• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قراء اتِ قرآنیہ اور مستشرقین

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حوالہ جات :
۱۔ہر قاری نے اپنے شیوخ سے ایک یا ایک سے زائد قراء ات کو سنا ہے۔ اور یہ قراء ایک دوسرے کی قراء ت کا انکار نہیں کرتے۔ ماسواء اس قراء ت کے کہ جس میں راوی سے خطا کا امکان ہو یا اس قراء ت کے نقل کرنے والے راوی کی صداقت میں شک ہو۔ یہ معاملہ اس وقت تک تھا جب تک کہ قراء ات کی مختلف روایات کو جمع اور اکٹھا نہیں کیا گیا تھا، لیکن جب قراء ات کی مختلف اسانید اور طرق معروف ہوگئے۔ متواتر اور صحیح قراء ات، شاذہ اور منکرقراء ات علیحدہ ہوگئیں تو پھر اب ان میں سے کسی کے انکار یا اس میں شک کی گنجائش نہیں ہے اور یہ بات ہر اس شخص پر واضح ہے کہ جو اسانید کے علم، نقل و روایت کے فنون ، اصولِ دین اور اصولِ فقہ سے اچھی طرح واقف ہو۔
۲۔قراء ات کے بارے میں مستشرقین کا نظریہ کیا ہے؟ اس کو گولڈزیہر نے اپنی کتاب ’’المذاہب الاسلامیہ فی تفسیر القرآن‘‘ میں واضح کیا ہے۔ جس کا عربی ترجمہ جناب استاذ الشیخ علی حسن عبدالقادر نے کیا ہے۔ گولڈ زیہر لکھتا ہے: یہ مختلف قراء ات مصحف عثمانی کے گرد گھومتی ہیں اور یہ وہ مصحف ہے جس پر حضرت عثمان بن عفان نے لوگوں کو جمع کیا تھا۔حضرت عثمان کا ارادہ تھا کہ کلام اللہ کی حرکات اور اس کے مختلف استعمالات میں جو خطرہ پیدا ہوسکتا تھا اس کو دور کردیا جائے۔ کیونکہ مسلمانوں نے قرآن کی قراء ات میں بہت سستی کا مظاہرہ کیا تھا اور ان سب قراء ات کو مسلمان برابری کا درجہ دیتے تھے۔ باوجودیکہ ان میں سے صرف چند ایک ایسی تھیں جن کو فرض کیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کو ایک ایک کلمہ اور ایک ایک حرف کی شکل میں نازل کیا تھا اور اس طرح کا کلام یعنی ایک کلمے اور حرف کے ساتھ لوحِ محفوظ میں بھی تھا اور اسی طرح مبارک فرشتہ جس قرآن کو لے کر نازل ہوا اس کے لیے لازم ہے کہ وہ ایک حرکت اور ایک ہی لفظ پر مشتمل ہو اور اس موضوع پر گولڈ نے اپنی کتاب تاریخ القرآن میں مفصل بحث کی ہے۔ وہ کہتا ہے، ان قراء ات کی بڑی قسم کا اصل سبب عربی رسم الخط ہے۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ ایک کلمے کا ایک ہی رسم حروف کے اوپر نیچے نقاط کے اعتبار سے مختلف حرکات کے ساتھ پڑھا جاسکتا ہے۔
جیسا کہ نحوی اعراب اور کلمے کی دوسری حرکات کے نہ ہونے کی وجہ سے عربی خط میں یہ بات ممکن ہے کہ کسی کلمہ کی مختلف حالتیں اس کے مختلف اعراب کے لحاظ سے بنا دی جائیں یہ تمام کام کتابی رسم کی تکمیلات میں حرکات و اعراب کا یہ اختلا ف ہی دراصل قراء ات کے ظہور کا اصل سبب تھا، کیونکہ شروع میں قرآن کے نقاط اور اس کی حرکات نہیں تھیں۔
گولڈ زیہر، کوئی پہلا شخص نہیں ہے جس نے قرآن اور علمائے قراء ات اسلام کے بارے میں یہ ہرزہ سرائی کی ہو، بلکہ یہ رائے ان سے پہلے بھی مستشرقین میں معروف رہی ہے اور قرآن اور اس کی قراء ات کے بارے میں مستشرقین کی جتنی قیل و قال ہے اس کامرکز ومحور یہی نکتہ ہے۔
۳۔یہ عربی رسم الخط معروف ہے اس رسم الخط کو حفاظ صحابہ کرام نے تمام صحابہ کی نگرانی میں لکھا ہے۔ اس رسم الخط کے محدود اور مفصل طرق کتب ِقراء ات، خاص طور پر رسم القرآن کی کتابوں میں جمع کئے گئے ہیں۔
۴۔کتب تفسیر اور کتب حدیث مثلا صحیح بخاری میں جو بعض صحابہ سے مصاحف عثمانیہ کے رسم کے خلاف قراء ت نقول ہیں، تو ان میں سے جس روایات کی سند صحیح ہے، تو وہ قرا ء ات درحقیقت اس آیت کی تفسیر میں ہے اور ان کی بطور قرآن تلاوت جائز نہیںہے، کیونکہ قرآن کے ثبوت میں اول شرط یہ ہے کہ وہ مصاحف کے رسم کے مطابق ہو۔ یہ امر اسلام کے بدیہی امور میں سے ہے اور دین میں ضرورت کے درجہ میں معلوم ہے۔
۵۔گولڈ زیہر اور نولڈ کے اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن اور قراء ات دونوں الگ الگ شے ہیں۔ قرآن وہ ہے جسے فرشتہ نے رسول ا پر نازل کیا ہے۔ یہ ایک حرکت اور ایک ہی لفظ میں تھا، جبکہ قراء ات سے مراد وہ وجوہات ہیں جن کا لکھے ہوئے رسم عثمانی میں احتمال موجود تھا، ہر قاری اپنی استطاعت اور رائے کے مطابق ان قراء ات کو مختلف شکلیں دے دیتا تھا۔ مزید یہ کہ یہ قرا ء ات اللہ کی طرف سے نازل شدہ نہیں تھیں۔ دوسرے الفاظ میں قرآن کی کچھ قراء ات اصل ہیں اور کچھ فرعی ہیں۔ اصلی قراء ات وہ ہیں جو اللہ کی طرف سے ایک ہی حرکت اورلفظ پر نازل ہوئیں اور فرعی قراء ات، وہ احتمالی قراء ات ہیں کہ جن کا احتمال رسم عثمانی کے نقاط اور حرکات سے خالی ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتا تھا۔ نیز یہ کہ قراء ات اللہ کی طرف سے نازل شدہ نہیں ہیں۔
اس قسم کا قول متجددین میں سے ایک شخص کا بھی ہے جو اپنے آپ کو فکر ِاسلامی کا نمائندہ تصور کرتا ہے اس شخص کا کہناہے کہ قرآن کا متن ہم تک محفوظ طریقے سے پہنچا ہے، لیکن اس کی قراء ات میں اختلاف ہے گویا کہ اس کے نزدیک قرآن کا متن محفوظ ہے، جبکہ قراء ات قرآن کے علاوہ کوئی غیر محفوظ چیزہیں۔
قراء ات کی ایسی تقسیم کی طرف سلف و خلف میں سے کوئی بھی عالم نہیں گیا اور اس قسم کی تقسیم کی ان کے پاس عقل و نقل سے کوئی سند یا دلیل بھی نہیں ہے۔ جس بات پر محققین علماء کا اتفاق ہے وہ یہ ہے کہ قرا ء ات اگر تواتر سے ثابت ہوئی تو اس کو قبول کیا جائے گا اور ایسی قراء ات قطعی طور پر قرآن شمار ہوں گی اور اگر قراء ات اخبارِ احادیث سے ثابت ہو، لیکن قراء کے درمیان وہ قراء ت معروف ہوجائے یہاں تک کہ اسے تلقی بالقبول حاصل ہو تو ایسی قراء ت کوبھی قبول کیا جائے گا اور قرآن شمار کیا جائے گا اور اگر قراء ت اخبار احاد کے طریقے سے نقل ہو، لیکن وہ قراء میں معروف نہ ہو یا اسے تلقی بالقبول حاصل نہ ہو تو ایسی قراء ت کو رد کردیا جائے گا اور اس پر شذوذ کا حکم لگایا جائے گا اور اسے بطورِ قرآن نہیں پڑھا جائے گا۔
پس فکر ِاصلاحی کے نمائندے کا یہ دعویٰ کہ قرآن اور قراء ات دو علیحدہ چیزیں ہیں۔ ایک محفوظ اور دوسری غیر محفوظ ہے، ایک ایسا دعویٰ ہے کہ جس کی کوئی دلیل بھی ان کے پاس موجود نہیں ہے اور نہ ہی علمائے قراء ات میں سے کسی سے قراء ات کی یہ تقسیم منقول ہے۔ (بلکہ علمائے قراء ات کی تقسیم وہ ہے جو اوپر بیان ہوچکی ہے)
۶۔جیسا کہ حدیث شریف کی اسناد اور راوی ہیں، اسی طرح علم قراء ات کی بھی اسناد اور راوی ہیں، لیکن یہ روایات اور اسانید ہمارے عہد میں اس طرح مشہور نہیں ہیں کہ جس طرح احادیث کی اسناد معروف ہیں اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔
ایک وجہ تو یہ ہے کہ قراء ات کی اسناد کو متخصصین کی ایک جماعت جانتی ہے، اور دوسری طرف احادیث کا معاملہ بھی یہی ہے، لیکن واعظین، خطباء اور داعیین اکثر اوقات اپنے وعظ تقریر یا خطبے میں ان اسناد یا ان کی صحت و ضعف کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں، جس سے عام عوام الناس کو احادیث کی سند کے بارے میں کچھ نہ کچھ علم حاصل ہوتا رہتا ہے، جبکہ قراء ات کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ امام شاطبیؒ نے اپنی منظوم کتاب ’’حرزالامانی‘‘ اور ابن الجزریؒ نے ’’طیبۃ النشر‘‘ میں متواتر قراء ات کی اسانید اور طرق کے بغیر ان کو جمع کردیاہے۔ تاکہ ان کے یاد کرنے میں طلبہ کے لئے آسانی ہو اور ان کی تلاوت باعث عبادت ہو۔ پس شاطبیہ، درۃ اور طیبۃ جیسی کتابوں سے بغیر اسانید کے بھی قراء ات متواترہ کا حصول ممکن ہوگیا۔ لہٰذا قراء کی ایک بڑی جماعت ان اسانید قراء ات سے ناواقف رہی جو کہ ابن الجزریؒ کی کتاب ’’النشر‘‘ وغیرہ میںموجود ہیں۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ قرآن میں اصل شرط متخصصین شیوخ سے تلقی اور مصحف میں موجودقراء ت پر عدمِ اعتماد ہے اور یہ شرط صرف علم قراء ات میں ہے، جبکہ باقی علوم مثلاً حدیث وغیرہ میں تلقی عن الشیوخ کی شرط نہیںہے۔ (بلکہ حدیث میںتلقی کی بجائے تحمل ہوتا ہے۔ تلقی اور تحمل میں بہت فرق ہے۔ تلقی میں الفاظ کی ادائیگی کے مختلف طریقے، تلفظ، لہجات، تجوید ِ الفاظ وغیرہ شامل ہیں،جبکہ تحمل میں مجرد ایک شخص اپنے شیخ سے احادیث سن کر آگے بیان کردیتا ہے۔) اور مقری، طالب علم کو قراء ات بار بار سنا کر اس کے ذہن میں بٹھاتا اور اس کے لئے ان کی اسانید کی معرفت آسان بنا دیتا ہے اگر وہ طیبۃکے طریق سے ہوں۔
چوتھی وجہ یہ ہے کہ ابن الجزریؒ کے زمانے میں قراء ات کی اسناد ختم ہوگئیں۔ اس لیے کسی کے لئے بھی یہ جائزنہیں کہ وہ ’’طیبۃ‘‘کے مصادر میں سے کسی مصدر مثلاً ’’التیسیر‘‘ اور ’’المنہج‘‘ میں سے کوئی ایسی قراء ت پڑھے جو اپنی سند کے ساتھ ’’النشر‘‘ میں موجود نہ ہو۔
حضرت عثمان نے قرآن کی ایک نص پر لوگوں کو جمع کرنے کا ارادہ کیا ہوتا، تو تمام مصاحف کو ایک ہی صورت میں لکھا جاتا اور ان میں کسی قسم کا بھی اختلاف نہ ہوتا، لیکن مصاحف عثمانیہ کی مختلف صورتوں اور متعدد کیفیات میں کتابت اس با ت کی واضح دلیل ہے کہ حضرت عثمانؓ نے ایک نص کے حصول کا ارادہ نہ کیا تھا بلکہ ان کا اصل مقصود لوگوںکو غیر متواتر قراء ات کے بالمقابل متواتر قراء ات پر جمع کرنا تھا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
جب یہ بات واضح ہوگئی تو اب کسی کو بھی پروپیگنڈا کرنے والوں کی یہ بات پریشان نہ کرے کہ جب حضرت عثمانؓ نے مسلمانوں میں قراء ات کے اختلافات محسوس کئے تو ان کو ایک ایک مصحف پر جمع کردیا اور وہ مصحف وہی ہے جو بلادِمشرق میں پایا جاتا ہے( جیسا کہ بعض متجددین کہتے ہیں۔ یاد رہے کہ بلادِ مشرق، مشرق میں موجود مسلمان ممالک کوکہتے ہیں اور مسلمانوں کا بلادِ مغرب پانچ ممالک پر مشتمل ہے۔ تیونس، الجزائر، مراکش، لیبیا اور موریطانیہ)
ان لوگوں کا یہ قول سلف و خلف میں سے کسی ایک کا بھی نہیں ہے اور اس قول کے قائلین کے پاس دلیل تو کجا اس سے مشابہ عقل و نقل کی بھی کوئی چیز ایسی نہیں ہے، جس کو وہ اس قول کی بنیاد بنا سکیں، بلکہ یہ من گھڑت باتوں کی طرح ایک بات ہے اور ایسے لوگوں کا قول ہے، جو قرآن، علوم قرآن اور قراء ات قرآنیہ سے بالکل جاہل اور ناواقف لوگ ہیں۔
یہاں ہم بعض ایسے مقامات ذکر کریں گے، جہاں اہل حجاز ، عراق اورشام کے مصاحف میں اختلاف واقع ہوا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سورۃ البقرہ:
(۱)… شامی مصاحف میں {وقالوا اتخذااﷲ ولداً سبحنہ…} (البقرۃ:۱۱۶) والی آیت میں (قالوا) بغیر واؤ کے ہے۔ابن عامر شامی ؒکی قراء ت اسی رسم کے مطابق ہے، جبکہ باقی تمام مصاحف میں (وقالوا)واؤ کے ساتھ ہے اور باقی سبعہ قراء کی قراء ت اسی رسم کے مطابق ہے۔ ابن عاشر الاندلسی ؒ نے ’الاعلان‘ (۱)میں لکھا ہے کہ شامی مصاحف نے {وقالوا اتخذا} میں واؤ کو حذف کیا گیاہے۔امام شاطبیؒ نے ’شاطبیہ ‘ ( ۲ )میں لکھا ہے کہ {علیم وقالوا} میں پہلی واؤ کو ابن عامرشامی ؒنے گرا دیا ہے۔
(۲)… {ووصی بھا ابراھیم بنیہ و یعقوب} (البقرۃ :۱۳۲) والی آیت (واوصی)کے الفاظ کے ساتھ اہل مدینہ اور شام کے مصاحف میں ہے اور ابوعبید ؒنے کہا ہے کہ (واوصی) یعنی دو واؤں کے درمیان ہمزۃ کے ساتھ میں نے اسے مصحف الامام میں دیکھا ہے۔
یہ امام نافع ؒ اور ابن عامر شامی ؒ کی قراء ت کے مطابق ہے، جبکہ باقی تمام مصاحف میں (ووصی) بغیرہمزۃ کے ہے اور باقی قرآء کی قراء ت اس کے مطابق ہے۔
’الاعلان‘ میں ہے کہ (اوصی) مدنی اور شامی مصاحف کے لئے ہے۔ ’شاطبیہ‘ میں ہے کہ ابن عامر شامی ؒ اور نافع ؒ کے لئے (وصی)کی جگہ (اوصی)ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سورۃ آل عمران:
(۱)… {وسارعوا إلی مغفرۃ من ربکم} (آل عمران:۱۳۳) اہل مکہ اور عراق کے مصاحف میں یہ آیت (وسارعوا)کے الفاظ کے ساتھ ہے: یعنی سین سے پہلے واؤ ہے۔ابن کثیر مکیؒ، ابوعمرو بصریؒ، عاصمؒ، حمزۃ ؒاور کسائی ؒکی قراء ت اس کے مطابق ہے، جبکہ اہل مدینہ اور شام کے مصاحف میں(سارعوا)واؤ کے بغیرہے اور اسی پر امام نافعؒ اور ابن عامر شامیؒ کی قراء ت ہے۔
’ الاعلان‘ میں ہے: مکی اور عراقی مصحف میں(سارعوا)کے واؤ کے ساتھ ہے۔
’شاطبیہ‘ میں ہے:(سارعوا)سے قبل واؤ ابن عامر شامیؒ اور نافع کے لئے نہ پڑھو۔
(۲)… {جآء وا بالبینات والزبر والکتاب} (آل عمران:۱۸۴) آیت میں اہل شام کے مصاحف میں (وبالزبر و بالکتاب)کے الفاظ کے ساتھ ہے یعنی باء دونوں کلمات میں ہے۔
ابن عامر شامیؒ کی قراء ت اسی رسم کے مطابق ہے، جبکہ باقی مصاحف میںدونوں جگہ باء نہیں ہے۔ اور باقی قراء کی قراء ت بھی اسی کے مطابق ہے۔
’الاعلان‘ میں ہے (بالزبر) میں باء شامی مصحف کے لئے نقل ہوئی ہے۔اسی طرح (بالکتاب)میں بھی باء شامی مصحف کے لئے ہے اور دونوں جگہ مصحف شامی نے باقی مصاحف کی مخالفت کی ہے۔
’شاطبیہ‘ میں ہے: (وبالزبر)کے ساتھ ابن عامر شامیؒ نے پڑھا ہے اور اسی طرح شامی مصاحف کارسم ہے۔ اور (بالکتاب) کے ساتھ ہشام ؒنے پڑھاہے اور اس کے مجمل رسم کو اس طرح پڑھ کر تو کھول دے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سورۃ النساء :
{مافعلوہ إلا قلیل منھم} (النسائ:۸۶) یہ آیت اہل شام کے مصاحف میں (الا قلیلا) یعنی نصب کے ساتھ ہے۔ ا ور ابن عامر شامیؒ کی قراء ت بھی اس کے مطابق ہے۔جبکہ باقی مصاحف میں (الا قلیل) مرفوع ہے اور باقی سبعہ قراء ت اس رسم الخط کے مطابق ہے۔
’الاعلان‘ میں ہے کہ شامی مصحف، باقی مصاحف کے بالمقابل (قلیلا) کو نصب دیتا ہے۔
’شاطبیہ‘ میں ہے (قلیل منھم) کی رفع، ابن عامر شامیؒ کے لئے نصب سے ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سورۃ المائدہ:
(۱)… {ویقول الذین آمنوا} (المائدۃ:۵۳) آیت مبارکہ اہل مدینہ، مکہ اور شام کے مصاحف میں (یقول)کے لفظ یعنی یاء سے ماقبل واؤ کے بغیر ہے۔ امام نافعؒ، ابن کثیرؒ، ابن عامرؒ کی قراء ت اسی کے مطابق ہے، جبکہ اہل کوفہ اور بصرہ کے مصاحف میں (ویقول) واؤ کے ساتھ ہے اور ابوعمرو بصریؒ ، عاصمؒ، حمزۃ ؒ اور کسائی ؒ کی قراء ت اس کے مطابق ہے۔
’االاعلان‘ میں ہے کہ عراقی مصاحف کے لئے (یقول)کی واؤ زیادہ ہے۔
’شاطبیہ‘ میں ہے: (یقول)سے پہلے واؤ ابوعمرو بصریؒ، عاصمؒ، حمزۃؒ اورکسائی ؒ کے لئے زیادہ پڑھو اور (یقول)کے لام کو ابوعمرو بصریؒ کے علاوہ کے لئے رفع سے پڑھو۔
(۲)… {یایھا الذین آمنوا من یرتد} (المائدۃ:۵۴) آیت مبارکہ اہل مدینہ اور شامی مصاحف میں (یرتدد)کے الفاظ یعنی دو دالوں کے ساتھ ہے۔ امام نافعؒ اور ابن عامر شامیؒ کی قراء ت اسی کے مطابق ہے، جبکہ باقی تمام مصاحف میں (یرتد) ایک دال کے ساتھ ہے اور باقی سبعہ قراء کی قراء ت اسی کے مطابق ہے۔
’الاعلان‘ میں ہے : مدنی اور شامی مصاحف میں (یرتدد) کا رسم ہے۔
’شاطبیہ‘ میں ہے: (من یرتدد) ابن عامر شامی اور نافع ؒ کے لئے عام ہوا ہے، جبکہ باقی قراء کے لئے یہ ادغام اور دال کے حرکت کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سورۃ الانعام :
{وللدار الا خرۃ خیر}( الانعام: ۳۲) آیت مبارکہ اہل شام کے مصاحف میں (ولدار) یعنی ایک لام کے ساتھ ہے۔ ابن عامر شامیؒ کی قراء ت بھی یہی ہے، جبکہ باقی مصاحف میں (وللدار) دو لاموں کے ساتھ ہے اور باقی سبعہ قراء کی قراء ت اس کے مطابق ہے۔
’الاعلان‘ میں ہے کہ (للدار) شامی مصحف کے لئے ایک لام کے ساتھ ہے۔
’شاطبیہ‘ میں ہے: (وللدار)میں ابن عامرؒ نے دہرے لام کو حذف کیاہے اور (الآخرۃ) ابن عامر شامیؒ نے مرفوع مجرور پڑھاہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سورۃ الاعراف :
(۱)… {قلیلا ما تذکرون}( الاعراف:۳) آیت مبارکہ میں اہل شام کے مصاحف میں (یتذکرون) ہے :یعنی یاء اور تاء کے ساتھ۔ ابن عامر شامیؒ کی قراء ت یہی ہے، جبکہ باقی مصاحف میں (تذکرون) یعنی تاء کے ساتھ ہے۔ باقی سبعۃ قراء کی قراء ت اس کے مطابق ہے۔
’الاعلان‘ میں ہے : (تذکرون)سے پہلے شامی مصحف میں یاء مقدم کی گئی ہے۔
’شاطبیہ‘ میں ہے: (تذکرون) میں ابن عامر شامیؒ کے لئے تاء سے پہلے غیب یعنی یاء کا اضافہ کرو۔اور ابن عامر شامیؒ، حفصؒ، حمزۃ ؒاور کسائی ؒکے لئے ذال کو تخفیف کے ساتھ پڑھو۔
(۲)… {وماکنا لنھتدی} (الاعراف:۴۳) یہ آیت مبارکہ اہل شام کے مصاحف میں (ماکنا) کے الفاظ یعنی ’ما ‘سے ماقبل بغیرواؤ کے ہے۔ ابن عامر شامیؒ کی قراء ات اسی کے مطابق ہے، جبکہ باقی مصاحف میں (وماکنا) واؤ کے ساتھ ہے ۔باقی سبعۃ قراء کی قراء ت بھی اس کے مطابق ہے۔
’الاعلان‘ میں ہے۔ (وماکنا) کی واؤ شامی مصحف کے لئے حذف کی گئی ہے۔
’شاطبیہ‘ میں ہے: واؤ کو شامی مصحف کے لئے چھوڑ دے۔
(۳)… {قال الملاء الذین استکبروا} ( الاعراف: ۸۸) یہ آیت مبارکہ اہل شام کے مصحف میں (وقال) قاف سے پہلے واؤ کے اضافے کے ساتھ ہے۔ ابن عامر شامیؒ کی قراء ت اسی کے مطابق ہے۔ جبکہ باقی تمام مصاحف میں (قال) بغیرواؤ کے پہلے اور باقی سبعۃ قراء کے ہاں اسی کے مطابق ہے۔
’الاعلان‘ میں ہے۔ (وماکنا ) کی واؤ کو شامی مصحف کے لئے چھوڑ دو۔
’شاطبیہ‘ میں ہے۔ (مفسدین)کے بعد واؤ ابن عامر شامیؒ کے لئے زیادہ پڑھو۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سورۃ التوبہ :
(۱)… {تجری من تحتھا الانھار} (التوبۃ: ۸۹) یہ آیت مبارکہ اہل مکہ کے مصاحف میں (من تحتھا) منکے اضافہ کے ساتھ ہے۔ ابن کثیر ؒ کی قراء ت اس کے مطابق ہے، جبکہ باقی مصاحف میں (من) نہیں ہے اور باقی سبعہ قراء کی قراء ت اس کے مطابق ہے۔
’الاعلان‘ میں ہے: سورۃ التوبہ کے آخر میں مکی مصاحف کے لئے (تحتھا) کے ساتھ (من) کابھی اعتبار کریں۔
’شاطبیہ‘ میں ہے۔ (ومن تحتھا)میں ابن کثیر مکیؒ جر کے ساتھ پڑھتے ہیں اور (من) کا اضافہ کرتے ہیں۔
(۲)… {والذین اتخذوا مسجدًا ضرارا}(التوبۃ: ۱۰۷) یہ آیت مبارکہ مصاحف اہل مدینہ اور شام میں (الذین)کے الفاظ یعنی بغیرواؤ کے ہے۔ امام نافعؒ اور ابن عامر شامیؒ کی قراء ت اس کے مطابق ہے۔جبکہ باقی مصاحف میں (والذین)واؤ کے ساتھ ہے اورباقی سبعہ قراء کی قراء ت بھی یہی ہے۔
’الاعلان‘ میں ہے (والذین) مدنی اور شامی مصاحف میں بغیر واؤ کے ہے اچھی طرح سمجھ لو۔
’شاطبیہ‘ میں ہے: (الذین) ابن عامر شامیؒ اور نافعؒ کے لئے بغیر واؤ کے ہے۔[/QUOTE]
ہم اتنی ہی مثالوں پراکتفا کرتے ہیں۔یہاں ہم نے آپ کے سامنے اہل حجاز ، عراق اور شام کے مصاحف کے باہمی اختلافات کے کچھ نمونے آپ کے سامنے رکھے ہیں جبکہ قراء ت کی کتب میں بالعموم اور رسم الخط کی کتابوں میںبالخصوص اس قسم کی مثالیں بکثرت موجود ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
قراء ات میں طعن و تشنیع
دشمنان اسلام اپنے تمام وسائل کے ساتھ اس کوشش میں مصروف ہیں کہ وہ مسلمانوں میں قرآن کریم کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کریں اور ان کو باہم آپس میں اختلاف کا شکار کرتے ہوئے لڑا دیں۔ مسلمان دشمنوں پر یہ بات اچھی طرح واضح ہے کہ قرآن کریم ہی دین ِاسلام کی بنیاد اور صراطِ مستقیم کاسرچشمہ ہے ۔ لہٰذا قرآن میں شکوک و شبہات پیدا کرنا دراصل دین اسلام کو کمزور کرنااور مسلمانوں کو اس صراط مستقیم سے پھیر دینا ہے، جس میں کسی قسم کا کوئی ٹیڑھ یا کجی نہیں ہے۔ قابل افسوس بات تو یہ ہے کہ مسلمانوں میں ایک طبقہ ایسا موجود ہے، جو ان دشمنانِ اسلام کی چپڑی باتوں سے متاثر ہے۔ (قراء ات کے بارے میں اپنے غلط نظریات کوبیان کرتے ہوئے) یہ طبقہ اسلام اوراہل اسلام کو اس کے دشمنوں سے زیادہ اذیت پہنچاتا ہے۔خاص طور پر جرمنی اور یورپ کے مستشرقین کے پروان چڑھنے کے بعد مسلمانوں میں یہ طبقہ قراء ات کے خلاف زیادہ سرگرم ہوگیا ہے۔
وہ لوگ جو کہ ’فکر ِقرآنی‘ کی ترویج اور نشرواشاعت کے دعویدار ہیں ، بے دین، ملحد مستشرقین اور دشمنانِ اسلام سے اپنے افکار مستعار لیتے ہیں۔ یہ حضرات حیران کن عجیب وغیب قسم کے ملاوٹ شدہ افکار و آراء پیش کرتے ہیں۔ جیساکہ پاکستان میں ایک بے دین شخص غلام احمدپرویز کافکر ہے، جو قرآن کریم کے حفظ اور تلاوت کا بھی قائل نہیں ہے اور اپنی بات کو اصرار کے ساتھ پیش کرتا ہے کہ ’’ تمام علماء سلف و خلف قرآن کی حکمت کونہ سمجھ سکے کیونکہ انہوں نے قرآن کو دائمی شریعت بنا لیا، حالانکہ شریعتیں تو اللہ کے ہاں تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔
اسی طرح بعض متجددین (۳) نے قرآن کی متواتر قراء ات کا انکار کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ روایت حفص جو مشرقی ممالک میں رائج ہے، کے علاوہ کوئی روایت ثابت نہیں ہے۔ یہ متجددین اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ روایت حفص ہی قرآن کی واحد اور متواتر قراء ات ہے اور باقی قراء ات قراء حضرات کی من گھڑت قراء ات ہیں۔ یہاں تک کہ بعض نے یہ بھی کہا (۴)ہے کہ قراء ات سبعۃ تھوڑی ہوں یازیادہ، وحی الٰہی نہیں ہیں اور ان کا منکر کافر ہے نہ فاسق اورنہ ہی دین کا ناقد۔
ان کاکہنا ہے قراء ات دراصل مختلف قبائل کے لہجات اور ان کے اختلاف کی وجہ سے بنی ہیں۔ بے حد افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بعض مخلص علماء بھی یہی کہتے ہیں کہ خلیفہ راشد حضرت عثمان ؓ نے ایک ہی قراء ات یعنی روایت حفص کو باقی رکھا تھا۔ اور یہی قرآن کی صحیح قراء ت ہے۔ ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں کہ ایسا ہی معاملہ ہو جیساکہ یہ علماء کہتے ہیں، (یعنی حضرت عثمانؓ معاذ اللہ، قرآن کو ختم کردیاتھا۔) کیونکہ ہمارے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ ہم ایسی بات کریں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ پاک ہے اور یہ بہت بڑابہتان ہے۔
عجیب بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی قراء ات ایسی نہیں ہے کہ جس پر طعن نہ کیا گیاہو یا اس پرجرح نہ ہوتی ہو یا اس کے بارے میںکسی طرح سے کوئی بحث مباحثہ نہ ہواہو۔ اور یہ بات قابل افسوس ہے (لیکن اگر کسی قراء ت پرجرح و طعن کو اس کی قبولیت یاعدم قبولیت کا معیار بنالیں تو) کوئی بھی قراء ت ہمارے لئے ثابت نہ ہوگی، چاہے وہ صحت ،وثوق اور تواتر کے بلند ترین درجے پر ہی کیوں نہ ہو۔
میں آپ حضرات کے سامنے چند معاصر علماء کے اعدادوشمار بیان کررہا ہوں، جوآپ کے لئے اس بات کو اچھی طرح واضح کردیں گے کہ بغیر کسی استثناء کے تمام قراء ات سبعۃ میں طعن کیا گیا اور ان کی غلطیاں نکالی گئیں۔فضیلۃ الشیخ ’’عضیمۃ‘‘ اس بات کو بیان کرنے کے لئے قراء سبعۃ اور ان کی قراء ات میں نکالی جانے والی غلطیاں کے عنوان سے ایک بحث قائم کرتے ہیں، پھر وہ ہرقاری کا ذکر کرتے ہیں اور ان قراء ات میں جس قدر غلطیاں نکالی گئیں ہیں ان کے اعدادوشمار پیش کرتے ہیں۔اس اعدادوشمار کاخلاصہ ہم ذیل میں بیان کررہے ہیں۔
(۱)امام نافع ؒ، متوفی ۹ھ کی قراء ت میں۱۲ مقامات پر غلطیاں نکالی گئیں ہیں۔
(۲)امام ابن کثیرؒ، متوفی ۱۲۰ھ کی قراء ت میں۹ مقامات پرغلطیوں کا دعویٰ کیاگیاہے۔
(۳)امام ابوعمروؒ ،متوفی ۱۵۴ھ کی قراء ت میں۷ مقام پرغلطیاں بیان کی گئی ہیں۔
(۴)امام ابن عامرؒ، متوفی ۱۱۸ھ کی قراء ت میں۱۸ مقامات پر غلطیاں نکالی گئی ہیں۔
(۵)امام عاصم ؒ، متوفی ۱۲۷ھ کی قراء ت میں۷مقامات پر غلطیاں بیان کی گئی ہیں۔
(۶)امام حمزۃ ؒ، متوفی ۱۵۰ ھ کی قراء ت میں ۱۵ مقامات پر غلطیاں بیان ہوئی ہیں۔
(۷)امام کسائی ؒ، متوفی ۱۸۰ ھ کی قراء ت میں ۱۱ مقامات پر غلطیوں کادعویٰ کیا گیا ہے۔
قراء ت سبعۃ میں کئے جانے والے طعن کی یہ بعض قسمیں ہیں۔ اس کے علاوہ قراء ت عشرۃ یا ان اربعۃ عشرۃ یا ان سے بھی زائد قراء ت میں جوطعن کیاگیا ہے، اس کاکیاحال ہوگا۔
متواتر قراء ات کاانکار زیادہ لوگ کریں یا کم، اس سے قراء ات کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جیساکہ حافظ ابن الجزریؒ فرماتے ہیں:
’’کتنی ہی قراء ات کااہل نحونے انکار کیا ہے، لیکن ان کا انکار معتبر نہیں ہے، کیونکہ سلف صالحین میں جن ائمہ کی اقتداء کی جاتی ہے وہ سب ان قراء ات کو قبول کرنے پر متفق ہیں۔‘‘
اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ کوئی ایک قراء ات بھی ایسی نہیں ہے جو مطلق طور پر تسلیم کی گئی ہو اور ہم اس کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہوں کہ یہ وہ قراء ات مقدسہ ہے ، جس کو تمام لوگ بغیرکسی استثناء کے تسلیم کرتے ہیں یا اس قراء ات کے قبول کرنے میں کوئی طعن ، جرح یاکسی قسم کابحث مباحثہ نہیں ہوا۔
 
Top