک نور کا ستون دیکھا گیا جو آسمان کی بلندی تک تھا پوچھا گیا کہ یہ نور کس بناء پر ہے؟ تو کہاگیا کہ حدیث کے آمنے سامنے پڑھنے کے وقت جو ان کی زبان سے ﷺ نکلتا تھا اس درود کی بناء پر یہ نور ہے۔