• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن کے اوپر کوئی چیز رکھنا

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
قرآن اللہ کی کتاب ہے ، اس کی حفاظت ، اور اس کی تعظیم بجالانا مسلمانوں پہ فرض ہے ۔ اور ہر اس پہلو سے بچنا ہے جس سے قرآن کی اہانت ہوتی ہے۔

قرآن کے اوپر کچھ رکھنا چاہے قرآن کے علاوہ دوسری کوئی کتاب ہو یا کوئی اور چیز مناسب نہیں ، البتہ قرآن کے اوپر کوئی دوسرا قرآن رکھا جاسکتا ہے ۔

قرآن چونکہ کلام الہی ہے اور سب سے اعلی کتاب ہے ، اسے ہرحال میں اعلی ہی رہنے دینا ہے ، اس کے اوپر کوئی چیز رکھ کر اس کے مقام و مرتبے کو نیچے نہیں کرنا ہے ۔

اس سلسلے میں علماء کے چند اقوال دیکھیں ۔

(1)حکیم ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

" ومن حرمته - يعني المصحف - إذا وضع أن لا يتركه منشورا ، وأن لا يضع فوقه شيئا من الكتب ، حتى يكون أبدا عاليا على سائر الكتب " .

انتهى من "نوادر الأصول" (3 /254).

ترجمہ: قرآن کی حرمت میں سے ہے کہ اسے کھلا نہیں چھوڑا جائے یا اس کے اوپر کوئی دوسری کتاب(چیز) نہ رکھی جائے تاکہ ہمیشہ یہ کتاب ساری کتابوں میں بلند رہے ۔ (نوادر الاصول 3/254)

(2)بیہقی رحمہ اللہ نے کہا:

" أَنْ لَا يُحْمَلَ عَلَى الْمُصْحَفِ كِتَابٌ آخَرُ ، وَلَا ثَوْبٌ ، وَلَا شَيْءٌ ؛ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مُصْحَفَانِ ، فَيُوضَعَ أَحَدُهُمَا فَوْقَ الْآخَرِ : فَيَجُوزُ " انتهى من "شعب الإيمان" (3/329) . وينظر : " الفتاوى الحديثية" (ص 164) .

ترجمہ : قرآن کے منجملہ آداب میں سے یہ ہے کہ قرآن کے اوپر کوئی دوسری کتاب، دوسرا کپڑا، اور کوئی دوسری چیز نہ رکھی جائے ۔ سوائے اس کے کہ دو مصحف ہو تو ایک کو دوسرے کے اوپر رکھنا جائز ہے ۔ (شعب الایمان 3/329)

(3)شیخ عبدالکریم خضیر رحمہ اللہ نے مصحف پہ کچھ رکھنے کے متعلق جواب دیتے ہوئے فرمایا: قرآن اللہ کا کلام ہے جو دو غلاف کے درمیان ہے ۔اللہ کے کلام کا احترام واجب ہے ،کسی بھی صورت میں اس کی اہانت جائز نہیں ہے ۔ آگے لکھتے ہیں کہ

٭قرآن پہ دوسری کتاب رکھنا- اگر بلا ادارہ ہو تو غفلت اور سستی کرنے والا ہے اس لئے معفو عنہ ہے ۔

٭اگر جہالت کی وجہ سے ہے تو جاہل معذور ہے ۔

٭بچ جاتے ہیں عالم ، عارف اور ذاکر تو ان کے لئے جائز نہیں ہے کیونکہ یہ قرآن کی اہانت ہے ۔ (شرح عمدۃ الاحکام 35/17)


(4)شیخ عبید بن عبداللہ الجابری کاکہنا ہے کہ مصحف اللہ کی کتاب ہے ، اگر تم اہل علم سے ملو تو پتہ چلے گا کہ وہ تعظیما مصحف پہ کوئی چیز رکھنے کو مکروہ سمجھتے ہیں کیونکہ اس میں پیغام ربانی ہے۔

(5)شیخ محمد مختار الشنقیطی بھی قرآن کے اوپر کچھ رکھنے کو منع فرمایا ہے ۔


مختصرا یہ کہیں گے کہ ضرورت پڑنے پہ مصحف پہ دوسرا مصحف اس صورت میں رکھ سکتے ہیں جبکہ گرنے کا امکان نہ ہو مگر مصحف پہ کوئی دوسری کتاب یا کوئی دوسری چیز مثلا قلم کاپی وغیرہ رکھنا مکروہ ہے۔
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
شیخ عبدالکریم خضیر رحمہ اللہ نے مصحف پہ کچھ رکھنے کے متعلق جواب دیتے ہوئے فرمایا: قرآن اللہ کا کلام ہے جو دو غلاف کے درمیان ہے ۔اللہ کے کلام کا احترام واجب ہے ،کسی بھی صورت میں اس کی اہانت جائز نہیں ہے ۔ آگے لکھتے ہیں کہ

شیخ اسکی وضاحت کیجئے
کیا قرآن پر غلاف چڑھایا جا سکتا ہے؟
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
غلاف دو طرح کا ہوتا ہے ۔
ایک وہ غلاف جو قرآن سے متصل ہوتا ہے یہ قرآن کے اوراق کی مضبوطی اور اس کی حفاظت کی غرض سے لگایا جاتا ہے ۔
دوسرا وہ غلاف جو قرآن سے منفصل ہوتا ہے جسے اردو زبان میں جزدان کہتے ہیں ، اس کا مقصد قرآن کی زینت اور دھول مٹی سے بچانا ہوتا ہے ۔
ان دونوں غلافوں کے لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

واللہ اعلم
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
برصغیر پاک و ہند میں مصحف قرآن کے جو ”آداب“ ہمیں نظر آتے ہیں، وہ حرمین شریفین میں وہاں کے مقامی لوگوں کے ہاتھوں نظر نہیں آتے؟ اس کی کیا وجہ ہے ؟ کیا ہم اُن سے زیادہ آداب قرآن کے قائل ہیں یا وہ لوگ (خدا نخواستہ) قرآن کا ادب کرنے کے قائل نہیں ؟
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
برصغیر پاک و ہند میں مصحف قرآن کے جو ”آداب“ ہمیں نظر آتے ہیں، وہ حرمین شریفین میں وہاں کے مقامی لوگوں کے ہاتھوں نظر نہیں آتے؟ اس کی کیا وجہ ہے ؟ کیا ہم اُن سے زیادہ آداب قرآن کے قائل ہیں یا وہ لوگ (خدا نخواستہ) قرآن کا ادب کرنے کے قائل نہیں ؟

قرآن کی تعظیم برصغیر اور حرمین شریفین کے تناظر میں

تحریر: مقبول احمد سلفی


سوال : برصغیر پاک و ہند میں مصحف قرآن کے جو ”آداب“ ہمیں نظر آتے ہیں، وہ حرمین شریفین میں وہاں کے مقامی لوگوں کے ہاتھوں نظر نہیں آتے؟ اس کی کیا وجہ ہے ؟ کیا ہم اُن سے زیادہ آداب قرآن کے قائل ہیں یا وہ لوگ (خدا نخواستہ) قرآن کا ادب کرنے کے قائل نہیں ؟ سائل : یوسف ثانی پاکستان، سینئر رکن محدث فورم


الجواب بعون اللہ الوھاب

الحمد للہ

سب سے پہلے تو یہ علم میں رہے کہ ایک مسلمان کے لئے چاہے کہیں کا بھی ہو قرآن کی تعظیم واجب اور اس کی اہانت حرام ہے ۔ آپ نے کہا کہ برصغیر میں قرآن کا جو ادب نظر آتا ہے وہ حرمین شریفین میں نہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟

اس بات کو سمجھنے کے لئے پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ قرآن کے نزول کا مقصد کیا ہے ؟

چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ ۚ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّهِ آلِهَةً أُخْرَىٰ ۚ قُل لَّا أَشْهَدُ ۚ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ( الانعام : 19)
ترجمہ :آپ کہئے کہ سب سے بڑی چیز گواہی دینے کے لئے کون ہے ، آپ کہئے کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے ، اور میرے پاس یہ قرآن بطور وحی کے بھیجا گیا ہے تاکہ میں اس قرآن کے ذریعہ سے تم کو اور جس جس کو یہ قرآن پہنچے ان سب کو ڈراؤں، کیا تم سچ مچ یہی گواہی دوگے کہ اللہ تعالی کے ساتھ کچھ اور معبود بھی ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ میں تو گواہی نہیں دیتا ۔ آپ فرما دیجئے کہ بس وہ تو ایک ہی معبود ہے اور بے شک میں تمہارے شرک سے بیزارہوں۔

قرآن کے نزول کا مقصدمعرفت الہی ہےیعنی رب کی بندگی کے واسطے قرآن اتارا گیا یا یہ کہیں کہ قرآن اس لئے اتارا گیا تاکہ اس پہ عمل کیا جائے ۔
اب اس مقصد کے پس منظر میں برصغیر اور حرمین شریفین کے لوگوں میں قرآن کے آداب کا موازنہ پیش کرتا ہوں۔

برصغیر ہندوپاک کے آداب قرآنی :
٭ہمارے یہاں قرآن کی بڑی تعظیم کی جاتی ہے ، اسی سبب یہاں قرآن کا سب سے زیادہ استعمال تعویذ کے لئےکیا جاتا ہے ۔
٭مردو خاتون اس تعویذ کو گلا، بازو، کمراور ران پہ باندھتے ہیں۔
٭قرآنی تعویذ لٹکاکر حمام تشریف لے جاتے ہیں۔
٭تعویذ کے ذریعہ قرآن کی آیات سے کھلواڑ کیا جاتاہے ، تعویذ پہ قرآنی آیات الٹے ،سلٹے، یا ابجد ی شکل میں لکھے جاتے ہیں، حد تو یہ ہے کہ قرآنی آیات کو الگ الگ بیماریوں کے لئے خاص کردیا گیا ہے۔
٭ قرآن کا دوسرا سب سے بڑا استعمال مکان ودوکان کی برکت اور میت کے ایصال ثواب کی غرض سے قرآن خوانی میں اجتماعی شکل میں کیا جاتا ہے جوکہ بدعت لاشکہ ہے ۔
٭قرآن کا ادب کرنے کے لئے اسے دھوکے پیا جاتا ہے اور اسے چوماچاٹا جاتا ہے ۔
٭قرآن کو خوبصورت جزدان میں پیک کرکے سب سے اوپری جگہ پہ رکھنے کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ اسے کم سے کم اتارا جائے گا اور کم سے کم پڑھا جائے گاکیونکہ اس میں مشقت کے ساتھ تکلف بھی ہے ، اس طرزعمل کو ہمارے یہاں سب بڑا ادب مانا جاتا ہے۔
٭قرآن کو نیچے رکھنا ، بغیر جزدان کے رکھنا، قرآن کو پیچھے رکھنا، قرآن کے پیچھے قرآن پڑھنا، ہاتھ میں اٹھا کے قرآن پڑھنا، ران پہ رکھ کے قرآن پڑھنا، اذان و اقامت کے دوران قرآن پڑھنا، سمجھ کر قرآن پڑھنایہ سب قرآن کی توہین سمجھی جاتی ہے ۔
٭ ہمیں برصغیرمیں قرآن کی بہت تعظیم نظر آتی ہے مگرحقیقت میں یہاں کے لوگ قرآنی تعلیمات سے کوسوں دور ہیں، اگر واقعی قرآن کا ہم ادب کرتے تو کبھی بھی ہمارے اندر غیراللہ سے فریاد، عبادت میں شرک اور قرآنی تعلیمات سے بے اعتنائی نہیں پائی جاتی ۔

اب ہم حرمین شریفین میں نزول قرآن کے مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے قرآنی آداب دیکھتے ہیں۔

٭حرمین والے اپنی مساجد میں بے شمار تعداد میں مصاحف رکھتے ہیں تاکہ ہرنمازی قرآن کی تلاوت کرسکے ، یہاں دیکھنے کو ملتا ہے کہ یہ لوگ جب بھی مسجد آتے ہیں، سنت و تحیہ المسجد پڑھنے کےبعد تلاوت قرآن میں لگ جاتے ہیں چاہے جماعت میں چند منٹ ہی کیوں نہ باقی ہو۔
٭حرمین شریفین کے لوگ قرآن کو ہمیشہ اپنی زندگی کا ایک حصہ بنائے رکھتے ہیں، اسی لئے تو ان کی جیب میں، گاڑی میں، دفترمیں اور مساجد و مدارس میں جہاں بھی رہے قرآن سے جڑے رہتے ہیں۔
٭ قرآن کو اتنی اونچی جگہ نہیں رکھتے کہ پڑھنے کے لئے سوبار سوچنا پڑے اور اتارنے کے لئے ٹیبل یا سیڑھی لگانی پڑے ۔
٭ برصغیر میں شاید بایدکوئی آفسوں میں قرآن پڑھتا ہوگامگر یہاں آفسوںمیں بھی قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے ۔
٭ قرآن کی تعظیم یہاں اس قدر ہے کہ مدرسوں سے فارغ ہوتے ہوتے بچے حافظ قرآن ہوجاتے ہیں۔ بلکہ یہ کہہ لیں ایک عام سعودی کو جتنا قرآن یاد ہوتا ہے ہمارے یہاں کےاکثر عالم کو بھی اتنا یاد نہیں ہوتا۔
٭مساجد میں قرآن کا درس، اور تحفیظ کے بے شمار حلقات قائم کئے جاتے ہیں، ملکی پیمانے پہ تحفیظ القرآن الکریم کا ادارہ چلایا جاتاہے جس کی شاخیں پورے ملک میں پائی جاتی ہیں۔
٭ جب جس وقت موقع مل جائے ہاتھ میں قرآن اٹھاکرتلاوت شروع کردیتے ہیں، ریحل تلاشنےیاٹیبل ڈھونڈنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ۔
٭یہاں اس قدر قرآن عام ہونے کے باوجود قرآن خوانی، قرآنی تعویذکے شرک وبدعات نہیں پائے جاتے، نہ ہی کوئی اسے چومتا اور پانی میں گھول کے پیتا ہےکیونکہ ایسا کرنا قرآنی تعلیم کے خلاف ہے ۔ شرعی دم کے لئے قرآن کا بقدر ضرورت استعمال کیا جاتا ہے ۔
٭ یہاں قرآن پڑھاجاتاہے ، سمجھاجاتا ہے اور اس پہ عمل کیا جاتاہے ۔ اس لئے تو یہاں مزارتو کیا شرک کی بدبو بھی نہیں پائی جاتی ۔

ویسے تو اس قسم کی سیکڑوں مثالیں ہیں مگر یہاں میں چند باتوں کے ذکر پہ ہی اکتفا کرتاہوں اورفیصلہ آپ کے ذمہ چھوڑتا ہوں کہ کون قرآن کی سچی تعظیم کرتا ہے ، برصغیر کے لوگ یا حرمین شریفین والے ؟

اپنے خیالات کا اظہار ضرور فرمائیں۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
جزاک اللہ خیرا محترم شیخ
آپ کے مراسلہ نمبر 5 سے سو فیصد بلکہ ہزار فیصد متفق ہوں۔

لیکن مراسلہ نمبر ایک کی حسب ذیل باتیں سمجھ سے باہر ہیں۔
  1. قرآن کے اوپر کوئی دوسری کتاب، دوسرا کپڑا، اور کوئی دوسری چیز نہ رکھی جائے
  2. مصحف پہ کوئی دوسری کتاب یا کوئی دوسری چیز مثلا قلم کاپی وغیرہ رکھنا مکروہ ہے۔
  3. قرآن کی حرمت میں سے ہے کہ اسے کھلا نہیں چھوڑا جائے
ان میں سے کوئی بھی قول نبی کریم صلی اللہ علیہ سے منسوب نہیں ہے۔ اور کیا صحابہ کرام رضی اللہ تعالی بھی ان ”آداب“ پر عمل کرتے تھے؟

علاوہ ازیں ہم قرآن کو فرش پر (خواہ مسجد کا فرش ہی کیوں نہ ہو) رکھنے، کسی کی پشت پر قرآن پڑھنے کو بھی ”آداب قرآن“ کے خلاف سمجھتے ہیں۔ جبکہ حرمین شریفین میں تو یہ عام چلن ہے۔ بلکہ کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے والے سعودی، کرسی کے نیچے بھی قرآن رکھ دیا کرتے ہیں۔

مجھے مراسلہ نمبر ایک اور مراسلہ نمبر پانچ میں کچھ ”تضاد“ نظر آرہا ہے۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
اسی لئے میں آپ سے التماس کر رہاتھا تاکہ اس موضوع کی تفصیل سامنے آئے اور اگر کوئی پہلو بحث کے قابل ہو تو اسے آگے بڑھایا جائےاور اس کی گہرائی میں جاگے اس کا حل تلاش کیا جائے ۔
جمعہ کو خطبہ دینا ہوتا ہے ، اسی کی تیاری کر رہاہوں، مناسب وقت ملنے پہ میں اس پہ اظہار خیال کروں گا۔ ان شاء اللہ
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
اس تھریڈ کا عنوان ہے "قرآن کے اوپر کوئی چیز رکھنا

آپ نے مراسلہ نمبر 5 سےسو بلکہ ہزار فیصد اتفاق کیاجس میں مذکور ہے کہ"شیخ محمد مختار الشنقیطی نے بھی قرآن کے اوپر کچھ رکھنے سے منع فرمایا ہے "۔
یہی توتھرید کا عنوان ہے ، اور مراسلہ نمبرایک میں بھی اسی بات کا ذکر ہےکہ قرآن کے اوپر کوئی دوسری چیز نہ رکھی جائے ۔ گویا آپ نے صحیح سے پڑھا نہیں ، ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں۔
ایک نمبر میں ایک مزید ادب کا ذکر ہے کہ قرآن کو کھلا ہوا نہ چھوڑا جائے ۔یہ بھی ایک اچھی چیز ہے ۔
آپ نے کہا کہ یہ باتیں نبی ﷺ سے منسوب نہیں ۔ تو میرا کہنا ہے کہ ہاں یہ باتیں رسول مقبول ﷺ سے منقول نہیں ہیں ، علماء نے قرآن کے آداب ذکر کئے ہیں تاکہ کسی بھی پہلو سے قرآن کی ذرہ برابر بھی توہین نہ ہوسکے ۔

رسول ﷺ تو امت کے لئے ہرمعاملے میں آسانی ہی بتلاتے تھے تاکہ امت پہ شاق نہ گذرے۔ آپ نے تو یہ بھی نہیں فرمایا ہے کہ قرآن کو فرش پہ رکھنا منع ہے یا قرآن کو پیٹھ پیچھے پڑھنا منع ہے۔ ہاں اس مسئلے کو بھی علماء نے واضح کیاہے کہ

٭ اگر مصحف کو فرش پہ رکھنے کی ضرورت پڑے مثلا سجدہ تلاوت کے وقت تو پاک فرش پہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔(گوکہ اس صورت میں بھی افضل یہی ہے کہ مصحف کو اونچائی پہ رکھے ، اگر کوئی اونچی چیز نہ ملے تو کسی آدمی کو رکھنے کے لئے دیدے )۔
ملاحظہ فرمائیں:
http://islamqa.info/ur/128346

٭ اسی طرح پیٹھ پیچھے قرآن پڑھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔
ملاحظہ فرمائیں:
http://forum.mohaddis.com/threads/پیٹھ-پیچھے-قرآن-مجید-تلاوت-کرنا.26110/

٭میں بھی سعودی میں ہی کئی سال سے ہوں یہاں کرسی کے نیچے قرآن رکھنے کا کوئی چلن نہیں ہے بلکہ ایک چلن یہاں ملتا ہے کہ قرآن رکھنےوالی لکڑی پہ عام طور سے لکھا ہوتا ہے ۔
"لاتمدرجلیک امام کتاب اللہ "یعنی اللہ کی کتاب کے آگے اپنا پیر نہ پھیلائیں۔

ایک مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی معذورشخص کرسی پہ نماز پڑھ رہا ہے تو بغل میں کوئی دوسرا فرش پہ بیٹھا نمازی ہاتھ میں قرآن اٹھاکر تلاوت کرسکتا ہے گوکہ بظاہر قرآن نیچے نظر آرہا ہے ، ایسا ضرورت کے تحت ہوتا ہے ، اس لئے اس میں اہانت کا پہلو نہیں نکلتا۔
 
Top