ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
قراء ات قرآنیہ کی اَساس…تلقّی وسماع
قاری صہیب احمد میر محمدی
ہم قراء ات سبعہ وعشرہ متواترہ کی نشاۃ و تدوین کو دو مرحلوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:۱ مرحلہ اولیٰ: اس بحث پر مشتمل ہے کہ ان قراء ات کا اصل مصدر تلقی وسماع عن النبی ہے۔
۲ مرحلہ ثانیہ: یہ تدوین قراء ات کے بارے میں علی الاختصار بحث پر مشتمل ہے۔
(١) مرحلہ اولیٰ:قراء اتِ سبعہ وعشرہ جو ثبوت میں تواترکا درجہ رکھتی ہیں ان میں اصل مصدر سماع عن النبی ہے۔قرآن کریم کی پہلی وحی ’’إقْرَأ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ۔خَلَقَ الِانْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ۔ اِقْرَأ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ۔ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ۔ عَلَّمَ الِانْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ‘‘(العلق:۱تا۵)کے الفاظ سے ہے۔ اور آخری وحی راجح قول کے مطابق ’’وَاتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْہِ اِلَی اﷲِ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَا کَسَبَتْ وَہُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ‘‘ ہے۔(البقرۃ:۲۸۱)
ابتدائے وحی کے متصل بعد سب سے بڑی چیز جس کا حکم ہوا وہ’’ قُرْاٰنًا فَرَقْنَاہُ لِتَقْرَاٰہُ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُکْثٍ وَّنَزَّلْنَاہُ تَنْزِیْلًا‘‘(الاسراء: ۱۰۶)کے الفاظ میں موجودہے ۔چنانچہ اسی حکم کی تعمیل کرتے ہوئے آپﷺنے صحابہ کو وحی کے مطابق ایک کامل واَکمل طریقہ پرکتاب وحکمت کی تعلیم دی۔جس طرح آپﷺصحابہ کو قرآن کی تعلیم دیتے تھے، خود بھی اس کے ضبط کرنے میں بڑے حریص تھے۔