• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن و حدیث میں تحریف

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ابوداو'د میں دوسری تحریف

امام ابوداو'د رحمہ اللہ نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم سے مروی روایت عدم رفع الیدین پر جرح کرتے ہوئے کہا تھا کہ:
ھذا حدیث مختصر من حدیث طویل و لیس ھو بصحیح علی ھذا اللفظ
یعنی یہ ایک طویل حدیث کا اختصار ہے اور یہ صحیح نہیں اس معنی پر کہ دوبارہ رفع الیدین نہ کرتے تھے۔ (ابوداو'د مع عون ص۲۷۳ ج۱ و ابوداو'د ص۱۷۳ ج۱ طبع حلب۱۹۵۲ء)
امام ابوداوٗد رحمہ اللہ کی اس جرح کو ان کے حوالے سے صاحب مشکوۃ (ص۷۷) میں، علامہ ابن عبدالبر نے (التمہید ص۲۲۰ ج۹) میں، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے (التلخیص ص۲۲۲ج۱) پر اور علامہ شوکانی نے (نیل الاوطار ص۱۸۷ج۲) میں نقل کیا ہے۔
محدث عظیم آبادی نے (عون المعبود شرح سنن ابی داوٗد ص۲۷۳ ج۱) میں صراحت کی ہے کہ میرے پاس دو صحیح و معتبر قلمی نسخے ہیں جن میں یہ جرح موجود ہے، لیکن کتنے ستم کی بات ہے جب دیوبندی مکتب فکر کے محدث عظیم مولوی فخر الحسن گنگوہی نے ابوداوٗد کو اپنی تصحیح سے شائع کیا تو اس جرح کو متن سے نکال دیا۔ (ابوداوٗد ص۱۰۹)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
گھر کی شہادت

حالانکہ مولوی محمود حسن خان کی تصحیح سے جو ابوداوٗد کا نسخہ شائع ہوا تھا اس کے صفحہ ۱۱۶ جلد اول کے حاشیہ پر نسخہ کی علامت دے کر لکھا ہوا تھا کہ ایک نسخہ میں یہ عبارت بھی موجود ہے پھر مذکورہ تمام عبارت کو نقل کیا گیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ابوداوٗد میں تیسری تحریف

سنن ابی داوٗد ص۱۲۰ ج۱ میں امام ابوداوٗد نے ایک عنوان باب من أری القراء ۃ اذا لم یجھر کا باندھا تھا مگر مولوی محمود حسن خان حنفی دیوبندی نے جب ''ابوداوٗد'' کو اپنی تصحیح سے شائع کروایا تھا اسے باب من کرہ القراء ۃ الفاتحۃ الکتاب اذا جھر الامام سے بدل دیا حالانکہ کسی بھی نسخہ میں یہ عنوان نہ تھا۔ (دیکھئے: ابوداوٗد مع عون ص۳۰۵ ج۱)۔
اہل علم جانتے ہیں کہ محدث عظیم آبادی رحمہ اللہ سنن ابی داوٗد کے متن کی جب عون المعبود میں شرح کرتے ہیں تو اختلاف نسخہ کا ذکر کرتے ہیں۔ اگر کسی نسخہ میں اس عنوان کا باب بھی ہوتا جو دیوبندیوں کے شیخ الہند نے قائم کیا ہے تو صاحب عون المعبود اس کا ذکر کرتے، مگر محدث عظیم آبادی اس پر خاموشی سے گزر گئے ہیں جو اس بات کا روشن پہلو ہے کہ کسی بھی نسخہ میں اس عنوان کا باب نہ تھا۔ مگر شیخ الہند اس کا ذکر کرتے ہیں۔ اناﷲ و انا الیہ راجعون، یہ سب حنفیت کی حمایت میں کیا جا رہا ہے کہ ان کے نزدیک قراء ت فاتحہ مکروہ ہے۔ (تحفہ حنفیہ ص۳۹ تا ۴۱)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سنن ابن ماجہ میں تحریف

سنن ابن ماجہ کو بعض نے صحاح ستہ میں شمار کیا ہے۔ درسی اور متداول کتاب ہے، اس میں صحیح و ضعیف بلکہ موضوع روایات بھی ہیں اس میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہم سے مروی ایک روایت ہے:
من کان لہ امام فقراء ۃ الامام لہ قراء ۃ
جس کا (نماز میں) امام ہے تو امام کی قراء ت اسی کی قراء ت ہے۔ (ابن ماجہ ص۶۱)
حنفیہ کا اس روایت سے ترک قراء ت خلف الامام پر استدلال ہے۔ (تدقیق الکلام ص۱۹۵ ج۱)
علماء اہل حدیث کی طرف سے یہ جواب دیا گیا کہ اس کی سند میں جابر الجعفی راوی کذاب ہے۔ (تحقیق الکلام ص۱۳۴ ج۲)۔
حنفیہ نے حق بات کو تسلیم کرنے کی بجائے سنن ابن ماجہ میں ہی تحریف کر دی۔ اصل سند اس طرح تھی:
حدثنا علی بن محمد ثنا عبید اﷲ بن موسی عن الحسن بن صالح عن جابر عن ابی الزبیر عن جابر
اسے بدل کر جابر و عن ابی الزبیر بنا دیا، جابر اور ابی الزبیر کے درمیان حرف واؤ کا اضافہ اس مقصد کے لئے کیا گیا تاکہ یہ تاثر دیا جائے کہ جابر الجعفی اسے بیان کرنے میں منفرد نہیں بلکہ اس کا ثقہ متابع ابی الزبیر بھی موجود ہے جو جابر الجعفی کا ہم سبق ہے اور یہ دونوں سیدنا جابر رضی اللہ عنہم سے بیان کرتے ہیں۔ انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔
حالانکہ اہل علم جانتے ہیں کہ اگر ابن ماجہ میں حرف واؤ ہوتا اور جابر الجعفی اور ابی زبیر دونوں ہم سبق ہوتے تو جابر و عن ابی الزبیر کی بجائے جابر و ابی الزبیر ہوتا، گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ حرف واؤ کا اضافہ کرنے والا جہاں خائن و بددیانت ہے وہاں جاہل و اناڑی بھی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ابن ماجہ کی سند محدثین کی عدالت میں

یہ روایت سنن ابن ماجہ کے علاوہ متعدد محدثین کرام نے روایت کی ہے۔ مگر ان تمام نے جابر عن ابی الزبیر ہی بیان کی ہے۔ دیکھئے: (سنن دارقطنی ص۳۳۱ ج۱، ابن عدی ص۵۴۲ و کتاب القراء ت ص۱۵۸ و مسند احمد ۳۳۹ ج۳)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
گھر کی شہادت

اکابر احناف نے بھی اس روایت کو جابر عن ابی الزبیر سے ہی بیان کیا ہے، دیکھئے: (شرح معانی الآثار ص۱۴۹ ج۱) علاوہ ازیں مولانا عبدالحئی لکھنوی حنفی مرحوم نے ابن ماجہ سے جابر عن ابی الزبیر ہی نقل کیا ہے۔امام الکلام ص۱۸۷ و التعلیق الممجد ص۹۶، علامہ زیلعی حنفی نے بھی نصب الرایہ ص۷ ج۲ میں واؤ کے بغیر جابر عن ابی الزبیر ہی نقل کیا ہے جو اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ ابن ماجہ میں واؤ کا اضافہ دیوبندیوں کی بددیانتی اور تحریف ہے اور انہوں نے سند میں گڑبڑ کر کے ایک من گھڑت روایت کو فرمانِ مصطفی باور کرانے کی کوشش کی ہے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
صحیح مسلم میں تحریف

ملک سراج الدین اینڈ سنز نے ۱۳۷۶ھ میں مولوی محمد ادریس کاندھلوی وغیرہ دیوبندی کی تحقیق سے صحیح مسلم کو شائع کیا۔ اس میں حنفیت کی تائید کی غرض سے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حسب ذیل سند وضع کی گئی:
حدثنی عبیداﷲ بن معاذ العنبری قال نا ابی قال نا محمد بن عمرو اللیثی عن عمرو بن مسلم بن عمارۃ عن بن اکیمۃ اللیثی قال سمعت سعید بن المسیب یقول سمعت ام سلمۃ زوج النبی الخ(صحیح مسلم ص۱۶۸ ج۲)
حالانکہ درست سند حسب ذیل ہے:
حدثنی عبیداﷲ بن معاذ العنبری قال نا ابی قال نا محمد بن عمرو اللیثی عن عمرو ابن مسلم بن عمار بن اکیمۃ اللیثی قال سمعت سعید بن المسیب یقول سمعت ام سلمۃ زوج النبی الخ(صحیح مسلم ص۱۶۰ ج۲)
یہی روایت (ابوداوٗد ص ۳۰ ج۲، ترمذی مع تحفہ ص۳۶۵ ج۲، نسائی مجتبیٰ ص۱۹۴ ج۲، ابن ماجہ ص۲۳۴، بیھقی ص۲۶۶ ج۹، المحلی لابن حزم ص۳ ج۶ اور شرح معانی الآثار ص۳۳۴ ج۲ وغیرہ میں صحیح مسلم کی سند سے مروی ہے۔ ان سب میں عمرو ابن مسلم بن عمار کے آگے ابن اکیمۃ اللیثی کا واسطہ قطعا نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وجہ تحریف

ترمذی مع تحفہ صفحہ۲۵۴ ج۱ میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہم کی روایت سے ایک حدیث مروی ہے جس سے فریق ثانی ترک قراء ت خلف الامام کا استدلال کرتا ہے۔ (احسن الکلام ص ۲۷۸ ج۱)
مگر اس کی سند میں ابن اکیمۃ اللیثی راوی ہے۔ صحیح مسلم میں تحریف اس غرض سے کی گئی تاکہ ابن اکیمۃ اللیثی کو صحیح مسلم کا راوی باور کرایا جائے۔ اہل علم سے گزارش ہے کہ وہ حافظ ابن حجر کی تالیف ''تہذیب التہذیب ۴۱۰ ج۷'' کا مطالعہ کر لیں کہ انہوں نے اسے سنن اربعہ کا راوی تو بتایا ہے مگر صحیح مسلم کا نہیں، اگر مذکورہ سند میں اس کا واسطہ ہوتا تو وہ اسے ذکر کرتے۔
علاوہ ازیں اگر سند میں اس کا واسطہ ہوتا تو عن عمارۃ بن اکیمۃ اللیثی یا عن ابن اکیمۃ اللیثی ہوتا مگر یہاں عن بن اکیمۃ اللیثی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ تحریف کرنے والا جہاں خائن ہے وہاں اناڑی و جاہل بھی ہے۔ (تحفہ حنفیہ ص ۴۴، ۴۵، ۴۸، ۴۹)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مستدرک حاکم میں تحریف

مستدرک حاکم میں ابان بن یزید عن قتادۃ عن زرارۃ بن اوفی عن سعد بن ہشام کی سند سے ایک روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے وتر کی تعداد کے بارے مروی ہے جو متن کے اعتبار سے شاذ ہے۔ (تفصیل دین الحق ص۴۳۴ج۱ میں دیکھئے)۔
اس حدیث کے الفاظ تھے کہ:
عن عائشۃ قالت کان رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یوتر بثلاث لا یقعد الا فی آخرھن
یعنی اُم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت وتر پڑھتے تھے نہ بیٹھتے تھے ان کے درمیان مگر آخر میں۔
مگر احناف نے جب مستدرک حاکم کی اشاعت کی تو ''لا یقعد'' کو ''لایسلم'' بنا دیا۔ اس تحریف سے ان لوگوں نے ایک تیر سے دو شکار کئے:
1۔ حنفیہ کے نزدیک وتر کی دوسری رکعت میں تشہد ہے جبکہ اس روایت میں تشہد کی نفی ہوتی تھی لہٰذا ان ایمان دار لوگوں نے الفاظ کو بدل کر اپنی تردید کے الفاظ کا مفہوم ہی بگاڑ دیا۔
2۔ حنفیہ کے نزدیک چونکہ وتر کے درمیان سلام نہیں پھیرنا چاہیے اس غرض کے تحت ان لوگوں نے ''لایقعد'' کو ''لا یسلم'' بنا دیا جس سے نماز وتر کی دوسری رکعت میں سلام کی نفی ہو گئی۔ یوں ان لوگوں نے متن روایت میں تحریف کر کے حنفیت کو سہارا دیا۔ انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
محدثین کی گواہی

امام بیہقی نے (السنن الکبری ص۲۸ج۳) میں اس روایت کو مستدرک کی سند سے ہی بیان کیا ہے جس کے الفاظ ''لا یقعد'' ہیں۔
علامہ ذہبی نے (تلخیص مستدرک ص۳۰۴جز۱) میں، حافظ ابن حجر نے (فتح الباری ص۳۸۵ج۲) اور (تلخیص الحبیر ص۱۵ ج۲) میں اسے مستدرک سے نقل کیا ہے اور الفاظ ''لا یقعد'' ہی نقل کئے ہیں۔
 
Top