میں نے جو حدیث پڑھی ہے اس میں حافظ کا بتایا گیا تھا -کیا یہاں صاحب قران سے مراد حافظ ہے؟ اہل علم معاونت فرمائیں-جزاک اللہ خیرا کثیرا
کفایت اللہ
ابوالحسن علوی
پہلے آپ اس حدیث شریف کا متن ملاحظہ فرمائیں :
’’ عن زر عن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يقال لصاحب القرآن اقرا وارتق ورتل كما كنت ترتل في الدنيا فإن منزلك عند آخر آية تقرؤها ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صاحب قرآن (قرآن سے تعلق والے) سے کہا جائے گا:
(قرآن )پڑھتے جاؤ اور (جنت کے درجات ) چڑھتے جاؤ ، اور عمدگی کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر پڑھو جیسا کہ تم دنیا میں عمدگی سے پڑھتے تھے، تمہاری منزل وہاں ہے، جہاں تم آخری آیت پڑھ کر قرآت ختم کرو گے “۔
وضاحت : قواعد تجوید کی رعایت کرتے ہوئے قرآن مجید کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کا نام ترتیل ہے۔ ۲؎ : یعنی ایک آیت پڑھ کر ایک درجہ طے کرو گے پھر دوسری آیت سے دوسرا درجہ، اسی طرح جتنی آیتیں پڑھتے جاؤ گے اتنے درجے اور مراتب اوپر اٹھتے چلے جاؤ گے جہاں آخری آیت پڑھو گے وہیں تمہارا مقام ہو گا۔
سنن ابی داود ، باب استحباب الترتيل في القراءة۔۔باب: قرآت میں ترتیل کے مستحب ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1464
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/فضائل القرآن ۱۸ (۲۹۱۴)، ن الکبری / فضائل القرآن (۸۰۵۶)، (تحفة الأشراف:۸۶۲۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۱۹۲) (حسن صحیح)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس حدیث کی شرح میں علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
(يقال) أي عند دخول الجنة (لصاحب القرآن) أي من يلازمه بالتلاوة والعمل لا من يقرؤه ولا يعمل به (اقرأ وارتق) أي إلى درجات الجنة أو مراتب القرب ‘‘
یعنی صاحب قرآن سے جنت کے داخلہ کے وقت ایسا کہا جائے گا ۔۔اور یہاں صاحب قرآن ۔۔سے مراد وہ شخص ہے
جس نے قرآن ترتیل سے پڑھنے اور اس پر عمل
کو۔۔مستقل معمول ۔۔بنایا ہوا ہو ۔۔یعنی ہمیشہ پڑھتا بھی ہو اور اس پر عمل بھی کرتا ہو ۔صرف پڑھنے والا مرادنہیں ۔۔جو اس پر عمل نہیں کرتا ‘‘
اہم بات یہ ہے کہ قرآن پڑھ کر عقیدہ و عمل قرآن کے مطابق بنانے والا ہی اس شرف کا مستحق بنے گا ؛
اور اس معنی پر کئی احادیث دلالت کرتی ہیں :
صحیح مسلم کی مشہور حدیث جس میں پیارے نبی ﷺ نے واضح الفاظ میں فرمایا :
’’ ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" والقرآن حجة لك او عليك كل الناس ".
’’ اور قرآن یا تو تیرے لئے دلیل و حجت ہے،(جو تجھے حق تک پہنچاتا ہے ) یا تو پھر تیرے خلاف دلیل و حجت ہے(کہ تو نے اسے پڑھنے کے باوجود اس پر عمل نہیں کیا)“۔(صحیح مسلم ،عن ابي مالك الاشعري)
علامہ ابن باز ؒ صحیح مسلم کیاس حدیث کی وضاحت میں لکھتے ہیں :
(القرآن حجة لك أو عليك) ، فهو حجة لمن عمل به ومن أسباب دخوله الجنة ، وحجة على من لم يعمل به ومن أسباب دخوله النار ،‘‘ یعنی قرآن پر عمل کرنے والے کیلئے قرآن جنت میں جانے کی حجت و دلیل ہے ۔
اور عمل نہ کرنے والے کیلئے جہنم میں جانے کی ‘‘
اور نبی اکرم ﷺ نے اس امت میں کچھ لوگوں کے بارے پیشینگوئی فرمائی تھی کہ :
قرآن تو بہت پڑھیں گے ،لیکن اسلام سے نکلے ہوئے ہوں گے ؛
’’ يسير بن عمرو قال قلت لسهل بن حنيف: هل سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول في الخوارج شيئا؟ قال: سمعته يقول واهوى بيده قبل العراق:"يخرج منه قوم يقرءون القرآن لا يجاوز تراقيهم يمرقون من الإسلام مروق السهم من الرمية".
یسیر بن عمرو نے بیان کیا کہ میں نے سہل بن حنیف (بدری صحابی) رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خوارج کے سلسلے میں کچھ فرماتے ہوئے سنا ہے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے اور آپ نے عراق کی طرف ہاتھ سے اشارہ فرمایا تھا کہ ادھر سے ایک جماعت نکلے گی یہ لوگ قرآن مجید پڑھیں گے لیکن قرآن مجید ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ اسلام سے اس طرح باہر ہو جائیں گے جیسے تیر شکار کے جانور سے باہر نکل جاتا ہے۔‘‘(صحیح بخاری حدیث نمبر 6934 )
حدیث کا مفہوم واضح ہے کہ قرآن پڑھنا ان کی خاص صفت ہوگی،
تاہم یہ لوگ حد درجہ گمراہ ہونگے؛