اشماریہ
سینئر رکن
- شمولیت
- دسمبر 15، 2013
- پیغامات
- 2,682
- ری ایکشن اسکور
- 752
- پوائنٹ
- 290
اوہو!! میں مصروفیت کی وجہ سے دو دن غیر حاضر رہا تو اتنے تبصرے!!! اب کس کس کا جواب دوں؟
حافظ عمران الٰہی بھائی اگر آپ ایسا کوئی جزئی واقعہ ڈھونڈ دیتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ مزے کی بات ہے کہ صحیح اسناد سے "بالکل" ایسا واقعہ مجھے بھی نہیں ملا۔ اب کیا کیا جائے؟ کیا یہ مقام اجتہاد ہے یا نہیں؟
مجھے امید ہے آپ کا جواب ہاں میں ہوگا۔
یہ اصلا اس صورت کی بات ہے جب کوئی کشتی یا جہاز ڈوب جائے اور جو لوگ بچیں وہ اس حال میں ہوں کہ ستر مکمل ڈھانپنا ان کے بس کی بات نہ ہو۔ اگر اس کے علاوہ کبھی ایسا مسئلہ پیش آ جائے تو بھی یہی مسئلہ ہو گا۔
کیا احناف فارغ تھے جو انہوں نے اتنے ممکنہ مسائل اخذ کیے؟ اگر کسی کے ساتھ ایسا مسئلہ پیش آ جائے تو ساحل سمندر پر وہ حدیث کی کونسی کتاب میں اس مسئلہ کا حل تلاش کرے گا؟؟؟ جب کہ عام کتب حدیث میں اس کا حل ملے بھی نہ؟؟؟ یہ میرا عاجزانہ سوال ہے۔ سوچنے کی درخواست ہے۔
یہی فتوی حسن بصری رح جو جلیل القدر تابعی، فقیہ اور محدث تھے ان کا بھی ہے۔
حدثنا يزيد بن هارون، عن هشام، عن الحسن، في القوم تنكسر بهم السفينة فيخرجون عراة كيف يصلون؟ قال: جلوسا وإمامهم وسطهم ويسجدون ويغضون أبصارهم
مصنف ابن ابی شیبہ 1۔433، الرشد
عریاں نماز پڑھنے کا ذکر کمزور اسناد سے ابن عباس رض اور علی رض سے بھی مروی ہے۔
عن إبراهيم بن محمد، عن داود بن الحصين، عن عكرمة، عن ابن عباس قال: «الذي يصلي في السفينة، والذي يصلي عريانا، يصلي جالسا»
مصنف عبد الرزاق 2، 583، مجلس العلمی
عن إبراهيم بن محمد، عن إسحاق بن عبد الله، عن ميمون بن مهران قال: سئل علي عن صلاة العريان، فقال: «إن كان حيث يراه الناس صلى جالسا، وإن كان حيث لا يراه الناس صلى قائما»
مصنف عبد الر زاق 2۔584
اور یہی فتوی حافظ العصر قتادہ رح کا ہے۔ جسے علامہ زیلعی نے اور پھر حافظ ابن حجر عسقلانی رح نے نقل کیا ہے۔
أخبرنا معمر عن قتادة، قال: إذا خرج ناس من البحر عراة فأمهم أحدهم صلوا قعودا، وكان إمامهم معهم في الصف يومئون إيماءا.
نصب الرایہ 1۔301، الریان
وعن معمر عن قتادة إذا خرج ناس من البحر عراة فأمهم أحدهم صلوا قعودا وكان إمامهم معهم في الصف يومئون إيماء
الدرایہ 1۔124، المعرفہ
ممکن ہے یہ سب لوگ بھی فارغ ہوں۔ کیوں شاہد نذیر بھائی کیا خیال ہے؟
اگر کوئی بھی شخص تعصب کی عینک لگا کر دیکھنا ہی چاہتا ہے تو پھر کچھ نہیں کیا جا سکتا۔
میں یہی کہتا ہوں کہ آپ کو اگر کسی بات پر تسلی ہے حتی کہ آپ متبحر عالم ہیں تب بھی مخالف کو برا مت کہیں۔ فقہاء نے اپنی زندگیاں اس لیے نہیں صرف کی تھیں کہ وہ دین کو بدل دیں۔ ان کے پاس دلائل تھے تو ہی کوئی فتوی دیتے تھے۔
واللہ اعلم
حافظ عمران الٰہی بھائی اگر آپ ایسا کوئی جزئی واقعہ ڈھونڈ دیتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ مزے کی بات ہے کہ صحیح اسناد سے "بالکل" ایسا واقعہ مجھے بھی نہیں ملا۔ اب کیا کیا جائے؟ کیا یہ مقام اجتہاد ہے یا نہیں؟
مجھے امید ہے آپ کا جواب ہاں میں ہوگا۔
یہ اصلا اس صورت کی بات ہے جب کوئی کشتی یا جہاز ڈوب جائے اور جو لوگ بچیں وہ اس حال میں ہوں کہ ستر مکمل ڈھانپنا ان کے بس کی بات نہ ہو۔ اگر اس کے علاوہ کبھی ایسا مسئلہ پیش آ جائے تو بھی یہی مسئلہ ہو گا۔
کیا احناف فارغ تھے جو انہوں نے اتنے ممکنہ مسائل اخذ کیے؟ اگر کسی کے ساتھ ایسا مسئلہ پیش آ جائے تو ساحل سمندر پر وہ حدیث کی کونسی کتاب میں اس مسئلہ کا حل تلاش کرے گا؟؟؟ جب کہ عام کتب حدیث میں اس کا حل ملے بھی نہ؟؟؟ یہ میرا عاجزانہ سوال ہے۔ سوچنے کی درخواست ہے۔
یہی فتوی حسن بصری رح جو جلیل القدر تابعی، فقیہ اور محدث تھے ان کا بھی ہے۔
حدثنا يزيد بن هارون، عن هشام، عن الحسن، في القوم تنكسر بهم السفينة فيخرجون عراة كيف يصلون؟ قال: جلوسا وإمامهم وسطهم ويسجدون ويغضون أبصارهم
مصنف ابن ابی شیبہ 1۔433، الرشد
عریاں نماز پڑھنے کا ذکر کمزور اسناد سے ابن عباس رض اور علی رض سے بھی مروی ہے۔
عن إبراهيم بن محمد، عن داود بن الحصين، عن عكرمة، عن ابن عباس قال: «الذي يصلي في السفينة، والذي يصلي عريانا، يصلي جالسا»
مصنف عبد الرزاق 2، 583، مجلس العلمی
عن إبراهيم بن محمد، عن إسحاق بن عبد الله، عن ميمون بن مهران قال: سئل علي عن صلاة العريان، فقال: «إن كان حيث يراه الناس صلى جالسا، وإن كان حيث لا يراه الناس صلى قائما»
مصنف عبد الر زاق 2۔584
اور یہی فتوی حافظ العصر قتادہ رح کا ہے۔ جسے علامہ زیلعی نے اور پھر حافظ ابن حجر عسقلانی رح نے نقل کیا ہے۔
أخبرنا معمر عن قتادة، قال: إذا خرج ناس من البحر عراة فأمهم أحدهم صلوا قعودا، وكان إمامهم معهم في الصف يومئون إيماءا.
نصب الرایہ 1۔301، الریان
وعن معمر عن قتادة إذا خرج ناس من البحر عراة فأمهم أحدهم صلوا قعودا وكان إمامهم معهم في الصف يومئون إيماء
الدرایہ 1۔124، المعرفہ
ممکن ہے یہ سب لوگ بھی فارغ ہوں۔ کیوں شاہد نذیر بھائی کیا خیال ہے؟
اگر کوئی بھی شخص تعصب کی عینک لگا کر دیکھنا ہی چاہتا ہے تو پھر کچھ نہیں کیا جا سکتا۔
میں یہی کہتا ہوں کہ آپ کو اگر کسی بات پر تسلی ہے حتی کہ آپ متبحر عالم ہیں تب بھی مخالف کو برا مت کہیں۔ فقہاء نے اپنی زندگیاں اس لیے نہیں صرف کی تھیں کہ وہ دین کو بدل دیں۔ ان کے پاس دلائل تھے تو ہی کوئی فتوی دیتے تھے۔
واللہ اعلم