• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہ اسلامی از ابوہشام (کینیڈا)

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
یہی علم، تقوی وصحیح فہم کے بغیر ہو تو اس کے نور کا حاصل ہونا بہت مشکل ہے۔اور یہی علم اگرچہ کتناہی عالمانہ ہی کیوں نہ ہو اس پر بے عملی اس نور کو بجھا دیتی ہے۔اور اگر اس کا استعمال نامناسب اور غیر فقیہانہ ہو تو ناقابل قبول ہوجاتا ہے۔ لوگ اسے جھٹک دیتے ہیں اور نہیں مانتے۔ غالباً اسی نامعقول استعمال کے بارے میں سیدنا عبد اللہ ؓبن مسعود نے فرمایا تھا: أَتُرِیْدُونَ أَنْ یُکَذَّبَ اللہُ وَرَسُولُہُ کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کا رسول جھٹلا دئے جائیں؟ محدثین بھی یہی کہا کرتے: لاَ تَنْشُرْ بَزَّکَ إِلاَّ مَنْ یَبْغِیْہِ اپنے کپڑے کو صرف اس کے آگے پھیلاؤ جو اس کا ضرورت مند ہے۔اس لئیاسلام، علم کو حجاب اکبر نہیں کہتا اور نہ ہی لدنی اور کشفی علوم کا قائل ہے یہ تو الْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ کا کہتا ہے۔

لوگوں کو خیر کی تعلیم: علم کو سیکھنے کے بعد اسے سکھانااور پھیلانا بھی ضروری ہے۔مسلمان نسلیں تبھی محفوظ رہیں گی۔ اس لئے اللہ تعالی کی دی ہوئی اس خیر کوہر جگہ بانٹنا چاہئے۔آپ ﷺ کا ارشاد ہے: بَلِّغُوا عَنِّیْ وَلَو آیَۃً۔ ایک آیت بھی میری طرف سے تم تک پہنچی ہو اسے آگے ضرور پہنچاؤ۔

علم کی راہ میں صبر: بعض اوقات اس راہ میں بہت محنت اور کوشش درکار ہوتی ہے نیز مشکلات بھی پیش آسکتی ہیں۔حصول علم میںہمہ وقت آسائشوں کی توقع نہ رکھے بلکہ ایسی تکالیف کو اہمیت دئے بغیر اپنا ہدف ومقصد زندہ وسلامت رکھے۔اور صبر وبرداشت سے کام لے ۔اس لئے کہ: {إن مَعَ العسر یسرا} یقیناً تنگی کے ساتھ آسانی بھی ہے۔

احترام علماء اور ان کی عزت افزائی: طالب علم اپنے ان محسنوں کو ضرور بنظر احترام دیکھے جنہوںنے اسے اندھیرے سے نکال کر روشنی دکھائی۔ان کے ساتھ با ادب رہے بانصیب رہے گا۔ اپنا علم بھی محترم بنائے اور ان کا تذکرہ ہمیشہ خیر سے کرے نیز انہیں اپنی دعاؤں میں بھی یاد رکھے۔

تقوی کو لازم پکڑنا۔علم کی حصول میں خدا خوفی ایک بنیادی عنصر ہے جس سے طالب علم اپنے نفس کو غرور میں مبتلا ہونے ، علماء سے جھگڑا کرنے اور انہیں نیچا دکھانے سے روکتا ہے اور تواضع وعاجزی پر ابھارتا ہے۔ اس لئے کہ علم اس وقت ایک رحمت ہے ورنہ بہت بڑی زحمت جیسے شیطان کو علم کے تکبرنے خوار کیا ۔

٭٭٭٭٭​
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
فقہ اسلامی:​

…دین اسلام کا صحیح فہم وادراک فقہ کہلاتا ہے۔ دین کے مصادر اس فقہ کا اصل ہیں۔ جن میں غوطہ زن ہوکر فقہ مستنبط کی جاتی ہے۔یہ مصادر قرآن وسنت ہیں جو دوش بدوش چلتے ہیں اور اجتہادی مسائل میں اجماع وقیاس صحیح کے بھی راہنما ہیں۔

… اس علم و ادراک کا صحیح نور علماء حق ہی کو عطا ہوتا ہے جو اسی کی روشنی میں چلتے، اپنے آپ کو مستقیم بناتے اور دوسروں کو بھی اسی کی طرف راہنمائی کرتے ہیں۔یہ علماء حق فقہاء ، محدثین اور مجتہدین سبھی میں پائے جاتے ہیں۔

…اس فقہ کا علم ہمیں براہ راست قرآن وسنت رسول ﷺسے حاصل ہوجاتا ہے یا پھر بالواسطہ فقہاء ومحدثین اور علماء کی دینی وعلمی بصیرت سے۔

…شریعت کا ہر فقہی حکم کا مقصد مسلمان کی بھلائی ہے۔یہ کل پانچ ہیں اور مقاصد خمسہ کہلاتے ہیں ۔

…یہ فقہ ہربالغ ، عاقل ،مسلم مرد وعورت سے متعلق ہے اور جنین ونوزائیدہ بچے کے لئے بھی۔جو فاتر العقل، نابالغ اور غیر مسلم ہیں ان کے لئے نہیں۔ہاں غیر مسلم سے تعلقات کے بارے میں اسلامی فقہ ہمیں ضرور آگاہ کرتی ہے۔

… فقہ اسلامی تاابد رہنے والی ہے۔ اسے زندہ مسائل سے واسطہ ہے۔ اور انسانوں کی تہذیب وثقافت کو بہتر اور بامقصد بنانے میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔

… اجماع واجتہاد کے دروازے جس طرح سابق میںکھلے تھے آج بھی اپنی زندہ دلی کے ساتھ معاشرتی اورمعاشی معاملات کو بے لاگ اور مکمل ذہنی آزادی کے طریقے سے پیش کرنے کو تیار ہے۔

…بہت سے مسائل جو شریعت میں واضح اور صحیح احادیث سے ثابت ہیں اور جنہیں سمجھنے کے لئے نہ تو کسی عالم یا فقیہ ومحدث کے اجتہاد واستنباط کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ ہی کسی مسلکی فقہ کی۔ ان سے مستفید ہونا فرض ہے اور انہیں اختلافی بنانے کی کوشش ایک کھلا انحراف۔کیونکہ یہ براہ راست ہمیں قرآن وسنت سے مل چکے ہیں۔ ان سادہ مسائل کا فہم بھی فقہ کہلاتا ہے مثلاًوضو کاصحیح طریقہ جاننا اور نماز کو سنت رسول ﷺکے مطابق پڑھنا۔

…جو مسائل قرآن وسنت میں غیر واضح ہیں یاوہ نئے ہیں ان میں علماء وفقہاء کی کاوشوں کے نتائج سے مستفید ہونا بھی فقہ ہے۔ کیونکہ وہ ان کا حل کتاب وسنت سے ہی علتEffective Cause) (تلاش کرکے دیتے ہیں اور صحیح حکم بھی بتا دیتے ہیں۔فقہاء کرام کے ان فیصلوں یا فتاوی میں یہ اختلاف بھی ہوسکتا ہے کہ جناب رسالت مآب ﷺ کے کون سے افعال شرعی کہلائے جائیں گے اور کون سے غیر شرعی۔ اس لئے فقیہ یا مجتہد کے فیصلوں کا نفاذ نہیں بلکہ ا اطلاق ہوتا ہے یہی اسلامی فقہ ہوتی ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
… فقہ اسلامی چاروں مذاہب کے استنباطات وفتاوی وغیرہ سے مستفید ہوکر بغیر مذہبی تعصب کے اقرب الی الصواب کو قبول کرتی ہے۔

…قرآن وسنت میں وارد احکام ، شریعت کے اڑھائی فی صدکے لئے نہیں بلکہ کل کے لئے ہیں اورسبھی اسلامی فقہ کی اساس اورفقہ کے لئے کافی وشافی ہیں۔اس میں از خود علتیں نکال کرمسائل کو فرض کرنے کی گنجائش نہیں۔ یہ بھی دینی خدمت نہیں کہ احکام قرآن وحدیث میں معارضہ یا مخالفت قائم کی جائے۔کیونکہ اس لڑکھڑاہٹ میں قیاس اور ذاتی رائے، قرآن وحدیث پر مقدم ہوجاتے ہیںاور احادیث صحیحہ توڑ مروڑ دی جاتی ہیں جن سے تاویلات کے عجیب وغریب انبار لگ جاتے ہیںیا پھر باقی ماندہ اشیاء کو خلاف قیاس کہہ کر چھوڑ دیا جاتاہے۔

… الفاظ قرآن وحدیث میں جو شرعی احکام ہیں وہ سب مطابق عقل اور قیاس صحیح کے موافق ہیں جن میں رہتی دنیا تک کے تمام نزاعات کے بہتر فیصلوں کی گنجائش موجود ہے۔ان میں کوئی بھی شرعی حکم یا کوئی بھی فرمان نبوی، میزان عدل ، قیاس صحیح، عقل سلیم اور فطرت مستقیمہ سے ہٹا ہوانہیں۔جس طرح کوئی انسان ایسا نہیں جس کی طرف آپ ﷺ رسول نہ ہوں اسی طرح کوئی حکم ۔۔جس کی کسی بھی وقت امت کو ضرورت پڑنے والی ہو۔۔ ایسا نہیں جس کا بیان آپ ﷺ نے نہ فرمایا ہو۔

… فقہ اسلامی میں ہمیں علماء وفقہاء کی فہم وفراست یکساں نظر نہیں آتی بلکہ اس میں بڑا تفاوت ہے۔جو وسعت دینی اور سبھی سے مستفید ہونے کا عندیہ ہے۔ایک ہی آیت یا حدیث کو ایک فقیہ سمجھ کر اس سے صرف ایک مسئلہ مستنبط کرتا ہے اور دوسرا دس مسئلے یا ان سے بھی زیادہ۔ بعض فقہاء کا فہم صرف الفاظ تک محدودرہتا ہے انہیں بیان ، ایماء ، اشارہ، تنبیہ، یا اعتبار وغیرہ تک رسائی نہیں ہوپاتی۔ مفرد لفظ سے جو معنی بھی ان کے ذہن میں آتا ہے بس یہی ان کی فقہ ہوتی ہے۔اس لئے فقہ اللہ تعالی کی دین ہے کہ صرف ایک ہی لفظ سے بے شمار مفاہیم ومعانی سے وہ کسی کوآگاہ کردے اور فہم وفراست کے اعلی مقام ومرتبہ تک پہنچا دے۔ مثلاً:ایک آیت کو سمجھنے کے بعد عموماً ذہن میں وہ بات نہیں آپاتی جو دو آیتوں کو ملاکر سمجھ آتی ہے۔ آیت: حملہ وفصالہ ۔۔ اور آیت حولین کاملین کو ملا کر سیدنا ابن عباسؓ نے یہ فقہ حاصل کی کہ عورت کے حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ ہے ۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
… اجتہادی مسائل میں مجتہدین کرام کے اپنے علمی ظرف اور بصیرت میں نمایا ںفرق ہوتا ہے اور اختلاف رائے بھی ۔ ان آراء کو پڑھنے کے بعد کسی نہ کسی مجتہد کی کسی خاص پہلو میں لاعلمی، غلطی، خطا کا علم ہوجاتا ہے لہٰذا مجتہد سے غلطی ہونے کا امکان ہے جب کہ فقہ اسلامی میں فقہائے کرام کی کثرت رائے سے یہ خیرہمیشہ درست ملتی ہے۔

خصوصیات: ماضی میں دین اس سے بہت بلند تھا کہ صحابہ اورفقہاء وعلماء اس میں ذاتی رائے دیں۔یا اپنی عقل وقیاس کو اس پر مقدم کریں۔یہی وجہ ہے کہ ایسے علماء کی مقبولیت وشہرت زمان ومکان سے بے نیاز ہوگئی۔ رب العالمین نے ان کا ذکر جمیل ان کی وفات کے بعد بھی جاری رکھا۔ ان کے مخلص شاگردوں کی ایک جماعت بتوفیق الٰہی ان کی اتباع میں انہی کے مطابق ہی کام کرتی رہی۔تعصب یاکسی کی طرف داری نام کو نہ تھی۔وہ اپنے بزرگوں کی طرح حجت ودلیل کا ساتھ دیا کرتے۔جدھر حق ہوتا ادھر وہ اپنا منہ موڑلیتے۔حق کا دامن پکڑتے اور اسی کے گردا گرد وہ گھومتے۔ حق کو دلیل سے پہچانتے نہ کہ رجال سے۔

٭… فقہ اسلامی ،مجموعی طور پر قرآن وسنت کے دلائل سے آراستہ ہوتی ہے۔باقی مآخذ انہی پر انحصار کرتے ہیں۔ ضعیف وموضوع دلائل پرمبنی فقہی مسائل اس کی لغت میں نہیں۔ حقیقت حال پر مبنی فقاہت اس کی نظر میں صحیح فقہ ہے۔ نہ کہ مفروضہ مسائل ۔

٭… فقہ اسلامی میں صحابہ کرام کی اتباع کی جاسکتی ہے اس لئے کہ وہ عادل تھے دوسروں کی نہیں۔کیونکہ ان پر نقد کی جاتی ہے۔اسی طرح علم، اخلاق اور راستی میں بھی ان کے بعد کوئی نسل نہیں۔صحابہ میں کوئی مبتدع نہیں تھا مگر ٹیکنیکلی تابعین میں مبتدع تھے۔جیسے جہم بن صفوان صغار تابعین میں سے تھا۔ تابعین نے بھی صحابہ کرام کی اتباع کرنے کا کہا مگر کسی نے سعید بن المسیب ، سفیان ثوری ، حسن بصری، یا ابن سیرین رحمہم اللہ کی اتباع کا نہیں کہا۔صحابہ کرام کی اتباع سے مراد ان کا متفق علیہ یا اجماعی طریقہ کاریا عمل ہے۔ انفرادی عمل نہیں۔مثلاً صحابہ کرام نے مرتکب کبیرہ کو غیر مسلم نہیں کہا۔ اور نہ ہی غیر مسلم کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ اسی طرح آپ ﷺ کا ارشاد: دو دین جزیرۃ العرب میں نہیں رہ سکتے۔اس حدیث کا مطلب بھی ہم نے الٹا لیا کہ غیر مسلم اگر نظر بھی آئے تو اسے مار دینا چاہئے چہ جائیکہ وہ سعودی عرب میں ہی کیوں نہ ہو؟ جبکہ خلفاء راشدین کے عہد میں غیر مسلم جزیرۃ العرب میں رہتے تھے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے تو اسی جزیرہ کے عیسائیوں سے معاہدہ کیا۔ کیاصحابہ کرام کی تعبیر رسول کی تعبیر کے عین مطابق تھی یا ہماری توجیہ زیادہ درست ہے؟
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
٭…اتباع، دین کی مدلل بات کے قبول کرنے کو کہتے ہیں۔اور تقلید بے دلیل بات کے قبول کرنے کو۔ فقہ اسلامی کی تاویل وتفہیم میں ائمہ اربعہ کا اختلاف بہت ہی نمایاں ہے۔ چاروں الگ الگ فقہیں اس کی شاہد ہیں۔اور ہر امام دوسرے سے علم میں بھی بڑھا ہوا ہے۔ سینکڑوں ، ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ایک دوسرے سے بڑھے ہوئے ہیں۔نیز ان میں کوئی بھی علم صحابہ سے بڑھا ہوا نہیں ہے۔اس لئے نابینا اگرکسی سے پوچھ کر اپنا منہ قبلہ کی طرف کرلیتا ہے تو اس لئے کہ اس کے پاس اس سے زیادہ قدرت نہیں مگر کیا اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ دوسروں کو بھی قبلہ بتاتا پھرے؟ اس لئے تقلیدی مسئلہ کو حق جان کر دوسروں کو بتانا اور زبردستی منوانا نیز فتوی بازی کرنا یہ دین میںجبر اور سینہ زوری ہے اور مسیطر بننا ہے۔جب دوسرا حق پر ہو سکتا ہے تو پھر امن کو آگ نہیں لگانی چاہئے۔

٭…عام خیال یہی ہے کہ فقہ صرف چار ائمہ کرام کی فقاہت تک محدود ہوگئی ہے ۔نیز باب اجتہاد بھی بند ہے خواہ علم وتخصص فقہ میں لوگ کتنے ہی کیوں نہ آگے بڑھے ہوئے ہوں۔یہ خیال درست نہیں کیونکہ علم فقہ ، صحابہ رسول نے آگے پھیلایا اور ہزاروں شاگرد تیار کئے ۔چنانچہ یہ علم ان چار ائمہ میں کیسے محصور ہوسکتا ہے؟۔مدینہ منورہ کے فقہاء سبعہ ہی کو لے لیجئے ان کا شاید ہی کوئی ثانی تھا۔نیز مکہ، عراق، بصرہ ، شام اور مصر کے فقہاء تابعین کی ایک الگ طویل فہرست ہے جن کے اجتہادات اور فقاہت بھی اپنا بے مثل مقام رکھتے ہیں۔یہ سب فقہاء متخصص تھے اور ان کے بعد بھی رہے۔یوں علم فقہ خاصا پھلا پھولا۔اسے محض ائمہ اربعہ تک محصور رکھنا درست فقہی رویہ نہیں۔ اسی جمود نے ہمیں یہ دن دکھائے کہ ہمارا مسلمان وکیل اسلامی فقہ سے استفادہ کی بجائے بدلتے حالات میں بدلتے جدید قوانین ونظریات سے مستفید ہورہا ہے۔

٭… فقہ اسلامی کو تازہ بتازہ اور متحرک رکھنے کے لئے اصول یہ دیا گیاہے کہ اسے اہل علم سے دریافت کیا جائے۔ ارشاد باری تعالی ہے:{ فاسئلوا أہل الذکر إن کنتم لا تعلمون} (النحل:۴۳)۔ اہل علم سے سوال کیا کرو اگر تمہیں علم نہ ہو۔ اس آیت میں اہل علم کا لفظ جمع کے لئے ہے اس سے مراد کوئی مخصوص عالم یا فقیہ نہیںاور نہ ہی خاص وقت کے علماء وفقہاء اس سے مرادہیں۔اس لئے امام مہدی کا ظہور ہو یا سیدنا عیسی علیہ السلام کا نزول ، ان دونوں کی حیات کا بھی ہر لمحہ اسی کے سایہ تلے گذرے ہوگا۔یہ درست ہے کہ ماضی میں بعض فقہاء کی فقہ کو عروج ملا مگر فقہ اسلامی سے علماء وفقہاء کا تمسک اس فقہ کوپیچھے چھوڑ گیا ۔ ایسا اب بھی ہو رہا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔

٭… فقہ اسلامی کا ہر پہلو ہماری زندگی کے ذاتی ، اجتماعی اور معاشرتی حالات پرمحیط ہے۔ بے شمار مسائل و آداب زندگی اس سے معلوم ہوتے ہیں۔ عبادات کی تفاصیل بھی موجود ہیں۔ معاملات زندگی پر بھی سیر حاصل مباحث ہیں۔رشتوں کا تقدس ،وراثت کے مسائل، نکاح وطلاق ، تجارت و معیشت، قانون ودستور، نماز و عبادات کے دیگر پہلو ،سبھی کے بارے میں اسلامی فقہ ہماری راہنمائی کرتی ہے۔بس ضرورت اس بات کی ہے کہ اس پرعمل کرنے کے لئے مسلمان قلبی طور پر تیار ہو اور اتباع رسول کوغیر معمولی اہمیت دے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
محاسن:​

۱۔ دین ودنیا : شریعت میں دین ودنیا دونوں کے احکام نازل فرمائے گئے۔فقہ اسلامی اس اعتبار سے مالا مال ہے کہ جناب رسالت مآب ﷺ کی ذات گرامی نے اپنی حیات طیبہ میں دین ودنیا دونوں کے بارے میں بے شمار فقہی احکامات ارشاد فرمائے۔ حدیث و فقہ کا لٹریچران دونوں موضوعات کوزیر بحث لاتا ہے۔ عبادات اور معاملات دونوں موضوعات فقہ اسلامی کا حصہ ہیں۔ ان کے علم کاحصول دونوں علوم دینیہ میںشمار ہوتے ہیں۔

۲۔ فقہی برکتیں: معاملات کو چلانے میں اسلام کے آفاقی اصول ، اس کے مصادر قرآن وسنت اگر پیش نظر رہیںاور ان کو بغیر کسی تاثر وتاثیر کے مناسب تفسیرو اجتہاد سے نمٹایا جائے تو اسلامی فقہ کی برکتیں اسی طرح آج بھی نمایاں طور پر سامنے آسکتی ہیں۔جس طرح قرون اولی میں یہ سب کچھ دیکھا گیا۔ ان برکتوں کے مظاہر میں ہم دیکھتے ہیں کہ:

ائمہ اربعہ کے علاوہ بہت سے دیگر فقہاء بھی ہیں جنہوں نے اپنی اپنی مصطلحات، قاعدے، اصول اوراستنباطات واجتہادات پیش کئے ہیں۔ یہی وہ بنیادی محاسن ہیں جو فقہ اسلامی کے ہیں کہ اس نے ہر باشعور، معتدل مزاج اور ماہر علم کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی جس نے اپنے فہم اور عقل سلیم کے ذریعے دین پر نہ صرف تدبر کیابلکہ غور وخوض کرکے نئی نئی فقہی، اصطلاحی اور استدلالی راہیںنکالیں۔

۳۔ دین میں توسع: فقہی کاوشوں کا مطالعہ یہی باور کراتا ہے کہ بذات خود دین میں بہت توسع ہے اوردین اپنی خدمت کے لئے معتدل سوچ کو کھپانے کا اہتمام ہر دور میں کرتا آیا ہے۔ اسی نعمت کو پاکر دین ہر دور میںسرخرو ہوا اور مسلمان فقہاء نے حالات، در پیش چیلینجز کا مقابلہ اجتہاد اور غوروفکر سے آخر کر ہی ڈالا۔ اس کی وسعت کا اندازہ صرف اس فقہی لٹریچر کو دیکھ کر ہوسکتا ہے جس میںمفروضہ مسائل نہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۴۔ مجتہد معصوم نہیں: فقہ اسلامی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نے اسلام کے چشمہ صافی قرآن وسنت سے سیراب ہونا سیکھا ہے جس کا دینے والا اللہ وحدہ لا شریک لہ ہے۔ اہل اسلام کو متحد ومتفق رکھنے کے لئے جو سرمایہ اطاعت واتباع دیا وہ رسول اکرم ﷺ کی ذات بابرکات ہے۔ شریعت اور اس کے فہم میں اطاعت واتباع اپنے آخری رسول ﷺ کی کرائی گئی ہے۔ تاکہ استنباط واجتہاد میں اختلاف رائے کو اتباع رسول سے ختم کردیا جائے جو ایمان کا لازمہ ہے۔ آپ ﷺ کے علاوہ شریعت میں کسی اور کو معصوم قرار نہیں دیااور نہ ہی کسی کو اس کی اجازت دی ہے کہ اپنی طرف سے کسی کو معصوم قرار دے۔ اس لئے فقہی اختلافات میں کسی عالم، مجتہد یا امام وغیرہ کو معصوم نہیں گردانا جا سکتا۔

۵۔ ضرورت اجتہاد: ائمہ اسلاف کی تاریخ اور ان کے فقہی مناہج کو بغور پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شروع شروع میں فقہاء کا فقہی مسلک یہ تھا کہ اجتہادی امور میں تقلید اور جمود کو پنپنے کا موقع ہی نہ دیا جائے بلکہ صحابہ کرام اور ائمہ اسلام کے اجتہادات سے وقتی مصلحتوں کے مطابق فائدہ اٹھایا جائے۔ اور فقہی فروع میں جمود اور فرقہ پرستی کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ بس اصل نظر کتاب اللہ وسنت رسول اللہﷺ پرہی مرکوز رہے۔اسلاف کوکتاب وسنت میں اگر کسی مسئلہ یا وقتی حادثہ کے متعلق صراحت نہ ملتی تو اس کا فیصلہ محض شخصی رائے کے مطابق نہ کرتے۔ کسی علاقہ کے علماء نے اپنے مخصوص حالات وافکارکو امت پرزبردستی مسلط نہیں کیا۔ بلکہ صحابہ کرام اور اسلاف کی وسعت نظر پر حاضر فقہاء کی نگاہ رہی اور یہی اصل ہد ف رہا۔۔ جمود اور شخصیت پرستی سے انہوں نے امت پر تنگی اور مشکل پیدا نہیں کی۔

نیز جب نصوص نہ ہوں اور کتاب وسنت سے نئے مسائل کا حل صراحتاَ نہ ملے تو پھر اجتہاد کے سوا چارہ نہیں۔ صحابہ کرام نے بھی اجتہاد فرمایا، ائمہ اربعہ اور دیگر ائمہ مجتہدین نے بھی بوقت ضرورت اجتہاد سے کام لیا۔ لہٰذا آج بھی اہم معاملات ومسائل کو اجتہاد ہی کے ذریعے سمجھنے اور حل کرنے کی کوشش ہونی چاہئے۔ محدثین وفقہاء کرام کا یہی مسلک تھا۔

٭٭٭٭٭​
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
فقہ اسلامی کی اہمیت و ضرورت:​

٭…اللہ تعالی نے انسان کو پیدا فرما کر اسے کرہ ارضی پر بسایا۔ غالباً اس میں حکمت یہ تھی کہ نسل انسانی جب زمیں پر پھلے پھولے تو جہاں ان کے باہمی معاملات وتعلقات آگے بڑھیں وہاں یہ مختلف قوموں، برادریوں اور قبائل سے پہچانے جائیں۔مگران کے باہمی روابط کیسے ہوں؟ ان بن کی صورت ہو تو اس کا حل کیا ہو؟ جرائم اگر ہوں تو ان سے کیسے نمٹا جائے؟ اور اگر کوئی ان سے نمٹتا ہے یا ان کا حل پیش کرتا ہے تو وہ کون ہو؟گویا انسانی معاشرے کو پرامن بنانے اور چلانے کے لئے ایک پورا نظام ہو۔ ورنہ طاقتور کمزور کو کھاجائے گا۔ اور ظالم اپنے ظلم سے باز نہیں آئے گا۔ انسانیت کے نام پر انسان مار دئے جائیں گے۔

٭…انسان اگر خود قانون گرہو تو اس کے قانون میں سب سے بڑا سقم ہی یہ ہوگا کہ وہ اسے کمزوروں کے لئے بنائے مگر اپنے لئے نہیں۔ اس کے مزاج کی تیزی ، تبدیلی، خواہشات اور زیادتی وغلبے کا جذبہ ہی غیر متوازن قانون سازی کرائے گا۔جس سے عدل وانصاف یا امن وسکون کی توقع نہیں کی جاسکتی۔اس لئے اللہ تعالی نے ان قوانین کو خود بنایاکیونکہ وہ انسان کا خالق ہے اسے علم ہے کہ اس چھ فٹ کے انسان کا مزاج کیا ہے ؟ اور کون سا قانون یا نظام اس کے لئے مناسب ہے۔چنانچہ اس کی تخلیق کے ساتھ ہی اسے چند قوانین کی پابندی سے آگاہ کردیا۔ اور خیر وشر کی معرفت بھی دے دی۔ اور سمجھا دیا کہ زمینی فساد کی ابتدا ان قوانین کو توڑنے سے ہی ہوگی۔تاریخ انسانی گواہ ہے کہ جہاں انسان نے الٰہی ہدایات کو ترک کیا یا اس نظام سے ذرا غفلت برتی۔ تاریکی اور ظلمت نے وہاں بسیرا کرلیا اور باہمی کشمکش میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔اس لئے ایسے نظام کو اس نے خود ہی نظام جاہلیت کا نام دیا۔

{أفحکم الجاہلیۃ یبغون ومن أحسن من اللہ حکماً لقوم یوقنون}۔ کیا لوگ زمانہ جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں ۔ اور جو یقین رکھتے ہیں ان کے لئے حکم میں اللہ سے بڑھ کر کون بہتر ہوسکتا ہے۔

٭…صحیح عقیدہ ،صحیح عبادات اورصحیح معاملات ہی صحیح قوانین ہیں۔ جوخالق کے انعام کا شکر کرنا سکھاتے اور بھائی بندوں کے حقوق ادا کرنے کا درس دیتے ہیں۔ جس میں کسی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی گنجائش نہیں۔ یہ سب قوانین اسلامی شریعت میں ہیں جو جدید وقدیم کو اپنے اندر سموتے اور وقت ضرورت آگاہ بھی کرتے رہتے ہیں۔ اور یہی فقہ اسلامی ہے۔ معاشی مسائل جن میں کاروبار ، تجارت اور ملازمت جیسے اہم امور ہیں ان میں فقہ اسلامی کیا راہنمائی کرتی ہے؟ اس سے بھی اسے واقف ہونا ہے۔والدین، اولاد کی اور اولاد والدین کی ذمہ داریوں سے کس حد تک عہدہ برآ ہوسکتے ہیں؟ ان سے آگاہی بھی ہر شخص کی ضرورت ہے۔ذاتی طور پربچپن، جوانی اور بڑھاپا کے مراحل کس خوش اسلوبی سے طے کئے جائیں؟ فقہ اسلامی یہاں بھی اپنی مکمل معلومات سے سرفرازکرتی ہے۔ رشتہ دار ، احباب، ہمسائے، ہم جلیس، مسافر، اپنے پرائے اور مسلم و غیر مسلم کے ساتھ کس طرح معاملات نبھانے ہیں؟ ان کی آگاہی سے بھی فقہ اسلامی بخل نہیں کرتی۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
٭…ان مسائل میں کچھ تو فوری طور پر سیکھنا ضروری ہیں جو فرض عین ہے اور کچھ تاخیر سے اور بعض بوقت ضرورت۔ کچھ ایسے بھی ہیں جن کا سیکھنا فرض کفایہ ہے ۔جیسے تجہیز وتکفین اور نماز جنازہ وغیرہ۔ کبھی اس علم کا حصول نفل بھی ہوجاتا ہے جو فرض کفایہ کی حدو مقدار سے ذرا زائد ہے۔نیز عوام الناس کا عمل کی غرض سے نفلی عبادات سیکھنا بھی اس میں شامل ہے۔لہٰذا اس علم کا ادراک وفہم مسلمان کے لئے بہت ضروری ہے ۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کایہ ارشاد روایت کرتے ہیں:

مَنْ یُرِدِ اللہ بِہِ خَیرًا یُفَقِّہْہُ فِی الدِّینِ۔جس سے اللہ بھلائی کا ارادہ فرمانا چاہیں تو اسے دین کی سمجھ عطا کردیتے ہیں۔

٭…اس لئے تمام ضروری معاملات جن میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں شامل ہیں وہ اورعبادات کا شرعی طریقہ و کیفیت دونوں معلوم ہونے چاہئیں۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے: طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیضۃٌ عَلَی کُلِّ مُسلِمٍ۔ ہر مسلمان پر علم حاصل کرنا فرض ہے ۔ مرد ہو یا عورت کے علمی پہئے ساتھ ساتھ رہیں گے تو گاڑی چلے گی۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ ضرورت پڑنے سے قبل ہی اسے سیکھنا ضروری ہے۔ وہ فرماتے ہیں: مَالاَ یَتِمُّ الْوَاجِبُ إِلا بِہِ فَہُوَ وَاجِبٌ۔جو چیز واجب کی تکمیل کے لئے ناگزیر ہو وہ بھی واجب ہے۔ کے تحت ایسا کرنا ناگزیر ہے۔ اس لئے تمام عبادات کی تیاری پہلے سے ہو تاکہ وقت وجوب اسے ادا کیا جاسکے۔ جیسے اقامت صلاۃ، جمعہ کی حاضری کے لئے کوشش اور تیاری وغیرہ۔ایسے فوری اور واجب اعمال کی ادائیگی کی کیفیت سیکھنا بھی ضروری ہے۔ اگر وہ عمل تاخیر سے کرنے کا ہو تو اس کا علم بھی تاخیر سے سیکھا جاسکتاہے۔جیسے حج و عمرہ یاقربانی وغیرہ۔

٭…اپنی دینی زندگی کی عمارت یقین پر اٹھانی چاہئے نہ کہ محض ظن وتخمین کی بنیاد پر۔ ہر عمل کرتے وقت یہ ٹھوس یقین ہونا چاہئے کہ وہ قرآن وسنت کے عین مطابق ہے اور قابل اجر وثواب بھی ہے یا نہیں؟ یاجو کچھ کیا جارہا ہے آیا یہ جائز بھی ہے یا نہیں ؟ کیا حرام تو نہیں؟ مسلمان اسی علم کو اپنی زندگی کا راہنما بناتا ہے۔مگر کیسے؟ اس کے لئے ضروری ہے کہ ان شرعی مسائل کو جاننے کے لئے ہر وقت چوکنا رہے اور قرآن وحدیث کے مطالعے کا عادی بھی بنے۔ اس لئے اللہ تعالی اپنی آیات کا علم انہی کو نوازتا ہے جواس کی جستجو میں رہتے ہیں۔ اور وہ اہل فقہ ہیں جو سب سے بڑی خیر کے حامل ہوجاتے ہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
فقہ اسلامی کی روح:​

نیز آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا:
یٰأیُّہَا النَّاسُ: إِنَّمَا الْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ ، وَالْفِقْہُ بِالتَّفَقُّہِ، وَمَنْ یُرِدِ اللہُ بِہِ خَیرًا یَُفَقِّہْہُ فِی الدِّیْنِ، وَإِنَّمَا یَخْشَی اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَائُ، وَلَنْ تَزَالَ أمَّۃٌ مِنْ أُمَّتِی عَلَی الْحَقِّ ظَاہِرِینَ عَلی النَّاسِ لاَ یُبَالُونَ مَنْ خَالَفَہُمْ، وَلاَ مَنْ نَاوَأَہُمْ حَتّٰی یَأتِیَ أمْرُاللہِ وَہُمْ ظَاہِرونَ۔(الفقیہ والمتفقہ ۱، ۷۹)لوگو: علم سیکھنے سکھانے کا نام ہے اور فقہ دین کی گہری سمجھ کا، جس سے اللہ تعالی خیر وبھلائی چاہتے ہوں اسے پھردین کا گہرا فہم عطا کردیتے ہیں، بلاشبہ اللہ کے بندوں میں علماء ہی ہیں جو اس کا ڈر رکھتے ہیں، میری امت میں ایک گروہ دیگرلوگوں پر حق کی بنیاد پر غالب رہے گا جو ان کی مخالفت کرے گا انہیں اس کی پروا نہیں ہوگی اور نہ ہی ان کی جو ان کے ساتھ دشمنی کرے گا یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ آجائے گا اور وہ کامیاب وکامران ہوں گے۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

لأََنْ أَجْلِسَ فَأَتَفَقَّہَ سَاعَۃ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ إِحْیَائِ اللَّیْلِ بِلاَ فِقْہٍ۔ اگر میں ایک گھڑی بیٹھ کر فقہ حاصل کرلوں یہ مجھے زیادہ محبوب ہے بہ نسبت اس کے میں ساری رات بغیر کسی فقہ کے گذار دوں۔

… آپ ﷺ نے بھی سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو فرمایا: خریدنے کا یہ طریقہ سودی ہے کہ تم دو کلو خشک کھجوریں دے کر ایک کلو تازہ کھجوریں ان کے بدلے میں لو۔میں یہ کھجوریں نہیں کھا سکتا۔

… بینکنگ سسٹم خواہ کوئی بھی ہو یہ بھی اپنے نظام کو سود پرکھڑا کرتا ہے۔بینک کھولنے کے لئے سٹیٹ بینک سے سرٹیفیکیٹ حاصل کرنا اور بطور ضمانت بھاری رقم سٹیٹ بینک میں جمع کروانا ضروری ہے۔ پھر اس کی(Fixed Percentage) پرسرٹیفیکیٹ حاصل کرنے والا بینک اپنا کاروبار چلاتا ہے۔بینکنگ ایک جوا خانہ ہے جس میں بینک ایک فرد سے رقم ادھار لیتا ہے اور اسے (Fix amount) کا لالچ دیتا ہے اور مقروض سے ذرا زیادہ لے کر پہلے کو تھوڑا سا پیسہ دے کر باقی اپنی جیب میں رکھتا ہے۔

… یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے تنگ دست مقروض کو قرض ادا نہ کرنے کی سکت کی وجہ سے مزید مہلت دینے کا کہا ہے نہ کہ اسے جرمانہ کرنے کا۔ اس لئے کہ یہ جرمانہ (Penalty) سود ہی ہو گا۔

… اس کے برعکس اسلام میں بیع(investment)کو رواج دیا گیا ہے جس میں فرد کی فکرو محنت شامل ہے ۔اس میں نفع کا امکان اور نقصان کا رسک بھی ہے۔ مگر نہ مقررہ نفع ہے اور نہ ہی مقررہ نقصان۔
 
Top