قراء ات میں طعن و تشنیع
دشمنانِ اسلام اپنے تمام وسائل کے ساتھ اس کوشش میں مصروف ہیں کہ وہ مسلمانوں میں قرآن کریم کے بارے میںشکوک و شبہات پیدا کریں اور ان کو باہم آپس میں اختلاف کا شکار کرتے ہوئے لڑا دیں۔ دشمنانِ اسلام پر یہ بات اچھی طرح واضح ہے کہ قرآن کریم ہی دین ِاسلام کی بنیاد اور صراطِ مستقیم کاسرچشمہ ہے ۔ لہٰذا قرآن میں شکوک وشبہات پیدا کرنا دراصل دین اسلام کو کمزور کرنااور مسلمانوں کو اس صراطِ مستقیم سے پھیر دینا ہے، جس میں کسی قسم کی کوئی ٹیڑھ یا کجی نہیں ہے۔ قابل افسوس بات تو یہ ہے کہ مسلمانوں میں ایک طبقہ ایسا موجود ہے، جو ان دشمنانِ اسلام کی چپڑی باتوں سے متاثر ہے۔ (قراء ات کے بارے میں اپنے غلط نظریات کوبیان کرتے ہوئے) یہ طبقہ اسلام اوراہل اسلام کو اس کے دشمنوں سے زیادہ اذیت پہنچاتا ہے۔خاص طور پر جرمنی اور یورپ کے مستشرقین کے پروان چڑھنے کے بعد مسلمانوں میں یہ طبقہ قراء ات کے خلاف زیادہ سرگرم ہوگیا ہے۔
وہ لوگ جو کہ ’فکر ِقرآنی‘کی ترویج اور نشرواشاعت کے دعویدار ہیں ، بے دین، ملحد مستشرقین اور دشمنانِ اسلام سے اپنے افکار مستعار لیتے ہیں۔یہ حضرات حیران کن اور عجیب وغریب قسم کے ملاوٹ شدہ افکار و آراء پیش کرتے ہیں۔ جیساکہ پاکستان میں ایک بے دین شخص غلام احمدپرویزہے، جو قرآن کریم کے حفظ اور تلاوت کا بھی قائل نہیں ہے اور اپنی بات کو اصرار کے ساتھ پیش کرتا ہے کہ ’’ تمام علماء سلف و خلف قرآن کی حکمت کونہ سمجھ سکے کیونکہ انہوں نے قرآن کو دائمی شریعت بنا لیا، حالانکہ شریعتیں تو اللہ کے ہاں تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔
اسی طرح بعض متجددین نے قرآن کی متواتر قراء ات کا انکار کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ روایت حفص جو مشرقی ممالک میں رائج ہے، کے علاوہ کوئی روایت ثابت نہیں ہے۔ یہ متجددین اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ روایت حفص ہی قرآن کی واحد اور متواتر قراء ت ہے اور باقی قراء حضرات کی من گھڑت قراء ات ہیں۔ یہاں تک کہ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ قراء ات سبعۃ تھوڑی ہوں یازیادہ، وحی الٰہی نہیں ہیں اور ان کا منکر کافر ہے نہ فاسق اورنہ ہی دین کا ناقد۔
ان کاکہنا ہے قراء ات دراصل مختلف قبائل کے لہجات اور ان کے اختلاف کی وجہ سے بنی ہیں۔ انتہائی افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بعض مخلص علماء بھی یہی کہتے ہیں کہ خلیفہ راشد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک ہی قراء ت یعنی روایت حفص کو باقی رکھا تھا اور یہی قرآن کی صحیح قراء ت ہے۔
عجیب بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی قراء ت ایسی نہیں ہے کہ جس پر طعن نہ کیا گیاہو یا اس پرجرح نہ ہوتی ہو یا اس کے بارے میںکسی طرح سے کوئی بحث مباحثہ نہ ہواہو۔ اور یہ بات قابل افسوس ہے (لیکن اگر کسی قراء ت پرجرح و طعن کو اس کی قبولیت یاعدم قبولیت کا معیار بنالیں تو) کوئی بھی قراء ت ہمارے لئے ثابت نہ ہوگی، چاہے وہ صحت، وثوق اور تواتر کے بلند ترین درجے پر ہی کیوں نہ ہو۔
میں آپ حضرات کے سامنے چند معاصر علماء کے اعدادوشمار بیان کررہا ہوں، جوآپ کے لئے اس بات کو اچھی طرح واضح کردیں گے کہ بغیر کسی استثناء کے تمام قراء ات سبعہ میں طعن کیا گیا اور ان کی غلطیاں نکالی گئیں۔
فضیلۃ الشیخ عضیمۃ اس بات کو بیان کرنے کے لئے ’’قراء سبعۃ اور ان کی قراء ات میں نکالی جانے والی غلطیاں ‘‘کے عنوان سے ایک بحث قائم کرتے ہیں، پھر وہ ہرقاری کا ذکر کرتے ہیں اور ان قراء ات میں جس قدر غلطیاں نکالی گئی ہیں ان کے اعدادوشمار پیش کرتے ہیں۔اس اعدادوشمار کاخلاصہ ہم ذیل میں بیان کررہے ہیں۔
(۱) امام نافع رحمہ اللہ( متوفی ۹ھ) کی قراء ت میں۱۲ مقامات پر غلطیاں نکالی گئیں ہیں۔
(٢) امام ابن کثیررحمہ اللہ( متوفی ۱۲۰ھ) کی قراء ت میں۹ مقامات پرغلطیوں کا دعویٰ کیاگیاہے۔
(٣) امام ابوعمرورحمہ اللہ(متوفی ۱۵۴ھ )کی قراء ت میں۷ مقام پرغلطیاں بیان کی گئی ہیں۔
(٤) امام ابن عامررحمہ اللہ( متوفی ۱۱۸ھ) کی قراء ت میں۱۸ مقامات پر غلطیاں نکالی گئی ہیں۔
(٥) امام عاصم رحمہ اللہ(متوفی ۱۲۷ھ )کی قراء ت میں۷مقامات پر غلطیاں بیان کی گئی ہیں۔
(٦) امام حمزۃ رحمہ اللہ(متوفی ۱۵۰ ھ) کی قراء ت میں ۱۵ مقامات پر غلطیاں بیان ہوئی ہیں۔
(٧) امام کسائی رحمہ اللہ(متوفی ۱۸۰ ھ) کی قراء ت میں ۱۱ مقامات پر غلطیوں کادعویٰ کیا گیا ہے۔
قراء ت سبعہ میں کئے جانے والے طعن کی یہ بعض قسمیں ہیں۔ اس کے علاوہ قراء ت عشرۃ یا ان اربعۃ عشرۃ یا ان سے بھی زائد قراء ت میں جوطعن کیاگیا ہے، اس کاکیاحال ہوگا۔
متواتر قراء ات کاانکار زیادہ لوگ کریں یا کم، اس سے قراء ات کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جیساکہ حافظ ابن الجزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’کتنی ہی قراء ات کااہل نحونے انکار کیا ہے، لیکن ان کا انکار معتبر نہیں ہے، کیونکہ سلف صالحین میںجن ائمہ کی اقتداء کی جاتی ہے وہ سب ان قراء ات کو قبول کرنے پر متفق ہیں۔‘‘
اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ کوئی ایک قراء ات بھی ایسی نہیں ہے جو مطلق طور پر تسلیم کی گئی ہو اور ہم اس کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہوں کہ یہ وہ قراء ات مقدسہ ہے ، جس کو تمام لوگ بغیرکسی استثناء کے تسلیم کرتے ہیں یا اس قراء ات کے قبول کرنے میں کوئی طعن ، جرح یاکسی قسم کابحث مباحثہ نہیں ہوا۔
قراء ات کاکھلم کھلا انکارکیا دین کے اعتبار سے جائز ہے؟ ہرگز نہیں۔قراء ات دین کی ضروریات میں سے ہیں۔