• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قراء اتِ قرآنیہ کا مقام اور مستشرقین کے شبہات کا جائزہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سورۃ الانعام


’’وَلَدَارُ الاٰخِرَۃِ خَیْرٌ‘‘( الانعام: ۳۲) یہ آیت مبارکہ اہل شام کے مصاحف میں (ولدار) یعنی ایک لام کے ساتھ ہے۔ ابن عامر شامی رحمہ اللہ کی قراء ت بھی یہی ہے، جبکہ باقی مصاحف میں (وللدار)دو لاموں کے ساتھ ہے اور باقی سبعہ قراء کی قراء ت اسی کے مطابق ہے۔
’الاعلان‘ میں ہے کہ (ولدار) شامی مصحف کے لئے ایک لام کے ساتھ ہے۔
’شاطبیہ‘میں ہے: (وللدار)میں ابن عامررحمہ اللہ نے دہرے لام کو حذف کیاہے اور (الآخرۃ) میں ابن عامر شامی رحمہ اللہ نے مرفوع،کو مجرور پڑھاہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سورۃ الاعراف


(١) ’’قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ‘‘ ( الاعراف:۳) آیت مبارکہ میں اہل شام کے مصاحف میں (یتذکرون) ہے :یعنی یاء اور تاء کے ساتھ۔ ابن عامر شامی رحمہ اللہ کی قراء ت یہی ہے، جبکہ باقی مصاحف میں (تذکرون) یعنی تاء کے ساتھ ہے۔ باقی سبعہ قراء کی قراء ت اس کے مطابق ہے۔
’الاعلان‘ میں ہے : (تذکرون)سے پہلے شامی مصحف میں یاء مقدم کی گئی ہے۔
’شاطبیہ‘ میں ہے: (تذکرون) میں ابن عامر شامی رحمہ اللہ کے لئے تاء سے پہلے غیب یعنی یاء کا اضافہ کرواور ابن عامر شامی، حفصؒ، حمزۃاور کسائی رحمہم اللہ کے لئے ذال کو تخفیف کے ساتھ پڑھو۔
(٢) ’’وَمَاکُنَّا لِنَھْتَدِیَ‘‘ (الاعراف:۴۳) یہ آیت مبارکہ اہل شام کے مصاحف میں (ماکنا) کے الفاظ یعنی ’ما ‘ سے قبل بغیرواؤ کے ہے ابن عامر شامی رحمہ اللہ کی قراء ت اسی کے مطابق ہے، جبکہ باقی مصاحف میں (وماکنا) واؤ کے ساتھ ہے ۔باقی سبعہ قراء کی قراء ت بھی اس کے مطابق ہے۔
’الاعلان‘ میں ہے(وماکنا) کی واؤ شامی مصحف کے لئے حذف کی گئی ہے۔
’شاطبیہ‘ میں ہے: واؤ کو شامی کے لئے چھوڑ دے۔
(٣) ’’قَالَ الْمَلَائُ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا‘‘ (الاعراف: ۸۸) یہ آیت مبارکہ اہل شام کے مصحف میں (وقال)قاف سے پہلے واؤ کے اضافے کے ساتھ ہے ابن عامر شامی رحمہ اللہ کی قراء ت اسی کے مطابق ہے۔جبکہ باقی تمام مصاحف میں (قال) بغیرواؤ کے پہلے اور باقی سبعہ قراء کے ہاں اسی کے مطابق ہے۔
’الاعلان‘ میں ہے (قَالَ الْمَلَائُ) شامی مصحف میں واو کے اضافے کے ساتھ ہے۔
’شاطبیہ‘ میں ہے (مفسدین)کے بعد واؤ ابن عامر شامی رحمہ اللہ کے لئے زیادہ پڑھو۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سورۃ التوبۃ


(١) ’’تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الاَنْھَارُ‘‘ (التوبۃ: ۸۹) یہ آیت مبارکہ اہل مکہ کے مصاحف میں (من تحتھا) من کے اضافہ کے ساتھ ہے۔ ابن کثیر رحمہ اللہ کی قراء ت اس کے مطابق ہے، جبکہ باقی مصاحف میں (من) نہیں ہے اور باقی سبعہ قراء کی قراء ت اسی کے مطابق ہے۔
’الاعلان‘میں ہے: سورۃ التوبہ کے آخر میں مکی مصاحف کے لئے (تحتہا) کے ساتھ (من) کابھی اعتبار کریں۔
’شاطبیہ‘ میں ہے۔ (ومن تحتھا)میں ابن کثیر مکی رحمہ اللہ جر کے ساتھ پڑھتے ہیں اور (من) کا اضافہ کرتے ہیں۔
(٢) ’’وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا‘‘(التوبۃ:۱۰۷) یہ آیت مبارکہ مصاحف اہل مدینہ اور شام میں (الذین)کے الفاظ یعنی بغیرواؤ کے ہے۔ امام نافع رحمہ اللہ اور ابن عامر شامی رحمہ اللہ کی قراء ت اس کے مطابق ہے۔جبکہ باقی مصاحف میں (والذین)واؤ کے ساتھ ہے اورباقی سبعہ قراء کی قراء ت بھی یہی ہے۔
’الاعلان‘ میں ہے (والذین) مدنی اور شامی مصاحف میں بغیر واؤ کے ہے اچھی طرح سمجھ لو۔
’شاطبیہ‘ میں ہے: (الذین) ابن عامر شامی رحمہ اللہ اور نافع رحمہ اللہ کے لئے بغیر واؤ کے ہے۔
ہم اتنی ہی مثالوں پراکتفا کرتے ہیں۔یہاں ہم نے اہل حجاز ، عراق اور شام کے مصاحف کے باہمی اختلافات کے کچھ نمونے آپ کے سامنے رکھے ہیں جبکہ قراء ت کی کتب میں بالعموم اور رسم الخط کی کتابوں میں بالخصوص اس قسم کی مثالیں بکثرت موجود ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ات میں طعن و تشنیع

دشمنانِ اسلام اپنے تمام وسائل کے ساتھ اس کوشش میں مصروف ہیں کہ وہ مسلمانوں میں قرآن کریم کے بارے میںشکوک و شبہات پیدا کریں اور ان کو باہم آپس میں اختلاف کا شکار کرتے ہوئے لڑا دیں۔ دشمنانِ اسلام پر یہ بات اچھی طرح واضح ہے کہ قرآن کریم ہی دین ِاسلام کی بنیاد اور صراطِ مستقیم کاسرچشمہ ہے ۔ لہٰذا قرآن میں شکوک وشبہات پیدا کرنا دراصل دین اسلام کو کمزور کرنااور مسلمانوں کو اس صراطِ مستقیم سے پھیر دینا ہے، جس میں کسی قسم کی کوئی ٹیڑھ یا کجی نہیں ہے۔ قابل افسوس بات تو یہ ہے کہ مسلمانوں میں ایک طبقہ ایسا موجود ہے، جو ان دشمنانِ اسلام کی چپڑی باتوں سے متاثر ہے۔ (قراء ات کے بارے میں اپنے غلط نظریات کوبیان کرتے ہوئے) یہ طبقہ اسلام اوراہل اسلام کو اس کے دشمنوں سے زیادہ اذیت پہنچاتا ہے۔خاص طور پر جرمنی اور یورپ کے مستشرقین کے پروان چڑھنے کے بعد مسلمانوں میں یہ طبقہ قراء ات کے خلاف زیادہ سرگرم ہوگیا ہے۔
وہ لوگ جو کہ ’فکر ِقرآنی‘کی ترویج اور نشرواشاعت کے دعویدار ہیں ، بے دین، ملحد مستشرقین اور دشمنانِ اسلام سے اپنے افکار مستعار لیتے ہیں۔یہ حضرات حیران کن اور عجیب وغریب قسم کے ملاوٹ شدہ افکار و آراء پیش کرتے ہیں۔ جیساکہ پاکستان میں ایک بے دین شخص غلام احمدپرویزہے، جو قرآن کریم کے حفظ اور تلاوت کا بھی قائل نہیں ہے اور اپنی بات کو اصرار کے ساتھ پیش کرتا ہے کہ ’’ تمام علماء سلف و خلف قرآن کی حکمت کونہ سمجھ سکے کیونکہ انہوں نے قرآن کو دائمی شریعت بنا لیا، حالانکہ شریعتیں تو اللہ کے ہاں تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔
اسی طرح بعض متجددین نے قرآن کی متواتر قراء ات کا انکار کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ روایت حفص جو مشرقی ممالک میں رائج ہے، کے علاوہ کوئی روایت ثابت نہیں ہے۔ یہ متجددین اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ روایت حفص ہی قرآن کی واحد اور متواتر قراء ت ہے اور باقی قراء حضرات کی من گھڑت قراء ات ہیں۔ یہاں تک کہ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ قراء ات سبعۃ تھوڑی ہوں یازیادہ، وحی الٰہی نہیں ہیں اور ان کا منکر کافر ہے نہ فاسق اورنہ ہی دین کا ناقد۔
ان کاکہنا ہے قراء ات دراصل مختلف قبائل کے لہجات اور ان کے اختلاف کی وجہ سے بنی ہیں۔ انتہائی افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بعض مخلص علماء بھی یہی کہتے ہیں کہ خلیفہ راشد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک ہی قراء ت یعنی روایت حفص کو باقی رکھا تھا اور یہی قرآن کی صحیح قراء ت ہے۔
عجیب بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی قراء ت ایسی نہیں ہے کہ جس پر طعن نہ کیا گیاہو یا اس پرجرح نہ ہوتی ہو یا اس کے بارے میںکسی طرح سے کوئی بحث مباحثہ نہ ہواہو۔ اور یہ بات قابل افسوس ہے (لیکن اگر کسی قراء ت پرجرح و طعن کو اس کی قبولیت یاعدم قبولیت کا معیار بنالیں تو) کوئی بھی قراء ت ہمارے لئے ثابت نہ ہوگی، چاہے وہ صحت، وثوق اور تواتر کے بلند ترین درجے پر ہی کیوں نہ ہو۔
میں آپ حضرات کے سامنے چند معاصر علماء کے اعدادوشمار بیان کررہا ہوں، جوآپ کے لئے اس بات کو اچھی طرح واضح کردیں گے کہ بغیر کسی استثناء کے تمام قراء ات سبعہ میں طعن کیا گیا اور ان کی غلطیاں نکالی گئیں۔فضیلۃ الشیخ عضیمۃ اس بات کو بیان کرنے کے لئے ’’قراء سبعۃ اور ان کی قراء ات میں نکالی جانے والی غلطیاں ‘‘کے عنوان سے ایک بحث قائم کرتے ہیں، پھر وہ ہرقاری کا ذکر کرتے ہیں اور ان قراء ات میں جس قدر غلطیاں نکالی گئی ہیں ان کے اعدادوشمار پیش کرتے ہیں۔اس اعدادوشمار کاخلاصہ ہم ذیل میں بیان کررہے ہیں۔
(۱) امام نافع رحمہ اللہ( متوفی ۹ھ) کی قراء ت میں۱۲ مقامات پر غلطیاں نکالی گئیں ہیں۔
(٢) امام ابن کثیررحمہ اللہ( متوفی ۱۲۰ھ) کی قراء ت میں۹ مقامات پرغلطیوں کا دعویٰ کیاگیاہے۔
(٣) امام ابوعمرورحمہ اللہ(متوفی ۱۵۴ھ )کی قراء ت میں۷ مقام پرغلطیاں بیان کی گئی ہیں۔
(٤) امام ابن عامررحمہ اللہ( متوفی ۱۱۸ھ) کی قراء ت میں۱۸ مقامات پر غلطیاں نکالی گئی ہیں۔
(٥) امام عاصم رحمہ اللہ(متوفی ۱۲۷ھ )کی قراء ت میں۷مقامات پر غلطیاں بیان کی گئی ہیں۔
(٦) امام حمزۃ رحمہ اللہ(متوفی ۱۵۰ ھ) کی قراء ت میں ۱۵ مقامات پر غلطیاں بیان ہوئی ہیں۔
(٧) امام کسائی رحمہ اللہ(متوفی ۱۸۰ ھ) کی قراء ت میں ۱۱ مقامات پر غلطیوں کادعویٰ کیا گیا ہے۔
قراء ت سبعہ میں کئے جانے والے طعن کی یہ بعض قسمیں ہیں۔ اس کے علاوہ قراء ت عشرۃ یا ان اربعۃ عشرۃ یا ان سے بھی زائد قراء ت میں جوطعن کیاگیا ہے، اس کاکیاحال ہوگا۔
متواتر قراء ات کاانکار زیادہ لوگ کریں یا کم، اس سے قراء ات کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جیساکہ حافظ ابن الجزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’کتنی ہی قراء ات کااہل نحونے انکار کیا ہے، لیکن ان کا انکار معتبر نہیں ہے، کیونکہ سلف صالحین میںجن ائمہ کی اقتداء کی جاتی ہے وہ سب ان قراء ات کو قبول کرنے پر متفق ہیں۔‘‘
اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ کوئی ایک قراء ات بھی ایسی نہیں ہے جو مطلق طور پر تسلیم کی گئی ہو اور ہم اس کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہوں کہ یہ وہ قراء ات مقدسہ ہے ، جس کو تمام لوگ بغیرکسی استثناء کے تسلیم کرتے ہیں یا اس قراء ات کے قبول کرنے میں کوئی طعن ، جرح یاکسی قسم کابحث مباحثہ نہیں ہوا۔
قراء ات کاکھلم کھلا انکارکیا دین کے اعتبار سے جائز ہے؟ ہرگز نہیں۔قراء ات دین کی ضروریات میں سے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
عبدالوھاب بن سبکی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’سبعہ قراء ات کہ جن کو امام شاطبی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے اور ان کے علاوہ تین اور، ابوجعفر، یعقوب اور خلف رحمہم اللہ کی قراء ات، متواترقراء ات ہیں اور دین کی بنیادی تعلیمات میں سے ہیں۔ گویاجس حرف کو بھی ان دس قراء میں سے کسی ایک نے بھی بیان کیا ہے اس کے بارے، دین میں یہ بات ضروری طور پرمعلوم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسکے رسولﷺ پر نازل کیا گیاہے۔ ان قراء ات سے وہ شخص اعراض کرے گا جو ان کاحامل نہ ہوگا۔ ان قراء ات کاتواتر صرف ان قراء تک محدود نہیں ہے کہ جنہوں نے ان روایات کو پڑھا ہے بلکہ ہر مسلمان جو کہ کلمہ شہادت کی گواہی دیتا ہے اس کے نزدیک یہ قراء ات متواتر ہیں،اگرچہ وہ شخص کوئی عامی اورجاہل ہی کیوں نہ ہو، اسے قرآن کاایک حرف بھی زبانی یاد نہ ہو ہرمسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ اللہ کے دین کو اختیارکرے۔ اور اس بات کا یقین کرے کہ جس کاہم نے ذکر کیا وہ سب قراء ات متواتر ہیں اور یقینی طور پر معلوم ہیں۔ظن اور شکوک و شبہات ان سے کوسوں دور ہیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ابن عطیہ اندلسی رحمہ اللہ کاکہنا ہے کہ
’’ہرشہرکے رہنے والوں کااس بات پر اتفاق رہا ہے کہ قراء ات سبعہ بلکہ عشرہ ثابت ہیں اور ان کو بالاجماع نماز میں پڑھاجاسکتا ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ابن الجزری رحمہ اللہ کاکہنا ہے :
ہر وہ قراء ت جو مطلق طور پرعربی زبان کے موافق ہو اور مصاحف عثمانیہ میں سے کسی ایک مصحف کے رسم سے مطابقت رکھتی ہو،چاہے یہ مطابقت تقدیراً ہی کیوں نہ ہو اور وہ تواتر سے منقول ہو، قراء ات متواترہ ہو گی، جو قطعی طور پرثابت ہے۔‘‘
یہ تین ارکان کہ جن کا ذکر امام ابن الجزری رحمہ اللہ نے کیاہے۔ ہمارے زمانے میں ائمہ عشرہ کی قراء ات میں جمع ہیں،یہ وہ قراء ات ہیں کہ جن کو لوگوں کے ہاں تلقی بالقبول حاصل ہے۔یہ قراء ات امام ابوجعفر، نافع، ابن کثیر، ابوعمرو، یعقوب، ابن عامر، عاصم، حمزۃ، کسائی اور خلف رحمہم اللہ کی ہیں۔ متاخرین نے یہ قراء ات متقدمین سے حاصل کی ہیں،یہاں تک کہ نسل در نسل منتقل ہوتے ہوئے یہ قراء ات ہم تک پہنچی ہیں۔ان میں ہرآیت کی قراء ت باقی قراء ات کی طرح قطعی طور پر ثابت ہے۔ پھر ابن الجزری رحمہ اللہ نے کہا :آج ہم تک جو قراء ات، تواتر ِصحت، اجماع، غیر اختلافی،اور تلقی و تلقی باالقبول کی خصوصیات کے ساتھ پہنچی ہیں، وہ قراء عشرۃ کی قراء ات ہیں۔ ان قراء کے راوی معروف و مشہور ہیں۔ یہ قراء ات علماء کے اقوال میں بھی ملتی ہیں اور انہی قراء ات پر آج لوگ شام، عراق، مصر اور حجاز میں متفق ہیں۔
پھر ابن الجزری رحمہ اللہ نے جمہور ائمہ اسلام مثلاً امام بغوی، امام ابوالعلاء الھمدانی، حافظ ابن الصلاح، امام ابن تیمیہ، امام سبکی رحمہم اللہ اور ان کے والد قاضی القضاۃ وغیرہ سے قراء ات عشرۃ کے تواتر کونقل کیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علامہ عبدالفتاح القاضی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’جب آپ کو معلوم ہوگیا کہ قراء ات عشرۃ متواتر ہیں، تو یہ جاننا بھی لازم ہے کہ جمہور بعض قراء ات کے تواتر کو ضرورت کے درجے میں بیان کرتے ہیں اور بعض قراء ات ایسی ہیں کہ ان کے تواتر کو تو ایسے ماہر قراء ہی جانتے ہیں،جو قراء ات کے علوم میں متخصص ہوں۔ کیونکہ عام لوگوں کو ان قراء ات کاعلم نہیں ہوتا پس پہلی قسم کی قراء ات کاانکار بالاتفاق کفر ہے اور دوسری قسم کی قراء ات کاانکار اس وقت کفر ہوگا جب کہ سن کر دلائل کے واضح ہوجانے اور صحت قائم ہونے کے بعد اپنے انکار پر ڈٹارہے۔‘‘
ہم یہ جان چکے ہیں کہ دین اسلام قراء ات متواترہ میں طعن و تشنیع کو جائز نہیں سمجھتا، تو جب ہم قراء ات متواترہ میں بعض لوگوں کو طعن کرتے دیکھتے ہیں تو ہمارا کیارویہ ہوناچاہئے؟ کیا قراء ات پر طعن کی صورت میں خاموشی جائز ہے؟ کیا ہمیں خوش اخلاقی کامظاہرکرتے ہوئے ان ناقدین قراء ات کی آراء و افکارکو قبول کرلیناچاہئے یاہمیں قرآن کریم کے ایک ایک گوشے کی اپنی قوت، استطاعت، دلیل اور موجود اسباب و وسائل سے دفاع کرناچاہئے؟
کیا کسی غیرت مند مسلمان کے لئے یہ طرزِ عمل صحیح ہے کہ وہ اپنے دین اور مقدس کتاب پر طعن کے باوجود خاموش رہے۔ ہرگز نہیں، کبھی بھی نہیں، قراء ات پرطعن کی صورت میں خاموش رہنا کسی طور بھی صحیح نہیں ہے بلکہ ہرمسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ کتاب اللہ کا حتی الامکان دفاع کرے اور ادھر ادھر سے آنے والے نظریات کے سامنے نہ تو اپنی کوشش ترک کرے اورنہ ہی ان کے مقابلے میں سستی کامظاہرہ کرے۔
بالفرض اگر ہم اس فرض کی ادائیگی کے لئے کھڑے نہیں ہوتے اور تمام قراء ات میں کئے گئے طعن کو تسلیم کرلیتے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ہم وہ قراء ت کہاں سے لائیں گے کہ جس کے بارے میں تمام لوگوں کایہ عقیدہ ہو کہ یہ وہ مقدس قراء ت ہے، جوکہ اللہ رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہے۔
یہ بڑی ہی عجیب بات ہوگی کہ ہم ایسی چیز کوتسلیم کرلیں جس کی حقیقت کچھ بھی نہیں ہے اور اس سے بھی زیادہ عجیب بات تو یہ ہے کہ بعض لوگ ایسے ہیں جو کہ قراء ات کے دفاع کے خلاف ہیں۔ یہ تمام امور بے حد افسوس ناک ہیں۔ ہمیں کیاکرنا چاہئے؟ کیا ہم اس سرکش اور تباہی مچانے والے ہجوم میں ضعیف اور مسکین بن کر خاموش ہو جائیں؟ ہرگز نہیں، ہم اللہ کی توفیق سے ان لوگوں سے جہاد اور مجادلہ کریں گے اور قرآن اور قراء ات متواترہ محمدیہ کااس وقت تک دفاع کریں گے جب تک کہ ہمارے اندر کوئی زندگی کی رمق یا سانس باقی ہے۔
یہ چند حسرت بھرے کلمات، ایک زخمی دل کی آواز ہیں۔ اس مضمون میںطوالت کی بجائے حتیٰ الامکان اختصار سے کام لیا ہے اور بعض ضروری امور کے بارے میں گفتگو حواشی میں درج کردی ہے تاکہ طالب علم کے لئے اس موضوع سے استفادہ آسان رہے۔جو میرا مقصود تھا، اگرمیں نے اسے پورا کردیا ہے تو یہ اللہ کے توفیق اور فضل سے ہے، اور اگر یہ ایسانہیں ہے تو یہ میری ذات کی کوتاہی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
عماد الاصفہانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’کوئی بھی انسان جب کوئی کتاب لکھتا ہے تو اگلے روز اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اگر یہ ایسے ہوتی تو زیادہ بہتر تھا اور اگر وہ یہ اضافہ بھی کردیتا تو اچھا تھا اور عبرت کی بات ہے، کیونکہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کے جملہ معاملات میں نقص غالب ہے۔‘‘
آخر میں اپنی بات کااختتام امام شاطبی رحمہ اللہ کے ان اشعار کے ساتھ کرتاہوں:
’’میں اللہ عزوجل کے حضور گڑگڑاتے ہوئے اپنی ہتھیلیاں بلند کرتا ہوں اور قبولیت کی امید سے دعا کرتاہوں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ قرآن کریم اور قراء ات کی حفاظت فرمائیں، جیساکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے کہ ’’ہم نے اس ذکر کونازل کیاہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے قرآن کو حجت بنائے اور اسے ہمارے خلاف حجت نہ بنائے۔ ہمارے اس عمل کو شرف قبولیت بخشے اور میری اس کاوش کومیرے لئے ، میرے والدین، اساتذہ اور تمام استفادہ کرنے والوں کے لئے اس دن کے لئے ذخیرہ بنادے کہ جس دن مال اور اولاد بھی کام نہ آئیں گے، سوائے اس کے کہ کوئی اللہ کے ہاں قلب سلیم لے کر آئے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حوالہ جات

(١) ہر قاری نے اپنے شیوخ سے ایک یا ایک سے زائد قراء ات کو سنا ہے اور یہ قراء ایک دوسرے کی قراء ت کا انکار نہیں کرتے۔ ماسواء اس قراء ت کے کہ جس میں راوی سے خطا کا امکان ہو یا اس قراء ت کے نقل کرنے والے راوی کی صداقت میں شک ہو۔ یہ معاملہ اس وقت تک تھا جب تک کہ قراء ات کی مختلف روایات کو جمع اور اکٹھا نہیں کیا گیا تھا، لیکن جب قراء ات کی مختلف اَسانید اور طرق معروف ہوگئے۔ متواتر اور صحیح قراء ات، شاذہ اور منکر قراء ات علیحدہ ہوگئیں تو پھر اب ان میں سے کسی کے انکار یا اس میں شک کی گنجائش نہیں ہے اور یہ بات ہر اس شخص پر واضح ہے کہ جو اَسانید کے علم، نقل و روایت کے فنون ، اصولِ دین اور اصولِ فقہ سے اچھی طرح واقف ہو۔
(٢) قراء ات کے بارے میں مستشرقین کا نظریہ کیا ہے؟ اس کو گولڈزیہر نے اپنی کتاب’المذاہب الإسلامیۃ في تفسیر القرآن‘میں واضح کیا ہے۔ جس کا عربی ترجمہ جناب استاذ الشیخ علی حسن عبدالقادر نے کیا ہے۔ گولڈ زیہر لکھتا ہے: یہ مختلف قراء ات مصحف عثمانی کے گرد گھومتی ہیں اور یہ وہ مصحف ہے جس پر حضرت عثمان بن عفان نے لوگوں کو جمع کیا تھا۔حضرت عثمان کا ارادہ تھا کہ کلام اللہ کی حرکات اور اس کے مختلف استعمالات میں جو خطرہ پیدا ہوسکتا تھااس کو دور کردیا جائے، کیونکہ مسلمانوں نے قرآن کی قراء ات میں بہت سستی کا مظاہرہ کیا تھا اور ان سب قراء ات کو مسلمان برابری کا درجہ دیتے تھے۔ باوجودیکہ ان میں سے صرف چند ایک ایسی تھیں جن کو فرض کیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کو ایک ایک کلمہ اور ایک ایک حرف کی شکل میں نازل کیا تھا اور اس طرح کا کلام یعنی ایک کلمے اور حرف کے ساتھ لوحِ محفوظ میں بھی تھا اور اسی طرح مبارک فرشتہ جس قرآن کو لے کر نازل ہوا اس کے لیے لازم ہے کہ وہ ایک حرکت اور ایک ہی لفظ پر مشتمل ہو اور اس موضوع پر گولڈ نے اپنی کتاب تاریخ القرآن میں مفصل بحث کی ہے۔ وہ کہتا ہے، ان قراء ات کے وجود کا سب سے بڑا سبب عربی رسم الخط ہے۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ ایک کلمے کا ایک ہی رسم، حروف کے اوپر نیچے نقاط کے اعتبار سے مختلف حرکات کے ساتھ پڑھا جاسکتا ہے۔
جیسا کہ نحوی اعراب اور کلمے کی دوسری حرکات کے نہ ہونے کی وجہ سے عربی خط میں یہ بات ممکن ہے کہ کسی کلمہ کی مختلف حالتیں اس کے مختلف اعراب کے لحاظ سے بنا دی جائیں۔ کتابی رسم کی تکمیلات میں حرکات و اعراب کا یہ اختلا ف ہی دراصل قراء ات کے ظہور کا اصل سبب تھا، کیونکہ شروع میں قرآن کے نقاط اور اس کی حرکات نہیں تھیں۔ گولڈ زیہر، کوئی پہلا شخص نہیں ہے جس نے قرآن اور علمائے قراء ات اسلام کے بارے میں یہ ہرزہ سرائی کی ہو، بلکہ یہ رائے ان سے پہلے بھی مستشرقین میں معروف رہی ہے اور قرآن اور اس کی قراء ات کے بارے میں مستشرقین کی جتنی قیل و قال ہے اس کامرکز ومحور یہی نکتہ ہے۔
 
Top