تمام اجرام فلکی کا حرکت پذیر ہونا
قرآن مجید کے نزول کے وقت یونانی مفکر بطلیموس (Ptolemy) کا نظریہ کائنات مانا جاتا تھا جس کے مطابق زمین کائنات کا مرکز (Centre) ہے اور اس کے علاوہ تمام اجرام فلکی اس کے گرد گھوم رہے ہیں۔ چاند ایک Hollow Ball میں Fixed ہے جو شیشے جیسی کسی شے سے بنا ہوا ہے۔ دیگر سیارے (Planets) اور سورج بھی Hollow Ball میں ہیں، جس میں ستارے Fixed ہیں۔ اس نے تمام نظام کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ ستاروں کا ظاہر ہونا اور ڈوبنا بھی اسی Ball کی حرکت کی وجہ سے ہے۔
اہل یورپ پندرھویں صدی تک ان نظریات کو درست سمجھتے رہے۔ اس کے بعد یورپ میں سائنسی ریسرچ کے دور کا آغاز ہوا۔ سولہویں صدی میں پولینڈ کے ماہر فلکیات Copernicus نے اپنا انقلابی نظریہ پیش کیا جس کے مطابق مرکز زمین نہیں، بلکہ سورج ہے۔ زمین اور دیگر سیارے اپنے اپنے مرکز کے گرد گھومتے ہوئے، دائروں میں سورج کے گرد گردش کر رہے ہیں۔ ایک اور ماہر فلکیات Kepler Johannes نے سترھویں صدی میں بتایا کہ سیارے دائرے میں نہیں، بلکہ Ellipse میں گردش کر رہے ہیں۔ اطالوی سائنس دان گلیلیو نے اپنی بنائی ہوئی دوربین سے مشاہدہ کرکے ان حقائق کی تصدیق کی۔ یہ سائنسی نتائج، چونکہ بائیبل کے بیانات سے مطابقت نہ رکھتے تھے، اس لیے کلیسا (Church) نے ان تحقیقات کو نہ صرف مذہب کے خلاف قرار دیا، بلکہ فتوی لگا دیا کہ جو کوئی انھیں تسلیم کر ے گا، وہ کافر تصور ہوگا اور اسے سخت ترین سزائیں دی جائیں گی۔ جب بھی کوئی اہل علم ان تحقیقات کے حق میں آواز بلند کرتا تو اسے کافر قرار دے کر سخت ترین سزائیں دی جاتیں اور اسے بائیبل میں موجود نظریات ماننے پر مجبور کیا جاتا۔ اسی سبب سے مغرب میں اہل علم مذہب سے باغی ہو گئے۔ بعض وجوہ کے باعث ہمارے ہاں کا تعلیم یافتہ طبقہ چونکہ ذہنی طور پر اہل مغرب کے پیچھے چلتا ہے، لہذا ان کی تقلید میں اس نے بھی اپنے دین سے باغیانہ روش اختیار کر لی اور مذہب اور سائنس کو جدا تصور کیا۔ انھوں نے یہ زحمت ہی نہ کی کہ قرآن کا خود مطالعہ کرتے اور دیکھتے کہ کیا اس میں بھی ایسے ہی غلط نظریات موجود ہیں؟
ہم نے قرآن مجید پر ملاؤں کا قبضہ تسلیم کر لیا۔ ان کی بے سروپا کہانیاں سن کر تصور کر لیا کہ شاید قرآن بھی اسی قسم کی حکایتوں اور قصوں کا مجموعہ ہے۔ چونکہ ملا کو جدید تعلیم اور قرآن حکیم پر غور و فکر اور تدبر سے کوئی سروکار نہ تھا، لہذا ہم لوگوں تک یہ بات پہنچ ہی نہ سکی کہ قرآن حکیم کے بیانات نہ صرف ثابت شدہ سائنسی تحقیقات کے عین مطابق ہیں، بلکہ محققین کی آیندہ تحقیق کے لیے بھی اس میں Guide Line موجود ہے۔
گلیلیو کے بعد آئزک نیوٹن نے 1668ء میں بہتر دوربین بنائی اور اپنے مشہور قانون Law of Gravitational Attraction کے ذریعے سے اجرام فلکی کی حرکات کے اصول وضع کیے۔ انسانی علم کا دائرہ وقت کے ساتھ ساتھ پھیلتا گیا اور امریکہ کے Edmin Hubble نے بیسویں صدی کی اہم ترین دریافت یہ کی کہ ساری کہکشائیں (Galaxies) بڑی تیزی سے ایک دوسرے سے پرے ہٹ رہی ہیں، تمام اجرام فلکی تیر رہے ہیں اور کوئی شے بھی ساکن نہیں ہے۔
Ptolemy سے لے کر Hubble تک تقریباً دو ہزار سال کی سائنسی ترقی کے بعد انسان اس چیز کو معلوم کرنے میں کامیاب ہوا ہے کہ ہر شے اپنے اپنے مدار میں حرکت پذیر ہے اور کوئی چیز بھی ساکن نہیں ہے۔ یہی حقیقت تقریباً انہی الفاظ میں قرآن حکیم کے مختلف مقامات پر بیان ہوئی ہے۔ اگر اہل علم نے قرآن سے رہنمائی لی ہوتی تو انھیں ان حقائق کو دریافت کرنے میں اتنا وقت صرف نہ کرنا پڑتا:
"اور وہی ہے جس نے رات اور دن، سورج اور چاند بنائے۔ ان میں سے ہر ایک ایک خاص مدار (Orbit) کے اندر گردش کر رہا ہے۔" (الانبیاء21:33)
"نہ سورج کی مجال ہے کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات اور دن پر سبقت کر سکتی ہے۔ ہر ایک اپنے اپنے خاص دائرے میں گردش کر رہا ہے۔" (یسین36:40)
"اور سورج اپنے ایک معین مدار پر گردش کر رہا ہے۔ یہ خدائے عزیز و علیم کی منصوبہ بندی ہے۔" (یسین36:38)
"اس نے آسمانوں اور زمین کو ایک مقصد کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ وہ رات کو دن پر ڈھانکتا ہے اور دن کو رات پر۔ اس نے سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے۔ ہر ایک چل رہا ہے، ایک خاص مقرر شدہ مدت تک کے لیے۔" (الزمر39:5)
"وہ داخل کرتا ہے رات کو دن میں اور داخل کرتا ہے دن کو رات میں اور اس نے سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے۔ ہر ایک گردش کر رہا ہے، ایک معین مدت کے لیے۔" (فاطر35:13)
برسوں کی تحقیق کے بعد انسانی علم اس نتیجے تک پہنچا ہے کہ اس کائنات میں موجود کوئی شے ہمیشہ کے لیے نہیں ہے، خواہ وہ سورج ہو، کوئی اور ستارہ ہو یا کہکشاں، ایک مدت کے بعد انھیں ختم ہو جانا ہے۔ ہم غور کریں تو مذکورہ آیات قرآنی سے جہاں یہ بات معلوم ہو رہی ہے کہ ہر چیز حرکت میں ہے، وہاں یہ بھی ثابت ہو رہا ہے کہ یہ حرکت ہمیشہ کے لیے نہیں، بلکہ ایک مقرر شدہ مدت تک ہی کے لیے ہے۔