محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
یہی علم، تقوی وصحیح فہم کے بغیر ہو تو اس کے نور کا حاصل ہونا بہت مشکل ہے۔اور یہی علم اگرچہ کتناہی عالمانہ ہی کیوں نہ ہو اس پر بے عملی اس نور کو بجھا دیتی ہے۔اور اگر اس کا استعمال نامناسب اور غیر فقیہانہ ہو تو ناقابل قبول ہوجاتا ہے۔ لوگ اسے جھٹک دیتے ہیں اور نہیں مانتے۔ غالباً اسی نامعقول استعمال کے بارے میں سیدنا عبد اللہ ؓبن مسعود نے فرمایا تھا: أَتُرِیْدُونَ أَنْ یُکَذَّبَ اللہُ وَرَسُولُہُ کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کا رسول جھٹلا دئے جائیں؟ محدثین بھی یہی کہا کرتے: لاَ تَنْشُرْ بَزَّکَ إِلاَّ مَنْ یَبْغِیْہِ اپنے کپڑے کو صرف اس کے آگے پھیلاؤ جو اس کا ضرورت مند ہے۔اس لئیاسلام، علم کو حجاب اکبر نہیں کہتا اور نہ ہی لدنی اور کشفی علوم کا قائل ہے یہ تو الْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ کا کہتا ہے۔
لوگوں کو خیر کی تعلیم: علم کو سیکھنے کے بعد اسے سکھانااور پھیلانا بھی ضروری ہے۔مسلمان نسلیں تبھی محفوظ رہیں گی۔ اس لئے اللہ تعالی کی دی ہوئی اس خیر کوہر جگہ بانٹنا چاہئے۔آپ ﷺ کا ارشاد ہے: بَلِّغُوا عَنِّیْ وَلَو آیَۃً۔ ایک آیت بھی میری طرف سے تم تک پہنچی ہو اسے آگے ضرور پہنچاؤ۔
علم کی راہ میں صبر: بعض اوقات اس راہ میں بہت محنت اور کوشش درکار ہوتی ہے نیز مشکلات بھی پیش آسکتی ہیں۔حصول علم میںہمہ وقت آسائشوں کی توقع نہ رکھے بلکہ ایسی تکالیف کو اہمیت دئے بغیر اپنا ہدف ومقصد زندہ وسلامت رکھے۔اور صبر وبرداشت سے کام لے ۔اس لئے کہ: {إن مَعَ العسر یسرا} یقیناً تنگی کے ساتھ آسانی بھی ہے۔
احترام علماء اور ان کی عزت افزائی: طالب علم اپنے ان محسنوں کو ضرور بنظر احترام دیکھے جنہوںنے اسے اندھیرے سے نکال کر روشنی دکھائی۔ان کے ساتھ با ادب رہے بانصیب رہے گا۔ اپنا علم بھی محترم بنائے اور ان کا تذکرہ ہمیشہ خیر سے کرے نیز انہیں اپنی دعاؤں میں بھی یاد رکھے۔
تقوی کو لازم پکڑنا۔علم کی حصول میں خدا خوفی ایک بنیادی عنصر ہے جس سے طالب علم اپنے نفس کو غرور میں مبتلا ہونے ، علماء سے جھگڑا کرنے اور انہیں نیچا دکھانے سے روکتا ہے اور تواضع وعاجزی پر ابھارتا ہے۔ اس لئے کہ علم اس وقت ایک رحمت ہے ورنہ بہت بڑی زحمت جیسے شیطان کو علم کے تکبرنے خوار کیا ۔
لوگوں کو خیر کی تعلیم: علم کو سیکھنے کے بعد اسے سکھانااور پھیلانا بھی ضروری ہے۔مسلمان نسلیں تبھی محفوظ رہیں گی۔ اس لئے اللہ تعالی کی دی ہوئی اس خیر کوہر جگہ بانٹنا چاہئے۔آپ ﷺ کا ارشاد ہے: بَلِّغُوا عَنِّیْ وَلَو آیَۃً۔ ایک آیت بھی میری طرف سے تم تک پہنچی ہو اسے آگے ضرور پہنچاؤ۔
علم کی راہ میں صبر: بعض اوقات اس راہ میں بہت محنت اور کوشش درکار ہوتی ہے نیز مشکلات بھی پیش آسکتی ہیں۔حصول علم میںہمہ وقت آسائشوں کی توقع نہ رکھے بلکہ ایسی تکالیف کو اہمیت دئے بغیر اپنا ہدف ومقصد زندہ وسلامت رکھے۔اور صبر وبرداشت سے کام لے ۔اس لئے کہ: {إن مَعَ العسر یسرا} یقیناً تنگی کے ساتھ آسانی بھی ہے۔
احترام علماء اور ان کی عزت افزائی: طالب علم اپنے ان محسنوں کو ضرور بنظر احترام دیکھے جنہوںنے اسے اندھیرے سے نکال کر روشنی دکھائی۔ان کے ساتھ با ادب رہے بانصیب رہے گا۔ اپنا علم بھی محترم بنائے اور ان کا تذکرہ ہمیشہ خیر سے کرے نیز انہیں اپنی دعاؤں میں بھی یاد رکھے۔
تقوی کو لازم پکڑنا۔علم کی حصول میں خدا خوفی ایک بنیادی عنصر ہے جس سے طالب علم اپنے نفس کو غرور میں مبتلا ہونے ، علماء سے جھگڑا کرنے اور انہیں نیچا دکھانے سے روکتا ہے اور تواضع وعاجزی پر ابھارتا ہے۔ اس لئے کہ علم اس وقت ایک رحمت ہے ورنہ بہت بڑی زحمت جیسے شیطان کو علم کے تکبرنے خوار کیا ۔
٭٭٭٭٭