فیضان صاحب! فاؤل نہیں کھیلیں. میری ہر بات کو کوٹ کر کے جواب دیں پھر آپ کی بات کا جواب دوں گا.
جہاں آپ کا خیال ہے کہ کسی بات کا جواب قرآن کریم میں موجود ہے وہاں بھی بات کا اقتباس لے کر وہ آیت لکھیں جس میں بات کا جواب ہے.
یوں آپ سب کچھ مکس کر کے پڑھنے والوں کو (یا شاید اپنے آپ کو) دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ نے ہر بات کا جواب دے دیا ہے.
الگ الگ اقتباس لیں اور اس کے تحت بات کریں.
میں نے ہر چیز پر الگ بات اسی لیے کی ہے کہ آپ کو سب چیزیں الگ الگ نظر آئیں اور ہر چیز کی دلیل بھی اور آپ مکس کھچڑی نہ پکا سکیں.
اس لیے شاباش! اس بار کام مکمل کریں.
السلام علیکم!
دوبارہ سوال کرتا ہوں اس کا جواب مطلوب ہے ۔ شکریہ۔
شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے ۔ سلامتی ہو ان پر جو حق آنے پر اسے تسلیم کرتے ہیں اور باطل کا واضح انکار کرتے ہیں اور اللہ سے اپنی لغزرشوں ،غلطیوں،گناہوں کی معافی بھی مانگتے ہیں۔۔۔۔۔
میرا دوبارہ سوال جس کا جواب ابھی تک نہیں دیا جا رہا ۔۔ادھر اودھر کی باتوں کے علاوہ ۔۔جواب بھی دینا چاہئے آپ سب کو متفق اور غیر متفق کا بٹن دبانے سے کچھ نہیں ہوتا یہاں سامنے بات کریں دلائل دیں شکریہ۔۔۔۔
حدیث کے تناظر میں جو میں کوڈ کر چکا کیا صرف نبی کریم ﷺ کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کئے گئے؟
کیا پیغمبر بھی اپنی لغزرشوں کی وجہ سے قیامت کے دن رنج،دھک درد میں مبتلہ ہوں گے جبکہ اللہ نے تمام لغزرشیں معاف فرما دیں اور اللہ تعالیٰ راضی بھی ہوا اور ان پیغمبروں سے خوش بھی ہوا؟
سورۃ البقرہ 2۔جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور خرچ کر کے پھر احسان نہیں جتاتے ، نہ دکھ دیتے ہیں ، ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لیے کسی رنج اور خوف کا موقع نہیں۔(262)
سورۃ البقرہ 2۔ہم نے کہا کہ ’’ تم سب یہاں سے اُتر جائو ۔ پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے ، تو جو لوگ میری اُس ہدایت کی پیروی کریں گے ، اُن کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا ۔‘‘ (38)
سورۃ المائدہ5۔مسلمان ہوں یا یہودی ، صابی ہوں یا عیسائی ، جو بھی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا بے شک اس کے لیے نہ کسی خوف کا مقام ہے نہ رنج کا ۔(69)
سورۃ یونس10۔سنو ! جو اللہ کے دوست ہیں ، جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقویٰ کا رویہ اختیار کیا ، (62)ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔(63)دنیا اورآخرت دونوں زندگیوں میں ان کے لیے بشارت ہی بشارت ہے۔ اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں۔ یہی بڑی کامیابی ہے ۔(64)
سورۃ التوبہ 9۔کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجدِ حرام کی مجاوری کرنے کو اُس شخص کے کام کے برابر ٹھہرا لیا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور روزِ آخر پر اور جس نے جانفشانی کی اللہ کی راہ میں؟ اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں ہیں اور
اللہ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتا۔ (19)
اللہ کے ہاں تو اُنہی لوگوں کا درجہ بڑا ہے جو ایمان لائے اور جنہوں نے اُس کی راہ میں گھر بار چھوڑ ے اور جان و مال سے جہاد کیا وہی کامیاب ہیں ۔ (20)
اُن کا رب انہیں اپنی رحمت اور خوشنودی اور ایسی جنتوں کی بشارت دیتا ہے جہاں ان کے لیے پائیدار عیش کے سامان ہیں ۔(21)ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ یقینا اللہ کے پاس خدمات کا صلہ دینے کو بہت کچھ ہے۔ (22)
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بنائو اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں۔ تم میں سے جو اُن کو رفیق بنائیں گے وہی ظالم ہوں گے۔ (23)
صحیح بخاری
كتاب الرقاق
کتاب دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
باب صفة الجنة والنار:
باب: جنت و جہنم کا بیان
حدیث نمبر: 6565
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کو جمع کرے گا۔ اس وقت لوگ کہیں گے کہ اگر ہم اپنے رب کے حضور میں کسی کی شفاعت لے جائیں تو نفع بخش ثابت ہو سکتی ہے۔ ممکن ہے ہم اپنی اس حالت سے نجات پا جائیں۔
چنانچہ لوگ آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے آپ ہی وہ بزرگ نبی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے بنایا اور آپ کے اندر اپنی چھپائی ہوئی روح پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا، آپ ہمارے رب کے حضور میں ہماری شفاعت کریں۔ وہ کہیں گے کہ میں تو اس لائق نہیں ہوں، پھر وہ اپنی لغزش یاد کریں گے اور کہیں گے کہ نوح کے پاس جاؤ، وہ سب سے پہلے رسول ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بھیجا۔ لوگ نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے لیکن وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں۔ وہ اپنی لغزش کا ذکر کریں گے اور کہیں کہ تم ابراہیم کے پاس جاؤ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیل بنایا تھا۔ لوگ ان کے پاس آئیں گے لیکن یہ بھی یہی کہیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں، اپنی خطا کا ذکر کریں گے اور کہیں گے کہ تم لوگ موسیٰ کے پاس جاؤ جن سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تھا۔ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے لیکن وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں، اپنی خطا کا ذکر کریں گے اور کہیں گے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے، لیکن یہ بھی کہیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ کیونکہ ان کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کر دئیے گئے ہیں۔ چنانچہ لوگ میرے پاس آئیں گے۔ اس وقت میں اپنے رب سے (شفاعت کی) اجازت چاہوں گا اور سجدہ میں گر جاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ جتنی دیر تک چاہے گا مجھے سجدہ میں رہنے دے گا۔ پھر کہا جائے گا کہ اپنا سر اٹھا لو، مانگو دیا جائے گا، کہو سنا جائے گا، شفاعت کرو، شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں اپنے رب کی اس وقت ایسی حمد بیان کروں گا کہ جو اللہ تعالیٰ مجھے سکھائے گا۔ پھر شفاعت کروں گا اور میرے لیے حد مقرر کر دی جائے گی اور میں لوگوں کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دوں گا اور اسی طرح سجدہ میں گر جاؤں گا، تیسری یا چوتھی مرتبہ جہنم میں صرف وہی لوگ باقی رہ جائیں گے جنہیں قرآن نے روکا ہے (یعنی جن کے جہنم میں ہمیشہ رہنے کا ذکر قرآن میں صراحت کے ساتھ ہے) قتادہ رحمہ اللہ اس موقع پر کہا کرتے کہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جن پر جہنم میں ہمیشہ رہنا واجب ہو گیا ہے۔
کیا یہ حدیث نبی کریم ﷺ کی کہی ہوئی ہے؟ کیا یہ قرآن مجید کے مطابق ہے؟ اگر مطابق ہے تو دلیل سے واضح کریں۔ شکریہ مجھے تو یہ حدیث مردود معلوم ہوتی ہے اگر قرآن سے گواہی لیتا ہوں تو قرآن واضح فرما رہا ہے یہ تمام پیغمبروں پر تہمت لگارہی ہے ۔قرآن واضح کہتا ہے کہ حدیث قرآن کے خلاف ہے اب آپ اس کے قرآن کے مطابق کر کے دیکھائیں۔؟