• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن عظیم الشان کے عربی پر اعتراضات

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ محترم قاریین وعلماء کرام وقاریات محدث فورم السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
وبعد چونکہ میرا تعلق جناب الیاس ستار صاحب کے ساتھ شاگردی کا ہے میں ان کا شاگرد ہو اور وہ میرے استاد محترم ہے جناب الیاس ستار صاحب ایک بزنس مین ہونے کے ساتھ
ساتھ اسلام کا ایک عظیم مبلغ بھی ہیں کافی لوگ ان کے تبلیغ کی وجہ سے مسلمان ہو چکے ہیں الحمد للہ رب العالمین چونکہ الیاس صاحب کے تبلیغ کے ٹارگٹ اعلی تعلیم یافتہ عیسائی یھودی بہائی قادیانی کرسچن شیعہ منکرین حدیث کے علاوہ وہ مسلمان بھی ہیں جو غلط عقاید رکھتے ہیں ہم کچھ مسایل مین ان کے ساتھ اختلاف بھی کرتے ہیں لیکن ہم ہمارا مجموعی ہدف کفار ہے ساتھ ساتھ ہم مسلمانوں کے اصلاح سے بھی غافل نھیں ہے اور جناب الیاس ستار صاحب چونکہ لڑائی جگھڑے کی سخت خلاف ہیں صرف دلیل سے بات کرتے ھیں اسلیے یھاں مذکورہ بالا تمام ادیان والے آتے ہیں بحث مباحثے کیلیے حالیہ دنوں میں کچھ ایسے لوگ بھی آے جنھوں نے قرآن عظیم الشان کے عربی پر اعتراضات کیے عربی گرامر کے لحاظ جو میری ذہن میں ہو میں جواب دیتا ہو لیکن انسان ہو کمزور ھو اللہ تعالی جنت دیں محدث فورم کے انتظامیہ کو کہانھوںنے ایک علمی ماحول ہمیں میسر کردیا ہے یھاں کے اہل علم سے فایدہ اٹھانے کیلیے اور ان سے سیکھنے کیلیے یہ موضوع شروع کررہاھوں امید ہے کہ آپ لوگ میری رہنمائی فرماینگے تاکہ میں موثر جواب دے سکوں جزاکم اللہ خیرا
 

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
اعتراض نمبر ایک
سنفرغ لکم ایھا الثقلان سورہ رحمن کے اس آیت مبارکہ پر انھوں نے یہ اعتراض کیا کہ دیکھو یھاں خظاب ثقلان کے ساتھ ہیں اور ثقلان تثنیہ ہے اس لیے ایسا کہنا چاھیے تھا کہ سنفرغ لکما ایھا الثقلان تو میں نے جو جواب دیا تھا وہ یہ کہ میں نے کہا چونکہ ثقلان اگر چہ تثنیہ ہے لیکن ان کے افراد بہت زیادہ ہے اس لیے لکم سے تعبیر کیا گیا جمع کے ساتھ تو انھوں نے کہا کہ بھر حال اللہ تعالی نے لکما کیوں نھیں کہا کیا اللہ تعالی کیلیے کیا مشکل تھا
اب یہ تو جو مجھے آتا تھا بتادیا اب اگر کسی بہائی کے ذھن میں کوئی اچھا جواب ہو تو ضرور شییر کریں میں احسان مند رہونگا شدید انتظار رھیگا
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
اعتراض نمبر ایک
سنفرغ لکم ایھا الثقلان سورہ رحمن کے اس آیت مبارکہ پر انھوں نے یہ اعتراض کیا کہ دیکھو یھاں خظاب ثقلان کے ساتھ ہیں اور ثقلان تثنیہ ہے اس لیے ایسا کہنا چاھیے تھا کہ سنفرغ لکما ایھا الثقلان تو میں نے جو جواب دیا تھا وہ یہ کہ میں نے کہا چونکہ ثقلان اگر چہ تثنیہ ہے لیکن ان کے افراد بہت زیادہ ہے اس لیے لکم سے تعبیر کیا گیا جمع کے ساتھ تو انھوں نے کہا کہ بھر حال اللہ تعالی نے لکما کیوں نھیں کہا کیا اللہ تعالی کیلیے کیا مشکل تھا
اب یہ تو جو مجھے آتا تھا بتادیا اب اگر کسی بہائی کے ذھن میں کوئی اچھا جواب ہو تو ضرور شییر کریں میں احسان مند رہونگا شدید انتظار رھیگا
آپ نے صحیح جواب دیا ہے۔ جن وانس دونوں فرد نہیں بلکہ گروہ اور جماعتیں ہیں اور ہر گروہ بذات خود جمع ہے۔ فرمانِ باری ہے: فإذا هم فريقان يختصمون، نیز فرمایا: هذان خصمان اختصموا في ربهم
ان دونوں آیات کریمہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے جماعتوں کے تثنیہ کیلئے جمع کا صیغہ استعمال کیا ہے۔
تفسیر جامع البیان (المعروف بہ تفسیر طبری) میں ہے:
وقال : سنفرغ لكم فجمع ، ثم قال : أيه الثقلان لأنهما فريقان وكل فريق جمع ، وكذا قوله تعالى : يا معشر الجن والإنس إن استطعتم ولم يقل إن استطعتما ، لأنهما فريقان في حال الجمع ، كقوله تعالى : فإذا هم فريقان يختصمون و هذان خصمان اختصموا في ربهم ولو قال : سنفرغ لكما ، وقال : إن استطعتما لجاز .

اس کا ایک جواب میرے نزدیک یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تثنیہ در اصل جمع کی ہی ایک قسم ہے۔ لہٰذا یہ واحد کی نسبت جمع سے زیادہ قریب ہے۔
اسی لئے دو لوگ انفرادی نہیں بلکہ باجماعت نماز پڑھتے ہیں۔
اسی طرح جمع متکلم کا صیغہ تثنیہ وجمع دونوں کیلئے استعمال ہوتا ہے۔
اسی طرح فرمانِ باری ہے: إن تتوبا إلى الله فقد صغت قلوبكما پیچھے دو خواتین کا ذکر ہوا اور آگے جب ان کے دلوں کا ذکر فرمایا تو تثنیہ کی بجائے جمع کے صیغے سے۔

واللہ تعالیٰ اعلم!
 

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
اعتراض نمبر دو
انھوں نے یہ بھی کہا کہ لکم دینکم ولی دین میں لی دین میں دین کا لفظ غلط ہے ایسا ہونا چاہیے تھا دینی
میں نے کہا یہاں یا محذوف ہے اصل میں دینی تھا لیکن عربی میں کبھی یاء حذف کرکے اکتفاء باالکسرہ کیا جاتاہے لیکن بد قسمتی سے اس وقت قرآن مجید سے کوئی اور مثال مستحضر نھیں
ھوسکا اگر کوئی ساتھی مدد کرکے بتاے تو مھربانی ہوگی
 

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
آپ نے صحیح جواب دیا ہے۔ جن وانس دونوں فرد نہیں بلکہ گروہ اور جماعتیں ہیں اور ہر گروہ بذات خود جمع ہے۔ فرمانِ باری ہے: فإذا هم فريقان يختصمون، نیز فرمایا: هذان خصمان اختصموا في ربهم
ان دونوں آیات کریمہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے جماعتوں کے تثنیہ کیلئے جمع کا صیغہ استعمال کیا ہے۔
تفسیر جامع البیان (المعروف بہ تفسیر طبری) میں ہے:
وقال : سنفرغ لكم فجمع ، ثم قال : أيه الثقلان لأنهما فريقان وكل فريق جمع ، وكذا قوله تعالى : يا معشر الجن والإنس إن استطعتم ولم يقل إن استطعتما ، لأنهما فريقان في حال الجمع ، كقوله تعالى : فإذا هم فريقان يختصمون و هذان خصمان اختصموا في ربهم ولو قال : سنفرغ لكما ، وقال : إن استطعتما لجاز .

اس کا ایک جواب میرے نزدیک یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تثنیہ در اصل جمع کی ہی ایک قسم ہے۔ لہٰذا یہ واحد کی نسبت جمع سے زیادہ قریب ہے۔
اسی لئے دو لوگ انفرادی نہیں بلکہ باجماعت نماز پڑھتے ہیں۔
اسی طرح جمع متکلم کا صیغہ تثنیہ وجمع دونوں کیلئے استعمال ہوتا ہے۔
اسی طرح فرمانِ باری ہے: إن تتوبا إلى الله فقد صغت قلوبكما پیچھے دو خواتین کا ذکر ہوا اور آگے جب ان کے دلوں کا ذکر فرمایا تو تثنیہ کی بجائے جمع کے صیغے سے۔

واللہ تعالیٰ اعلم!
HTML:

جزاک اللہ احسن الجزاء انس بہائی دل ٹھنڈا کردیا آپ نے بارک اللہ فیک وزداللہ علمک
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
اعتراض نمبر دو
انھوں نے یہ بھی کہا کہ لکم دینکم ولی دین میں لی دین میں دین کا لفظ غلط ہے ایسا ہونا چاہیے تھا دینی
میں نے کہا یہاں یا محذوف ہے اصل میں دینی تھا لیکن عربی میں کبھی یاء حذف کرکے اکتفاء باالکسرہ کیا جاتاہے لیکن بد قسمتی سے اس وقت قرآن مجید سے کوئی اور مثال مستحضر نھیں
ھوسکا اگر کوئی ساتھی مدد کرکے بتاے تو مھربانی ہوگی
بھائی! قرآن کریم کی گرائمر پر اعتراض کرنے والا اگر لغت عربی اور اس کی گرائمر کی الف بے بھی واقف نہ ہو تو بہرحال یہ بہت بڑی زیادتی ہے۔ یہ عجیب لوگ ہیں جنہوں نے قرآن کریم کو مشق ستم بنا رکھا ہے۔ مسلمان تو نہیں لگتے۔ بہرحال ۔۔۔

آپ ان سے کہیں کہ ﴿ لَكُم دينُكُم وَلِىَ دينِ ٦ میں لفظ دينِ کی نون پر کسرہ ہونا ہی اس بات کی علامت ہے کہ یہ اصل میں دِينِي تھا، اور اس کی یاء محذوف ہے، جس کی دلیل نون پر کسرہ ہے۔ وگرنہ اگر یہ اصل میں ديني نہ ہوتا تو پھر اسے دِينٌ (مرفوع، مبتدا مؤخر ہونے کی وجہ سے) ہونا چاہئے تھا، جیسے لكم دينكم میں دِینُکم مرفوع ہے۔
ویسے بھی امام یعقوب بصری﷫ کی متواتر قراءت میں یہ لفظ یاء کے ساتھ ہی ہے: لكم دينكم ولي دِينِي

قرآن کریم میں اس کی ساٹھ کے قریب مثالیں ہیں، جن میں اصلا یاء موجود تھی لیکن اسے محذوف کرکے کسرہ پر اکتفاء کیا گیا، جن میں چند ایک حسب ذیل ہیں، اگر آپ کہیں گے تو میں آپ وہ تمام الفاظ پیش كر دوں گا:

﴿ يـٰبَنى إِسرٰ‌ءيلَ اذكُر‌وا نِعمَتِىَ الَّتى أَنعَمتُ عَلَيكُم وَأَوفوا بِعَهدى أوفِ بِعَهدِكُم وَإِيّـٰىَ فَار‌هَبونِ ٤٠ وَءامِنوا بِما أَنزَلتُ مُصَدِّقًا لِما مَعَكُم وَلا تَكونوا أَوَّلَ كافِرٍ‌ بِهِ ۖ وَلا تَشتَر‌وا بِـٔايـٰتى ثَمَنًا قَليلًا وَإِيّـٰىَ فَاتَّقونِ ٤١ ﴾ ۔۔۔ البقرة
﴿ وَتَزَوَّدوا فَإِنَّ خَيرَ‌ الزّادِ التَّقوىٰ ۚ وَاتَّقونِ يـٰأُولِى الأَلبـٰبِ ١٩٧ ﴾ ۔۔۔ البقرة
﴿ فَإِن حاجّوكَ فَقُل أَسلَمتُ وَجهِىَ لِلَّـهِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ ۗ وَقُل لِلَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ وَالأُمِّيّـۧنَ ءَأَسلَمتُم ۚ فَإِن أَسلَموا فَقَدِ اهتَدَوا ۖ وَإِن تَوَلَّوا فَإِنَّما عَلَيكَ البَلـٰغُ ۗ وَاللَّـهُ بَصيرٌ‌ بِالعِبادِ ٢٠ ﴾ ۔۔۔ آل عمران
﴿ إِنَّما ذٰلِكُمُ الشَّيطـٰنُ يُخَوِّفُ أَولِياءَهُ فَلا تَخافوهُم وَخافونِ إِن كُنتُم مُؤمِنينَ ١٧٥ ﴾ ۔۔۔ آل عمران
﴿ فَلا تَخشَوُا النّاسَ وَاخشَونِ وَلا تَشتَر‌وا بِـٔايـٰتى ثَمَنًا قَليلًا ۚ وَمَن لَم يَحكُم بِما أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولـٰئِكَ هُمُ الكـٰفِر‌ونَ ٤٤ ﴾ ۔۔۔ المائدة
 

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
جزاک اللہ انس بہائی بس مجھے یہی مثالیں چاہیے تھی شکرا جزیلا ان لوگوں کو عربی آتی ہیں لیکن
ھم من الروافض وانت تعلم انہم قایلون علی التحریف فی کتاب اللہ
ویضل بہ کثیرا کے عملی مصداق ہے اگر ہم ہار نا مانے اور ان سے بات چیت کرتے رہے فعسی ربنا ان یھدیھم
آپ سے اختلاف اپنے جگہ لیکن اس مسئلے میں آپ نے میری بڑے مدد کی میں آپ کا ازحد مشکور ہوں
 

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
اعترض نمبر تین انھوں نے یہ کیا کہ وقرن فی بیوتکن ولاتبرجن تبرج الجاھلیۃ الاولی یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اہل البیت ویطھرکم تطہیرا انھوں نے کہا کہ یھاں خطاب چونکہ امھات الموءمنین سے ہے اس لیذہب عنکم کے بجاے لیذہب عنکن کہنا چاھیے تھا
استغفراللہ استغفراللہ نعوذباللہ لاالہ الاللہ محمدرسول اللہ عام لوگ تو اس سے ہل جاینگے میں نے تو ان کو کہا یہ گرامر ہی غلط ہیں جمع موءنث کیلیے کن بھی آتا ہے اور کم بھی لیکن بھرحال کتابوں میں تو اس کا برعکس لکھا ہوا ہے براے مہربانی رہنمائی فرماے
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
اعترض نمبر تین انھوں نے یہ کیا کہ وقرن فی بیوتکن ولاتبرجن تبرج الجاھلیۃ الاولی یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اہل البیت ویطھرکم تطہیرا انھوں نے کہا کہ یھاں خطاب چونکہ امھات الموءمنین سے ہے اس لیذہب عنکم کے بجاے لیذہب عنکن کہنا چاھیے تھا
استغفراللہ استغفراللہ نعوذباللہ لاالہ الاللہ محمدرسول اللہ عام لوگ تو اس سے ہل جاینگے میں نے تو ان کو کہا یہ گرامر ہی غلط ہیں جمع موءنث کیلیے کن بھی آتا ہے اور کم بھی لیکن بھرحال کتابوں میں تو اس کا برعکس لکھا ہوا ہے براے مہربانی رہنمائی فرماے
نہ بھائی! گرائمر کو غلط نہ کہیں، عام لوگوں کو ہلنے سے بچانے کیلئے کچھ گزارشات پیش کرتا ہوں، اگر صحیح ہیں تو اللہ کی طرف سے ہیں ورنہ میری اور شیطان کی طرف سے۔
اللهم إنا نسألك علما نافعا وعملا متقبلا ورزقا واسعا طيبا

اولاً
یہاں سیدات امہات المؤمنین (ازواج مطہرات) کو ’اہل بیت‘ کہہ کر پکارا گیا ہے۔ اور ’اہل‘ کا لفظ بیوی، عزیز واقارب اور اصحاب کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ یہ لفظ جمع ہے۔ اگر اس سے مراد اکیلی بیوی یا زیادہ بیویاں یا دیگر مذکر ومؤنث عزیز واقارب (خواہ وہ ایک دو ہوں یا زیادہ) بھی مراد ہوں تب بھی ظاہری لفظ کا دھیان رکھتے ہوئے جمع مذکر کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے، جیسے
وَهَل أَتىٰكَ حَديثُ موسىٰ ٩ إِذ رَ‌ءا نارً‌ا فَقالَ لِأَهلِهِ امكُثوا إِنّى ءانَستُ نارً‌ا لَعَلّى ءاتيكُم مِنها بِقَبَسٍ أَو أَجِدُ عَلَى النّارِ‌ هُدًى ١٠ ۔۔۔ سورة طه
بہت سے علماء کے نزدیک یہاں ’اہل‘ سے مراد سیدنا موسیٰ﷤ کی اہلیہ ہیں، اس کے باوجود لفظ اہل کی وجہ سے جمع مذکر کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔

اسی طرح جب فرشتوں نے سیدنا ابراہیم﷤ کو سیدنا اسحاق اور یعقوب علیہما السلام کی بشارت دی اور سیدہ سارہ نے حیرانگی ظاہر کی تو فرشتوں نے کہا:
قالوا أَتَعجَبينَ مِن أَمرِ‌ اللَّـهِ ۖ رَ‌حمَتُ اللَّـهِ وَبَرَ‌كـٰتُهُ عَلَيكُم أَهلَ البَيتِ ۚ إِنَّهُ حَميدٌ مَجيدٌ ٧٣ ۔۔۔ سورة هود
یہاں بھی سيده سارہ کیلئے جمع مذکر کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔

نیز فرمایا:
وَحَرَّ‌منا عَلَيهِ المَر‌اضِعَ مِن قَبلُ فَقالَت هَل أَدُلُّكُم عَلىٰ أَهلِ بَيتٍ يَكفُلونَهُ لَكُم وَهُم لَهُ نـٰصِحونَ ١٢ ۔۔۔ سورۃ القصص
یہاں بھی سیدہ ام موسیٰ کا لفظ ’اہل‘ سے تذکرہ کرتے ہوئے ان کیلئے صیغۂ جمع مذکر استعمال کیا گیا ہے۔

البتہ الیاسی صاحب ان تینوں مثالوں میں یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ یہ اللہ کے اقوال نہیں ہیں، بلکہ سیدنا موسیٰ﷤، فرشتوں اور اخت موسیٰ کے قول کی حکایت ہے۔ (ابتسامہ)

ثانیاً
یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ سورۃ الاحزاب کی اس آیت کریمہ ﴿ إِنَّما يُر‌يدُ اللَّـهُ لِيُذهِبَ عَنكُمُ الرِّ‌جسَ أَهلَ البَيتِ وَيُطَهِّرَ‌كُم تَطهيرً‌ا ٣٣ میں جمع مذکر کا صیغہ اس لئے استعمال کیا گیا ہے کہ اس جملہ میں یہاں اہل بیت سے مراد صرف امہات المؤمنین نہیں بلکہ سادات علی، فاطمہ، حسن وحسین﷢ بھی مراد ہیں اور جب زیادہ مذکر ومؤنث جمع ہوں تو ان کیلئے جمع مذکر کا صیغہ استعمال ہوتا ہے۔
صحیح احادیث مبارکہ میں ہے:
لمَّا نزلت هذِهِ الآيةُ على النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا في بيتِ أمِّ سلمةَ فدعا فاطمةَ وحَسنًا وحُسينًا فجلَّلَهم بِكساءٍ وعليٌّ خلفَ ظَهرِهِ فجلَّلَهُ بِكساءٍ ثمَّ قالَ اللَّهمَّ هؤلاءِ أَهلُ بيتي فأذْهِب عنْهمُ الرِّجسَ وطَهِّرْهم تطْهيرًا قالت أمُّ سلمةَ وأنا معَهُم يا نبيَّ اللَّهِ قالَ أنتِ على مَكانِكِ وأنتِ على خيرٍ
الراوي: عمر بن أبي سلمة
المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الترمذي - الصفحة أو الرقم: 3205
خلاصة حكم المحدث: صحيح
الدرر السنية - الموسوعة الحديثية
 
Top