ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
اسی طرح امام بخاری اپنی صحیح بخاری، جلد نمبر ۲ ص ۷۴۷ پر حدیث نمبر ۴۹۹۲ اور ۵۰۴۱ میں، امام مسلم حدیث نمبر ۸۱۸ میں، اسی طرح امام مالک، ابوداؤد،نسائی ،ترمذی نے بھی اس کو روایت کیا ہے۔ابن الاثیر نے جامع الاصول جلد نمبر ۲ ص ۴۷۹ پراس چیزکی صراحت کی ہے کہ اس حدیث کو تواتر کادرجہ حاصل ہے، نیز علامہ خطابی نے نظم المتناثر فی الحدیث المتواتر کے ص ۱۱۱ پرتواتر کی تصریح کی ہے اوروہ حدیث یہ ہے:
عن عمر بن الخطاب سمعت ہشام بن حکیم یقرأ سورۃ الفرقان فی حیاۃ رسول اﷲﷺ فاستمعت لقرأتہ فإذا ہو یقرأ علی حروف کثیرۃ لم یقرأنیہا رسول اﷲﷺ فکدت أساورہ فی الصلوۃ فتصبرت حتی سلّم فلببتہ برداء ہ فقلت من أقرأ ک ہذہ السورۃ التی سمعتـک تقـرأہا قال اقرأنیہا رسول اﷲﷺ فقلت کـذبت فإن رسول اﷲﷺ قد اقرأنیہا علی غیر ما قراء ت فانطلقت بہ أقودہ إلی رسول اﷲﷺ فقلت یا رسول اﷲﷺ إنی سمعت ہذا یقرأ سورۃ الفرقان علی حروف لم تقرأ نیہا فقال رسول اﷲﷺ اقرأ یا ہشام فقرأ علیہ القراء ۃ التی کنت سمعتہ یقرأ فقال رسول اﷲﷺ ہکذا أنزلت ثم قال النبی اقرأ یا عمر فقرأت قراء ۃ التی اقرأنی فقال رسول اﷲﷺ ہکذا أنزلت إن ہذا القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف فاقرؤا ما تیسرمنہ‘‘
یہ حدیث اس چیز کی واضح اور صریح دلیل ہے کہ قراء ات تلقی وسماع پر مبنی ہیں ،کیونکہ آپﷺنے خود صحابہ کرامکو سکھلائیں۔اسی لیے دونوں صحابہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں رسول اللہﷺنے پڑھایا ہے۔
اورسب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ آپﷺکا بذات خود اقرار کرنا کہ ہاں ایسے ہی نازل ہوا ہے۔ اگر اپنے پاس سے ہوتا تو کبھی ہکذا أنزلت نہ کہتے۔اس حدیث میں لفظ الاقراء کا تکرار اس بات کا بین ثبوت ہے کہ قراء ت توقیف ،تلقین ،تلقی ،اخذ،مشافہہ ، نقل ،سماع عن رسو ل اﷲﷺ پر مبنی ہیں۔ اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمرنے حضرت ہشام کی قراء ت کا انکار اس لئے نہیں کیا تھا کہ ان کی لغت میں نہیں تھابلکہ اس لئے کیا تھاکہ انہوں نے اس کے خلاف سنا تھا جوانہوں نے خود رسالت مآبﷺسے سیکھا تھا۔
عن عمر بن الخطاب سمعت ہشام بن حکیم یقرأ سورۃ الفرقان فی حیاۃ رسول اﷲﷺ فاستمعت لقرأتہ فإذا ہو یقرأ علی حروف کثیرۃ لم یقرأنیہا رسول اﷲﷺ فکدت أساورہ فی الصلوۃ فتصبرت حتی سلّم فلببتہ برداء ہ فقلت من أقرأ ک ہذہ السورۃ التی سمعتـک تقـرأہا قال اقرأنیہا رسول اﷲﷺ فقلت کـذبت فإن رسول اﷲﷺ قد اقرأنیہا علی غیر ما قراء ت فانطلقت بہ أقودہ إلی رسول اﷲﷺ فقلت یا رسول اﷲﷺ إنی سمعت ہذا یقرأ سورۃ الفرقان علی حروف لم تقرأ نیہا فقال رسول اﷲﷺ اقرأ یا ہشام فقرأ علیہ القراء ۃ التی کنت سمعتہ یقرأ فقال رسول اﷲﷺ ہکذا أنزلت ثم قال النبی اقرأ یا عمر فقرأت قراء ۃ التی اقرأنی فقال رسول اﷲﷺ ہکذا أنزلت إن ہذا القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف فاقرؤا ما تیسرمنہ‘‘
یہ حدیث اس چیز کی واضح اور صریح دلیل ہے کہ قراء ات تلقی وسماع پر مبنی ہیں ،کیونکہ آپﷺنے خود صحابہ کرامکو سکھلائیں۔اسی لیے دونوں صحابہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں رسول اللہﷺنے پڑھایا ہے۔
اورسب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ آپﷺکا بذات خود اقرار کرنا کہ ہاں ایسے ہی نازل ہوا ہے۔ اگر اپنے پاس سے ہوتا تو کبھی ہکذا أنزلت نہ کہتے۔اس حدیث میں لفظ الاقراء کا تکرار اس بات کا بین ثبوت ہے کہ قراء ت توقیف ،تلقین ،تلقی ،اخذ،مشافہہ ، نقل ،سماع عن رسو ل اﷲﷺ پر مبنی ہیں۔ اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمرنے حضرت ہشام کی قراء ت کا انکار اس لئے نہیں کیا تھا کہ ان کی لغت میں نہیں تھابلکہ اس لئے کیا تھاکہ انہوں نے اس کے خلاف سنا تھا جوانہوں نے خود رسالت مآبﷺسے سیکھا تھا۔