• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہ اسلامی از ابوہشام (کینیڈا)

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اصطلاحی تعریف :​

ذیل میں دی گئی فقہ کی یہ تعریف خیرالقرون کے بعد کے علماء نے پیش کی ہے:

عِلْمُ الْفِقْہِ : ہُوَ الْعِلْمُ بِالأحْکامِ الشَّرْعِیَّۃِ الْفَرْعِیَّۃِ الْمُتَعَلِّقَۃِ بِأفْعالِ الْعِبَادِ، فِی عِباداتِہِمْ، وَمُعامَلاتِہِمْ، وَعَلاقاتِہِمُ الأُسَرِیَّۃِ، وَجَنَایَاتِہِمْ، وَالْعَلاَقَاتِ بَینَ الْمُسلِمِینَ بَعْضُہُمْ وَبَعْضٍ، وبَیْنَہُمْ وَبَینَ غَیْرِہِمْ، فِی السَّلْمِ وَالْحَرْبِ، وَغَیرِ ذَلِکَ۔ وَالْحُکْمُ عَلَی تِلْکَ الأَفْعَالِ بِأَنَّہَا وَاجِبَۃٌ، أَو مُحَرَّمَۃٌ، أَومَنْدُوبَۃٌ، أَو مَکْرُوہَۃٌ، أَو مُبَاحَۃٌ، وَأَنَّہَاصَحِیحَۃٌ، أَو فَاسِدَۃٌ أَو غَیْرُ ذَلِکَ، بَنَائً علَی الأدِلَّۃِ التَّفْصیلِیَّۃِ الْوَارِدَۃِ فِی الْکِتابِ وَالسُّنَّۃِ وَسَائِرِ الأَدِلَّۃِ الْمُعْتَبَرَۃِ
۔علم فقہ، شریعت کے ان فروعی احکام کے علم کا نام ہے جن کا تعلق بندوں کے افعال سے ہے مثلا ان کی عبادات ومعاملات، ان کے خاندانی تعلقات، دین کے حق میں ان کی زیادتیاں،زمانہ امن وجنگ میں مسلمانوں کے اپنوں اور غیروںسے تعلقات وغیرہ۔ پھر ان افعال کے بارے میں اس حکم کا علم کہ یہ واجب ہیں یا حرام، مندوب ہیں یا مکروہ یا مباح یا یہ کہ وہ صحیح ہیں یا غلط وفاسد وغیرہ۔ اس علم کی اٹھان ان تفصیلی دلائل پرہی ہوگی جوکتاب وسنت اور دیگر معتبر دلائل سے ماخوذ ہوں۔

علماء فقہ نے لفظ فقہ کی اصطلاحی تعریف یہ کی ہے:

ہُوَ الْعِلْمُ بِالأحْکامِ الشَّرْعِیَّۃِ الْعَمَلِیَّۃِ الْمُکْتَسَبِ مِنْ أَدِلَّتِہَا التَّفْصِیْلِیَّۃِ۔شریعت کے ان عملی احکام کا علم جو ادلہ تفصیلیہ سے ماخوذ ہو۔

چند الفاظ کی وضاحت: درجہ بالا تعریف میں:

علم … دراصل جہل اور اس کی تمام انواع کی ضد ہے۔ علم کسی شے کے مکمل ادراک کو کہتے ہیں۔جیسے کل جزء سے بڑا ہوتا ہے۔ یا نیت، عبادت میں شرط ہے۔ اس میں یقین اور ظن دونوں شامل ہیں۔اس لئے کہ کچھ فقہی احکام یقینی اور قطعی دلیل سے ثابت ہوتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو دلیل ظنی سے ثابت ہوتے ہیں۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ نصوص صحیحہ وضعیفہ سے عقلی راہنمائی لی جاتی ہے اس لئے اجتہاد واستنباط کی غالب تعداد ظنی علم ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
احکام شرعیہ…

اس کی لفظی ومعنوی وضاحت یہ ہے:

حکم:کی جمع احکام ہے ۔ لغت میں حکمکسی کام میں مثبت یا منفی چیز ثابت کرنا کو کہتے ہیں۔ مثلا آگ جل رہی ہے۔ یہ ایک حکم ہے جو مثبت ہے ۔ یا آگ نہیں جل رہی ہے۔یہ بھی ایک حکم ہے جو منفی ہے۔شارع بھی اپنی بات سے ایک حکم جب دیتا ہے تو دراصل وہ ایک مثبت یاکسی منفی چیز کا کہہ رہا ہوتا ہے۔

اصطلاحاً: جو خبر بھی ہو اس میںصحیح غور وفکر کے نتیجے میںحتمی یا ظنی طور پر مطلوب تک پہنچنا ۔حکم کہلاتا ہے ۔ خبر کا یہی مطلوب، حکم شرعی کہلاتا ہے۔فقہاء کرام لفظ حکم کو فیصلہ شدہ شرعی مسئلے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

حکم سے مراد: شارع جب مکلف سے خطاب کرتا ہے تو اس میں کسی کام کے کرنے کا تقاضا ہوتا ہے یا اسے اختیار دیتا ہے یا وہ وضعی ہوتا ہے۔اس خطاب کا اثرجب بندے میں نظر آئے تو یہی حکم مراد ہوتا ہے۔مثلاً: نماز ادا کرنے کا حکم دیا ۔ اب بندے میں اس کا اثر نظر آئے۔حکم کو حکم سمجھے یعنی اسے واجب گردانے۔ اسی طرح دیگر احکام ہیں۔بندہ مومن کو ان افعال کا فرض، مندوب، حرام ، مکروہ، مباح، صحیح، فاسد یا باطل ہونا معلوم ہو۔ یعنی یہ کیوں فرض ہے اس کی دلیل کیا ہے؟ کیونکہ دلیل ہی کے ضمن میں حکم آجاتا ہے۔

شَرْعِیَّہ سے مراد وہ احکام ہیں جو شرعی ہوں یعنی جو قرآن وسنت سے ماخوذ ہوں خود ساختہ نیک وبد اعمال شرعی احکام نہیں کہلائیں گے۔ کیونکہ ان پر شریعت کا رنگ نہیں چڑھا ہوتا۔فقیہ کا یہ فرض ہے کہ اپنے فکر وتأمل اور قوت استدلال کے ذریعے احکام اور ان کے دلائل میں اس منطقی ارتباط کو سمجھے جو دونوں میں موجود ہے۔ غیر شرعی احکام اس لفظ سے از خود خارج ہوگئے۔مثلاً عقلی احکام جہاں عقل کا استعمال ہوتا ہے مثلاً ایک دو کا آدھا ہے۔اور شرعیہ کہنے سے لغوی احکام بھی خارج ہوگئے جیسے: فاعل کے احکام کیا ہیں۔ یا مبتدا اور خبر کا حکم کیا ہے یا حسی احکام بھی خارج ہوجاتے ہیں جیسے: برف ٹھنڈی ہے۔

عَمَلِیَّہ: اس شرط سے علمی اور اعتقادی احکام اب نکل گئے۔جیسے ایمان کے مسائل جو علم عقیدہ اور اصول دین کہلاتا ہے۔ اسی طرح بعض علماء کے نزدیک اصول فقہ بھی عملیہ کی قید سے خارج ہوگیا۔علمی سے مراد تمام فقہی احکام نہیں بلکہ ان کی اکثریت علمی ہے۔جب کہ ان میں سے کچھ نظری بھی ہیں جیسے: اختلاف دین وراثت میں مانع ہوتا ہے۔

فَرْعِیَّہ: سے مراد وہ احکام جن کا تعلق اصول سے نہیں بلکہ فروع سے ہو۔ اصول تو مصادر ہیں یا نصوص۔ جو شریعت کی اصل ہیں۔درخت کے تنے سے جس طرح ٹہنیوں یا شگوفوں کا جو تعلق ہوتا ہے وہی فروع کا اصل سے ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
المُکْتَسَب:یہ علم کی صفت ہے۔ جس کا معنی ہے: کہ فقہ ایسا علم ہے جو کتاب وسنت کے دلائل سے مستنبط کیا ہوا ہوتا ہے۔

أفعال العباد: بندوں کے کام۔ ان کا تعلق قلب سے بھی ہے جیسے نیت کرنا، اور غیر قلب سے بھی۔جیسے انسان کی اپنی ممارست قرأت، یا نماز پڑھنا وغیرہ۔ یہ ظاہری وباطنی اعضاء کا عمل ہوتا ہے۔

بناء: بنیاد: مراد یہ کہ اس علم فقہ کی بنیاد قرآن وسنت میں غوروفکر اور اجتہاد پر مبنی اور مستنبط ہو۔

ادلہ: proofs,evidences or indications دلیل کی جمع ہے لغت میں دلیل مرشد وراہنما کو کہتے ہیں۔ شاعر کہتا ہے:

إذَا کَانَ الْغُرَابُ دَلِیْلَ قَومٍ سَیَہْدِیْہِمْ طَریْقَ الْہَالِکِیْنَا​
جب کوئی کوا کسی قوم کا مرشد وراہنما ہو تو وہ انہیں ہلاکت والا راستہ ہی دکھائے گا۔​

٭…یہ دلائل قرآن کریم کی آیات ہیں یا صحیح وحسن احادیث نبویہ ہیں۔ان دونوں ادلہ پر سب فقہاء کرام کااتفاق ہے۔ نیز اجماع وقیاس بھی دلائل ہیں مگر ذیلی۔جس پر بعض فقہاء کرام کا اختلاف بھی ہے۔

٭…یہ بھی امت مسلمہ مانتی ہے کہ تمام مجتہدین اگر کتاب وسنت یا قیاس سے مستنبط حکم پر متفق ہو جائیں تو وہ خطا سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ اس طرح ایک تیسری اصل پیدا ہوئی جسے اجماع کہا جاتا ہے جو قیاس سے زیادہ قوی ہے۔ اجماع، چونکہ حکم قطعی یا حکم ظنی کا فائدہ دیتا ہے اور قیاس، حکم ظنی کا۔ اس لئے یہ بھی ادلہ ہیں۔

٭…مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ شریعت کے تمام احکام مصالح اور علل پر مبنی ہیں۔ اس لئے کتاب وسنت سے ایک چوتھی اصل متفرع ہوئی جسے قیاس کہا جاتا ہے۔

٭… اس طرح ادلہ احکام چار ہوئے۔ کتاب ، سنت، اجماع اور قیاس۔

٭… ادلہ احکام ہونے کی حیثیت سے ان چاروں پر امت کے سواد اعظم کا اتفاق ہے۔

ان کے علم سے مراد یہ ہے کہ:

٭… فقیہ کو ان کی حجیت کے بارے میں علم ہوکہ استدلال کے مراتب کیا ہیں؟

٭…نص کیا مفہوم اور دلیل دے رہی ہے؟

٭…اجماع کا معنی کیا ہے؟اس کی شرائط کیا ہیں۔

٭… قیاس کی تعریف ،اقسام اور اس کی شرائط صحت وغیرہ کیا ہیں؟

٭…ابو القاسم محمد بن احمدبن جزیؒ(م۔ ۷۴۱ھ) نے تقریب الوصول میں متفقہ وغیر متفقہ مصادر کی تفصیل دیتے ہوئے ان کی تعداد بیس بتائی ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
یہ ادلہ دو قسم کے ہیں: ادلہ عقلیہ اور ادلہ نقلیہ۔

اَدِلَّہ َنقْلِیَّہ: یہ کتاب وسنت ہیں اور ان کے ذیلی مختلف فیہ ادلہ، اجماع ، عرف، ہم سے پہلے کی شریعت اور قول صحابی وغیرہ ہیں۔یعنی یہ روایت ونقل کے ذریعے ہم تک پہنچتے ہیں۔

اَدِلَّہ عَقْلِیَّہ: یہ قیاس ، مصالح مرسلہ، استحسان، سد ذرائع اور استصحاب جیسے ادلہ ہیں۔ عقل ان سے دلائل لے کر پیش کرتی ہے۔یہ بھی مختلف فیہ ہیں۔
اَدِلَّہ تَفْصِیْلِیَّہ :

٭…آیات کتاب اور احادیث ِسنت ہیں۔ وہ نصوص جو کسی بھی معین مسئلہ کے بارے میں دلیل اور حکم کی تفصیل بتادیں۔ انہیں ادلہ تفصیلیہ کہتے ہیں۔مثلاً:
{أقیموا الصلوۃ}۔ نماز قائم کرو۔ یہ آیت تفصیلی دلیل ہے جو ایک مخصوص مسئلہ نماز کی اقامت کے بارے میں حکم دے رہی ہے۔

{ وآتوا حقہ یوم حصادہ}۔ اور فصل کاٹنے کے دن اس کا حق ادا کر دو۔ یہ بھی ایک اور مخصوص مسئلے عشر کا حکم بتارہی ہے اور اس کی دلیل ہے۔ اسی طرح :

{وکلوا واشربوا حتی یتبین لکم الخیط الأبیض من الخیط الأسود من الفجر}۔کھائو پیو یہاں تک کہ سفید دھاری کالی دھاری سے فجر کی ظاہر ہو جائے۔ یہ بھی ایک خاص مسئلے کی تفصیلی دلیل ہے اور وہ سحری فجر تک کھانا ہے۔

٭ … ان میں ہر آیت فقہ کے مختلف ابواب میں سے ایک معین باب کے بارے میں حکم بتا رہی ہے۔

٭ … انہیں ادلہ تفصیلیہ یا ادلہ جزئیہ بھی کہتے ہیں۔یعنی ایسے ادلہ جو جزئی اور مفصل ہوں۔ان کا مبحث فقہ یا علم الخلاف ہوا کرتے ہیں۔یہی فقہاء کا موضوع بحث ہوتا ہے۔

٭… رہے وہ ادلہ جو اجمالی ہیں یا کلی، وہی دراصل مصادر شریعہ (کتاب وسنت، اجماع وقیاس، عام وخاص اور امر ونہی) ہیں یا ان سے متعلق قواعد۔ یہ اہل اصول کا موضوع بحث ہوا کرتے ہیں۔ اسلامی فقہ کے یہ سب دلائل اپنے مسائل کے ساتھ بطور دلیل ہمراہ ہوتے ہیں۔

تبصرہ: متاخرین کی یہ تعریف فقہ، کتاب وسنت یا متقدمین کے ہاں وارد لفظ فقہ کے مفہوم کے مقابلے میں بہت محدود ہے کیونکہ کتاب وسنت میں لفظ فقہ ، شریعت وعقیدے دونوں کو شامل ہے۔جیسے امام ابو حنیفہؒ نے فقہ کی یہ تعریف کی: مَعْرِفَۃُ النَّفْسِ مَالَھَا وَمَا عَلَیْھَا۔ یعنی نفس کی کیا ذمہ داری ہے اور کیا نہیں؟ اس کی معرفت کا نام فقہ ہے۔ جن میںاللہ تعالی کے اسماء وصفات، اس کی وحدانیت اور تمام نقائص سے اس کے پاک ہونے کا اقرار، اس کی خشیت، حقوق اللہ کی معرفت، اور انبیاء ورسل کی معرفت جہاں شامل ہے وہاں اخلاق وآداب کا علم اور سچی بندگی کے لئے محض اللہ کے لئے قیام وغیرہ بھی شامل ہیںجسے علم التوحید کہتے ہیں۔اس لئے کہ عقیدہ کا صحیح فہم نہ ہو یا وہ خراب ہوتو فروعی فقہی مسائل کی حیثیت باقی کیا رہ جاتی ہے۔
نوٹ: احکام شرعیہ کی وضاحت سے غیر شرعی احکام مثلاً عقلی احکام اس علم سے خارج ہوگئے۔ جیسے ایک دو کا آدھا ہوتا ہے۔لغوی احکام بھی اس سے نکل گئے۔ جیسے: فاعل، مبتدا اور خبر کے احکام وغیرہ۔ متاخر فقہاء کی غالب اکثریت یہی معنی لیتی ہے۔نیزان کے نزدیک احکام شرعیہ کا تعلق عمل یعنی عبادات اور معاملات سے ہوتا ہے نہ کہ عقائدو ایمانیات اوراخلاق سے۔

٭…یہ احکام غوروفکر اور استدلال کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ محض نقالی یا بے سوچی سمجھی بات نہیں ہوتی۔ مثلاً حرمت علیکم أمھاتکم۔تم پر تمہاری مائیں حرام کردی گئی ہیں۔ اس آیت میںمسئلہ مائوں کے ساتھ نکاح کا ہے۔اوراس مسئلہ کے بارے میں ایک مقررہ حکم کو بتاتی ہے۔ وہ حکم ہے {حرمت علیکم أمھاتکم}، أی حرمت نکاح أمھاتکم۔ جو ایک دلیل ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
دین اور مذہب میں فرق:​

فقہی مکاتب کے ہاں لفظ مذہب ۔۔مخصوص فقہی سوچ یا نظریے کے لئے مستعمل ہوتا ہے۔ اس لئے مناسب لگتا ہے کہ لفظ دین کے مقابلے میں اسے واضح کردیا جائے۔

دین: اسلام کے لئے دین کا لفظ قرآن پاک اور احادیث شریفہ میں عام مستعمل ہوا ہے۔ اس لئے کہ دین(راستہ، عقیدہ وعمل کامنہج، طریقہ زندگی) بتدریج نازل ہوا اور مکمل صورت میں ہمیں مل گیا۔ جو سب آسمانی وحی ہے اور مقدس ہے۔ جس کا ا علان قرآن کریم میں واشگاف الفاظ میں کیا گیا ہے: {إن الدین عند اللہ الإسلام} یقینا اللہ تعالی کے نزدیک دین اگر کوئی ہے تو وہ اسلام ہے۔ ا س آسمانی دین میں کسی انسانی فکر یا سوچ کا کوئی دخل نہیں۔یہ سب اللہ تعالی کی طرف سے ہمیں بذیعہ وحی ملا ہے جس کے رسول اللہ ﷺ بھی پابند ہیں۔

مذہب: یہ ہماری اسلامی تاریخ کے دین کے ماہرعلماء وفقہاء کی اس فکر کا نام ہے جو انہوں نے دین کے کسی اہم مسئلے پر غور وفکر کے بعد اپنی رائے کی صورت میں دی۔اس سوچ اور فکر کو جب اپنایا جاتا ہے تو اسے مذہب نام دیا جاتا ہے۔اسی لئے مذاہب اربعہ یا چاروں مذاہب کی اصطلاح عام ہے۔ اور ہر مذہب اپنا فقہی مسئلہ بتاتے وقت یہی کہتا ہے کہ ہمارے مذہب میں یوں ہے اور فلاں مذہب میں یہ ہے۔نیک نیتی سے اگر سوچا جائے تو یہ ایک رائے یا اس مسلک کا نام ہے جو کسی امام نے دی یا اپنائی۔مگر بعد میں اسے باقاعدہ اس امام کی طرف منسوب کرنا اور اس پر سختی سے کابند ہوناکیا اس کی کوئی معقول توجیہ ہے؟ اور کیا یہ امت کے حق میں مفید ہے؟

دین اور مذہب کی اس تعریف کے بعد اب یہ جاننا کوئی مشکل نہیں کہ ان میں کیا فرق ہے۔دین اللہ تعالی کی طرف سے دیا ہوا ایک طریقہ زندگی وعقیدہ ہے اور مذہب ایک عالم کی فکر کو اپنانے کا نام ہے۔دین ایک مقدس شے ہے اور مذہب میں بہر حال معصومیت نہیں ہوسکتی اس میں کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی خطا اور غلطی کا امکان ہے۔دین کی طرف نسبت کرنا تو قرآن اور سنت رسول اللہ کا مطالبہ ہے {ہو سمکم المسلمین} مگر مذہب کی طرف نسبت کرنا کوئی دلیل نہیں رکھتا بلکہ اکابر کے بارے میں غلو کا نظریہ چھلکتا ہے۔دین کی اتباع بہر صورت فرض ہے اس کے انکار سے مومن مسلم نہیں رہتا جب کہ مذہب ایک فرد کی سوچ یا رائے کے ساتھ سختی سے چمٹ جانا ہے اس کا انکار بھی کردیا جائے تو مسلمان بہر حال مسلمان ہی رہتا ہے۔

کسی فرد خواہ وہ عالم ہو یا فقیہ اس کی رائے دین میں کیا حیثیت رکھتی ہے ؟ بس اتنی کہ اگر اس کی رائے دین کے اصول اور عقائد کے عین مطابق ہے تو سر آنکھوں پر اور اگر نہیں تو ظاہر ہے اس عالم کو نبی یا رسول کا مقام نہیں دیا جا سکتا۔ اس کی رائے بہ احترام ایک طرف رکھ دی جائے گی۔ اس میں نہ عالم یا فقیہ کی توہین ہے اور نہ ہی روز قیامت اس کی پوچھ ہے ۔نہ ہم اس کے اخلاص پر شک کرنے کے روادار ہیں اور نہ ہی اس رائے کو قبول کرکے ہم اس کی شان کو بلند کر سکتے ہیں۔ ہاں حدیث رسول کے مطابق یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ اگر اس کی رائے دین کے عین موافق ہے تو اسے دوگنا ثواب ملے گا اور اگر مخالف ہے تب بھی اللہ تعالی اس کے اخلاص کی وجہ سے اسے ایک ثواب ضرور دے گا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
فقہ، قانون اورشریعہ​

ان تینوں علوم کے لغوی واصطلاحی فرق کو سمجھنا بھی ضروری ہے تاکہ ہر علم کو اس کا مناسب مقام دیا جاسکے۔

فقہ کی لغوی اور اصطلاحی تعریف آپ پڑھ چکے اور تاریخی اعتبار سے بتدریج اس کے مفہوم میں جو تبدیلی آئی وہ بھی آپ جان چکے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
ہمارے دور میں رائج فقہ کی اب دو قسمیں ہیں:

مذہبی فقہ:​

…یہ وہ فقہی کوشش ہے جو ہر مسلک ومذہب کے علماء وفقہاء نے سرانجام دی۔ جن کا مقصداپنی اپنی مسلکی فقہ کی اشاعت وترویج ہے۔

…یہ فقہ عمومی طور پر اپنے مسلک یا امام یا مجتہد کے علم و فہم، اقوال واستنباط اور اجتہاد کے ارد گرد گھومتی ہے اور اسی کے نام سے معروف بھی ہوتی ہے جیسے فقہ جعفری، فقہ شافعی اور فقہ حنفی وغیرہ۔دیگر فقہاء کے فقہی استنباطات کے مقابلے میں اپنی ترجیح قائم کرنا اس فقہ کا سب سے اولین اور بنیادی کام ہوتاہے۔اس فقہ کو اپنی منشورات وفتاوی میں بھی نمایاں کیا جاتا ہے۔

…مدارس ، حوزہ علمیہ اور مساجد اس کا اصل مرکز ہیں۔

…چونکہ یہ فقہ سوسائٹی کی نشوو ارتقاء کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکتی اس لئے ایسی مذہبی فقہ کا نفاذ کسی جج کے ذریعے ممکن ہوا اور نہ ہوسکتا ہے۔ اس لئے کہ جن حالات میں مجلہ الاحکام العدلیہ یا فتاوی عالمگیریہ لکھاگیا وہ حالات مسلمانوں کو آج درپیش نہیں۔ مزید یہ کہ یہ فقہ ، فقہ اسلامی کا ایک جزو تو ہوسکتی ہے مگر اسے مکمل اسلامی شریعت کہنا مبالغہ آرائی ہوگا۔ ایسی فقہ مذہبی فقہ کہلاتی ہے۔

…اس مذہبی فقہ کی بقاء کے لئے نظریہ یہی باور کرایا جاتا ہے کہ ان ائمہ ہدی کے عطا کئے گئے استنباطات واجتہادات کا علم غیرمعمولی اور ابدی شاہکار ہے اس لئے ایسی باکمال ہستیاں اب امت مسلمہ کو کہاں نصیب ہو سکتی ہیں لہٰذا ہمارے امام برحق کے علم وفضل سے امت مستفید ہوتی رہے اور مزید اجتہادی کوشش میں اپنا وقت ضائع نہ کرے۔مگرسوال یہ ہے پھر دوسرے ائمہ کا کیا کیا جائے؟ اور انہیں برحق سمجھا جائے یا ناحق؟

… ایسی فقہ میں ضروری نہیں کہ شریعت کے ہر باب کے بارے میں مسائل بتائے گئے ہوں۔ اس لئے کہ بعض موضوعات پر ان ائمہ کرام سے ایک مسئلہ بھی بیان شدہ نہیں ہوتا۔کتب فقہ بھی ا ن کی رائے کے اظہار سے خالی ہوتی ہیں۔اس کی مثال یوں سمجھئے: موجودہ فقہ خلافت عباسیہ میں بنی۔جسے زمین پر کلی اقتدار حاصل تھا۔ چنانچہ یہ مدون فقہ یہ تو بتاتی ہے کہ مسلمان جب حکمراں حیثیت میں ہوں تو ان کے لئے شرعی احکام کیا ہیں؟ اس میں ایسے ابواب کثرت سے پائے جاتے ہیں لیکن اگر آپ یہ جاننا چاہیں کہ مسلمان جب اپنے آپ کو غیر حکمراں حیثیت میں پائیں تو اس وقت ان کے لئے کیا شرعی حکم ہے تو اس کا واضح جواب آپ کو موجودہ مدون فقہ میں نہیں ملتا۔موجودہ مسائل میں اہل اسلام کو مہدی منتظر کی آمد بھی کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔

…اسی طرح موجودہ فقہ جب مدون کی گئی تو اس وقت سلطانی وخلافت کا زمانہ تھا۔دور حاضر کی عوامی جمہوریت اس وقت قائم نہیں ہوئی تھی اس لئے اس فقہ میں خلیفہ اور سلطان سے متعلق احکام تو بہت ملیں گے لیکن اگر آپ یہ جاننا چاہیں کہ مسلمان کسی ملک میں تنہا حاکم نہ ہوںبلکہ جمہوری نظام کے تحت دوسری قوموں کے ساتھ شریک حکومت ہوں ایسی حالت میں ان کے لئے شرعی احکام کیا ہیں ؟ موجودہ مدون فقہ میں آپ کو کوئی راہنمائی نہیں ملے گی۔ یہی مسئلہ دارالاسلام اور دار الحرب یا دارالکفر کا ہے۔مگر کیا آج کے دور میں ان اصطلاحات کو لاگو کیا جاسکتا ہے؟ یہ کمی صرف مدون فقہ میں ہے اگر آپ اس فقہ سے گذر کر قرآن وسنت تک پہنچ جائیں تو آپ پائیں گے کہ قرآن وسنت میںہر صورت حال کے لئے کامل راہنمائی موجود ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
دینی فقہ:

… اس کے برعکس وہ فقہ جس میں مسلکی نہیں بلکہ اس میں دین کی آفاقیت کو ہمیشہ پیش نظر رکھا جاتا ہے۔یعنی علماء وفقہاء اور مجتہدین حضرات کی آمد ورفت کا سلسلہ اس میں باقی رہتا ہے اور دین کی وجہ سے تاقیامت قائم رہنا ہے۔اس لئے حال ومستقبل کے فقہاء کی استنباطی واجتہادی کاوشوں پر اس میں پابندی نہیں ہوتی۔

… ایسی فقہ کسی مخصوص فقیہ ومجتہد کے نام سے نہیں بلکہ تمام ائمہ فقہاء ومجتہدین سے مستفید ہوتی اور محض دین کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔خواہ وہ ماضی کے کسی مجتہد یاامام کی کاوش ہو یا دور حاضر کے کسی فقیہ کی ، مگر اسلام کے بیشتر اصولوں سے ہم آہنگ ہو اور قرآن وسنت رسول ہی اس کا استدلال رہا ہو وہ دینی فقہ کہلاتی ہے

…یہ فقہ شریعت کے مقابلے میں زیادہ خاص شے ہے۔ کیونکہ اس میں صرف ایسے احکام شرعی سے بحث ہوتی ہے جن کا تعلق عمل سے ہے۔جیسے وضو، طہارت، اور تمام عبادات یا بیوع ومعاملات کے احکام وغیرہ۔فقہ شریعت کا جزء ہے یعنی کچھ چیزیں شریعت کی اس میں ہیں نہ کہ ساری۔کبھی فقہ کا لفظ شریعت کے لئے بھی بولا جاتا ہے جوجائزہے کہ عام بول کر اس سے خاص مراد لیا جائے۔

… یہ فقہ معاشرہ کے ارتقاء سے پہلے ہی نشو ونما پاچکی ہوتی ہے اس لئے اس کا نفاذ ممکن ہے۔اس کی دستاویز میں فقہ وشریعت کے تمام پہلوؤں پر تفصیلی گفتگو ہوتی ہے اور مختلف فقہاء کرام کے نقطہ ہائے نظر کو دلائل کے ساتھ پیش کرکے قاری کے ذہنی سفر کو اڑان دی جاتی ہے۔ایسی کتب اور فتاوی عموماً قرآن وسنت کے دلائل ہی سے آراستہ ہوتی ہیں۔یہی استدلال سرمایہ فقہ ہے۔اسے شریعت بھی کہا جاتا ہے۔مذہبی اور دینی فقہ کے اس فرق کو سامنے رکھتے ہوئے ہم علماء وفقہاء کے مابین بھی مذہبی ودینی فرق کو بخوبی جان سکتے ہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
دونوں میں فرق:


…دینی فقہ میں ہر وہ اجتہاد جگہ پا گیاجوقرآن وسنت رسولﷺ کے اصولوں کے عین مطابق تھا۔اس لئے فقہاء صحابہ، ائمہ اربعہ یا دیگر فقہاء امت میں جس کسی کا سرمایہ افتخار قرآن وسنت رسول رہا اس کی فقہ اپنی وسعت ، قوت استدلال، اور نصوص سے وابستگی کی وجہ سے ہر دور میں امر ہوگئی اور دین نے اسے اپنے اندر جذب کرلیا۔

۔ جس نے شذوذ کی راہ اختیار کی اسے دینی تو نہیں بلکہ ایک انفرادی رائے یا مسلکی فقہ کا نام دے دیا گیا مگر پھر بھی اس کے بارے میں حسن ظن سے یہ کام لیا گیا کہ گو اس کا مخلصانہ عمل قابل ثواب ہے مگر قابل تقلید نہیں۔

…آج کے دور میں ان دونوں فقہ پر خوب کام ہو رہا ہے کتب لکھی جارہی ہیں اور علم اپنی حقیقت کو سامنے لا رہا ہے۔اس اعتبار سے دونوں فقہ کا مطالعہ ماضی کے تاریخی ورثے اور زندہ ومتحرک فقہ کا مطالعہ ہوگا تاکہ دینی فقہ کا مصدراستخراج جانا جاسکے ۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
شریعت:

لغت میں تشریع( شریعت کی رو سے قانون سازی کرنا) کا لفظ شریعت سے ماخوذ ہے۔ عربی لغت میں اس کے متعدد معانی ہیں۔مثلاً: شَرَعَ الْوَارِدُ شَرْعاً: آنے والے نے اپنے منہ سے پانی تناول کیا ۔ شَرَع َالدِّیْنَ: دین کو ایک طریقہ بنایا اور اسے واضح کیا۔ یہی معنی قرآن کریم میں مستعمل ہے:{ شَرَعَ لَکُمْ مِنَ الدِّیْنِ}۔ نیزاس کا مطلب پھیلانا اور تیار کرنا کے بھی ہیں جیسے: شَرَعَ الطَّرِیْقَ وَمَہَّدَہُ۔ اس نے راستہ پھیلایا وسیع کیا اور تیار کیا۔یہی معنی شریعت بھی ہے جسے اللہ تعالی نے سیدنا محمد ﷺ کے ذریعے اپنے بندوں کو عطا فرمائی جس میں عقائد، عبادات، معاملات، اخلاق اور زندگی کے مختلف شعبوں کے نظا م موجود ہیں تاکہ لوگ انہیں قبول کرکے اپنی دنیاوی اور اخروی سعادتوں کو حاصل کرسکیں۔اسی کا مبالغہ شَرَّعَ ہے جس سے لفظ تشریع مصدر ہے۔

تشریع:
عربی میں یہ لفظ شریعت سے ماخوذ ہے جس کے دو معنی بیان کئے جاتے ہیں:
۱۔ مستقیم راستہ۔ اللہ تعالی کا ارشاد بھی ہے: {ثم جعلناک علی شریعۃ من الأمر} پھر ہم نے آپ کودین کی سیدھی راہ پر قائم کیا۔اس معنی میں شریعت پھر ایسا واضح راستہ ہے جو اپنے سالک کو فوز وفلاح سے ہمکنار کرکے جنت کی طرف لے جاتا ہے جس میں نفوس قدسیہ کی حیات ہے اور قلب وعقل کی سیرابی بھی۔ شاہراہ کو بھی شارع کہا جاتاہے کہ وہ منزل مقصود تک پہنچاتی ہے۔ ملت اور منہاج بھی اس کے معنی ہیں۔مراد یہ کہ شریعت بمعنی دین ہو تو وہ اللہ کی طرف ایک مستقیم طریقہ زندگی ہے ۔جیسے اوپر والی آیت میں شریعت سے مراد دین ہے۔اگر شریعت بمعنی شریعت وملت ہو تورسول اللہ ﷺ کی طرف اس کی نسبت ہوتی ہے جیسے: شریعت محمدیہ۔ اور اگر اس کا نفاذ واستعمال ہو تو پھر اسے امت کی طرف منسوب کرتے ہیں۔جیسے اسلامی شریعت۔
 
Top