ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
(٣) یہ عربی رسم الخط معروف ہے اس رسم الخط کو حفاظ صحابہ کرام نے تمام صحابہ کی نگرانی میں لکھا ہے۔ اس رسم الخط کے محدود اور مفصل طرق کتب ِقراء ات، خاص طور پر رسم القرآن کی کتابوں میں جمع کئے گئے ہیں۔
(٤) کتب تفسیر اور کتب حدیث مثلا صحیح بخاری میں بعض صحابہ سے مصاحف عثمانیہ کے رسم کے خلاف جو قراء ات منقول ہیں، ان میں سے جن روایات کی سند صحیح ہے، وہ قرا ء ات درحقیقت اس آیت کی تفسیر میں ہیں اور ان کی بطورِ قرآن تلاوت جائز نہیں ہے، کیونکہ قرآن کے ثبوت میں اول شرط یہ ہے کہ وہ مصاحف کے رسم کے مطابق ہو۔ (یہ امر اسلام کے بدیہی امور میں سے ہے اور دین میں ضرورت کا درجہ رکھتا ہے۔)
(٥) گولڈ زیہر اور نولڈ کے کے اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن اور قراء ات دونوں الگ الگ شے ہیں۔ قرآن وہ ہے جسے فرشتہ نے رسول1 پر نازل کیا ہے۔ یہ ایک حرکت اور ایک ہی لفظ میں تھا، جبکہ قراء ات سے مراد وہ وجوہات ہیں جن کا لکھے ہوئے رسم عثمانی میں احتمال موجود تھا، ہر قاری اپنی استطاعت اور رائے کے مطابق ان قراء ات کو مختلف شکلیں دے دیتا تھا۔ مزید یہ کہ یہ قرا ء ات اللہ کی طرف سے نازل شدہ نہیں تھیں۔ دوسرے الفاظ میں قرآن کی کچھ قراء ات اصلی اور کچھ فرعی ہیں۔ اصلی قراء ات وہ ہیں جو اللہ کی طرف سے ایک ہی حرکت اورلفظ پر نازل ہوئیں اور فرعی قراء ات، وہ احتمالی قراء ات ہیں جن کا احتمال رسم عثمانی کے نقاط اور حرکات سے خالی ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتا تھا۔ نیز یہ کہ قراء ات اللہ کی طرف سے نازل شدہ نہیں ہیں۔
(٤) کتب تفسیر اور کتب حدیث مثلا صحیح بخاری میں بعض صحابہ سے مصاحف عثمانیہ کے رسم کے خلاف جو قراء ات منقول ہیں، ان میں سے جن روایات کی سند صحیح ہے، وہ قرا ء ات درحقیقت اس آیت کی تفسیر میں ہیں اور ان کی بطورِ قرآن تلاوت جائز نہیں ہے، کیونکہ قرآن کے ثبوت میں اول شرط یہ ہے کہ وہ مصاحف کے رسم کے مطابق ہو۔ (یہ امر اسلام کے بدیہی امور میں سے ہے اور دین میں ضرورت کا درجہ رکھتا ہے۔)
(٥) گولڈ زیہر اور نولڈ کے کے اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن اور قراء ات دونوں الگ الگ شے ہیں۔ قرآن وہ ہے جسے فرشتہ نے رسول1 پر نازل کیا ہے۔ یہ ایک حرکت اور ایک ہی لفظ میں تھا، جبکہ قراء ات سے مراد وہ وجوہات ہیں جن کا لکھے ہوئے رسم عثمانی میں احتمال موجود تھا، ہر قاری اپنی استطاعت اور رائے کے مطابق ان قراء ات کو مختلف شکلیں دے دیتا تھا۔ مزید یہ کہ یہ قرا ء ات اللہ کی طرف سے نازل شدہ نہیں تھیں۔ دوسرے الفاظ میں قرآن کی کچھ قراء ات اصلی اور کچھ فرعی ہیں۔ اصلی قراء ات وہ ہیں جو اللہ کی طرف سے ایک ہی حرکت اورلفظ پر نازل ہوئیں اور فرعی قراء ات، وہ احتمالی قراء ات ہیں جن کا احتمال رسم عثمانی کے نقاط اور حرکات سے خالی ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتا تھا۔ نیز یہ کہ قراء ات اللہ کی طرف سے نازل شدہ نہیں ہیں۔
قراء ات کی ایسی تقسیم کی طرف سلف و خلف میں سے کوئی بھی عالم نہیں گیا اور اس قسم کی تقسیم کی ان کے پاس عقل و نقل سے کوئی سند یا دلیل بھی نہیں ہے۔ جس بات پر محققین علماء کا اتفاق ہے وہ یہ ہے کہ قرا ء ت اگر تواتر سے ثابت ہوئی تو اس کو قبول کیا جائے گا اور ایسی قراء ت قطعی طور پر قرآن شمار ہوں گی۔ اور اگر قراء ت اخبارِ احادیث سے ثابت ہو، لیکن قراء کے درمیان وہ قراء ت معروف ہوجائے یہاں تک کہ اسے تلقی بالقبول حاصل ہو تو ایسی قراء ت کوبھی قبول کیا جائے گا اور قرآن شمار کیا جائے گا اور اگر قراء ت اخبار آحاد کے طریقے سے نقل ہو، لیکن وہ قراء میں معروف نہ ہو یا اسے تلقی بالقبول حاصل نہ ہو تو ایسی قراء ت کو رد کردیا جائے گا اور اس پر شذوذ کا حکم لگایا جائے گا اور اسے بطورِ قرآن نہیں پڑھا جائے گا۔اس قسم کا قول متجددین میں سے ایک ایسے شخص کا بھی ہے جو اپنے آپ کو فکر ِاسلامی کا نمائندہ تصور کرتا ہے اس شخص کا کہناہے کہ قرآن کا متن ہم تک محفوظ طریقے سے پہنچا ہے، لیکن اس کی قراء ات میں اختلاف ہے۔ گویا کہ اس کے نزدیک قرآن کا متن محفوظ ہے، جبکہ قراء ات قرآن کے علاوہ کوئی غیر محفوظ چیزہیں۔
پس فکر ِاصلاحی کے نمائندے کا یہ دعویٰ کہ قرآن اور قراء ات دو علیحدہ چیزیں ہیں، ایک محفوظ اور دوسری غیر محفوظ ہے، ایک ایسا دعویٰ ہے کہ جس کی کوئی دلیل ان کے پاس موجود نہیں ہے اور نہ ہی علمائے قراء ات میں سے کسی سے قراء ات کی یہ تقسیم منقول ہے۔ (بلکہ علمائے قراء ات کی تقسیم وہ ہے جو اوپر بیان ہوچکی ہے)