• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہ اسلامی از ابوہشام (کینیڈا)

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
…سٹاک مارکیٹ ہویا حصص کی خرید وفروخت ان میں غالب صورت سٹہ بازی کی نظر آتی ہے۔ جس سے ذخیرہ اندوزی کو فروغ ملتا اور غیرملکیتی اور ان دیکھی اشیاء کی خرید وفروخت کارجحان و کاروبار بڑھتا ہے۔ اور جس سے گھر بیٹھے چند افراد اپنے جدید ترین وسائل سے یہ کاروبارچلاتے اور پیسہ بڑھاتے ہیں جس میںخون پسینہ کی وہ محنت قطعاً نہیں جو ایک عام آدمی کو کرنا پڑتی ہے۔ جس کے بھیانک نتائج میں ایک یہ بھی ہے کہ آدمی سودخوری اور خود غرضی کا شکار ہو کر لالچ وحرص کا عادی اور دینی فرائض کی ادائیگی سے محروم ہوجاتا ہے۔

…سیدنا فاروق اعظم بازار میں دوکاندار کے بیع وشراء کے علم کا متحان لیتے اگر وہ کامیاب ہوتا تو درست ورنہ اسے فرماتے: بند کرو یہ دھندا ، اور جاؤ پہلے بیع وشراء کے مسائل سیکھو تاکہ تم حلال وحرام میں تمیز کرسکو۔ ورنہ حرام میں پڑے رہوگے۔

…امام عبد اللہ بن المبارکؒ علم فقہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: آدمی کے پاس اگر مال نہ ہو تو اس کے لئے زکاۃ کا علم سیکھنا واجب نہیں۔ لیکن اس کے پاس اگر دوسو درہم آجائیں تو زکاۃ کے مسائل کا جاننا ا س کے لئے فرض ہوگا تاکہ اسے علم ہو کہ زکوۃ کتنی مقدار میں نکالے ، کب نکالے؟ اور کسے دے وغیرہ۔ وہ تاجر حضرات سے اکثر فرمایا کرتے: بھلے لوگو! تجارت سے قبل خرید وفروخت کے شرعی مسائل۔۔ اسلامی فقہ ۔۔ کو ضرور سیکھ لو۔ لاعلمی کی وجہ سے کہیں ایسا نہ ہو کہ تم سود میں ہی پھنستے چلے جاؤ۔

…امام ضحاکؒ اس آیت { بما کنتم تعلمون الکتب وبما کنتم تدرسون} (آل عمران:۷۹)کی تفسیر میں فرمایا کرتے: یہی تو وہ مجالس ہیں جن میں دین کا گہرا علم یعنی فقہ لوگ حاصل کرتے ہیں۔

… امام عطاء ؒبن رباح الخراسانی فرمایا کرتے تھے:

مَجْالِسُ الذِّکْرِ: ہِیَ مَجَالِسُ الْحَلالِ وَالْحَرامِ … کَیْفَ تَشْتَرِی وَتَبِیْعُ، وَتُصَلِّیْ وَتَصُومُ، وَتَنْکِحُ وَتُطَلِّقُ، وَتَحُجُّ وَأَشْبَاہُ ہَذَا۔ ذکر کی مجالس دراصل حلال وحرام کی مجلسیں ہوا کرتی ہیں یعنی تم کیسے خریدو اور کیسے بیچو، کیسے نماز پڑھواور کیسے روزے رکھو، کیسے شادی کرو اور کیسے طلاق دو اور کیسے تم حج کرو ۔

یہی وہ حلقے ومجالس ہیںجنہیں جنت کے باغات کہا گیا ہے۔کیونکہ ان میں صرف قرآن وسنت کی بات ہوتی ہے۔

…نیز معاشرے کی ایک اہم ضرورت صحیح علماء وفقہاء کی بھی ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
ارشاد باری ہے۔

{ وما کان المؤمنون لینفروا کافۃ فلولا نفر من کل فرقۃ طائفۃ لیتفقہوا فی الدین و لینذروا قومہم إذا رجعوا إلیہم لعلہم یحذرون} التوبہ: ۱۲۲۔اہل ایمان کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ سب کے سب جہاد کیلئے نکل کھڑے ہوں بلکہ مسلمانوں کی ہر بستی وطبقہ میں سے کیوںنہیں ایک جماعت نکلتی جو دین میں تفقہ حاصل کرے۔ اور جب وہ واپس پلٹے تو اپنی قوم کو ڈرائے شاید کہ وہ برائی سے بچے۔

یہ آیت درج ذیل ہدایات دے رہی ہے:

۱۔ علم دین کا سیکھنا اور اس میں تفقہ حاصل کرنا امت مسلمہ کے بعض افراد پر اس طرح ضروری ہے جس طرح جہاد، دفاع وطن اور سرزمین کی ضروری ہے۔

۲۔ جس طرح قوم ووطن کے دفاع کے لئے طاقت اسلحہ اور مجاہدین کی ضرورت ہے اسی طرح دین اسلام بھی ایسے افراد کا محتاج ہے جو اس کا دفاع دلائل اور براہین سے کریں۔مسلمان قوم کی بقاء اور عروج کے لئے یہ علم بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔

۳۔ آیات جہاد اور قتال کے بالکل درمیان اس آیت کو بیان کرنا معجزہ ہے جس کا انکشاف زمانہ حال میں ہوچکاہے کیونکہ آج بہ نسبت اسلحہ کے فراوانی کے علم اور وار سٹریٹیجی جانے اور کئے بغیر جنگیںلڑنا بیکار ہے ۔

۴۔ اس آیت میں اہل ایمان کے دو ذمہ دارگروپ بتائے گئے ہیں ۔ جہاد فی سبیل اللہ کرنے والا اور دوسرا تفقہ فی الدین والا۔ تاکہ کچھ مومن جہاد فی سبیل اللہ کی تیاریوں میں لگے رہیں اور کچھ دین میں صحیح فقہ وفہم حاصل کرنے میں لگ جائیں۔ اس طرح اسلام کی عظمت وشان کی نگرانی مجاہدین کریں گے اور شریعت کی پاسبانی طلبہ دین۔جس طرح مجاہد کا خیال حکومت کرتی ہے تاکہ وہ قوی و صحتمند اورذہین رہے اسی طرح پاسداران شریعت کا خیال بھی حکومت کرے گی تاکہ وہ بھی دین کے ابلاغ میں قوی و صحتمند اور ہوشیار رہیں۔

۵۔اس آیت میں لفظ فقہ سے مراد قرآن وحدیث کا علم ہی ہے۔ کیونکہ رسول اکرم ﷺ کی ذات گرامی ہی تھی جو دین فہمی کا ایک منبع ومصدر تھی۔ رہا انذار ، تو اسے آپﷺ یا تو قرآن کریم سے کرتے یاحدیث مبارک سے۔ اس لئے فقیہ کے لئے قرآن کے ساتھ صحیح وحسن حدیث کا علم ہونا بھی شرط ہے۔

۶۔فقہاء دین بھی حقیقت حال کو جان کراپنی دینی بصیرت سے بہرہ مند ہوں اور انذار کا ہنر اپنے درس وتدریس کے دوران آزمائیں۔ یہ بھی ایک ذمہ داری ہے جو اس آیت کی رو سے اللہ تعالی نے فقہاء دین کو دی ہے۔

۷۔افضل یہی ہے کہ فقہ اسلامی کو حاصل کرنے والے ذہین افراد ہوں۔ آپﷺ کا ارشاد ہے۔

رُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ غَیرُ فَقِیْہٍ، وَرُبَّ حَامِلُ فِقْہٍ إِلٰی مَنْ ہُوَ أَفْقَہُ مِنْہُ۔ بہت سے فقہ کے حامل غیر فقیہ یعنی ناسمجھ ہوتے ہیں اور کچھ ایسے بھی جو فقہ کو ایسے شخص کو منتقل کردیتے ہیں جو اس حامل سے بھی زیادہ فقیہ اورسمجھ دار ہوتے ہیں۔

۸۔جو فتاوی یا استنباطات ہیں ان میں اختلاف کا حق بھی بعد کے فقہاء کو دیا گیا ہے۔ اس لئے کہ کوئی معصوم نہیں اور نہ ہی ان کی فقاہت وحی ہے۔ لہٰذا اختلاف کی گنجائش جس طرح ان فقہاء نے اپنے شاگردوں کو دی اور جنہیں فقہی کتب میں بھی نمایاں کیا گیا ہے اسی طرح یہی حق علماء و فقہاء کے لئے ابھی تک قائم ہے۔

یہی آیت مقصد فقہ کو بھی اجاگر کرہی ہے کہ خلق خدا کو صحیح وغلط اور حرام وحلال کی تمیز دینی ہے ورنہ وہاں انذار کی ضرورت ہے۔اس لئے امام شافعی ؒ فرمایا کرتے:
کُلُّ الْعُلومِ سِوَی الْقُرآنِ مَشْغَلَۃٌ إِلاَّ الْحَدِیثُ وَعِلْمُ الْفِقْہِ فِی الدِّیْنِ
الْعِــلْمُ مَا کَانَ فِیـہِ قَـالَ حَدَّثَنَا وَمَا سِوَی ذَاکَ وَسْوَاسُ الشَّیَاطِینِ​
قرآن وحدیث اور علم فقہ کے علاوہ باقی سب علوم ایک شغل ہیں ۔ علم وہی ہے جس میں قال حدثنا ہو اور اس کے سوی جو کچھ ہے وہ شیطانی وساوس ہیں۔​
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
فقہ کا موضوع :​

فقہ کا موضوع مکلف یعنی بالغ، عاقل مسلمان کے افعال ہیں۔جن کے کرنے یا نہ کرنے کا مطالبہ اس سے کیا گیا ہے۔ان افعال کی حقیقت کیا ہے؟ فقہ اسلامی ہی اسے متعین کرتی ہے۔مثلاً: ایک بالغ، عاقل مسلمان کے لئے نماز قائم کرنا، زکوۃ دینا اوروالدین کے ساتھ احسان کرنا فرض ہے اسی طرح غصب کرنا، چوری وملاوٹ کرنا یا والدین کے ساتھ بدسلوکی کرنا حرام کام ہیں۔ یا یہ ناپسند کیا گیا ہے جسے مکروہ کہتے ہیں کہ وہ بکثرت سوال یا مال ضائع کرے یا یاوہ گوئی کرے۔یا وہ کام کرے جومستحب وپسندیدہ ہے جیسے: فرض نماز کے بعد سنت یا نفل پڑھنا۔ یایہ کام مباح ہے جس میں کرنے نہ کرنے کااختیار دیاجاتا ہے جیسے سیب کھانا،چائے پینا۔ یہی فقہ کا موضوع ہے۔

٭٭٭٭٭​
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
لفظ فقہ کا معنی ومفہوم:


لفظ فقہ اپنے لغوی معنی کے تعین میں کچھ تاریخی وتدریجی مراحل رکھتا ہے جن سے واقفیت صحیح فقہی مفہوم کے لئے بہت اہم ہوگی۔

پہلا مرحلہ: لغت میں اس کا معنی ومفہوم دوسرا مرحلہ: خیرالقرون میں اس کا معنی ومفہوم تیسرا مرحلہ: متاخرین میں اس کا معنی ومفہوم۔

پہلا مرحلہ: اہل لغت نے اس لفظ کے معنی ادراک، فہم، اور علم کے لئے ہیں۔مگر اکثر فقہ سے مراد فہم مطلق لیتے ہیں یافقہ کو فہم سے اخص کہتے ہیں کیونکہ فقہ متکلم کے کلام کی مراد کا فہم ہے۔وہ فقہ سے دقیق اور گہرے فہم کا معنی نہیں لیتے۔ ابن منظور نے لسان العرب میں اس کی تعریف یہ کی ہے:

اَلْفِقْہُ: اَلْعِلْمُ بِالشَّیئِ وَالفَہْمِ لَہُ۔وَغَلَبَ عَلَی عِلْمِ الدِّیْنِ لِسِیَادَتِہِ وَشَرَفِہِ وَفَضْلِہِ عَلَی سَائِرِ أَنْوَاعِ الْعُلُومِ کَمَا غَلَبَ النَّجْمُ عَلَی الثُّرَیَّا۔ فقہ سے مراد کسی چیز کا علم اور اس کا فہم ہے۔ مگر علم دین پر اپنی سیادت ، شرافت اور فضیلت کی وجہ سے یہ تمام علوم پراس طرح حاوی ہو گیا ہے۔ جیسے ستارہ ُثریا پر۔

ابن فارس کہتے ہیں:

کُلُّ عِلْمٍ بِشَیْئٍ فَہُوَ فِقْہٌ، ثُمَّ اخْتُصَّ بِذَلِکَ عِلْمُ الشَّریْعَۃِ فَقِیلَ لِکُلِّ عَالِمٍ بِالْحَلالِ وَالْحَرامِ فَقِیْہٌ۔کسی بھی چیز کا علم فقہ کہلاتا ہے۔ بعد میں یہ نام علم شریعت کے ساتھ مخصوص ہو گیا۔ اس لئے ہر وہ عالم جو حلال وحرام سے واقف ہو فقیہ کہلاتا ہے۔

عرب علم کو فقہ کہتے ہیں۔نحو کے امام ، ثعلب، احمد بن یحییٰ نحوی اس فہم کی درجہ بندی کرتے ہوئے لکھتے ہیں: آدمی کی سمجھ کے بارے میں درج ذیل الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں مثلا جب وہ علم میں کامل ہو جائے تو: فقُہ کہا جاتا ہے اوراگر معمولی سمجھ بوجھ رکھتا ہو تو فقِہ کہہ دیا کرتے ہیں۔

اس کی مزید وضاحت امام ابن حجر عسقلانیؒ نے فتح الباری میں یوں کی ہے: فَقُہَ: قاف کے ضمہ کے ساتھ اگر یہ لفظ ہو تو وہ فقہ وفہم مراد ہے جو آدمی کے مزاج اور طبیعت میں رچ بس جائے۔ فَقِہَیعنی کسرہ کے ساتھ ہو اس سے مراد سمجھ ہے۔ اور اگر فَقَہَ زبر سے ہو تو مراد فہم میں سبقت لے جانا ہے۔

لغوی معنی آیات میں:​

قرآن مجید میں بھی لفظ فقہ، فہم کے معنی میں آیا ہے۔مثلاً:

{قالوا یا شعیب مانفقہ کثیرا مما تقول}(ہود:۹۱)وہ کہنے لگے اے شعیب! بہت سی باتیں جو تم کہتے ہو ہم نہیں سمجھتے۔

اسی طرح یہ ارشاد باری تعالی ہے:

{وإن من شیء إلا یسبح بحمدہ ولکن لا تفقہون تسبیحہم۔}( ا لإسراء : ۴۴)اور کوئی شے نہیں جو اللہ کی تسبیح نہ کرتی ہو۔ مگر تم انسانو! ان کی تسبیح نہیں سمجھتے۔

موسی علیہ السلام کی دعا کا ذکر فرمایا:

{ واحلل عقدۃ من لسانی یفقہوا قولی}( طہ: ۲۸ )اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ وہ میری بات سمجھیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
لسان نبوی میں: احادیث میں بھی یہ لفظ اپنے لغوی معنی میں مستعمل ہوا ہے۔

آپ ﷺ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو دعا دیتے ہوئے فرمایا:

اللہُمَّ فَقِّہْہُ فِی الدِّینِ۔ اے اللہ! اسے دین کا فہم عطا فرما۔

اسی طرح صحیح بخاری میں ہے:

إِذَا أَرَادَ اللہُ بِعَبْدٍ خَیراً فَقَّہَہُ فِی الدِّینِ۔ جب اللہ تعالی کسی بندے کے ساتھ کوئی بھلائی کرنا چاہتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عطا کردیتا ہے۔

مسند احمدؒ میں ہے:

کَانَ کَلَامُ النَّبِیِّ ﷺ فَصْلًا، یَفْقہُہُ کُلُّ أَحَدٍ، لَمْ یَکُنْ یَسْرُدُ سَرْدًا۔آپ ﷺ کے کلمات بالکل الگ الگ ہوتے تھے جنہیں ہر کوئی سمجھ لیتا تھا۔ گفتگو لگاتار اور پے در پے نہیں ہوا کرتی تھی۔

…اہل نجد کا وہ شخص جو بکھرے بالوں کے ساتھ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ صحابہ اس کے بارے میں کہتے ہیں۔

نَسْمَعُ دَوِیَّ صَوتِہِ وَلاَ نَفْقَہُ مَا یَقُوْلُ۔۔ (صحیح بخاری)ہم اس کی آواز کی گنگناہٹ تو سنتے تھے مگر سمجھ نہیں پاتے تھے کہ وہ کہہ کیا رہا ہے۔

اس لغوی معنی سے ظاہر ہوتا ہے کہ لفظ فقہ ، ا پنے معنی اور مفہوم کی وجہ سے کسی خاص فن یا فکرکا نام نہیں بلکہ ہر علم کے فہم کو فقہ کہا جاسکتا ہے جس کے مختلف نام و مراتب ہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
نوٹ:
بعض مستشرقین کی یہ رائے ہے کہ لفظ فقہ رومی زبان کے لفظ ( juris) سے ماخوذ ہے ۔ یہ رائے درست نہیں۔ اس لئے کہ اولا ًیہ لفظ قرآن مجید کے علاوہ قدیم عربی ادب میں بھی مستعمل ہے جو کسی بھی زبان سے مستعار نہیں بلکہ وہ اللہ کا کلام ہے دوسرا یہ کہ لفظ فقہ اور (juris) کے نطق میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔

دوسرا مرحلہ: خیرالقرون میں : اس دور کے فقہاء وعلماء نے فقہ کی متعدد تعریفات کی ہیں۔چند درج ذیل ہیں:

پہلا معنی: علماء وفقہاء کے اختلافی دلائل کوجاننا فقہ کہلاتا ہیں۔ ہشام بن عبداللہؒؒ فرماتے ہیں۔

مَنْ لَمْ یَعْرِفْ اخْتِلاَفَ الْفُقَہَائِ فَلَیْسَ بِفَقِیْہٍ۔ جو علماء کے اختلاف کو نہیں جانتا وہ فقیہ ہی نہیں۔

امام قتادہ بن دعامہؒ فرماتے ہیں:

مَنْ لَمْ یَعْلَمْ الاِخْتِلَافَ لَمْ یَشُمَّ الْفِقْہَ بِأَنْفِہِ۔ جس نے علماء کے اختلاف کو نہیں جانا اس نے فقہ کو سونگھا ہی نہیں۔

امام مالکؒ سے دریافت کیا گیا۔ کیا علماء کے اختلاف سے اہل الرائے کااختلاف مراد ہے؟ فرمایا: نہیں بلکہ صحابہ کے اختلاف، ناسخ ومنسوخ اور مختلف الحدیث مراد ہیں۔ (جامع بیان العلم: ۳۴۵)۔ ایک اور ارشاد فرماتے ہیں: فتوی دینے کا مجاز صرف وہی شخص ہے جو اختلافی مسائل سے آگاہ ہو۔ (الموافقات ۴؍۱۶۰) امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرمایاکرتے: مَنْ کَثُرَ فِقْہُہ قَلَّ إنْکَارُہُ عَلَی الْمُخَالِفِیْنَ۔ جس کی فقہ زیادہ ہوگئی اس کی مخالفین کے بارے میں نفرت کم ہوگئی۔

أبو إسحاق الحوفی ؒکہتے ہیں:
َالْعُلُومُ ثَلاثۃٌ: عِلْمٌ دُنْیَاوِیٌّ، وَعِلْمٌ دُنیَاوِیٌّ وَأُخْرَوِیٌّ، وَعِلْمٌ لاَ لِلدُّنیاَ وَلاَ لِلدِّینِ، فَعِلْمُ الَّذِی لِلدنیاَ عِلْمُ الطِّبِّ وَالنُّجُوم ِوَمَا أَشْبَہُ ذَلِکَ، وَالْعِلمُ الذِی لِلدنْیا َوالآخِرۃِ عِلمُ القرآنِ وَالسُّنَنِ وَالْفِقْہُ فِیہِمَا، وَالعلمُ الذِی لَیسَ لِلدنیاَ وَلاَ للآخِرۃِ عِلمُ الشِّعرِ وَالشُّغلُ بِہِ۔ علوم تین ہوتے ہیں۔ دنیاوی علم، دنیا اور آخرت کا علم اور ایسا علم جو نہ دنیا کا ہے اور نہ آخرت کا۔ دنیا کاعلم، علم طب یا علم نجوم یا اس سے ملتے جلتے دیگر علوم ہیں۔ دنیا وآخرت کا علم، قرآن وسنت کا علم و فہم ہے۔ وہ علم جو نہ دنیا کا ہے اور نہ آخرت کا وہ علم شعر ہے اور اس سے دلچسپی ہے۔

امام مالکؒ فرماتے ہیں:
لَیْسَ الفِقْہُ بِکَثرۃِ الْمَسائِلِ، وَلٰکِنَّ الْفِقہَ یُؤتِیہِ مَن یشائَ فِی خَلْقِہِ۔۔(جامع بیان العلم ۳۴۴) یعنی فقہ زیادہ مسائل جاننے کا نام نہیں بلکہ فقہ اللہ کی عطاء ہے جسے وہ چاہتا ہے اپنی مخلوق میں اسے عطا کردیتا ہے۔

ابن عبد البرؒ نے اپنی کتاب جامع بیان العلم میں فقہ، علم اور رائے سے متعلق بے حد مفید مواد جمع کیا ہے۔ جس سے فقہ کے مفاہیم کو مزید سمجھا جا سکتا ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
دوسرا معنی: فقہ سے مراد فہم قرآن ہے۔ حارث ؒبن یعقوب کہتے ہیں:

إِنَّ الْفَقِیْہَ کُلَّ الْفَقِیْہِ مَنْ فَقُہَ فِی الْقُرْآنِ وَعَرَفَ مَکِیْدَۃَ الشَّیْطَانِ۔ اصل فقیہ وہی ہے جو قرآن کو سمجھے اور شیطانی چالوں کو جانے۔

سیدنا ابو الدردائؓ کا قول ہے:

لَنْ تَفْقَہَ کُلَّ الْفِقْہِ حَتی تَرَی لِلْقرآنِ وُجُوہًا کَثیرۃً، (جامع بیان العلم ۳۴۳) تم کبھی فقہ نہیں سمجھ سکتے جب تک قرآن کی کسی آیت یا سورت کی بہت سی وجوہ نہ دیکھ لو۔

تیسرا معنی: آپ ﷺ نے اپنی حدیث کو بھی فقہ کا نام دیا۔حدیث کے فہم وعلم کا نام بھی فقہ ہے جو اللہ تعالی نے امت کے بیشتر علماء کو عطاء کیا ہے۔جس میں مسائل کا ادراک ہے اور اجتہاد واستنباط وغیرہ بھی۔ رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
رُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ غَیْرُ فَقِیہٍ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقہٍ إِلٰی مَنْ ہُوَ أَفْقَہُ مِنْہُ۔بہت سے فقہ کے حامل غیر فقیہ یعنی نا سمجھ ہوتے ہیں۔ اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیںجو فقہ کو ایسے شخص کو منتقل کردیتے ہیں جو اس حامل سے بھی زیادہ فقیہ اور سمجھ دار ہوتے ہیں۔
امام ابن عبد البرؒ فرماتے ہیں: فَسَمَّی الْحَدِیْثَ فِقْہًا مُطْلَقًا وَعِلْمًا۔ آپﷺ نے خود اپنی حدیث کو صرف فقہ اور علم سے تعبیر کیا ہے۔جس سے آپ ﷺ کی مراد حدیث کے الفاظ ومعانی کا بھرپور خیال کرنا ہے۔

نیز رُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ سے مراد حدیث ہی تو ہے۔اسی طرح حدیث یہ بھی واضح کررہی ہے کہ فقیہ وہی ہوتا ہے جو دین میں صاحب بصیرت ہو۔جو نصوص کے معانی پر منتبہ ہو اور ان سے احکام وعبر اور فوائد وغیرہ مستنبط کرنے کا ملکہ رکھتا ہو۔أَفْقَہُ مِنہُ میں فقہاء کے درجات ہیں جن میں افقہ وہ ہے جو نصوص سے اللہ تعالی کی مراد اور اس کے دئے گئے احکام اور قوانین کو زیادہ سمجھتا ہو۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
چوتھا معنی : وہ باتیں جو نفس کے لئے مفید یا مضر ہوں ان کا جاننا بھی فقہ کہلاتا ہے۔ یعنی علم الکلام یا عقائدوغیرہ بھی فقہ کہلاتے ہیں۔ یونانی علوم کی اشاعت کے بعد جب متکلمین نے مناظروں کا آغاز کیا اور تاویلات کی گرم بازاری ہوئی تو علم الکلام(یعنی اعتقاد، وجوب ایمان، اخلاق وتصوف اور اعمال) کو بھی فقہ سے تعبیر کیا گیا۔الفقہ الأکبر جو امام ابوحنیفہ ؒ کی طرف منسوب کتاب ہے۔ اس میں فقہ کا معنی یہ کیا گیا ہے:

اَلْفِقْہُ: مَعْرِفَۃُ النَّفْسِ مَالَہا وَمَا عَلَیہَا۔ یعنی نفس کی ذمہ داریوں (یعنی اس پر اور اس کی ذمہ داری)کے سمجھنے کا نام فقہ ہے۔

یہ تعریف امام محترمؒکے زمانہ میں بہت ہی مناسب تھی۔کیونکہ ان کے دور میں فقہ ، علوم شرعیہ سے الگ کوئی مستقل علم (Science) نہیں تھا۔( الفقہ الإسلامی وأدلتہ ۱؍۱۵)

پانچواں معنی: فقہ سے مرادحکمت ، اورعلم دین ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

{واذکرن ما یتلی فی بیوتکن من آیات اللہ والحکمۃ}۔تم اپنے گھروں میں پڑھی جانے والی آیات الٰہی کو اور حکمت کو یاد کرو۔

امام مالک ؒ اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں: حکمت سے مراد سراسر اللہ کی اطاعت،رسول کی اتباع اور دین الٰہی میںتفقہ اور عمل کا نام ہے۔بہت سی احادیث میں لفظ فقہ بمعنی علم دین مستعمل ہوا ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا:
اَلنَّاسُ مَعَادِنُ، خِیارُہُم فِی الْجَاہِلِیۃِ خِیاَرُہُم فِی الإسْلامِ إِذا فَقِہُوا۔ (صحیح بخاری) لوگ کانوں کی مانند ہوا کرتے ہیں۔ جاہلیت میں ان کا بہترین انسان اسلام قبول کرنے کے بعد بھی بہترین شمار ہوگا بشرطیکہ وہ دین کا گہرا فہم پالیں۔

صحیح بخاری ( ۴۳۹۰ ) میں آپﷺ کا یہ ارشاد بھی مروی ہے جو آپ ﷺنے اہل یمن کے بارے میں فرمایا:

أَتَاکُم أَہلُ الْیَمَنِ أَضْعَفُ قُلُوبًاوَ أََرقُّ أَفْئِدَۃً، اَلْفِقْہًُ یَمَانٍٍ وَالْحِکْمَۃُ یَمَانِیَّۃٌ۔ مسلمانو! تمہارے پاس یمنی آئے ہیں جوبہت نرم دل اور رقیق القلب لوگ ہیں، فقہ یمنی ہی ہے اور حکمت بھی یمنی۔

بعض علماء نے دیگر احادیث کو سامنے رکھ کے فقہ سے مراد یہاں حکمت، علم و فہم دین اور سمجھ داری بھی لی ہے۔ جیسا کہ امام بدر الدین العینیؒ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں۔ حدیث میں فقہ سے مراد دین کا گہرا فہم ہے۔

اس مفہوم میں یہ مثال بطور ایک دلیل کے دی جاسکتی ہے کہ امام شافعی ؒ کو قرآن مجید میں سے اجماع کی حجیت چاہئے تھی۔ اس نیت سے انہوں نے قرآن مجید کو تین سو باربغور پڑھا مگر کچھ حاصل نہ ہو سکا۔پھر کوشش فرمائی تو اس بار انہیں قرآن مجید کی ایک آیت میں اجماع کی حجیت کی دلیل سوجھ گئی جو سورۃ النساء کی درج ذیل آیت تھی:

{ ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین لہ الہدی ویتبع غیر سبیل المؤمنین نولہ ما تولی ونصلہ جہنم و ساء ت مصیرا}۔( النساء: ۱۱۵)جو ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کرے گا اور اہل ایمان کے راستے کے علاوہ کی پیروی کرے گا تو ہم بھی جدھر وہ مڑتا ہے اسے موڑیں گے اور اسے جہنم پہنچا کر ہی چھوڑیں گے جو بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
امام شافعیؒ کو دلیل یہ سوجھی کہ اس آیت میں سَبِیلُ الْمُؤمِنِین سے مراد اجماع ہے یعنی اہل ایمان نے کوئی راستہ بالاتفاق اپنایا ہوا ہے مگر کچھ لوگ یا فردواحد اس راستہ یا طریقہ کو چھوڑ کر کوئی اور طریقہ یا راستہ اپنا لیتے ہیں وہ گویا اجماع سے ہٹا ہوا راستہ ہے۔مثلا عصر کی چار رکعتیں مسلمانوں پر فرض ہیں ۔ اب اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ وہ چار رکعت نہیں بلکہ تین یا پانچ رکعتیں ہیں تو یہ اجماع سے ہٹا ہوا راستہ ہے۔ یہ معلوم بھی ہوا کہ اجماع کی دلیل کے لئے نص (Text) کا ہونا ضروری ہے۔ امام شافعیؒ کواجماع کی دلیل کا سوجھنا ہی فقہ ہے۔

مندرجہ بالا معانی سے یہ نتائج سامنے آتے ہیں کہ فقہ محض مسلکی مسائل یا ایک ہی امام وعالم کی محدود اجتہادی کوششوں کا نام یا اختلاف علم و علماء وفقہاء نہیں بلکہ فقہ : دینی حکمت ، اور اللہ کے دین پر عمل اور نفس کی مفید یا مضر باتوں کا علم، یعنی علم الکلام یا عقائدوغیرہ سبھی کو محیط ہے۔

مگر خیرالقرون میں لفظ فقہ صرف علم دین کے لئے مختص تھا۔جس کی نمائندگی اس دور میںصرف قرآن وسنت رسول ہی کیاکرتے تھے۔ اسی طرح مذاہب اربعہ ہوں یا خمسہ، جن ائمہ کے نام سے یہ مذاہب ایجاد ہوئے ان کے بانی فقہاء کی علمی، دینی اور اجتہادی کاوشیں بھی فقہ کہلائی جاسکتی ہیں۔ اور جو علماء وفقہاء ان کے بعد آئے اور جنہوں نے اپنے دور کے امڈتے مسائل کا حل قرآن وحدیث کی فہم وفراست سے پیش کیا۔وہ بھی فقہ ہے۔

اسی لئے صدر اول کے علماء ، فقیہ سے مراد اس عالم کو لیتے ہیں جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کے فہم میں سب سے آگے ہو۔محض کتاب اللہ یا سنت رسول اللہ کو یاد کرلینے سے آدمی فقیہ نہیں بن جاتا۔

تیسرا مرحلہ: لفظ فقہ متأخرین میں:زمانہ خیر القرون کے بعد اس کا مفہوم بتدریج تبدیل ہوگیا۔ یہ کس طرح تغیر پذیر ہوا؟ ذیل میں ہم دو عظیم المرتبت فقہاء، دانشور اور مفکر حضرات کے اقتباسات نقل کرتے ہیں۔ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ فقہی ذوق اور اس کے مفہوم میں محدودیت اور بتدریج تبدیلی کی لہرکیسے آئی؟ مسلم الثبوت کے مصنف محب اللہ بن عبد الشکور بہاری (م: ۹۱۱ھ) اپنی کتاب میں فرماتے ہیں:

فقہ کا لفظ ابتداء میں شریعت مطہرہ کے علم پر بولا جاتا تھا۔جن میں مہلکات اور منجیات سرفہرست تھیں۔ اسی لئے امام ابو حنیفہؒ نے فقہ کی تعریف یہ فرمائی: یہ نفس کی ذمہ داریوں کا نام ہے۔ اور عقائد میں لکھی گئی اپنی کتاب کا نام بھی انہوں نے الفقہ الأکبر رکھا۔۔۔۔ علم کلام کے بعد یہ لفظ تصوف اور اخلاق پر بھی بولا جانے لگا اسی لئے ریا اور حسد کی حرمت کو فقہ کہا گیا ہے۔ مدت تک یہی عرف رہا۔ پھر عرصہ بعد متاخر فقہاء کی کتب میں فقہ الفروع تو آگیا مگر علم طریقت سے وہ خالی ہوگئیں۔ مسلم، منہیہ: ۵
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
امام غزالیؒ بھی اس سلسلے میںاپنی منفرد رائے رکھتے ہیں اور جسے خاصا سراہا گیا ہے ۔ یہ رائے انہوں نے اپنی معروف کتاب احیاء علوم الدین ۱؍۲۴ میں دی ہے اور جس کا تذکرہ کاتب چلبی نے کشف الظنون ۲؍ ۹۱ میں اور طاش کبرٰی زادہ نے مفتاح السعادۃ ۲؍۶ میں بغیر کسی تنقید کے کیا ہے۔ فرماتے ہیں:

شرعی علوم میں مذموم اور نا پسندیدہ علوم کا اختلاط اور التباس اس لئے ہوا کہ علوم کے اچھے نام جو زمانہ سلف میں بولے جاتے تھے بعد میں اپنی فاسد اغراض کے لئے بدل دیے گئے اور ان کے ایسے معنی ومفہوم لئے گئے جن پر خیر قرون میں قطعًا اطلاق نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی ائمہ سلف ان الفاظ سے یہ مطالب مراد لیتے تھے۔ یہ پانچ نام ہیں: فقہ، علم، توحید، تذکیر اور حکمت۔ یہ بہت اچھے نام ہیں۔ان کے جاننے والوں کا دین میں بڑا مقام تھا۔ لیکن اب ان کو مذموم معانی پر بولا جانے لگاہے۔ ان کے جاننے والوں سے اب دل نفرت کرتا ہے کیونکہ ان ناپسندیدہ معانی پر ان کا اطلاق عام ہوگیا ہے۔پہلا لفظ فقہ ہے جس کے مفہوم میں روایت اور سلف کی طرف نسبت کی بجائے ان لوگوں نے تخصیص پیدا کردی ہے ۔ اب فتووں میں لفظ فقہ، غیر معروف اور حیرت انگیز فروع پر بولا جاتا ہے۔ اس پر طویل گفتگو اور بال کی کھال اتارنے اور ان کے وجوہ وعلل میں تعمق کا نام فقہ رکھ دیا گیا ہے۔ جو ان میں زیادہ وقت ضائع کرے اسے افقہ کہا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ لفظ خیر القرون میں نفس کے امراض کی پہچان اور علوم آخرت کی معرفت پر بولا جاتا تھا۔ اور آیت قرآنی سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ دین کے فہم سے جو انذار اور خوف پیدا ہوتا ہے اسے فقہ سے تعبیر کیا جاتا ۔ طلاق ، عتاق، لعان، سلم ، اجارہ وغیرہ مسائل کے جاننے سے نہ انذار ہوتا ہے اور نہ خوف۔ بلکہ ایسے مسائل میں مشغولیت کی وجہ سے دل مزیدسخت ہو جاتا ہے۔

خیرالقرون میں فقہ کا مفہوم وسیع تھا جس میں عقائد، اعمال، اخلاق، آداب سبھی شامل تھے بعد میں علوم کی جب تقسیم ودرجہ بندی ہوئی تو پھر یہ علم بھی سکڑ گیا ۔ اس تقسیم میں معتزلہ کا بڑا ہاتھ ہے۔ عقائد کی بحث کو فقہ سے الگ کرکے انہوں نے پہلے پہل ان مسائل سے اپنی جان پہچان کرائی اور پھر اصول فقہ میں اپنی برتری۔ہمارے یہاں صرف اعمال سے متعلق مسائل کا نام فقہ رکھ دیا گیا۔ مسلکی رجحانات نے فقہ کی بتدریج مزید تقسیم در تقسیم کردی اور ہر فقیہ کی فقہ ایک مستقل نام پاگئی اور یوں فقہ اسلامی کے وسیع وجہاں گیربہتے سمندر سے اور اس کی گہرائی میں پھوٹنے والے شیریں وشفاف چشموں سے دریاؤں اور ندیوں کو نکال کر فقہ کو محدود معنی دے دیا گیا۔ جس کی وسعت سے عام وخاص بھی محروم ہوگئے۔پھر تعصبات کے جنگل نے محنت، فکر، تدبر، دانش اور ترقی تک کی سعادت ان سے چھین لی۔ حق بکھر ا تو خود بھی بکھر گئے مگر اپنی پارہ پارہ حالت کو حق سمجھ بیٹھے۔ اسی طرح قرآن ، حدیث، عقائد یا اصول دین، اخلاق وآداب اور توحید وغیرہ کے الگ الگ علوم متعارف کرائے گئے اور جن کے متخصصین ظاہر ہوئے۔اور کئے بھی گئے۔
 
Top