• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہ اسلامی کے مصادر

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فقہ اسلامی کے مصاد ر

تکمیل دین کے بعد یہ غالب امکان تھا کہ مستقبل میں نئے مسائل پیش آئیں گے۔ اس لئے دین اسلام نے ایسے مسائل کا سامنا کرنے اور ان کا مناسب حل بتانے کے لئے کچھ بنیادیں فراہم کردیں تاکہ مسائل کے احکام کی طرف مکلف لوگوں کی راہ نمائی کی جاسکے اور ان کا حل ممکن ہو سکے۔ یہ بنیادیں تفصیلی دلائل کہلاتی ہیں۔ دلائل، دلیل کی جمع ہے جس سے مراد ایسی راہنمائی ہے جس سے عمل کا شرعی حکم معلوم ہو سکے۔ خواہ یہ راہنمائی قطعی طور پر معلوم ہو یا ظنی طور پر۔ جو قطعی ہے وہاں عقل کی گنجائش نہیں اور جو ظنی ہے وہ عقل سلیم کے لئے اس صورت میں قابل قبول ہے جب وہ اس کے تقاضے پورا کرتی ہو۔ یہ تفصیلی دلائل دو قسم کے ہیں اصلی اور ذیلی۔

۱۔ اصلی:(Original Sources):
سے مراد قرآن وسنت کے مآخذہیں۔تمام ائمہ مجتہدین کا اس پراتفاق ہے کہ شرعی احکام کے اصل مآخذ یہی دو ہیں۔ جن کے احکام کی پیروی کرنا لازمی ہے۔ ایسے احکام کو تعبدی (قابل عبادت و ثواب) کہتے ہیں۔ ان دونوں کا مصدر چونکہ وحی ہے اس لئے انہیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی یہ کسی صورت میں قابل تغیر ہیں۔

۲۔ ذیلی (Secondary Sources):
یہ وہ مصادر ہیں جن کا درجہ وحی کا نہیں مگر اس کی تائید ضرور کرتے ہیں۔ اور اصلی مآخذ کے تابع ہیں۔ اس بناء پر ان کی حیثیت تسلیم کی گئی ہے۔یہ ذیلی مصادر اور ان کی اصطلاحات دراصل فقہاء کرام کا ابتکار ہیں جو انہوں نے اپنے اپنے ذوق اور فہم کے مطابق متعارف کروادیں ۔ ان میں بعض فقہاء بعض مصادر کو تسلیم ہی نہیں کرتے مگر ان کی غالب اکثریت(Majority) اجماع اور قیاس کی مصدری حیثیت کو مانتی ہے۔ان میں: اجماع (Consensus) قیاس(Anology) استحسان (Juristic Preference) استصحاب (Presumption of continuity) اقوال صحابہ اور ہم سے ماقبل کی شریعت وغیرہ ہیں۔یاد رکھئے ان ذیلی مآخذ کی(validity) اورحیثیت کا تعین اور ان سے احکام کا استخراج(Deduction) بھی قرآن وسنت سے یا ان کے مقاصد سے ٹکراؤ یاعدم ٹکراؤ کی بنیاد پر ہوگا۔ مثلاً: اگر کوئی یہ کہے کہ حالات اور زمانہ کی تبدیلی سے حدود کے احکام بھی بدلے جاسکتے ہیں مثلاً سیدنا عمرؓ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں چور کا ہاتھ نہیں کاٹا تھا۔لہٰذا ہمیں آج بھی حالات اور واقعات کا ادراک کرکے چور کے ہاتھ نہیں کاٹنے چاہئیں۔ یہ غلط قیاس ہوگا اور شریعت کے مقاصد سے ٹکراؤ بھی۔ جب کہ حقیقت حال یہ ہے کہ سیدنا عمرؓ کے دور میں یہ چوری زمانہ قحط میں ہوئی تھی اور محض اپنی یا بچوں کی بھوک مارنے کے لئے کی گئی تھی۔ خلیفہ راشد نے حد کی سزا کو ، حدیث رسول کے مطا بق اِدْرَؤُا الْحُدُوْدَ بِالشُّبُہَاتِ شرعی حدود کو شبہات کی بنا پر نافذ نہ کرو۔ یہ ذمہ داری لیتے ہوئے ساقط کردی تھی کہ بے سہارا لوگوں کی معاشی حالت کو سنوارنا حکومت کا فرض ہے جو ہم نہیں کرسکے۔اس لئے شبہ کا فائدہ ملزم کو جانا چاہئے۔ کیونکہ گناہ گار کا سزا سے بچ جانا اتنا معیوب نہیں جتنا بے گناہ کا سزا پانا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ شبہ نہیں بلکہ یقین تھا۔ نیز یہ قصور حکومت کا تھا نہ کہ چور کا۔ جس نے لوگوں کو سوشل سیکیورٹی فراہم نہیں کی۔ ہاں سیکیورٹی کی فراہمی کے بعدپھر کوئی چوری کا ارتکاب کرے تو یہ حد کبھی اور کسی صورت میں معاف نہیں ہوسکتی۔ ذیل میں ہم ان مصادر کا مختصر تعارف پیش کرتے ہیں:
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
پہلا مصدر:

قرآن وسنت
یہی شریعت کے اصل مصادر ہیں۔اولین مأخذ اور شریعت کا اصل الاصول تو قرآن کریم ہے۔دونوں کو اکٹھا اس لئے لکھا ہے کہ یہ دونوں وحی ہیں ۔ دوش بدوش ہیں۔باہم جڑے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں انہیں جدا نہیں کیا جاسکتا۔دونوں مل کر شریعت بنتے ہیں جن میں عقائد، عبادات اور حقوق کا اجمال بھی ہے اور تفصیل بھی ۔یوں یہ دونوں شریعت کا مصدر اصلی بنتے ہیں۔بلکہ علماء اہل سنت کے نزدیک لفظ سنت بھی قرآن وسنت کے لئے مستعمل ہوا ہے ۔اہل السنۃ والجماعۃ جیسی اصطلاح میں بھی یہی سوچ کارفرما ہے۔وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم لوح محفوظ سے قوی وامین فرشتہ جبریل علیہ السلام کے ذریعے رسول خاتم النبیین ﷺ کے قلب اطہر پر بحفاظت نازل ہوا۔ آپ ﷺ اسے کلام اللہ تسلیم کرتے ہوئے اس پر ایمان لائے اور امت کو بھی اس پر ایمان لانے کی دعوت دی۔جس نے ارشاد مانا اسے نے کلام اللہ کو مانا اور آپ ﷺ کے الفاظ وکلمات کو شریعت گردانا۔

اگر آپ ﷺ کے اس ارشاد میں ذرہ برابر شک کیا جائے تو سارا قرآن اسی طرح مشکوک ہوجاتا ہے جس طرح اس کے کسی لفظ یا آیت میں کمی یا زیادتی کو تسلیم کرنے سے مشکوک ہوجاتا ہے۔ اور یہ بات اللہ کے اس وعدے کے خلاف ہے۔ معاذ اللہ! اللہ تعالیٰ اپنے کلام کی حفاظت نہ کرسکا۔


اجماعاً یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ اس نقطہ نظر کا حامل ہی اہل السنۃ والجماعۃ سے ہے کیونکہ حضرات صحابہ کایہی نظریہ تھا۔ مگر جو اس فکر ومنہج سے علیحدہ رہا وہ خارج از اہل السنۃ کہلایا۔جنہیں ان کے زیغی وانحرافی خیالات کی وجہ سے حسب فکر نام دیا گیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قرآن کریم :
لغت میں اس کا مطلب ہے اکٹھا کرنا اور جمع کرنا۔ قِرَائَ ۃُ الْکَلِمَۃِ: جب حروف کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا دیا جائے اور اکٹھا کردیا جائے۔پھر یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی کتاب، القرآن پر لاگو ہوگیا اور علم بن گیا۔

اصطلاحاً کلام اللہ ہے غیر مخلوق ہے۔اسے مخلوق کہنا ہی کفر وضلالت ہے اور دین میں الحاد کی بات کرنا ہے۔ نیز جو کتاب عزیز میں اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے اس کو بھی جھٹلانا ہے۔ مثلاً: {إنا أنزلنہ فی لیلۃ القدر} (القدر:۱) یا {تبارک الذی نزل الفرقان علی عبدہ لیکون للعالمین نذیرا}(الفرقان:۱) یا{وقرآنا فرقنہ لتقرأہ علی الناس علی مکث ونزلنہ تنزیلا} (الإسراء:۱۰۶) یہ معجزہے۔ آپ ﷺ پر بذریعہ جبریل امین نازل ہوا ہے۔ اور ہم تک تواتر سے منقول ہوا ہے مصاحف میں لکھا ہوا ہے جس کی تلاوت عبادت ہے اور سورہ فاتحہ سے شروع ہوکر سورہ الناس تک ختم ہوتا ہے۔ فرشتے یا انسان کا کلام اس میں شامل نہیں۔حدیث قدسی بھی اس سے خارج ہے۔توراۃ وانجیل یا زبور وصحف ابراہیم وموسیٰ آپ ﷺ پر نازل نہیں ہوئے اس لئے وہ بھی اس میں شامل نہیں۔ اورقرأت شاذہ بھی۔

اسے بتدریج حالات وضرورت کے مطابق نازل کیا گیا۔اس لئے اس میں کچھ مکی، کچھ مدنی اور کچھ سفری اور کچھ حضری آیات ہیں۔ کبھی مکمل سورت نازل ہوئی تو کبھی سورت کا کچھ حصہ۔ بعد والا وحی شدہ حصہ جبریل علیہ السلام کی راہنمائی سے ہر مناسب مقام پر سدھار دیا جاتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قرآن کریم اورشرعی احکام:
قرآن مجیدمیں احکام حلال وحرام کی وضاحت کے لئے کچھ اصول موجود ہیں۔ یہ مجمل احکام مقاصد شریعہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے مجموعہ فتاوی (۱۰؍۱۲۷) میں ایک بہت ہی جامع ونافع فصل میں لکھا ہے۔جس کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم میں شرعی احکام جن الفاظ کے ساتھ مذکور ہیں وہ تین قسم کے ہیں:

۱۔ وہ الفاظ جو صرف لغت سے تعلق رکھتے ہیں جیسے ارض، سماء، شجر، حجر، شمس وقمر، بروبحر وغیرہ ۔اس لئے لغت ہی ان کا معنی متعین کرے گی۔مثلاً شَجَر کی تعریف کیا ہے؟ سَمَاء کس مادہ سے بنا ہے؟ عَیْن سے کیوں نظر آتا ہے وغیرہ۔ مگر تعلیم کتاب اور اس کی صحیح ترجمانی کے لئے الفاظ کے موقع ومحل کو ضرور سمجھنا ہوگا۔ آزِفَۃ، ظُلْم، تَوَفّٰی، یُوْلِجُ یا وِزْر جیسے الفاظ۔ ہاں شریعت یہ آگاہی ضرور دیتی ہے کہ اگر کوئی پتھر مار کر کسی کی آنکھ پھوڑ دے تو اس پر نقصان کی تلافی لازمی ہے۔ نامحرم عورت پر نگاہ بد ڈالے تو گناہ ہے وغیرہ۔

۲۔ بعض وہ الفاظ ہیں جن کا تعلق نہ لغت سے ہے اور نہ شریعت سے۔ بلکہ عرف یا خاندانی عادات سے ہے۔ عادات میں تنوع بھی ہوتا ہے یعنی کسی بھی سوسائٹی یا خاندان وبرادری میں وہ ایک جانی بوجھی چیزہوتی ہے مثلاً نکاح، طلاق، بیع، ھبہ، قبض، وقف، درہم ودینار، امارت، خلافت وغیرہ۔ شریعت صرف ان الفاظ سے متعلق احکام کو تو بیان کرتی ہے مگر نکاح، طلاق وغیرہ کیا ہیں یہ بتانا عرف کا کام ہے۔ شریعت ان کی تعریف متعین نہیں کرتی۔ اور نہ ہی سب اہل زبان ان کی ایک ہی تعریف پر متفق ہوتے ہیں۔ بلکہ ان کی مقدار اور صفت بھی اختلاف عادات کی وجہ سے مختلف ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت ، غیر مسلموں کے ان سب نکاحوں کو جائز سمجھتی ہے جو ان کے عرف کے مطابق ہوں۔ ان کے ہر لین دین کو جائز سمجھتی ہے جو ان کے عرف کے مطابق ہوں۔ ان عرفی اصطلاحات کا تعین کرنا شریعت کا کام نہیں۔

۳۔تیسرے وہ الفاظ ہیں جو شریعت کی اپنی اصطلاحات ہیں مثلاً اطاعت، اتباع، صلوٰۃ، زکوۃ، حج، صوم، طواف وغیرہ۔ ان الفاظ کے معانی کا تعین کرنا اور ان الفاظ کی وضاحت کرنا صرف شریعت کے دائرہ اختیار میں ہے نہ کہ لغت یا عرف کے۔اس قسم کو اللہ اور اس کے رسول نے بیان کردیا ہے۔لہٰذا کسی کے لئے مناسب نہیں کہ وہ ان متعین اصطلاحات کی تعریف لغت کی کتب سے تلاش کرے یا اس میں کچھ اضافہ کردے اس لئے کہ آپ ﷺ نے ان اصطلاحات کا جو حکم تھا اسی کے مطابق مراد لی۔ مثلاً لفظ خمر ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمادیا: کُلُّ مُسْکِرٍ خَمْرٌ۔ قرآن کی مراد کو آپ ﷺ نے سمجھا اور فرمادیا۔ خواہ عرب اس سے مراد خواہ ہر نشہ آور شراب کو سمجھتے یا صرف انگور کی شراب کو۔ اسے اب جاننے کی ضرورت نہیں۔اور اہل مدینہ کے ہاں خمر صرف خشک کھجور کی نبیذ کو کہا کرتے۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ کو شرعی احکام ۔۔امرونہی اورحلال وحرام۔۔کے ساتھ جوڑ دیا ہے تاکہ کوئی بھی انہیں کسی اور چیز کے ساتھ ۔۔۔بغیر اللہ ورسول کے مفاہیم کے۔۔۔ مقید کرکے اپنے اپنے مفاہیم نہ بنالے۔ اسی طرح لفظ ماء ہے۔ قرآن وسنت میں یہ لفظ مطلق مستعمل ہوا ہے اور آپ نے اسے طاہر وغیر طاہرمیں تقسیم نہیں فرمایا۔اسی طرح قصر وفطر کے الفاظ ہیں جنہیں آپ ﷺ نے سفر سے جوڑا ہے مگر اس کی مسافت کا تعین نہیں فرمایا۔اور نہ ہی طویل ومختصر سفر کے مابین فرق کیا ہے اگر سفر کی متعین مسافت ہوتی تو اسے اللہ ورسول ضرور بیان کرتے۔نہ ہی لغت میں اس کی متعین وضاحت بتائی گئی ہے۔جسے اہل لغت سفر کہتے ہیں اس میں قصر وفطر کتاب وسنت کی رو سے جائز ہوگا۔جیسے اہل مکہ نے رسول اکرم ﷺ کے ساتھ عرفات تک جاکر قصر کیا جبکہ یہ مکہ سے ایک برید (بارہ میل) کے فاصلے پرہے۔ اس لئے سفر کی تحدید ایک دن یا تین دن سے کرنا شرعی نہیں بلکہ لغوی وقیاسی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ان تینوں اقسام کی پہچان ومراتب کے بغیر یہ امکان ہے کہWar of Terminology سے متأثرکوئی بزرگ شرعی اصطلاحات کو لغت کی کتابوں سے اور لغت کو شریعت سے اور عرف کو لغت یا شریعت سے تلاش کرتا پھرے۔ ظاہر ہے یہ غلط تعبیر و تشریح ہے اور گمراہی کا سبب بھی ۔ مثلاً: لفظ خلافت ایک سیاسی اورعرفی اصطلاح ہے نہ کہ شرعی۔ سیدنا داؤد وسلیمان علیہما السلام بادشاہ بھی تھے اور خلیفہ بھی۔ مگر ہمارے پیارے رسول ﷺنے ان دونوں میں سے کوئی لفظ اپنے لئے استعمال نہیں فرمایا۔ جناب صدیق اؓکبر خلیفہ رسول کہلوائے اور سیدنا عمر فاروقؓ کچھ عرصہ اپنے آپ کو خلیفہ کہلوانے کے بعد امیر المومنین کی اصطلاح زیادہ پسند فرمانے لگے۔اگر یہ لفظ شرعی ہوتے تو انہیں کوئی بھی تبدیل نہ کرتا۔ اس لئے بادشاہ، یا خلیفہ جیسے لفظ قرآن مجید میں آنے سے شرعی نہیں بن گئے ہاں ان کے ساتھ شرعی احکام ضرور وابستہ ہیں۔ حیثیت ان کی ہے نہ کہ لفظ بادشاہ، وزیر اعظم، صدر، چیف ایگزیکٹو یا امیر وخلیفہ جیسے دوسرے الفاظ کی۔

ان الفاظ کی صحیح تعبیر کے لئے ائمہ ومجتہدین کے ہاتھ میں قرآن وسنت کا چراغ دے دیا گیا کہ وہ ان کی روشنی سے زمان ومکان میں ہونے والے نت نئے واقعات کی جزئیات تک کا حکم بتائیں۔ یہی تو وہ راز ہے جس سے امہ کو دوام ملا ہے۔ یہ ثبوت ہے کہ شریعت کے اصول انتہائی جامع (comprehensive) ہیں۔ نیزجہاں کہیں اختلاف اور جدال کا اندیشہ تھا وہاں قرآن مجید نے بعض ضروری تفاصیل دے دیں تاکہ اختلاف باقی نہ رہے۔ مثال کے طور پر عقائد وعبادات کے اصول، یا پھر ایسے اسباب کی بنیاد رکھ دی جس میں ان اصولوں میں اختلاف نہ ہونے پائے اور نہ ہی زمان ومکان کی تبدیلی سے یہ تبدیل ہوں مثلاً میراث کے مسائل، محرمات ابدیہ کا ذکر اور بعض جرائم کی سزا وغیرہ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قرآن کریم کواسلامی قانون میں تقریباً ویسی ہی حیثیت حاصل ہے جو ملکی قوانین میں دستور کو حاصل ہوتی ہے۔ وہ احکام جن کا تعلق انسانی اعمال سے ہے مثلاً: نماز،روزہ، حج اور زکوۃ، خریدوفروخت یا معاملات حدود، جرائم اور خاندانی امور سے متعلق۔۔۔بقول امام ابن العربی اور امام غزالی رحمہم اللہ۔۔ پانچ سو آیات ہیں اور دوہزار آیات اوامر ونواہی(Do's&Don't) پر مشتمل ہیں یہ سب فقہ اسلامی کی بنیاد ہیں۔ انہیں احکام شریعت کہا جاتا ہے۔(ارشاد الفحول: ۵۶۶)۔ورنہ عقائد کے باب میں تو قرآن سارا بھرا ہوا ہے۔

قانون الأسرۃ یعنی فیملی لاز کے بارے میں ستر آیات ہیں اور معاملات مالیہ یعنی سوشل لاء کی بھی اتنی ۔ عدالتی نظام کے لئے تیرہ آیات ہیں جسے عربی میں قانون مرافعات بھی کہتے ہیں۔ جرائم وسزا جیسے فوجداری قانون کے بارے میں تیس آیات ہیں۔ حکومت اور رعایا کے بارے میں دستور دینے والی دس آیات اور بین الاقوامی تعلقات کے بارے میں پچیس آیات ہیں۔ اسی طرح مالی احکام کے بارے میں دس آیات قرآن کریم میں موجود ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سنت:
ہر وہ قول ، فعل یا تقریر جس کی نسبت آپ ﷺ سے صحیح یا حسن حدیث سے منسوب ہو۔ وحی خفی سے اس سنت کا تعلق ہے جواولین مأخذ کا ساتھی ہونے کی وجہ سے حجت ہے کیونکہ اس میں قرآن کے اجمال کی تفصیل اور اشکال کی توضیح ہے۔ عقلاً بھی اسے محدثین کے اصول تحقیق وتنقید کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد قبول کرنا چاہئے ورنہ اسے رد کردینا چاہئے۔کتب سنن، مصنفات، موطآت، عمدۃ الاحکام اور بلوغ المرام اپنی شروح سمیت اس کی دلیل ہیں۔ مزید صحیحین کا علم بھی موضوع سنت کو سمجھنے میں خاصا وقیع ہے۔ سنت میں تین ہزار احادیث ، احادیث احکام(Legal) ہیں اور ڈھائی ہزار احادیث اوامر ونواہی پر مشتمل ہیں۔ ابن العربیؒ نے ان کی تعداد تین ہزار لکھی ہے۔خبر متواتر اس میں نادر ہیں اور خبر واحد ہی اس کی اصل ہیں۔ ان سے نہ صرف عقائد ثابت ہوتے ہیں بلکہ احکام خمسہ بھی جو صحابہ وعلماء امت نے خبر واحد سے اخذ کئے۔اصولی احادیث احکام بارہ سو ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سنت رسولﷺ قرآن کی طرح فقہ اسلامی کا ایک اور مصدر ہے۔اس لئے اس کے متعدد معانی علماء نے مراد لئے ہیں۔

۱۔مکمل دین :
قرآن مجید میں ہے: {ما آتاکم الرسول فخذوہ وما نہکم عنہ فانتہوا}۔ جو اللہ کا رسول تمہیں دے اسے لے لو اور جس سے روکے اس سے باز رہو۔رسول اللہ ﷺ نے جو کچھ دینا ہے وہ دین ہے ۔آپ ﷺ کا ارشاد ہے: مَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِی فَلَیْسَ مِنِّی۔ جس نے میری سنت سے منہ موڑا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔اس حدیث میں لفظ سنت سے مراد سارا دین ہے یعنی Way of Life۔

۲۔ صحیح عقیدہ:
امام سفیان ثوری فرماتے ہیں:
السُّنَّۃُ سُنَّتَانِ۔
سنت دو ہیں۔

أ۔ اسے چھوڑنا حرام نہ ہوگا۔ جو واجب کے برعکس ہے مثلاًفقہاء کی اصطلاح میں سنت سے مراد وہ نفلی کام اور عبادات ہیں جو رسول اکرمﷺ سے منقول ہوں یعنی وہ جو فرض نہ ہوں بلکہ مندوب ہوں۔جیسے عشاء کے فرضوں کے بعد دو رکعت سنت ۔ فقہاء کرام نے ایسی سنت کی دو اقسام بیان کی ہیں۔ سنت مؤکدہ اور سنت غیر مؤکدہ۔

ب۔ اس کا چھوڑنا کفر ہوگا۔ اس سے مراد وہ صحیح عقیدہ ہے جس پر صحابہ کرام کی جماعت تھی۔ بہت سے علماء نے السنۃ کے نام سے عقیدہ کے موضوع پر کتب لکھیں۔ جیسے: کتاب السنۃ از ابی بکر الخلال از ابن عاصم اور از امام احمد بن حنبل یا شرح السنۃ از شیخ بربہاری رحمہم اللہ۔ اسی لئے علماء عقیدہ نے سنت کا لفظ بدعت کے مقابلے میں بھی استعمال کیا ہے مثلاً ًوہ یہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص سنت پر ہے یعنی اس کا عمل رسول اکرمﷺ کے عمل کے مطابق ہے یا یہ کہہ دیتے ہیں کہ فلاں شخص بدعت پر ہے یعنی اس کا عمل آپﷺ کے عمل کے خلاف ہے۔یا طلاق سنت اور طلاق بدعت کے الفاظ۔

۳۔ لفظ سنت ، خوارج کی فکر کے مقابلہ میں بھی مستعمل ہوا۔اور انIntellectuals عقل پرستوں کے خلاف بھی جو سنت کے تارک اور بدعمل تھے۔انہوں نے اپنے آپ کو ماڈرن مسلم کہا۔ یہ نام انہوں نے اس لئے Hijack کیا تاکہ وہ سمارٹ بن کر سنت رسول کی مخالفت کرنے والوں کی تائید کریں اور جو سنت کا مخالف ہے اسے یہ کہہ سکیں کہ وہ ماڈرن مسلم ہے۔

۴۔ اس لفظ کی نسبت اگر کسی انسان کی طرف ہو تو اس سے مراد وہ طریقہ وعمل ہیں جو اس سے صادر ہوتے ہوں اور وہ انہیں لازم سمجھتا ہو اور ان پر اس کی مداومت ہو۔خواہ یہ اعمال ایسے ہوں جن کی وجہ سے اس کی تعریف کی جاتی ہے یا ان سے ہو جن کی وجہ سے اس کی مذمت کی جاتی ہے۔اہل لغت سنت کا یہ معنی لیتے ہیں۔

۵۔سنت سے مراد رسول اکرم ﷺ کا قول، فعل اور سکوت ہے اس اعتبار سے سنت، علماء اصول کے ہاں احکام شرعی کا ایک مأخذ ہے۔ جیسے امام شافعی رحمہ اللہ نے بغداد چھوڑتے وقت امام احمد رحمہ اللہ کو یوں خراج تحسین پیش کیا:
إِمَامٌ فِی القُرْآنِ، وَالْحَدِیثِ ، وَالسُّنَّۃِ ، وَالْفِقْہِ، وَإِمَامٌ فِی اللُّغَۃِ، إِمَامٌ فِی الْفَقْرِ وَالْوَرَعِ۔


۶۔یہ لفظ جب قرآن کے ساتھ مستعمل ہو تو پھر اس سے مراد حدیث رسول ہوا کرتی ہے۔ حدیث سے جب کسی مسئلے کا علم ہوتا ہے تو اسے سنت کہہ دیتے ہیں۔

۷۔ سنت سے مراد فرد واحد کا یا چند افراد کا وہ طریقہ بھی لیا جاتا ہے جو انہوں نے ذاتی فہم یا ذوق کی بناء پر اختیار کیا ہوا ہو۔ اس معنی میں مجتہد خلفاء راشدین کا اجتہاد بھی ایک سنت کہلاتا ہے جو انہوں نے کسی آیت یا حدیث رسول یا حالات کو دیکھ سمجھ کر کیا ہوتا ہے ۔مثلا: سنت خلفاء راشدین یافلاں خلیفہ کی سنت ، جیسے الفاظ جو کتب میں مل جاتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ لفظ اور سنت رسول ایک معنی نہیں رکھتے ۔سیدنا ابو بکرؓ کا اجتہادی قول وفعل، رسول اللہ ﷺ کی سنت کے برابردرجہ رکھتاہویا کسی بھی خلیفہ راشد کے اجتہادی قول کی اہمیت سنت رسول کے برابر ہو۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔ اس بناء پر خلفاء راشدین کی سنت سے مراد ، وہ طریقہ جس پر رسول اللہ ﷺ چلے اور ان خلفاء نے بھی اس پر چلنے کی کوشش کی۔اس سے مراد اسلاف کے جزوی اقوال اور فتاوی نہیں۔

۸۔رسول اکرم ﷺ کو قرآن وسنت دونوں اکٹھے دئیے گئے تھے۔جسے صراط مستقیم کہا گیا ہے۔ اس لئے قرآن وسنت کی راہ ایک ہی ہے کیونکہ دونوں کا مصدر وحی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید اکیلا اپنے احکام کو واضح نہیں کرسکتا جب تک اس کے ساتھ سنت کا بیان نہ ہو۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کے بارے میں خود ارشاد فرمایا:

{وما ینطق عن الہوی، إن ہو إلا وحی یوحی}۔ (النجم: ۳،۴) اور یہ رسول اپنی طرف سے بات نہیں کیا کرتا جو کہتا ہے وہ وحی ہوتی ہے جو اس کی طرف کی جاتی ہے۔

اس لئے دونوں متحد ہوکر ایک اصل یعنی نص بن جاتے ہیں۔ شرعی احکام کی توضیح میں یہ دونوں ایک دوسرے کے معاون ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

{واذکرن ما یتلی فی بیوتکن من آیات اللہ والحکمۃ}۔ ( ۱ لأحزاب: ۳۴ ) اللہ کی آیات اور حکمت میں سے جو کچھ بھی تمہارے گھروں میں تلاوت کیا جاتا ہے اسے یاد رکھو۔

۹۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے:{ ویعلمہم الکتاب والحکمۃ}۔( الجمعۃ:۲ ) اور وہ رسول انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ امام شافعی ، یحییٰ بن کثیر اور امام قتادۃ رحمہم اللہ کا کہنا ہے: ان آیات میں حکمت سے مراد سنت ہے۔ کیونکہ جو چیز بیت رسول میں پڑھی جارہی ہے وہ یا تو قرآن ہے یا سنت۔ اور رسول اللہﷺ کتاب کے علاوہ جو سکھا رہے ہیں وہ سنت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ (الرسالہ:۷۸)

۱۰۔ فقہ اسلامی میں سنت کا مقام اجماع وقیاس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ جہاں سنت ہو وہ اجماع کی ضرورت ہی نہیں ۔ یہی حال قیاس کا ہے۔

لفظ سنت، احکام خمسہ میں بمعنی مندوب، مستحب یا مسنون استعمال ہوتا ہے جو فرض کے مقابلہ میں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭ …سنت: اس کے الفاظ اللہ تعالیٰ کے ہیں مگرمعنی رسول اللہﷺ نے پہنائے ہیں یہ بھی منزل من اللہ ہیں۔اس لئے کہ سنت بھی آپ ﷺ پر اسی طرح نازل ہواکرتی جس طرح آپ ﷺپر قرآن نازل ہوا کرتا۔قرآن کریم میں یہی تو فرمایا گیا: {من یطع الرسول فقد أطاع اللہ}۔ جو رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرے گا وہ گویا اللہ کی اطاعت کرتا ہے۔اس لئے قرآن کریم میں وارد الفاظ اتباع، اطاعت، ہدایت وراہنمائی، صراط مستقیم کی دریافت میں رسول اکرم ﷺ کو پیش کیا گیا ہے۔ آپ ﷺ ہی ہادی ورہنما ہیں ۔ آپ ﷺ ہی صراط مستقیم پر ہیں اور آپ ﷺ ہی صراط مستقیم دکھاتے ہیں۔ آپ ﷺ ہی کی اطاعت واتباع کرنا ہے۔آپﷺؒ ہی کا اسوہ حسنہ قابل رشک وقابل اتباع ہے۔ وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ نے اس شریعت کا افہام واستفہام رسول اللہ ﷺ کے ساتھ منسلک کردیا اورہر مقام پر آپ ﷺ ہی کو پیش کیا ہے تاکہ کسی اور کو یہ مقام نہ دیا جاسکے اور نہ ہی کوئی اسے پانے یا دلوانے کی کوشش کرے۔لہٰذا شارع بھی آپ ﷺہیں۔اور مفسر قرآن بھی آپ ﷺ۔ اس لئے قرآن اور سنت رسول اپنے نزول سے تا قیامت انسانوں کے لئے قطعی حجت ہے۔

مصدر اصلی کی حیثیت سے قرآن مجیدکے متعدد مقامات مجمل ہیں مثلاً: نماز ، بیع ، ربا، زکوۃ وغیرہ کا حکم اجمالی ملتا ہے مگر ان کی تفصیلات سنت رسول میں مذکور ہیں۔بعض اوامر ونواہی صراحت سے اتباع کا مطالبہ جہاں رسول اللہ ﷺ سے کررہے ہیں وہاں ساری امت کو بھی ان کی اتباع کا مطالبہ ہے:مثلا:

{آمن الرسول بما أنزل إلیہ والمؤمنون}۔ رسول کی طرف جو کچھ نازل کیا گیا وہ اس پر ایمان لایا اور اہل ایمان بھی۔

{اتبع ما یوحی إلیک ولا تتبع أہوائہم}۔ آپ کی طرف جو وحی کی جاتی ہے آپ اسی کی پیروی کیجئے اور ان کی خواہشات کے پیچھے مت جائیے۔

{ اتبعوا ما أنزل إلیکم من ربکم ولا تتبعوا من دونہ أولیاء} ( الأعراف: ۳ )تم پیروی کرتے رہو اس کی جو تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے اتارا گیا ہے اور اس کے علاوہ کسی اور کو دوست بنا کر پیروی مت کرو۔

ان قوانین کا احترام اور تسلیم ورضا کے علاوہ کسی بھی قسم کے تجاوز سے بھی منع کرتے ہوئے فرمایا:

{تلک حدود اللہ فلا تعتدوہا ومن یتعد حدود اللہ فأولئک ہم الظلمون} (البقرۃ: ۲۲۹)یہ اللہ کی حدود ہیں تو ان سے تجاوز نہ کروجو بھی ان حدود سے تجاوز کرے گا وہی ظالم ہوں گے۔

کیا اس کے حکم میں کوئی اور شریک ہوسکتا ہے یا کسی اور کو یہ مقام دیا جاسکتا ہے؟ اس کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا:

{ولا یشرک فی حکمہ أحداً} وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فقہ اسلامی میں سنت کا مقام :
دین کے صحیح فہم کے لئے شریعت کا یہ اولین مطالبہ ہے کہ سنت رسول پر اس اعتبار سے ایمان اور محبت رکھے کہ یہی میرے لئے سچ رول ماڈل ہے جس سے مجھے دل وجان سے بڑھ کر محبت ہے اور ہر قیادت وسیادت سے بڑھ کر قابل اطاعت ہے۔اس لئے ہر مسلمان آپ ﷺ کی تعلیمات سے واقف ہو اور اسی پر ہی جان چھڑکے۔

اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو تشریعی اختیارات تاابد عطا کئے ۔ اس لئے آپ کے اوامر ونواہی دراصل اللہ تعالیٰ ہی کے اوامر ونواہی کہلاتے ہیں جن کی حقیقت درج ذیل آیات میں واضح کی گئی ہے۔مثلاً:

٭… ہرصورت میں آپﷺ کی اطاعت: قرآن کریم نے اس کا اہل ایمان کو حکم دیا۔ فرمایا:
{ما آتاکم الرسول فخذوہ وما نہاکم عنہ فانتہوا واتقوا اللہ}۔( الحشر: ۷ )
جو اللہ کا رسول تمہیں دے اسے لے لو اور جس سے تمہیں روکیں اس سے باز رہو اور اللہ کی نافرمانی سے بچو۔

٭… اسی طرح عدم اطاعت کی صورت میں یہ بھی فرمادیا:
{ قل أطیعوا اللہ و الرسول فإن تولوا فإن اللہ لا یحب الکافرین}(آل عمران:۳۲)
آپ کہئے اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو پھر اگر وہ منہ موڑیں تو بلاشبہ اللہ کافروں کو دوست نہیں رکھتا۔

٭…اطاعت رسول کا درجہ اطاعت الٰہی کا درجہ ہے آپ ﷺ کی اطاعت کے بغیر اطاعت الٰہی کا تصور ہی موجود نہیں۔
{من یطع الرسول فقد أطاع اللہ}
جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے گویا اللہ کی اطاعت کی۔

٭… آپ ﷺ کی غیر مشروط اطاعت کا مظاہرہ جب صحابہ کرام نے بیعت الرضوان میں کیا تو قرآن کریم نے ہی کہا:
{لقد رضی اللہ عن المؤمنین إذ یبایعونک تحت الشجرۃ۔۔}
یقیناً اللہ تعالیٰ ان مومنوں سے راضی اور خوش ہوگیا جب وہ آپ سے درخت تلے بیعت کررہے تھے۔

٭…قرآن کریم نے آپ ﷺ کے حکم وفیصلے کی مخالفت کرنے سے ہمیں ڈرایا اور فرمایا:
{فلیحذر الذین یخالفون عن أمرہ أن تصیبہم فتنۃ أویصیبہم عذاب ألیم}:( النور: ۶۳)
جو اللہ کے رسول کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرنا چاہئے کہ کہیں انہیں کوئی آزمائش نہ گھیر لے یا ان کے پاس کوئی درد ناک عذاب نہ آجائے۔

٭…آپﷺ کے حکم کے آگے ہماری پسند وناپسندکو ختم کردیا اور فرمایا:
{ وما کان لمؤمن ولا مؤمنۃ إذا قضی اللہ ورسولہ أمرا أن یکون لہم الخیرۃ من أمرہم۔۔}۔ (الأحزاب: ۳۶ )
کسی مومن اور نہ کسی مومنہ کے لئے یہ مناسب ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردیں تو ان کے پاس اپنے معاملے کا کوئی اختیار ہو۔

٭…ان تمام احکامات کو ایمانیات قرار دیا اور فرمایا:
{فلا وربک لا یؤمنون حتی یحکموک فیما شجر بینہم ثم لا یجدوا فی أنفسہم حرجا مما قضیت ویسلموا تسلیما} ( النساء: ۶۵)
تمہارے رب کی قسم! لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ وہ اپنے اختلافات میں آپﷺ کو حکم نہ مان لیں پھر آپ کے اس فیصلے کے بارے میں اپنے دل میں کوئی تنگی نہ پائیں اور کلی طور پر اپنے آپ کوجھکادیں۔

٭… آپ ﷺکی محبت و اطاعت ہر عزیز ترین رشتے سے بھی بڑھ کر کرنے کی متقاضی ہے۔آپﷺ کا ارشاد ہے:
لاَ یُؤمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُونَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہِ وَوَلَدِہِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ۔
تم میں کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کے والد،اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں۔
 
Last edited:
Top