• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن خوانی کی شرعی حیثیت

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
محترم
یہ تو سارا معاملہ گمان اور امید پر ہے ۔ یہ سب تو نامہ اعمال کھلنے پر ہی پتا چلے گا کہ کیا قبول ہوا اور کیا نہیں۔
میں اپنی بات پھر دہراؤں گا کہ پھر نیک عمل کے ذریعے سے دعا مانگنا کیوں صحیح ہے اس میں بھی تو اعمال کا نہیں پتا کہ قبول ہوئے یا نہیں۔
‏‏‏‏‏‏أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "انْطَلَقَ ثَلَاثَةُ رَهْطٍ مِمَّنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى أَوَوْا الْمَبِيتَ إِلَى غَارٍ فَدَخَلُوهُ، ‏‏‏‏‏‏فَانْحَدَرَتْ صَخْرَةٌ مِنَ الْجَبَلِ فَسَدَّتْ عَلَيْهِمُ الْغَارَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ إِنَّهُ لَا يُنْجِيكُمْ مِنْ هَذِهِ الصَّخْرَةِ إِلَّا أَنْ تَدْعُوا اللَّهَ بِصَالِحِ أَعْمَالِكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ كَانَ لِي أَبَوَانِ شَيْخَانِ كَبِيرَانِ، ‏‏‏‏‏‏وَكُنْتُ لَا أَغْبِقُ قَبْلَهُمَا أَهْلًا وَلَا مَالًا، ‏‏‏‏‏‏فَنَأَى بِي فِي طَلَبِ شَيْءٍ يَوْمًا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ أُرِحْ عَلَيْهِمَا حَتَّى نَامَا، ‏‏‏‏‏‏فَحَلَبْتُ لَهُمَا غَبُوقَهُمَا فَوَجَدْتُهُمَا نَائِمَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَرِهْتُ أَنْ أَغْبِقَ قَبْلَهُمَا أَهْلًا أَوْ مَالًا، ‏‏‏‏‏‏فَلَبِثْتُ وَالْقَدَحُ عَلَى يَدَيَّ أَنْتَظِرُ اسْتِيقَاظَهُمَا حَتَّى بَرَقَ الْفَجْرُ، ‏‏‏‏‏‏فَاسْتَيْقَظَا فَشَرِبَا غَبُوقَهُمَا، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتُ فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَفَرِّجْ عَنَّا مَا نَحْنُ فِيهِ مِنْ هَذِهِ الصَّخْرَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَانْفَرَجَتْ شَيْئًا لَا يَسْتَطِيعُونَ الْخُرُوجَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ وَقَالَ الْآخَرُ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ كَانَتْ لِي بِنْتُ عَمٍّ كَانَتْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏فَأَرَدْتُهَا عَنْ نَفْسِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَامْتَنَعَتْ مِنِّي حَتَّى أَلَمَّتْ بِهَا سَنَةٌ مِنَ السِّنِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَتْنِي فَأَعْطَيْتُهَا عِشْرِينَ وَمِائَةَ دِينَارٍ، ‏‏‏‏‏‏عَلَى أَنْ تُخَلِّيَ بَيْنِي وَبَيْنَ نَفْسِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَفَعَلَتْ حَتَّى إِذَا قَدَرْتُ عَلَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ لَا أُحِلُّ لَكَ أَنْ تَفُضَّ الْخَاتَمَ إِلَّا بِحَقِّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَتَحَرَّجْتُ مِنَ الْوُقُوعِ عَلَيْهَا فَانْصَرَفْتُ عَنْهَا وَهِيَ أَحَبُّ النَّاسِ إِلَيَّ وَتَرَكْتُ الذَّهَبَ الَّذِي أَعْطَيْتُهَا، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتُ فَعَلْتُ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ عَنَّا مَا نَحْنُ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَانْفَرَجَتِ الصَّخْرَةُ غَيْرَ أَنَّهُمْ لَا يَسْتَطِيعُونَ الْخُرُوجَ مِنْهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ وَقَالَ الثَّالِثُ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ إِنِّي اسْتَأْجَرْتُ أُجَرَاءَ فَأَعْطَيْتُهُمْ أَجْرَهُمْ غَيْرَ رَجُلٍ وَاحِدٍ تَرَكَ الَّذِي لَهُ وَذَهَبَ فَثَمَّرْتُ أَجْرَهُ حَتَّى كَثُرَتْ مِنْهُ الْأَمْوَالُ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَنِي بَعْدَ حِينٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا عَبْدَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَدِّ إِلَيَّ أَجْرِي، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ لَهُ:‏‏‏‏ كُلُّ مَا تَرَى مِنْ أَجْرِكَ مِنَ الْإِبِلِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْبَقَرِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْغَنَمِ، ‏‏‏‏‏‏وَالرَّقِيقِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَاعَبْدَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏لَا تَسْتَهْزِئُ بِي، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ إِنِّي لَا أَسْتَهْزِئُ بِكَ فَأَخَذَهُ كُلَّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَاسْتَاقَهُ فَلَمْ يَتْرُكْ مِنْهُ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ فَإِنْ كُنْتُ فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَافْرُجْ عَنَّا مَا نَحْنُ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَانْفَرَجَتِ الصَّخْرَةُ، ‏‏‏‏‏‏فَخَرَجُوا يَمْشُونَ".
ابن عمر نبیﷺسے روایت کرتے ہیں آپﷺ نے فرمایا کہ تین آدمی جا رہے تھے تو بارش ہونے لگی وہ تینوں پہاڑ کی ایک غار میں داخل ہوگئے ایک چٹان اوپر سے گری اور غار کا منہ بند ہوگیا ایک نے دوسرے سے کہا کہ اللہ سے کسی ایسے عمل کا واسطہ دے کر دعا کرو جو تم نے کیا ہو ان میں سے ایک نے کہا اے میرے اللہ میرے ماں باپ بہت بوڑھے تھے چناچہ میں باہر جاتا اور جانور چراتا تھا پھر واپس آکر دودھ دوھ کر اپنے ماں باپ کے پاس لاتا جب وہ پی لیتے تو میں بیوی بچوں اور گھر والوں کو پلاتا ایک رات مجھے دیر ہوگئی میں آیا تو دونوں سو گئے تھے مجھے نا گوار ہوا کہ میں انہیں جگاؤں اور بچے میرے پاؤں کے پاس بھوک کے مارے رو رہے تھے طلوع فجر تک میری حالت یہی رہی اے اللہ اگر تو یہ جانتا ہے کہ میں نے صرف تیری رضا مندی کے لئے کیا ہے تو پتھر مجھ سے کچھ ہٹا دے تاکہ ہم آسمان تو دیکھ سکیں پتھر کچھ ہٹ گیا پھر دوسرے آدمی نے کہا اے اللہ میں اپنی ایک چچا زاد بہن سے بےانتہا محبت کرتا تھا جس قدر ایک مرد عورتوں سے محبت کرتا ہے لیکن اس نے کہا تم اپنا مقصد مجھ سے حاصل نہیں کرسکتے جب تک کہ تم سو دینار نہ دے دو چناچہ میں نے محنت کر کے سو دینار جمع کئے جب میں اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان بیٹھا تو اس نے کہا اللہ سے ڈر مہر ناجائز طور پر نہ توڑ میں کھڑا ہوگیا اور اسے چھوڑ دیا اے اللہ اگر تو جانتا ہے کہ میں نے صرف تیری رضا کے لئے ایسا کیا تو اس پتھر کو کچھ ہٹا دے وہ پتھر دو تہائی ہٹ گیا پھر تیسرے آدمی نے کہا یا اللہ میں نے ایک مزدور ایک فرق جوار کے عوض کام پر لگایا جب میں اسے دینے لگا تو اس نے لینے سے انکار کردیا میں نے اس جوار کو کھیت میں بودیا یہاں تک کہ میں نے اس سے گائے بیل اور چرواہا خریدا پھر وہ شخص آیا اور کہا اے اللہ کے بندے تو مجھے میرا حق دیدے میں نے کہا ان گایوں بیلوں اور چرواہے کے پاس جا اور انہیں لے لے یہ تیرے ہیں اس نے کہا کیا تم مذاق کرتے ہو میں نے اس سے کہا میں تجھ سے مذاق نہیں کر رہا وہ تیرے ہی ہیں اے میرے اللہ اگر تو جانتا ہے کہ میں نے صرف تیری خوشنودی کے لئے ایسا کیا تو یہ پتھر ہم سے ہٹا دے چناچہ وہ پتھر ان سے ہٹ گیا۔
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 2125

غالبا ً آپ کا اشارہ اِس روایت کی طرف ہے جو تین اشخاص کا اپنے نیک اعمال کو بطورِ وسیلہ بنانے کے بارے میں ہے ۔ اس روایت میں بے شک تینوں اشخاص اپنے نیک اعمال کی قبولیت سے بے خبر ہیں مگر کیا اللہ تعالیٰ بھی ان کے نیک اعمال کی قبولیت سے بے خبر ہے؟ ہرگز نہیں۔بلکہ اوپر ہائی لائیٹ کیے گئے الفاظ اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ اگر ایک عمل خالص اللہ تعالٰی کی رضا کے حصول کے لیے کیا جائے تو اس عمل کی قبولیت سے بے خبری کوئی ایسی وجہ نہیں ہے کہ اس کو بطورِ وسیلہ پیش نہ کیا جائے ۔
مزید برآں اس روایت سے یہ بات کہاں نکلتی ہے کہ جب تک نیک اعمال کی قبولیت کا علم نہ ہو جائے اس وقت تک اس کو بطورِ وسیلہ پیش نہیں کیا جا سکتا۔
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
ایک حدیث کہتی ہے کہ خلفائے راشدین کی سنتوں کو داڑھوں سے پکڑو۔ پھر دوسری حدیث میں ایک خلیفہ راشد کے بیٹے ان کی سنت سے انکا ر کرتے ہیں میں اس کو کوٹ کیا تو بھی گمراہ میں شامل ہوں۔
آپ نعوذ باللہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کو گمراہ کہنا چاہ رہے ہیں ؟
جس اثر میں سیدنا ابن عمر کا قول ہے اسکی تشریح تو ملاحظہ کرلیتے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کیوں منع کرتے تھے ، اور سیدنا ابن عمر نے کیا کہا ؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام کیا ہے ۔ تو جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے وہ قطعی ہے اور وہی حجت ہے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ یا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا اس حج تمتع کو اچھا نہیں سمجھنا ، اسکو وجہ کچھ اور تھی ، اس حوالے سے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو ایک خط بھی لکھا تھا ۔
ایک حدیث کہتی ہے کہ خلفائے راشدین کی سنتوں کو داڑھوں سے پکڑو۔
بالکل صحیح ہے ، یہ حدیث ایسے ہی ہے ۔ لیکن حج تمتع کے حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ثابت ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کو خلفائے راشدین پر ترجیح ہوگی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ، فعل ، تقریر حجت تمام ہے ۔ جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول و عمل نہیں ملے گا پھر خلفائے راشدین اور صحابہ پھر تابعین کا قول و عمل دیکھا جائے گا ۔ الحمدللہ ایسا کم ہی ہوگا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دین کو مکمل کرکے گئے ہیں ۔ ادھورا نہیں چھوڑا ہے ۔
@nasim بھائی ، آپ چیزوں کو تقلید کی عینک اتار کر غیرجانبدارانہ طریقے سے دیکھیں تو حق آپ کو عیاں ہوجائے گا ۔ ان شاء اللہ ۔ ایک مرتبہ تقلید کی عینک اتار کر تو دیکھیں۔
@nasim بھائی ، آپ اہلحدیث سلفی حضرات کا ایک کوئی حوالہ دے دیں کہ انہوں نے کسی کی تکفیر کی ہو ؟ یا اس فورم پر ہی کوئی پوسٹ بتائیں کہ کسی کی تکفیر کی گئی ہو ؟ آپ کو اہلحدیث اور جماعت المسلمین کے بنیادی اختلاف کی وجہ معلوم ہے ؟
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
جناب نسیم صاحب میری پیش کردہ آیت میں سمجھدار کے لئے اشارہ ہی کافی وضاحت کی ضرورت نہیں
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
مزید یہ کہ ہمارے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ہمارے اعمال پر ثواب کا فیصلہ ہو چکا ہےلہذا اب جسے جتنا چاہے ثواب ایصال کر دیا جائے۔
محترم
میرے کہنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ ایصال میں بھی امید ہوتی ہے کہ اس نیک عمل کا ثواب پہنچے گا ۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
آپ نعوذ باللہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کو گمراہ کہنا چاہ رہے ہیں ؟
جس اثر میں سیدنا ابن عمر کا قول ہے اسکی تشریح تو ملاحظہ کرلیتے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کیوں منع کرتے تھے ، اور سیدنا ابن عمر نے کیا کہا ؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام کیا ہے ۔ تو جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے وہ قطعی ہے اور وہی حجت ہے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ یا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا اس حج تمتع کو اچھا نہیں سمجھنا ، اسکو وجہ کچھ اور تھی ، اس حوالے سے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو ایک خط بھی لکھا تھا ۔

بالکل صحیح ہے ، یہ حدیث ایسے ہی ہے ۔ لیکن حج تمتع کے حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ثابت ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کو خلفائے راشدین پر ترجیح ہوگی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ، فعل ، تقریر حجت تمام ہے ۔ جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول و عمل نہیں ملے گا پھر خلفائے راشدین اور صحابہ پھر تابعین کا قول و عمل دیکھا جائے گا ۔ الحمدللہ ایسا کم ہی ہوگا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دین کو مکمل کرکے گئے ہیں ۔ ادھورا نہیں چھوڑا ہے ۔
@nasim بھائی ، آپ چیزوں کو تقلید کی عینک اتار کر غیرجانبدارانہ طریقے سے دیکھیں تو حق آپ کو عیاں ہوجائے گا ۔ ان شاء اللہ ۔ ایک مرتبہ تقلید کی عینک اتار کر تو دیکھیں۔
@nasim بھائی ، آپ اہلحدیث سلفی حضرات کا ایک کوئی حوالہ دے دیں کہ انہوں نے کسی کی تکفیر کی ہو ؟ یا اس فورم پر ہی کوئی پوسٹ بتائیں کہ کسی کی تکفیر کی گئی ہو ؟ آپ کو اہلحدیث اور جماعت المسلمین کے بنیادی اختلاف کی وجہ معلوم ہے ؟
محترم مظاہر صاحب
میری اتنی جسارت نہیں ایک میں خلیفہ راشد اور عشرہ مبشرہ صحابی کے بارے میں ایسا گما ن کروں ۔
لیکن میں توضابطہ معلوم کر نا چاہ رہا ہوں۔اس کو تعین کون کرے گا کہ کس صحابی کی بات حجت ہوگی کس کی نہیں ہوگی ۔جس چیز کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سختی سے پکڑنے کا کہہ رہے ہیں کیا اس کو حرف آخر نہیں ہونا چاہیے۔ورنہ پھر خلفاء راشدین کی تخصیص کی اہمیت کیا رہ جاتی ہے۔؟
مجھ کو اہلحدیث اور جماعت المسلمین کے اختلافات کے وجہ معلوم نہیں ہے ۔ بلکہ مجھے تو جماعت المسلمین کے عقائد بھی نہیں پتہ ہیں۔
جہاں تک آپ نے تکفیر کی بات کی ہے تو میری مراد اس سے یہ ہے کہ جن عقائد پر سلفی حضرات کا اختلاف ہے ان کی نوعیت شرک اوربدعت ہے ۔
مجھے اچھی طرح علم ہے بلکہ میں اس کا شاہد بھی ہوں کہ سلفی یا اہلحدیث حضرات بریلوی امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے ۔ کیونکہ وہ ان کو بدعتی اور مشرکانہ افعال اور عقائد میں ملوث سمجھتے ہیں۔ اسی طرح کوئی بریلوی بھی کسی اہلحدیث کے امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا ہے اور ان کو دین سے گمراہ جانتا ہے ۔
اب ایک بدعتی اور مشرک افعال کا شخص آپ کی رو سے کیسے مسلمان ہوسکتا ہے۔ (کیونکہ ہر بدعت گمراہی اور جہنم کی طرف لے جاتی ہے) پھر عقید ہ و حدالوجود شہود پر دونوں طرف کے علما ء کی رائے ایک دوسرے کے بارے میں کیا ہے آپ کو اس کا اچھی طرح علم ہوگا۔
میری بات اسی تناظر میں تھی۔ یہ دہرا معیار نہیں ہوگا کہ آپ کسی کو مشرکانہ عمل اور بدعتی قرار دیں اور اسے مسلمان بھی کہیں؟
کافی پہلےتقابلی کتابوں کا مطالعہ کیا تھا ابھی جو کتاب میرے ذہن میں ہے وہ قرانی شمعیں ہیں جس میں قران و حدیث سے دلائل دے کر بتایا گیا ہے کہ موجودہ وسیلہ کے قائل بعینہ وہی عقیدہ رکھتے ہیں جو مشرکین مکہ کا اپنے بتوں کے بارے میں ہوتا تھا۔
عامر عدنان بھائی کی رائے میرے بارے میں پڑھ لیں انہوں نے مجھے راہ سے ہٹا ہوا قرار دے دیا ہے ۔

باقی میں تقلید کا قائل نہیں ہوں جہاں جس سےاچھی بات ملتی ہے اس کو اختیار کر تا ہوں۔ اتنا علم نہیں رکھتا کہ قران و حدیث سے مسائل از خود نکال سکوں ۔ اسی لئے کسی نہ کسی کے فتوے پر تو عمل کرنا ہوگا۔ ہاں کسی ایک سے چمٹ کر رہنے کا قائل نہیں ہوں۔معصوم صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے ان کے علاوہ ہر کسی سے غلطی کا ارتکاب ہوسکتا ہے اور اس کی بات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔

@مظاہر امیر
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
محترم
میرے کہنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ ایصال میں بھی امید ہوتی ہے کہ اس نیک عمل کا ثواب پہنچے گا ۔
محترمی !
اس کی کیا دلیل ہے ؟اگر ثواب ایصال کیا جا سکتا ہے تو گناہوں سے بھی اسی طرح سبکدوشی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ یہ مبنی بر انصاف نہیں کہ کسی معاملے کے صرف ایک پہلو کو اختیار کیا جائے اور دوسرے کو چھوڑ دیا جائے۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
محترم
آپ کو سوال سمجھ نہیں سکا برائے مہربانی وضاحت کر دیں کہ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں ۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
محترم
آپ کو سوال سمجھ نہیں سکا برائے مہربانی وضاحت کر دیں کہ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں ۔
اگر فقط” اُمید“ کی بنیاد پر ثواب”ایصال“ کیا جا سکتا ہے تو کیا اسی ” اُمید “ہی کی بنیاد پر گناہ بھی ”ایصال “ کیا جا سکتا ہے ؟
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
محترم
گناہ کے ایصال کی کوئی صورت ابھی تک میرے علم میں نہیں ہے۔ ہاں گناہ جاریہ ضرورت منتقل ہوتے ہیں۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
گناہ کے ایصال کی کوئی صورت ابھی تک میرے علم میں نہیں ہے۔
بالکل اسی طرح ”ایک شخص “کی طرف سےکسی” دوسرے شخص“ کو”ثواب“ کے ”ایصال“کی کوئی صورت کسی کے ”علم“ میں ابھی تک ”دریافت“ نہیں ہوئی ۔
آپ چونکہ ”شخصیت پرستی اور تقلید“ کے خلاف ہیں (جو قابلِ تعریف ہے)،اس لیے آپ کو” علامہ حبیب الرحمٰن کاندھلویؒ“ کی ایک کتاب”ایصالِ ثواب قرآن کی نظر میں“ پڑھنے کا ”مشورہ“ د وں گا۔
 
Top