اس کی وجہ یہ ہے کہ اس امام کی اقتداء کی غلطی ان لوگوں نے خود کی ہے۔ انہی کی فاسد ہوگی۔ اگر عریاں امام عریاں لوگوں کو نماز پڑھا رہا تھا اور درمیان میں ایک کپڑے والا بھی آ کر نماز میں شریک ہو گیا تو ہم امام کی نماز کو کیسے فاسد قرار دے سکتے ہیں؟
تو گویا کپڑے والے کو جماعت کا تارک بن جانا چاہئے اور اکیلے نماز پڑھنا چاہئے؟ اگرچہ وہ بعد ہی میں آیا ہو۔ یہ تو نہایت عجیب بات کہی آپ نے؟
اس کے بجائے زیادہ لائق نہیں ہے کہ وہ شخص جس کے پاس ستر ڈھانپنے کے لئے کپڑا نہ ہونے کا معقول شرعی عذر ہے، وہی جماعت کو ترک کرے اور گھر (یعنی تنہائی) میں نماز ادا کرے۔
دوسری بات احناف کے نزدیک مقتدی کی نماز امام کی نماز کے تابع ہوتی ہے۔ اب امام کی تو مجبورا جائز ہو رہی ہے کہ اس کے پاس کپڑے ہی نہیں ہیں۔ لیکن اس کے ضمن میں اس کے تابع مقتدی کی نماز تو صحیح نہیں ہو سکتی جب کہ اس کے پاس کپڑے بھی ہیں۔
امام کا شرعی عذر امام کے لئے ہے۔ لیکن اگر امام کی جماعت اللہ کے نزدیک قابل قبول ہے اس کے عذر کی وجہ سے۔ تو مقتدی کی نماز بدرجہ اولیٰ قابل قبول ہونی چاہئے۔ یہ تو تب تھا کہ امام کی نماز خود عنداللہ قبولیت کے درجہ تک نہ پہنچ پاتی ہو، تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ مقتدی کی نماز بھی قبول نہیں ہوگی۔
اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ دینی لحاظ سے کمتر شخص نے اگر امامت کروا دی، تو مقتدیوں میں جو لوگ امام سے دینی لحاظ سے برتر ہوں گے، ان کی نماز ہی درست نہیں ہوگی؟ میں غلط تو نہیں سمجھا؟
جی نہیں لیکن خیال رہے کہ میرا مطلب کمتر سے وہ شخص ہے کہ عام حالات میں جس کی نماز درست نہیں اور یہاں کسی عذر سے درست ہو رہی ہے۔
کمتر سے آپ کی یہ مراد بھی درست معلوم نہیں ہوتی۔ کیونکہ امام ابو حنیفہ ؒ تو فرما رہے ہیں کہ ایک ان پڑھ نے اگر امامت کے فرائض سر انجام دئے اور مقتدیوں میں قاری اور غیرقاری دونوں تھے۔ تو امام کی نماز بھی درست، جہلاء کی نماز بھی درست، جو قراء تھے ان کی نماز درست نہیں ہوگی۔ جبکہ آپ کہہ رہے ہیں کہ:
البتہ اس میں غیر عالم کی عالم کو نماز پڑھانا وغیرہ شامل نہیں ہوگا۔ کیوں کہ وہاں غیر عالم کی نماز اصلا درست ہے۔