الله پاك نے نوحؑ كو دعا مانگنے پر دو تنبیہات کیں:
1۔
يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ
"اے نوح! وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے۔ یہ عمل اچھا نہیں ہے۔"
یہ تنبیہ تھی پچھلی دعا پر۔
2۔
فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۖ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ (46)
"پس تو مجھ سے وہ نہ مانگ جس کا تجھے علم نہیں۔ میں تجھے نصیحت کرتا ہوں تاکہ تو جاہلوں میں سے نہ ہوجا۔"
یہ تنبیہ کم اور نصیحت زیادہ ہے اور یہ ہے آئندہ کے لیے۔ یعنی آئندہ بھی ایسا عمل نہیں کرنا۔ نصیحت آئندہ کے لیے کی جاتی ہے ماضی کے لیے نہیں۔
نوحؑ نے اس دوسری تنبیہ پر فرمایا:
اس آیت میں کہیں یہ نہیں ہے کہ پہلے دھوکہ لگا تھا بلکہ یہ نوحؑ نے آئندہ کے لیے نصیحت حاصل کی ہے۔
آپ ذرا نوحؑ کو دھوکہ لگنا واضح آیات سے ثابت کریں۔ اس طرح کے اٹکل سے نہیں۔
السلام علیکم!سلامتی ہو ان پر جو حق آنے پر حق کو تسلیم بھی کرتے ہیں اور ضدبازی نہیں کرتے اور سوچتے بھی ہیں۔
چلیں اس بہانے آپ سامنے تو آئے ۔کہاں چھپ کر بیٹھے تھے؟ میری کسی غلطی کا انتظار کر رہے تھے کہ میں کوئی غلطی کروں اور آپ میرے سوالات کےجوابات دینے کی بجائے اس غلطی پر شور مچائیں ۔جیسے کل اچانک آپ نمودار ہو گئے جبکہ دوسری پوسٹوں پر آپ موجود ہوتے ہیں یہاں سے غیب کیوں؟۔
اگر آپ اٹکل سے کام لیں تو درست کیونکہ آپ ایک عالم ہیں ۔اللہ مجھے معاف کر دے آپ کو عالم کہہ بیٹھا۔کیونکہ جس ایمان والے کو کلمہ پڑھنے والے کو یہ معلوم نہیں کہ (جناب اشماریہ صاحب کہتے ہیں)میں ایک جانب یہ(قرآن مجید ) رکھتا ہوں اور دوسری جانب جے کے رولنگ کا مشہور ناول "ہیری پوٹر" رکھتا ہوں۔ اوران دونوں کتابوںکو پڑھ کر مجھے تو کچھ نہیں نظر آیا کہ کون سی کتاب اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے (استغفراللہ اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا)۔ یہ بھی ایک کتاب ہے اور وہ بھی ایک کتاب ہے۔(استغفراللہ)ظالموں پرا للہ کی لعنت جو اپنا معقف کو درست ثابت کرنے کے لئے اس طرح کی باتیں کرتے۔جبکہ حق جانتے بھی ہیں لیکن لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔
٭جی میری غلطی ہو سکتی ہےلیکن یہ میرا قیاس تھا جو میں نے کیا کہ شاید کہ نوح علیہ السلام کے سامنے وہ کہتا ہو کہ میں ایمان لایا جیسا کہ ایمان والے نبی کریمﷺ سےکہتے تھے نبی کریم ﷺ کے سامنے تو مانتے تھے لیکن ان کے جانے کے بعد انکار کرتے تھے یہ میرا قیاس تھا کہ شاید نوح علیہ السلام کا بیٹا بھی اسی طرح کا کوئی عمل کرتا ہوگا شاید (یہ میرا قیاس تھا اگر غلط تو اللہ مجھے معاف فرمائے میں غلطی پر غلطی نہیں اپنے آپ کو درست کرتا ہوں ان شائ اللہ میں اگر غلط ہوں تو اللہ سے دوبارہ معافی طلب کرتا ہوں )۔ہو سکتا ہے کہ اپنے بیٹے کو اچانک کافروں میں دیکھ کر پریشانی میں یہ کہہ گئے غلطی ،لغزرش کر گئے ۔۔۔۔۔اگر پریشانی میں یہ لغزرش نہیں کی تب بھی اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے بیٹے کے بارے میں واضح نصیحت فرمادی کہ جاہلوں میں نہ ہونا اور ایسی چیز نہ مانگ جس کا تمہیں علم نہیں(باطل خواہش پر نہ چلو ) جس پر انہوں نے معافی مانگی اور اللہ تعالیٰ نے معاف بھی فرما دیا۔اور بلکل ہو سکتا ہے کہ اللہ نے پیغمبروں کو معجزات دیکھائے تاکہ ان کا ایمان کمزور نہ ہو بلکہ پختہ ہو شک سے پاک ۔
سورۃ البقرہ 2۔یا پھر مثال کے طور پر اُس شخص کو دیکھو ، جس کا گزر ایک ایسی بستی پر ہوا جو اپنی چھتوں پر اوندھی گری پڑی تھی ۔ اُس نے کہا ’’یہ آبادی جو ہلاک ہو چکی ہے ، اِسے اللہ کس طرح دوبارہ زندگی بخشے گا ‘‘ ؟ اِس پر اللہ نے اُس کی رُوح قبض کرلی اور وہ سو برس تک مُردہ پڑا رہا ۔ پھر اللہ نے اُسے دوبارہ زندگی بخشی اور اُس سے پوچھا : بتائو ، کتنی مدت پڑے رہے ہو؟ ‘‘ اُس نے کہا ’’ایک دن یا چند گھنٹے رہا ہوں گا ۔ ‘‘ فرمایا ’’ تم پر سو برس اِسی حالت میں گزر چکے ہیں۔ اب ذرا اپنے کھانے اور پانی کو دیکھو کہ اس میں ذرا تغیر نہیں آیا ہے۔ دوسری طرف ذرا اپنے گدھے کو بھی دیکھو (کہ اس کا پنجر تک بوسیدہ ہو رہا ہے ) اور یہ ہم نے اس لیے کیا ہے کہ ہم تمہیں لوگوں کے لیے ایک نشانی بنا دینا چاہتے ہیں۔ پھر دیکھو کہ ہڈیوں کے اِس پنجر کو ہم کس طرح اُٹھا کر گوشت پوست اس پر چڑھاتے ہیں۔ ‘‘
اس طرح جب حقیقت اُس کے سامنے بالکل نمایاں ہوگئی ، تو اُس نے کہا :
’’ میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔‘‘ (259)
٭
اللہ تعالٰی کا حضرت نوح علیہ السلام کو واضح ارشاد تھا کہ :-
احْمِلْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ ۚ
وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۚ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ ﴿٣٧﴾
بلکل ہو سکتا ہے کہ نوح علیہ السلام اپنے بیٹے کے کفر کے متعلق مطلع تھےمگر شفقتِ پدری کے تحت محض جذبات سے مغلوب ہوکر اپنے بیٹے کی شفارش کر دی۔ مزید یہ کہ حضرت نوح علیہ السلام کو اتنی سخت تنبیہ صرف اسی صورت میں کی جا سکتی ہے جبکہ حضرت نوح علیہ السلام کو اپنے بیٹے کے کفر کے بارے میں علم ہو اگر ان کو علم نہ ہوتا تو اتنے سخت الفاظ میں تنبیہ نہ کی جاتی۔
يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۖ فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۖ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ ﴿٤٦﴾
اب یہاں آپ سب یہ کہتے ہیں کہ
نوح علیہ السلام اللہ کے حکم کے باوجود جذبات سے مغلوب ہو کر اپنے بیٹے کے حق میں بات کر سکتے ہیں تو ابراہیم علیہ السلام کے اپنے والد کے متعلق بات کرنے پر اعتراض کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔۔۔جناب اعتراض ہے وہ یہ کہ دنیا میں وہ اپنی لغزرشوں سے پاک ہوئے اور معافی مانگی اور اپنی لغزرشوں سےبیزار ہوئے ۔کفار سے انکار کیا واضح لوگوں کے لئے عمل چھوڑ کر گئے اپنے آپ کو درست کیا عمل کے ساتھ ۔اور آخری نبی نے بھی یہی عمل کیا جو پہلے نبیوں نےکیا وہ کوئی نئی چیز نہیں لائے ۔اور آپ کہتے ہیں وہ اپنی لغزرشوں پر قیامت کے دن بھی قائم دائم ہوں گے ۔۔۔استغفراللہ۔۔۔۔۔اللہ مجھے معاف کرئے اگر میرا ایمان بھی آپ جیسا ہوتا اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے ہدایت بخشی۔
اب آپ فرماتے ہیں کہ اگر یہاں پر وہ واضح نصیحت اور تنبیہ آنے کے باوجود دوبارہ غلطی یا لغزرش کر سکتے ہیں تو قیامت کے دن کیوں نہیں؟۔۔۔۔۔۔واہ کیا ایمان ہے آپ سب کا ۔
سورۃ البقرہ 2آیت نمبر۔تم اِن اہل کتاب کے پاس خواہ کوئی نشانی لے آئو ،ممکن نہیں کہ یہ تمہارے قبلے کی پیروی کرنے لگیں اور نہ تمہارے لیے یہ ممکن ہے کہ اُن کے قبلے کی پیروی کرو ،اور ان میں سے کوئی گروہ بھی دوسرے کے قبلے کی پیروی کے لیے تیار نہیں ہے ،
اور اگر تم نے اُس علم کے بعد ، جو تمہارے پاس آچکا ہے ، اُن کی خواہشات کی پیروی کی ، تو یقینا تمہارا شمار ظالموں میں ہوگا۔ (145)
٭٭نبی کریم ﷺ کو اور اہل ایمان والوں کو واضح نصیحت کی جارہی ہے کہ باطل خواہشات کی پیروی نہ کرنا۔
٭سورۃ المائدہ 5۔
پھر اے نبی ﷺ ، ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے اور الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے اُس کی تصدیق کرنے والی اور اُس کی محافظ و نگہبان ہے لہٰذا تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور
جو حق تمہارے پاس آیا ہے اُس سے منہ موڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ ہم نے تم (انسانوں) میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک راہِ عمل مقرر کی۔ اگرچہ تمہارااللہ چاہتا تو تم سب کو ایک امت بھی بنا سکتا تھا ، لیکن اس نے یہ اس لیے کیا کہ جو کچھ اُس نے تم لوگوں کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے لہٰذا بھلائیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو ۔ آخر کار تم سب کواللہ کی طرف پلٹ کر جانا ہے ،
پھر وہ تمہیں اصل حقیقت بتا دے گا جس میں تم اختلاف کرتے رہے ہو ۔(48)
میرے پیارے بھائیو!تمام پیغمبروں کی لغزرشوں کی درستگی کی گئی ان کی کمیوں ،کو پورا کیا گیا اب اللہ کا فرمان بھی سن لیں ۔ہدایت آنے کے بعد دوبارہ غلطی اللہ بھی معاف نہیں کرتا۔
٭٭میرااب آپ شماریہ جی سے سوال ہے۔بھاگ نہ جانا پھر سے ۔
٭جب اللہ نے واضح منع فرما دیا تو کیا یہ لغزرش دوباری کر سکتے ہیں یعنی ایک دفعہ سمجھایا پھر سمجھایا پھر سختی سے سمجھایا وہ ایک انسان تھے غلطیاں ہو سکتی ہیں جب سختی سے سمجھادیا اور پیغمبر نے اسے غلطی تسلیم بھی کیا اور واضح معافی بھی مانگی تو کیا وہ اپنی لغزرش پر دوبارہ آجائیں گے یا آ سکتے ہیں؟۔جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے لغزرش کی جانتے ہوئے بھی کہ میرا والد کافر ہے لیکن جب اللہ نے واضح نصیحت اور تنبیہ کر دی کہ یہ مشرک ہے تیرے رب کا دشمن ہے اور اس پر ابراھیم علیہ السلام نے غلطی کو تسلیم بھی کیا اور اللہ سے معافی مانگی کیا اس کے باوجود وہ اپنی اس لغزرش پھر قیامت کے دن قائم رہیں گے؟
حدیث کے تناظر میں ۔۔۔۔۔صحیح بخاری حدیث نمبر4476باب اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا بیان۔
صحیح بخاری حدیث نمبر 4712باب آیت کی تفسیر"ان لوگوں کی نسل والو!جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں سوار کیا تھا۔۔۔اب آپ کا عقیدہ ہے کہ۔جو نیلے رنگ میں نیچے دیکھایا گیا ہےواہ کیا عقیدہ رکھتے ہیں آپ سب۔میرا سوال کیا یہ عقیدہ قرآن کے مطابق ہے ۔؟ادھر اودھر کی باتوں سے بہتر ہے جواب دیں۔
٭٭٭٭٭لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے ، لیکن یہ بھی کہیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں ،
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ کیونکہ ان کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کر دئیے گئے ہیں ۔٭٭٭٭٭
٭آپ کا ایمان ہے کہ صرف نبی کریم ﷺ کے سارے اگلے اور پچھلے گناہ اللہ تعالیٰ نے بخش دئے ۔۔۔۔ہاں یا نہیں جواب آپ پر قرض بھاگنے سے کچھ نہیں ہونا۔۔
لیکن اللہ کا شکر ہے میرا ایمان ہے کہ اللہ نے تمام پیغمبروں کے اگلے اور پچھلے گناہ ان کی زندگیوں میں ہی معاف فرمائے اور جنت کی بشارت دی اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے ۔
٭آپ کا ایمان ہے کہ تمام پیغمبر سوائے نبی کریم ﷺ کے کسی نہ کسی خوف، رنج میں ،غم میں ،مبتلہ ہوں گے۔۔۔۔ہاں یا نہیں۔واضح جواب دیں۔ادھر اودھر کی بہت باتیں ہوگئیں۔
لیکن اللہ کا شکر ہے میرا ایمان ہے کہ اللہ کے تمام پیغمبر ان شائ اللہ کسی رنج میں نہیں ہوں گے کسی غم میں نہیں ہوں گے ۔۔۔۔۔
سورۃ البقرہ 2۔ہم نے کہا کہ ’’ تم سب یہاں سے اُتر جائو ۔ پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے ، تو جو لوگ میری اُس ہدایت کی پیروی کریں گے ، اُن کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا ۔‘‘ (38)
اس آیت کے تناظر میں آپ سے کا ایمان ہے کہ صرف نبی کریم ﷺ اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر تھے باقی تمام پیغمبر اللہ کی ہدایت پر نہیں تھے اس لئے وہ سب خوف ،رنج ،میں مبتلہ ہوں گے!!!!؟
سورۃ النحل16۔
دوسری طرف جب خدا ترس لوگوں سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ کیا چیز ہے جو تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوئی ہے ، تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ’’بہترین چیز اتری ہے۔‘‘ اس طرح کے نیکو کار لوگوں کے لیے اس دنیا میں بھی بھلائی ہے ، اور آخرت کا گھر تو ضرور ہی ان کے حق میں بہتر ہے ۔ بڑا اچھا گھر ہے متقیوں کا ، (30)دائمی قیام کی جنتیں ، جن میں وہ داخل ہوں گے ، نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی ، اور سب کچھ وہاں عین ان کی خواہش کے مطابق ہو گا ۔ جزا دیتا ہے اللہ متقیوں کو۔(31)ان متقیوں کو جن کی روحیں پاکیزگی کی حالت میں جب ملائکہ قبض کرتے ہیں تو کہتے ہیں ’’سلام ہو تم پر ، جائو جنت میں اپنے اعمال کے بدلے۔‘‘(32)
٭٭٭سورۃ النحل میں اللہ یہ کن کی باتیں کر رہا ۔۔۔۔۔پیغمبر ہی نہیں بلکہ جنہوں نے بھی اللہ کی ہدایت کی پیروی کی اور تسلیم کیا حق کو اللہ تعالیٰ نے میرے اور آپ کے رب نے انہیں بشارت دی ہے غور کریں۔
سورۃ التوبہ 9۔وہ مہاجر و انصار جنہوں نے سب سے پہلے دعوتِ ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی، نیز وہ جو بعد میں راست بازی کے ساتھ اُن کے پیچھے آئفے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ، اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے ، یہی عظیم الشان کامیابی ہے۔(100)
٭٭٭٭٭کون لوگ ہیں جن سے اللہ ان کی زندگیوں میں ہی راضی ہوا؟
سورۃ الجاثیہ45۔
یہ تمہارا انجام اس لیے ہُوا ہے کہ تم نے اللہ کی آیات کا مذاق بنا لیا تھا اور تمہیں دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال دیا تھا ۔ لہٰذا آج نہ یہ لوگ دوزخ سے نکالے جائیں گے اور نہ ان سے کہا جائے گا کہ معافی مانگ کر اپنے رب کو راضی کرو ۔‘‘ (35)
سورۃ المجادلہ 58۔
تم کبھی یہ نہ پائو گے کہ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ اُن لوگوں سے محبت کرتے ہوں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت کی ہے ، خواہ وہ ان کے باپ ہوں ، یا اُن کے بیٹے ، یا اُن کے بھائی یا ان کے اہلِ خاندان ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کر دیا ہے اور اپنی طرف سے ایک رُوح عطا کر کے اُن کو قوت بخشی ہے۔ وہ اُن کو ایسی جنّتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ اِن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ اُن سے راضی ہوا ، اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ وہ اللہ کی پارٹی کے لوگ ہیں۔ خبردار ر ہو اللہ کی پارٹی والے ہی فلاح پانے والے ہیں۔(22)
سورۃ البینہ 98۔ان کی جزا ، ان کے رب کے ہاں ، دائمی قیام کی جنّتیں (ہمیشگی کے باغ ہیں) ، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی ، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ یہ کچھ ہے اس شخص کے لیے جس نے اپنے رب کا خوف کیا ہو۔ (8)