ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,378
- پوائنٹ
- 635
فوزیہ وہاب کا یہ بیان بھی لاعلمی کا آئینہ دار ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ کے دور میں آئین نہیں تھا۔جنابِ رسالت مآبﷺنے مدینہ کی ریاست کے قیام کے وقت ہی یہودیوں سے ’میثاقِ مدینہ‘ کی صورت میں معاہدہ فرمایا تھا۔ قرآن و سنت کے عظیم ضابطوں کو ہی خلافتِ راشدہ اور بعد کے اَدوار میں آئین کی حیثیت حاصل رہی،لہٰذا حضرت عمرؓ کو کسی الگ آئین کی ضرورت ہی نہ تھی۔شریعت ِاسلامیہ میں حاکمیت، عدل و انصاف، انتظامیہ اور دیگر اداروں کے لیے ہمیشہ سے واضح ضابطے موجود ہیں۔
بادشاہوں کے ’خدا‘ ہونے اور خدا کا ’اوتار‘ یا ’ظلِ الٰہی‘ ہونے کا تصوربہت قدیم ہے۔ فراعنۂ مصر ، روم و یونان کے ’شہنشاہوں‘ کے لیے یہ القابات استعمال ہوئے تھے۔ پندرھویں اور سولھویں صدی میں جب چرچ اور بادشاہ کے درمیان اختیارات اور قانونی برتری کے حصول کی کشمکش عروج پر تھی، یورپ کے سیاسی فلاسفہ نے بادشاہوں کے لیے ’خدائی حقوق‘ کے نظریے کا پرچار کیا تھا۔اس نظریے کے مطابق بادشاہ سے غلطی یا جرم کا صدور نہیں ہوسکتا، اِس لیے اس کے خلاف کوئی عدالتی کاروائی بھی نہیں ہوسکتی۔ اُسی زمانے میں برطانیہ میں بادشاہ اور پارلیمنٹ کے درمیان کشمکش بھی برپا تھی جو بالآخر ۱۶۶۸ء کے ’سنہری انقلاب‘ پر منتج ہوئی جب انگریزوں نے ہمیشہ کے لئے تسلیم کرلیا کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی میں بالادستی حاصل ہے۔
بادشاہوں کے ’خدا‘ ہونے اور خدا کا ’اوتار‘ یا ’ظلِ الٰہی‘ ہونے کا تصوربہت قدیم ہے۔ فراعنۂ مصر ، روم و یونان کے ’شہنشاہوں‘ کے لیے یہ القابات استعمال ہوئے تھے۔ پندرھویں اور سولھویں صدی میں جب چرچ اور بادشاہ کے درمیان اختیارات اور قانونی برتری کے حصول کی کشمکش عروج پر تھی، یورپ کے سیاسی فلاسفہ نے بادشاہوں کے لیے ’خدائی حقوق‘ کے نظریے کا پرچار کیا تھا۔اس نظریے کے مطابق بادشاہ سے غلطی یا جرم کا صدور نہیں ہوسکتا، اِس لیے اس کے خلاف کوئی عدالتی کاروائی بھی نہیں ہوسکتی۔ اُسی زمانے میں برطانیہ میں بادشاہ اور پارلیمنٹ کے درمیان کشمکش بھی برپا تھی جو بالآخر ۱۶۶۸ء کے ’سنہری انقلاب‘ پر منتج ہوئی جب انگریزوں نے ہمیشہ کے لئے تسلیم کرلیا کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی میں بالادستی حاصل ہے۔