• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قراء اتِ قرآنیہ کا مقام اور مستشرقین کے شبہات کا جائزہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء اتِ قرآنیہ کا مقام اور مستشرقین کے شبہات کا جائزہ

قاری محمد ابراہیم میرمحمدی
مترجم: حافظ محمد ز بیر
زیر نظر مضمون استاذ القراء قاری محمدابراہیم میر محمدی حفظہ اللہ کے نگارشات ِعلمی پر مشتمل عربی تصنیف’’مکانۃ القراء ات عند المسلمین ونظریۃ المستشرقین والملحدین حولہا‘‘ کا اردو ترجمہ ہے،جو قبل ازیں فضلائے جامعہ کے مجلہ ماہنامہ ’الاحیاء‘ کے اپریل تاجون ۲۰۰۸ء کے شماروں میں قاری صاحب حفظہ اللہ کے تلمیذ رشید حافظ محمد زبیرحفظہ اللہ کے قلم سے شائع ہوچکا ہے، لیکن موضوع کی اہمیت وافادیت اورقاری صاحب جیسی فاضل شخصیت کے حوالے سے ترجمہ میں مزید بہتری اورسلاست پیدا کرتے ہوئے اس مضمون کو ازسر نو رشد قراء ات نمبر میں شائع کیا جار ہا ہے۔
حضرت قاری صاحب حفظہ اللہ کلِّیۃ القرآن الکریم،کے بانی ومؤسس ہیں، جن کے اخلاص اور محنت ِ شاقہ کے نتیجہ میں جامعہ لاہورالاسلامیہ تجوید وقراء ات کے فروغ میں آج انتہائی اہم کردار ادا کرر ہا ہے۔ آنجناب مسجد نبوی کے جوار میں عرصہ بارہ سال کے لگ بھگ کلّیۃ القرآن الکریم، مدینہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہے اور وہیں سے قراء ات ِقرآنیہ میں ایم ۔فل تک تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں رئیس الجامعہ حافظ عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ کی خواہش پر لبیک کہتے ہوئے جامعہ ہذا میں تشریف لائے۔ محترم قاری صاحب حفظہ اللہ کی زندگی ایک جہد ِمسلسل سے عبارت ہے ۔ آپ ۱۹۹۲ء میں کلِّیۃ القرآن کے افتتاح کے بعد سے مسلسل درس وتدریس اورتصنیف وتالیف میں مشغول ہیں۔
جامعہ ہذا میں کلِّیۃ القرآن کے کامیاب قیام اورسینکڑوں تلامذہ تیار کرنے کے بعد مزید اَعلی مقاصد کی غرض سے عرصہ تین سال قبل ۲۰۰۵ء میں قاری صاحب حفظہ اللہ نے پھولنگر، قصور میں ایک نئے ادارے کی داغ بیل ڈالی۔ اِدارہ کلِّیۃ القرآن اور اس کے سینکڑوں فضلاء کی تمام تر عملی جدوجہد حقیقی معنوں میں شیخ القراء قا ری محمد ابراہیم میرمحمدی حفظہ اللہ کی مرہون ِمنت ہے۔ نئے ادارے کی کامیابی کی غرض سے مادرِ ادارہ کلِّیۃ القرآن سے تشریف لے جانے کے باوجود ذہنی طور پر آج بھی حضرت قاری صاحب حفظہ اللہ کے تمامتر اعلیٰ جذبات وخواہشات اَصل ادارے کے ساتھ ہیں۔ اللہ تعالی قاری صاحب حفظہ اللہ کے علم وعمل اورزندگی میں برکت فرمائے کہ وہ اپنی خواہشات کے مطابق اپنے مشن کو ہر دم پھلتا پھولتا دیکھیں۔آمین (ادارہ)
اس میں کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ قرآن سات حروف پر نازل کیا گیا ہے جو صحیح، قطعی اور متواتر اَحادیث سے ثابت ہے۔ قراء نے قرآن کی قراء ات اس کے حروف کی روایات اور اس کے مختلف لہجات کو اپنے اَساتذہ سے براہ راست سماع کے ذریعے حاصل کیا۔یہاں تک کہ ان کی اسناد درجہ بدرجہ اللہ کے رسولﷺ تک جا پہنچتی ہیں۔ قرآن کی یہ معروف اور صحیح قراء ات تواتر حقیقی سے ثابت ہیں اور یہ تواتر ایسا ہے جو اور کسی کتاب کو حاصل نہ ہوسکا۔ قراء نے ان قراء ات کو کلام کی تمام باریکیوں اور پختگی کے ساتھ نقل کیا ہے۔
یہ بات مسلمانوں کے علم میں ہے کہ اللہ کے رسولﷺنے اس قرآن کو معروف قراء ات کے ساتھ لوگوں کو پڑھ کر سنایا اور انہیں ان قراء ات کے ساتھ قرآن کی تعلیم بھی دی۔ یہ قراء ات صحیح اور متواتر اسانید سے ثابت ہیں رحمہ اللہ اور یہ بات اتنی معروف ہے کہ جو شخص علومِ قرآن اور قراء ات سے ذرا بھی شغف رکھتا ہے وہ اسے بخوبی جانتاہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآن مجید اور ان کی قراء ات کے بارے میں مستشرقین کا نقطۂ نظر

مستشرقین کا خیال ہے کہ تمام علمائے اسلام اور قراء جھوٹے اور افترا پرداز ہیں، جنہوں نے رسم عثمانی سے ہر وہ قراء ت نکال لی، جس کا اس کے رسم سے نکلنے کا احتمال تھا۔
ان مستشرقین کا اوّل مقصود یہ ہے کہ وہ کسی طرح اللہ کی محفوظ کتاب قرآن مجید کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کریں اور اللہ کے اس وعدے کو جھوٹا ثابت کریں جو کہ اس نے قرآن مجید کی حفاظت کے حوالے سے اپنے ذمہ لیا ہے اور قرآن کی آیت مبارکہ ’’باطل اس قرآن کے نہ آگے سے آسکتا ہے نہ پیچھے سے‘‘ کو جھٹلائیں۔ نیز وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ جیسے ان کی کتابوں کے بارے میں ان پر مسلمانوں کی طرف سے یہ تہمت لگائی جاتی ہے کہ انہوں نے اپنی کتابوں کو تبدیل کردیا ہے وہ یہی الزام مسلمانوں پر بھی ان کی کتابوں کے بارے میں لگائیں۔
یہ بات عام و خاص سب پر عیاں ہے کہ قرآن ہم تک قطعی الثبوت تواتر کے ذریعے نقل کیا گیاہے، جو مصاحف میں بھی لکھا ہوا ہے۔ اسی طرح قرآن کی متواتر قراء ات بھی اس رسم کے مطابق ہم تک قطعی الثبوت تواتر کے ذریعے منقول ہیں یا بعض قراء ات ایسی بھی ہیں کہ جو اگرچہ متواتر تو نہیں ہیں، لیکن صحیح سند کے ساتھ ثقہ راویوں سے منقول ہیں اور قراء کے مابین معروف و مشہور ہیں۔ ایسی قراء ات بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں کہ جن میں تواتر کی شرط پوری نہ ہورہی ہو، یہ قراء ات بھی براہ راست سماعت سے ہم تک پہنچی ہیں اور ان کی ادائیگی کے مختلف طریقے اور تلفظ کی وضاحت بھی براہ راست سماعت سے منقول ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اُمت مسلمہ اور مستشرقین کے درمیان اصل اختلاف

مستشرقین کا کہنا یہ ہے کہ رسم پہلے ہے اور اس رسم میں بہت سی قراء ات کا احتمال تھا۔ مسلمان قراء نے اپنی خواہش اور استطاعت کے مطابق اس رسم سے قراء ات نکال لیں۔ جبکہ اُمت مسلمہ کے نزدیک قراء ات اصل ہیں پھر ان قراء ات کی ادائیگی کے لئے رسم بنایا گیا تاکہ تمام قراء ات اس رسم میں سما جائیں اور کوئی بھی قراء ت باقی نہ رہے۔ مستشرقین کا گمان یہ ہے کہ جس قرآن کو حضرت جبریل علیہ السلام آپ ﷺ پر لے کرنازل ہوتے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک ہی حرکت اور ایک ہی لفظ کی صورت میں ہو۔ مستشرقین کا خیال یہ ہے کہ شروع شروع میں رسم عثمانی میں نقطے اور حرکات نہیں تھیں۔ لہٰذا ہر قاری نے اپنی خواہش اور مرضی سے رسم عثمانی پر حرکات اور نقطے لگا لئے جو کہ بعد میں قراء ات بن گئیں۔
مستشرقین کی اس رائے سے صرف ایک ہی مطلب نکلتا ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں یعنی صحابہ، تابعین اور ان کے بعدکے زمانے کے لوگوں نے یہ قراء ات گھڑ لی ہیں اور رسم میں جن قراء ات کا احتمال تھا مسلمانوں نے انہیں قرآن کا نام دے کر اپنے رسولﷺ کی طرف منسوب کردیا ہے اور تمام کے تمام مسلمان اپنے اس دعویٰ میں جھوٹے ہیں کہ یہ قراءات آپﷺ سے ثابت ہیں اور انہوں نے یہ قراء ات درجہ بدرجہ نسل در نسل آپﷺ سے حاصل کی ہیں۔ جب کہ مسلمانوں کے نزدیک یہ قراء ات اصل ہیں اور رسم عثمانی اس کے تابع ہے اور وہ ان قراء ات کے لئے بنایا گیا ہے۔ ان کے نزدیک یہ بات قطعی الثبوت ہے کہ آپﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مختلف قراء ات کے ساتھ قرآن کی ادائیگی اور اس کے تلفظ کی تعلیم دی اور پڑھ کر بھی سنایا۔ مزید یہ کہ تمام قراء ات حق ہیں اور اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہیں اور یہ کہ تمام قراء ات لغت ِعرب اور قبائلی لہجات کے مطابق ہیں۔
قرآن کو مختلف قراء ات میں نازل کرنے کا مقصد اس کی حفاظت کو یقینی بنانا اور اُمت کے لئے اس کو یاد کرنے میں آسانی پیدا کرنا تھا۔ صحابہ نے ان قراء ات کو اللہ کے رسولﷺ سے سنا اور آپ کو بالمشافہ پڑھ کر سنائیں اور اپنے سینوں میں محفوظ کیا۔ پھر صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپﷺ کے حکم سے جو کچھ آپﷺ سے سنا تھا اس کو لکھا۔ آپﷺ نے یہ قراء ات سکھانے کے بعدصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کہا کہ قرآن مجید ان حروف پر نازل کیا گیا ہے پس جو حرف تمہیں آسان لگے اس کے مطابق پڑھ لو۔ پس صحابہ نے جیسے آپﷺ سے قرآن اور اس کی قراء ات سنی تھیں ویسے ہی ان کو آگے ادا کرتے ہوئے تابعین کو سنا دیا۔ جیسے انہوں نے ادائیگی اور تلاوت کی مختلف وجوہات سے قرآن پڑھا تھا اسے بغیر کسی کمی بیشی کے آگے پہنچا دیا۔جیسے صحابہ نے قرآن اور اس کی قراء ات کو آپﷺ سے سنا تھا یا زبانی یاد کیا تھا اس کو انہوں نے رسم عثمانی میں جمع کرنے کی کوشش کی۔ صحابہ کی یہ جماعت وحی کی امین تھی۔پھر ان کے بعد آنے والے ثقہ، امانت دارراویوں نے ان سے قرآن اور ان قراء ات کو واضح اور قطعی تواتر کے ساتھ نقل کیا۔
پس مستشرقین کا یہ کہنا کہ رسم پہلے ہے اور قراء ات اس کے تابع ہیں؛ اک گمانِ باطل ہے، جس کی (انکے پاس ) کوئی دلیل نہیں،جبکہ مسلمانوں کے نزدیک قراء ات پہلے اور رسم ان قراء ات کے تابع ہے، یہ اصول تاریخی حقائق سے زیادہ حقیقی اور یقینی طو رپر ثابت ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مسلمانوں کا آپﷺ کے زمانے سے لے کر آج تک وہی قول رہا ہے کہ رسم قراء ات کے تابع ہے، کیونکہ اس کے ماسوا کوئی قول عقلاً بھی درست نہیں ہے اور نقلی دلائل بھی اس بات کے متقاضی ہیں کہ اسی قول کو درست قرار دیا جائے۔مسلمان اہل ِ علم، مستشرقین کی نسبت اللہ کے رسولﷺ صحابہ رضی اللہ عنہم اور دیگر علماء و ائمہ قراء ات کے متعلق زیادہ واقفیت رکھتے ہیں کہ جنہوں نے ان تک علم دین اور قرآن کو نقل کیا ہے۔ لہٰذا وہ ان کے بارے میں جھوٹ اور افتراء پردازی کا برا گمان نہیں کرسکتے۔
قراء ات کی کتنی ہی مطبوعہ اور غیرمطبوعہ کتب (مخطوطات) اور ان کے مطابق قرآن کو پڑھنے والے بے شمار قراء دنیا کے کونے کونے میں موجود ہیں۔ ان میں سے ہر ایک اسناد ِ قراءات کو ثقہ راویوں کے واسطے سے اللہ کے رسولﷺ تک پہنچاتا ہے۔ اور یہ قراء اپنی صداقت، امانت اور تقویٰ میں اتنے معروف ہیں کہ ان پر کوئی طعن یا الزام نہیں لگایا جاسکتا۔
پس مستشرقین یا ان سے متعلقین کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ ان واضح اور روشن حقائق کے بعد بھی وہ قراء اتِ قرآنیہ کے بارے میں شکوک و شبہات کے سائے میں رہیں اور اگر ان حقائق کے بعد بھی کوئی شکوک و شبہات کا شکار رہا تو وہ جاہل اور منہ کے بل اوندھا چلنے والا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’پس وہ لوگ کہ جن کے دلوں میں کجی ہے وہ فتنے کی تلاش اور ان کی حقیقت جاننے کے لئے متشابہات کی پیروی کرتے ہیں ‘‘ اگر مستشرقین کے چیلوں کو جو اس چیز سے اعراض کرتے ہیں جس کو وہ جانتے تک نہیں ہیں اور اس چیز میں فضول بحث کرتے ہیں جو ان کی سمجھ سے بالاتر ہے، عقل آجائے تو یہ جان لیں گے کہ مستشرقین کی اس رائے کا کوئی نتیجہ یا مقصد نہیںہے۔ عقل ومنطق تو اس بات کی متقاضی ہے کہ قرآن جس طرح آپ1 پر نازل ہوا، اسی طرح یہ مسلمانوں سے قراء ات کی مختلف وجوہات کے ساتھ آگے منتقل ہوا۔
گولڈ زیہر یہودی کا یہ کہنا بھی خلافِ عقل ہے کہ ’’قرآن کے لئے لازم ہے کہ وہ ایک ہی لفظ اور ایک ہی جیسی حرکات پر مشتمل ہو‘‘۔ اور اس کا کہنا کہ ’’قرآن کے پڑھنے کا ایک انداز بعد کے زمانوں میں غیر معین اور غیر معروف پڑھنے کے مختلف اندازوں میں تبدیل ہوگیا۔‘‘ مزید یہ کہ
’’قرآن ان وجوہاتِ قراء ات پر نازل نہ ہوا تھا۔ مسلمانوں نے رسم کے مطابق قراء ات اپنی مرضی سے ایجاد کرلیں اور یہ قراء ات اللہ کے رسول پر نازل نہیں کی گئیں اور نہ ہیظ
گویامستشرقین اور ان کے متبعین کے نظریہ کے مطابق یہ تمام کی تمام قراء ات قرآن کے ساتھ نازل نہیں ہوئیں،بلکہ قرآن ایک ہی قراء ت پر نازل ہوا تھا جو کہ غیر معین تھی جسے نہ مسلمان جانتے ہیں اور نہ مستشرقین۔
اللہ کی پناہ کہ معاملہ ایسا ہی ہو جیساکہ مستشرقین کا کہنا ہے۔ہم اللہ کے بارے میں ایسی بات نہیں کہتے، کیونکہ وہ اس سے پاک ہے اور یہ اس پربہت بڑا بہتان ہے۔
اہل اسلام کے علم میں ہونا چاہئے کہ خلیفہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے جو مصاحف مختلف شہروں کی طرف بھیجے تھے، وہ چھ تھے۔
مصحف امام : یہ وہ مصحف ہے جسے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے پاس رکھا ہوا تھا اوراسے ابو عبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے۔
مصحف مدنی : یہ وہ مصحف ہے جسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اہل مدینہ کے لئے تیار کردیا تھا اور اس کو حضرت نافع رحمہ اللہ نے نقل کرتے ہیں۔
مصحف مکی:یہ مصحف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اہل مکہ کے لئے تیار کروایا تھا۔ اس مصحف اور پہلے دو مصاحف کو مصاحف حجازیہ یا حرمیہ بھی کہتے ہیں۔
مصحف شامی: اسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اہل شام کے لئے تیار کروایاتھا۔
مصحف کوفی: اسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ کے لئے تیار کروایا تھا۔
مصحف بصری: اسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اہل بصرہ کے لئے تیار کروایا تھا۔
اور مصاحف اہل عراق سے مراد آخری دو مصاحف ہیں۔
مصاحف میں قرآن کی کتابت کا سبب یہ تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو یہ بات پہنچی کہ اہل حمص، اہل دمشق، اہل کوفہ اور اہل بصرہ میں سے ہر ایک اپنی قراء ت کو دوسرے کی قراء ت سے بہتر قرار دیتے ہیں تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ۱۲ہزار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جمع کیااور انہیں خبر دی تو انہوں نے اسے بہت بڑا فتنہ سمجھا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ کی کیا رائے ہے؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میری رائے یہ ہے کہ لوگوں کوایک مصحف پر جمع کردوں تاکہ تفرقہ باقی نہ رہے تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا : کیا ہی خوب رائے ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس کے بعد حضرت عثمانؓ نے خلافت ابی بکر میں جمع شدہ مصحف منگوایا جوکہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا۔ آپ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ وغیرہ کو مصاحف کی کتابت کا حکم دیا تو حضرت زیدرضی اللہ عنہ نے ان مصاحف کو عرضہ اَخیرہ کے مطابق لکھا؛ یعنی آخری بار جب اللہ کے رسولﷺ نے حضرت جبریل علیہ السلام کو اپنی وفات والے سال قرآن سنایا تھا۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک ایک مصحف مکہ، مدینہ، کوفہ اور بصرہ بھیجا۔ ایک مدینہ میں روک لیا اور ایک مصحف اپنے پاس رکھ لیا، جسے انہوں نے مصحف امام کا نام دیا۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان تمام مصاحف کے ساتھ ایک ایک قاری بھی بھیجا، جو اس شہر والوں کو اس مصحف کے رسم کے مطابق صحیح اور متواتر قراء ات کی تعلیم دے۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو حکم دیاگیا کہ وہ اہل مدینہ کو مدنی مصحف کے مطابق قرآن پڑھائیں۔ عبداللہ بن السائب رضی اللہ عنہ کو اس کام کے لئے مکہ بھیجا گیا۔ مغیرہ بن ابی شہاب کو شام، ابوعبدالرحمن السلمی کو کوفہ اور حضرت عامر کوبصرہ روانہ کیا گیا۔
ان شہروں میں اس وقت تابعین میں سے حفاظِ قرآن کریم کا ایک جم غفیر تھا۔ ہر شہر کے لوگوں نے اپنے شہر کے تیار کردہ مصحف کے مطابق مذکورہ بالا قراء سے قرآن پڑھا اور اپنے شہر کے مصحف کی تمام قراء ات کو صحابہ سے نقل کیا، وہ قراء ات جو صحابہ نے آپﷺ سے لیں تھیں۔
یہ بات اہم ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مصاحف کے لکھنے اور ان کو مختلف اسلامی شہروں کی طرف بھیجنے کی جو مہم چلائی تھی اس کا مقصد قرآن کی ایک نص پر لوگوں کواکٹھا کرنا نہیں تھا بلکہ اس سے مطلوب صرف یہ تھا کہ اللہ کے رسولﷺ سے ثابت متواتر قراء ات کو جمع کر دیا جائے اور جو قراء ات شروع میں امت کی آسانی کے لئے نازل کی گئی بعد میں عرضہ اَخیرہ میں منسوخ ہوگئی تھیں اور اکثر لوگوں کو ان کے نسخ کا علم نہ تھا، کا سد ِ باب کیا جائے، جو ان کو برابر پڑھتے چلے آرہے تھے۔ مصاحف عثمانیہ کو حرکات اور نقاط سے خالی اس لئے رکھا گیا، کیونکہ مصاحف کا حرکات اور نقاط سے خالی ہوناحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاں اس لحاظ سے مفید تھا کہ وہ ان لوگوں کو منسوخ اور شاذ کی بجائے متواتر قرا ء ات پر جمع کرسکیں۔
قاضی ابوبکر بن ابی طیب رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا مقصد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرح دو تختیوں کے درمیان قرآن کو جمع کرنا نہیں تھا، بلکہ ان کا اصل مطلوب قراء ات ثابتہ متواترہ پر لوگوں کو اکٹھا کرنا اور ان کو ان کے ماسواء قراء ات سے جداکرناتھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حافظ ابوعمروالدانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور صحابہ کی جماعت نے کچھ حروف اور باطل قراء ات جو غیر معروف اورغیر ثابت تھیں کو الگ کر دیا۔یہ قراء ات نبی مکرمﷺ سے نقلِ احادیث کے طریقے سے روایت کی گئیں تھیں، جبکہ اس طرح نقل شدہ قرا ء ات سے قرآن ثابت نہیں ہوتا۔‘‘
حافظ ابوعمروالدانی رحمہ اللہ ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کی طرح دو تختیوں میں قرآن جمع کرنے کا ارادہ نہ کیا،بلکہ انہوں نے تو صحابہ کو آپﷺ سے ثابت معروف قراء ات پر جمع کیا تھا اور ان کے علاوہ دیگر قراء ات کو الگ کر دیا، لیکن آپ سے مروی اور ثابت کوئی بھی صحیح قراء ت ان سے ضائع نہ ہوئی۔ جو کچھ اوپر ہم نے بیان کیا ہے اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ خلیفہ عثمان رضی اللہ عنہ نے جن مصاحف کی کتابت کا حکم دیا تھا ان میں بہت سے مقامات پر رسم کا اختلاف تھا۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن کی ایک نص پر لوگوں کو جمع کرنے کا ارادہ کیا ہوتا، توتمام مصاحف کو ایک ہی صورت میں لکھا جاتا اور ان میں کسی قسم کا بھی اختلاف نہ ہوتا، لیکن مصاحف عثمانیہ کی مختلف صورتوں اور متعدد کیفیات میںکتابت اس با ت کی واضح دلیل ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک نص کے حصول کا ارادہ نہ کیا تھا بلکہ ان کا اصل مقصود لوگوں کو غیر متواتر قراء ات کے بالمقابل متواتر قراء ات پر جمع کرنا تھا۔
جب یہ بات واضح ہوگئی تو اب کسی کو بھی پروپیگنڈا کرنے والوں کی یہ بات پریشان نہ کرے کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں میں قراء ات کے اختلافات محسوس کئے تو ان کو ایک ایک مصحف پر جمع کردیا اور وہ مصحف وہی ہے جو بلادِمشرق میں پایا جاتا ہے( جیسا کہ بعض متجددین کہتے ہیں۔ یاد رہے کہ بلادِ مشرق، مشرق میں موجود مسلمان ممالک کوکہتے ہیں اور مسلمانوں کا بلادِ مغرب پانچ ممالک پر مشتمل ہے۔ تیونس، الجزائر، مراکش، لیبیا اور موریطانیہ)
ان لوگوں کا یہ قول سلف و خلف میں سے کسی ایک کا بھی نہیں ہے اور اس قول کے قائلین کے پاس دلیل تو کجا اس سے مشابہ عقل و نقل کی بھی کوئی چیز ایسی نہیں ہے، جس کو وہ اس قول کی بنیاد بنا سکیں،بلکہ یہ من گھڑت باتوں کی طرح ایک بات ہے اور ایسے لوگوں کا قول ہے، جو قرآن، علوم قرآن اور قراء اتِ قرآنیہ سے بالکل جاہل ہیں۔
یہاں ہم بعض ایسے مقامات ذکر کریں گے، جہاں اہل حجاز ، عراق اورشام کے مصاحف میں اختلاف ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سورۃ البقرۃ


(١) شامی مصاحف میں ’’وَقَالُوْا اتَّخَذَ اﷲُ وَلَدًا سُبْحٰنَہٗ…‘‘ (البقرۃ:۱۱۶) والی آیت میں ( قَالُوْا ) بغیر واؤ کے ہے۔ابن عامر شامی رحمہ اللہ کی قراء ت اسی رسم کے مطابق ہے، جبکہ باقی تمام مصاحف میں (وَ قَالُوْا)واؤ کے ساتھ ہے اور باقی سبعہ قراء کی قراء ت اسی رسم کے مطابق ہے۔ ابن عاشر الاندلسی رحمہ اللہ نے ’الاعلان‘میں لکھا ہے کہ شامی مصاحف ’’وَقَالُوْا اتَّخَذَ‘‘میں واؤ کو حذف کیا گیاہے۔امام شاطبی رضی اللہ عنہ نے شاطبیہ میں لکھا ہے کہ’’عَلِیْمٌ وَقَالُوْا‘‘ میں پہلی واؤ کو ابن عامرشامی رحمہ اللہ نے گرا دیا ہے۔
(٢) ’’وَوَصّٰی بِھَا اِبْرَاھِیْمُ بَنِیْہِ وَیَعْقُوْب‘‘ (البقرۃ :۱۳۲) والی آیت (واوصی)کے الفاظ کے ساتھ اہل مدینہ اور شام کے مصاحف میں ہے اور ابوعبیدرحمہ اللہ نے کہا ہے کہ (واوصی) یعنی دو واؤں کے درمیان ہمزۃ کے ساتھ میں نے اسے مصحف الامام میں دیکھا ہے۔
یہ امام نافع رحمہ اللہ اور ابن عامر شامی رحمہ اللہ کی قراء ت کے مطابق ہے، جبکہ باقی تمام مصاحف میں (ووصی) بغیرہمزہ کے ہے اور باقی قراء کی قراء ت اسی کے مطابق ہے۔
’الاعلان‘ میں ہے کہ (اوصی) مدنی اور شامی مصاحف کے لئے ہے۔شاطبیۃ میں ہے کہ ابن عامر شامی رحمہ اللہ اور نافع رحمہ اللہ کے لئے (وصی)کی جگہ (أوصی)ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سورۃ آل عمران


(١) ’’وَسَارِعُوْا إِلَی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ‘‘(آل عمران:۱۳۳) اہل مکہ اور عراق کے مصاحف میں یہ آیت (وسارعوا)کے الفاظ کے ساتھ ہے: یعنی سین سے پہلے واؤ ہے۔ابن کثیر مکی، ابوعمرو بصری، عاصم، حمزہ اور کسائی رحمہم اللہ کی قراء ت اس کے مطابق ہے، جب کہ اہل مدینہ اور شام کے مصاحف میں(سارعوا)واؤ کے بغیرہے اور اسی پر امام نافع رحمہ اللہ اور ابن عامر شامی رحمہ اللہ کی قراء ت ہے۔
’ الاعلان‘ میں ہے: مکی اور عراقی مصحف میں(سارعوا) واؤ کے ساتھ ہے۔
’شاطبیہ‘ میں ہے:(سارعوا)سے قبل واؤ ابن عامر شامی رحمہ اللہ اور نافع رحمہ اللہ کے لئے نہ پڑھو۔
(٢) ’’جَآئُ وْا بِالْبَیِّنٰتِ وَالزُّبُرِ وَالْکِتَابِ‘‘ (آل عمران:۱۸۴) آیت میں اہل شام کے مصاحف میں (وبالزبر و بالکتاب)کے الفاظ کے ساتھ ہے یعنی باء دونوں کلمات میں ہے۔
ابن عامر شامی رحمہ اللہ کی قراء ت اسی رسم کے مطابق ہے، جب کہ باقی مصاحف میں دونوں جگہ باء نہیں ہے۔ اور باقی قراء کی قراء ت بھی اسی کے مطابق ہے۔
’الاعلان‘ میں ہے (بالزبر) میں باء شامی مصحف کے لئے نقل ہوئی ہے۔اسی طرح (بالکتاب)میں بھی باء شامی مصحف کے لئے ہے اور دونوں جگہ مصحف شامی نے باقی مصاحف کی مخالفت کی ہے۔
’شاطبیہ‘ میں ہے: (وبالزبر)کے ساتھ ابن عامر شامیa نے پڑھا ہے اور اسی طرح شامی مصاحف کارسم ہے اور (بالکتاب) کے ساتھ ہشام رحمہ اللہ نے پڑھاہے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سورۃ النساء


’’مَا فَعَلُوْہُ إِلَّا قَلِیْلٌ مِّنْھُمْ‘ (النساء:۸۶) یہ آیت اہل شام کے مصاحف میں (الا قلیلا) یعنی نصب کے ساتھ ہے۔ ا ور ابن عامر شامی رحمہ اللہ کی قراء ت بھی اس کے مطابق ہے۔جبکہ باقی مصاحف میں (الا قلیل) مرفوع ہے اور باقی سبعہ قراء ت اس رسم الخط کے مطابق ہے۔
’الاعلان‘ میں ہے کہ شامی مصحف، باقی مصاحف کے بالمقابل (قلیلا) کو نصب دیتا ہے۔
’شاطبیۃ‘ میں ہے (قلیل منھم) کی رفع، ابن عامر شامی رحمہ اللہ کے لئے نصب سے ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سورۃ المائدہ


(١) ’’وَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا‘‘ (المائدۃ:۵۳) آیت مبارکہ اہل مدینہ، مکہ اور شام کے مصاحف میں (یقول)کے لفظ یعنی یاء سے ماقبل واؤ کے بغیر ہے۔امام نافع، ابن کثیر، ابن عامررحمہم اللہ کی قراء ت اسی کے مطابق ہے، جبکہ اہل کوفہ اور بصرہ کے مصاحف میں (ویقول) واؤ کے ساتھ ہے اور ابوعمرو بصری ، عاصم، حمزۃ اور کسائی رحمہم اللہ کی قراء ت اس کے مطابق ہے۔
’االاعلان‘ میں ہے کہ عراقی مصاحف کے لئے (یقول)کی واؤ زیادہ ہے۔
’شاطبیہ‘میں ہے:(یقول)سے پہلے واؤ ابوعمرو بصری،عاصم،حمزۃاورکسائی رحمہم اللہ کے لئے زیادہ پڑھواور (یقول)کے لام کو ابوعمرو بصری رحمہم اللہ کے علاوہ کے لئے رفع سے پڑھو۔
(٢) ’’یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا مَنْ یَرْتَدَّ‘‘(المائدۃ:۵۴)یہ آیت مبارکہ اہل مدینہ اور شامی مصاحف میں (یرتدد) کے الفاظ یعنی دو دالوں کے ساتھ ہے۔ امام نافع رحمہ اللہ اور ابن عامر شامی رحمہ اللہ کی قراء ت اسی کے مطابق ہے، جبکہ باقی تمام مصاحف میں (یرتد) ایک دال کے ساتھ ہے اور باقی سبعہ قراء کی قراء ت اسی کے مطابق ہے۔
’الاعلان‘ میں ہے : مدنی اور شامی مصاحف میں (یرتدد) کا رسم ہے۔
’شاطبیہ‘ میں ہے: (من یرتدد) ابن عامر شامی رحمہ اللہ اور نافع رحمہ اللہ کے لئے عام ہوا ہے، جبکہ باقی قراء کے لئے یہ ادغام اور دال کی حرکت کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔
 
Top