قبرالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پاس کھڑے ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استعانت طلب کرنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس پر مدد کرنا اہل سنت کی صحیح حدیث سے ثابت ہے
أصاب الناسَ قحطٌ في زمنِ عمرَ بنِ الخطابِ فجاء رجلٌ إلى قبرِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فقال يا رسولَ اللهِ استسقِ اللهَ لأُمَّتِكَ فإنهم قد هلكوا فأتاه رسولُ اللهِ عليه الصلاةُ والسلامُ في المنامِ فقال أئتِ عمرَ فأقرِئْه مني السلامَ و أخبِرْهم أنهم مُسْقَوْنَ وقل له عليك بالكَيْسِ الكَيْسِ فأتى الرجلُ فأخبَرَ عمرَ فقال يا رب ما آلُو إلا ما عجزتُ عنه
الراوي: مالك بن أنس المحدث:ابن كثير - المصدر: البداية والنهاية - الصفحة أو الرقم: 7/93
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح
ترجمہ
حضرت عمر بن خطاب کے زمانے میں لوگوں کو قحط نے آلیا تو ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور کے پاس آکر عرض کی یا رسول اللہ ! اپنی امت کے لئے بارش طلب کیجئے کہ وہ ہلاک ہوچکی ہے پس خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے پاس آئے اور فرمایا حضرت عمر کے پاس جاکر انھیں میرا سلام کہو اور انہیں بتاؤ کہ وہ سیراب کئے جائیں گے اور انھیں کہنا کہ عقلمندی اختیار کرو اس شخص نے آکر حضرت عمر کو بتایا تو آپ نے کہا اے اللہ میں ایسی کام میں کوتاہی کرتا ہوں جس سے میں عاجز آجاتا ہوں
(ابن کثیر کہتے ہیں اس کی اسناد صحیح ہیں )
مغالطات دینا اور عوام کو راہِ حق سے بھٹکانے کی کوشش شیعوں کی پرانی عادت ہے۔ اہل کتاب کا بھی یہی طریقہ کار تھا، فرمان ِ باری ہے:
﴿ قُل يـٰأَهلَ الكِتـٰبِ لِمَ تَصُدّونَ عَن سَبيلِ اللَّـهِ مَن ءامَنَ تَبغونَها عِوَجًا وَأَنتُم شُهَداءُ ۗ وَمَا اللَّـهُ بِغـٰفِلٍ عَمّا تَعمَلونَ ٩٩ ﴾ ... سورة آل عمران
بہرام کی بیان کردہ درج بالا حدیث ضعیف ہے، جس کی تفصیل درج ذیل تھریڈ میں موجود ہے۔
http://forum.mohaddis.com/threads/غلط-وسیلے-کے-بارے-میں-ایک-اور-حدیث-کی-صحت؟.297/#post-1165
اس حدیث میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں انھیں الفاظ یعنی يا رسولَ اللهِ استسقِ اللهَ کے ساتھ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں بھی آپ سے استعانت طلب کرتے تھے اور آپ مدد فرماتے تھے
يا رسولَ اللهِ ، اسْتَسْقِ اللهَ لمُضَرَ ، فإنَّها قدْ هَلَكَت . قال : ( لِمُضَرَ ؟ إنكَ لجَريءٌ ) . فاسْتَسْقى فَسُقُوا
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 4821
ترجمہ از داؤد راز
ایک صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ! قبیلہ مضر کے لئے بارش کی دعا کیجئے کہ وہ برباد ہو چکے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مضر کے حق میں دعا کرنے کے لئے کہتے ہو، تم بڑے جری ہو، آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا فرمائی اور بارش ہوئی۔
والسلام
بہرام کو پتہ تھا کہ اوپر بیان کردہ اس کی حدیث صحیح نہیں ہے۔ اس لئے اپنی بات کو تقویت پہنچانے کیلئے اس نے صحیح بخاری یہ حدیث بھی ذکر کر دی۔
حالانکہ!!!
جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ صحیح بخاری کی یہ روایت تو اختلافی وسیلہ کے متعلق ہے ہی نہیں۔
صحیح بخاری کی اس حدیث مبارکہ میں نبی کریمﷺ کی حیات میں ان سے دعائے استسقاء کا تقاضا کیا گیا ہے۔ اور کسی نیک بزرگ سے ان کی زندگی میں دعا کرانا بالاتفاق جائز ہے۔ جو سورة النساء کی درج ذیل آیت کریمہ اور دیگر نصوص سے ثابت ہے:
﴿ وَلَو أَنَّهُم إِذ ظَلَموا أَنفُسَهُم جاءوكَ فَاستَغفَرُوا اللَّـهَ وَاستَغفَرَ لَهُمُ الرَّسولُ لَوَجَدُوا اللَّـهَ تَوّابًا رَحيمًا ٦٤ ﴾
اس پر
دوسرے تھریڈ میں گفتگو جاری ہے۔
اختلافی وسیلہ یہ ہے کہ کسی کے فوت ہوجانے کے بعد اللہ سے دعا کرتے ہوئے اس کا وسیلہ پیش کرنا جو صحیح بخاری کی اس حدیث مبارکہ سے ہرگز ہرگز ثابت نہیں ہوتا۔
اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!