• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن میں قصہ عاد

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,400
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
قرآن میں قصہ عاد۔۔۔۔20شوال 1433ھ

خطبہ جمعہ حرم مدنی
خطیب: عبدالمحسن القاسم
مترجم: عمران اسلم​
پہلا خطبہ

إن الحمد لله، نحمده ونستعينه ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا، من يهدِه الله فلا مُضِلَّ له، ومن يُضلِل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدًا عبده ورسوله، صلَّى الله عليه وعلى آله وأصحابه وسلَّم تسليمًا كثيرًا.
أما بعد
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیااور یہ کہ وہ اوامر کا اہتمام اور نواہی سے اجتناب کریں، لوگوں کے حقوق ادا کریں اور ان کےساتھ عدل و احسان کا معاملہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ظلم و زیادتی سے منع فرمایا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب مقدس میں حکم بھی دیا ہے اور روکا بھی ہے، خوشخبری بھی دی ہے اور ڈرایا بھی ہے۔ علاوہ بریں اللہ تعالیٰ نے قرآن مبین میں اہل خرد کے لیے بہت سارے قصص بیان فرمائے ہیں۔ یاد رکھیے!اللہ تعالیٰ کی سنت اقوام ماضیہ، حال اور آنے والی اقوام کے بارے میں یکساں ہے اس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا [الأحزاب: 62]
’’ یہ اللہ کی سنت ہے جو ایسے لوگوں کے معاملے میں پہلے سے چلی آ رہی ہے، اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے -‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن مبین میں ایک ایسی قوم کا تذکرہ کیا ہے جن کی قوت و طاقت اور جاہ و حشمت کی کوئی مثال نہیں تھی۔ قرآن کی باقاعدہ ایک صورت کا نام اس قوم میں بھیجے جانے والے نبی ’ہود‘ کے نام سے ہے۔ اور ایک دوسری دوسری سورۃ ’احقاف‘ان کے جائے سکونت کے نام سے ہے۔
امام سدیؒ فرماتے ہیں:
’’عاد یمن میں احقاف کے مقام پر رہتے تھے۔‘‘
قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اس قوم کا تذکرہ فرمایا ہے۔ امام ابن کثیرؒ فرماتے ہیں:
"ذكر الله قصَّتَهم في القرآن في غير موضعٍ ليعتبر بمصرعهم المؤمنون".
’’اللہ تعالیٰ نے ان کا قصہ قرآن میں متعدد مقامات پر بیان کیا ہے تاکہ مؤمنین ان کے انجام سے عبرت حاصل کریں۔‘‘
وہ بہت وسیع الجثہ تھے، ان کے قد بے حد لمبے اوربہت مضبوط تھے۔ اللہ نے فرمایا:
وَزَادَكُمْ فِي الْخَلْقِ بَسْطَةً [الأعراف: 69].
’’اور تمھیں خوب تنومند کیا۔‘‘
بلکہ اللہ تعالیٰ نے قوت و طاقت میں ان کے ہم مثل کوئی پیدا ہی نہیں کیا تھا۔ فرمایا:
الَّتِي لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلَادِ [الفجر: 8].
’’ جن کے مانند کوئی قوم دنیا کے ملکوں میں پیدا نہیں کی گئی تھی ۔‘‘
امام بغوی فرماتے ہیں:
’’یعنی قوت و قامت میں ان کے قبیلے جیسا کوئی اور نہیں بنایا۔‘‘
وہ اپنی رہائش گاہیں بہت وسیع اور خوبصورت بناتے، جن کے شاندار اور بھاری بھرکم ستون ہوتے اور ان کو خوب نقش و نگار سے مرسع کرتے۔
أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ (6) إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ [الفجر: 6، 7].
’’ تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے رب نے کیا برتاؤ کیا۔ اونچے ستونوں والے عاد ارم کے ساتھ ۔‘‘
وہ اپنے گھروں کی وجہ سے عیش پرست ہو گئے تھے، ان میں سے ہر ایک دوسرے سے بلند و بالا اور مضبوط گھر بنانے میں لگا ہوا تھا، ایسا وہ کسی ضرورت کے تحت نہیں کرتے تھے بلکہ محض لہو و لعب اور قوت و شوکت کے اظہار کے لیے کرتے تھے۔ ہود علیہ السلام نے ان کو ایسا کرنے سے باز کیا اور کہا:
أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِيعٍ آيَةً تَعْبَثُونَ [الشعراء: 128]
’’ تمہارا کیا حال ہے کہ ہر اونچے مقام پر لا حاصل ایک یادگار عمارت بنا ڈالتے ہو۔ ‘‘
وہ اپنا وقت برباد کر رہے تھے، اپنے مضبوط جسموں کو فضول کاموں میں لگا رہے تھے اور ایسے کاموں میں مشغول تھے جو دنیا و آخرت میں بالکل بے فائدہ تھا۔انھوں نے اپنے لیے بڑے بڑے قلعہ نما گھر بنا لیے تھے اور سوچ رہے تھے کہ وہ ہمیشہ دنیا میں رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَتَتَّخِذُونَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [الشعراء: 129]
’’ اور بڑے بڑے قصر تعمیر کرتے ہو گویا تمہیں ہمیشہ رہنا ہے۔‘‘
وہ ان گھروں میں ہمیشہ کےلیے سکونت اختیار نہیں کرنے والےتھے اور ایسی امیدیں لگائے بیٹھے تھے جو پوری ہونے والی نہیں تھیں۔
اللہ تعالیٰ نے ان کےلیے رزق کے دروازے کھول دئیے تھے، ان کو وافر مال عطا کیا تھا، کثرت اولاد سے نوازا تھا، انھیں باغات اور چشموں جیسی نعمتیں دی تھیں۔ نبی علیہ السلام نے ان سے کہا:
أَمَدَّكُمْ بِأَنْعَامٍ وَبَنِينَ (133) وَجَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [الشعراء: 133، 134]
’’ تمہیں جانور دیے، اولادیں دیں (133) باغ دیے اور چشمے دیے ۔‘‘
اور ان کو حکم دیا کہ وہ اللہ کی نعمتوں کو یاد رکھیں تاکہ ان کو دارین کی سعادت میسر آئے:
فَاذْكُرُوا آلَاءَ اللَّهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [الأعراف: 69]
’’ پس اللہ کی قدرت کے کرشموں کو یاد رکھو، امید ہے کہ فلاح پاؤ گے۔ ‘‘
انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری کی اور بتوں کی عبادت کی۔ یہ قوم طوفان کے عذاب سے تباہ ہونے والی قوم نوحؑ کے متصل بعد تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِنْ بَعْدِ قَوْمِ نُوحٍ [الأعراف: 69]
’’ بھول نہ جاؤ کہ تمہارے رب نے نوحؑ کی قوم کے بعد تم کو اُس کا جانشین بنایا ۔‘‘
اللہ کے نبی ہودؑ نے ان کو ایک اللہ کی عبادت اور بتوں سے اظہار بیزاری کی طرف بلایا اور کہا:
يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ [الأعراف: 65]
’’ اے برادران قو م، اللہ کی بندگی کرو، اُس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے۔ ‘‘
انہوں نے نبی کی باتوں کوسنا ان سنا کر دیا اور ان کو مجنون کا لقب عطا کیا۔ اور کہنے لگے:
إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَرَاكَ بَعْضُ آلِهَتِنَا بِسُوءٍ [هود: 54]
’’ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ تیرے اوپر ہمارے معبودوں میں سے کسی کی مار پڑ گئی ہے۔ ‘‘
اور ٹھٹھا کرتے ہوئے کہنے لگے:
إِنَّا لَنَرَاكَ فِي سَفَاهَةٍ [الأعراف: 66]
’’ ہم تو تمہیں بے عقلی میں مبتلا سمجھتے ہیں ‘‘
انہوں نے نبی کی دعوت کو رد کر دیااور تکبر کرتے ہوئے ایمان لانے سے انکار کر دیا۔ اور کہنے لگے:
سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَوَعَظْتَ أَمْ لَمْ تَكُنْ مِنَ الْوَاعِظِينَ [الشعراء: 136]
’’ تو نصیحت کر یا نہ کر، ہمارے لیے یکساں ہے۔ ‘‘
لیکن ان کی سرکشی میں کوئی کمی نہ آئی اور کہنے لگے:
إِنْ هَذَا إِلَّا خُلُقُ الْأَوَّلِينَ [الشعراء: 137]
’’ یہ باتیں تو یوں ہی ہوتی چلی آئی ہیں۔ ‘‘
انہوں نے تكبر كرتے ہوئے بتوں کی عبادت چھوڑنے سے انکار کر دیا، اور رسول کو ماننے سے اس وجہ سے انکار کر دیا کہ وہ بشر ہے۔ کہنے لگے:
مَا هَذَا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يَأْكُلُ مِمَّا تَأْكُلُونَ مِنْهُ وَيَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُونَ [المؤمنون: 33]
’’ یہ شخص کچھ نہیں ہے مگر ایک بشر تم ہی جیسا جو کچھ تم کھاتے ہو وہی یہ کھاتا ہے اور جو کچھ تم پیتے ہو وہی یہ پیتا ہے۔ ‘‘
ان کے غرور کا یہ حال تھا کہ وہ چاہتے تھے کہ رسول کو فرشتہ ہونا چاہیے۔ کہنے لگے:
لَوْ شَاءَ رَبُّنَا لَأَنْزَلَ مَلَائِكَةً فَإِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِهِ كَافِرُونَ [فصلت: 14]
’’ ہمارا رب چاہتا تو فرشتے بھیجتا، لہٰذا ہم اُس بات کو نہیں مانتے جس کے لیے تم بھیجے گئے ہو۔ ‘‘
انہوں نے روز قیامت دوبارہ جی اٹھنے سے انکار کر دیااور آپس میں باتیں کرتے ہوئے کہتے:
أَيَعِدُكُمْ أَنَّكُمْ إِذَا مِتُّمْ وَكُنْتُمْ تُرَابًا وَعِظَامًا أَنَّكُمْ مُخْرَجُونَ [المؤمنون: 35]
’’ یہ تمہیں اطلاع دیتا ہے کہ جب تم مر کر مٹی ہو جاؤ گے اور ہڈیوں کا پنجر بن کر رہ جاؤ گے اُس وقت تم (قبروں سے) نکالے جاؤ گے۔ ‘‘
وہ حشر و نشر کو بہت دور قرار دیتے تھے۔ کہتے:
هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ لِمَا تُوعَدُونَ [المؤمنون: 36]
’’ بعید، بالکل بعید ہے یہ وعدہ جو تم سے کیا جا رہا ہے۔ ‘‘
اور کمزوروں پر ظلم و جور روا رکھتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَإِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِينَ [الشعراء: 130]
’’ اور جب کسی پر ہاتھ ڈالتے ہو جبّار بن کر ڈالتے ہو۔ ‘‘
وہ اللہ تعالیٰ اور لوگوں کے حقوق بھی ادا نہیں کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَتِلْكَ عَادٌ جَحَدُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَعَصَوْا رُسُلَهُ وَاتَّبَعُوا أَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [هود: 59]
’’ وہ ہیں عاد، اپنے رب کی آیات سے انہوں نے انکار کیا، اس کے رسولوں کی بات نہ مانی، اور ہر جبار دشمن حق کی پیروی کرتے رہے۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ نے ان کی اس طور سے پکڑ کی جہاں سے ان کا وہم و گمان بھی نہ تھا۔ اللہ نے کچھ عرصہ کے لیے بارش کا سلسلہ منقطع کر دیا اور انھیں قحط میں مبتلا کر دیا۔ پھر اللہ نے ایسے خوش کن بادل بھیجے جیسے انھو ں نے پہلے کبھی نہ دیکھے تھے۔ ان کو دیکھتے ہی وہ ایک دوسرے کو خوشخبری دیتے ہوئےکہنے لگے:
هَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا [الأحقاف: 24]
’’ یہ بادل ہے جو ہم کو سیراب کر دے گا۔ ‘‘
اللہ نے فرمایا:
بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ بِهِ
’’ بلکہ یہ وہی چیز ہے جس کے لیے تم جلدی مچا رہے تھے۔ ‘‘
یعنی عذاب:
رِيحٌ فِيهَا عَذَابٌ أَلِيمٌ
’’ یہ ہوا کا طوفان ہے جس میں دردناک عذاب چلا آ رہا ہے ‘‘
یہ ہوا سات راتیں اور آٹھ دن مسلسل چلتی رہی اور ایک لحظہ کے لیے بھی نہ تھمی۔ اس میں نہ تو کوئی بھلائی تھی اور نہ ہی کوئی خیر کا پہلو تھا۔ بے حد ٹھنڈی اور تیز ہوا تھی، جس کی بہت خوفناک آواز تھی:
تُدَمِّرُ كُلَّ شَيْءٍ بِأَمْرِ رَبِّهَا [الأحقاف: 25]
’’ اپنے رب کے حکم سے ہر چیز کو تباہ کر ڈالے گا۔ ‘‘
مَا تَذَرُ‌ مِن شَيْءٍ أَتَتْ عَلَيْهِ إِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّ‌مِيمِ [الذاريات: 42]
’’ جس چیز پر بھی وہ گزر گئی اسے بوسیدہ کر کے رکھ دیا ‘‘
اسی ہوا نے ان کو ہلاک کر دیا۔وہ ہر فرد کو اوپر بلند کرتی پھر اس کو منہ کے بل نیچے گرا دیتی اور اس کا سر تن سے جدا ہو جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
صَرْعَى كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍ [الحاقة: 7]
’’ وہ وہاں اِس طرح پچھڑے پڑے ہیں جیسے وہ کھجور کے بوسیدہ تنے ہوں- ‘‘
بلآخر ان کا کچھ بھی باقی نہ رہا:
فَأَصْبَحُوا لَا يُرَى إِلَّا مَسَاكِنُهُمْ [الأحقاف: 25]
’’ آخرکار اُن کا حال یہ ہوا کہ اُن کے رہنے کی جگہوں کے سوا وہاں کچھ نظر نہ آتا تھا- ‘‘
اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت میں ان پر لعنت مسلط کر دی، اور انھیں بعد میں آنے والوں کےلیے عبرت بنا ڈالا۔ فرمایا:
لِنُذِيقَهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَخْزَى وَهُمْ لَا يُنْصَرُونَ [فصلت: 16]
’’ تاکہ انہیں دنیا ہی کی زندگی میں ذلت و رسوائی کے عذاب کا مزا چکھا دیں، اور آخرت کا عذاب تو اس سے بھی زیادہ رسوا کن ہے، وہاں کوئی ان کی مدد کرنے والا نہ ہو گا۔ ‘‘
اے مسلمانو!
اللہ تعالیٰ بہت طاقت و قوت والا ہے، اس کے لشکروں سے صرف وہی واقف ہےوہ بہت بڑا اور بلند و بالا ہے۔ قوم عاد نے تکبر کیا اور کہنے لگے:
مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً [فصلت: 15]
’’کون ہے جس کی قوت و طاقت ہم سے زیادہ ہے۔‘‘
تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ہوا کے ذریعے برباد کر دیا۔
اللہ تعالیٰ ظالموں کی تاک میں رہتا ہے ان سے قطعاً غافل نہیں ہوتا بلکہ ان کو مہلت دیتا ہے اور پھر ہلاک کر دیتا ہے:
فَلَا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ إِنَّمَا نَعُدُّ لَهُمْ عَدًّا [مريم: 84]
’’ اچھا، تو اب اِن پر نزول عذاب کے لیے بیتاب نہ ہو ہم اِن کے دن گن رہے ہیں۔ ‘‘
اللہ کی مدد طلب کرنا رسولوں کا منہج ہے۔ حالانکہ ہود علیہ السلام اپنی قوم کے کمزور ترین افراد میں سے تھے پھر جب انھوں نے مدد طلب کی اور کہا:
رَبِّ انْصُرْنِي بِمَا كَذَّبُونِ [المؤمنون: 26]
’’ ان لوگوں نے جو میری تکذیب کی ہے اس پر اب تو ہی میری مدد فرما۔ ‘‘
تو اللہ تعالیٰ نے نظر نہ آنے والی ہوا کے ساتھ ان کی مدد فرمائی۔
اللہ پر توکل کرنا دشمن پر غلبے کا باعث بنتا ہے۔ قوم عاد بہت قوت و طاقت کے مالک تھے۔ ہود علیہ السلام کے پاس ان کا سامنا کرنے کی قوت نہ تھی۔ پھر انھوں نے یہ معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا اور کہا:
إِنِّي تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ رَبِّي وَرَبِّكُمْ [هود: 56]
’’میں تو اللہ پر ہی توکل کرتا ہوں جو میرا اور تمھارا رب ہے۔‘‘
تو اللہ تعالیٰ نے ان کو تباہ وبرباد کر کے رکھ دیا۔
یقین رکھیے کہ توبہ و استغفار قوت اور امن و سلامتی کا باعث ہے۔ ہود علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا:
وَيَا قَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا وَيَزِدْكُمْ قُوَّةً إِلَى قُوَّتِكُمْ [هود: 52]
’’ اور اے میری قوم کے لوگو، اپنے رب سے معافی چاہو، پھر اس کی طرف پلٹو، وہ تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا اور تمہاری موجودہ قوت پر مزید قوت کا اضافہ کرے گا مجرموں کی طرح منہ نہ پھیرو۔ ‘‘
بسا اوقات اللہ کی مدد میں دیر کسی حکمت کی وجہ سے ہوتی ہے، لیکن ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وہ مؤمنین سے دور نہیں ہوتی:
وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ [الروم: 47]
’’ ور ہم پر یہ حق تھا کہ ہم مومنوں کی مدد کریں۔ ‘‘
اور مخلوق کی قوت و طاقت اس قابل نہیں ہے کہ وہ اللہ کے عذاب کو روک سکے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَالٍ [الرعد: 11]
’’ جب اللہ کسی قوم کی شامت لانے کا فیصلہ کر لے تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی، نہ اللہ کے مقابلے میں ایسی قوم کا کوئی حامی و مدد گار ہو سکتا ہے ‘‘
مدد صبر کے ساتھ ہے،ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے اور ہر تنگی کے ساتھ فراحی ہے۔ قرآن میں بیان کردہ سابقہ اقوام کے قصص سے ہم لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے:
لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبَابِ [يوسف: 111].
’’ اگلے لوگوں کے ان قصوں میں عقل و ہوش رکھنے والوں کے لیے عبرت ہے۔ ‘‘
بارك الله لي ولكم في القرآن العظيم، ونفعني الله وإياكم بما فيه من الآياتِ والذكرِ الحكيم، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولجميع المسلمين من كل ذنبٍ، فاستغفروه، إنه هو الغفور الرحيم.
دوسرا خطبہ

الحمد لله على إحسانه، والشكرُ له على توفيقِهِ وامتِنانه، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له تعظيمًا لشأنه، وأشهد أن نبيَّنا محمدًا عبدُه ورسولُه، صلَّى الله عليه وعلى آله وأصحابه وسلَّم تسليمًا مزيدًا.
مسلمانان گرامی!
میں تمھیں اللہ کی عبادت کی طرف بلاتا ہوں اور خالص اس کے لیے اعمال کرنے اور اس کی اطاعت کی نصیحت کرتا ہوں۔ اللہ اپنی مخلوق سے باخبر ہے۔ جو اس کے ساتھ کفر کرتا ہے اللہ اس کو رسوا کردیتا ہے، اور جو اس کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اس سے چھین لیتا ہے، جو لوگوں پر ظلم کرتا ہے اس کو تباہ کر دیتا ہےاور جب زیادتی کرنے والا حد سے بڑھ جاتا ہے تو وہ اس کو ہلاک کر ڈالتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَإِذَا أَرَدْنَا أَنْ نُهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا [الإسراء: 16]
’’ جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں، تب عذاب کا فیصلہ اس بستی پر چسپاں ہو جاتا ہے اور ہم اسے برباد کر کے رکھ دیتے ہیں۔ ‘‘
فرعون نے زمین میں فساد پھیلایا اور کہا:
أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلَى [النازعات: 24]
’’میں تمہارا برتر و بالا رب ہوں۔‘‘
تو اللہ تعالیٰ نے اس کو پانی سے ہلاک کر دیا۔
یاد رکھیے! اللہ کا عذاب ایک نعمت کی صورت میں نمودار ہوتا ہے۔ اسی لیے نبی کریمﷺ جب ہوا کو اٹھتا ہوا دیکھتے تو آپ کے چہرے کا رنگ متغیر ہو جاتا۔ آپ اس بات سے ڈرتے تھے کہ اس میں اللہ کا عذاب نہ ہو۔ لا ریب کہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے کوئی شخص اپنے طور پر محفوظ نہیں رہ سکتا۔
ثم اعلموا أن الله أمركم بالصلاةِ والسلامِ على نبيِّه، فقال في مُحكَم التنزيل: إِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الذِيْنَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيْمًا [الأحزاب: 56].
اللهم صلِّ وسلِّم على نبيِّنا محمدٍ، وارضَ اللهم عن خلفائه الراشدين الذين قضَوا بالحق وبه كانوا يعدِلون: أبي بكرٍ، وعمر، وعثمان، وعليٍّ، وعن سائر الصحابةِ أجمعين، وعنَّا معهم بجُودِك وكرمِك يا أكرم الأكرمين.
اللهم أعِزَّ الإسلام والمسلمين، وأذِلَّ الشرك والمشركين، ودمِّر أعداء الدين، واجعل اللهم هذا البلد آمِنًا مُطمئنًّا رخاءً وسائر بلاد المسلمين.
اللهم أعِزَّ الإسلام والمسلمين، وأذِلَّ الشرك والمشركين، اللهم انصر المُجاهدين المؤمنين في كل مكان، اللهم كن لهم وليًّا ونصيرًا، ومُعينًا وظهيرًا، اللهم وحِّد كلمتَهم، وقوِّ صفوفَهم، وسدِد رميَهم، واجمع كلمتَهم على الحق يا رب العالمين، وأمِدَّهم بمددٍ من عندك يا قوي يا عزيز.
اللهم وأدِر دوائر السوء على عدوِّك وعدوِّهم، اللهم اقتُلهم بددًا، وأحصِهم عددًا، ولا تُغادِر منهم أحدًا.
رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ [البقرة: 201].
اللهم إنا نسألُك الإخلاصَ في القول والعمل.
اللهم وفِّق إمامنا لهُداك، واجعل عمله في رِضاك، ووفِّق جميع ولاة أمور المسلمين للعملِ بكتابك، وتحكيمِ شرعك.
عباد الله:
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [النحل: 90].
فاذكروا الله العظيم الجليل يذكركم، واشكروه على آلائه ونعمه يزِدكم، ولذكر الله أكبر، والله يعلم ما تصنعون.


اس خطبے کو سننے کے لیے یہاں کلک کریں
 

عمر السلفی۔

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 22، 2020
پیغامات
1,608
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
110
قوم عاد کی تباہی کے تین اسباب!!!
1 غرور قوت
2ظلم وجور
3 خدائے واحد کا انکاراور معبودان باطل کی پرستش

واضح البیان ص 273
مولانا محمد داود راز رحمہ اللہ

✍ سلیمان احمد
 
Top