ًٖصحیح میزان:
متواتر لفظی کے بارے میں تو شک نہیں کہ سوائے ایک دو کے شاید ہی کوئی حدیث ہو جو اس کی تعریف پر پورا اترتی ہو۔ ہاں متواتر معنوی کے بارے میں علماء کا اتفاق ہے کہ وہ بکثرت پائی جاتی ہیں۔جس پر بحث آگے آرہی ہے۔
٭…مزید یہ کہ متواتر کے سلسلے میں حدیث کے مشہور ومعروف اصولوں کو ہم پیش نظر رکھیں اور اسے تعصب، تمذہب اور ہوی سے خالی ہوکر اپنائیں۔ میزان یہ نہیں ہے کہ جو حدیث ہماری خواہش واغراض کے خلاف ہو اسے ہم معتبر ائمہ سمیت غلط قرار دے دیں اور تعصب کی بناء پر اپنے امام یا فقیہ کاقول یا ضعیف وموضوع روایت کو صحیح حدیث کے مقابلے میں عملاً حجت اور قابل عمل سمجھیں۔شیخین اور ائمہ سنن کی روایات سے اغماض برتیں۔ کیونکہ یہ احادیث بھی انہی محدثین نے روایت کی ہوتی ہیں جنہوں نے صیام وحج اور صلاۃ وزکوۃ کی روایت کی ہیں۔
٭…رہا متواترکا استعمال تو ایسی متواتر احادیث بے شمار ہیں جو ضعیف ہیں اور موضوع بھی مگربعض مذاہب میں ان کا استعمال بڑا ہمدردانہ اور ان پر مسائل کا دار ومدار بڑا فیاضانہ ہے۔ فضائل اعمال ہوں یا مناقب شخصیات، تفسیر قرآن ہو یا شرح حدیث، فقہی مسائل ہوں یا دعوتی ان سب کو تواتر کا نام دینے میں یہی مذاہب ہی کار فرما ہیں۔
٭…ائمہ مذاہب اور ان کے شاگردوں کے مابین اصولی وفقہی اختلاف تواتر کے ساتھ کتب فقہ میں مذکور ہے۔ کہیں امام محترم کی رائے کو تواتر کے ساتھ قبول کرلیا گیا ہے اور شاگردوں کو چھوڑ دیا گیا ہے اور کہیں اس کے برعکس۔ اسے بھی تواتر کا نام دیا گیا ہے۔تواتر اگر علماء وائمہ کے اجتہادات کو قبول کرنے کا نام ہے تو کس دور کے وہ علماء ہیں جنہوں نے تواتر کے ساتھ صرف اپنے سے پہلے دور کے علماء وائمہ کے عمل یا قول کو قبول کیا ہے یا قابل عمل سمجھا ہے؟
٭…تواتر اگر اس چیز کا نام ہے کہ تخریج کا قاعدہ قابل عمل سمجھ کر ہر دور میں پہلے سے مختلف مگر نیا فقہی مسئلہ استنباط کرلیا جائے اور درج کردیا جائے تاکہ مختلف عملی صورتیں…نفر ت وحقارت اور تعصب کی موجودگی میں… پھر بھی رحمت ثابت ہوں ۔تو ایسے تواتر کو کس نے متعارف کرایا ہے؟
٭…نیز ہر مذہب کی جدا جدا فقہیات اور تقریباً ہر مسئلہ میں تواتر کے ساتھ دوسرے سے مختلف نظریہ یا مختلف عمل جہاں نظر آتا ہو اسے متواتر نام دے دینا علم اصول سے مذاق نہیں تو سنجیدگی بھی نہیں۔
٭…محسوس یہی ہوتا ہے کہ تواتر کا فلسفہ حدیث کی اہمیت کو کم کرنے اور مذاہب ومسالک کے تقلیدی تسلسل کو تقویت دینے اور ان کی سیادت قائم کرنے کے لئے گھڑا گیا ہے ۔ تاریخی حقائق اس کا کھل کر انکار کرتے ہیں۔ قرآن وحدیث میں اس کی کوئی بنیاد نہیں۔روایت حدیث ہو یا روایت عمل ان دونوں میں کہیں بھی تواتر نظر نہیں آتا۔
٭…خود امام ابوحنیفہؒ تواتر کے قائل نہیں تھے۔ مزید یہ کہ کوئی روایت، کوئی نام نہاد سنت متواترہ، نہ ہی کوئی عمل اور نہ ہی کوئی اجتہاد واستنباط اس تواتر کے ساتھ ثابت ہے جس کی تعریف علماء اصول نے کی اور متاخر محدثین نے اس سے متأثر ہوکر اپنی کتب میں اسے جگہ دے دی۔
٭…درجہ بالا حقائق کے پیش نظر یہی مسلک ہی معتدل اور دینی نظر آتا ہے کہ:
إِذِا صَحَّ الْحَدِیثُ فَہُوَ مَذْہَبِی۔ جب حدیث صحیح ہو تو میرا مذہب بھی وہی ہے(امام ابو حنیفہؒ)۔ اس سے علم یقین تک بندہ پہنچ جاتاہے کیونکہ حدیث کی صحت کو جانچنا… دراصل ظن سے نکل کر یقین تک پہنچنے کا نام ہے اس لئے خبر واحد اور خبر متواتر کی معتزلانہ تقسیم ہی غلط ہے۔
٭… متواتر ہو یا خبر واحد کی تمام اقسام ، احکام شرعی میں وجوب، مندوب، حلال وحرام اورمکروہ مباح سبھی کو فراہم کرتی ہیں۔اور ان سے مسائل کا استخراج واستنباط ہوسکتا ہے۔نیز عقیدہ وایمان بھی ان سے ثابت ہوتا ہے۔ضعیف ، مرسل یا منقطع روایت سے فقہی مسائل کا استخراج فقہاء کرام کے نزدیک درست نہیں الا یہ کہ حدیث کے بارے میں بتادیا جائے کہ یہ ضعیف وموضوع یا مرسل ومنقطع ہے۔
٭٭٭٭٭