کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
قراء ات کاکھلم کھلا انکارکیا دین کے اعتبار سے جائز ہے؟ ہرگز نہیں۔
قراء ات دین کی ضروریات میں سے ہے۔ عبدالوھاب بن سبکیؒ کہتے ہیں: سبعۃ قراء ات کہ جن کو امام شامی ؒنے بیان کیا ہے اور ان کے علاوہ تین اور، ابوجعفرؒ، یعقوبؒ اور خلفؒ کی قراء ات، متواتر قراء ات ہیں۔اور دین کی بنیادی تعلیمات میںسے ہیں۔ گویاجس حرف کو بھی ان دس قراء میںسے کسی ایک نے بھی بیان کیا ہے اس کے بارے، دین میں یہ بات ضروری طور پرمعلوم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف اس کے رسول ا پر نازل کیا گیاہے۔ ان قراء ات سے وہ شخص اعراض کرے گاجو ان کاحامل نہ ہوگا۔ ان قراء ات کاتواتر صرف ان قرآء تک محدود نہیں ہے کہ جنہوں نے ان روایات کو پڑھا ہے بلکہ ہر مسلمان جو کہ کلمہ شہادت کی گواہی دیتا ہے اس کے نزدیک یہ قراء ات متواتر ہیں، اگرچہ وہ شخص کوئی عامی اورجاہل ہی کیوںنہ ہو، اسے قرآن کاایک حرف بھی زبانی یاد نہ ہو ہرمسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ اللہ کے دین کو اختیارکرے۔ اور اس بات کا یقین کرے کہ جس کاہم نے ذکر کیا وہ سب قراء ات متواتر ہیں اور یقینی طور پر معلوم ہیں۔ظن اور شکوک و شبہات ان سے کوسوں دور ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ ابن عطیہ اندلسیؒ کاکہنا ہے ہرشہرکے رہنے والوں کااس بات پر اتفاق رہا ہے کہ قراء ات سبعۃ بلکہ عشرہ قراء ات ثابت ہیں اور ان کو بالاجماع نماز میں پڑھاجاسکتا ہے۔
’’جب آپ کو معلوم ہوگیا کہ قراء ات عشرۃ متواتر ہیں، تو یہ جاننا بھی لازم ہے کہ جمہور بعض قراء ات کے تواتر کوضرورت کے درجے میں بیان کرتے ہیں اور بعض قراء ات ایسی ہیں کہ ان کے تواتر کو تو ایسے ماہر قراء ہی جانتے ہیں،جو قراء ات کے علوم میں متخصص ہوں۔ کیونکہ عام لوگوں کو ان قراء ات کاعلم نہیں ہوتا پس پہلی قسم کی قراء ات کاانکار بالاتفاق کفر ہے اور دوسری قسم کی قراء ات کاانکار اس وقت کفر ہوگا جب کہ سن کر دلائل کے واضح ہوجانے اور صحت قائم ہونے کے بعد اپنے انکار پر ڈٹارہے۔‘‘
ہم یہ جان چکے ہیں کہ دین اسلام قراء ات متواترہ میں طعن و تشنیع کو جائز نہیں سمجھتا، تو جب ہم قراء ات متواترہ میں بعض لوگوں کو طعن کرتے دیکھتے ہیں تو ہمارا کیارویہ ہوناچاہئے؟ کیا قراء ات پر طعن کی صورت میںخاموشی جائز ہے؟ کیا ہمیں خوش اخلاقی کامظاہرکرتے ہوئے ان ناقدین قراء ات کی آراء و افکارکو قبول کرلیناچاہئے یاہمیں قرآن کریم کے ایک ایک گوشے کی اپنی قوت، استطاعت، دلیل اور موجود اسباب و وسائل سے دفاع کرناچاہئے؟
کیا کسی غیرت مند مسلمان کے لئے یہ طرزِ عمل صحیح ہے کہ وہ اپنے دین اور مقدس کتاب پر طعن کے باوجود خاموش رہے۔ ہرگز نہیں، کبھی بھی نہیں، یہ قطعاً جائز نہیں۔ قراء ات پرطعن کی صورت میں خاموش رہنا کسی طور بھی صحیح نہیںہے بلکہ ہرمسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ کتاب اللہ کا حتی الامکان دفاع کرے اور ادھر ادھر سے آنے والے نظریات کے سامنے نہ تو اپنی کوشش ترک کرے اورنہ ہی ان کے مقابلے میںسستی کامظاہرہ کرے۔
بالفرض اگر ہم اس فرض کی ادائیگی کے لئے کھڑے نہیںہوتے اور تمام قراء ات میںکئے گئے طعن کو تسلیم کرلیتے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ہم وہ قراء ات کہاںسے لائیں گے کہ جس کے بارے میں تمام لوگوں کایہ عقیدہ ہو کہ یہ وہ مقدس قراء ت ہے، جوکہ اللہ رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہے۔
یہ بڑی ہی عجیب بات ہوگی کہ ہم ایسی چیز کوتسلیم کرلیں جس کی حقیقت کچھ بھی نہیں ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ عجیب بات تو یہ ہے کہ بعض لوگ ایسے ہیں جو کہ قراء ات کے دفاع کے خلاف ہیں۔ یہ تمام امور بے حد افسوس ناک ہے۔
جو میرا مقصود تھا، اگرمیں نے اسے پورا کردیا ہے تو یہ اللہ کے توفیق اور فضل سے ہے، اور اگر یہ ایسانہیں ہے تو یہ میری ذات کی کوتاہی ہے۔
عماد الاصفہانی ؒ فرماتے ہیں:کوئی بھی انسان جب کوئی کتاب لکھتا ہے تو اگلے روز اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اگر یہ ایسے ہوتی تو زیادہ بہتر تھا اور اگر وہ یہ اضافہ بھی کردیتا تو اچھا تھا اور عبرت کی بات ہے، کیونکہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کے جملہ معاملات میں نقص غالب ہے۔
آخر میں اپنی بات کااختتام امام شاطبیؒ کے ان اشعار کے ساتھ کرتاہوں۔
قراء ات دین کی ضروریات میں سے ہے۔ عبدالوھاب بن سبکیؒ کہتے ہیں: سبعۃ قراء ات کہ جن کو امام شامی ؒنے بیان کیا ہے اور ان کے علاوہ تین اور، ابوجعفرؒ، یعقوبؒ اور خلفؒ کی قراء ات، متواتر قراء ات ہیں۔اور دین کی بنیادی تعلیمات میںسے ہیں۔ گویاجس حرف کو بھی ان دس قراء میںسے کسی ایک نے بھی بیان کیا ہے اس کے بارے، دین میں یہ بات ضروری طور پرمعلوم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف اس کے رسول ا پر نازل کیا گیاہے۔ ان قراء ات سے وہ شخص اعراض کرے گاجو ان کاحامل نہ ہوگا۔ ان قراء ات کاتواتر صرف ان قرآء تک محدود نہیں ہے کہ جنہوں نے ان روایات کو پڑھا ہے بلکہ ہر مسلمان جو کہ کلمہ شہادت کی گواہی دیتا ہے اس کے نزدیک یہ قراء ات متواتر ہیں، اگرچہ وہ شخص کوئی عامی اورجاہل ہی کیوںنہ ہو، اسے قرآن کاایک حرف بھی زبانی یاد نہ ہو ہرمسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ اللہ کے دین کو اختیارکرے۔ اور اس بات کا یقین کرے کہ جس کاہم نے ذکر کیا وہ سب قراء ات متواتر ہیں اور یقینی طور پر معلوم ہیں۔ظن اور شکوک و شبہات ان سے کوسوں دور ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ ابن عطیہ اندلسیؒ کاکہنا ہے ہرشہرکے رہنے والوں کااس بات پر اتفاق رہا ہے کہ قراء ات سبعۃ بلکہ عشرہ قراء ات ثابت ہیں اور ان کو بالاجماع نماز میں پڑھاجاسکتا ہے۔
یہ تین ارکان کہ جن کا ذکر امام ابن الجزریؒ نے کیاہے۔ ہمارے زمانے میں ائمہ عشرۃ کی قراء ات میں جمع ہیں، یہ وہ قراء ات ہیں کہ جن کو لوگوں کے ہاں تلقی بالقبول حاصل ہے۔ابن الجزریؒ کاکہنا ہے :ہر وہ قراء ت جو مطلق طور پرعربی زبان کے موافق ہو اور مصاحف عثمانیہ میں سے کسی ایک مصحف کے رسم سے مطابقت رکھتی ہو،چاہے یہ مطابقت تقدیراً ہی کیوں نہ ہو اور وہ تواتر سے منقول ہو، قراء ات متواترہ ہو گی، جو قطعی طور پرثابت ہے۔
علامہ عبدالفتاح القاضیؒ لکھتے ہیں:یہ قراء ات امام ابوجعفرؒ، نافع ؒ، ابن کثیرؒ، ابوعمروؒ، یعقوبؒ، ابن عامرؒ، عاصمؒ، حمزۃؒ، کسائیؒ اور خلفؒ کی ہیں۔ متاخرین نے یہ قراء ات متقدمین سے حاصل کی ہیں، یہاں تک کہ نسل در نسل منتقل ہوتے ہوئے یہ قراء ات ہم تک پہنچی ہیں۔ ان میں ہرآیت کی قراء ت باقی قراء ات کی طرح قطعی طور پر ثابت ہے۔ پھر ابن الجزریؒ نے کہا :آج ہم تک جو قراء ات، تواتر ِصحت، اجماع، غیر اختلافی،اور تلقی و تلقی باالقبول کی خصوصیات کے ساتھ پہنچی ہیں، وہ قراء عشرۃ کی قراء ات ہیں۔ ان قراء کے راوی معروف و مشہور ہیں۔ یہ قراء ات علماء کے اقوال میں بھی ملتی ہیں اور انہی قراء ات پر آج لوگ شام، عراق، مصر اور حجاز میں متفق ہیں۔
پھر ابن الجزریؒ نے جمہور ائمہ اسلام مثلاً امام بغویؒ، امام ابوالعلاء الھمدانیؒ، حافظ ابن الصلاحؒ، امام ابن تیمیہؓ، امام سبکیؒ اور ان کے والد قاضی القضاۃ وغیرہ سے قراء ات عشرۃ کے تواتر کونقل کیا ہے۔
’’جب آپ کو معلوم ہوگیا کہ قراء ات عشرۃ متواتر ہیں، تو یہ جاننا بھی لازم ہے کہ جمہور بعض قراء ات کے تواتر کوضرورت کے درجے میں بیان کرتے ہیں اور بعض قراء ات ایسی ہیں کہ ان کے تواتر کو تو ایسے ماہر قراء ہی جانتے ہیں،جو قراء ات کے علوم میں متخصص ہوں۔ کیونکہ عام لوگوں کو ان قراء ات کاعلم نہیں ہوتا پس پہلی قسم کی قراء ات کاانکار بالاتفاق کفر ہے اور دوسری قسم کی قراء ات کاانکار اس وقت کفر ہوگا جب کہ سن کر دلائل کے واضح ہوجانے اور صحت قائم ہونے کے بعد اپنے انکار پر ڈٹارہے۔‘‘
ہم یہ جان چکے ہیں کہ دین اسلام قراء ات متواترہ میں طعن و تشنیع کو جائز نہیں سمجھتا، تو جب ہم قراء ات متواترہ میں بعض لوگوں کو طعن کرتے دیکھتے ہیں تو ہمارا کیارویہ ہوناچاہئے؟ کیا قراء ات پر طعن کی صورت میںخاموشی جائز ہے؟ کیا ہمیں خوش اخلاقی کامظاہرکرتے ہوئے ان ناقدین قراء ات کی آراء و افکارکو قبول کرلیناچاہئے یاہمیں قرآن کریم کے ایک ایک گوشے کی اپنی قوت، استطاعت، دلیل اور موجود اسباب و وسائل سے دفاع کرناچاہئے؟
کیا کسی غیرت مند مسلمان کے لئے یہ طرزِ عمل صحیح ہے کہ وہ اپنے دین اور مقدس کتاب پر طعن کے باوجود خاموش رہے۔ ہرگز نہیں، کبھی بھی نہیں، یہ قطعاً جائز نہیں۔ قراء ات پرطعن کی صورت میں خاموش رہنا کسی طور بھی صحیح نہیںہے بلکہ ہرمسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ کتاب اللہ کا حتی الامکان دفاع کرے اور ادھر ادھر سے آنے والے نظریات کے سامنے نہ تو اپنی کوشش ترک کرے اورنہ ہی ان کے مقابلے میںسستی کامظاہرہ کرے۔
بالفرض اگر ہم اس فرض کی ادائیگی کے لئے کھڑے نہیںہوتے اور تمام قراء ات میںکئے گئے طعن کو تسلیم کرلیتے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ہم وہ قراء ات کہاںسے لائیں گے کہ جس کے بارے میں تمام لوگوں کایہ عقیدہ ہو کہ یہ وہ مقدس قراء ت ہے، جوکہ اللہ رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہے۔
یہ بڑی ہی عجیب بات ہوگی کہ ہم ایسی چیز کوتسلیم کرلیں جس کی حقیقت کچھ بھی نہیں ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ عجیب بات تو یہ ہے کہ بعض لوگ ایسے ہیں جو کہ قراء ات کے دفاع کے خلاف ہیں۔ یہ تمام امور بے حد افسوس ناک ہے۔
یہ چند حسرت بھرے کلمات، ایک زخمی دل کی آواز ہیں۔ اس مضمون میںطوالت کی بجائے حتیٰ الامکان اختصار سے کام لیا ہے اور بعض ضروری امور کے بارے میں گفتگو حواشی میں درج کردی ہے تاکہ طالب علم کے لئے اس موضوع سے استفادہ آسان رہے۔ہمیں کیاکرنا چاہئے؟ کیا ہم اس سرکش اور تباہی مچانے والے ہجوم میں ضعیف اور مسکین بن کر خاموش ہوجائیں۔ہرگز نہیں، ہم اللہ کی توفیق سے ان لوگوں سے جہاد اور مجادلہ کریں گے اور قرآن اور قراء ات متواترہ محمدیہ کااس وقت تک دفاع کریں گے جب تک کہ ہمارے اندر کوئی زندگی کی رمق یا سانس باقی ہے۔
جو میرا مقصود تھا، اگرمیں نے اسے پورا کردیا ہے تو یہ اللہ کے توفیق اور فضل سے ہے، اور اگر یہ ایسانہیں ہے تو یہ میری ذات کی کوتاہی ہے۔
عماد الاصفہانی ؒ فرماتے ہیں:کوئی بھی انسان جب کوئی کتاب لکھتا ہے تو اگلے روز اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اگر یہ ایسے ہوتی تو زیادہ بہتر تھا اور اگر وہ یہ اضافہ بھی کردیتا تو اچھا تھا اور عبرت کی بات ہے، کیونکہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کے جملہ معاملات میں نقص غالب ہے۔
آخر میں اپنی بات کااختتام امام شاطبیؒ کے ان اشعار کے ساتھ کرتاہوں۔
اللہ تعالیٰ ہمارے لئے قرآن کو حجت بنائے اور اسے ہمارے خلاف حجت نہ بنائے۔ ہمارے اس عمل کو شرف قبولیت بخشے اور میری اس کاوش کومیرے لئے ، میرے والدین، اساتذہ اور تمام استفادہ کرنے والوں کے لئے اس دن کے لئے ذخیرہ بنادے کہ جس دن مال اور اولاد بھی کام نہ آئیں گے، سوائے اس کے کہ کوئی اللہ کے ہاں قلب سلیم لے کر آئے۔’’میں اللہ عزوجل کے حضور گڑگڑاتے ہوئے اپنی ہتھیلیاں بلند کرتا ہوں اور قبولیت کی امید سے دعا کرتاہوں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ قرآن کریم اور قراء ات کی حفاظت فرمائیں، جیساکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے کہ ’’ہم نے اس ذکر کونازل کیاہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘