خواتین کے منفرد تجربات
حال ہی میں ایک عرب ملک میں قرآن کریم پر عمل کرنے کی عملی دعوت کا آغاز ہوا ہے۔ یہ تحریک جدید تعلیم یافتہ خواتین نے شروع کی ہے۔ تھوڑے ہی عرصے میں اس مبارک اقدام کے حیران کن مگر خوش گوار نتائج سامنے آئے ہیں۔ محترمہ سمیع رمضان اس تحریک کی بانی ہیں۔ انہوں نے سوکس اور پولٹیکل سائنسز کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے۔ انہوں نے اس مضامین میں تخصصکی بجائے علوم شریعت کی رخ کیا اور کئی برس تک انہیں حاصل کیا۔ ان مضامین میں تخصص کرنے کے بعد انہوں نے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ وہ اپنی رفیقات کے ساتھ پڑوسیوں کے گھروں میں جا کر انہیں تعلیم دیتیں اور دینی معاملات سے متعارف کرواتیں۔
محترمہ سمیہ رمضان اپنے محلے کی جامع مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کرنے گئیں تو انہوں نے نماز کے بعد وہاں موجود خواتین سے گفتگو میں یہ طے کیا کہ ہفتے میں ایک بار جمعہ کی نماز کے بعد سب خواتین کی ایک نشست ہوا کرئے گی۔ ہر جمعے کو عورتوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ عورتیں اپنی رشتہ داروں اور پڑوسنوں کو ساتھ لانے لگیں۔ ان میں سے بہت سی عورتیں محترمہ سمیہ سے اپنے مسائل اور پریشانیاں بیان کرتیں۔ محترمہ انتہائی راز داری سے انہیں جواب دیتیں اور ہر مشکل کا حل بتاتیں۔ محترمہ اس نتیجے پر پہنچیں کہ ان میں سے بہت سی مشکلات کا حل معمولی سی کوشش سے ممکن ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے مسائل و مشکلات کو قرآن مجید کے سامنے پیش کریں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات سے مدد لیں۔
ایک دن درس دینے کے بعد محترمہ نے خواتین سے کہا آج ہم ایک نئے پروگرام کا آغاز کر رہے ہیں۔ ہم اپنی تمام مشکلات کو قرآن سے حل کریں گے اور ہم جو کچھ قرآن سے سمجھیں گے عملی زندگی پر اسے منطبق کریں گے۔ ہم ہر ہفتے ایک آیت لیں گے۔ پورا ہفتہ اسے ہی دہراتے رہیں گے۔ ہم یہ آیت حفظ کریں گے۔ اور پر عمل درآمد کریں گے۔ اس آیت کا عملی اطلاق کریں گے۔ اس آیت سے ہی ہم حرکت کریں گے، اس کے حکم اور منشا کی پابندی کریں گے اور یوں یہ آیت ہماری زندگی کا حصہ بن جائے گی۔ خواہ اس پر عمل کرنے میں ایک ہفتہ لگے یا ہفتے سے زیادہ وقت۔ اس کے بعد ہم پھر دوسری آیت لیں گے۔ اس پر اچھی طرح عمل ہو چکے گا تو پھر ایک اور آیت لیں گے۔ یوں ہم دیکھیں گے کہ نتیجہ کیا سامنے آتا ہے؟
قصہ مختصر، نتیجہ نہایت ہی شان دار نکلا۔ بہت سے مسائل حل ہوئے، بہت سی مشکلیں ختم ہوئیں، بڑی حد تک لوگوں کو سکون و اطمینان کی دولت ملی۔ خاندانی جھگڑے کم ہو گئے۔ اُجڑے ہوئے گھر بسنے لگے۔ روٹھے ہوئے راضی ہوئے۔ بہت سے شوہروں نے اپنی بیویوں کے رویے کی تبدیلی کو سراہا اور اسے ایک خوشگوار انقلاب قرار دیا۔ درس کے لیے اب عورتیں بڑی تعداد میں آنے لگیں، یہاں تک کہ عورتوں کے لیے مختص درس گاہ میں بیٹھنے کی گنجایش نہ رہی۔ اب درس مسجد کے مرکزی حصے میں، جہاں مرد نماز ادا کرتے ہیں، ہونے لگا مگر جلد ہی مسجد بھی تنگ معلوم ہونے لگی۔ یہ درس صرف عورتوں کے لیے ہوتے تھے۔ مردوں کو اجازت نہ تھی مگر عورتوں کے درس سننے کے نتیجے میں گھروں میں ماحول بدلا تو مردوں نے بھی مسجد کا رخ کیا۔ یہ دیکھ کر مسجد کی انتظامیہ نے مسجد کی توسیع کا فیصلہ کیا۔
یہ تو تھی اس مبارک سلسلے کے آغاز کی روداد۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ آیات پر عمل کیسے ہو رہا ہے؟ حکمِ قرآنی پر خواتین نے عمل کا تجربہ کیسے کیا؟ ان خوش گوار واقعات میں سے کچھ یہاں پیش کیئے جا رہے ہیں۔