سلامآپ کی زرہ نوازی ہے کہ آپ نے اس ناچیز کی معذرت کو قبول کیا ....( تدوین ۔ انتظامیہ )..... اس بناء پر میں نے معذرت چاہی تھی جو آپ نے قبول کی اس کے لئے ایک بار پھر شکریہ
سلامآپ کی زرہ نوازی ہے کہ آپ نے اس ناچیز کی معذرت کو قبول کیا ....( تدوین ۔ انتظامیہ )..... اس بناء پر میں نے معذرت چاہی تھی جو آپ نے قبول کی اس کے لئے ایک بار پھر شکریہ
]
جنگ بدر میں مسلمان لشکر نے 70 کافروں گردنیں اڑا دیں اور پھر ان کے 70 آدمیوں کو قید کرلیا اگر سورہ محمد کی مذکورہ آیت کے لئے یہ مانا جائے کہ یہ جنگ بدر سے پہلے نازل ہوئی تو رسول اللہﷺ کا فیصلہ اس قرآنی حکم کے تحت تھا لیکن اگر یہ مانا جائے کہ یہ آیت جنگ بدر کے بعد نازل ہوئی تو یہ بھی رسول اللہﷺ کے فیصلے کی توثیق ہے کہ جنگ بدر کے قیدیوں کے بارے میں جو فیصلہ رسول اللہﷺ نے لیا ایسی کے مطابق قرآن نازل ہوا نہ حضرت عمر کی فہم کے مطابق باقی اللہ بہتر جانتا ہے
والسلام
روایات روایات ہی ہوتی ہیں انھیں قرآن پر پیش کرنے کہ بعد یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ یہ قابل قبول ہیں یا نہیں اور ان روایت کو سورہ محمد کی آیت پر پیش کرنے کے بعد کیا نتیجہ نکل رہا ہے یہ میں بیان کرچکا اب یہ آپ کی مرضی ہے کہ ان روایات کو قبول فرمائیں یا قرآن کریم کو فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہےمیں نے تو آپ کی شیعہ کتب کے حوالے پیش کیے ہیں ان کو بھی نہیں مانتے تو اب میں کیا کروں
اس کا مطلب ہے کہ آپ قرآن کو اپنی عقل سے سمجھنا چاہتے ہو اور ایسے لوگوں کو منکر حدیث کہتے ہیںروایات روایات ہی ہوتی ہیں انھیں قرآن پر پیش کرنے کہ بعد یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ یہ قابل قبول ہیں یا نہیں اور ان روایت کو سورہ محمد کی آیت پر پیش کرنے کے بعد کیا نتیجہ نکل رہا ہے یہ میں بیان کرچکا اب یہ آپ کی مرضی ہے کہ ان روایات کو قبول فرمائیں یا قرآن کریم کو فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے
والسلام
اللہ کا حکم ہے کہ قرآن میں غور فکر کرواس کا مطلب ہے کہ آپ قرآن کو اپنی عقل سے سمجھنا چاہتے ہو اور ایسے لوگوں کو منکر حدیث کہتے ہیں
قرآن مجید کی آیت اور الرحیق المختوم کے اس اقتباس پر غور کرنے سے کیا نتیجہ نکلتا ہے یہ آپ ارشاد فرمادیںغزوہ بدر میں فریقین کے مقتو لین :
(غزوہ بدر ) میں چودہ مسلمان شہید ہوئے۔ چھ مہاجرین میں سے اور آٹھ انصار میں سے ، لیکن مشرکین کو بھاری نقصان اٹھا نا پڑا۔ ان کے ستر آدمی مارے گئے اور ستر قید کیے گئے جو عموماً قائد ، سردار اوربڑے بڑے سر بر آوردہ حضرات تھے۔
الرحیق المختوم : غزوۂ بدر کبریٰ - اسلام کا پہلا فیصلہ کن معرکہ
اس کا مطلب ہے کہ اس مسئلے میں شیعہ کتب بھی صرف قصے کہانیوں پر مشتمل ہے ، اور شیعہ علما بھی اس مسئلے میں جہالت کا پلندہ ہی پیش کر سکے ہیں اور جہاں تک علی بہرام کے دلائل کا معاملہ ہے تو یہ بھی حقیقت سے بہت دور ہے ،اللہ کا حکم ہے کہ قرآن میں غور فکر کر)[/h2]
اگر زحمت نہ ہو تو ان حوالوں کے لنک بھی فراہم فرمادیں شکریہمذکورہ آیت کا شان نزول شیعہ کتب تفسیر کی روشنی میں:
وقال: نزلت يوم بدر لما انهزم الناس كان أصحاب رسول الله
صلى الله عليه وآله وسلم على ثلاث فرق: فصنف كانوا عند خيمة النبي
صلى الله عليه وآله وسلم، وصنف أغاروا على النهب، وفرقة طلبت
العدو، وأسروا وغنموا، فلما جمعوا الغنائم والأسارى تكلمت الأنصار
في الأسارى فأنزل الله تبارك وتعالى (ما كان لنبي أن يكون له أسرى
حتى يثخن في الأرض) (التفسیر الصافی:3،ص473
سید جعفر مرتضی نے لکھا ہے:
إنه (ص) مال إلى رأي أبي بكر، بل وانزعج من
مشورة عمر، فنزل القرآن بمخالفة وموافقة عمر، فلما كان من الغد،
غدا عمر على رسول الله، فإذا هو وأبو بكر يبكيان، فسأل عن سبب ذلك،
فقال الرسول (ص): إن كاد ليمسنا في خلاف ابن الخطاب عذاب عظيم (الصحیح من سیرۃ النبوی:ج10،ص169
اسی طرح علامہ طباطبائی نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوے لکھا ہے :
فاختلفتالتفاسير بحسب اختلافها فمن ظاهر في ان العتاب والتهديد متوجه إلى
النبي صلى الله عليه وآله وسلم والمؤمنين جميعا، أو إلى النبي
والمؤمنين ما عدا عمر، أو ما عدا عمر وسعد بن معاذ، أو إلى
المؤمنين دون النبي أو إلى شخص أو اشخاص اشاروا إليه بالفداء بعد
ما استشارهم (تفسیر المیزان:ج9،ص228.
ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں رقم طراز ہیں:
وقال عبد الله بن مسعود فضل عمر الناس بأربع : برأيه في
أسارى بدر فنزل القرآن بموافقته : (ما كان لنبى أن يكون له أسرى
حتى يثخن في الارض) (نہج البلاغہ:ج6،ص85
اسی طرح نہج البلاغہ میں لکھا ہے:
فجاء عمر فجلس مجلس أبىبكر ، فقال يا رسول الله ، هم أعداء الله ، كذبوكوقاتلوك واخرجوك ، إضرب رقابهم ، فهم رؤوس الكفر وأئمة الضلالة ،
يوطئ الله بهم الاسلام ، ويذل بهم الشرك فسكت رسول الله صلى الله
عليه وآله ولم يجبه فقام عمر فجلس مجلسه
، فقال يا رسول الله ، ما تنتظر بهم إضرب اعناقهم ، يوطئ الله بهم
الاسلام ، ويذل أهل الشرك ، هم أعداء الله ، كذبوك وأخرجوك يا رسول
الله ، إشف صدور المؤمنين ، لو قدروا منا على مثل هذا ما أقالونا
أبدا فسكت رسول الله صلى الله عليه وآله فلم يجبه (شرح نہج البلاغہ:ج8،ص260