T.K.H
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 05، 2013
- پیغامات
- 1,123
- ری ایکشن اسکور
- 330
- پوائنٹ
- 156
أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "انْطَلَقَ ثَلَاثَةُ رَهْطٍ مِمَّنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، حَتَّى أَوَوْا الْمَبِيتَ إِلَى غَارٍ فَدَخَلُوهُ، فَانْحَدَرَتْ صَخْرَةٌ مِنَ الْجَبَلِ فَسَدَّتْ عَلَيْهِمُ الْغَارَ، فَقَالُوا: إِنَّهُ لَا يُنْجِيكُمْ مِنْ هَذِهِ الصَّخْرَةِ إِلَّا أَنْ تَدْعُوا اللَّهَ بِصَالِحِ أَعْمَالِكُمْ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ: اللَّهُمَّ كَانَ لِي أَبَوَانِ شَيْخَانِ كَبِيرَانِ، وَكُنْتُ لَا أَغْبِقُ قَبْلَهُمَا أَهْلًا وَلَا مَالًا، فَنَأَى بِي فِي طَلَبِ شَيْءٍ يَوْمًا، فَلَمْ أُرِحْ عَلَيْهِمَا حَتَّى نَامَا، فَحَلَبْتُ لَهُمَا غَبُوقَهُمَا فَوَجَدْتُهُمَا نَائِمَيْنِ، وَكَرِهْتُ أَنْ أَغْبِقَ قَبْلَهُمَا أَهْلًا أَوْ مَالًا، فَلَبِثْتُ وَالْقَدَحُ عَلَى يَدَيَّ أَنْتَظِرُ اسْتِيقَاظَهُمَا حَتَّى بَرَقَ الْفَجْرُ، فَاسْتَيْقَظَا فَشَرِبَا غَبُوقَهُمَا، اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتُ فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ، فَفَرِّجْ عَنَّا مَا نَحْنُ فِيهِ مِنْ هَذِهِ الصَّخْرَةِ، فَانْفَرَجَتْ شَيْئًا لَا يَسْتَطِيعُونَ الْخُرُوجَ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَقَالَ الْآخَرُ: اللَّهُمَّ كَانَتْ لِي بِنْتُ عَمٍّ كَانَتْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيَّ، فَأَرَدْتُهَا عَنْ نَفْسِهَا، فَامْتَنَعَتْ مِنِّي حَتَّى أَلَمَّتْ بِهَا سَنَةٌ مِنَ السِّنِينَ، فَجَاءَتْنِي فَأَعْطَيْتُهَا عِشْرِينَ وَمِائَةَ دِينَارٍ، عَلَى أَنْ تُخَلِّيَ بَيْنِي وَبَيْنَ نَفْسِهَا، فَفَعَلَتْ حَتَّى إِذَا قَدَرْتُ عَلَيْهَا، قَالَتْ: لَا أُحِلُّ لَكَ أَنْ تَفُضَّ الْخَاتَمَ إِلَّا بِحَقِّهِ، فَتَحَرَّجْتُ مِنَ الْوُقُوعِ عَلَيْهَا فَانْصَرَفْتُ عَنْهَا وَهِيَ أَحَبُّ النَّاسِ إِلَيَّ وَتَرَكْتُ الذَّهَبَ الَّذِي أَعْطَيْتُهَا، اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتُ فَعَلْتُ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ عَنَّا مَا نَحْنُ فِيهِ، فَانْفَرَجَتِ الصَّخْرَةُ غَيْرَ أَنَّهُمْ لَا يَسْتَطِيعُونَ الْخُرُوجَ مِنْهَا، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَقَالَ الثَّالِثُ: اللَّهُمَّ إِنِّي اسْتَأْجَرْتُ أُجَرَاءَ فَأَعْطَيْتُهُمْ أَجْرَهُمْ غَيْرَ رَجُلٍ وَاحِدٍ تَرَكَ الَّذِي لَهُ وَذَهَبَ فَثَمَّرْتُ أَجْرَهُ حَتَّى كَثُرَتْ مِنْهُ الْأَمْوَالُ، فَجَاءَنِي بَعْدَ حِينٍ، فَقَالَ: يَا عَبْدَ اللَّهِ، أَدِّ إِلَيَّ أَجْرِي، فَقُلْتُ لَهُ: كُلُّ مَا تَرَى مِنْ أَجْرِكَ مِنَ الْإِبِلِ، وَالْبَقَرِ، وَالْغَنَمِ، وَالرَّقِيقِ، فَقَالَ: يَاعَبْدَ اللَّهِ، لَا تَسْتَهْزِئُ بِي، فَقُلْتُ: إِنِّي لَا أَسْتَهْزِئُ بِكَ فَأَخَذَهُ كُلَّهُ، فَاسْتَاقَهُ فَلَمْ يَتْرُكْ مِنْهُ شَيْئًا، اللَّهُمَّ فَإِنْ كُنْتُ فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ، فَافْرُجْ عَنَّا مَا نَحْنُ فِيهِ، فَانْفَرَجَتِ الصَّخْرَةُ، فَخَرَجُوا يَمْشُونَ".محترم
یہ تو سارا معاملہ گمان اور امید پر ہے ۔ یہ سب تو نامہ اعمال کھلنے پر ہی پتا چلے گا کہ کیا قبول ہوا اور کیا نہیں۔
میں اپنی بات پھر دہراؤں گا کہ پھر نیک عمل کے ذریعے سے دعا مانگنا کیوں صحیح ہے اس میں بھی تو اعمال کا نہیں پتا کہ قبول ہوئے یا نہیں۔
ابن عمر نبیﷺسے روایت کرتے ہیں آپﷺ نے فرمایا کہ تین آدمی جا رہے تھے تو بارش ہونے لگی وہ تینوں پہاڑ کی ایک غار میں داخل ہوگئے ایک چٹان اوپر سے گری اور غار کا منہ بند ہوگیا ایک نے دوسرے سے کہا کہ اللہ سے کسی ایسے عمل کا واسطہ دے کر دعا کرو جو تم نے کیا ہو ان میں سے ایک نے کہا اے میرے اللہ میرے ماں باپ بہت بوڑھے تھے چناچہ میں باہر جاتا اور جانور چراتا تھا پھر واپس آکر دودھ دوھ کر اپنے ماں باپ کے پاس لاتا جب وہ پی لیتے تو میں بیوی بچوں اور گھر والوں کو پلاتا ایک رات مجھے دیر ہوگئی میں آیا تو دونوں سو گئے تھے مجھے نا گوار ہوا کہ میں انہیں جگاؤں اور بچے میرے پاؤں کے پاس بھوک کے مارے رو رہے تھے طلوع فجر تک میری حالت یہی رہی اے اللہ اگر تو یہ جانتا ہے کہ میں نے صرف تیری رضا مندی کے لئے کیا ہے تو پتھر مجھ سے کچھ ہٹا دے تاکہ ہم آسمان تو دیکھ سکیں پتھر کچھ ہٹ گیا پھر دوسرے آدمی نے کہا اے اللہ میں اپنی ایک چچا زاد بہن سے بےانتہا محبت کرتا تھا جس قدر ایک مرد عورتوں سے محبت کرتا ہے لیکن اس نے کہا تم اپنا مقصد مجھ سے حاصل نہیں کرسکتے جب تک کہ تم سو دینار نہ دے دو چناچہ میں نے محنت کر کے سو دینار جمع کئے جب میں اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان بیٹھا تو اس نے کہا اللہ سے ڈر مہر ناجائز طور پر نہ توڑ میں کھڑا ہوگیا اور اسے چھوڑ دیا اے اللہ اگر تو جانتا ہے کہ میں نے صرف تیری رضا کے لئے ایسا کیا تو اس پتھر کو کچھ ہٹا دے وہ پتھر دو تہائی ہٹ گیا پھر تیسرے آدمی نے کہا یا اللہ میں نے ایک مزدور ایک فرق جوار کے عوض کام پر لگایا جب میں اسے دینے لگا تو اس نے لینے سے انکار کردیا میں نے اس جوار کو کھیت میں بودیا یہاں تک کہ میں نے اس سے گائے بیل اور چرواہا خریدا پھر وہ شخص آیا اور کہا اے اللہ کے بندے تو مجھے میرا حق دیدے میں نے کہا ان گایوں بیلوں اور چرواہے کے پاس جا اور انہیں لے لے یہ تیرے ہیں اس نے کہا کیا تم مذاق کرتے ہو میں نے اس سے کہا میں تجھ سے مذاق نہیں کر رہا وہ تیرے ہی ہیں اے میرے اللہ اگر تو جانتا ہے کہ میں نے صرف تیری خوشنودی کے لئے ایسا کیا تو یہ پتھر ہم سے ہٹا دے چناچہ وہ پتھر ان سے ہٹ گیا۔
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 2125
غالبا ً آپ کا اشارہ اِس روایت کی طرف ہے جو تین اشخاص کا اپنے نیک اعمال کو بطورِ وسیلہ بنانے کے بارے میں ہے ۔ اس روایت میں بے شک تینوں اشخاص اپنے نیک اعمال کی قبولیت سے بے خبر ہیں مگر کیا اللہ تعالیٰ بھی ان کے نیک اعمال کی قبولیت سے بے خبر ہے؟ ہرگز نہیں۔بلکہ اوپر ہائی لائیٹ کیے گئے الفاظ اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ اگر ایک عمل خالص اللہ تعالٰی کی رضا کے حصول کے لیے کیا جائے تو اس عمل کی قبولیت سے بے خبری کوئی ایسی وجہ نہیں ہے کہ اس کو بطورِ وسیلہ پیش نہ کیا جائے ۔
مزید برآں اس روایت سے یہ بات کہاں نکلتی ہے کہ جب تک نیک اعمال کی قبولیت کا علم نہ ہو جائے اس وقت تک اس کو بطورِ وسیلہ پیش نہیں کیا جا سکتا۔