• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قران مجید کی موجودہ ترتیب

شمولیت
اگست 28، 2013
پیغامات
162
ری ایکشن اسکور
119
پوائنٹ
75
قران مجید کی موجودہ ترتیب کے صحیح ہونے کی دلیل ۔صحیح احادیث کی روشنی میں جواب دیں
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
اگر آپ کو
مسلمانوں کے اس متفقہ دعویٰ (اجماع امت ) پر
شک ہے کہ قرآن مجید کی موجودہ ترتیب ”صحیح“ نہیں ہے۔ تو یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ اپنے اس شک کو دلائل و اسناد سے ثابت کریں۔ ویسے ”صحیح“ ہونے سے آپ کی کیا مراد ہے؟ یہ تو سب ہی جانتے اور مانتے ہیں کہ قرآن مجید کی ”ترتیب نزولی“ کچھ اور تھی۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے دور میں
“موجودہ ترتیب“ کے مطابق مدون اور حفظ کرلیا گیا تھا ۔

ویسے آپ کی ”اطلاع“ کے لئے عرض ہے کہ قرآن مجید ”تحریری صحیفہ“ کی صورت میں آسمان سے نہیں اترا تھا بلکہ اسے جبرئیل علیہ السلام ”زبانی“ نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم کو سنا یا کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے ”یاد“ کرکے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ کو سنایا اور یاد کروایا کرتے تھے۔ اور یہ بھی بتلادیا کرتے تھے کہ معینہ وقت میں نازل شدہ آیات کو کن آیات کے آگے پیچھے درج کیا جائے۔ پھر ہر رمضان المبارک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک نازل شدہ آیات ربانی کو (موجودہ ترتیب کے مطابق) حضرت جبرئیل علیہ السلام کو سنایا کرتے تھے اور آخری رمضان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ پورے قرآن مجید کو اسی ترتیب کے ساتھ منہ زبانی سنایا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ متعدد صحابہ کرام رضی الہ تعالیٰ بھی قرآن مجید کو اسی (موجودہ) ترتیب کے ساتھ زبانی یاد کرلیا کرتے تھے۔ گویا قرآن مجید حضرت جبرئیل علیہ السلام سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم تک سینہ بہ سینہ ”منتقل“ ہوا۔ اور یہی سلسلہ تب سے آج تک کے حفاظ کرام تک جاری ہے۔ قرآن مجید کی سینہ بہ سینہ ”منتقلی“ میں کبھی کوئی وقفہ نہیں آیا۔ اور یہی قرآن کا اعجاز بھی ہے کہ یہ تب سے اب تک اسی ترتیب کے ساتھ ہزاروں لاکھوں حفاظ کے ذریعہ اگلی نسل کو منتقل ہوتا رہا۔

”تحریری قرآنی مصحف“ آسمان سے نازل نہیں ہوا۔ نہ ہی اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ”تحریر“ کیا۔ اور نہ ہی صحابہ کرام کے ”لکھے“ ہوئے قرآن کو بذات خود ”پڑھا“ کہ آپ لکھے پڑھے نہیں تھے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے دور میں نازل شدہ قرآنی آیات کو
مختلف میڈیم میں
تحریر کرلیا جاتا۔ اور یہ تحریر شدہ نسخہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا کر اس کی تصدیق کرلی جاتی۔ لیکن ”اصل قرآن“ دور رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر دور عثمانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک ”حفاظ کے سینوں“ میں ہی یکساں طور پر محفوظ رہا حتی کہ حفاظ کرام کی شہادتوں کے تسلسل کے باعث حضرت عثمان غنی کے دور میں جلیل القدر صحابہ کی نگرانی میں”صحیفہ عثمانی“ مرتب کیا گیا جس کے مختلف نسخے دنیا بھر کے مختلف مراکز میں بھیجے گئے۔ صحیفہ عثمانی کے دو یا تین نسخے آج بھی محفوظ ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب
 
شمولیت
اگست 28، 2013
پیغامات
162
ری ایکشن اسکور
119
پوائنٹ
75
اگر آپ کو
مسلمانوں کے اس متفقہ دعویٰ (اجماع امت ) پر
شک ہے کہ قرآن مجید کی موجودہ ترتیب ”صحیح“ نہیں ہے۔ تو یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ اپنے اس شک کو دلائل و اسناد سے ثابت کریں۔ ویسے ”صحیح“ ہونے سے آپ کی کیا مراد ہے؟ یہ تو سب ہی جانتے اور مانتے ہیں کہ قرآن مجید کی ”ترتیب نزولی“ کچھ اور تھی۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے دور میں
“موجودہ ترتیب“ کے مطابق مدون اور حفظ کرلیا گیا تھا ۔

ویسے آپ کی ”اطلاع“ کے لئے عرض ہے کہ قرآن مجید ”تحریری صحیفہ“ کی صورت میں آسمان سے نہیں اترا تھا بلکہ اسے جبرئیل علیہ السلام ”زبانی“ نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم کو سنا یا کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے ”یاد“ کرکے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ کو سنایا اور یاد کروایا کرتے تھے۔ اور یہ بھی بتلادیا کرتے تھے کہ معینہ وقت میں نازل شدہ آیات کو کن آیات کے آگے پیچھے درج کیا جائے۔ پھر ہر رمضان المبارک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک نازل شدہ آیات ربانی کو (موجودہ ترتیب کے مطابق) حضرت جبرئیل علیہ السلام کو سنایا کرتے تھے اور آخری رمضان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ پورے قرآن مجید کو اسی ترتیب کے ساتھ منہ زبانی سنایا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ متعدد صحابہ کرام رضی الہ تعالیٰ بھی قرآن مجید کو اسی (موجودہ) ترتیب کے ساتھ زبانی یاد کرلیا کرتے تھے۔ گویا قرآن مجید حضرت جبرئیل علیہ السلام سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم تک سینہ بہ سینہ ”منتقل“ ہوا۔ اور یہی سلسلہ تب سے آج تک کے حفاظ کرام تک جاری ہے۔ قرآن مجید کی سینہ بہ سینہ ”منتقلی“ میں کبھی کوئی وقفہ نہیں آیا۔ اور یہی قرآن کا اعجاز بھی ہے کہ یہ تب سے اب تک اسی ترتیب کے ساتھ ہزاروں لاکھوں حفاظ کے ذریعہ اگلی نسل کو منتقل ہوتا رہا۔

”تحریری قرآنی مصحف“ آسمان سے نازل نہیں ہوا۔ نہ ہی اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ”تحریر“ کیا۔ اور نہ ہی صحابہ کرام کے ”لکھے“ ہوئے قرآن کو بذات خود ”پڑھا“ کہ آپ لکھے پڑھے نہیں تھے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے دور میں نازل شدہ قرآنی آیات کو
مختلف میڈیم میں
تحریر کرلیا جاتا۔ اور یہ تحریر شدہ نسخہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا کر اس کی تصدیق کرلی جاتی۔ لیکن ”اصل قرآن“ دور رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر دور عثمانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک ”حفاظ کے سینوں“ میں ہی یکساں طور پر محفوظ رہا حتی کہ حفاظ کرام کی شہادتوں کے تسلسل کے باعث حضرت عثمان غنی کے دور میں جلیل القدر صحابہ کی نگرانی میں”صحیفہ عثمانی“ مرتب کیا گیا جس کے مختلف نسخے دنیا بھر کے مختلف مراکز میں بھیجے گئے۔ صحیفہ عثمانی کے دو یا تین نسخے آج بھی محفوظ ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب
اسلام علیکم بھائ مجھے وللہ اس تدوین میں کوی شک نہیں لیکن بعض شیعہ کا اعتراض ہے کہ قران مکمل نہیں یا کہ ترتیب میں ہیر پھیر ہیں اسی وجہ سے یہ سوال یہاں پوسٹ کیا گیا۔
 
شمولیت
اگست 28، 2013
پیغامات
162
ری ایکشن اسکور
119
پوائنٹ
75
اپ نے کہا کہ نبی علیہ السلام کے قول کے مطابق اسے جمع اور مدون کیا گیا ۔۔اسی بات کی دلیل چاہیے۔۔والسلام
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
اسلام علیکم بھائ مجھے وللہ اس تدوین میں کوی شک نہیں لیکن بعض شیعہ کا اعتراض ہے کہ قران مکمل نہیں یا کہ ترتیب میں ہیر پھیر ہیں اسی وجہ سے یہ سوال یہاں پوسٹ کیا گیا۔
وعلیکم السلام برادر!
میرا خیال ہے کہ آپ قرآن کے بارے میں شیعہ ”اعتراضات“ کا جواب نہیں دے سکتے۔ وہ صحاح ستہ سیت ان تمام حدیثوں کے ذخائر کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتے، جس پر اجماع امت ہے۔ ان کے اپنے احادیث کے چار مجموعے ہیں، جن میں سر فہرست ”اصول کافی“ ہے۔ آپ جب تک ”مکمل شیعیت“ اور ”مکمل اسلام“ کو نہیں جان لیتے، اس وقت تک آپ کسی شیعہ سے مناظرہ نہیں کرسکتے۔ لہٰذا میرا تو مشورہ ہوگا کہ آپ ایسے مباحث سے دور ہی رہیں اور خود کو قرآن اور صحیح احادیث کا علم حاصل کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے تک محدود رکھیں۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
اپ نے کہا کہ نبی علیہ السلام کے قول کے مطابق اسے جمع اور مدون کیا گیا ۔۔اسی بات کی دلیل چاہیے۔۔والسلام
اس بات کی دلیل صحابہ کرام کا ”حفظ قرآن“ تھا۔ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ”حافظ قرآن“ نہیں تھے؟ اگر تھے تو انہوں نے قرآن کو ”کس ترتیب سے حفظ“ کیا ہوا تھا۔ ترتیب نزولی کے مطابق؟ یا شیعہ کے مبینہ ترتیب کے مطابق؟ یا
موجودہ ترتیب کے مطابق؟ ظاہر سی بات ہے کہ صحابہ کرام سے ہی تابعین اور تب تابعین اور بالتریب نسل در نسل مسلمانوں نے قرآن حفظ کیا تھا۔ اسلامی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ حفاظ کے کسی ایک گروہ نے حفاظ کے کسی دوسرے گروہ کے ”حفظ کردہ قرآن‘ یا اس کی ترتیب پر اعتراض کیا ہو۔ ویسے آپ کی دلچسپی کے لئے بتلادوں کہ شیعہ برادی میں آج تک کوئی ”حافظ قرآن“ نہیں ہوا۔ ان کے کسی بھی بڑے سے بڑے عالم دین یا علامہ کو الحمد سے والناس تک مکمل قرآن حفظ نہیں ہے اور نہ کبھی تھا۔ چند ایک واقعات ایسے ضرور ملتے ہین جب انہوں نے اپنے کسی فرد کو قرآن حفظ کروایا اور سامنے لے کر آئے کہ ان سے سنئے، انہیں مکمل قرآن یاد ہے۔ لیکن جب ان سے قرآن سنا گیا تو وہ اسے مکمل نہ سنا سکے یا بھول گئے یا بھلا دئے گئے ۔ جبکہ مسلم امت میں تو لاکھوں حفاظ قرآن موجود ہیں جو ہر رمضان کی تراویح میں قرآن سنایا کرتے ہیں۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
قرآن کی موجودہ ترتیب کے صحیح ہونے کی دلیل وہی ہے جو خود قرآن کے صحیح ہونے کی دلیل ہے۔ اہل تشیع سے الزاما پوچھا جانا چاہئے کہ ان کے نزدیک قرآن کے صحیح ہونے کی دلیل کیا ہے؟
ہمارے نزدیک تو قرآن اجماع سے بھی ثابت ہے، اور متواتر اسناد سے بھی ثابت ہے۔ جیسے حدیث کی سند ہوتی ہے۔ ایسے قرآن کی متواتر اسناد موجود ہیں۔ لہٰذا موجودہ مصاحف بھی اور مصاحف کو کیسے پڑھا جائے ، یہ بھی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک یقینی و قطعی اسناد سے ثابت ہے۔یعنی توواتر عملی سے بھی اور خبر سے بھی اہل سنت کے نزدیک قرآن ثابت ہوتا ہے۔
اور انہی دونوں ذریعوں سے قرآن کی ترتیب بھی ثابت ہوتی ہے۔
اہل تشیع نہ تو تواتر عملی سے قرآن کی کوئی مختلف ترتیب ثابت کر سکتے ہیں اور نہ متواتر اخبار سے۔
لہٰذا بنیادی سوال وہی کہ :
ہمارے نزدیک جو دلیل قرآن کے صحیح ہونے کی ہے وہی دلیل اس میں موجود سورتوں کے صحیح ہونے کی بھی ہے۔ اہل تشیع کے نزدیک قرآن کے صحیح ہونے یا قرآن کے ثبوت کی دلیل کیا ہے؟
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
ویسے آپ کی دلچسپی کے لئے بتلادوں کہ شیعہ برادی میں آج تک کوئی ”حافظ قرآن“ نہیں ہوا۔ ان کے کسی بھی بڑے سے بڑے عالم دین یا علامہ کو الحمد سے والناس تک مکمل قرآن حفظ نہیں ہے اور نہ کبھی تھا۔ چند ایک واقعات ایسے ضرور ملتے ہین جب انہوں نے اپنے کسی فرد کو قرآن حفظ کروایا اور سامنے لے کر آئے کہ ان سے سنئے، انہیں مکمل قرآن یاد ہے۔ لیکن جب ان سے قرآن سنا گیا تو وہ اسے مکمل نہ سنا سکے یا بھول گئے یا بھلا دئے گئے ۔ جبکہ مسلم امت میں تو لاکھوں حفاظ قرآن موجود ہیں جو ہر رمضان کی تراویح میں قرآن سنایا کرتے ہیں۔
یہ فقط عوام میں پھیلی ہوئی یا پھیلائی ہوئی بات ہے۔ جس کا حقیقت سے دور تک کوئی تعلق نہیں۔ جس شخص کا اہل تشیع سے ذرا بھی قریب کا واسطہ ہوگا وہ انصاف سے اس الزام کی نفی ہی کرے گا۔
اہل تشیع کے گھناؤنے عقائد کے ہوتے ہوئے ان پر ایک کمزور الزام لگانے کی کوئی خاص ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
ہمیں بچپن میں ہمارے دیوبندی استاد نے بتایا تھا اور پھر کئی دیگر لوگوں سے بھی سنا تھا کہ اہل تشیع کا عقیدہ ہے کہ قرآن کے دس پارے بکری کھا گئی ہے۔ بعد میں یہ روایت کبھی شیعہ کے حق میں ثابت نہ ہو سکی۔ بلکہ اس کے عین برعکس اہل سنت کی کتب میں اس سے ملتی جلتی ایک روایت موجود ہے۔ جس کا مناسب جواب بھی علمائے کرام دے چکے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ غلط یا کمزور الزامات کی تبلیغ کرنے سے خود ہماری ہی کمزوری ثابت ہوتی ہے۔ اس سے گریز کرنا چاہئے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
محدث میگزین کا ایک مضمون یہاں نقل کر رہا ہوں ایک اچھی کاوش ہے


اللہ تعالیٰ کا یہ قاعدہ اور دستور ہے کہ وہ قوموں کو خوابِ غفلت سے جگانے اور خلافت سے متعلق اپنے فرائض و واجبات انجام دینے سے متعلق ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے کے لیے اُنہیں طرح طرح کی زمینی اور آسمانی آزمائشوں سے دوچار کرتا ہے تاکہ اس کے بندے خوابِ غفلت سے جاگیں اور اپنی حقیقت اور اصلیت کو جان سکیں ۔
اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ بعض اوقات دوسری قوموں اور دوسری حکومتوں کوبھی اپنے بندوں پر مسلط کردیتا ہے جو ان کا مار مار کر بُرا حال کردیتی ہیں اور اُنہیں خوابِ غفلت سے جگانے کے لیے سخت ترین آزمائشوں سے گزارتی ہیں ۔
قرآنِ کریم نے اپنے اسی قاعدے کا سورۂ بنی اسرائیل میں ذکر کیا ہے ۔ جہاں بنی اسرائیل پر، جو اسلام سے پہلے اللہ تعالیٰ کی محبوب قوم تھی اور جسے اس نے سارے جہانوں پر فضیلت اور فوقیت عطا فرمائی تھی۔ 1دو مرتبہ دوسری قوموں کو مسلط کرنے کا ذکر کیا ہے۔2
چنانچہ مفسرین کے مطابق پہلی مرتبہ اللہ تعالیٰ نے ان پر 'بخت ِنصر' کو مسلط کیا اور دوسری بار طیطس رومی کو ان پر حکومت اور حاکمیت عطا فرما دی۔3
اِن دونوں حکمرانوں نے ان کاقتل عام بھی کیا اور اُنہیں ہزاروں کی تعداد میں قید و بند سے بھی گزارا اور ان کی بستیوں اور ان کے شہروں کو بھی تباہ و برباد کیا۔

مسلمانوں کے ساتھ بھی گذشتہ چند صدیوں سے ایسا ہی معاملہ کیا جارہا ہے۔ ایک وقت ایسا تھا کہ مشرق سے لے کر مغرب تک دنیا کے اکثر ممالک یا تو مسلمانوں کے ماتحت، یا ان کے باج گزار تھے یا ان سے ڈرتے اور دَبتے تھے، مگر پھر وقت بدلا اور تمام اسلامی ملکوں پر مغربی ملکوں کی حکومت اور حاکمیت قائم ہوگئی۔ اور 'ترکی' ودیگر چند ممالک کے سوا کوئی ملک ایسانہ تھا جس نے ان ظالم و جابر غیر ملکی حکمرانوں کی محکومی کا مزہ نہ چکھا ہو۔ اب پھر صور ت حال بدل چکی ہے اور بظاہر اسلامی ممالک غیر ملکی تسلط سے آزاد ہوچکے ہیں ، لیکن ان پر عملاً ابھی تک انہی کا راج اور انہی کی حکمرانی ہے اور وہ ان پر قبضہ کئے بغیر محض اپنی عیاری اور مکاری کے بل بوتے پر اُنہیں اپنی لاٹھی سے ہانک رہے ہیں ، لیکن افسوس اور دُکھ کی بات یہ ہے کہ حالات کی دگرگونی کے باوجود مسلمان خوابِ غفلت سے جاگنے کے لیے تیارنہیں ہیں ۔

علمی ایوانوں کی حاکمیت
اس کے ساتھ ساتھ نہایت تکلیف دہ اور نہایت اذیت ناک پہلو یہ ہے کہ 'علمی ایوانوں ' پر بھی مغربی اہل علم کی حکومت اور حاکمیت کا سلسلہ چل رہا ہے اور مسلمان محض ان کی طرف سے پیش کی جانے والی تحقیقات اور ان کی طرف سے آنے والے نظریات کی جگالی ہی کو بڑے فخر اور مسرت کی بات سمجھ رہے ہیں ۔ پھرجس طرح ایک سچے مسلمان کے لیے ان کی سیاسی بالادستی انتہائی اَذیت کا باعث ہے، اسی طرح ان کی علمی برتری اور بالادستی بھی اہل علم و فضل کے لیے نہایت تکلیف اور اذیت کا سبب ہے۔

مغربی اہل دانش نے جب 'کاغذ اور قلم' کے ایوانوں پراپنی سیادت کا جھنڈا لہرایا اور علم اور سائنس کے شعبوں پراپنی بالادستی قائم کی ، تو اُنہوں نے سیاسی حکومتوں کو مدد پہنچانے اور مسلمانوں کوسیاسی میدان میں دبانے کے بعد علمی اور فکری میدان میں بھی انہیں نیچا دکھانے کے لیے چند ایسے عنوانات منتخب کئے، جن پر مختلف اَدوار میں آنے والے لوگ پہلوں ہی کی جگالی کرتے اور مسلمانوں کو علمی اور فکری پہلو سے تکلیف اور اذیت پہنچانے کی کوشش کرتے رہے ہیں ۔

ایسے شعبوں یا میدانوں میں ، جنہیں اُنہوں نے مسلمانوں کے خلاف منتخب کیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے بعد 'قرآنِ کریم' کے مسائل و موضوعات سرفہرست ہیں ۔ لیکن چونکہ قرآن کریم اپنے ہر پہلو سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک کامل و مکمل معجزہ ہے اور یہ اپنی تدوین سے لے کر اپنی تلاوت اور اپنی قراء ت تک،ہر موضوع میں ایک ایسے محفوظ و مصئون قلعے کی طرح ہے، جس میں نہ تو نقب لگائی جاسکتی ہے اورنہ ہی اس کی دیوار کو عبور کیاجاسکتا ہے۔اسی لیے اُنہوں نے قرآنِ کریم کے متعلق ایسے موضوعات کاانتخاب کیا، جوبظاہر مسلمانوں کے نزدیک اہم نہیں ہیں ، لیکن یہ لوگ انہی موضوعات اور انہی مسائل پر گفتگو اور بحث و تحقیق کے ذریعے کمزور عقیدہ اور کمزور ایمان رکھنے والے مسلمانوں کے دلوں میں قرآنِ کریم کے متعلق شکوک و شبہات کی تخم ریزی کررہے ہیں ۔ وہ ایک چھوٹی سی بات کو پہاڑ بنا کر دکھاتے ہیں اور جو بات اُنہیں سمجھ میں نہ آئے، اس کوبہت بڑا اعتراض بناکر پیش کرتے ہیں ۔

اس سلسلے میں مستشرقین کی طرف سے قرآنِ کریم کے حوالے سے جو پہلو سب سے زیادہ اُچھالا گیا اور جس پران کے بڑے بڑے محققین نے شیطان کی طرح اپنی پوری پوری زندگیاں لگا دیں ، ان میں قرآنِ کریم کی ترتیب نزولی کا مسئلہ سب سے نمایاں ہے۔

قرآن کریم کی ترتیب ِ نزول اور تلاوت کا مسئلہ
اس سے قبل کہ ہم مستشرقین کے اس حوالے سے اعتراضات اور اشکالات کا جائزہ لیں ، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی 'ترتیب ِتلاوت' کے مسئلے کاجائزہ لے لیا جائے کہ اسلام میں اس کی کیا اہمیت ہے۔

اس بات پر تمام علما اور محققین کا اتفاق ہے کہ قرآن کریم کی موجودہ ترتیب 'توقیفی' یعنی 'من جانب اللہ' ہے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ترتیب جبریل علیہ السلام نے اور جبریل علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے سکھلائی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسی ترتیب کے مطابق قرآنِ کریم کی کتابت کراتے اور تلاوت فرماتے تھے اور اسی ترتیب کے مطابق جبریل علیہ السلام سے ہرسال رمضان المبارک میں قرآنِ کریم کادور فرماتے تھے۔ 4

علاوہ ازیں صحیح روایات سے ثابت ہے کہ قرآنِ کریم کی اوّلین تدوین خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارک میں ہوئی، چنانچہ امام سیوطی نے معروف محدث الحاکم سے نقل کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں :
''قرآنِ کریم کی جمع و تدوین تین مرتبہ ہوئی"


خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ہوئی۔ پھر اُنہوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے شیخین کی شرط پر یہ حدیث تخریج کی ہے کہ سیدنا زید بن ثابتؓفرماتے ہیں : ''ہم لوگ قرآن کریم کو تختیوں (الرقاع) وغیرہ سے اکٹھا کیاکرتے تھے۔'' امام بیہقی کہتے ہیں کہ یہاں شاید جمع و تدوین سے مراد مختلف آیات کی سورتوں کے اندر جمع و تدوین ہے۔ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اور نبی اکرمؐ کی حیاتِ طیبہ میں مکمل ہوگئی تھی۔'' 5

حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں دوسری جمع و تدوین ہوئی، جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت زید بن ثابت سے مروی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ نے اہل یمامہ کے قتل کے موقع پر مجھے بلابھیجا۔ میں نے دیکھا کہ وہاں حضرت عمرؓ بھی موجود ہیں ، حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا:
''جنگ ِیمامہ میں بہت سے قرائے قرآن شہید ہوگئے ہیں اور مجھے اندیشہ ہے کہ اگر دوسری جنگوں میں بھی قرائے کرام اسی طرح شہید ہوتے رہے تو کہیں قرآنِ کریم کاکچھ حصہ ضائع نہ ہوجائے۔ لہٰذا میری رائے یہ ہے کہ آپ قرآنِ کریم کومرتب اور مدوّن کردیں ۔ میں نے عمرؓ سے کہا کہ تم مجھے ایسے کام کامشورہ کیوں دے رہے ہو جو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا۔ حضرت عمرؓ نے کہا: بخدا اس میں خیر اور بھلائی ہے، پھر وہ اپنی بات کو دہراتے رہے تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے میرے دل کو بھی کھول دیا اور مجھے بھی وہی رائے بہتر نظر آنے لگی جو حضرت عمرؓ کی رائے تھی... آخر تک
چنانچہ حضرت زیدؓ نے قرآنِ کریم کی آیات اور سورتوں کو مختلف لوگوں سے لے جمع کیااور یہ نسخہ حضرت ابوبکرؓ کے پاس رہا، ان کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ کے پاس اور حضرت عمرؓ کی وفات کے بعد، حضرت حفصہؓ کے پاس رہا۔'' 6
اور تیسری مرتبہ حضرت عثمانؓ کے زمانے میں قرآن کے اسی سابقہ نسخے سے متعدد نسخوں کی تدوین عمل میں آئی۔''

اس تفصیلی روایت سے واضح ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ نے قرآنِ کریم کو اسی ترتیب وتنسیق کے مطابق جمع کیا تھا جس ترتیب کی نشاندہی خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانۂ مبارک میں قرآن کریم، قرآن کریم کی سورتوں اور ان کی مختلف آیات کے مابین فرمائی تھی اور اسی کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرامؓ اور حفاظ و قراے قرآن، نماز میں اور دوسرے مواقع پر قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے تھے۔

(ب) قرآن کریم کی موجودہ ترتیب کا توقیفی ہونا
اس روایت اور دوسری روایات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی موجودہ ترتیب توقیفی ہے، یعنی اللہ کی طرف سے اُتری ہے۔ چنانچہ علامہ جلال الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ نے اس بات پر 'اجماعِ امت' اور کئی روایات نقل کی ہیں کہ قرآنِ کریم کی موجودہ ترتیب توقیفی ہے۔

جہاں تک اجماعِ اُمت کا تعلق ہے تو اسے امام زرکشی نے البُرہان میں ، امام جلال الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ نے الاتـقَان میں اور ابوجعفر بن الزبیر رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب مُناسَبات میں اسے نقل اور روایت کیاہے۔ ابو جعفر لکھتے ہیں :
''مختلف سورتوں میں آیات کی ترتیب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اطلاع دینے اور آپؐ کے حکم کے مطابق واقع ہوئی ہے اور اس بارے میں علماء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔'' 7

اس کی مزیدتائید مستند احادیث اور روایات سے بھی ہوتی ہے، چنانچہ مسند احمد اور سنن ابی داؤد اور سنن ترمذی وغیرہ میں عبداللہ بن عباسؓ سے یہ روایت مروی ہے، وہ فرماتے ہیں :
''میں نے حضرت عثمانؓ بن عفان سے پوچھا کہ آپ لوگوں نے کس طرح سورة الانفال کو جن کا تعلق مَثَاني(جن کی آیات100 سے کم ہیں ) سورة التوبہ کے ساتھ جن کا تعلق مِئین (۱۰۰ سے زیادہ آیات والی سورتوں ) میں ہوتاہے، جوڑ دیا اور ان کے درمیان آپ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کی سطر نہیں لکھی، اور آپ نے ان دونوں کو سبع طِوال میں رکھ دیا۔ حضرت عثمانؓ نے جواب دیا کہ دراصل جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر کئی کئی آیات والی سورتیں نازل ہوتیں تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم وہاں موجود کسی نہ کسی کاتب ِقرآن کو بلاتے اور فرماتے کہ ان آیات کو فلاں سورة میں ،جس میں یہ یہ آیات اور فلاں مضمون ہے ، رکھ دو۔ سورة الانفال مدینہ منورہ کے ابتدائی دور کی نازل شدہ سورة ہے اور سورة التوبہ قرآنِ کریم کی نزولی اعتبار سے آخری سورتوں میں سے ہے اور چونکہ دونوں کا مضمون ایک دوسرے سے ملتاجلتا ہے، لہٰذا میں نے یہ گمان کیا کہ یہ سورة اسی کا حصہ ہے مگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا اور آپؐ نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ یہ سورة اس کا حصہ ہے یانہیں ۔ اسی لیے میں نے دونوں سورتوں کو باہم ملا دیاہے، مگر دونوں کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی اور میں نے اسی گمان کے مطابق اسے سبع طوال میں رکھ دیا ہے۔'' 8

اِسی طرح کی ایک حدیث امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اپنی جامع صحیح میں حضرت عبداللہ بن زبیرؓ سے روایت کی ہے، وہ لکھتے ہیں :
''میں نے حضرت عثمان بن عفانؓ سے پوچھا: اے عثمان! قرآنِ کریم کی آیت {وَٱلَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُ‌ونَ أَزْوَ‌ٰجًا...﴿٢٣٤﴾...سورة البقرة}9کو دوسری آیت نے منسوخ کردیا ہے۔''10 پھر آپ نے اس (منسوخ شدہ) آیت کو قرآن کریم میں کیوں درج کیا اور اُسے چھوڑ کیوں نہ دیا؟ حضرت عثمانؓ نے کہا: بھتیجے میں کسی شے کو اپنی جگہ سے تبدیل نہیں کرسکتا۔''11

اس طرح صحیح مسلم میں مروی ہے کہ حضرت عمرفاروقؓ فرماتے ہیں :
''میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جتنا کلالہ کے بارے میں پوچھا، اتناکسی اور مسئلے کے متعلق نہیں پوچھا۔ یہاں تک کہ آپ نے میرے سینے پر اپنی انگلیاں ماریں اور فرمایا: اے عمر! تیرے لیے وہ آیت کافی ہے جوسورة النساء کے آخر میں ہے۔'' 12

ان واضح روایات کے ساتھ ساتھ اس طرح کے مضمون کی بیسیوں ایسی احادیث بھی مروی ہیں جن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق یہ ذکر ہے کہ آپؐ نے فلاں فلاں سورة تلاوت کی یا پھر مختلف سورتوں کی صبح و شام دوسرے مواقع پر تلاوت و قراء ت کی فضیلت بیان کی گئی ہے، یا مختلف سورتوں سے تعلق رکھنے والی، آیات کی تلاوت کاذکر ہے، یا مختلف سورتوں کی آیات کے مطابق طوالت یا ان کے چھوٹے ہونے کاتذکرہ کیا گیا ہے۔ جن سے واضح ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارک میں بھی قرآنِ کریم کی یہی ترتیب تھی، جو اس وقت ہمارے سامنے ہے اور جس ترتیب کے مطابق صحابہ کرامؓ نے قرآن کریم کی جمع و تدوین فرمائی۔ 13

چنانچہ نامور محقق قاضی ابوبکر رحمة اللہ علیہ اپنی کتاب الانتصار میں لکھتے ہیں :
''ترتیب الآیات أمر واجب وحکم لازم فقد کان جبریل یقول ضعوا آیة کذا في موضع کذا'' 14
''آیات کی ترتیب ایک ضروری معاملہ اورلازمی حکم ہے، چنانچہ حضرت جبریل علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اس آیت کو فلاں جگہ میں رکھ دو۔''

علامہ سیوطی رحمة اللہ علیہ نے انہی قاضی ابوبکر رحمة اللہ علیہ سے یہ الفاظ نقل کئے ہیں :
''ہمارا موقف یہ ہے کہ پورا قرآنِ کریم جسے اللہ تعالیٰ نے اُتارا ہے اور جس کو لکھنے کا اس نے حکم دیا ہے اور اس کے نزول کے بعد، جسے اُس نے نہ تو منسوخ کیااور نہ ہی اس کی تلاوت کو (دلوں سے) اُٹھایا ہے؛ یہ وہی قرآن ہے، جو اس وقت مجلد صورت میں ہے اور جس پرمصحف عثمانی مشتمل ہے اور اس میں نہ کبھی کسی شے کی کمی ہوئی، نہ اضافہ ہوا اور اس کی ترتیب و تنظیم بھی اس ترتیب کے مطابق ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اس کومنظم کیا تھا اور جس ترتیب کے مطابق اسے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورتوں کی آیات کومرتب کیاتھا۔ اس میں نہ تو کسی آیت کو اس کے صحیح مقام سے پہلے کیا گیا، نہ ہی اس کے مقام سے پیچھے کیاگیا اور اُمت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر سورة کی آیات کی ترتیب، ان کے مواقع و مقامات کو اس طرح محفوظ رکھا ہے جس طرح کہ اُمت نے قرآن کی قرات اور تلاوت کو محفوظ رکھا ہے۔'' 15

امام بغوی رحمة اللہ علیہ شرح السنة میں اسی مضمون کو یوں بیان کرتے ہیں :
''صحابہ کرامؓ نے اُسی قرآن کو جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا، بلا کسی اضافے اوربلاکسی کمی کے دو گتوں کے درمیان جمع کردیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اُسے اسی طرح لکھا جس طرح انہوں نے اُسے خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا۔ اس میں اُنہوں نے نہ تو کسی شے کو پہلے کیااور نہ پیچھے کیا۔ نہ اُنہوں نے کسی سورة کی ایسی ترتیب قائم کی جورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سورة کو عطا نہیں کی تھی اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرامؓ کو قرآنِ کریم اسی طرح پڑھایا اور سکھایاکرتے تھے جس ترتیب کے مطابق وہ آپؐ پر اترا اور جس ترتیب کے مطابق وہ اس وقت موجود ہے۔ اور یہ حضرت جبریل علیہ السلام کی طرف سے، اس ترتیب کے مطابق ہے، جو اُنہوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کوسکھائی اور آیت کے نزول کے وقت آپ کو بتلائی اور یہ بھی بتلایا کہ اس آیت کو فلاں آیت کے بعد اور فلاں سورة میں لکھا جائے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ صحابہ کرامؓ کی کوشش قرآن کریم کو ایک ہی مقام جگہ جمع کرنے کے بارے میں تھی، اس کو ترتیب دینے سے متعلق نہ تھی۔ اس لیے کہ قرآنِ کریم لوحِ محفوظ میں اسی ترتیب کے مطابق لکھاہوا ہے جس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے آسمانِ دنیاپرایک ہی مرتبہ اُسے اُتارا تھااور پھر حسب ِضرورت اور حسب ِموقع قرآن تھوڑاتھوڑا کرکے اُترتا اور ناز ل ہوتارہا، اور ترتیب ِنزولی، ترتیب ِتلاوت سے مختلف ہے۔''16

اسی طرح سورتوں کے مابین جوترتیب ہے، صحیح روایات اور فقہا کی اکثریت کے مطابق یہ بھی توقیفی ہے اور اس میں بھی کسی تبدیلی یاتقدیم و تاخیر کی اجازت نہیں ہے۔17 , 18

اس تفصیل سے واضح ہوا کہ قرآنِ کریم کی مکمل ترتیب جو آیات اور سورتوں کی باہمی ترتیب سے عبارت ہے، خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارک میں مکمل ہوگئی تھی اور صحابہ کرامؓ نے صرف قرآنِ کریم کو اسی ترتیب کے مطابق ایک نسخے میں جمع کیا اور پھر حضرت عثمانؓ کے زمانے میں دوسرے سارے رسوم الخط اور دوسری تمام لغات میں قرآنِ کریم کی تلاوت کو ممنوع قرار دے کر تمام مسلمانوں کو ایک ہی رسم الخط یعنی قریش کے لہجے پر جمع کردیا اور قرآنِ کریم اپنی اسی ترتیب اور اپنے اسی نظم کے مطابق موجود ہے اور اُسے اس کے مطابق پڑھا اور پڑھایا جارہا ہے اور تمام اُمت اس بات پر متفق ہے کہ اس ترتیب میں کسی قسم کی تبدیلی یا تقدیم و تاخیر کی قطعاً گنجائش نہیں ہے۔

(ج) ترتیب ِنزولی کی حیثیت
پھرچونکہ قرآن کریم کا نزول اللہ ربّ العزت کی طرف سے ہوا ہے، اوراسی نے تاقیامت اس کی حفاظت و صیانت کاپختہ وعدہ کیا ہے، اسی لیے اس نے قرآنِ کریم کے متعلق انہی باتوں کی حفاظت کااہتمام کیا، جن باتوں کی اُمت کو قرآن کریم کی تلاوت اور اس کی حفاظت کے لیے ضرورت پیش آسکتی تھی جبکہ ایسی باتیں جن کااس مقصد سے تعلق نہیں تھا، ان باتوں کو خود ہی لوگوں کے دلوں اور تاریخ کے اَوراق سے محو کردیا، تاکہ خوامخواہ کے مسئلے اور خوامخواہ کے فتنے پیدانہ ہوں ، جن میں ایک 'ترتیب ِنزولی' کا مسئلہ بھی ہے۔

چونکہ قرآنِ کریم کی 'ترتیب ِنزولی'کا مسئلہ اتنا اہم نہیں تھا، اسی لیے ترتیب ِنزولی کے متعلق ہمیں صرف چند ایک روایات اوروہ بھی چند آیتوں یا چند سورتوں سے متعلق ملتی ہیں جبکہ قرآنِ کریم کی باقی سورتوں کی ترتیب ِنزولی کا اثبات جن روایات کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، وہ دوسرے اور تیسرے درجہ کی روایات ہیں اوران میں سے اکثر ایسی ہیں جو 'نقد حدیث'کے معیار پر پورانہیں اُترتیں ۔

اس لیے قرآنِ کریم کو موجودہ ترتیب ِتلاوت کے علاوہ کسی اور طریقے پر نہ تو مرتب کرنادرست ہے اورنہ ہی اس ترتیب کے مطابق پڑھنا اور اس کی تلاوت کرنا صحیح ہے، جس کی حکمت یہی ہے کہ اس سے خوامخواہ کا انتشار پیدا ہوتا ہے، چنانچہ علامہ ابوبکر بن الانباری قرآن کریم کی موجودہ ترتیب کے متعلق فرماتے ہیں :
''چنانچہ سورتوں کی ترتیب آیات اور حروف کی ترتیب ہی کی طرح ہے اور یہ پوری کی پوری نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، لہٰذا جس نے کسی سورة کو مقدم کیا یا مؤخر کیا تو اس نے قرآنِ کریم کی تنظیم و ترتیب کو خراب کردیا۔''19

اسی طرح الکرمانی البرھان میں فرماتے ہیں :
''سورتوں کی ترتیب لوحِ محفوظ میں اسی ترتیب کے مطابق ہے، اور اسی ترتیب کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبریل علیہ السلام کو قرآن کریم ہر سال سنایا کرتے تھے اور جس سال آپ نے وفات پائی، اس سال آپؐ نے قرآنِ کریم دو مرتبہ جبریل علیہ السلام کو سنایا اور قرآنِ کریم کی سب سے آخری آیت جو نازل ہوئی وہ {وَٱتَّقُوا۟ يَوْمًا تُرْ‌جَعُونَ فِيهِ إِلَى ٱللَّهِ ۖ...﴿٢٨١...سورة البقرة} ہے۔20 جبریل ؑ نے فرمایا کہ اُسے آیت ِربا اور آیت دَین کے درمیان لکھ لو۔''21
لہٰذا قرآنِ کریم کو اسی ترتیب کے مطابق لکھنا، اسی کے مطابق تلاوت کرنا ضروری ہے۔ کسی اور ترتیب کے مطابق اُسے مرتب کرنا جائز نہںُ ہے۔ اسی حکمت اور مصلحت کے تحت ترتیب نزولی سے متعلقہ روایات بہت کم تعداد میں محفوظ ہیں ۔

مستشرقین یورپ کی ترکتازیاں
لیکن چونکہ مستشرقین یورپ نے جن میں سے اکثریت کا تعلق یہودیوں اور عیسائیوں کی مذہبی یا سیاسی جماعتوں یا گروہوں سے ہے، قرآن کریم اور ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض برائے اعتراض کرنے کا عہد کررکھا ہے، لہٰذااُنہوں نے قرآنِ کریم کی موجودہ ترتیب کو صحابہ کرامؓ کی کوشش اور سعی قرار دیتے ہوئے اس پر کئی طرح کے اعتراضات کئے ہیں اور قرآن کریم کی موجودہ ترتیب کی جگہ اپنے پاس سے، اور محض چند کمزور روایات پر یا اپنی ناقص اور کمزور عقل و دانش پر مدار رکھتے ہوئے، قرآنِ کریم کی نئی ترتیب دینے کی کوشش کی ہے اور بزعم خویش اس طرح اُنہوں نے قرآنِ کریم کی خدمت کرنے کا جھوٹا اور باطل دعویٰ کیا ہے۔

اس پر صرف یہ تبصرہ کیا جاسکتا ہے: نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

اس حوالے سے گذشتہ اور اس سے پیوستہ صدی میں بہت سے مستشرقین نے قلم اٹھایا اور قرآنِ کریم کو اپنے زعم اور اپنے گمان کے مطابق مرتب اور مدوّن کرنے کی کوشش کی۔اس حوالے سے خاص طور پر ولیم میور اور آرتھر جیفری کا ذکر کیا جاسکتا ہے۔ جنہوں نے قرآنِ کریم کی سورتوں اور کئی ایک جگہ آیات کو تقدیم و تاخیر کرکے پیش کرنے کی جسارت کی ہے، لیکن یہ لوگ ، جن کی اپنی مذہبی کتاب کا یہ حال ہے کہ اب تک یہ طے نںیک ہوا کہ یہ کتاب عبرانی میں تھی یا سریانی میں اور یہ کہ ان کتابوں کے مؤلفین کون تھے، ضعیف اور کمزور روایات یا اپنے فاسد قیاس کے ذریعے مسلمانوں کو قرآنِ کریم کی ترتیب سکھاناچاہتے ہیں ۔اسی لیے مسلمانوں نے ان کی ان کوششوں کو محض سعی لاحاصل قرار دیتے ہوئے اسے مکمل طور پر ردّ کردیاہے۔

اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ان دشمنانِ اسلام کی شرارتوں سے محفوظ رکھے۔ آمین!


حوالہ جات
1. البقرہ:472
2. بنی اسرائیل:417 تا 7
3. التحریر والتنویر لابن عاشور،سورہ الحشر کی آیت نمبر2 کی تفسیر میں
4. صحیح بخاری:6
5. الاتقانللسیوطی :1161
6. جامع ترمذی:3103،قال الالبانی'صحیح '
7. ابوجعفر بن الزبیر، مناسبات، بحوالہ السیوطی،1211
8. جامع ترمذی:3086،قال الالبانی:ضعیف
9. البقرة:240
10. اس سے مراد قرآن کریم سورة البقرة کی آیت نمبر 234ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ ایسی عورتیں چارماہ اور دس دن تک انتظار کریں، بعض علماء کے نزدیک یہ آیت سابقہ آیت کی ناسخ ہے۔
11. صحیح بخاری:4536
12. صحیح مسلم:1616
13. الاتقان للسیوطی:1161
14. الاتقان للسیوطی:1231
15. ایضاً
16. الاتقان للسیوطی:1241
17. ایضا
18. امام سیوطی کی یہ رائے درست نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ سورتوں کی مروّجہ ترتیب کے بارے میں اہل علم کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔جمہور اہل علم کے نزدیک جن میں سے امام مالک اور قاضی ابوبکربن طیب قابل ذکر ہیں۔سورتوں کی موجودہ ترتیب توقیفی نہیں بلکہ اجتہادِ صحابہ ہے۔ اس کی دلیل سیدنا حذیفہ کی وہ حدیث ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رات کی نماز پڑھی۔ چنانچہ آپ نے پہلے سورة البقرة پڑھی،پھر سورة النسا پڑھی اور پھر سورة آل عمران شروع کر دی۔(صحیح مسلم:772) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے موجودہ ترتیب کے خلاف تلاوت کر کے اُمت کے لیے وسعت پیدا کر دی ہے کہ یہ ترتیب توقیفی نہیں ہے۔اگر سورتوں کی ترتیب توقیفی ہوتی تو صحابہ کرام ضرور اس حدیث کے مطابق قرآنِ مجید کی ترتیب دیتے۔نیز سیدنا عبد اللہ بن مسعود کے مصحف کی ترتیب موجودہ ترتیب سے مختلف تھی۔ (مزید تفصیل کے لئے دیکھیں: البرہان ف علوم القرآن از امام زرکشی:2621) (محدث)
19. الاتقان:1251
20. البقرة:2812
21. الاتقان:1251
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
یہ تو واضح ہے کہ قرآن کریم کی سورتوں اور سورتوں کی آیات کی موجودہ ترتیب وہ نہیں جس ترتیب سے ان کا نزول ہوا تھا ، پھر اس موجودہ ترتیب کا ماخذ کیا ہے ؟ اور کس نے یہ ترتیب دی ہے ؟ اکثر مستشرقین نے اس پر بڑی لے دے کی ہے اور یہ ثابت کرنے کے لیے بڑے جتن کیے ہیں کہ موجودہ ترتیب زمانہ نبوت میں نہیں دی گئی بلکہ اس کے بعد صحابہ رضی اللہ تعالٰی علیہم اجمعین نے اس کو یوں مرتّب کیا آئیے حقائق کی روشنی میں ان کے اس مفروضہ کا جائزہ لیں ۔ ہمارا یہ دعوٰی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالٰی کے ارشاد کے مطابق قرآن کی سورتوں اور سورتوں کی آیتوں کو مرتّب فرمایا اور یہ موجودہ ترتیب وہی ترتیب ہے ، اس کے لیے متعدّد دلائل ہیں جن میں سے چند ایک اپنے دعوٰی کے اثبات کے لیے ہدیہ ناظرین ہیں :-
اللہ تعالٰی فرماتے ہیں ان علینا جمعہ وقرآنہ ہ فاذا قراناہ فاتبع قرآنہ ( 75: 17،18) یعنی قرآن کو جمع کرنا اور اسے پڑھنا ہمارے ذمّہ ہے اور جب ہم پڑھ چکیں تو آپ اس پڑھے ہوئے کی اتباع کریں ، اب آپ سوچیں کہ کیا ترتیب کے بغیر جمع قرآن کا تصوّر کیا جاسکتا ہے ، کیا کسی مخصوص ترتیب کے بغیر اس کی تلاوت ممکن ہے ؟ جب جمع کرنے اور پڑھنے کے لئے اس کا مرتب ہونا ضروری ہے تو معلوم ہوا کہ جس ذات پاک کے ذمہ اس کا جمع کرنا اور پڑھنا ہے اسی نے اس کو مرتّب فرمایا ہے
تاریخی لحاظ سے آپ سوچئے عہد رسالت صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں صحابہ کرام کو قرآن کریم یاد تھا ، بعض کو کچھ سورتیں اور بعض کو سارا قرآن صحابہ کرام نماز میں اور اس کے باہر اس کی تلاوت کیا کرتے ، حضور رحمت عالمیان صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم خود بھی نماز تہجّد میں دوسری نمازوں میں ، عام خطبات میں کثرت سے قرآن کریم کی قرآءت فرماتے اور حضور صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قرآءت وترتیب اور صحابہ کی قرآت وترتیب میں قطعاً سرمُو فرق نہیں ہوا کرتا تھا ۔ یہ وہ امور ہیں جن سے کوئی بھی انکار کرنے کی جرآت نہیں کرسکتا ، اب آپ خود فیصلہ کیجئے کہ اگر نبی کریم علیہ الصلواۃ والتسلیم نے اسے حکم الہٰی سے مرتّب نہیں فرمادیا تھا تو صحابہ کیسے اس کو حفظ کرسکتے تھے ، کیسے اس کی تلاوت ان کے لئے ممکن تھی ، اور اگر حضور کی مقررہ ترتیب نہیں تھی تو ہر ایک کی قرآت دوسرے سے مختلف ہونی چاہئے تھی حالانکہ ایسا نہیں تھا ، تو ثابت ہوا کہ قرآن کریم عہد رسالت میں مکمل طور پر مرتّب فرمادیا گیا تھا اور تمام صحابہ اسی کی پیروی اور پابندی کیا کرتے تھے ، اس لئے متعصّبین کا یہ شور و غوغا قطعاً کوئی وزن نہیں رکھتا ، وللہ الحجۃ البالغہ۔
 
Top