• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہ حنفی میں امارات اسلامیہ افغانستان و عراق میں صلیبی افواج کی مدد کرنے والوں کا حُکم

متلاشی

رکن
شمولیت
جون 22، 2012
پیغامات
336
ری ایکشن اسکور
412
پوائنٹ
92
وہی جو سبھی علماء حق دیتے ہیں چاہے اہل حدیث ہوں یا دیوبند
کہ کفار کی مسلمانوں کے خلاف مدد کرنے والا انہی کی طرح کا کافر ہے۔
ایسے ہی شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کے مدرسے پر پابندی کی وجہ بنے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/08/130820_peshawar_madrassa_sanctions_zz.shtml
آپ نے جو لنک دیا ہے اس میں تو کہا گیا ہے کہ مدرسہ لشکر طیبہ کو بھی مالی امداد فراہم کرتا ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
دیوبندی فتویٰ تو بہت لگادیئے ہیں اُن پر بھی نظر کریں تاکہ حق مزید واضح ہوجائے
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
یہ فتویٰ داغ کر آپ نے کون سا تیر مار دیا ۔یہ فتویٰ گمراہ کن ہے۔اس فتویٰ سے ہر مسلمان کو براءت کرنی چاہیے۔ صاحب فتویٰ کے اس اردو فتویٰ کو دیوار پر دے مارو۔ صاحب فتویٰ نے جو کچھ عربی میں نقل کیا ہے۔اس کو متلاشی نے یہاں پر نقل نہیں کیا ہے۔ اگر متلاشی میں تھوڑی سے بھی دیانت داری باقی ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ اس پورے فتویٰ کا یہاں اردو ترجمے کے ساتھ نقل کرے۔
کوئی حیرت والی بات نہیں ہے ۔ متلاشی نے فتویٰ کوڈ کیا ہے میں نے نہیں۔یہ متلاشی کی ذمہ داری ہے کہ وہ دیانت داری سے کام لے۔
متلاشی نے عربی کی عبارت کا ترجمہ کیوں نہیں نقل کیا اس کا جواب کیا ہے آپ کے پاس؟؟؟؟؟
آپ متلاشی کو مجبور کریں کہ وہ دیانت داری سے کام لیتے ہوئے عربی فتوے میں موجود عبارات کا ترجمہ اپنے پوسٹ میں نقل کرے۔
مفتی صاحب نے جو خلاصہ اردو میں بیان کیا ہے، وہی خلاصہ عربی عبارت سے واضح ہوتا ہے۔ اس لیے تو مفتی صاحب نے بھی سائل کے جواب میں جو عربی عبارت پیش کی ہے۔ اس کا ترجمہ نہیں کیا۔
اگر خلاصہ اور عربی عبارت میں کوئی فرق ہوتا تو ضرور مفتی صاحب بھی اشارہ کرتے۔

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ دونوں میں فرق ہے تو برائے مہربانی آپ عربی عبارت کا ترجمہ نہ کریں، بلکہ خلاصہ اور عربی عبارت میں جو فرق ہے، اس کو بیان کردیں۔ شکریہ ہوگا آپ کا ۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
ابوزینب صاحب اگر مسلمان فسادی ہو تو ان عبارات کا کوئی فائدہ نہیں۔ اور یہ بات مفتی صاحب بھی تسلیم کرتے ہیں اس لئے انہوں نے اپنے اُردو کے پیراگراف میں اس عبارات سے کوئی خاص نتیجہ اخز نہیں کیا۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ خوارج جہاد نہیں بلکہ امیر المومنین بننے کے شوق میں یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔
متلاشی دھوکہ پر دھوکہ دے رہے ہو۔مفتی صاحب ارجاء کے مارے ہوئے تھے اس لئے انہوں نے اردو پیراگراف میں اس عبارت سے کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا کیونکہ عربی کی عبارت سے ان کے ارجاء کی عمارت ملبے کا ڈھیر بن جاتی ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ عربی کی عبارت کیا کہہ رہی ہے ۔ پڑھو اس کو غور سے اس میں مقام عبرت ہے:
کما فی تفسیر ابنن کثیر تحت قول اللہ تعالیٰ ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان ،(الیٰ قولہ) قال عباس بن یونس ان اباالحسن نمران بن ھخر حدثہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ، من مشی مع ظالم لیعینہ وھو یعلم أنہ ظالم فقد خرج من الاسلام ص ۱۱ ج ۲
جیسا کہ تفسیر ابن کثیر میں اللہ تعالیٰ کے قول کہ گناہ اور زیادتی کے کاموں تعاون مت کرو(الی قولہ) عباس بن یونس کہتے ہیں کہ حسن نمران بن ھخر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کی جو ظالم کے ہمراہ چلا تاکہ اس کی مدد کرے اور وہ جانتا ہے کہ وہ ( جس کی وہ مدد کررہا ہے) ظالم ہے پس وہ شخص اسلام سے خارج ہوگیا۔ص ۱۱ ج ۲
یہ ہے وہ وجہ جس کی وجہ سے مفتی صاحب نے اس عبارت کی اردو نہ تو نقل کی اور نہ اس سے کوئی نتیجہ اخذ کیا ۔ کیوں کہ اس عبارت میں ایک مرجئہ کے لئے اس کے عقیدے کے برخلاف بات تھی جس کی وجہ سے مفتی صاحب بڑے نرم الفاظ میں سائل کو سمجھانے کی کوشش کی کہ :
تاہم سائل کی موجودہ ملازمت بھی حمیت اسلامی اور دینی غیرت کے منافی ضرور ہے
جبکہ رسولﷺنے فرمایا :
((من مشیٰ مع فاسقٍ لقوہ، فقد اعان علیٰ ھدم الاسلام))
'' جوشخص کسی فاسق کے ساتھ اسے تقویت پہنچانے کے لئے چلا،اس نے اسلام کی جڑیں کھودنے میں مدد کی۔''

اب کوئی بھی انصاف پسند آدمی فیصلہ کرلے کہ کیا مفتی صاحب اپنے ارجاء کی وجہ سے پس وہ شخص اسلام سے خارج ہوگیا۔کو اپنے ارجائی عقیدے کی وجہ سے چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں یا مرتد حکمرانوں کے خوف سے اس حدیث سے استدلال نہ کرسکے ۔ کیونکہ یہ تو محض ایک ملازمت کا مسئلہ تھاجس میں بذات خود کسی فوجی کاروائی میں شامل نہ تھا بلکہ دیگر امور انجام دیتا تھا۔اس پر مفتی صاحب نے اس سائل کو یہ کہا کہ :
اس سے اُسے اگر کوئی اس کے متبادل کوئی دوسری جائز ملازمت مل جائے تو اسے چھوڑ کر وہ دوسری ملازمت اختیار کرنا بہتر ہے۔
مفتی صاحب نے حرام اور حلال کے پیمانے فراموش کرکے بہتر اور غیر بہتر کو برقرار رکھا۔ حالانکہ خط کے مندرجات کے مطابق برطانوی فرم فوجی مشن پر تھی اور میدان جنگ میں ناٹو کے فوجیوں کو لاجسٹک سپورٹ کررہی تھی ۔ لیکن مفتی صاحب نے اپنے ارجائی عقیدے کو برقرار رکھنے کے لئے حق سے انحراف کیا اور سائل کو بہتر اور غیر بہتر کے مسئلے میں الجھادیا۔حالانکہ سلف سے ظالموں کا ساتھ دینے کے بارے میں بہت سا کلام موجود ہے جس میں کچھ ہم یہاں نقل کررہے ہیں :
امام سفیان ثوری ﷫فرماتے ہیں:
''ان دعوک لتقرا علیھم :قل ھو اللّٰہ احد ،فلا تأ تھم''[1]
''اگر(ظالم )حکمران تمہیں اس لئے بلائیں کہ تم انہیں (قل ھو اللّٰہ احد)پڑھ کر سناؤ تو پھر بھی نہ جانا ''۔
[1] بھیقی.
امام سفیان ثوری﷫مزید فرماتے ہیں:
''ان فجار القراء اتخذوا الی الدنیا فقالوا: ندخل علی الأمراء نفرج عن مکروب ونکلم فی محبوس''
''فاجر علماء نے دنیا تک (رسائی کے لئے)ایک بہانہ ڈھونڈ لیا ہے اور کہتے ہیں :ہم حکمرانوں کے یہاں جائیں گے تاکہ کسی مصیبت زدہ کو نجات دلائیں اور کسی قیدی کی سفارش کریں''۔
ہم نے یہاں تک پڑھا ہے کہ جو دھوبی ان ظالموں کے کپڑے دھوتا ہے وہ بھی ان کے ظلم میں شریک کار ہوگا۔ اور جو ظالم کو قلم اور دوات پکڑائے وہ بھی ظالموں میں شمار ہوگا۔تو کس طرح اس مفتی نے اس کی ملازمت کو اس وقت کے لئے جائز رکھا جب تک کہ دوسری بہتر ملازمت نہیں مل جاتی ذرا اس کی ملازمت کے امور پر تو غور کرلو اور پھر اس کے مقام کا بھی تعین کرلو کہ وہ ان امور کو انجام دینے کے بعد کس مقام پر فائز ہوچکا ہوگا۔
وہ برطانوی کمپنی امریکن اور نیٹو فوج کو تمام رسد مہیا کررہی ہے،جیسے لیبر اور فوج کے لئے رہائشی جگہ ، دفاتر ،کچن ،کھانے کا ہال، بیت الخلاء،فوارہ،تعمیراتی سامان ۔خوراک ، ملازمین اور کارکن بلٹ پروف جیکٹ، سردیوں کی جیکٹ ،عراق افغانستان اور جبوتی میں۔نیز اس کی کمپنی عراق (کرابر کیمپ) اور افغانستان (بگرام) میں جیلیں تعمیر کرتی ہے
اب کیا رہ جاتا ہے ان خدمات کے بعد ناٹو کے لشکر کی تمام خدمات تو یہ کمپنی انجام دے رہی ہے۔اتنی خطرناک خدمات پر بہتر اور غیر بہتر کہنا عجیب وغریب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو درید بن صمہ جو کہ ایک بوڑھا تھا ایک پہاڑ پر کھڑا ہوکر حنین کے دن کفار کو صرف مشورے دے رہا تھا اس پاداش میں اس کو قتل کرنے کے لئے اپنے پھوپھی زاد بھائی اپنے حواری زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کو بھیجا تھا۔وہاں تو صرف ایک مشورہ تھا ۔ اور یہاں تو عملی اعتبار سے خدمات کی ایک طویل فہرست ہے۔لیکن کیا کیا جائے اس ارجائی مذہب کا یہ حق کو بیان کرنے سے قاصر ہے۔اسی ارجاء کی وجہ سے تو آج مسلمانوں کی یہ حالت زار ہے کہ دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک مسلمانوں کے خون سے زمین رنگین ہورہی ہے۔ اور اس کو رنگین کرنے والے مرتد حکمران ہیں ۔ اور ارجاء کی غلاظت میں لتھڑے ہوئے یہ علماء ان مرتدین کے دفاع میں مصروف ہیں حدثیوں کو نقل ضرور کرتے ہیں لیکن ان کو بیان کرتے وقت ان کے مفہوم کو یکسر طور پر بدل دیتے ہیں ۔ کیونکہ اس طرح اگر نہ کریں تو اپنے ارجائی مذہب کو کس طرح بچائیں گے متذکرہ بالا فتوے بھی ایسا ہی کیا گیا ظالموں سے تعاون کی بناء پر ایسے افراد کو خارج عن الاسلام سمجھا گیا لیکن انہوں نے اس کو چھپا دیا عربی کی عبارت نقل کرکے اور اس کے مطابق فتویٰ نہ دے کر انہوں نے کس کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے؟؟
لوگوں کو چاہیے کہ وہ عقیدہ ارجاء کو پہچانیں کہ ارجاء نے کس قدر اسلام کو نقصان پہنچایا ہے ۔ہم ذیل میں سلف کے اقوال کے ذریعے سے قارئین کو ارجاء کی نحوست سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں:
امام زہری ﷫فرماتے ہیں کہ:

((ما ابتدعت فی الاسلام بد عة ھی اضر علی اھلہ من ھذہ یعنی الارجاءٍ))[1]
''اسلام کیلئے ارجاء سے بڑھ کر نقصان دہ کوئی اور بدعت نہیں ہے ''
[1] رواہ ابن بطة فی الانابة۔

اور ایسے لوگوں سے ہی اللہ کے رسولﷺ روزِ قیامت بیزاری کا اظہار کریں گے:
((عن انسؓ قال قال رسول اﷲﷺ''صنفان من أمتی لا یردان عليّ الحوض القدریة،والمرجئة))[1]
حضرت انس ﷛ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺنے فرمایا:''میری امت کے دو گروہ میرے پاس حوض کوثر پر نہ آسکیں گے : قدریہ اورمرجئہ''
[1] رواہ الطبرانی فی الاوسط،وأوردہ الالبانی فی سلسلۃ الصحیحة ج ۶وقال (اسنادہ قوي)۔

امام اوزاعی ﷫ فرماتے ہیں :
''یحییٰ بن ابی کثیر اور قتادہ﷮دونوں کہا کرتے تھے کہ ارجائیت کی بنسبت خواہشات میں سے کوئی شئے اس امت کے لئے خوفناک نہیں۔

قاضی شریک﷫مرجئہ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں :
''وہ (مرجئہ )خبیث ترین لوگ ہیں حالانکہ خباثت میں رافضہ کافی ہیں لیکن مرجئہ اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں ''[1]
[1] کتاب السنة:۱/۳۱۸۔

امام سفیان الثوری﷫فرماتے ہیں :
''مرجئہ نے اسلام کو باریک کپڑے سے بھی زیادہ رکیک بنادیا''۔

امام ذہبی﷫مرجئہ کے عقائد کے نتائج سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
''انہوں نے ہر فاسق اور ڈاکو کو تباہ کن گناہوں پر جری کردیا ہم اس خذلان سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔ ''[1]
[1] سیر اعلام النبلاء:۹/۴۳۶۔

ابراہیم نخعی﷫نے کہا :
''خوارج مرجئہ سے زیادہ میرے نزدیک معذور ہیں''۔[1]
[1] کتاب السنۃ عبداﷲ بن احمد۱/۳۳۷۔
تو متلاشی اب تو تمہیں اچھی طرح معلوم ہوجانا چاہیے کہ فسادی کون ہوتا ہے؟؟؟تم نے بھی مفتی صاحب کی طرح اس فورم کے قارئین کو دھوکہ دینے کی کوشش کی لیکن الحمد للہ اللہ کے فضل وکرم سے اس کوشش کو ناکام بنادیا گیا ہے ۔ ہم نے حق کو باطل پر دے مارا ہے ۔اور باطل کا مغز پھاڑ کر رکھ دیا ہے۔اب کسی میں زرہ برابر بھی علمی غیرت ہوگی تو وہ حق سے انحراف نہیں کرے گا۔ان شاء اللہ تعالیٰ
 

متلاشی

رکن
شمولیت
جون 22، 2012
پیغامات
336
ری ایکشن اسکور
412
پوائنٹ
92
متلاشی دھوکہ پر دھوکہ دے رہے ہو۔مفتی صاحب ارجاء کے مارے ہوئے تھے اس لئے انہوں نے اردو پیراگراف میں اس عبارت سے کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا کیونکہ عربی کی عبارت سے ان کے ارجاء کی عمارت ملبے کا ڈھیر بن جاتی ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ عربی کی عبارت کیا کہہ رہی ہے ۔ پڑھو اس کو غور سے اس میں مقام عبرت ہے:


یہ ہے وہ وجہ جس کی وجہ سے مفتی صاحب نے اس عبارت کی اردو نہ تو نقل کی اور نہ اس سے کوئی نتیجہ اخذ کیا ۔ کیوں کہ اس عبارت میں ایک مرجئہ کے لئے اس کے عقیدے کے برخلاف بات تھی جس کی وجہ سے مفتی صاحب بڑے نرم الفاظ میں سائل کو سمجھانے کی کوشش کی کہ :


جبکہ رسولﷺنے فرمایا :
((من مشیٰ مع فاسقٍ لقوہ، فقد اعان علیٰ ھدم الاسلام))
'' جوشخص کسی فاسق کے ساتھ اسے تقویت پہنچانے کے لئے چلا،اس نے اسلام کی جڑیں کھودنے میں مدد کی۔''

اب کوئی بھی انصاف پسند آدمی فیصلہ کرلے کہ کیا مفتی صاحب اپنے ارجاء کی وجہ سے پس وہ شخص اسلام سے خارج ہوگیا۔کو اپنے ارجائی عقیدے کی وجہ سے چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں یا مرتد حکمرانوں کے خوف سے اس حدیث سے استدلال نہ کرسکے ۔ کیونکہ یہ تو محض ایک ملازمت کا مسئلہ تھاجس میں بذات خود کسی فوجی کاروائی میں شامل نہ تھا بلکہ دیگر امور انجام دیتا تھا۔اس پر مفتی صاحب نے اس سائل کو یہ کہا کہ :

مفتی صاحب نے حرام اور حلال کے پیمانے فراموش کرکے بہتر اور غیر بہتر کو برقرار رکھا۔ حالانکہ خط کے مندرجات کے مطابق برطانوی فرم فوجی مشن پر تھی اور میدان جنگ میں ناٹو کے فوجیوں کو لاجسٹک سپورٹ کررہی تھی ۔ لیکن مفتی صاحب نے اپنے ارجائی عقیدے کو برقرار رکھنے کے لئے حق سے انحراف کیا اور سائل کو بہتر اور غیر بہتر کے مسئلے میں الجھادیا۔حالانکہ سلف سے ظالموں کا ساتھ دینے کے بارے میں بہت سا کلام موجود ہے جس میں کچھ ہم یہاں نقل کررہے ہیں :




ہم نے یہاں تک پڑھا ہے کہ جو دھوبی ان ظالموں کے کپڑے دھوتا ہے وہ بھی ان کے ظلم میں شریک کار ہوگا۔ اور جو ظالم کو قلم اور دوات پکڑائے وہ بھی ظالموں میں شمار ہوگا۔تو کس طرح اس مفتی نے اس کی ملازمت کو اس وقت کے لئے جائز رکھا جب تک کہ دوسری بہتر ملازمت نہیں مل جاتی ذرا اس کی ملازمت کے امور پر تو غور کرلو اور پھر اس کے مقام کا بھی تعین کرلو کہ وہ ان امور کو انجام دینے کے بعد کس مقام پر فائز ہوچکا ہوگا۔

اب کیا رہ جاتا ہے ان خدمات کے بعد ناٹو کے لشکر کی تمام خدمات تو یہ کمپنی انجام دے رہی ہے۔اتنی خطرناک خدمات پر بہتر اور غیر بہتر کہنا عجیب وغریب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو درید بن صمہ جو کہ ایک بوڑھا تھا ایک پہاڑ پر کھڑا ہوکر حنین کے دن کفار کو صرف مشورے دے رہا تھا اس پاداش میں اس کو قتل کرنے کے لئے اپنے پھوپھی زاد بھائی اپنے حواری زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کو بھیجا تھا۔وہاں تو صرف ایک مشورہ تھا ۔ اور یہاں تو عملی اعتبار سے خدمات کی ایک طویل فہرست ہے۔لیکن کیا کیا جائے اس ارجائی مذہب کا یہ حق کو بیان کرنے سے قاصر ہے۔اسی ارجاء کی وجہ سے تو آج مسلمانوں کی یہ حالت زار ہے کہ دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک مسلمانوں کے خون سے زمین رنگین ہورہی ہے۔ اور اس کو رنگین کرنے والے مرتد حکمران ہیں ۔ اور ارجاء کی غلاظت میں لتھڑے ہوئے یہ علماء ان مرتدین کے دفاع میں مصروف ہیں حدثیوں کو نقل ضرور کرتے ہیں لیکن ان کو بیان کرتے وقت ان کے مفہوم کو یکسر طور پر بدل دیتے ہیں ۔ کیونکہ اس طرح اگر نہ کریں تو اپنے ارجائی مذہب کو کس طرح بچائیں گے متذکرہ بالا فتوے بھی ایسا ہی کیا گیا ظالموں سے تعاون کی بناء پر ایسے افراد کو خارج عن الاسلام سمجھا گیا لیکن انہوں نے اس کو چھپا دیا عربی کی عبارت نقل کرکے اور اس کے مطابق فتویٰ نہ دے کر انہوں نے کس کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے؟؟
لوگوں کو چاہیے کہ وہ عقیدہ ارجاء کو پہچانیں کہ ارجاء نے کس قدر اسلام کو نقصان پہنچایا ہے ۔ہم ذیل میں سلف کے اقوال کے ذریعے سے قارئین کو ارجاء کی نحوست سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں:
امام زہری ﷫فرماتے ہیں کہ:
متلاشی اب تو تمہیں اچھی طرح معلوم ہوجانا چاہیے کہ فسادی کون ہوتا ہے؟؟؟تم نے بھی مفتی صاحب کی طرح اس فورم کے قارئین کو دھوکہ دینے کی کوشش کی لیکن الحمد للہ اللہ کے فضل وکرم سے اس کوشش کو ناکام بنادیا گیا ہے ۔ ہم نے حق کو باطل پر دے مارا ہے ۔اور باطل کا مغز پھاڑ کر رکھ دیا ہے۔اب کسی میں زرہ برابر بھی علمی غیرت ہوگی تو وہ حق سے انحراف نہیں کرے گا۔ان شاء اللہ تعالیٰ
ابوزینب صاحب مفتی حضرات کو بھی اپنی طرح جاہل ہی سمجھتے ہیں۔ مرجیہ اور کافر کہنے میں ذرا بھی نہیں چوکتے۔
ابوزینب صاحب ہوسکتا ہے آپ کے دیوبندی اکابر نے دلی رضامندی کی شرط کو محلوض رکھا ہو۔ اسی لئے وہ جائز و ناجائز کہتے ہیں۔ اُن نے نزدیک کفر اتنا سستہ نہیں ہوگا جتنا آپ کے نزدیک ہے۔
جیسا کے سائل کے فتوے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سائیل دلی طور پر رضامند نہیں ہے۔ بلکہ مجبوری میں یہ کام کر رہا ہے اسی لئے اُس نے اپنے مسلے کو مفتی صاحب کے سامنے پیش کیا ہے اگر وہ دلی طور پر راضی ہوتا یہ اُس کا مقصد ہوتا کہ وہ صلیبیوں کی مدد اسلام کے خلاف کرتے تو کیوں مفتی صاحب سے فتویٰ لیتا۔


اسی لئے مفتی صاحب فرماتے ہیں جب
اس سے اُسے اگر کوئی اس کے متبادل کوئی دوسری جائز ملازمت مل جائے تو اسے چھوڑ کر وہ دوسری ملازمت اختیار کرنا بہتر ہے
کیونکہ جو عبارات انہوں نے عربی میں لکھی ہیں اُن میں دلی طور پر رضامندی کو کفر پر محمول کیا ۔ اگر مفتی صاحب ارجاء کا شکار ہوتے تو وہ ان عبارات کو کیوں فتویٰ میں نقل کرتے۔ یہ آپ کی خوارجی ذہنیت ہے کہ ایک پہلو کو لے کر کفر کفر کی ڈگڈُگی بجاتے پھرتے ہیں اور دیگر پہلوں سے صرف نظر کر لیتے ہیں۔
اگر تم کہو کہ مفتی نے عربی عبارات کیوں لکھی اگر یہ دلی طور پر رضامندی کے طور پر ہے تو عرض ہے ان عربی عبارت میں وہ وعید سائل کو بتائی گئی ہے جس سے اُس کو غیر مسلموں کے مذہب سے دلی رضامندی اور اسلام دشمنی کی وجہ سے سائل کے حق میں وارد ہوتی ہیں۔ تاکہ سائل کسی فتنہ میں مبتلا نہ ہوئے۔
باقی جہاں آپ کے جامعہ بنوریہ کے مرجئہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو وہ آپ کی ذمہ داری پر ہے۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
ابوزینب صاحب مفتی حضرات کو بھی اپنی طرح جاہل ہی سمجھتے ہیں۔ مرجیہ اور کافر کہنے میں ذرا بھی نہیں چوکتے۔
اہل سنت کے عقائد سے جو بھی انحراف کرے گا اور ارجاء ظاہر کرے گا وہ یقیناً مرجئہ ہی کہلائے گا۔آپ شوق سے جہالت کے فتاوی جاری کرتے رہیں۔آپ کا انجام بھی عبداللہ عبدل اور القول السدید جیسا ہی ہوگا ان شاء اللہ۔
ابوزینب صاحب ہوسکتا ہے آپ کے دیوبندی اکابر نے دلی رضامندی کی شرط کو محلوض رکھا ہو۔ اسی لئے وہ جائز و ناجائز کہتے ہیں۔ اُن نے نزدیک کفر اتنا سستہ نہیں ہوگا جتنا آپ کے نزدیک ہے۔
سب سے پہلے اس غلط فہمی کو میرے بارے میں دور کرلیں کہ میں دیوبندی نہیں ہوں۔دوسری بات یہ کہ دلی رضامندی کی شرط میں اہل حدیث اور دیوبندی دونوں مشترک ہیں۔اور دلی رضامندی کی شرط لگانا جہمیت کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔اہل السنۃ والجماعۃ جہم بن صفوان کے عقیدے سے مبرا ہیں۔
جیسا کے سائل کے فتوے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سائیل دلی طور پر رضامند نہیں ہے۔ بلکہ مجبوری میں یہ کام کر رہا ہے اسی لئے اُس نے اپنے مسلے کو مفتی صاحب کے سامنے پیش کیا ہے اگر وہ دلی طور پر راضی ہوتا یہ اُس کا مقصد ہوتا کہ وہ صلیبیوں کی مدد اسلام کے خلاف کرتے تو کیوں مفتی صاحب سے فتویٰ لیتا۔
سائل کا یہ فعل اکراہ کے زمرے میں نہیں آتا ہے۔اگر کوئی شخص کسی قبر یا کسی بت کو سجدہ کرے اور یہ کہے کہ میں دل طور پر رضامند نہیں ہوں۔یا میں سجدہ تعظیمی کررہا ہوں سجدہ عبادت نہیں کررہا ہوں۔تو اہل السنۃ والجماعۃ اس کے اس عقیدے سے بری ہیں۔

اسی لئے مفتی صاحب فرماتے ہیں جب
اس سے اُسے اگر کوئی اس کے متبادل کوئی دوسری جائز ملازمت مل جائے تو اسے چھوڑ کر وہ دوسری ملازمت اختیار کرنا بہتر ہے
کیونکہ جو عبارات انہوں نے عربی میں لکھی ہیں اُن میں دلی طور پر رضامندی کو کفر پر محمول کیا ۔ اگر مفتی صاحب ارجاء کا شکار ہوتے تو وہ ان عبارات کو کیوں فتویٰ میں نقل کرتے۔ یہ آپ کی خوارجی ذہنیت ہے کہ ایک پہلو کو لے کر کفر کفر کی ڈگڈُگی بجاتے پھرتے ہیں اور دیگر پہلوں سے صرف نظر کر لیتے ہیں۔
اگر تم کہو کہ مفتی نے عربی عبارات کیوں لکھی اگر یہ دلی طور پر رضامندی کے طور پر ہے تو عرض ہے ان عربی عبارت میں وہ وعید سائل کو بتائی گئی ہے جس سے اُس کو غیر مسلموں کے مذہب سے دلی رضامندی اور اسلام دشمنی کی وجہ سے سائل کے حق میں وارد ہوتی ہیں۔ تاکہ سائل کسی فتنہ میں مبتلا نہ ہوئے۔
باقی جہاں آپ کے جامعہ بنوریہ کے مرجئہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو وہ آپ کی ذمہ داری پر ہے۔
اگر کوئی بھی شخص یہ عقیدہ رکھے کہ کافر اس وقت ہوگا جب کفر پر دل سے رضامند ہو۔تو یہ عقیدہ تو جہم بن صفوان کا ہے۔اہل السنۃ والجماعۃ کا یہ عقیدہ نہیں ہے۔اہل السنۃ کے نزدیک جو ایمان کی تعریف ہے وہ درج ذیل ہے:
امام ابن تیمیہ﷫مزید فرماتے ہیں:اہل سنت کے نزدیک اقرار و عمل کو ایمان قرار دینا سنت کی علامت میں سے ہے بے شمار علماء نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے؟ امام شافعی﷫ نے فرمایا صحابہ﷢ تابعین﷭ اور بعد کے وہ علماء جن سے ہم نے ملاقات کی ان کا اس بات پر اجماع ہے کہ ایمان قول ، عمل اور نیت کا نام ہے اور یہ تینوں چیزیں ایک دوسرے کے بغیر کفایت نہیں کرتیں۔(مجموع الفتاویٰ ابن تیمیہ﷫: 307-7)
امام ابو القاسم اللالکائی نے اپنی کتاب '' شرح اصول اعتقاد اہل سنۃ والجماعۃ'' میں ایمان سے متعلق بہت سی نصوص جمع کی ہیں ۔ جن میں انہوں نے متعدد صحابہ کرام﷢ ، تابعین﷭، اور بعد کے ائمہ اہل سنت جو صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرنے والے اور سنت اور دعوت الی اللہ میں امام کے لقب سے ملقب ہیں ان کا ذکر کیا ہے۔ جن میں امام حسن بصری ، ابو عبداللہ سفیان ثوری امام احمد بن حنبل، امام محمد بن اسماعیل بخاری ابو زرعہ ، ابو حاتم رازی امام ابو جعفر محمد بن جریر الطبری )﷭( اورسلف صالحین کی جماعت کا یہی عقیدہ ہے کہ وہ کہتے ہیں ایمان قول و عمل کا نام ہے
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر قول سے کفر کیا یا عمل سے کفر کیا تو ایمان چلاگیا۔چنانچہ سورۃ توبہ میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو کافر قرار دیا جنہوں نے کفریہ قول منہ سے نکالا۔اور اسی طرح جو شخص کوئی کفریہ عمل کرے گا۔تو کفر کی طرف منسوب ہوگا۔اس سے اس کے دلی ارادے کو نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ اس کفر پر دلی طور راضی تھا یا نہیں۔ایسا عقیدہ اہل السنۃ کا نہیں ہے بلکہ جہم بن صفوان کا ہے اس پیراگراف کو پڑھنے سے شاید آپ کی سمجھ میں یہ بات آجائے:
۔امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب'ایمان'کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ تمام اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کلمہ شہادت استطاعت کے باوجودنہ کہنے والا ظاہراً و بہ باطن کافر ہے خواہ اس کے دل میں تصدیق پائی ہی کیوں نہ جاتی ہو۔دنیا میں بھی اس کے احکام کافروں والے ہیں اور آخرت میں بھی۔ میں بھی۔اس کے بعدابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ایک مثال سے اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ شدید ضرورت کے وقت بھی اگر کوئی شخص اپنی محبوب ہستی کے لیے کلمہ خیر نہیں کہتا اور اس پر کوئی جبر اور اکراہ بھی نہیں ہے تو ہر شخص یہی کہے گا کہ وہ دل میں اُس شخصیت کے لیے رائی کے دانے کے برابر بھی محبت کے جذبات نہیں رکھتا۔جیسے یہ ناممکن ہے کہ اگر کسی شخص سے کہا جائے کہ ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ اور عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے یہ کہو کہ رضی اللہ عنہما مگر وہ یہ الفاظ کہنے سے انکار کر دیتا ہے یہاں تک کہ اسے قتل کر دیا جاتا ہے۔ رضی اللہ عنہما کہنے میں نہ اُسے کوئی رکاوٹ تھی اور نہ خوف کہ اگروہ یہ الفاظ کہہ دے گا تو اسے نقصان پہنچے گا۔ اس فرضی صورت کو سامنے رکھ کر کوئی اس شخص کے بارے میں کہہ سکتا ہے کہ اسے ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ اور عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے بڑی محبت ہے۔ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اس بات کو یوں سمجھوں کہ ایک شخص نبی علیہ السلام سے ظاہراً و باطناً محبت رکھتا ہے اور کوئی خوف اور رکاوٹ بھی نہیں ہے اور اس سے کہا جاتا ہے کہ کہو :محمد رسول اللہ،اور وہ انکار کر دیتا ہے،تقاضا بڑھتا جاتا ہے اور وہ برابرانکار کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ قتل ہونا گوارا کر لیتا ہے مگر محمد رسول اللہ کے الفاظ ادا نہیں کرتاتو کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ شخص باطن میں اللہ کے رسول سے بہت محبت رکھتا ہے۔
ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اس مثال سے یہ بات مخاطب کو سمجھانا چاہتے ہیں کہ جو شخص ظاہر میں کافر ہے تو وہ باطن میں بھی کافر شمار ہو گاکیونکہ اگراس کے دل میں تصدیق(ایمان)پائی جاتی تو وہ استطاعت رکھتے ہوئے اور خوف کی عدم موجودگی اور دوسری طرف اس سے اقرار باللسان کا شدید تقاضا ہو اور وہ زبان سے اقرار نہ کرے تو وہ یقیناً بہ باطن کافر ہے۔بنا بریں یہ کہنا کہ کوئی شخص باطن میں مومن ہو سکتا ہے خواہ اقرار نہ کرے اور اقرار نہ کر کے وہ ظاہر میں کافر ہوا ہے ایک غلط قیاس ہے۔
اس کے بعد ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ تمام سلف کے نزدیک قلبی ایمان کے لیے ظاہر میں قول شرط ہے۔اس بات میں سلف کی مخالفت صرف جہمیہ نے کی ہے یا پھر اشاعرہ اور جو ان کے ہم خیال ہوئے ہیں ۔ (کہ زبان سے اقرار نہ کرنے والا باطن میں مومن ہو سکتا ہے)
اس بحث کے ساتھ ساتھ الحمد للہ متلاشی کا عقیدہ بھی ہم پر واضح ہوگیا کہ وہ جہم بن صفوان کا پیروکار ہے۔اس کا عقیدہ وہی ہے جو جہم بن صفوان کا تھا کہ دلی رضامندی کو وہ کفر کے لئے شرط قرار دیتا ہے۔متلاشی ہرگز اہل الحدیث کے عقیدے پر نہیں ہے۔اس کا عقیدہ سلف کے عقیدہ سے متصادم ہے اور جہم بن صفوان کے عقیدے سے ہم آہنگ ہے۔
 

متلاشی

رکن
شمولیت
جون 22، 2012
پیغامات
336
ری ایکشن اسکور
412
پوائنٹ
92
اگر کوئی بھی شخص یہ عقیدہ رکھے کہ کافر اس وقت ہوگا جب کفر پر دل سے رضامند ہو۔تو یہ عقیدہ تو جہم بن صفوان کا ہے۔اہل السنۃ والجماعۃ کا یہ عقیدہ نہیں ہے۔اہل السنۃ کے نزدیک جو ایمان کی تعریف ہے وہ درج ذیل ہے:
تو آپ کے نذدیک جامع بنوریہ والے جہم بن ضفوان کی طرح ارجاء کا شکار ہیں۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
تو آپ کے نذدیک جامع بنوریہ والے جہم بن ضفوان کی طرح ارجاء کا شکار ہیں۔
کیا یہی جواب ہے متلاشی جو تم نے لکھا ہے ہمارے دلائل کا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

متلاشی

رکن
شمولیت
جون 22، 2012
پیغامات
336
ری ایکشن اسکور
412
پوائنٹ
92
کیا یہی جواب ہے متلاشی جو تم نے لکھا ہے ہمارے دلائل کا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
میرے بھاءی یہ سوال ہے؟ پھر دہرا دیتا ہوں
تو آپ کے نذدیک جامع بنوریہ والے جہم بن ضفوان کی طرح ارجاء کا شکار ہیں۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
میرے بھاءی یہ سوال ہے؟ پھر دہرا دیتا ہوں
متلاشی اگر کوئی شخص کفریہ عمل کے لئے دلی رضامندی کی شرط لگاتا ہے تو وہ یقیناً جہم بن صفوان کے عقیدے پر ہے ۔ چاہے وہ اہل الحدیث ہو یا بنوریہ والا۔اس میں کسی قسم کی کوئی تخصیص نہیں ہے کہ اہل حدیث دلی رضامندی کی شرط لگائے تو جہمی اور بنوری والا شرط لگائے تو وہ نہیں ۔ ایسا نہیں ہے جو شخص بھی ایسا عقیدہ لے کر آئے گا خواہ وہ اہل الحدیث سے ہو ۔ یا حنفیوں سے ہو ۔اہل السنۃ کے عقائد سے منحرف کہلائے گا۔
 

متلاشی

رکن
شمولیت
جون 22، 2012
پیغامات
336
ری ایکشن اسکور
412
پوائنٹ
92
دوسری بات یہ کہ دلی رضامندی کی شرط میں اہل حدیث اور دیوبندی دونوں مشترک ہیں۔اور دلی رضامندی کی شرط لگانا جہمیت کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔اہل السنۃ والجماعۃ جہم بن صفوان کے عقیدے سے مبرا ہیں۔
ابوزینب صاحب آپ کیوں دیوبندی نہیں ہیں۔ وجہ بتائیں ایسی کیا خرابی ہے دیوبندیوں میں جس کی وجہ سے آپ کو یہ وہم لگا رہتا ہے کہ ہم آپ کو دیوبندی سمجھ رہے ہیں۔


متلاشی اگر کوئی شخص کفریہ عمل کے لئے دلی رضامندی کی شرط لگاتا ہے تو وہ یقیناً جہم بن صفوان کے عقیدے پر ہے ۔ چاہے وہ اہل الحدیث ہو یا بنوریہ والا۔اس میں کسی قسم کی کوئی تخصیص نہیں ہے کہ اہل حدیث دلی رضامندی کی شرط لگائے تو جہمی اور بنوری والا شرط لگائے تو وہ نہیں ۔ ایسا نہیں ہے جو شخص بھی ایسا عقیدہ لے کر آئے گا خواہ وہ اہل الحدیث سے ہو ۔ یا حنفیوں سے ہو ۔اہل السنۃ کے عقائد سے منحرف کہلائے گا۔
یہ جس کو آپ بنوریہ والا کہ رہے ہیں آپ کی خوارجی ویب سائٹ میں انہی بنوریہ والوں کا فتویٰ لگا ہوا ہے نیٹو سپلائی لائن کے متعلق ۔ آپ کی ٹی ٹی پی نے یہ فتویٰ کیوں لگایا ہوا ہے۔ اگر بنوریہ والے مرجیہ ہیں۔
 
Top