• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قبرو سے استعانت

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
دیو بند اور بعض اہلحدیث قبروں سے یا بعد از فات روحانی فیض کو مانتے ہیں۔استعانت کے دونوں مسالک میں سے کوئی قائل نہیں۔روحانی فیض میں قبروں کا مجاور بننا ، غیر اللہ کو پکارنا،وغیرہ ،اور اس طرح کے اعمال نہیں ہیں ،بلکہ وہ روح سے استفادہ حاصل کرنا ہے ،جسکو اصطلاح میں نسبت اویسی کہتے ہیں۔
سوال یہ نہیں کہ کون کس عقیدے کا حامل ہے اور کون نہیں؟؟؟

سوال یہ ہے کہ کیا وہ عقیدہ کتاب وسنت کے مطابق بھی ہے یا نہیں؟؟؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
قبرالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پاس کھڑے ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استعانت طلب کرنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس پر مدد کرنا اہل سنت کی صحیح حدیث سے ثابت ہے

أصاب الناسَ قحطٌ في زمنِ عمرَ بنِ الخطابِ فجاء رجلٌ إلى قبرِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فقال يا رسولَ اللهِ استسقِ اللهَ لأُمَّتِكَ فإنهم قد هلكوا فأتاه رسولُ اللهِ عليه الصلاةُ والسلامُ في المنامِ فقال أئتِ عمرَ فأقرِئْه مني السلامَ و أخبِرْهم أنهم مُسْقَوْنَ وقل له عليك بالكَيْسِ الكَيْسِ فأتى الرجلُ فأخبَرَ عمرَ فقال يا رب ما آلُو إلا ما عجزتُ عنه

الراوي: مالك بن أنس المحدث:ابن كثير - المصدر: البداية والنهاية - الصفحة أو الرقم: 7/93
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح

ترجمہ
حضرت عمر بن خطاب کے زمانے میں لوگوں کو قحط نے آلیا تو ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور کے پاس آکر عرض کی یا رسول اللہ ! اپنی امت کے لئے بارش طلب کیجئے کہ وہ ہلاک ہوچکی ہے پس خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے پاس آئے اور فرمایا حضرت عمر کے پاس جاکر انھیں میرا سلام کہو اور انہیں بتاؤ کہ وہ سیراب کئے جائیں گے اور انھیں کہنا کہ عقلمندی اختیار کرو اس شخص نے آکر حضرت عمر کو بتایا تو آپ نے کہا اے اللہ میں ایسی کام میں کوتاہی کرتا ہوں جس سے میں عاجز آجاتا ہوں
(ابن کثیر کہتے ہیں اس کی اسناد صحیح ہیں )
مغالطات دینا اور عوام کو راہِ حق سے بھٹکانے کی کوشش شیعوں کی پرانی عادت ہے۔ اہل کتاب کا بھی یہی طریقہ کار تھا، فرمان ِ باری ہے:
﴿ قُل يـٰأَهلَ الكِتـٰبِ لِمَ تَصُدّونَ عَن سَبيلِ اللَّـهِ مَن ءامَنَ تَبغونَها عِوَجًا وَأَنتُم شُهَداءُ ۗ وَمَا اللَّـهُ بِغـٰفِلٍ عَمّا تَعمَلونَ ٩٩ ﴾ ... سورة آل عمران

بہرام کی بیان کردہ درج بالا حدیث ضعیف ہے، جس کی تفصیل درج ذیل تھریڈ میں موجود ہے۔
http://forum.mohaddis.com/threads/غلط-وسیلے-کے-بارے-میں-ایک-اور-حدیث-کی-صحت؟.297/#post-1165

اس حدیث میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں انھیں الفاظ یعنی يا رسولَ اللهِ استسقِ اللهَ کے ساتھ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں بھی آپ سے استعانت طلب کرتے تھے اور آپ مدد فرماتے تھے
يا رسولَ اللهِ ، اسْتَسْقِ اللهَ لمُضَرَ ، فإنَّها قدْ هَلَكَت . قال : ( لِمُضَرَ ؟ إنكَ لجَريءٌ ) . فاسْتَسْقى فَسُقُوا
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 4821
ترجمہ از داؤد راز
ایک صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ! قبیلہ مضر کے لئے بارش کی دعا کیجئے کہ وہ برباد ہو چکے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مضر کے حق میں دعا کرنے کے لئے کہتے ہو، تم بڑے جری ہو، آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا فرمائی اور بارش ہوئی۔
والسلام
بہرام کو پتہ تھا کہ اوپر بیان کردہ اس کی حدیث صحیح نہیں ہے۔ اس لئے اپنی بات کو تقویت پہنچانے کیلئے اس نے صحیح بخاری یہ حدیث بھی ذکر کر دی۔

حالانکہ!!!

جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ صحیح بخاری کی یہ روایت تو اختلافی وسیلہ کے متعلق ہے ہی نہیں۔

صحیح بخاری کی اس حدیث مبارکہ میں نبی کریمﷺ کی حیات میں ان سے دعائے استسقاء کا تقاضا کیا گیا ہے۔ اور کسی نیک بزرگ سے ان کی زندگی میں دعا کرانا بالاتفاق جائز ہے۔ جو سورة النساء کی درج ذیل آیت کریمہ اور دیگر نصوص سے ثابت ہے:
﴿ وَلَو أَنَّهُم إِذ ظَلَموا أَنفُسَهُم جاءوكَ فَاستَغفَرُ‌وا اللَّـهَ وَاستَغفَرَ‌ لَهُمُ الرَّ‌سولُ لَوَجَدُوا اللَّـهَ تَوّابًا رَ‌حيمًا ٦٤ ﴾

اس پر دوسرے تھریڈ میں گفتگو جاری ہے۔

اختلافی وسیلہ یہ ہے کہ کسی کے فوت ہوجانے کے بعد اللہ سے دعا کرتے ہوئے اس کا وسیلہ پیش کرنا جو صحیح بخاری کی اس حدیث مبارکہ سے ہرگز ہرگز ثابت نہیں ہوتا۔

اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
یہ تو اس دنیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استعانت طلب کرنے اور آپ کے اس پر مدد کرنے کا ثبوت تھا تو کیا کل قیامت کے دن بھی جبکہ اللہ تعالیٰ اپنی شان کے لائق اپنے بندوں کے سامنے جلوہ افروز ہوگا کیا اس وقت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مدد طلب کی جائے گی آئیں امام بخاری سے معلوم کرتے ہیں امام بخاری فرماتے ہیں

ما يزالُ الرجلُ يسأَلُ الناسَ ، حتى يأتي يومَ القيامةِ ليس في وجهِهِ مُزْعَةُ لحمٍ . وقال : إنَّ الشمسَ تدنو يومَ القيامةِ ، حتى يبلُغَ العَرَقُ نصفَ الأُذُنِ ، فبينا هم كذلكَ استغاثواْ بآدمَ ، ثم بموسى ، ثم بمحمدٍ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 1474
ترجمہ از ڈاکٹر طاہرالقادری
'' حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قیامت کے روز سورج لوگوں کے بہت قریب آ جائے گا یہاں تک کہ (اس کی تپش کے باعث لوگوں کے) نصف کانوں تک (پسینہ) پہنچ جائے گا لوگ اس حالت میں (پہلے) حضرت آدم علیہ السلام سے مدد مانگنے جائیں گے، پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے، پھر بالآخر (ہر ایک کے انکار پر) حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مدد مانگیں گے۔''

صحیح بخاری(حدیث نمبر : 7510) کی ایک طویل حدیث میں بیان ہوا کہ قیامت والے دن جب کے رب العالمین اپنی شان کے لائق جلوہ افروز ہوگا اس وقت لوگ یک بعد دیگر تمام انبیاء علیہ السلام کے پاس جاکر شفاعت کی مدد مانگیں گے مگر اس وقت تک تمام انبیاء علیہ السلام معذرت کریں گے لیکن جب آخر میں لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں جاکر شفاعت کے لئے مدد مانگیں گے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمائیں گے أنا لها ہاں میں ایسی کام کے لئے ہوں یعنی تمہاری مدد کروں شفاعت کرکے
یہاں بھی مغالطہ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔

یہ حدیث مبارکہ بھی اختلافی وسیلے سے متعلق نہیں ہے۔

اختلافی وسیلہ یہ ہے کہ اللہ سے دُعا کرتے ہوئے کسی فوت شدہ بزرگ کسی قبر والے کا وسیلہ پیش کرنا۔

یہ حدیث مبارکہ تو قیامت سے متعلق ہے جو دوسری اور اصل زندگی ہے جس میں کافر ہمیشہ جہنم میں - والعیاذ باللہ - اور مسلمان ہمیشہ جنت میں - اللهم اجعلنا منهم - رہیں گے۔ اور کسی بزرگ کی زندگی میں ان کے جاکر دعا کی درخواست کرنا بالکل جائز ہے جس میں ہمارا اور فریق مخالف کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔
 

عزمی

رکن
شمولیت
جون 30، 2013
پیغامات
190
ری ایکشن اسکور
304
پوائنٹ
43
سوال یہ نہیں کہ کون کس عقیدے کا حامل ہے اور کون نہیں؟؟؟

سوال یہ ہے کہ کیا وہ عقیدہ کتاب وسنت کے مطابق بھی ہے یا نہیں؟؟؟
آپ ماشاء اللہ عالم ہیں،آپ ہی کچھ بتادے؟
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
یہاں بھی مغالطہ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔

یہ حدیث مبارکہ بھی اختلافی وسیلے سے متعلق نہیں ہے۔

اختلافی وسیلہ یہ ہے کہ اللہ سے دُعا کرتے ہوئے کسی فوت شدہ بزرگ کسی قبر والے کا وسیلہ پیش کرنا۔

یہ حدیث مبارکہ تو قیامت سے متعلق ہے جو دوسری اور اصل زندگی ہے جس میں کافر ہمیشہ جہنم میں - والعیاذ باللہ - اور مسلمان ہمیشہ جنت میں - اللهم اجعلنا منهم - رہیں گے۔ اور کسی بزرگ کی زندگی میں ان کے جاکر دعا کی درخواست کرنا بالکل جائز ہے جس میں ہمارا اور فریق مخالف کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔
یہاں ہم وسیلے پر بات نہیں کررہے ہیں بلکہ اس دھاگہ کا عنوان ہے قبروں سے استعانت
یاد رہے
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
آپ ماشاء اللہ عالم ہیں،آپ ہی کچھ بتادے؟
گزارش یہ ہے کہ کسی مسئلے کے متعلق صرف اور صرف یہ بحث اس کا قائل فلاں، فلاں اور فلاں ہے کی بجائے بات اس پر ہونی چاہئے کہ وہ مسئلہ کتاب وسنت کے مطابق ہے یا نہیں؟؟؟

اگر آپ کے پاس اس کے متعلق کوئی بات ہو تو ضرور شیئر کریں ورنہ صرف قائلین پر بحث کرنے سے گریز کریں!
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
  1. قرآن و سنت اورصحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی سیرت کی روشنی میں اس فعل (قبروں سے مدد حاصل کرنا) کا جائز یا ناجائز ثابت ہونا ایک الگ مسئلہ ہے۔
  2. اور مزارات پر جا کر صاحب مزار سے براہ راست یا اُن کے وسیلہ سے کوئی دعا مانگنا اور اس دعا کا پورا ہونا یا نہ ہونا ایک الگ مسئلہ ہے۔
ایک مسلمان کو اس فعل سمیت دیگر تمام افعال کے شرعی طور پر جائز ہونے یا نہ ہونے کے لئے قرآن و سنت اور سیرت صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی سند تلاش کرنی چاہئے نہ کہ ذاتی تجربات و مشاہدات یا بزرگوں یا دیگر عام لوگوں کے افعال، تجربات اور نتائج کی روشنی میں اس عمل کو جائز یا ناجائز قرار دینا چاہئے۔
مزارات پر جانے والوں اور وہاں سے “فوائد” حاصل کرنے والوں کو میں اکثر کہتا ہوں کہ کیا آپ کبھی کسی مندر میں لکشمی دیوی کے چرنوں میں بیٹھ کر ان سے دعا مانگ سکتے ہیں۔ وہ فوراً کہتے ہیں کہ لاحول ولا قوۃ الا بالا ۔۔۔ ہم تو ایسا کبھی نہیں کریں گے۔ میں کہتا ہوں۔ وہان جاکر مانگ کر تو دیکھیں۔ شیطان کی کرپا سے آپ کی دعا ضرور پوری ہوگی۔ اور اگر یقین نہیں آتا تو اُن ایک ارب سے زائد لوگوں سے پوچھ کر دیکھ لیجئے جو وہاں تواتر سے جاتے ہیں اور اپنی جھولی بھر کر واپس آتے ہیں۔ پھر وہ سوچ میں پڑ جاتےہیں۔ میں پھر کہتا ہوں، کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ شرعاً کسی عمل کے جائز ہونے کا تعلق اس بات سے نہیں ہے کہ اس سے لوگوں کو “فائدہ” ہورہا ہے یا نہیں۔ بلکہ جائز وہی عمل ہے جو قرآن و سنت سے ثابت ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
 
Top