• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن لاریب ہے!! حدیث کی طرف پھر رجوع کیوں؟

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
نوح علیہ السلام کا بیٹا نوح علیہ السلام کو وہ دھوکہ دیتا تھا اس کی وضاحت آیت نمبر 45 میں ہے
وَنَادَىٰ نُوحٌ رَّبَّهُ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَأَنتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ ﴿٤٥﴾
اس آیت میں دھوکے کا ذکر کہاں ہے ؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم

وَنَادَىٰ نُوحٌ رَّبَّهُ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَأَنتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ ﴿٤٥﴾
اس آیت میں دھوکے کا ذکر کہاں ہے ؟
مزید ایک اضافہ کر دوں:
نوحؑ نے اپنے بیٹے کو کہا:
وَنَادَى نُوحٌ ابْنَهُ وَكَانَ فِي مَعْزِلٍ يَا بُنَيَّ ارْكَبْ مَعَنَا وَلا تَكُنْ مَعَ الْكَافِرِينَ (42)
"اور پكارا نوح نے اپنے بیٹے کو جب کہ وہ الگ تھا کہ اے میرے بیٹے ہمارے ساتھ سوار ہو جا اور کافروں کے ساتھ نہ ہو۔"
1۔ بیٹا ان سے الگ تھا جب کہ ایمان والے تو ان کے ساتھ تھے ان کے حکم پر۔
2۔ انہوں نے کافروں کے ساتھ شامل ہونے سے منع کیا لیکن وہ ہو گیا۔
3۔ اس نے اللہ کے مقابلے میں کہا: سآوی الی جبل یعصمنی من الماء (میں ایسے پہاڑ پر ٹھکانہ بناؤں گا جو مجھے پانی سے بچا لے گا)۔
اس کے بعد اس کے کافر ہونے میں کون سا "دھوکہ" باقی رہ گیا تھا؟؟؟
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
السلام علیکم!
بحث ختم کریں اور دو ٹوک جواب ہاں یا نہیں۔
۔
وَنَادَىٰ نُوحٌ رَّبَّهُ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَأَنتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ ﴿٤٥﴾
اس آیت میں دھوکے کا ذکر کہاں ہے ؟
سورۃ ھود۔وح ؑ نے فوراً عرض کیا ’’ اے میرے ربّ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہو جائوں گا۔ ‘‘ (47)

٭٭٭اس آیت میں ۔۔۔۔۔وہ چیز تجھ سے مانگو ں جس کا مجھے علم نہیں۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟اس کی وضاحت کر دیں۔۔۔۔۔

 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
السلام علیکم!​
سورۃ ھودآیت 47 میں ہے ۔ نوح علیہ السلام نے کہا "وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں؟؟؟؟ضرور وضاحت کر دیجئے گا۔۔۔شکریہ

پہلی حدیث شفاعت والی کے تناظر میں۔
٭قرآن مجید میں اللہ کا فرمان ہے میرے دوستوں کو کوئی غم نہیں ہوگا،وہ خوش ہوں گے وہ پریشان نہیں ہوں گے ،کوئی رنج انہیں نہی ہوگا۔ وغیرہ وغیرہ
٭٭لیکن آپ کا ایمان ہے کہ جو میں نے حدیث کوڈ کی اس کے تناظر میں کہ تمام پیغمبر پریشان ہوں گے ،کسی نہ کسی غم میں ہوں گے سوائے محمد ﷺ کے ۔۔۔۔۔۔ہاں یا نہیں۔؟
٭سب پیغمبر گناہ گار ہیں قیامت کے دن تک سوائے نبی کریمﷺ کے یعنی صرف نبی کریم ﷺ کے گناہ بخشے گئے ہیں اور باقیوں کو نہیں؟ہاں یا نہیں۔
٭ابراھیم علیہ السلام کو واضح نصیحت کے باوجود جبکہ وہ خود بھی اپنے والد سے بیزار ہوئے اور اپنی لغزرش پر جو دعا کی تھی اللہ سے معافی بھی مانگ چکے حدیث جو کوڈ کی اس کے تناظر میں ابراھیم علیہ السلام قیامت کے دن اسی غلطی پر رہیں گے۔۔ہاں یا نہیں۔۔۔۔۔
اور بحث ختم کریں ۔۔۔۔
قیامت کے دن ہی اللہ فیصلہ فرما دے گا ان شائ اللہ۔۔۔شکریہ
میں نے کوشش کی کہ آپ حق کو پچان سکیں لیکن ہدایت تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے ۔۔۔۔​
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم!
بحث ختم کریں اور دو ٹوک جواب ہاں یا نہیں۔
۔

سورۃ ھود۔وح ؑ نے فوراً عرض کیا ’’ اے میرے ربّ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہو جائوں گا۔ ‘‘ (47)

٭٭٭اس آیت میں ۔۔۔۔۔وہ چیز تجھ سے مانگو ں جس کا مجھے علم نہیں۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟اس کی وضاحت کر دیں۔۔۔۔۔
الله پاك نے نوحؑ كو دعا مانگنے پر دو تنبیہات کیں:

يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ
"اے نوح! وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے۔ یہ عمل اچھا نہیں ہے۔"
یہ تنبیہ تھی پچھلی دعا پر۔
فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۖ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ (46)
"پس تو مجھ سے وہ نہ مانگ جس کا تجھے علم نہیں۔ میں تجھے نصیحت کرتا ہوں تاکہ تو جاہلوں میں سے نہ ہوجا۔"
یہ تنبیہ کم اور نصیحت زیادہ ہے اور یہ ہے آئندہ کے لیے۔ یعنی آئندہ بھی ایسا عمل نہیں کرنا۔ نصیحت آئندہ کے لیے کی جاتی ہے ماضی کے لیے نہیں۔

نوحؑ نے اس دوسری تنبیہ پر فرمایا:

اے میرے ربّ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہو جائوں گا۔ ‘‘ (47)
اس آیت میں کہیں یہ نہیں ہے کہ پہلے دھوکہ لگا تھا بلکہ یہ نوحؑ نے آئندہ کے لیے نصیحت حاصل کی ہے۔

آپ ذرا نوحؑ کو دھوکہ لگنا واضح آیات سے ثابت کریں۔ اس طرح کے اٹکل سے نہیں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم!​
سورۃ ھودآیت 47 میں ہے ۔ نوح علیہ السلام نے کہا "وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں؟؟؟؟ضرور وضاحت کر دیجئے گا۔۔۔شکریہ

پہلی حدیث شفاعت والی کے تناظر میں۔
٭قرآن مجید میں اللہ کا فرمان ہے میرے دوستوں کو کوئی غم نہیں ہوگا،وہ خوش ہوں گے وہ پریشان نہیں ہوں گے ،کوئی رنج انہیں نہی ہوگا۔ وغیرہ وغیرہ
٭٭لیکن آپ کا ایمان ہے کہ جو میں نے حدیث کوڈ کی اس کے تناظر میں کہ تمام پیغمبر پریشان ہوں گے ،کسی نہ کسی غم میں ہوں گے سوائے محمد ﷺ کے ۔۔۔۔۔۔ہاں یا نہیں۔؟
٭سب پیغمبر گناہ گار ہیں قیامت کے دن تک سوائے نبی کریمﷺ کے یعنی صرف نبی کریم ﷺ کے گناہ بخشے گئے ہیں اور باقیوں کو نہیں؟ہاں یا نہیں۔
٭ابراھیم علیہ السلام کو واضح نصیحت کے باوجود جبکہ وہ خود بھی اپنے والد سے بیزار ہوئے اور اپنی لغزرش پر جو دعا کی تھی اللہ سے معافی بھی مانگ چکے حدیث جو کوڈ کی اس کے تناظر میں ابراھیم علیہ السلام قیامت کے دن اسی غلطی پر رہیں گے۔۔ہاں یا نہیں۔۔۔۔۔
اور بحث ختم کریں ۔۔۔۔
قیامت کے دن ہی اللہ فیصلہ فرما دے گا ان شائ اللہ۔۔۔شکریہ
میں نے کوشش کی کہ آپ حق کو پچان سکیں لیکن ہدایت تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے ۔۔۔۔​
اپنی باری میں ہاں یا ناں میں جواب چاہیے اور ہم یہ وضاحت مانگتے مانگتے تھک گئے کہ قرآن کریم کو پڑھنے سے اس کا حق ہونا کیسے سمجھ آجاتا ہے، اس وقت واضح جواب سمجھ نہیں آ رہا تھا؟
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
الله پاك نے نوحؑ كو دعا مانگنے پر دو تنبیہات کیں:

يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ
"اے نوح! وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے۔ یہ عمل اچھا نہیں ہے۔"
یہ تنبیہ تھی پچھلی دعا پر۔

فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۖ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ (46)
"پس تو مجھ سے وہ نہ مانگ جس کا تجھے علم نہیں۔ میں تجھے نصیحت کرتا ہوں تاکہ تو جاہلوں میں سے نہ ہوجا۔"
یہ تنبیہ کم اور نصیحت زیادہ ہے اور یہ ہے آئندہ کے لیے۔ یعنی آئندہ بھی ایسا عمل نہیں کرنا۔ نصیحت آئندہ کے لیے کی جاتی ہے ماضی کے لیے نہیں۔

نوحؑ نے اس دوسری تنبیہ پر فرمایا:


اس آیت میں کہیں یہ نہیں ہے کہ پہلے دھوکہ لگا تھا بلکہ یہ نوحؑ نے آئندہ کے لیے نصیحت حاصل کی ہے۔

آپ ذرا نوحؑ کو دھوکہ لگنا واضح آیات سے ثابت کریں۔ اس طرح کے اٹکل سے نہیں۔
السلام علیکم!سلامتی ہو ان پر جو حق آنے پر حق کو تسلیم بھی کرتے ہیں اور ضدبازی نہیں کرتے اور سوچتے بھی ہیں۔
چلیں اس بہانے آپ سامنے تو آئے ۔کہاں چھپ کر بیٹھے تھے؟ میری کسی غلطی کا انتظار کر رہے تھے کہ میں کوئی غلطی کروں اور آپ میرے سوالات کےجوابات دینے کی بجائے اس غلطی پر شور مچائیں ۔جیسے کل اچانک آپ نمودار ہو گئے جبکہ دوسری پوسٹوں پر آپ موجود ہوتے ہیں یہاں سے غیب کیوں؟۔
اگر آپ اٹکل سے کام لیں تو درست کیونکہ آپ ایک عالم ہیں ۔اللہ مجھے معاف کر دے آپ کو عالم کہہ بیٹھا۔کیونکہ جس ایمان والے کو کلمہ پڑھنے والے کو یہ معلوم نہیں کہ (جناب اشماریہ صاحب کہتے ہیں)میں ایک جانب یہ(قرآن مجید ) رکھتا ہوں اور دوسری جانب جے کے رولنگ کا مشہور ناول "ہیری پوٹر" رکھتا ہوں۔ اوران دونوں کتابوںکو پڑھ کر مجھے تو کچھ نہیں نظر آیا کہ کون سی کتاب اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے (استغفراللہ اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا)۔ یہ بھی ایک کتاب ہے اور وہ بھی ایک کتاب ہے۔(استغفراللہ)ظالموں پرا للہ کی لعنت جو اپنا معقف کو درست ثابت کرنے کے لئے اس طرح کی باتیں کرتے۔جبکہ حق جانتے بھی ہیں لیکن لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔

٭جی میری غلطی ہو سکتی ہےلیکن یہ میرا قیاس تھا جو میں نے کیا کہ شاید کہ نوح علیہ السلام کے سامنے وہ کہتا ہو کہ میں ایمان لایا جیسا کہ ایمان والے نبی کریمﷺ سےکہتے تھے نبی کریم ﷺ کے سامنے تو مانتے تھے لیکن ان کے جانے کے بعد انکار کرتے تھے یہ میرا قیاس تھا کہ شاید نوح علیہ السلام کا بیٹا بھی اسی طرح کا کوئی عمل کرتا ہوگا شاید (یہ میرا قیاس تھا اگر غلط تو اللہ مجھے معاف فرمائے میں غلطی پر غلطی نہیں اپنے آپ کو درست کرتا ہوں ان شائ اللہ میں اگر غلط ہوں تو اللہ سے دوبارہ معافی طلب کرتا ہوں )۔ہو سکتا ہے کہ اپنے بیٹے کو اچانک کافروں میں دیکھ کر پریشانی میں یہ کہہ گئے غلطی ،لغزرش کر گئے ۔۔۔۔۔اگر پریشانی میں یہ لغزرش نہیں کی تب بھی اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے بیٹے کے بارے میں واضح نصیحت فرمادی کہ جاہلوں میں نہ ہونا اور ایسی چیز نہ مانگ جس کا تمہیں علم نہیں(باطل خواہش پر نہ چلو ) جس پر انہوں نے معافی مانگی اور اللہ تعالیٰ نے معاف بھی فرما دیا۔اور بلکل ہو سکتا ہے کہ اللہ نے پیغمبروں کو معجزات دیکھائے تاکہ ان کا ایمان کمزور نہ ہو بلکہ پختہ ہو شک سے پاک ۔
سورۃ البقرہ 2۔یا پھر مثال کے طور پر اُس شخص کو دیکھو ، جس کا گزر ایک ایسی بستی پر ہوا جو اپنی چھتوں پر اوندھی گری پڑی تھی ۔ اُس نے کہا ’’یہ آبادی جو ہلاک ہو چکی ہے ، اِسے اللہ کس طرح دوبارہ زندگی بخشے گا ‘‘ ؟ اِس پر اللہ نے اُس کی رُوح قبض کرلی اور وہ سو برس تک مُردہ پڑا رہا ۔ پھر اللہ نے اُسے دوبارہ زندگی بخشی اور اُس سے پوچھا : بتائو ، کتنی مدت پڑے رہے ہو؟ ‘‘ اُس نے کہا ’’ایک دن یا چند گھنٹے رہا ہوں گا ۔ ‘‘ فرمایا ’’ تم پر سو برس اِسی حالت میں گزر چکے ہیں۔ اب ذرا اپنے کھانے اور پانی کو دیکھو کہ اس میں ذرا تغیر نہیں آیا ہے۔ دوسری طرف ذرا اپنے گدھے کو بھی دیکھو (کہ اس کا پنجر تک بوسیدہ ہو رہا ہے ) اور یہ ہم نے اس لیے کیا ہے کہ ہم تمہیں لوگوں کے لیے ایک نشانی بنا دینا چاہتے ہیں۔ پھر دیکھو کہ ہڈیوں کے اِس پنجر کو ہم کس طرح اُٹھا کر گوشت پوست اس پر چڑھاتے ہیں۔ ‘‘ اس طرح جب حقیقت اُس کے سامنے بالکل نمایاں ہوگئی ، تو اُس نے کہا : ’’ میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔‘‘ (259)
٭اللہ تعالٰی کا حضرت نوح علیہ السلام کو واضح ارشاد تھا کہ :-

احْمِلْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ ۚ
وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۚ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ ﴿٣٧﴾


بلکل ہو سکتا ہے کہ نوح علیہ السلام اپنے بیٹے کے کفر کے متعلق مطلع تھےمگر شفقتِ پدری کے تحت محض جذبات سے مغلوب ہوکر اپنے بیٹے کی شفارش کر دی۔ مزید یہ کہ حضرت نوح علیہ السلام کو اتنی سخت تنبیہ صرف اسی صورت میں کی جا سکتی ہے جبکہ حضرت نوح علیہ السلام کو اپنے بیٹے کے کفر کے بارے میں علم ہو اگر ان کو علم نہ ہوتا تو اتنے سخت الفاظ میں تنبیہ نہ کی جاتی۔

يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۖ فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۖ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ ﴿٤٦﴾
اب یہاں آپ سب یہ کہتے ہیں کہ نوح علیہ السلام اللہ کے حکم کے باوجود جذبات سے مغلوب ہو کر اپنے بیٹے کے حق میں بات کر سکتے ہیں تو ابراہیم علیہ السلام کے اپنے والد کے متعلق بات کرنے پر اعتراض کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔۔۔جناب اعتراض ہے وہ یہ کہ دنیا میں وہ اپنی لغزرشوں سے پاک ہوئے اور معافی مانگی اور اپنی لغزرشوں سےبیزار ہوئے ۔کفار سے انکار کیا واضح لوگوں کے لئے عمل چھوڑ کر گئے اپنے آپ کو درست کیا عمل کے ساتھ ۔اور آخری نبی نے بھی یہی عمل کیا جو پہلے نبیوں نےکیا وہ کوئی نئی چیز نہیں لائے ۔اور آپ کہتے ہیں وہ اپنی لغزرشوں پر قیامت کے دن بھی قائم دائم ہوں گے ۔۔۔استغفراللہ۔۔۔۔۔اللہ مجھے معاف کرئے اگر میرا ایمان بھی آپ جیسا ہوتا اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے ہدایت بخشی۔

اب آپ فرماتے ہیں کہ اگر یہاں پر وہ واضح نصیحت اور تنبیہ آنے کے باوجود دوبارہ غلطی یا لغزرش کر سکتے ہیں تو قیامت کے دن کیوں نہیں؟۔۔۔۔۔۔واہ کیا ایمان ہے آپ سب کا ۔

سورۃ البقرہ 2آیت نمبر۔تم اِن اہل کتاب کے پاس خواہ کوئی نشانی لے آئو ،ممکن نہیں کہ یہ تمہارے قبلے کی پیروی کرنے لگیں اور نہ تمہارے لیے یہ ممکن ہے کہ اُن کے قبلے کی پیروی کرو ،اور ان میں سے کوئی گروہ بھی دوسرے کے قبلے کی پیروی کے لیے تیار نہیں ہے ، اور اگر تم نے اُس علم کے بعد ، جو تمہارے پاس آچکا ہے ، اُن کی خواہشات کی پیروی کی ، تو یقینا تمہارا شمار ظالموں میں ہوگا۔ (145)
٭٭نبی کریم ﷺ کو اور اہل ایمان والوں کو واضح نصیحت کی جارہی ہے کہ باطل خواہشات کی پیروی نہ کرنا۔
٭سورۃ المائدہ 5۔پھر اے نبی ﷺ ، ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے اور الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے اُس کی تصدیق کرنے والی اور اُس کی محافظ و نگہبان ہے لہٰذا تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور جو حق تمہارے پاس آیا ہے اُس سے منہ موڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ ہم نے تم (انسانوں) میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک راہِ عمل مقرر کی۔ اگرچہ تمہارااللہ چاہتا تو تم سب کو ایک امت بھی بنا سکتا تھا ، لیکن اس نے یہ اس لیے کیا کہ جو کچھ اُس نے تم لوگوں کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے لہٰذا بھلائیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو ۔ آخر کار تم سب کواللہ کی طرف پلٹ کر جانا ہے ، پھر وہ تمہیں اصل حقیقت بتا دے گا جس میں تم اختلاف کرتے رہے ہو ۔(48)
میرے پیارے بھائیو!تمام پیغمبروں کی لغزرشوں کی درستگی کی گئی ان کی کمیوں ،کو پورا کیا گیا اب اللہ کا فرمان بھی سن لیں ۔ہدایت آنے کے بعد دوبارہ غلطی اللہ بھی معاف نہیں کرتا۔
٭٭میرااب آپ شماریہ جی سے سوال ہے۔بھاگ نہ جانا پھر سے ۔
٭جب اللہ نے واضح منع فرما دیا تو کیا یہ لغزرش دوباری کر سکتے ہیں یعنی ایک دفعہ سمجھایا پھر سمجھایا پھر سختی سے سمجھایا وہ ایک انسان تھے غلطیاں ہو سکتی ہیں جب سختی سے سمجھادیا اور پیغمبر نے اسے غلطی تسلیم بھی کیا اور واضح معافی بھی مانگی تو کیا وہ اپنی لغزرش پر دوبارہ آجائیں گے یا آ سکتے ہیں؟۔جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے لغزرش کی جانتے ہوئے بھی کہ میرا والد کافر ہے لیکن جب اللہ نے واضح نصیحت اور تنبیہ کر دی کہ یہ مشرک ہے تیرے رب کا دشمن ہے اور اس پر ابراھیم علیہ السلام نے غلطی کو تسلیم بھی کیا اور اللہ سے معافی مانگی کیا اس کے باوجود وہ اپنی اس لغزرش پھر قیامت کے دن قائم رہیں گے؟

حدیث کے تناظر میں ۔۔۔۔۔صحیح بخاری حدیث نمبر4476باب اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا بیان۔
صحیح بخاری حدیث نمبر 4712باب آیت کی تفسیر"ان لوگوں کی نسل والو!جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں سوار کیا تھا۔۔۔اب آپ کا عقیدہ ہے کہ۔جو نیلے رنگ میں نیچے دیکھایا گیا ہےواہ کیا عقیدہ رکھتے ہیں آپ سب۔میرا سوال کیا یہ عقیدہ قرآن کے مطابق ہے ۔؟ادھر اودھر کی باتوں سے بہتر ہے جواب دیں۔

٭٭٭٭٭لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے ، لیکن یہ بھی کہیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ کیونکہ ان کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کر دئیے گئے ہیں ۔٭٭٭٭٭
٭آپ کا ایمان ہے کہ صرف نبی کریم ﷺ کے سارے اگلے اور پچھلے گناہ اللہ تعالیٰ نے بخش دئے ۔۔۔۔ہاں یا نہیں جواب آپ پر قرض بھاگنے سے کچھ نہیں ہونا۔۔
لیکن اللہ کا شکر ہے میرا ایمان ہے کہ اللہ نے تمام پیغمبروں کے اگلے اور پچھلے گناہ ان کی زندگیوں میں ہی معاف فرمائے اور جنت کی بشارت دی اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے ۔

٭آپ کا ایمان ہے کہ تمام پیغمبر سوائے نبی کریم ﷺ کے کسی نہ کسی خوف، رنج میں ،غم میں ،مبتلہ ہوں گے۔۔۔۔ہاں یا نہیں۔واضح جواب دیں۔ادھر اودھر کی بہت باتیں ہوگئیں۔
لیکن اللہ کا شکر ہے میرا ایمان ہے کہ اللہ کے تمام پیغمبر ان شائ اللہ کسی رنج میں نہیں ہوں گے کسی غم میں نہیں ہوں گے ۔۔۔۔۔
سورۃ البقرہ 2۔ہم نے کہا کہ ’’ تم سب یہاں سے اُتر جائو ۔ پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے ، تو جو لوگ میری اُس ہدایت کی پیروی کریں گے ، اُن کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا ۔‘‘ (38)

اس آیت کے تناظر میں آپ سے کا ایمان ہے کہ صرف نبی کریم ﷺ اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر تھے باقی تمام پیغمبر اللہ کی ہدایت پر نہیں تھے اس لئے وہ سب خوف ،رنج ،میں مبتلہ ہوں گے!!!!؟
سورۃ النحل16۔
دوسری طرف جب خدا ترس لوگوں سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ کیا چیز ہے جو تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوئی ہے ، تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ’’بہترین چیز اتری ہے۔‘‘ اس طرح کے نیکو کار لوگوں کے لیے اس دنیا میں بھی بھلائی ہے ، اور آخرت کا گھر تو ضرور ہی ان کے حق میں بہتر ہے ۔ بڑا اچھا گھر ہے متقیوں کا ، (30)دائمی قیام کی جنتیں ، جن میں وہ داخل ہوں گے ، نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی ، اور سب کچھ وہاں عین ان کی خواہش کے مطابق ہو گا ۔ جزا دیتا ہے اللہ متقیوں کو۔(31)ان متقیوں کو جن کی روحیں پاکیزگی کی حالت میں جب ملائکہ قبض کرتے ہیں تو کہتے ہیں ’’سلام ہو تم پر ، جائو جنت میں اپنے اعمال کے بدلے۔‘‘(32)

٭٭٭سورۃ النحل میں اللہ یہ کن کی باتیں کر رہا ۔۔۔۔۔پیغمبر ہی نہیں بلکہ جنہوں نے بھی اللہ کی ہدایت کی پیروی کی اور تسلیم کیا حق کو اللہ تعالیٰ نے میرے اور آپ کے رب نے انہیں بشارت دی ہے غور کریں۔
سورۃ التوبہ 9۔وہ مہاجر و انصار جنہوں نے سب سے پہلے دعوتِ ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی، نیز وہ جو بعد میں راست بازی کے ساتھ اُن کے پیچھے آئفے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ، اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے ، یہی عظیم الشان کامیابی ہے۔(100)
٭٭٭٭٭کون لوگ ہیں جن سے اللہ ان کی زندگیوں میں ہی راضی ہوا؟
سورۃ الجاثیہ45۔
یہ تمہارا انجام اس لیے ہُوا ہے کہ تم نے اللہ کی آیات کا مذاق بنا لیا تھا اور تمہیں دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال دیا تھا ۔ لہٰذا آج نہ یہ لوگ دوزخ سے نکالے جائیں گے اور نہ ان سے کہا جائے گا کہ معافی مانگ کر اپنے رب کو راضی کرو ۔‘‘ (35)
سورۃ المجادلہ 58۔
تم کبھی یہ نہ پائو گے کہ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ اُن لوگوں سے محبت کرتے ہوں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت کی ہے ، خواہ وہ ان کے باپ ہوں ، یا اُن کے بیٹے ، یا اُن کے بھائی یا ان کے اہلِ خاندان ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کر دیا ہے اور اپنی طرف سے ایک رُوح عطا کر کے اُن کو قوت بخشی ہے۔ وہ اُن کو ایسی جنّتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ اِن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ اُن سے راضی ہوا ، اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ وہ اللہ کی پارٹی کے لوگ ہیں۔ خبردار ر ہو اللہ کی پارٹی والے ہی فلاح پانے والے ہیں۔(22)

سورۃ البینہ 98۔ان کی جزا ، ان کے رب کے ہاں ، دائمی قیام کی جنّتیں (ہمیشگی کے باغ ہیں) ، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی ، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ یہ کچھ ہے اس شخص کے لیے جس نے اپنے رب کا خوف کیا ہو۔ (8)
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
اپنی باری میں ہاں یا ناں میں جواب چاہیے اور ہم یہ وضاحت مانگتے مانگتے تھک گئے کہ قرآن کریم کو پڑھنے سے اس کا حق ہونا کیسے سمجھ آجاتا ہے، اس وقت واضح جواب سمجھ نہیں آ رہا تھا؟
اسلام علیکم!
قرآن حق ہے اس کو پڑھ لیں معلوم صرف اس شخص کو ہوتا ہے جو غورو فکر کرتا ہے اور ہدایت کسی بھی کتاب میں ہو اس کو پڑھ کر سوچتا اور غور و فکر کے ساتھ اپنے اردگر کا مشاہدہ بھی کرتا ہو۔۔جیسے ابراھیم علیہ السلام نے دیکھا سورچ کو،چاند کو ۔۔۔یہ بہت گہری بات ہے میرے پیارے بھائی اوپر سے گزر جاتی آپ کے میرا کیا قصور ہے اگر کچھ آپ کو نظر نہیں آتا ۔اللہ سے ہدایت مانگیں شکریہ

آج پھر قرآن مجید کو رکھیں اور ایک طرف جے کے رولنگ کا مشہور ناول ہیری پوٹر رکھیں اور پڑھیں دونوں کتابوں کو پھر دوبارہ بتائیں کہ کیا یہ ایک جیسی ہی لگتی ہیں اس کا جواب آپ سب جو جو اس مراسلے میں ہے جن جن سے گفتگو ہو چکی سب پر ہمیشہ قرض رہے گا ان شائ اللہ اور جو یہ بھائی کہہ رہے ہیں ان کی اس غلطی پر اگر کوئی ان کی گرفت نہیں کرتا تو وہ بھی ان اشماریہ صاحب جیسا ہو گا ان شائ اللہ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
جب اللہ نے واضح منع فرما دیا تو کیا یہ لغزرش دوباری کر سکتے ہیں یعنی ایک دفعہ سمجھایا پھر سمجھایا پھر سختی سے سمجھایا وہ ایک انسان تھے غلطیاں ہو سکتی ہیں جب سختی سے سمجھادیا اور پیغمبر نے اسے غلطی تسلیم بھی کیا اور واضح معافی بھی مانگی تو کیا وہ اپنی لغزرش پر دوبارہ آجائیں گے یا آ سکتے ہیں؟
بھاگتا میں نہیں ہوں۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ آپ کے پاس کسی چیز کا کوئی لوجیکل جواب نہیں ہوتا۔ آپ کے پاس بس اپنا ایمان ہے اور وہی آپ کا جواب ہے۔ خیر پہلے آپ کے سوال کا جواب:
سوال یہ نہیں ہے کہ پیغمبرؑ نے کسی چیز کو غلطی اور لغزش تسلیم کیا اور معافی مانگی تو کیا دوبارہ لغزش کر سکتے ہیں یا نہیں؟ سوال یہ ہے کہ جب ایک بار وضاحت کے ساتھ اللہ پاک نے منع فرما دیا تو کیا لغزش ہو سکتی ہے؟
حضرت آدمؑ جو سب سے پہلے پیغمبر اور انسانوں کے جد امجد ہیں، کو اللہ پاک نے منع فرمایا:
وَيَا آدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلا مِنْ حَيْثُ شِئْتُمَا وَلا تَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ (الم)
"جہاں سے چاہو کھاؤ اور اس درخت کے قریب بھی نہ جانا کہ تم ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔"
خود دیکھ لیں کیسی سخت تنبیہ ہے۔
انہوں نے کیا کیا؟
فَأَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا (طہ)
"ان دونوں نے اس سے کھا لیا۔۔۔"
کیا معلوم ہوا؟ یہ کہ نبی بشری تقاضوں سے مجبور ہو کر لغزش کر سکتا ہے۔

ایک اور مثال:
حضرت موسیٰؑ "عبدا من عبادنا" کے پاس گئے:
فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا (65)
ان سے ساتھ رہ کر علم حاصل کرنے کی درخواست کی۔ انہوں نے فرمایا:
قَالَ فَإِنِ اتَّبَعْتَنِي فَلَا تَسْأَلْنِي عَن شَيْءٍ حَتَّىٰ أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا (70)
"اس نے کہا: اگر میری اتباع کرنی ہے تو مجھ سے کسی چیز کا اس وقت تک نہ پوچھنا جب تک میں خود نہ بتا دوں۔"
موسیٰؑ نے پہلے ہی تسلیم کیا ہوا تھا:
قَالَ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا (69)
"کہا: آپ مجھے ان شاء اللہ صبر کرنے والا پائیں گے اور میں آپ کی کسی معاملے میں ذرا نافرمانی نہ کروں گا۔"
لیکن ہوا کیا؟ موسیٰؑ نے ان سے تین چیزوں کے بارے میں تین بار پوچھا حتی کہ انہوں نے موسیؑ کو تفصیل بتا کر الگ کر دیا۔
معلوم ہوا نبی بشری تقاضوں کی وجہ سے لغزش کر سکتا ہے۔

ایک اور مثال:
اللہ پاک نے موسی اور ہارون علیہما السلام کو فرعون کی طرف بھیجا تو انہوں نے خطرہ ظاہر کیا:
قَالَا رَبَّنَا إِنَّنَا نَخَافُ أَن يَفْرُطَ عَلَيْنَا أَوْ أَن يَطْغَىٰ (45)
"انہوں نے کہا: اے ہمارے رب! ہمیں ڈر لگتا ہے کہ وہ ہم پر زیادتی یا سرکشی نہ کر بیٹھے۔"
اللہ پاک نے نہ ڈرنے کا حکم دیا:
قَالَ لَا تَخَافَا ۖ إِنَّنِي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَىٰ (46)
"فرمایا: نہ ڈرو! میں تمہارے ساتھ ہوں، سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں۔"
لیکن جب فرعون کے جادوگروں نے لاٹھیوں اور رسیوں کو جادو کی مدد سے سانپ بنایا تو موسیؑ اس حکم کے باوجود ڈر گئے:
فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً مُّوسَىٰ (67)
"موسی نے اپنے نفس میں خوف محسوس کیا۔"
معلوم ہوا کہ نبی بشری تقاضوں کی وجہ حکم کے خلاف بھی جا سکتا ہے۔

اب بغیر حدیث یا تفسیر کے اس مسئلے کو حل کر کے دکھائیں!

اگر آپ اٹکل سے کام لیں تو درست کیونکہ آپ ایک عالم ہیں ۔اللہ مجھے معاف کر دے آپ کو عالم کہہ بیٹھا۔کیونکہ جس ایمان والے کو کلمہ پڑھنے والے کو یہ معلوم نہیں کہ (جناب اشماریہ صاحب کہتے ہیں)میں ایک جانب یہ(قرآن مجید ) رکھتا ہوں اور دوسری جانب جے کے رولنگ کا مشہور ناول "ہیری پوٹر" رکھتا ہوں۔ اوران دونوں کتابوںکو پڑھ کر مجھے تو کچھ نہیں نظر آیا کہ کون سی کتاب اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے (استغفراللہ اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا)۔ یہ بھی ایک کتاب ہے اور وہ بھی ایک کتاب ہے۔(استغفراللہ)ظالموں پرا للہ کی لعنت جو اپنا معقف کو درست ثابت کرنے کے لئے اس طرح کی باتیں کرتے۔جبکہ حق جانتے بھی ہیں لیکن لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔
جب آپ کوئی لوجیکل جواب نہیں دے سکے تو پھر یہی رٹ کیوں لگا رہے ہیں؟
یہ بات میں نے تب کی تھی جب آپ کوئی منطقی، عقلی، لوجیکل، سمجھ میں آنے والا جواب نہیں دے رہے تھے۔
پھر میں نے آپ کو ذرا سا آئینہ جب دکھایا تھا:
اچھا یہی بتا دیں کہ قرآن کی سات قراءتوں میں سے کون سی لاریب ہے؟
ورش پہلے پارے میں یغفر لکم خطایاکم پڑھتے ہیں اور حفص نغفر لکم خطایاکم پڑھتے ہیں, ورش پہلے پارے میں یخادعون الا انفسہم کہتے ہیں اور حفص یخدعون کہتے ہیں.
بلکہ آگے بڑھیں تو ابن مسعود رض فصیام ثلثۃ ایام متتابعات پڑھتے ہیں لیکن آپ نور الانوار دیکھیں تو اصولیین نے ان کے متتابعات کے لفظ کو نکال دیا ہے. حضرت ابی بن کعب رض کی قراءت کے بے شمار الفاظ کو شاذ کہہ کر نکال دیا گیا ہے. حضرت عائشہ رض کے مصحف میں تحریر صلاۃ العصر کے لفظ کو نکالا گیا ہے.
یہ قرآن پاک کہاں سے لاریب ہے بھائی اور کیسے لاریب ہے؟
آپ کہتے ہیں کہ میں قرآن پڑھوں اور مشاہدہ کروں تو میں یہ سب پڑھتا بھی ہوں اور دیکھتا بھی ہوں.

قرآن میں ایک جگہ آتا ہے ہم نے زمین کو بنایا پھر آسمان کو بنایا. دوسری جگہ آتا ہے ہم نے آسمان کو بچھایا پھر زمین کو بچھایا. اس میں اختلاف ہے.
فیضان بھائی! تقلید نہ کریں. تحقیق کر کے مجھے بتائیں کہ جس کتاب میں سے چیزوں کو شاذ کہہ کر نکالا گیا ہو, جس کتاب کے الفاظ میں اختلاف ہو, جس کی باتوں میں تعارض ہو...... اسے آپ کس قانون سے لاریب کہتے ہیں اور اس کی کون سی بات اور کون سے لفظ کو لاریب کہتے ہیں؟
اگر قرآن کریم شاذ, اختلاف اور تعارض کے باوجود بھی "لا ریب" کا درجہ رکھتا ہے تو پھر حدیثوں نے کیا قصور کیا ہے؟
آپ نے یہ جواب دیا تھا:
قرآن مجید میں ایک لفظ بھی لفظ تو بہت بڑا لفظ ہے ایک شد ،مد،زیر اوپر نیچے نہیں۔یہ جو آپ نے اوپر مثالیں بیان کی یہ علمائ کی آپس کی بحث و تکرار ہے میرے پیارے بھائی۔۔۔۔قرآن آج 2017 یا 18ویں صدی سے پڑھنا اور پڑھانا شروع نہیں کیا گیا نبی کریم ؤﷺ اس کی تعلیم و تریب کر کے گئے صرف عربیوں کے لئے ہی نہیں اجمیوں کے لئے بھی۔
اللہ تعالیٰ کا چیلنج ہے کہ اگر یہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سا اختلاف پاتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب ذرا بتائیں کہ یہ علماء کی بحث و تکرار ہے تو میرے بھائی یہ جو آپ کے سامنے لکھا ہوا قرآن پاک ہے یہ کیا آپ کے پاس ڈائریکٹ آسمان سے اتر کر آیا ہے؟ جبریلؑ آئے تھے یہ لے کر؟
یہ بھی تو مختلف کمپنیوں کا چھپا ہوا ہے جو انہوں نے حافظ صاحبان سے نظر ثانی کروا کر شائع کیا ہے۔ ذرا تاج کمپنی کے قرآن کریم کے آخری صفحات دیکھیے کس سے تصحیح کرواتے ہیں؟

آپ نے آگے کہہ دیا:
نبی کریم ﷺ کی زندگی میں ،کتابت ہوئی نبی کریم ﷺ کی زندگی میں،جبرائیل علیہ السلام کے سامنے اس کو ہر طرح سے دیکھا گیا کہیں کوئی غلطی موجود تو نہیں،اس کو نبی کریم ﷺ ایک کتاب کی شکل میں مرتب کر کے گئے اپنے ہاتھ مبارک سے ،نبی کریم ﷺ کے دور سے ہی عام تھا یہ قرآن دیکھ کر پڑھنا،عجمی کو بھی قرآن لکھایا اورسیکھایا گیا،یعنی قرآن ہر دور میں رہا قراءتوں میں اختلاف ہونے سے قرآن کی لکھی ہوئی کتاب پر نہیں اپنے علم پر اعتراض کریں۔اپنے علم کو کم کہیں۔
زبر،زیر ،پیش،نقاط،وغیرہ کا ایجاد بھی نبی کریم ﷺ کے دور سے تھا کیونکہ عجمی کو سمجھانے کے لئے یہ طریقہ رائج تھا۔یعنی بغیرعراب کے بھی قرآن تھا اور عراب کے ساتھ بھی قرآن موجود تھا نبی کریم ﷺ کے دور سے ہی۔یہ سب باتیں ہیں کہ یہ اعراب بعد میں لگائے گے یہ جھوٹ ہے۔قرآن کی شان اور عظمت اور قدر ہمارے علما ئ نے کم ہی کی ہے ۔شک میں ہی ڈالا ہے ۔آج 2017 میں ایسے پرانے نسخے موجود ہیں جن میں اعراب موجود ہیں۔
میرے بھائی میرا آپ کو چیلنج ہے کہ نبی کریم ﷺ کی زندگی میں کتابت کردہ نسخہ ڈھونڈ کر دکھا دیں۔ آپ کی ساری زندگی کے لیے چیلنج ہے۔
جو آپ کے پاس پہنچا وہ تو انہی لوگوں کا ہاتھ سے لکھا ہوا ہے نا جن پر آپ کا الزام ہے کہ انہوں نے بعد میں جھوٹ بولا ہے۔
چلیں پھر بھی لکھے ہونے پر ہی سوئی اگر اٹکی ہے تو یہ لیجیے:
https://drive.google.com/open?id=1DLym3UkX0TsnUhgVoRsdqdubua7cFhS3
یہ بھی لکھا ہوا اور چھپا ہوا قرآن کریم ہے۔ یہ پہلے پارے کا صفحہ ہے۔ اپنے گھر میں موجود قرآن کریم اٹھا کر اس سے اس کا موازنہ کریں ذرا۔ کم از کم پانچ جگہوں پر واضح فرق ہے۔ اور جگہوں پر جو فرق ہیں وہ آپ سمجھ نہیں سکتے لیکن میں جانتا ہوں۔ یہ کوئی تحریف شدہ قرآن پاک نہیں ہے۔
اب جائیے اپنے علماء کے پاس اور ان سے کہیے کہ نبی کریم ﷺ کی حیات والا زبر زیر والا نسخہ لائیں تاکہ آپ کو معلوم ہو سکے کہ کون سا قرآن کا صفحہ صحیح ہے اور کون سا غلط۔
اور اگر وہ نہ لا سکیں اور آپ بھی نہ لا سکیں تو برائے مہربانی اپنی اس بات سے رجوع کر لیجیے گا:
نبی کریم ﷺ کی زندگی میں ،کتابت ہوئی نبی کریم ﷺ کی زندگی میں،جبرائیل علیہ السلام کے سامنے اس کو ہر طرح سے دیکھا گیا کہیں کوئی غلطی موجود تو نہیں،اس کو نبی کریم ﷺ ایک کتاب کی شکل میں مرتب کر کے گئے اپنے ہاتھ مبارک سے ،نبی کریم ﷺ کے دور سے ہی عام تھا یہ قرآن دیکھ کر پڑھنا،عجمی کو بھی قرآن لکھایا اورسیکھایا گیا،یعنی قرآن ہر دور میں رہا قراءتوں میں اختلاف ہونے سے قرآن کی لکھی ہوئی کتاب پر نہیں اپنے علم پر اعتراض کریں۔اپنے علم کو کم کہیں۔
زبر،زیر ،پیش،نقاط،وغیرہ کا ایجاد بھی نبی کریم ﷺ کے دور سے تھا کیونکہ عجمی کو سمجھانے کے لئے یہ طریقہ رائج تھا۔یعنی بغیرعراب کے بھی قرآن تھا اور عراب کے ساتھ بھی قرآن موجود تھا نبی کریم ﷺ کے دور سے ہی۔یہ سب باتیں ہیں کہ یہ اعراب بعد میں لگائے گے یہ جھوٹ ہے۔قرآن کی شان اور عظمت اور قدر ہمارے علما ئ نے کم ہی کی ہے ۔شک میں ہی ڈالا ہے ۔آج 2017 میں ایسے پرانے نسخے موجود ہیں جن میں اعراب موجود ہیں۔
علم آپ کے پاس نہیں ہے۔ دلیل آپ کے پاس نہیں ہے۔ خالی خیالات ہیں کہ ایسا ہوگا اور ویسا ہوگا۔ اس کے پیچھے کوئی ٹھوس دلیل ہے ہی نہیں۔ قرآن کے الفاظ میں: ذلک مبلغہم من العلم۔
پتہ ہے ان خیالات کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟

وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا ۚ إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا (يونس)

"اور ان ميں سے اكثر تو صرف گمانوں کی ہی پیروی کرتے ہیں۔ بے شک گمان حق کے مقابلے میں کوئی فائدہ نہیں دیتا۔"

جب آپ سے ٹھوس دلیل مانگی جاتی ہے، کوئی منطقی اور لوجیکل جواب مانگا جاتا ہے تو آپ کہتے ہیں کہ قرآن کو پڑھ کر دیکھ لو۔ آپ کا حال تو یہ ہے:
قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنَا إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ أَنْتُمْ إِلَّا تَخْرُصُونَ (148)
"آپ کہہ دیجیے: کیا تمہارے پاس کوئی علم ہے تو ہمارے سامنے لاؤ! تم صرف گمان کے پیچھے چل پڑے ہو اور تم صرف اندازے ہی لگا رہے ہو۔"
بھائی دلیل اور علم کا مطالبہ کرنے کا حکم ہمیں قرآن نے دیا ہے:
قل ھاتوا برھانکم ان کنتم صادقین
"آپ کہہ دیجیے: اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل لاؤ!"
جس طرح نبی کریم ﷺ کے مخاطبین کے پاس دلیل نہیں تھی اسی طرح آپ کا دامن بھی دلیل سے خالی ہے میرے بھائی۔ کاش کہ آپ اس کی طرف نظر کریں۔

میرے بھائی جس چیز کو آپ اپنا علم اور تحقیق سمجھ رہے ہیں وہ کچھ بھی نہیں ہے۔ ان سارے مراحل سے میں گزر کر آیا ہوں۔ میں حنفی ہوں اور ہم پر ایک بڑا اعتراض ہے ہی یہی کہ ہم حدیث کو پہلے قرآن اور سنت متواترہ پر پیش کرتے ہیں اور پھر قبول کرتے ہیں۔ میں اس مسئلے کو سمجھنے کی خاطر اس گہرائی میں اترا ہوں جہاں آپ کبھی نہیں اتر سکتے۔ ہر چیز کو اس کی بنیاد میں جا کر دیکھا ہے۔
آپ میری تقلید نہ کریں لیکن "ظن" کی پیروی بھی نہ کریں۔ تحقیق کریں تو خود آپ پر سب واضح ہو جائے گا ان شاء اللہ۔

امید ہے کہ اس کے بعد آپ کو میرے بھاگنے کا غم نہیں ستائے گا اور آپ ان سوالات کے جوابات ڈھونڈیں گے جو میں نے آپ کو چپ کرانے کے لیے نہیں کیے تھے بلکہ آپ کے سامنے وہ چیزیں سوچنے کے لیے رکھی تھیں جن کو آپ نے پہلے تحقیق کی چھلنی سے نہیں گزارا تھا۔

والسلام
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
قرآن حق ہے اس کو پڑھ لیں معلوم صرف اس شخص کو ہوتا ہے جو غورو فکر کرتا ہے اور ہدایت کسی بھی کتاب میں ہو اس کو پڑھ کر سوچتا اور غور و فکر کے ساتھ اپنے اردگر کا مشاہدہ بھی کرتا ہو۔۔جیسے ابراھیم علیہ السلام نے دیکھا سورچ کو،چاند کو ۔۔۔یہ بہت گہری بات ہے میرے پیارے بھائی اوپر سے گزر جاتی آپ کے میرا کیا قصور ہے اگر کچھ آپ کو نظر نہیں آتا ۔اللہ سے ہدایت مانگیں شکریہ
یہ کوئی عقلی جواب ہے؟ کوئی منطقی استدلال ہے؟ کوئی لوجک ہے؟ اس بات کی کوئی تک ہے؟
خود سوچیں اگر ایسے جواب ہی کافی ہوتے تو قرآن کا یہ حکم کیوں آیا تھا:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَابٍ مُنِيرٍ (8)
"اور لوگوں میں بعض ایسے ہیں جو اللہ کے بارے میں بغیر علم، بغیر ہدایت اور بغیر روشن کتاب کے جھگڑتے ہیں۔"
دیکھیں اللہ پاک نے علم اور کتاب مانگے ہیں دلیل کے طور پر۔ یہ تو کفار بھی کہہ سکتے تھے کہ ہم بہت گہری بات کر رہے ہیں تمہارے اوپر سے گزر جاتی ہے تو ہمارا کیا قصور۔ لیکن اللہ پاک نے ایسی الٹی سیدھی باتوں کو یہ کہا ہے کہ یہ بغیر علم، بغیر ہدایت اور بغیر روشن کتاب کا جھگڑا ہے۔
اس لیے مہربانی ہوگی اگر گہری باتوں کے بجائے علم، ہدایت اور کتاب یعنی مضبوط دلائل سے بات کریں۔

آج پھر قرآن مجید کو رکھیں اور ایک طرف جے کے رولنگ کا مشہور ناول ہیری پوٹر رکھیں اور پڑھیں دونوں کتابوں کو پھر دوبارہ بتائیں کہ کیا یہ ایک جیسی ہی لگتی ہیں اس کا جواب آپ سب جو جو اس مراسلے میں ہے جن جن سے گفتگو ہو چکی سب پر ہمیشہ قرض رہے گا ان شائ اللہ اور جو یہ بھائی کہہ رہے ہیں ان کی اس غلطی پر اگر کوئی ان کی گرفت نہیں کرتا تو وہ بھی ان اشماریہ صاحب جیسا ہو گا ان شائ اللہ۔
آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ نے پہلے یہ مانا ہے کہ قرآن حق ہے اور پھر آگے سب بات شروع کی ہے۔ آپ کھڑے ہوتے نا اس موڑ پر جہاں آپ کے ایک جانب گیتا اور دوسری جانب قرآن ہوتا تو میں آپ سے پوچھتا۔
چلیں ہیری پوٹر کو سائیڈ پر رکھیں۔
مجھے وہ چیزیں بتا دیں جن کی بنیاد پر میں "گیتا" یا "بائبل" کو حق نہ مانوں اور قرآن کو حق مانوں؟ یا ان کتابوں میں وہ مقامات ہی بتا دیں جنہیں پڑھ کر میں یہ سمجھوں۔

آپ عجیب آدمی ہیں۔ کہتے ہیں:
معلوم صرف اس شخص کو ہوتا ہے جو غورو فکر کرتا ہے اور ہدایت کسی بھی کتاب میں ہو اس کو پڑھ کر سوچتا اور غور و فکر کے ساتھ اپنے اردگر کا مشاہدہ بھی کرتا ہو۔۔جیسے ابراھیم علیہ السلام نے دیکھا سورچ کو،چاند کو
ارے میرے بھائی اگر ادھر ادھر اور سورج چاند کو دیکھ کر سمجھنے کی کوشش کی تو قرآن کہتا ہے:
حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ وَوَجَدَ عِنْدَهَا قوما
"یہاں تک کہ جب وہ سورج کے غروب ہونے کی جگہ پر پہنچا تو اسے کیچڑ ملے چشمے میں غروب ہوتا ہوا پایا اور اس کے پاس ایک قوم کو پایا۔"
اب ذرا ادھر ادھر دیکھیں! کامن سینس استعمال کریں! کوئی شخص سورج کے غروب ہونے کی جگہ تک پہنچ سکتا ہے؟ سورج کیا کیچڑ والے چشمے میں غروب ہوتا ہے؟ تیز تپتے ہوئے سورج کے پاس کوئی قوم رہ سکتی ہے؟
اب بتائیں آپ کے ادھر ادھر دیکھنے اور غور و فکر کرنے والے فارمولے پر عمل کر کے کوئی شخص ہدایت حاصل کرے گا یا گمراہی؟ کوئی کافر یہ کیوں نہیں کہے گا کہ یہ قرآن میں ایسی کہانی لکھی ہے جو کہ ممکن ہی نہیں ہے؟
اللہ پاک آپ کو سمجھ اور عقل دیں۔ آمین
 
Top