• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن لاریب ہے!! حدیث کی طرف پھر رجوع کیوں؟

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
علامہ تمنا عمادی ؒکا مسلک بھی وہ نہیں ہے جو محترم فیضان اکبر صاحب کا ہے ۔ ان کو چاہیے کہ ان کی دوسری کتابوں کا بھی مطالعہ کریں۔
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
السلام علیکم!
ہمارے علمائ اکرام سب کہ سب کہیں نہ کہیں غلطی کر چکے ہیں۔ جیسے ہاروت ماروت کچھ کہتے فرشتے کچھ کہتے فرشتے نہیں تھے، یعنی زیادہ تر نے ان کو فرشتے کہا جو غلط ہے اور 3 یا 4 نے کہا یہ فرشتے نہیں شیطان انسانوں میں سے تھے ۔اسی طرح زیادہ طر ہمارے علمائ اور مفسیرین سمجھنے ہیں کہ جادو ہے ، نظر بد ہے اور 3 یا 4 ایسے ہیں جو کہتے جادو صرف فریب ہے ، ہاتھ کی صفائی ہے ۔ اکثر لوگ گمراہ ہیں۔ کوئی بھی مفسر 100 غلط نہیں لیکن آج میرے لئے اس علم کو حاصل کرنا کیا غلط کیا درست بہت آسان ہے ۔ ہر بات کو قرآن مجید پر پیش کرنے سے بات واضح ہو جاتی اور جن باتوں پر قرآن خاموش ہے ہم انہیں علمائ کی تحقیق کو دیکھتے ہیں ۔۔اور کوشش کرتے ہیں کہ حق اور سچ کی طرف رجوع کیا جائے ۔ ہر حدیث واقع نبی کریم ﷺ کی کہی ہوئی نہیں شک موجود ہے تحقیق لازم ہے۔شکریہ۔
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

آپ کا سوال نہیں ہے تو آپ ہماری بات اور موقف کیسے سمجھیں گے؟

چلیں میں پھر بھی کوشش کرتا ہوں۔ ہم بات آپس میں گفتگو کے انداز میں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کریں گے۔
آپ کہتے ہیں کہ قرآن مجید لاریب ہے۔ یعنی اس میں کوئی شک نہیں اور اس کے علاوہ ہر کتاب میں کچھ نہ کچھ شک ہے۔ اتنی بات تو درست ہے۔ لیکن کیا اس کے "لاریب" ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اس کا معنی و مفہوم بھی صرف اسی سے سمجھا جائے گا؟
میں مثال سے اپنی بات کو واضح کرتا ہوں: "ذلک الکتاب لاریب فیہ"۔ یہ قرآن کریم کی آیت ہے۔ ان لوگوں کی بات چھوڑیے جن کے زمانے میں قرآن کریم اترا تھا، وہ گزر گئے۔ آج آپ کو اور مجھے اگر صرف اس ایک آیت کا معنی سمجھنا ہو اور ہمارے پاس نہ کوئی ترجمہ قرآن ہو اور نہ ہی کوئی لغت (یعنی ڈکشنری) اور عربی گرائمر کی کتاب، تو کیا ہم اس کا ترجمہ کر سکتے ہیں؟؟ ظاہر ہے کہ نہیں کر سکتے کیوں کہ یہ ہماری کیا آج کے عرب کی بھی زبان نہیں ہے۔
اب اگر ہم کسی کے کیے ہوئے ترجمے یا کسی ڈکشنری اور گرائمر کی کتاب کا سہارا لے کر اس سے اس کو سمجھتے ہیں تو لاریب کتاب تو صرف قرآن ہے۔ لوگوں کا کیا ہوا ترجمہ اور ڈکشنریاں تو شک سے بالکل بھی خالی نہیں۔ تو کیا ہم یہ ترجمہ دیکھنے والا کام غلط کریں گے؟
اور اگر ہم ترجمہ یا ڈکشنری اور گرائمر کو شک کی وجہ سے نہیں دیکھتے تو پھر ہمارے پلے تو صرف عربی کے الفاظ رہ جائیں گے۔ ان سے ہم کیا سمجھیں گے؟
اتنی بات کا جواب دیجیے گا۔


نبی کریم ﷺ کے بارے میں اللہ تعالی نے جو صفات قرآن کریم میں بیان کی ہیں ان میں یہ ہیں "ربنا و ابعث فيهم رسولا منهم يتلو عليهم آياتك و يعلهم الكتاب و الحكمة و يزكيهم"۔ یہ سورہ بقرہ کی آیت 129 ہے اور اس میں حضرت ابراہیمؑ کی دعا مذکور ہے:
"اے ہمارے رب ان میں ایک ایسا رسول بھیجیے جو ان پر آپ کی آیات تلاوت کرے اور انہیں کتاب سکھائے اور حکمت اور ان کی صفائی (تزکیہ) کرے۔"
یہ دعا حضرت نبی کریم ﷺ کی صورت میں پوری ہوئی۔
دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ اس میں پہلے آیات کی تلاوت کا ذکر ہے تو یہ تو ہوگئیں قرآن کریم کی آیات۔ پھر اس کے بعد کتاب کو سکھانے کا ذکر ہے۔ یہ بھلا کیا ہے؟ جب قرآن عرب کی اسی زمانے کی زبان میں تھا تو ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے نا کہ نبی کریم ﷺ انہیں الف باء تاء سے قرآن کریم سکھاتے تھے۔ وہ تو ان کو ویسے ہی سمجھ آ جاتا ہوگا۔ تو پھر کتاب کو سکھانا کیا چیز ہے؟
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کتاب کو سکھانا اس کا اصل معنی اور مفہوم سمجھانا ہے۔ ورنہ متن والا معنی تو سب کو ویسے ہی سمجھ میں آ جاتا تھا۔ اس کو سکھانے کی کیا ضرورت تھی؟
تو ہمیں پتا یہ چلا کہ قرآن کریم کے سمجھنے میں دو چیزیں ہیں: ایک آیات قرآن اور دوسری اس کا معنی اور مفہوم جو نبی کریم ﷺ نے تعلیم فرمایا۔

اب یہاں ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے تو معنی اور مفہوم سمجھا دیا تھا لیکن ہو سکتا ہے کہ بعد والوں سے غلط فہمی اور بھول چوک ہو گئی ہو اور اسی لیے روایات اور اقوال میں اختلافات ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ آیات قرآن ہم تک کیسے پہنچیں؟ ہم میں سے کتنوں نے نبی کریم ﷺ کے ہاتھ کا تحریر کردہ قرآن کریم دیکھا ہے؟ ظاہر ہے کسی نے بھی نہیں۔ آپ تو کرواتے ہی املاء تھے یعنی آپ بتاتے اور دوسرے لکھتے تھے۔ وہ لکھوایا ہوا بھی کتنوں نے دیکھا ہے؟ وہ بھی کسی نے نہیں دیکھا۔
تو ہم تک قرآن پہنچا کیسے؟؟؟ اس سوال کا صرف ایک ہی جواب ہے کہ نبی کریم ﷺ سے سیکھنے والوں اور ان سے ان کے بعد والوں کے ذریعے۔ تو مجھے بتائیے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ یہ بعد والے جب قرآن کی آیات ہم تک پہنچائیں تو ان میں تو کوئی شک نہ ہو اور جب اس کی تعلیم پہنچائیں تو اس میں اتنا شک ہو کہ ہم اسے شک کی وجہ سے چھوڑ دیں؟؟
اصل بات یہ ہے کہ قرآن کریم میں تو بہت کم احکامات ہیں۔ اکثر واقعات ہیں۔ نبی کریم ﷺ صحابہ کرام رض کو آیات قرآنی بھی سکھاتے تھے اور وقتاً فوقتاً ضرورت کے مطابق انہیں اس کا مفہوم بھی سمجھاتے تھے۔ چونکہ قرآن کریم کا تو معجزہ ہی یہ ہے کہ یہ انتہائی بلاغت والی کتاب ہے اور عرب کی بلاغت میں ایک خصوصیت یہ ہوتی تھی کہ وہ کم بات کر کے زیادہ سے زیادہ مفہوم نکالا کرتے تھے۔ تو ظاہر ہے کہ قرآن کریم کی بھی ایک ایک آیت سے کئی مسائل حل ہوتے ہیں جو نبی کریم ﷺ موقع کی مناسبت سے صحابہ کرام رض کو سمجھاتے رہتے تھے۔ سارے صحابہ تو ہر وقت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوتے تھے۔ وہ دنیا کے کام بھی کرتے تھے۔ جس صحابی رض کو آپ ﷺ جو سمجھاتے تھے وہ اسے محفوظ کر لیتے تھے۔
جب نبی کریم ﷺ دنیا سے رحلت فرما گئے تو ان صحابہ کرام رض نے اپنا اپنا سمجھا ہوا مفہوم آگے والوں کو صاف صاف سمجھا دیا اور یہ نہیں سوچا کہ فلاں بڑا آدمی تو اس مفہوم کو اس طرح بیان کر رہا ہے اور میں یہ کر رہا ہوں۔ انہوں نے امانت کا حق ادا کر دیا۔
اس لیے تفسیر کی روایات میں اختلاف ہو گیا۔ حقیقت اکثر یہ ہوتی ہے کہ ایک ہی آیت کے تمام مفہوم صحیح ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر آیت قرآنی "ولا تلقوا بایدیکم الی التہلکہ" کے بارے میں مختلف روایات ہیں کہ آپ نے خود کو ہلاکت میں ڈالنے کے بارے میں یہ فرمایا، یا ایک جماعت جو خود کو جلا رہی تھی ان کے بارے میں یہ فرمایا یا مال کو ہلاک کرنے کے بارے میں یہ فرمایا کہ اس آیت سے یہ کام منع ہے۔ درست بات یہ ہے کہ ہر قسم کی ہلاکت کے بارے میں یہ آیت ہے۔ نبی کریم ﷺ نے تو اس وقت موجود حالت کے حساب سے صحابہ کرام رض کو یہ بتایا کہ اللہ پاک نے یہ فرمایا ہے اور اس میں یہ مخصوص ہلاکت بھی شامل ہے اس لیے یہ کام نہیں کرو۔ اب جس نے جس موقع پر آپ کی بات سنی اس نے اسی کو نقل کر دیا۔
السلام علیکم!
آپ نے کہا۔
میں مثال سے اپنی بات کو واضح کرتا ہوں: "ذلک الکتاب لاریب فیہ"۔ یہ قرآن کریم کی آیت ہے۔ ان لوگوں کی بات چھوڑیے جن کے زمانے میں قرآن کریم اترا تھا، وہ گزر گئے۔ آج آپ کو اور مجھے اگر صرف اس ایک آیت کا معنی سمجھنا ہو اور ہمارے پاس نہ کوئی ترجمہ قرآن ہو اور نہ ہی کوئی لغت (یعنی ڈکشنری) اور عربی گرائمر کی کتاب، تو کیا ہم اس کا ترجمہ کر سکتے ہیں؟؟ ظاہر ہے کہ نہیں کر سکتے کیوں کہ یہ ہماری کیا آج کے عرب کی بھی زبان نہیں ہے۔

آپ کی یہ بات ہی غلط ہے یعنی آپ کی بنیاد ہی غلط ہے کہ ہم ان کو چھوڑ دین جن پر قرآن نازل ہوا۔۔۔۔۔۔جناب میرے محترم بھائی۔۔۔۔۔۔۔شاید آپ کو معلوم نہیں قرآن عربی میں نازل ہوا لیکن اجمی کو بھی تبلیغ کی گئی۔ کبھی بھی بنیادی زبان کسی بھی قوم کی وہ مرتی نہیں۔ وہ دفن نہیں ہوتی۔۔۔۔۔


میرا ایک سیدھا سا سوال ہے۔ ۔ ۔ آپ نہیں کہہ سکتے کہ قرآن کے علاوہ بھی کوئی لاریب کتاب ہے۔۔۔۔۔پھر بھی اگر قرآن کو سمجھنے کے لئے قرآن مجید کے معنی و مفہوم وہ کسی صحیح بخاری ،مسلم، ترمزی کو سامنے رکھ کر کریں گے تو آپ قرآن مجید کو کیسے لاریب کہیں گے ۔۔۔اور کیسے کہیں گے کہ حاکم کتاب قرآن ہے۔۔۔۔۔۔حاکم کا مطلب ہے ۔۔قرآن سے گواہی ۔۔۔۔جب آپ پہلے ہی قرآن کے معنی و مفہوم روایات کو سامنے رکھ کر لے چکے تو قرآن کیسے حاکم۔۔۔؟ اور لاریب کیسے۔۔۔؟؟؟؟یہ مسلہ سمجھائیں شکریہ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
آپ کی یہ بات ہی غلط ہے یعنی آپ کی بنیاد ہی غلط ہے کہ ہم ان کو چھوڑ دین جن پر قرآن نازل ہوا۔۔۔۔۔۔جناب میرے محترم بھائی۔۔۔۔۔۔۔شاید آپ کو معلوم نہیں قرآن عربی میں نازل ہوا لیکن اجمی کو بھی تبلیغ کی گئی۔ کبھی بھی بنیادی زبان کسی بھی قوم کی وہ مرتی نہیں۔ وہ دفن نہیں ہوتی۔۔۔۔۔
وعلیکم السلام
آپ کی اس بات کا خلاصہ یہ ہوا کہ ہم قدیم عرب کی لغت کو نہیں چھوڑ سکتے اور ہم لغت کی کتابوں کا سہارا لینے پر مجبور ہیں۔
اب آپ ذرا یہ سوچئے کہ آپ کے اپنے الفاظ کو ذرا بدل کر "اگر قرآن مجید کے معنی و مفہوم وہ کسی تاج العروس، لسان العرب، المعجم الوسیط کو سامنے رکھ کر کریں گے تو آپ قرآن مجید کو لاریب کیسے کہیں گے"؟
اس کی ایک آسان سی مثال دیتا ہوں۔ قرآن کریم میں مختلف الفاظ ہیں جن کے معانی ایک سے زیادہ ہیں۔ مثلا قرآن کریم میں ہے "کالاعلام"۔ یہ "علم" کی جمع ہے۔ اور لغت ہمیں علم کا کیا معنی بتاتی ہے؟
"(الْعلم) الْعَلامَة والأثر والفصل بَين الْأَرْضين وَشَيْء مَنْصُوب فِي الطَّرِيق يهتدى بِهِ ورسم فِي الثَّوْب وَسيد الْقَوْم والجبل والراية (ج) أَعْلَام"
(المعجم الوسیط)
ترجمہ: "علامت، نشان، زمینوں کے درمیان میں فاصلہ کرنے والی چیز، راستے میں کھڑی کوئی چیز جس سے رہنمائی حاصل کی جا سکے، کپڑے میں نقش و نگار، قوم کا سردار، پہاڑ، جھنڈا۔ جمع: اعلام"
اب دیکھیے لغت سے بھی قرآن کے معنی میں شک آ گیا کیوں کہ یہ آٹھ معانی ہیں اور قرآن نے خود وضاحت کی نہیں ہے کہ کون سا معنی لیا جائے گا۔ اسے کیسے دور کریں گے؟
اگر آپ اس کو سمجھ جاتے ہیں کہ یہاں بھی قرآن کریم کے معانی فیصلہ ہم کسی اور چیز سے کرتے ہیں تو پھر میں آگے آپ کو سمجھاتا ہوں۔ اگر یہ واضح نہیں ہوا تو مزید سمجھ لیجیے۔
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
وعلیکم السلام
آپ کی اس بات کا خلاصہ یہ ہوا کہ ہم قدیم عرب کی لغت کو نہیں چھوڑ سکتے اور ہم لغت کی کتابوں کا سہارا لینے پر مجبور ہیں۔
اب آپ ذرا یہ سوچئے کہ آپ کے اپنے الفاظ کو ذرا بدل کر "اگر قرآن مجید کے معنی و مفہوم وہ کسی تاج العروس، لسان العرب، المعجم الوسیط کو سامنے رکھ کر کریں گے تو آپ قرآن مجید کو لاریب کیسے کہیں گے"؟
اس کی ایک آسان سی مثال دیتا ہوں۔ قرآن کریم میں مختلف الفاظ ہیں جن کے معانی ایک سے زیادہ ہیں۔ مثلا قرآن کریم میں ہے "کالاعلام"۔ یہ "علم" کی جمع ہے۔ اور لغت ہمیں علم کا کیا معنی بتاتی ہے؟
"(الْعلم) الْعَلامَة والأثر والفصل بَين الْأَرْضين وَشَيْء مَنْصُوب فِي الطَّرِيق يهتدى بِهِ ورسم فِي الثَّوْب وَسيد الْقَوْم والجبل والراية (ج) أَعْلَام"
(المعجم الوسیط)
ترجمہ: "علامت، نشان، زمینوں کے درمیان میں فاصلہ کرنے والی چیز، راستے میں کھڑی کوئی چیز جس سے رہنمائی حاصل کی جا سکے، کپڑے میں نقش و نگار، قوم کا سردار، پہاڑ، جھنڈا۔ جمع: اعلام"
اب دیکھیے لغت سے بھی قرآن کے معنی میں شک آ گیا کیوں کہ یہ آٹھ معانی ہیں اور قرآن نے خود وضاحت کی نہیں ہے کہ کون سا معنی لیا جائے گا۔ اسے کیسے دور کریں گے؟
اگر آپ اس کو سمجھ جاتے ہیں کہ یہاں بھی قرآن کریم کے معانی فیصلہ ہم کسی اور چیز سے کرتے ہیں تو پھر میں آگے آپ کو سمجھاتا ہوں۔ اگر یہ واضح نہیں ہوا تو مزید سمجھ لیجیے۔
السلام علیکم!
آپ کی مثال میں میرا جواب ہے ۔ ۔ ۔ قرآن کریم میں مختلف الفاظ ہیں جن کے معانی ایک سے زیادہ ہیں۔۔۔۔۔اب ہمیں یہاں دیکھنا ہو گا کون سا لفظ سیاق و سباق کے ساتھ جاتا ہے ۔ ۔ ۔ اللہ کی شان ، قدرت، فرشتوں ،پیغمبروں کے بارے میں ۔۔۔۔اب یہ فیصلہ بھی قرآن ہی کر ڈالتا ہے ہمیں تفسیر کی بجائی قرآن کی ہی آیات کے معنی و مفہوم کا سہارا لے کر اس الجھ کو دور کر سکتے ہیں۔۔۔۔اس سے ہم اپنے فہم،دماغ کے شیطانی وار سے بچ سکتے ہیں۔ اس کا آسان حل یہی ہے کہ ہر بات کو قرآن مجید پر ہی پیش کریں پہلے اور آیت سے ہی فیصلہ لیں۔
اور رہی بات لغت کی ۔۔۔میرے پیارے محترم ۔۔۔۔لغت بھی ہم انسانوں کی ایجاد کی گئی ہے ۔۔۔اگر ہم قرآن کا معنی و مفہوم کو واقع سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں آج ان سب تراجم پر ہی غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
اور مجھے پر یہ پابندی ہے جس کی وجہ سے بات درست طریقہ سے نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔
لغت کے آٹھ معنی کون سا کہاں آنا چاہے کیسے اور کیوں۔۔۔۔۔اس کا جواب بھی مختلف آیات سے ہی لیا جائے ۔۔۔۔تو واضح ہو جائے گا۔۔۔۔۔لیکن جب ہم روایات کی طرف رجوع کر کے جائیں گے اور آیات پر غور نہیں کرتے تو ہم گمراہ ہوں گے۔۔۔

اس کی مثال عام آپ کو سورۃ البقرہ 102 میں واضح ہے۔۔۔۔
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
اسی طرح ایک مثال ہے کہ بعض لوگوں کا خیال ہے نبی بشر نہیں ہیں نور ہیں۔۔۔کیا آپ کو معلوم ہے یہ کیوں ۔۔کیونکہ ان لوگوں نے روایات کو حاکم بنا دیا قرآن پر قرآن سے غلط مفہوم نکال لیا اور روایات کو حاکم تسلیم کر کے ان روایات کو سامنے رکھ کر معنی و مفہوم نکال لئے ۔۔۔جبکہ واضح قرآن کی آیات ہی سے ثابت ہے کہ تمام پیغمبر انسان تھے۔ اللہ کی مخلوق تھے۔ پیدا کئے گئے۔گوشت،خون،ہڈیوں سے بنے تھے۔۔۔۔جو انسان کی تخلیق ہے۔۔۔ان سب پر وفات آئی۔۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم!
آپ کی مثال میں میرا جواب ہے ۔ ۔ ۔ قرآن کریم میں مختلف الفاظ ہیں جن کے معانی ایک سے زیادہ ہیں۔۔۔۔۔اب ہمیں یہاں دیکھنا ہو گا کون سا لفظ سیاق و سباق کے ساتھ جاتا ہے ۔ ۔ ۔ اللہ کی شان ، قدرت، فرشتوں ،پیغمبروں کے بارے میں ۔۔۔۔اب یہ فیصلہ بھی قرآن ہی کر ڈالتا ہے ہمیں تفسیر کی بجائی قرآن کی ہی آیات کے معنی و مفہوم کا سہارا لے کر اس الجھ کو دور کر سکتے ہیں۔۔۔۔اس سے ہم اپنے فہم،دماغ کے شیطانی وار سے بچ سکتے ہیں۔ اس کا آسان حل یہی ہے کہ ہر بات کو قرآن مجید پر ہی پیش کریں پہلے اور آیت سے ہی فیصلہ لیں۔
اور رہی بات لغت کی ۔۔۔میرے پیارے محترم ۔۔۔۔لغت بھی ہم انسانوں کی ایجاد کی گئی ہے ۔۔۔اگر ہم قرآن کا معنی و مفہوم کو واقع سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں آج ان سب تراجم پر ہی غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
اور مجھے پر یہ پابندی ہے جس کی وجہ سے بات درست طریقہ سے نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔
لغت کے آٹھ معنی کون سا کہاں آنا چاہے کیسے اور کیوں۔۔۔۔۔اس کا جواب بھی مختلف آیات سے ہی لیا جائے ۔۔۔۔تو واضح ہو جائے گا۔۔۔۔۔لیکن جب ہم روایات کی طرف رجوع کر کے جائیں گے اور آیات پر غور نہیں کرتے تو ہم گمراہ ہوں گے۔۔۔

اس کی مثال عام آپ کو سورۃ البقرہ 102 میں واضح ہے۔۔۔۔
وَلَهُ الْجَوَارِ الْمُنْشَآتُ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلَامِ

یہ سورۃ الرحمان کی آیت ہے۔ اس میں "اعلام" میں آٹھوں معانی لگ سکتے ہیں (اگر آپ سے نہ لگ سکیں تو مجھے بتائیے گا۔ میں لگا کر دکھاؤں گا)۔ نہ سیاق و سباق میں کچھ ہے اور نہ دیگر آیات میں اس کی کہیں کوئی ذرا سی بھی وضاحت ہے۔
آپ ان آٹھ معانی میں سے ایک کی تعیین کیسے کریں گے؟
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
وَلَهُ الْجَوَارِ الْمُنْشَآتُ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلَامِ

یہ سورۃ الرحمان کی آیت ہے۔ اس میں "اعلام" میں آٹھوں معانی لگ سکتے ہیں (اگر آپ سے نہ لگ سکیں تو مجھے بتائیے گا۔ میں لگا کر دکھاؤں گا)۔ نہ سیاق و سباق میں کچھ ہے اور نہ دیگر آیات میں اس کی کہیں کوئی ذرا سی بھی وضاحت ہے۔
آپ ان آٹھ معانی میں سے ایک کی تعیین کیسے کریں گے؟
السلام علیکم! میرے پیارے بھائی۔۔۔۔میرا مقصد آپ سے علم کی بحث نہیں ہمارے علمائ نے ترجمہ کیا۔
٭اب جہاں دیگر آیات وضاحت کرتی ہیں اور الفاظ کا تعین بھی کرتی ہیں ان آیات کا کیا۔۔۔۔؟
آپ بات کو الجھا رہے ہیں۔میرا ایک آسان سا سوال ہے اور یہ کہ جن آیات کا مفہوم ، معنی ، مطلب، دوسری آیات کر دیتی ہیں تو ہم روایات اور احادیث کی طرف رجوع کیوں کرتے ہیں جبکہ وہ واضح قرآن کے خلاف ہوتی ہیں۔۔۔اس کی مثال میں دے سکتا ہوں ۔۔لیکن پہلے آپ تعین کریں میں کہنا کیا چہتا ہوں آپ غور کریں کہ میرا مقصد آپ سے بات کا کیا ہے ۔۔۔میں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ احادیث مبارکہ کی کوئی اہمیت نہیں۔۔میرے پیارے بھائی۔۔۔قرآن اور حدیث ہی مکمل دین ہے ان دونوں میں ہی دین ہے ایک سے بھی انکار ایمان ،،دین کا انکار ہے۔۔۔لیکن میرا صرف ایک نقظہ ہے وہ سمجھنے کی کوشش کریں۔
٭جن آیات کی وضاحت قرآن مجید میں ہے اور احادیث سے غلط نقطہ،نتیجہ،مفہوم، معنی ہمارے علمائ اکرام نے نکال لیا یہ غلط ہے ۔۔۔اگر بات سمجھ آگئی ہو تو ہم بات آگے بڑھا سکتے ہیں۔ شکریہ
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
السلام علیکم!
٭آپ کہتے ہیں کوئی بھی صحیح حدیث جن کو صحیح بخاری میں درج کیا گیا ہے وہ قرآن کے خلاف نہیں؟۔۔ایسا ہی ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!!۔ یہ بات آپ کے تمام علمائ اکرام کرتے ہیں۔
اس سوال کا جواب بھی دیں اور اوپر والی عبارت پر بھی پھر غور کریں۔۔شکریہ
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم! میرے پیارے بھائی۔۔۔۔میرا مقصد آپ سے علم کی بحث نہیں ہمارے علمائ نے ترجمہ کیا۔
٭اب جہاں دیگر آیات وضاحت کرتی ہیں اور الفاظ کا تعین بھی کرتی ہیں ان آیات کا کیا۔۔۔۔؟
آپ بات کو الجھا رہے ہیں۔میرا ایک آسان سا سوال ہے اور یہ کہ جن آیات کا مفہوم ، معنی ، مطلب، دوسری آیات کر دیتی ہیں تو ہم روایات اور احادیث کی طرف رجوع کیوں کرتے ہیں جبکہ وہ واضح قرآن کے خلاف ہوتی ہیں۔۔۔اس کی مثال میں دے سکتا ہوں ۔۔لیکن پہلے آپ تعین کریں میں کہنا کیا چہتا ہوں آپ غور کریں کہ میرا مقصد آپ سے بات کا کیا ہے ۔۔۔میں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ احادیث مبارکہ کی کوئی اہمیت نہیں۔۔میرے پیارے بھائی۔۔۔قرآن اور حدیث ہی مکمل دین ہے ان دونوں میں ہی دین ہے ایک سے بھی انکار ایمان ،،دین کا انکار ہے۔۔۔لیکن میرا صرف ایک نقظہ ہے وہ سمجھنے کی کوشش کریں۔
٭جن آیات کی وضاحت قرآن مجید میں ہے اور احادیث سے غلط نقطہ،نتیجہ،مفہوم، معنی ہمارے علمائ اکرام نے نکال لیا یہ غلط ہے ۔۔۔اگر بات سمجھ آگئی ہو تو ہم بات آگے بڑھا سکتے ہیں۔ شکریہ
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
محترم بھائی میرا مقصد آپ سے بحث کرنا نہیں بلکہ صرف سمجھانا تھا۔ بہرحال اس بات کو چھوڑ دیتے ہیں اور اس موضوع پر بات کر لیتے ہیں۔
آپ نے جو یہ کہا کہ
میرا ایک آسان سا سوال ہے اور یہ کہ جن آیات کا مفہوم ، معنی ، مطلب، دوسری آیات کر دیتی ہیں تو ہم روایات اور احادیث کی طرف رجوع کیوں کرتے ہیں جبکہ وہ واضح قرآن کے خلاف ہوتی ہیں
اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم میں خود دو احکام موجود ہیں:
و ما آتاکم الرسول فخذوہ و ما نہاکم عنہ فانتہوا
ترجمہ: "جو تمہیں رسول دیں اسے لے لو اور جس چیز سے روکیں اس سے رک جاؤ۔"
یعنی قرآن کریم نے خود یہ بتایا ہے کہ قرآن کا حکم ہو سکتا ہے ہمیں صحیح سمجھ نہ آرہا ہو ہماری ناقص فہم کی وجہ سے تو ہم یہ دیکھیں کہ نبی کریم ﷺ نے کس کام کا حکم دیا ہے اور کس سے روکا ہے اور اس کے مطابق عمل کر لیں۔

دوسرا حکم یہ ہے:
و ما ینطق عن الہوی ان ہو الا وحی یوحی
"وہ خواہش سے نہیں بولتے۔ یہ تو وحی ہوتی ہے جو کی جاتی ہے۔"
یعنی قرآن کریم ہمیں یہ بتا رہا ہے کہ روایات اور احادیث میں جو کچھ ہے وہ بھی وحی ہے اس لیے قرآن کریم جو خود وحی ہے اس کی تشریح اور توضیح کے لیے روایات میں موجود وحی کو دیکھا جائے۔

نبی کریم ﷺ کی صفت بھی قرآن کریم میں حضرت ابراہیمؑ کی دعا کے ضمن میں یہ مذکور ہے:
و یعلمہم الکتاب
"اور وہ انہیں کتاب سکھائے۔"
کتاب یعنی قرآن کریم کے الفاظ سکھانے کا ذکر اس سے پہلے "یتلو علیہم آیاتہ" میں کر دیا تھا۔ پھر الگ سے کتاب سکھانے کا ذکر کیا۔ کیوں؟ یہی بتانے کے لیے کہ کتاب یعنی قرآن پاک کو سکھانا نبی کریم ﷺ کا کام ہے۔ اب آپ ﷺ کی قرآن کریم کی تعلیم ہم تک کیسے پہنچی ہے تو وہ ظاہر ہے کہ روایات اور آثار کی صورت میں پہنچی ہے۔

٭جن آیات کی وضاحت قرآن مجید میں ہے اور احادیث سے غلط نقطہ،نتیجہ،مفہوم، معنی ہمارے علمائ اکرام نے نکال لیا یہ غلط ہے
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ قرآن کریم نے تو خود حکم دیا ہے نبی ﷺ کی تعلیمات کی طرف رجوع کرنے کا تو پھر بھلا یہ غلط کیوں ہے؟

٭آپ کہتے ہیں کوئی بھی صحیح حدیث جن کو صحیح بخاری میں درج کیا گیا ہے وہ قرآن کے خلاف نہیں؟۔۔ایسا ہی ہے؟
اس سوال کا جواب تو ہاں میں ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لفظاً بھی دونوں میں کوئی اختلاف نہیں۔ خود قرآن کریم میں کئی جگہ ظاہری طور پر لفظوں میں اختلاف موجود ہے۔ ایک جگہ ذکر ہے کہ زمین کو آسمان کے بعد بچھایا (النازعات) اور کئی جگہ ذکر ہے کہ زمین کو پہلے پیدا کیا۔
ایک جگہ ذکر ہے کہ ابلیس جن تھا اور کئی جگہ ذکر ہے کہ فرشتوں کو سجدے کا حکم ہوا تو ابلیس نے نہیں کیا۔ تو اس کا کیا قصور؟ وہ تو فرشتہ تھا ہی نہیں۔ وہ تو جن تھا۔

ایسی جگہوں پر آپ جانتے ہیں کیا کیا جاتا ہے؟ ایسی جگہوں پر تطبیق دی جاتی ہے اور اس ظاہری اختلاف کو دور کیا جاتا ہے۔
اسی طرح احادیث اور قرآن کریم کے اختلاف میں بھی ہوتا ہے کہ ظاہراً تو اختلاف ہوتا ہے لیکن تطبیق دے کر اسے دور کیا جاتا ہے۔

تو آپ کے اس سوال کا جواب ہاں میں ہے کہ کوئی بھی صحیح حدیث قرآن کریم کے خلاف نہیں ہے۔ لیکن اس وضاحت کے ساتھ کہ لفظی اختلاف میں تطبیق یا ترجیح کا عمل ہو کر قرآن کریم کے خلاف نہیں رہتی۔
 
Top