کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
حوالہ جات :
۱۔ہر قاری نے اپنے شیوخ سے ایک یا ایک سے زائد قراء ات کو سنا ہے۔ اور یہ قراء ایک دوسرے کی قراء ت کا انکار نہیں کرتے۔ ماسواء اس قراء ت کے کہ جس میں راوی سے خطا کا امکان ہو یا اس قراء ت کے نقل کرنے والے راوی کی صداقت میں شک ہو۔ یہ معاملہ اس وقت تک تھا جب تک کہ قراء ات کی مختلف روایات کو جمع اور اکٹھا نہیں کیا گیا تھا، لیکن جب قراء ات کی مختلف اسانید اور طرق معروف ہوگئے۔ متواتر اور صحیح قراء ات، شاذہ اور منکرقراء ات علیحدہ ہوگئیں تو پھر اب ان میں سے کسی کے انکار یا اس میں شک کی گنجائش نہیں ہے اور یہ بات ہر اس شخص پر واضح ہے کہ جو اسانید کے علم، نقل و روایت کے فنون ، اصولِ دین اور اصولِ فقہ سے اچھی طرح واقف ہو۔
۲۔قراء ات کے بارے میں مستشرقین کا نظریہ کیا ہے؟ اس کو گولڈزیہر نے اپنی کتاب ’’المذاہب الاسلامیہ فی تفسیر القرآن‘‘ میں واضح کیا ہے۔ جس کا عربی ترجمہ جناب استاذ الشیخ علی حسن عبدالقادر نے کیا ہے۔ گولڈ زیہر لکھتا ہے: یہ مختلف قراء ات مصحف عثمانی کے گرد گھومتی ہیں اور یہ وہ مصحف ہے جس پر حضرت عثمان بن عفان نے لوگوں کو جمع کیا تھا۔حضرت عثمان کا ارادہ تھا کہ کلام اللہ کی حرکات اور اس کے مختلف استعمالات میں جو خطرہ پیدا ہوسکتا تھا اس کو دور کردیا جائے۔ کیونکہ مسلمانوں نے قرآن کی قراء ات میں بہت سستی کا مظاہرہ کیا تھا اور ان سب قراء ات کو مسلمان برابری کا درجہ دیتے تھے۔ باوجودیکہ ان میں سے صرف چند ایک ایسی تھیں جن کو فرض کیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کو ایک ایک کلمہ اور ایک ایک حرف کی شکل میں نازل کیا تھا اور اس طرح کا کلام یعنی ایک کلمے اور حرف کے ساتھ لوحِ محفوظ میں بھی تھا اور اسی طرح مبارک فرشتہ جس قرآن کو لے کر نازل ہوا اس کے لیے لازم ہے کہ وہ ایک حرکت اور ایک ہی لفظ پر مشتمل ہو اور اس موضوع پر گولڈ نے اپنی کتاب تاریخ القرآن میں مفصل بحث کی ہے۔ وہ کہتا ہے، ان قراء ات کی بڑی قسم کا اصل سبب عربی رسم الخط ہے۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ ایک کلمے کا ایک ہی رسم حروف کے اوپر نیچے نقاط کے اعتبار سے مختلف حرکات کے ساتھ پڑھا جاسکتا ہے۔
۳۔یہ عربی رسم الخط معروف ہے اس رسم الخط کو حفاظ صحابہ کرام نے تمام صحابہ کی نگرانی میں لکھا ہے۔ اس رسم الخط کے محدود اور مفصل طرق کتب ِقراء ات، خاص طور پر رسم القرآن کی کتابوں میں جمع کئے گئے ہیں۔
۴۔کتب تفسیر اور کتب حدیث مثلا صحیح بخاری میں جو بعض صحابہ سے مصاحف عثمانیہ کے رسم کے خلاف قراء ت نقول ہیں، تو ان میں سے جس روایات کی سند صحیح ہے، تو وہ قرا ء ات درحقیقت اس آیت کی تفسیر میں ہے اور ان کی بطور قرآن تلاوت جائز نہیںہے، کیونکہ قرآن کے ثبوت میں اول شرط یہ ہے کہ وہ مصاحف کے رسم کے مطابق ہو۔ یہ امر اسلام کے بدیہی امور میں سے ہے اور دین میں ضرورت کے درجہ میں معلوم ہے۔
۵۔گولڈ زیہر اور نولڈ کے اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن اور قراء ات دونوں الگ الگ شے ہیں۔ قرآن وہ ہے جسے فرشتہ نے رسول ا پر نازل کیا ہے۔ یہ ایک حرکت اور ایک ہی لفظ میں تھا، جبکہ قراء ات سے مراد وہ وجوہات ہیں جن کا لکھے ہوئے رسم عثمانی میں احتمال موجود تھا، ہر قاری اپنی استطاعت اور رائے کے مطابق ان قراء ات کو مختلف شکلیں دے دیتا تھا۔ مزید یہ کہ یہ قرا ء ات اللہ کی طرف سے نازل شدہ نہیں تھیں۔ دوسرے الفاظ میں قرآن کی کچھ قراء ات اصل ہیں اور کچھ فرعی ہیں۔ اصلی قراء ات وہ ہیں جو اللہ کی طرف سے ایک ہی حرکت اورلفظ پر نازل ہوئیں اور فرعی قراء ات، وہ احتمالی قراء ات ہیں کہ جن کا احتمال رسم عثمانی کے نقاط اور حرکات سے خالی ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتا تھا۔ نیز یہ کہ قراء ات اللہ کی طرف سے نازل شدہ نہیں ہیں۔
اس قسم کا قول متجددین میں سے ایک شخص کا بھی ہے جو اپنے آپ کو فکر ِاسلامی کا نمائندہ تصور کرتا ہے اس شخص کا کہناہے کہ قرآن کا متن ہم تک محفوظ طریقے سے پہنچا ہے، لیکن اس کی قراء ات میں اختلاف ہے گویا کہ اس کے نزدیک قرآن کا متن محفوظ ہے، جبکہ قراء ات قرآن کے علاوہ کوئی غیر محفوظ چیزہیں۔
۶۔جیسا کہ حدیث شریف کی اسناد اور راوی ہیں، اسی طرح علم قراء ات کی بھی اسناد اور راوی ہیں، لیکن یہ روایات اور اسانید ہمارے عہد میں اس طرح مشہور نہیں ہیں کہ جس طرح احادیث کی اسناد معروف ہیں اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔
ایک وجہ تو یہ ہے کہ قراء ات کی اسناد کو متخصصین کی ایک جماعت جانتی ہے، اور دوسری طرف احادیث کا معاملہ بھی یہی ہے، لیکن واعظین، خطباء اور داعیین اکثر اوقات اپنے وعظ تقریر یا خطبے میں ان اسناد یا ان کی صحت و ضعف کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں، جس سے عام عوام الناس کو احادیث کی سند کے بارے میں کچھ نہ کچھ علم حاصل ہوتا رہتا ہے، جبکہ قراء ات کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ امام شاطبیؒ نے اپنی منظوم کتاب ’’حرزالامانی‘‘ اور ابن الجزریؒ نے ’’طیبۃ النشر‘‘ میں متواتر قراء ات کی اسانید اور طرق کے بغیر ان کو جمع کردیاہے۔ تاکہ ان کے یاد کرنے میں طلبہ کے لئے آسانی ہو اور ان کی تلاوت باعث عبادت ہو۔ پس شاطبیہ، درۃ اور طیبۃ جیسی کتابوں سے بغیر اسانید کے بھی قراء ات متواترہ کا حصول ممکن ہوگیا۔ لہٰذا قراء کی ایک بڑی جماعت ان اسانید قراء ات سے ناواقف رہی جو کہ ابن الجزریؒ کی کتاب ’’النشر‘‘ وغیرہ میںموجود ہیں۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ قرآن میں اصل شرط متخصصین شیوخ سے تلقی اور مصحف میں موجودقراء ت پر عدمِ اعتماد ہے اور یہ شرط صرف علم قراء ات میں ہے، جبکہ باقی علوم مثلاً حدیث وغیرہ میں تلقی عن الشیوخ کی شرط نہیںہے۔ (بلکہ حدیث میںتلقی کی بجائے تحمل ہوتا ہے۔ تلقی اور تحمل میں بہت فرق ہے۔ تلقی میں الفاظ کی ادائیگی کے مختلف طریقے، تلفظ، لہجات، تجوید ِ الفاظ وغیرہ شامل ہیں،جبکہ تحمل میں مجرد ایک شخص اپنے شیخ سے احادیث سن کر آگے بیان کردیتا ہے۔) اور مقری، طالب علم کو قراء ات بار بار سنا کر اس کے ذہن میں بٹھاتا اور اس کے لئے ان کی اسانید کی معرفت آسان بنا دیتا ہے اگر وہ طیبۃکے طریق سے ہوں۔
چوتھی وجہ یہ ہے کہ ابن الجزریؒ کے زمانے میں قراء ات کی اسناد ختم ہوگئیں۔ اس لیے کسی کے لئے بھی یہ جائزنہیں کہ وہ ’’طیبۃ‘‘کے مصادر میں سے کسی مصدر مثلاً ’’التیسیر‘‘ اور ’’المنہج‘‘ میں سے کوئی ایسی قراء ت پڑھے جو اپنی سند کے ساتھ ’’النشر‘‘ میں موجود نہ ہو۔
۱۔ہر قاری نے اپنے شیوخ سے ایک یا ایک سے زائد قراء ات کو سنا ہے۔ اور یہ قراء ایک دوسرے کی قراء ت کا انکار نہیں کرتے۔ ماسواء اس قراء ت کے کہ جس میں راوی سے خطا کا امکان ہو یا اس قراء ت کے نقل کرنے والے راوی کی صداقت میں شک ہو۔ یہ معاملہ اس وقت تک تھا جب تک کہ قراء ات کی مختلف روایات کو جمع اور اکٹھا نہیں کیا گیا تھا، لیکن جب قراء ات کی مختلف اسانید اور طرق معروف ہوگئے۔ متواتر اور صحیح قراء ات، شاذہ اور منکرقراء ات علیحدہ ہوگئیں تو پھر اب ان میں سے کسی کے انکار یا اس میں شک کی گنجائش نہیں ہے اور یہ بات ہر اس شخص پر واضح ہے کہ جو اسانید کے علم، نقل و روایت کے فنون ، اصولِ دین اور اصولِ فقہ سے اچھی طرح واقف ہو۔
۲۔قراء ات کے بارے میں مستشرقین کا نظریہ کیا ہے؟ اس کو گولڈزیہر نے اپنی کتاب ’’المذاہب الاسلامیہ فی تفسیر القرآن‘‘ میں واضح کیا ہے۔ جس کا عربی ترجمہ جناب استاذ الشیخ علی حسن عبدالقادر نے کیا ہے۔ گولڈ زیہر لکھتا ہے: یہ مختلف قراء ات مصحف عثمانی کے گرد گھومتی ہیں اور یہ وہ مصحف ہے جس پر حضرت عثمان بن عفان نے لوگوں کو جمع کیا تھا۔حضرت عثمان کا ارادہ تھا کہ کلام اللہ کی حرکات اور اس کے مختلف استعمالات میں جو خطرہ پیدا ہوسکتا تھا اس کو دور کردیا جائے۔ کیونکہ مسلمانوں نے قرآن کی قراء ات میں بہت سستی کا مظاہرہ کیا تھا اور ان سب قراء ات کو مسلمان برابری کا درجہ دیتے تھے۔ باوجودیکہ ان میں سے صرف چند ایک ایسی تھیں جن کو فرض کیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کو ایک ایک کلمہ اور ایک ایک حرف کی شکل میں نازل کیا تھا اور اس طرح کا کلام یعنی ایک کلمے اور حرف کے ساتھ لوحِ محفوظ میں بھی تھا اور اسی طرح مبارک فرشتہ جس قرآن کو لے کر نازل ہوا اس کے لیے لازم ہے کہ وہ ایک حرکت اور ایک ہی لفظ پر مشتمل ہو اور اس موضوع پر گولڈ نے اپنی کتاب تاریخ القرآن میں مفصل بحث کی ہے۔ وہ کہتا ہے، ان قراء ات کی بڑی قسم کا اصل سبب عربی رسم الخط ہے۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ ایک کلمے کا ایک ہی رسم حروف کے اوپر نیچے نقاط کے اعتبار سے مختلف حرکات کے ساتھ پڑھا جاسکتا ہے۔
گولڈ زیہر، کوئی پہلا شخص نہیں ہے جس نے قرآن اور علمائے قراء ات اسلام کے بارے میں یہ ہرزہ سرائی کی ہو، بلکہ یہ رائے ان سے پہلے بھی مستشرقین میں معروف رہی ہے اور قرآن اور اس کی قراء ات کے بارے میں مستشرقین کی جتنی قیل و قال ہے اس کامرکز ومحور یہی نکتہ ہے۔جیسا کہ نحوی اعراب اور کلمے کی دوسری حرکات کے نہ ہونے کی وجہ سے عربی خط میں یہ بات ممکن ہے کہ کسی کلمہ کی مختلف حالتیں اس کے مختلف اعراب کے لحاظ سے بنا دی جائیں یہ تمام کام کتابی رسم کی تکمیلات میں حرکات و اعراب کا یہ اختلا ف ہی دراصل قراء ات کے ظہور کا اصل سبب تھا، کیونکہ شروع میں قرآن کے نقاط اور اس کی حرکات نہیں تھیں۔
۳۔یہ عربی رسم الخط معروف ہے اس رسم الخط کو حفاظ صحابہ کرام نے تمام صحابہ کی نگرانی میں لکھا ہے۔ اس رسم الخط کے محدود اور مفصل طرق کتب ِقراء ات، خاص طور پر رسم القرآن کی کتابوں میں جمع کئے گئے ہیں۔
۴۔کتب تفسیر اور کتب حدیث مثلا صحیح بخاری میں جو بعض صحابہ سے مصاحف عثمانیہ کے رسم کے خلاف قراء ت نقول ہیں، تو ان میں سے جس روایات کی سند صحیح ہے، تو وہ قرا ء ات درحقیقت اس آیت کی تفسیر میں ہے اور ان کی بطور قرآن تلاوت جائز نہیںہے، کیونکہ قرآن کے ثبوت میں اول شرط یہ ہے کہ وہ مصاحف کے رسم کے مطابق ہو۔ یہ امر اسلام کے بدیہی امور میں سے ہے اور دین میں ضرورت کے درجہ میں معلوم ہے۔
۵۔گولڈ زیہر اور نولڈ کے اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن اور قراء ات دونوں الگ الگ شے ہیں۔ قرآن وہ ہے جسے فرشتہ نے رسول ا پر نازل کیا ہے۔ یہ ایک حرکت اور ایک ہی لفظ میں تھا، جبکہ قراء ات سے مراد وہ وجوہات ہیں جن کا لکھے ہوئے رسم عثمانی میں احتمال موجود تھا، ہر قاری اپنی استطاعت اور رائے کے مطابق ان قراء ات کو مختلف شکلیں دے دیتا تھا۔ مزید یہ کہ یہ قرا ء ات اللہ کی طرف سے نازل شدہ نہیں تھیں۔ دوسرے الفاظ میں قرآن کی کچھ قراء ات اصل ہیں اور کچھ فرعی ہیں۔ اصلی قراء ات وہ ہیں جو اللہ کی طرف سے ایک ہی حرکت اورلفظ پر نازل ہوئیں اور فرعی قراء ات، وہ احتمالی قراء ات ہیں کہ جن کا احتمال رسم عثمانی کے نقاط اور حرکات سے خالی ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتا تھا۔ نیز یہ کہ قراء ات اللہ کی طرف سے نازل شدہ نہیں ہیں۔
اس قسم کا قول متجددین میں سے ایک شخص کا بھی ہے جو اپنے آپ کو فکر ِاسلامی کا نمائندہ تصور کرتا ہے اس شخص کا کہناہے کہ قرآن کا متن ہم تک محفوظ طریقے سے پہنچا ہے، لیکن اس کی قراء ات میں اختلاف ہے گویا کہ اس کے نزدیک قرآن کا متن محفوظ ہے، جبکہ قراء ات قرآن کے علاوہ کوئی غیر محفوظ چیزہیں۔
پس فکر ِاصلاحی کے نمائندے کا یہ دعویٰ کہ قرآن اور قراء ات دو علیحدہ چیزیں ہیں۔ ایک محفوظ اور دوسری غیر محفوظ ہے، ایک ایسا دعویٰ ہے کہ جس کی کوئی دلیل بھی ان کے پاس موجود نہیں ہے اور نہ ہی علمائے قراء ات میں سے کسی سے قراء ات کی یہ تقسیم منقول ہے۔ (بلکہ علمائے قراء ات کی تقسیم وہ ہے جو اوپر بیان ہوچکی ہے)قراء ات کی ایسی تقسیم کی طرف سلف و خلف میں سے کوئی بھی عالم نہیں گیا اور اس قسم کی تقسیم کی ان کے پاس عقل و نقل سے کوئی سند یا دلیل بھی نہیں ہے۔ جس بات پر محققین علماء کا اتفاق ہے وہ یہ ہے کہ قرا ء ات اگر تواتر سے ثابت ہوئی تو اس کو قبول کیا جائے گا اور ایسی قراء ات قطعی طور پر قرآن شمار ہوں گی اور اگر قراء ات اخبارِ احادیث سے ثابت ہو، لیکن قراء کے درمیان وہ قراء ت معروف ہوجائے یہاں تک کہ اسے تلقی بالقبول حاصل ہو تو ایسی قراء ت کوبھی قبول کیا جائے گا اور قرآن شمار کیا جائے گا اور اگر قراء ت اخبار احاد کے طریقے سے نقل ہو، لیکن وہ قراء میں معروف نہ ہو یا اسے تلقی بالقبول حاصل نہ ہو تو ایسی قراء ت کو رد کردیا جائے گا اور اس پر شذوذ کا حکم لگایا جائے گا اور اسے بطورِ قرآن نہیں پڑھا جائے گا۔
۶۔جیسا کہ حدیث شریف کی اسناد اور راوی ہیں، اسی طرح علم قراء ات کی بھی اسناد اور راوی ہیں، لیکن یہ روایات اور اسانید ہمارے عہد میں اس طرح مشہور نہیں ہیں کہ جس طرح احادیث کی اسناد معروف ہیں اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔
ایک وجہ تو یہ ہے کہ قراء ات کی اسناد کو متخصصین کی ایک جماعت جانتی ہے، اور دوسری طرف احادیث کا معاملہ بھی یہی ہے، لیکن واعظین، خطباء اور داعیین اکثر اوقات اپنے وعظ تقریر یا خطبے میں ان اسناد یا ان کی صحت و ضعف کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں، جس سے عام عوام الناس کو احادیث کی سند کے بارے میں کچھ نہ کچھ علم حاصل ہوتا رہتا ہے، جبکہ قراء ات کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ امام شاطبیؒ نے اپنی منظوم کتاب ’’حرزالامانی‘‘ اور ابن الجزریؒ نے ’’طیبۃ النشر‘‘ میں متواتر قراء ات کی اسانید اور طرق کے بغیر ان کو جمع کردیاہے۔ تاکہ ان کے یاد کرنے میں طلبہ کے لئے آسانی ہو اور ان کی تلاوت باعث عبادت ہو۔ پس شاطبیہ، درۃ اور طیبۃ جیسی کتابوں سے بغیر اسانید کے بھی قراء ات متواترہ کا حصول ممکن ہوگیا۔ لہٰذا قراء کی ایک بڑی جماعت ان اسانید قراء ات سے ناواقف رہی جو کہ ابن الجزریؒ کی کتاب ’’النشر‘‘ وغیرہ میںموجود ہیں۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ قرآن میں اصل شرط متخصصین شیوخ سے تلقی اور مصحف میں موجودقراء ت پر عدمِ اعتماد ہے اور یہ شرط صرف علم قراء ات میں ہے، جبکہ باقی علوم مثلاً حدیث وغیرہ میں تلقی عن الشیوخ کی شرط نہیںہے۔ (بلکہ حدیث میںتلقی کی بجائے تحمل ہوتا ہے۔ تلقی اور تحمل میں بہت فرق ہے۔ تلقی میں الفاظ کی ادائیگی کے مختلف طریقے، تلفظ، لہجات، تجوید ِ الفاظ وغیرہ شامل ہیں،جبکہ تحمل میں مجرد ایک شخص اپنے شیخ سے احادیث سن کر آگے بیان کردیتا ہے۔) اور مقری، طالب علم کو قراء ات بار بار سنا کر اس کے ذہن میں بٹھاتا اور اس کے لئے ان کی اسانید کی معرفت آسان بنا دیتا ہے اگر وہ طیبۃکے طریق سے ہوں۔
چوتھی وجہ یہ ہے کہ ابن الجزریؒ کے زمانے میں قراء ات کی اسناد ختم ہوگئیں۔ اس لیے کسی کے لئے بھی یہ جائزنہیں کہ وہ ’’طیبۃ‘‘کے مصادر میں سے کسی مصدر مثلاً ’’التیسیر‘‘ اور ’’المنہج‘‘ میں سے کوئی ایسی قراء ت پڑھے جو اپنی سند کے ساتھ ’’النشر‘‘ میں موجود نہ ہو۔
حضرت عثمان نے قرآن کی ایک نص پر لوگوں کو جمع کرنے کا ارادہ کیا ہوتا، تو تمام مصاحف کو ایک ہی صورت میں لکھا جاتا اور ان میں کسی قسم کا بھی اختلاف نہ ہوتا، لیکن مصاحف عثمانیہ کی مختلف صورتوں اور متعدد کیفیات میں کتابت اس با ت کی واضح دلیل ہے کہ حضرت عثمانؓ نے ایک نص کے حصول کا ارادہ نہ کیا تھا بلکہ ان کا اصل مقصود لوگوںکو غیر متواتر قراء ات کے بالمقابل متواتر قراء ات پر جمع کرنا تھا۔