• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فضائل اہلحدیث

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,092
پوائنٹ
1,155
اہلحدیث ابدال اور اولیاء اللہ ہیں

امام صالح بن محمد رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر اہل حدیث ابدال نہیں تو میں نہیں جان سکتا کہ ابدال اور کون ہوتے ہیں؟
امام صالح رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں عدالت والا وہ نہیں جو مال جان اورعزت پر عدل کرے بلکہ ان سے بھی بڑھ کر عدالت والا وہ ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کرے تو وہ مان لی جائے۔ اسے اس پر سچا اور عادل جانا جائے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر اہل حدیث ابدال نہیں تو پھر ابدال اور کون ہوں گے؟
خلیل بن احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر قرآن و حدیث والے بھی اولیاء اللہ نہیں تو جان لینا چاہیئے کہ زمین اولیاء اللہ سے خالی ہے۔
امام ابن عینیہ رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ میری اتنی عمر صرف اہلحدیث کی دعاؤں سے ہوئی ہے۔
محمود بن خالد نے ایک مرتبہ ابو حفص عمرو بن ابو سلمہ سے پوچھا کہ کیا آپ حدیث بیان کرنا پسند فرماتے ہیں۔ جواب دیا کہ کیا کوئی ایسا بھی ہے جو نیک کار صالح لوگوں کے دفتر سے اپنا نام کٹوا دینا چاہتا ہو؟
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,092
پوائنٹ
1,155
اگر اہلحدیث نہ ہوتے تو اسلام مٹ جاتا

امام حفص بن غیاث رحمۃاللہ علیہ کے پاس لوگ جمع ہوگئے تو آپ نے فرمایا اگر اللہ تعالیٰ ان طالب علموں کے دلوں میں یہ حرص نہ ڈالتا تو یہ کام ہی مٹ جاتا۔
امام ابوداؤد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر اہلحدیث کی یہ جماعت نہ ہوتی اور یہ لوگ حدیثوں کو جمع نہ کرتے تو اسلام بے نشان ہوجاتا۔
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہم تین چار آدمی امام علی بن عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ کے دروازے پر تھے آپ فرمانے لگے کہ حدیث میں جو آیا ہے کہ میری امت میں ایک جماعت ہمیشہ غالب ہوکر حق پر رہے گی نہ ان کے مخالفین انہیں ضرر پہنچا سکیں گے نہ رسوائی اس سے مراد میں تو یہ جانتا ہوں کہ تم ہو یعنی حدیث والے۔
دیکھو تجارت پیشہ لوگ تجارت میں، کاریگر لوگ اپنی اپنی صنعت میں، بادشاہ لوگ اپنی اپنی سلطنت میں مشغول ہیں مگر تم ہو کہ دن رات سنت رسول ﷺ کور واج دینے کی دھن میں لگے ہوئے ہیں۔
ایک شاعر محدّثین کے قلمدانوں کے وصف میں بیان فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کے دین کی روشن قندیلوں کو لیکر حدیث رسول ﷺ کے پھیلانے والے اِدھر اُدھر پھر رہے ہیں، ہرمتقی پرہیز گار سچے بزرگ عالم سے حدیث رسول ﷺ کو سیکھتے ہیں۔ انکے قلمدان نورانی ہیں اور ایسے چمکتے ہیں کہ گویا مسجد کے بیچ یہ روشن قندیلیں ہیں۔ یہ حدیثیں ہر ایک فقہ کے عالم اور احکام کے مصنف کو پہنچائی جاتی ہیں ۔
امام عبدالعزیز بن ابوداؤد رحمہ اللہ نے دیکھا کہ ایک نوجوان شخص حدیث کے لئے ان کے پاس آرہے ہیں توفرمانے لگے تم نہیں دیکھتے کہ ان کے ہاتھ میں اسلام کی قندیلیں ہیں۔ یہ ایمان کے روشن چراغ ہیں پرہیز گاروں کے نشانات ہیں۔
الحمدللہ کتاب شرف اصحاب الحدیث مصنفہ امام خطیب رحمہ اللہ کا پہلا حصہ ختم ہوا۔​
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,092
پوائنٹ
1,155
دوسرا باب
اہل حدیث حق پر ہیں

خلیفہ ہارون الرشید رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے چار چیزوں کو چار گروہ میں پایا۔ کفر کو جہمیہ میں، علم کلام اور جھگڑے بکھیڑے کومعتزلہ میں، جھوٹ کورافضیوں میں اور حق کو اہلحدیثوں میں۔
ولید کرابیسی اپنے آخر وقت میں اپنی اولاد کو بلاتے ہیں اور فرماتے ہیں کیا تم علم کلام اور مناظرے اور باتیں بنانے میں مجھ سے زیادہ عالم کسی کو جانتے ہو؟ انہوں نے کہا نہیں فرمایا کیاتم مجھے جھوٹا سمجھتے ہو ؟انہوں نے کہا نہیں فرمایا اگر میں تمہیں کوئی وصیت کروں تو مان لوگے ؟جواب دیا کہ ہاں فرمایا سنو ! تم اہلحدیث کے مذہب کو مضبوط تھام لو میں نے حق کو انہی کے پاس دیکھا انکے بڑے بڑے محدّثین کا تو کیا ہی کہنا ہے انکے چھوٹے لوگ بھی حق گوئی کے جذبات سے اس قدر پر ہیں کہ بڑے بڑوں کی غلطیاں نکال کر صاف بیان کرنے میں ذرا بھی تامل نہیں کرتے۔
عبدالرحیم بن عبدالرحمن فرماتے ہیں جو شخص حدیث کوچھوڑ کر اِدھر اُدھر کی باتوں میں لوگوں کوالجھاتا ہے اس کا انجام گمراہی ہوتا ہے۔

قیامت کے دن نجات کے سب سے زیادہ حقدار اور سب سے پہلے جنت میں جانے والے اہلحدیث ہیں

رسول اللہ ﷺ کے خادم سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا(جس کا مفہوم ہے) قیامت کے ہول و خوف اور اس کی ہرجگہ کی سرزنش سے سب سے زیادہ نجات پانے والا وہ ہوگا جو دنیا میں سب سے زیادہ مجھ پر درود پڑھتا رہا1۔
1۔ خود ساختہ درود نہیں بلکہ وہ درود جسکی خود رسول اللہ ﷺ نے تعلیم فرمائی ہے یعنی اللہم صل علی محمد و علی آل محمد ……الخ(درود ابراہیمی)
ابو جعفر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر روئے زمین پر کوئی نجات پانے والا گروہ ہے تووہ ہے جوطالب حدیث ہیں حدیث کا علم تلاش کرنے والے ہیں۔
ابو مزاحم خاقانی کے اشعار ہیں کہ اہل حدیث ہی نجات پانے والے ہیں۔ اگر وہ حدیث پر عامل بھی ہوجائیں اور اس امانت کی پوری ادائیگی کریں۔ یہ کہاگیا ہے کہ تمام بندوں میں افضل یہی ہیں جیسے بھی ہیں جبکہ وہ فتنوں سے بچے رہیں ۔ ان میں سے جو انتقال کرجائے اسے شہادت نصیب ہوتی ہے اور اس کی قبر اس کیلئے بہترین پاکیزہ گھر بن جاتی ہے-
شاذان بن یحییٰ فرماتے ہیں جو لوگ حدیث پر عامل ہیں ان کے راستے سے اچھا راستہ جنت کی طرف جانے والا کوئی اور نہیں جانتا-
حسن بن علی تمیمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں طواف کرتے ہوئے میرے دل میں خیال آیا کہ قیامت کے دن سب سے آگے کون لوگ ہوں گے۔ اچانک ایک غیبی آواز آئی کہ اہلحدیث ہونگے۔
علم حدیث کی جستجو کیلئے سفر کرنیوالوں کی فضیلت
یزید بن ہارون رحمہ اللہ حماد بن زید رحمہ اللہ سے سوال کر تے ہیں کہ کیا قرآن کریم میں بھی اہلحدیث کا ذکر ہے فرمایا کیوں نہیں؟کیاتم نے یہ آیت نہیں سنی کہ :
لِّيَتَفَقَّهُواْ فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُواْ قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَيْهِمْ (التوبۃ:122)
یعنی دین کی سمجھ پیدا کریں اور اپنی قوم میں واپس آکر انہیں ڈرائیں اس سے مراد ہر وہ شخص ہے جوعلم دین کی سمجھ حاصل کرنے کی غرض سے سفر کرے اور سیکھ کر اپنی قوم والوں کو آکر سکھائے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے استاد امام عبدالرزاق قرآن پاک کی آیت
فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُواْ فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُواْ قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ(التوبۃ:122)
یعنی ہر گروہ میں سے ایک جماعت دین کا کام سیکھنے کے لئے کیوں نہیں نکلتی تاکہ وہ لوٹ کر اپنی قوم کو ڈرائیں شاید کہ وہ ڈر جائیں ۔
اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں اس سے مراد اصحاب حدیث ہیں۔
امام ابراہیم بن ادھم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اہلحدیث کے ان سفروں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس امت سے بلاؤں کودور کر دیتا ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے مولیٰ سیدنا عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں السائحون جو قرآن کریم میں ہے اس کی تفسیر حدیث کے طالب علم ہیں۔
امام علی بن معبد رحمہ اللہ اہل حدیث کو دیکھ کر فرمایا کرتے یہ پراگندہ بالوں والے میلے کپڑوں والے، غبار آلود چہروں والے بھی اگر ثواب کے مستحق نہیں تو اللہ کی قسم یہ صریح ناانصافی ہے۔
شیخ ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ کی قسم ہمارا عقیدہ ہے جس میں ہمیں کوئی شک نہیں کہ حدیث کے طالب علم بڑے بڑے ثوابوں کے مستحق ہیں اور چھوٹے سے چھوٹا فائدہ ان کا یہ ہے جو اما م وکیع بن جراح رحمہ اللہ بیان فرماتے تھے کہ اگر کوئی شخص حدیث سے کچھ اور فائدہ حاصل نہ کرے لیکن کم سے کم یہ علم اسے بدعقیدگی سے تو ضرور روک دے گا تو کیا یہی فائدہ کچھ کم ہے؟
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا جاتا ہے کہ کچھ لوگ حدیث لکھتے تو ہیں لیکن اس کااثر ان پرنہیں دیکھا جاتا اور نہ ان کاوقار ہوتاہے؟ تو آپ نے جواب دیا کہ مال اور انجام اس کا خیرو برکت ہی ہے۔
امام ایوب رحمہ اللہ کو جب کبھی کسی حدیث والے کے انتقال کی خبر پہنچتی تو اتنا صدمہ اور رنج کرتے کہ چہرہ غمگین ہوجاتا اور جب کبھی انہیں کسی عابد کے انتقال کی خبر ہوتی تو یہ بات اس کے چہرے پر نہ دیکھی جاتی تھی۔

حدیث کا سننا اور لکھنا دنیا اور آخرت کو جمع کرنا ہے

سہل بن عبداللہ زاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں جو شخص دنیا اور آخرت کی بھلائی چاہے وہ حدیث لکھا کرے اس میں دونوں جہانوں کانفع ہے۔
عبداللہ بن داؤد فرماتے ہیں حدیث سے جو شخص دنیاچاہے اس کے لئے دنیا ہے اور جو آخرت چاہے اسکے لئے آخرت ہے۔ حدیث کے بارے میں آپ فرمایا کرتے تھے کہ اسمیں جو اپنی مراد دنیا رکھے اس کے لئے دنیا اور جو آخرت رکھے اس کے لئے آخرت ہے۔
امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں حدیث کا سننا، دنیا چاہنے والے کے لئے عزت کا باعث اور آخرت چاہنے والے کے لئے رشد و بھلائی کا سبب ہے۔
احمد بن منصور شیرازی نے کسی کے اشعار بیان کئے ہیں جن کاترجمہ یہ ہے۔
لوگو!حدیث کومضبوط تھام لو اس جیسی کوئی چیز کسی طرح نہیں۔ چونکہ دین نام ہے خیر خواہی کا اس لئے میں نے تمہاری واجب خیر خواہی ظاہر کر دی۔ ہم نے توروایت ہی میں تمام فقہ پائی اور کل احکام پائے اور تمام لغات پائے۔ میری راتوں کا انیس مسند حدیثوں کا ذکر ہے۔ جان لو کہ تمام فائدوں سے بہترین فائدہ علم کا حفظ کرنا ہے۔ جس نے حدیث کی طلب کی اس نے فضیلت کے خزانے جمع کر لئے اور ثابت رہنے والی دنیا سمیٹ لی۔ لوگو! ان روایتوں کو مضبوط پکڑ لو جنہیں امام مالک اور امام شعبہ، امام ابن عمرو، امام ابن زید، امام سفیان، امام یحییٰ، امام احمد بن حنبل، امام اسحق، امام ابن الفرات رحمہم اللہ جیسے ثقہ بزرگ اور پاک نفس لوگ روایت کرتے ہیں۔ ہمارے آئمہ روشن ستاروں کی طرح ہیں کیا کوئی شخص ان نورانی ستاروں کامقابلہ کر سکتا ہے؟؟۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,092
پوائنٹ
1,155
شاہان اسلام جنہوں نے اہلحدیث کیلئے بیت المال کا حصہ مقرر کیا

خلیفۃ المسلمین امیر المومنین سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے حمص کے گورنر کے نا م فرمان بھیجا کہ اہل صلاح کا بیت المال میں اتنا حصہ مقرر کر دو کہ وہ بے پرواہ ہوجائیں تاکہ قرآن و حدیث کے علم سے انہیں کوئی چیز مشغول نہ کرسکے۔


حدیث سنانے کے لئے نوعمر لڑکوں کو قریب کرنا

ایک شخص امام اعمش رحمہ اللہ کے پاس سے گذرا وہ اس وقت حدیث بیان فرما رہے تھے تو اس نے کہا آپ ان نوعمر لڑکوں کے سامنے حدیثیں بیان فرماتے ہیں؟ امام اعمش رحمہ اللہ نے جواب دیا یہی لوگ تمہارا دین تمہارے لیے حفظ کریں گے۔
امام ابن المبارک رحمۃ اللہ علیہ جب اہلحدیث بچوں کو ہاتھوں میں قلمدان لئے ہوئے دیکھتے تو انہیں کھڑا کرکے فرماتے یہ ہیں دین کے پودے۔ جن کی بابت فرمان رسول اللہ ﷺ ہے (جس کا مفہوم ہے )کہ اللہ تعالیٰ اس دین میں ہمیشہ نئے نئے پودے لگاتا رہے گا۔ جن سے دین خداوندی مضبوط ہوتارہے گا۔ یہ لوگ آج نوعمر ہیں اور تم میں چھوٹے ہیں لیکن عنقریب تمہارے بعد یہی لوگ عمر میں اور عزت میں بڑے ہونگے۔
سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ قریش کی ایک جماعت کو فرماتے ہیں تم نے ان بچوں کو الگ کیوں بٹھا رکھا ہے؟ایسا نہ کرو ان کے لئے مجلس میں جگہ کیاکرو اور انہیں حدیثیں سنایا کرو اورمطلب سمجھایا کرو آج اگر یہ چھوٹے ہیں لیکن کل سردار بن جائیں گے تم بھی کبھی قوم کے چھوٹے تھے لیکن آج بڑے ہو۔


حدیث پڑھنے پر اپنے بچوں کو جبراً آمادہ کرنا چاہیئے

عبداللہ بن داؤد فرماتے ہیں انسا ن کو چاہیئے کہ حدیث کے سننے پر اپنی اولاد کو مجبور کرے۔ دین علم کلام میں نہیں بلکہ دین صرف احادیث رسول ﷺ میں ہی ہے۔
آپ سے یہی روایت ایک اورطریق سے مروی ہے ایک اور روایت میں اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ حدیث سے آخرت کا ارادہ رکھنے والے کے لئے حدیث آخرت کی چیز ہے۔


اپنی اولاد کی دلجوئی کرکے حدیث سنانا

امام ابراہیم بن ادہم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میرے والد نے مجھ سے فرمایابیٹا! تم حدیث سیکھو اور یاد کرو ایک ایک حدیث یاد کرنے پر تمہیں ایک ایک درہم انعام دوں گا۔ چنانچہ میں نے اسی طرح حدیثیں یاد کیں۔


ان بزرگوں کا بیان جنہوں نے حدیث نہ سننے والوں کی مذمت کی

امام سفیان ثوری رحمہ اللہ جب کسی شیخ کو دیکھتے کہ وہ حدیث نہیں لکھتے تو فرماتے اللہ تعالیٰ تمہیں اسلام کی طرف سے بھلا بدلہ نہ دے۔
امام اعمش رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب تم کسی عالم کو دیکھو کہ وہ قرآن کریم نہیں پڑھتا اور حدیث نہیں لکھتا تو اس سے دور رہو وہ شیخ القمر ہے۔
اور شیخ القمر اُن دہریہ لوگوں کو کہتے ہیں جوچاندنی رات میں جمع ہوکر تاریخی واقعات میں بڑی دون کی لیتے ہیں اور مسائل دینیہ میں ان کی جہالت کا یہ حال ہوتا ہے کہ اچھی طرح وضو کرنا بھی نہیں جانتے۔


مرتے دم تک حدیث لکھنے میں مشغول رہنا

امام ابن المبارک رحمہ اللہ سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کب تک حدیث لکھتے رہیں گے؟فرمایا شاید کوئی روایت اور ہو جس سے مجھے نفع پہنچے میں نے ابتک نہ سنی ہو؟
اما م احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے سوال ہوتا ہے کہ آدمی حدیث کب تک لکھتا رہے ؟فرمایا مرتے دم تک۔
آپ فرمایا کرتے تھے میں تو قبر میں جانے تک طالب علم ہی رہوں گا۔
امام حسن بصری رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ کیا اسی برس کا آدمی بھی حدیث لکھے ؟فرمایا جب تک اس کی اچھی زندگی ہے۔


اہل حدیث قوی دلائل والی جماعت ہے

امام اعمش رحمہ اللہ فرمایاکرتے تھے میرے اور اصحاب نبی ﷺ کے درمیان صرف ایک پردہ ہے جب چاہوں اسے اٹھادوں اور انہیں دیکھ لوں۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں قرآن کریم جاننے والا بڑی قدر و قیمت والا شخص ہے اور فقہ جاننے والا بڑی شخصیت والا آدمی ہے اور حدیث کالکھنے والا بڑی قوی دلیل والا انسان ہے۔
ابو عروبہ حرانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں جو شخص فقہ جانتا ہو اور حدیث نہ جانتا ہو وہ لنگڑا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,092
پوائنٹ
1,155
علم حدیث کی رغبت کرنیوالے اور اس سے بے رغبتی کرنیوالے

امام زہری رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ امام ہذلی رحمہ اللہ سے پوچھا کہ کیا آپ کو حدیث اچھی معلوم ہوتی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں فرمایا اسے مرد پسند کرتے ہیں اور نامرد اسے پسند نہیں کرتے۔
آپ فرمایا کرتے تھے کہ طالبان حدیث مرد ہیں اور حدیث سے بے رغبتی کرنے والے نامرد ہیں۔
ابو الفضل عباس بن محمد خراسانی کے اشعار ہیں جن میں فرماتے ہیں۔
میں نے کوشش سے اصل علم حاصل کرنے کے لئے سفر کیا۔ دنیامیں انسان کی زینت احادیث رسو ل ﷺ ہی ہیں۔ طالب علم ہی شیردل مرد ہے اور علم سے دشمنی رکھنے والا تو مخنث ہے۔
مال پر گھمنڈ نہ کر اسے تو تُو عنقریب چھوڑ کر چل دے گا۔ یہ دنیا تو یونہی ایک دوسرے کے ہاتھوں میراث ہوتی چلی جارہی ہے۔


اہل سنت وہی ہے جو اہل حدیث سے محبت رکھے

امام قتیبہ بن سعید رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب تم کسی کو دیکھو کہ وہ اہل حدیث سے محبت رکھتا ہے (جیسے امام یحییٰ بن سعید قطان رحمہ اللہ، امام عبدالرحمن بن مہدی رحمہ اللہ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ، امام اسحق بن راہویہ رحمہ اللہ اور اسی طرح بہت سے محدثین رحمہم اللہ کے نام لئے )تو سمجھ لو کہ وہ اہلسنت ہے اور جسے اس کے خلاف پاؤ تو سمجھ لو یہ بدعتی بد عقیدہ ہے۔
ابو جعفر خواص رحمہ اللہ علیہ کے اشعار ہیں کہ:
بدعتیوں کی رونق جاتی رہی اور ان کے سہارے ٹوٹ گئے۔ اور ابلیس نے جو لشکر جمع کیا تھااس کے شکست کھاکر بھاگ کھڑے ہونے کی چیخ و پکار ہونے لگی۔
لوگو!بتاؤ تو ان بدعتیوں کی بدعتوں میں کوئی سمجھ دار آدمی ان کا پیشوا بھی ہے؟
جیسے امام سفیان ثوری رحمہ اللہ جنہوں نے زہدو اتقاء کے نکتے لوگوں کو سکھائے؟
یا امام سلیمان تمیمی رحمہ اللہ جنہوں نے قیامت کے خوفناک حالات سے متاثر ہوکر اپنی نیند اور آرام چھوڑ دیا تھا۔
یا اسلام کے نوجوان بہادر امام بن حنبل رحمہ اللہ جو ہر ایک آزمائش میں ثابت قدم رہے۔ نہ تو کوڑوں سے ان کا ایمان متزلزل ہوا نہ تلوار ان کی قوت ایمان کو گھٹا سکی۔
امام اوزاعی رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ بقیہ بن ولید سے پوچھا کہ ابو محمد! تم ان لوگوں کے بارے میں کیا کہتے ہوجو لوگ اپنے نبی ﷺ کی حدیث سے بغض رکھیں؟ انہوں نے کہا وہ بڑے برے لوگ ہیں۔ فرمایا دیکھو! جس کسی بدعتی کے سامنے تم اس کی بدعت کے خلاف حدیث رسول اللہ ﷺ بیان کروگے وہ فوراً اس حدیث سے چڑ جائے گا اور اس سے بغض رکھے گا۔
احمد بن سنبل قطان رحمہ اللہ فرماتے ہیں دنیا میں کوئی بدعتی ایسا نہیں جو حدیث سے چڑتا نہ ہو جب کبھی کوئی انسان بدعت ایجاد کرتا ہے یا بدعت پر عمل کرنے لگتا ہے اس کے دل سے حدیث کی حلاوت چھین لی جاتی ہے۔
ابونصر بن سلام فقیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ملحدوں پر حدیث کے سننے اور اسے باسند روایت کرنے سے زیادہ بھاری اور ناپسند کوئی چیز نہیں۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے احمد بن حسن کہتے ہیں کہ ابن ابی قبیلہ سے مکہ مکرمہ میں لوگوں نے اہل حدیث کا ذکر کیا تو وہ کہنے لگے یہ بری قوم ہے۔ امام صاحب غصے سے کپڑے جھاڑتے ہوئے کھڑے ہوگئے اور یہ فرماتے ہوئے گھر میں چلے گئے کہ یہ زندیق ہے یہ بے دین ہے یہ بدعقیدہ ہوگیا ۔


اہلحدیث کی مدح اور اہل الرائے کی مذمت

امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں جومیں تمہیں اصحاب محمد ﷺ کی حدیثیں بیان کروں وہ تم لے لو اور جو لوگ اپنی رائے سے بتائیں ان کی باتوں سے درگزر کر لیاکرو۔
احمد بن شبویہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں جو شخص قبر میں کام آنے والا علم سیکھنا چاہتا ہو وہ حدیث پڑھے اور جو صرف خبر کاارادہ رکھتا وہ رائے قیاس سیکھے۔
یونس بن سلیمان سقطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے خوب غور کرکے دیکھا تو دو چیزیں پائیں۔ حدیث اور رائے۔ حدیث میں تو اللہ تعالیٰ رب العالمین کا، اس کی ربوبیت کا، اس کے جلال کا، اس کی عظمت کاذکر پایا۔ عرش کا، جنت کا، دوزخ کا، نبیوں اور پیغمبروں کا، حلال و حرام کا ذکر بھی حدیث میں ہی پایا۔ صلہ رحمی اور ہر طرح کی بھلائی پر رغبتیں بھی اسی میں پائیں۔ لیکن رائے قیاس میں مکرو فریب، حیلہ سازیاں اور دھوکہ بازیاں پائیں۔ رشتوں ناطوں کا توڑنا اور ہر طرح کی برائیاں اسی میں دیکھیں۔
ابوبکر محمد بن عبدالرحمن نسفی مقری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہمارے مشائخ، ابوبکر بن اسمٰعیل کو ابو ثمود کہا کرتے تھے۔ ا سلئے کہ پہلے وہ اہلحدیث تھا پھر اہل الرائے ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَھَدَیْنٰہُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعُمٰی عَلَی الْھُدٰی (حمٓ السجدۃ:17)۔
ثمودیوں کو ہم نے ہدایت دی لیکن انہوں نے اندھے پن کو پسند کیا اور ہدایت چھوڑ دی۔
عبدہ بن زیاد اصبہانی کے اشعار ہیں:
کہ محمد ﷺ کا دین تو احادیث میں ہے انسان کے لئے حدیث سے بہتر کوئی چیز نہیں۔ـ خبردار حدیث اور اہلحدیث سے دھوکہ نہ کرنا۔ رائے قیاس رات ہے اور حدیث دن ہے۔ افسوس انسان ہدایت کی راہیں باوجود چمکیلے سورج کی روشنی کے بھی کبھی بھول جاتا ہے۔
امام جعفر بن محمد رحمہ اللہ کے پاس ایک مرتبہ ابن شبرمہ رحمہ اللہ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ جاتے ہیں تو آپ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے فرماتے ہیں۔ اللہ سے ڈرو اور دین میں اپنی رائے قیاس کو دخل نہ دو۔ دیکھو کل ہمیں اور تمہیں اور ہمارے مخالفین کو اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہونا ہے۔ ہم تو اس وقت کہہ دیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا اور رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا۔ لیکن آپ او رآپکے ہم خیال کہیں گے ہماری رائے ہمارا قیاس یہ ہے؟ اس وقت اللہ تعالیٰ ہمارے اور تمہارے ساتھ جو چاہے گا سو کریگا۔
عبداللہ بن حسن صیحانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں میںمصر میںتھا طبیعت میری ناساز تھی۔ میں نے دیکھا کہ جامع مسجد میں ان کے قاضی صاحب آئے اور بیان کرنا شروع کیا کہ مسکین اہلحدیث فقہ کو اچھی طرح نہیں جانتے۔ میں گھٹنوں کے بل چل کر اس کے پاس پہنچا اور کہنے لگا سنو! اصحاب نبی ﷺ نے مردوں اور عورتوں کے زخموں کے بارے میں اختلا ف کیا ہے۔ ذرابتلاؤ تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نے کیا فرمایا ہے ؟اور سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کیا فرمایا ہے؟ اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کیا فرمایا ہے؟ اس سے کوئی جواب نہ بن پڑا میں نے کہا اسی زعم پہ کہہ رہتے تھے کہ اہلحدیث فقہ نہیں جانتے۔ میںایک ادنیٰ اہلحدیث ہوں اور معمولی سا سوال کیا تم سے اس کا جواب بھی نہ بن پڑا لیکن زبان چل رہی ہے کہ اہل حدیث فقہ نہیں جانتے۔
ابو عبداللہ محمد بن علی صوری اپنے اشعار میں کہتے ہیں:
جو شخص حدیث سے بغض رکھے اور اہلحدیث سے چڑے اور دعوے کرتا رہے اس سے کہہ دو کہ تم کچھ جانتے ہو۔ یا یونہی جہالت سے باتیں بناتے ہو جو بے وقوفی کاکام ہے۔
کیا ان بزرگوں کو برا کہاجاسکتا ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے دین کو تمام بلاؤں اور آفتوں سے بچا رکھا کمی و بیشی سے پاک رکھا۔ آج دنیا کا ہرعالم اور ہر فقیہ ان کا دست نگر ہے۔
خلیفہ ہارون الرشید کافرمان ہے کہ مرّوت اہلحدیث میں ہے کلام معتزلہ میں ہے جھوٹ رافضیوں میں ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اصحاب کلام کے بارے میں میرا فتویٰ ہے کہ انہیں کوڑے لگائے جائیں اور اونٹوں پر سوار کرکے گھر گھر اور محلے محلے پھرایا جائے اور منادی کرادی جائے کہ یہ سزا ہے اس شخص کی جو کتاب و سنت کو چھوڑ دے اور علم کلام میں مشغول ہوجائے۔
ابومزاحم خاقانی کے اشعار ہیں:
کہ اہل کلام اور اہل الرائے نے علم حدیث کو نہ حاصل کیا جس سے انسان کی نجات ہوتی ہے اگر وہ احادیث رسول اللہ ﷺ کا مرتبہ جان لیتے اور ان سے منہ نہ پھیرتے اور رائے قیاس اور کلام کو نہ لیتے تو ان کی نجات ہوجاتی۔ لیکن ان لوگوں نے اپنی جہالت سے اس کے خلاف کیا۔
ابوزید فقیہ رحمہ اللہ نے ایک شافعی عالم کے اشعار پڑھے:
کہ قرآن حدیث اور دین کی سمجھ کے سوا ہر کلام بے دینی ہے جس علم میں حدثنا آئے یعنی سند کے ساتھ حدیث بیان ہو وہ تو تابعداری کے لائق ہے۔ اور اس کے سواباقی علوم شیطانی وسوسے ہیں۔


حدیث کو حفظ کرنے اور اس کے ادب کرنیکا ثواب

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا(جس کا مفہوم ہے) جو شخص میری امت کو ایک حدیث بھی پہنچا دے جس سے سنت قائم ہویا بدعت ٹوٹے اس کے لئے جنت ہے۔
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا(جس کا مفہوم ہے) جو شخص دو حدیثیں سیکھ لے جن سے وہ خود نفع اٹھائے یا دوسرے کسی کو سکھائے اور وہ نفع اٹھائے تو یہ اس کے لئے ساٹھ سال کی عباد ت سے بھی بہتر ہے۔
ابو جعفر محمد بن علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا(جس کا مفہوم ہے) علم کو طلب کرنے میں جلدی کرو۔ ایک سچے شخص کی حدیث ساری دنیا سے اور اس میں جو کچھ سونا چاندی ہے سب سے بہتر ہے۔


علم حدیث کو طلب کرنا ساری عبادتوں سے افضل عبادت ہے

امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نہیں جانتا کہ روئے زمین پرکوئی عمل علم حدیث کی طلب سے افضل ہو اس کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی رضا مندی چاہتا ہو۔
آپ کافرمان ہے کہ میرے نزدیک حدیث سے بڑھ کر بوجھل اور اس سے افضل چیز کوئی اور نہیں۔ افضل تو اس کے لئے ہے جس کا ارادہ آخرت کا ہے اگر یہ ارادہ نہ ہوتوبڑا خوف ہے۔
فرماتے ہیں جو شخص اللہ تعالیٰ کو خوش کرنا چاہتا ہومیرے علم میں تو اس کے لئے حدیث سے افضل اور کوئی چیز نہیں۔ دیکھو تو تمام مسلمانوں کو اپنے کھانے پینے تک میں اس کی ضرورت رہاکرتی ہے۔
امام وکیع بن جراح رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کوئی عبادت اللہ تعالیٰ کے نزدیک حدیث کے پڑھنے پڑھانے سے زیادہ افضل نہیں۔
بشر بن حارث رحمہ اللہ فرماتے ہیں جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہو اور نیک نیت ہو میں نہیں جانتا کہ روئے زمین پر اس کے لئے کوئی عمل طلب حدیث سے بھی افضل ہو رہا۔ رہا میں، سو میں تو اپنے ہر قدم پر جو میں نے اس میں اٹھایا ہو استغفار کرتا ہوں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,092
پوائنٹ
1,155
حدیث کی روایت تسبیح خوانی سے بھی افضل ہے

امام وکیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر روایت حدیث میرے نزدیک تسبیح خوانی سے بہتر نہ ہوتی تو میں ہرگز روایت حدیث میں مشغول نہ ہوتا۔

حدیث کی روایت کا درجہ درس قرآن جیسا ہے

سلیمان تیمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم ابو مجلز رحمہ اللہ کے پاس تھے اور وہ ہمیں حدیثیں سنا رہے تھے تو ایک شخص نے کہا کاش کہ آپ قرآن پاک کی کوئی سورت پڑھتے؟ تو ابو مجلز رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ میرے نزدیک علم حدیث بھی کسی سورت کی تلاوت سے کم نہیں۔

حدیث کی روایت کا ثواب نماز پڑھنے کے برابر ہے

محمد بن عمرو بن عطا کہتے ہیں کہ موسیٰ بن یسار ہمیں حدیثیں سنا رہے تھے تو سیدنا ابن عمررضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا جب آپ حدیث بیان کرنے سے فارغ ہوں تب سلام کیجئے گا۔ اس لئے کہ آپ گویا نماز میں ہیں۔

حدیث کا لکھنا نفلی روزوں سے افضل ہے

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے سوال ہوتا ہے کہ ایک شخص تو نفلی روزوں اور نفلی نمازوں میں مشغول ہے او ردوسرا شخص حدیث کے لکھنے میں مشغول ہے۔ فرمائیے آ پ کے نزدیک کون افضل ہے ؟آپ نے فرمایا حدیث لکھنے والا۔سائل نے کہا آپ نے اسے اس پر فضیلت کیسے دیدی؟ فرمایا اس لئے کہ کوئی یوں نہ کہے کہ لوگوں کو ہم نے ایک چیز پر پایا اور ان کے ساتھ ہولئے 1
امام ابوبکر احمد بن علی خطیب رحمہ اللہ رحمہ اللہ اس کتاب کے مصنف فرماتے ہیں کہ بالخصوص اس زمانہ میں تو حدیث کا سیکھنا ہر قسم کی نفلی عبادت سے افضل اور بہتر ہے۔ اسلئے کہ سنتیں مٹتی چلی جارہی ہیں ان پر سے عمل اٹھتا چلا جارہا ہے اور بدعت اور بدعتی بڑھتے چلے جارہے ہیں۔
یحییٰ یمان رحمہ اللہ کا بھی قول ہے کہ آج کل طلب حدیث بہترین عبادت اور خیروبرکت کا باعث ہے لوگوں نے کہا امام صاحب ان طالب علموں کی نیت نیک کہاں ہوتی ہے ؟آپ نے فرمایا طلب حدیث خود نیک نیتی ہے۔
1۔ یعنی حدیثیں نہیں ہونگی تولوگ دوسروں کی تقلید اور پیروی کرینگے۔
حدیث کو بطور شفاحاصل کرنے کے پڑھنا

امام رمادی رحمہ اللہ جب بیمار پڑتے تو فرماتے اہلحدیثوں کو بلاؤ۔ جب وہ آتے تو فرماتے مجھے حدیثیں پڑ ھ کر سناؤ۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے روایت حدیث سے کیوں منع فرمایا تھا اور آپ کے فرمان کا صحیح مطلب کیاہے؟

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبداللہ بن مسعود، سیدنا ابو دردائ، سیدنا ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہم اجمعین کے پاس آدمی بھیجا اور انہیں بلوا کر اپنے پاس روک لیا اور فرمایا تم کیوں اس قدر کثرت سے حدیثیں بیان کرتے ہو؟ اپنی شہادت تک ان بزرگوں کو اپنے پاس ہی رکھا۔
قرظہ بن کعب رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب ہم جانے لگے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہمیں رخصت کرنے کے لئے صرار مقام تک آئے پھر پانی منگوا کر وضو کیا اور ہم سے فرمانے لگے جانتے ہو میں تمہارے ساتھ یہاں تک کیوں آیا؟ہم نے کہا اس لئے کہ آپ ہمیں رخصت کریں اور عزت افزائی کریں۔ فرمایا یہ ٹھیک ہے لیکن اسی کے ساتھ ایک اور مطلب بھی ہے وہ یہ کہ تم اب ایک قوم کے پاس پہنچو گے۔ جنہیں قرآن کریم کے ساتھ شغف اورمحبت ہے۔ اور بکثرت اس کی تلاوت کرتے ہیں۔ دیکھو! تم کہیں انہیں احادیث سناکر اس سے نہ روک دیناجاؤ میں بھی تمہارا شریک ہوں۔
قرظہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے تواس کے بعد کوئی حدیث بیان ہی نہیں کی۔
اگر کوئی شخص ان روایتوںکو پیش کرکے سوال کرے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر روایت حدیث کا انکار کیوں کیا؟اور ان پر اس بارے میں سختی کیوں کی؟تو جواب دیا جائے گا کہ محض دین کی احتیاط اور مسلمانوں کی اچھائی کے لئے۔ اس لئے کہ انہیں ڈر تھا کہ کہیں لوگ صرف روایت پر نہ رہ جائیں اور عمل نہ چھوڑ بیٹھیں۔ اور ساتھ ہی یہ بھی کھٹکا تھاکہ کہیں معانی کے سمجھنے سے قاصر نہ رہ جائیں۔ اس لئے کہ بعض حدیثیں ظاہر پر محمول نہیں ہوتیں اور ہر شخص ان کے اصلی معنی تک پہنچ جانے کی قدرت نہیں رکھتا۔ کبھی حدیث مجمل ہوتی ہے اور اس کی تفصیل اور تشریح دوسری حدیثوں سے معلوم ہوتی ہے تو سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو یہ خیال گذرا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ حدیث کا مطلب غلط سمجھا جائے اور ایک لفظ کو لے کر کوئی بیٹھ جائے حالانکہ اور حدیثوں کو ملانے سے فی الواقع مطلب اس کا کھل جاتا ہے اور وہ دوسرا ہوتا ہے۔
مثا ل کے طور پر مندرجہ ذیل حدیث کو ملاحظہ فرمائیے جس سے ہماری اس توجیہ پر کافی روشنی پڑیگی۔ (یہ حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے)
نبی ﷺ ایک مرتبہ اپنے گدھے پر جسے عفیر کہاجاتا تھا سوار تھے اور سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ ﷺنے فرمایا معاذ! جانتے ہو اللہ تعالیٰ کا حق بندوںپر کیا ہے؟ اور بندوں کا حق اللہ تعالیٰ پر کیا ہے؟ میں نے کہااللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کو زیادہ علم ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریںاور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ اور بندے کا حق اللہ تعالیٰ پر یہ ہے کہ جو مشرک نہ ہو اسے عذاب نہ کرے۔ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ عرض کرتے ہیں اے اللہ کے رسول ﷺ !میں لوگوں کو خوشخبری سنادوں ؟فرمایا نہیں ڈر ہے کہ کہیں وہ اس پر تکیہ نہ لگا لیں۔
بعض روایتوں میں ہے کہ اجازت چاہنے والے سیدناعمر رضی اللہ عنہ تھے۔
ایک اور حدیث میں ہے (جس کا مفہوم ہے)کہ رسول اللہ ﷺ نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے اور اسکے ساتھ اس نے شریک نہ کیا ہو وہ جنت میں جائے گا۔
سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی کہ لوگوں کو خوشخبری سنادیں تو آپ نے فرمایا انہیں نہ سناؤ۔ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں وہ نڈر نہ ہوجائیں۔
ابو العباس احمد بن یحییٰ رحمہ اللہ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ نبی ﷺ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو آتے ہوئے دیکھ کر علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہ یہ دونوں اہل جنت کے ادھیڑ عمر لوگوں کے سردار ہیں انہیں یہ خبر نہ دینا آپ نے ان تک یہ حدیث پہنچانے کی ممانعت کیوں فرمائی ؟ابو العباس رحمہ اللہ نے جواب دیا محض اس لئے کہ ایسا نہ ہو ان کے اعمال میں قصو ر آجائے۔
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہی وجہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے منع فرمانے کی ہے۔ اور یہی سبب ان کی اس سختی کا ہے جو انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پرکی۔ اس میں رسول اللہ ﷺ کی حدیث کی حفاظت ہے اوربعد والوں کوتنبیہ ہے تاکہ وہ سنت رسول ﷺ میں وہ چیز داخل نہ کردیں جو اس میں نہیں۔ اس لئے کہ جب وہ دیکھیں گے کہ رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہنے والے سچے لوگوں پر بھی جب روایت حدیث کے بارے میں اس قدر سختی کی گئی ہے تو وہ روایت حدیث میں بہت احتیاط سے کام لیں گے اور نفس انسانی میں شیطانی خیالات کذب کے بارے میں جو اٹھتے ہیں ان سے وہ بہت بچتے رہیں۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ دمشق کے منبر پر فرمایا لوگو! سوائے ان حدیثوں کے جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیان کی جاتی تھیں بیان کرنے سے بچو۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اللہ عزوجل کے دین کے بارے میں لوگوں کو دہمکاتے رہاکرتے تھے اور جو معنی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے قول کے ہم نے بیان کئے ہیں اسی توجیہ کی تائید یہ روایت بھی کرتی ہے
کہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے جب سلام کے بارے میںآپ کے سامنے حدیث بیان کی تو آپ نے فرمایا کسی اور کو بھی گواہ لاؤ جس نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے سنی ہو۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن قیس رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو تین مرتبہ سلام کیا جب اجازت نہ ملی تو لوٹ گئے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے پیچھے آدمی بھیجا کہ آپ کیسے لوٹ گئے؟ انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے فرماتے تھے کہ جب تم میں سے کوئی تین مرتبہ سلام کرے جواب نہ پائے تو لوٹ جائے۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا اپنی اس روایت پر شہادت پیش کرو ورنہ میں تمہیں سزا دوں گا؟ عبداللہ بن قیس گھبرائے ہوئے آئے اورمیں جس جماعت میں تھاوہاں سے گذرے۔ ہم نے کہا کیا بات ہے ؟جواب دیا کہ میں عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور پورا قصہ بیان کرکے کہا کہ تم میں سے کسی نے اس حدیث کو سنا ہے ؟انھوں نے کہا ہاں ہم سب نے سنا ہے۔ پھراپنا ایک آدمی ساتھ کر دیا اس نے آکر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے وہی حدیث اپنے سماع سے بیان کی۔
یہ نہ سمجھنا چاہیئے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ1سے گواہ اس لئے طلب کیاتھا کہ وہ خبر واحد (ایک شخص کی بیان کردہ روایت) کو قابل قبول نہیں جانتے تھے ہرگز نہیں۔
دیکھئے! فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی حدیث جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے مجوسیوں سے جزیہ لینے کی بابت بیان فرمائی تھی قبول کی اور اس پر عمل بھی کیا۔ حالانکہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے سوا کسی اور نے وہ بیان نہیں فرمائی۔
اسی طرح ضحاک بن سفیان کلابی کی روایت کو اشیم ضبابی کی عورت کو اس کی دیت میں سے ورثہ دلانے کے بارے میں۔ حالانکہ وہی تنہا راوی تھے قبول فرمائی اور عمل کیا۔
اسی طرح یہ بھی نہ جاننا چاہیئے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کی روایت
1۔ ان کا نام عبداللہ بن قیس ہے اور ابوموسی کنیت ہے۔
اس لئے قبول نہ فرمائی تھی کہ وہ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ پر بدگمانی کرتے تھے۔ بلکہ اس کی وجہ وہی تھی جسے ہم نے بیان کیاہے یعنی صرف سنتوں یعنی حدیثوں کی حفاظت و صیانت اور روایت کے بارے میں احتیاط و پختگی ۔ واللہ اعلم ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بہت بڑی جماعت سے اور تابعین رحمہم اللہ کی بھی بہت بڑی جماعت سے حدیث کی اشاعت، حدیث کا حفظ، حدیث کا مذاکرہ (ایک دوسرے کو سنانا، سننا) اور ان چیزوں پر رغبت و تحریص مروی ہے ہم کچھ روایات ان میں سے یہاں نقل کرتے ہیں ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,092
پوائنٹ
1,155
صحابہ کرام اورتابعین عظام کی ان بعض روایات کا بیان جو حدیث کے حفظ ،اشاعت اور مذاکرہ کی بابت مروی ہیں

سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حدیثوں کی دیکھ بھال کرتے رہو۔ حدیثوں کامذاکرہ کرتے رہو۔ اگر یہ نہ کیا تو ڈر ہے کہ یہ علم مٹ نہ جائے۔ یہی روایت دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حدیث کا مذاکرہ کرو علم حدیث کی حیات آپس میں پڑھنا پڑھانا ہی ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ حدیث کا درس تدریس اور مذاکرہ جاری رکھو۔ ایسا نہ ہو کہ یہ علم جاتا رہے اسلئے کہ یہ قرآن کریم کی طرح جمع کی ہوئی اور محفوظ نہیں ہے۔ اگر تم نے حدیث کا شغل مذاکرہ کے طور پر نہ رکھا تو یہ علم جاتا رہے گا۔ خبردار ایسا نہ ہو کہ تم میں سے کوئی یہ کہدے کہ میں نے کل حدیث بیان کی تھی آج نہ بیان کروں گا نہیں بلکہ اسے یہ کہنا چاہیئے کہ میں نے کل بھی حدیثیں بیان کیں آج بھی بیان کروں گا اور پھرکل بھی بیان کرتا رہوں گا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب تم ہم سے حدیثیں سنو انہیں آپس میں دہرایا کرو۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا بھی یہی قول ہے آپکا یہ بھی فرمان ہے کہ حدیث بیان کیاکرو ایک حدیث دوسری کو یاد دلادیتی ہے۔
سیدنا ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ علمی مجلسیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تبلیغ ہیں رسول اللہ ﷺ نے اللہ کی باتیں پہنچا دیں تم بھی جو کچھ اچھی باتیں ہم سے سنو دوسروں تک پہنچادو۔
سلیم بن عباس کہتے ہیں کہ ہم سیدنا ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے وہ ہمیں بکثرت رسول اللہ ﷺ کی حدیثیں بیان کرتے تھے پھر فارغ ہوکر فرماتے تھے اچھی طرح انہیں سمجھ لو اور پھر جس طرح تمہیں پہنچائی گئی ہیں دوسروں کو پہنچاؤ۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں بیٹوں نضراور موسیٰ کو حکم دیا کہ وہ حدیث کو اوراسناد حدیث کو لکھ لیا کریں اور انہیں دوسروں کو سکھائیں۔ فرماتے ہیں ہم تو اس علم کو علم نہیں جانتے تھے جو اپنے علم کو نہ لکھے۔
سیدنا علقمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں حدیث کا مذاکرہ کیاکرو۔ اس کی حیات آپس میں پڑھنا پڑھانا ہی ہے فرمایا کرتے تھے ذکر حدیث کی طلب کرو تاکہ وہ بے رونق نہ ہوجائے۔
عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ رحمہ اللہ کا قول ہے حدیث کی زندگی اس کاپڑھنا پڑھانا ہے تم اس کا مذاکرہ جاری رکھو۔
طلق بن حبیب رحمہ اللہ کہتے ہیں حدیثوں کا مذاکرہ کیاکرو ایک حدیث دوسری کو یاد دلایا کرتی ہے۔
سیدنا ابو العالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب کبھی تم رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کرو تو اسے اچھی طرح محفوظ رکھو۔



بادشاہان اسلام کا روایت حدیث کی تمنا کرنا اور ان کا محدثین کو تمام علماء سےافضل جاننا

خلیفہ مامون الرشید نے جب مصر فتح کیا تو فرج اسود نے کھڑے ہوکر کہا اے امیر المومنین! اللہ کاشکر ہے کہ اس نے آپ کے دشمن پر آپکو اپنی مدد سے غالب کیا۔ عراق شام اور مصر آپ کے ماتحت ہوگئے۔ پھر یہ فضیلت کیا کم ہے کہ آپ رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد بھائی ہیں؟ تو خلیفہ وقت جواب دیا کہ یہ سب سچ ہے۔ لیکن ایک تمنا رہ گئی ہے وہ یہ کہ میں مجلس میں بیٹھوں اور املاء لکھنے والا آئے اور وہ مجھ سے پوچھے کہ ہاں بتلائیے کہ آپ سے کس نے بیان کیا ۔ اور میں روایت بیان کروں کہ مجھ سے حماد بن سلمہ بن دینار اور حماد بن زید بن درہم نے حدیث بیان کی ۔ان سے ثابت بنانی نے ان سے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا(جس کا مفہوم ہے) جو شخص دو لڑکیوں کی پرورش کرے، یا تین کی، یا دو بہنوں کی، یا تین کی، یہاں تک کہ وہ مرجائیں یا اس کا خود انتقال ہو جائے تو وہ میرے ساتھ جنت میں اس طرح ہوگا اور آپ ﷺ نے شہادت کی اور درمیان کی انگلی ملا کر اشارہ کرکے بتلایا۔
مصنف رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ صریح غلطی ہے ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ خلیفہ مامون الرشید اور دونوں حماد کے درمیان ایک راوی اور ہو۔ ا سلئے کہ خلیفہ مامون الرشید 170؁ھ میں پیدا ہوئے اور حماد بن سلمہ کا 167؁ھ میں انتقال ہوگیا تھا تو حماد کے انتقال کے تین سال بعدتو وہ پیدا ہوئے پھر ان سے روایت کیسے کرتے؟اسی طرح حماد بن زید بھی 179؁ھ میں انتقال کر گئے تھے تو ان سے بھی بلاواسطہ ان کی روایت صحیح نہیں۔
یحییٰ بن اکثم کہتے ہیں خلیفہ ہارون الرشید رحمہ اللہ نے دریافت کیا کہ ایک درجہ بہت ہی بڑا ہے کیا بتلا سکتے ہو کہ وہ درجہ کیا ہے ؟میں نے کہا یہ وہ درجہ ہے جس پر اے امیر المومنین آپ ہیں۔ خلیفہ نے فرمایا تم اس درجہ کو نہیں پہچانتے میں ہی جانتا ہوں سب سے بڑے درجے والا وہ ہے جو ایک حلقہ میں بیٹھا ہوا ہو اور کہہ رہا ہو۔
حدثنا فلان عن فلان قال قال رسول اللہ ﷺ
میں نے کہا امیر االمومنین کیا اس کا درجہ آپ سے بھی افضل ہے حالانکہ آپ رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد بھائی کی اولاد ہیں اور مسلمانوں کے بادشاہ ہیں؟ کہا ہاں تجھ پر افسوس ہے یقینا وہ مجھ سے بہت بہتر ہے اس لئے کہ اس کا نام رسول اللہ ﷺ کے نام کے ساتھ ملا ہوا ہے وہ کبھی نہ مریگا اور ہم مر جائیں گے یہ علماء باقی رہیں گے جب تک کہ دنیا باقی ہے۔
ابن ابو الحناجر کہتے ہیں ہم بغداد میں یزید بن ہارون رحمہ اللہ کی مجلس میں تھے اور لوگ بھی وہاں جمع تھے بادشاہ متوکل کی سواری لشکر سمیت وہاں سے گذری انہیں دیکھ کر بادشاہ کہنے لگے۔
حقیقی بادشاہ یہ ہے
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں خثیمہ کی اس روایت میں وہم ہے اور یہ روایت غلط ہے اس لئے کہ یزید بن ہارون 206؁ھ میں انتقال فرماگئے اور بادشاہ متوکل 207؁ھ میں پیدا ہوا ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ یہ واقعہ بادشاہ مامون کا ہو۔واللہ اعلم ۔
ایک مرتبہ امیر المومنین نے فرمایا مجھے جس چیز کی خواہش ہوئی وہ پوری ہوئی مگر ایک تمنا باقی رہ گئی وہ تمنا حدیث کی ہے کاش کہ میں ایک کرسی پر بیٹھتا اور مجھ سے پوچھا جاتا کہ آپ سے کس نے حدیث بیان کی اورپھر میں سند بیان کرکے حدیث سناتا۔
عمر بن حبیب عدوی قاضی نے کہا امیر المومنین آپ کیوں حدیث بیان نہیں کرتے۔ جواب دیا کہ ملک و خلافت کے ساتھ حدیث سنانا زیب نہیں دیتا۔
خلیفہ مامون الرشید تو ان تمام خلفاء بنوالعباس سے زیادہ حدیث کی طرف راغب تھے اور حدیث کا مذاکرہ بکثرت کرتے تھے اور روایت کی انہیں بڑی حرص تھی انہوں نے اپنی خاص مجلس میں اپنے خاص ہم جلیسوں سے بہت سی حدیثیں بیان بھی کی ہیں حدیث کی املاء کے حافظ تھے عام مجلسوں میں جس میں عام لوگ جمع ہوتے تھے حدیث بیان کرتے تھے پہلے تو اس سے رکتے رہے لیکن بالآخر اسکا پختہ ارادہ کرلیا۔
یحییٰ بن اکثم قاضی سے ایک مرتبہ خلیفہ مامون نے فرمایا آج میرا ارادہ ہے کہ حدیث بیان کروں۔ میں نے کہاسبحان اللہ !امیرالمومنین سے زیادہ اس کااہل کون ہے؟کہا اچھا منبر لگاؤ منبر پر بیٹھ کر حدیث بیان کرنی شروع کی۔
پہلی حدیث تو بروایت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ یہ بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا(جس کا مفہوم ہے) امراء القیس کے ہاتھ میں قیامت کے روز جھنڈا ہوگا اور وہ تمام شاعروں کا پیشوا بن کر جہنم میں جائیگا۔
پھر تقریباً سند کے ساتھ اسی طرح تیس حدیثیں بیان کیں پھر منبر سے اترے اور فرمایا کہوتمہاری کیا رائے ہے؟میں نے کہا امیر المومنین بڑی پرلطف اور بابرکت مجلس رہی خاص و عام کو فائدہ ہوا۔ کہا یہ تو نہ کہو یہ حق تو محدّثین ہی کاہے میں دیکھتا رہاکہ لوگوں کووہ لذت نہ آئی جو اہل حدیث کی حدیث کی مجلسوں میں انہیں حاصل ہوتی ہے۔
بادشاہ اسلام محمد بن سلیمان بن علی مسجد حرام میں آئے اور دیکھا کہ ایک محدّث کے ارد گرد اہلحدیث کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی ہے تو اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ ان لوگوں کاقدم میری گردن پر ہونا مجھے تخت سلطنت سے زیادہ محبوب ہے۔



حدیث کی مجلسوں اور اہلحدیث کی صحبتوں کے سُرور کا بیان

مطرف رحمہ اللہ فرماتے ہیں اے اہلحدیثو! تمہاری مجلس میں بیٹھنا مجھے اپنے گھر والوں میں بیٹھنے سے زیادہ محبوب ہے۔
یزید بن ہارون رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اہلحدیث کا ہروقت حدیث کا تقاضا مجھے پریشان کردیتا ہے لیکن اگر وہ نہیں آتے تو مجھے اس سے زیادہ رنج و غم ہوتا ہے۔
ایک مرتبہ امام یحییٰ بن سعید قطان رحمہ اللہ اہلحدیث طلباء کی بھیڑبھاڑ دیکھ کر کچھ غصہ ہوجاتے ہیں تو محمد بن حفص کہتے ہیں کیا آپ پسند کریں گے کہ یہ لوگ آپ کے پاس نہ آئیں؟ آپ فرماتے ہیں ان کی تھوڑی دیر کی غیر حاضری بھی مجھ پر شاق گذرتی ہے۔
حماد بن زید کہتے ہیں کہ مجھ سے ایک مرتبہ ابو جبلہ نے کہا دیکھئے تو اہلحدیث مجھے کیسی تکلیف دیتے ہیں؟ میں نے کہا انہوں نے کیا کیا؟ انہوں نے فرمایا مجھ سے کہا ہم ابھی آتے ہیں اب میں ان کاانتظار کررہاہوں اور وہ اب تک نہیں آئے۔
بشر بن حارث سے محمد بن عبداللہ کہتے ہیں آپ حدیث بیان نہیں کرتے فرمایا میں تو خود حدیث بیان کرنا چاہتا ہوں لیکن جب تم چاہتے ہوتو بیان نہیں کرتا۔
یحییٰ بن اکثم قاضی فرماتے ہیں میں قاضی بھی بنا قاضی القضاۃ بھی بنا ۔وزیر بھی بن گیا اور بڑے بڑے عہدے حاصل کئے لیکن کسی چیز میں اتنا خوش نہیں ہوں جتنا اس میں کہ حدیث لکھنے والا مجھ سے کہے، آپ سے اللہ تعالیٰ خوش رہے آپ یہ حدیث کس سے روایت کرتے ہیں۔
قیس بن ربیع نے جب حدیث کے طالب علموں کا مجمع اپنے سامنے دیکھا تو اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیر کر فرمانے لگے اللہ کا شکر ہے مدتوں کی تکلیفوں کے بعد یہ مبارک دن دیکھنا نصیب ہوا۔ معمر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کوئی پونجی کسی شخص کے پاس حدیث سے بہتر اور افضل نہیں ہے۔
امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے اگر اہل حدیث طلب حدیث کے لئے میرے پاس نہ آئیں تو میں ان کے گھروں میں جاکر انہیں حدیث سناؤں۔
آپ فرماتے ہیں میں خود کو بھی اور تمہیں بھی پوشیدہ خواہش سے ڈراتا ہوں یہ پوشیدہ خواہش ہی ہے کہ میں تم سے کہتا ہوں کہ میرے پاس نہ آیا کرو۔ حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ اگر تم آنا بھی چھوڑ دو تو میں خود تمہارے پاس آؤں اگر چہ اِدھر اُدھر کی باتیں ہی سناؤں۔
ابراہیم بن سعید جوہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں حدیث رسول اللہ ﷺ میں بھی ایک پوشیدہ چاہت ہے۔ دیکھونا! میں تم سے کہتا ہوں میرے پاس نہ آیاکرو حالانکہ چاہت یہ ہے کہ ضرور آتے رہو۔

ختم شد​
 
Top