• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن اور قراء اتِ قرآنیہ کے ثابت و حجت ہونے کا بنیادی ذریعہ خبریاتواتر عملی؟

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآن اور قراء اتِ قرآنیہ کے ثابت و حجت
ہونے کا بنیادی ذریعہ خبریاتواتر عملی؟

[اِصلاحی مکتبہ فکر کے افکار کا جائزہ]​
حافظ محمد زبیر​
پاکستان میں انکارِ قراء ات اور انکارِ حدیث میں پیش پیش حلقۂ اشراق کی نمائندہ شخصیت جاویداحمدغامدی سے چندماہ قبل حافظ حمزہ مدنی حفظہ اللہ ، حافظ محمد زبیرحفظہ اللہ اور حافظ طاہر الاسلام عسکری حفظہ اللہ نے ’دین کیا ہے اور دین کے ثابت ہونے کاذریعہ کیاہے؟‘ کے ضمن میں متعدد نشستوں میں تبادلہ خیال کیا۔ آخری مجالس میں بحث کا ارتکاز اس نکتہ پر رہا کہ دین کے ثابت ہونے کا بنیادی ذریعہ خبر ہے یانام نہاد اجماع و تواتر عملی؟ حافظ محمد زبیرحفظہ اللہ، جو کہ غامدی صاحب کے پیدا کردہ متنوع مغالطوں پر عرصہ دو تین سال سے مسلسل لکھ رہے ہیں، نے ان نشستوں میں پیش کردہ خیالات کو قارئین رشد کیلئے قلم بند کردیا ہے، تاکہ زیربحث موضوع پر دیگر شوق رکھنے والے حضرات بھی اس علمی مکالمہ سے مستفید ہوسکیں۔ حافظ صاحب حفظہ اللہ کا مقالہ اگرچہ قرآن، سنت اور اجماع تینوں کے ثابت ہونے کے ذریعے کے بارے میں ہے، لیکن ہم رشد ’قراء ات نمبر‘ کے موضوع کے پیش نظر مقالہ کے صرف ابتدائی حصہ کو قارئین کے لیے پیش کررہے ہیں، جس کی تہذیب و نظرثانی بھی موصوف نے خود کردی ہے۔ اس تعاون پر ہم ان کے شکرگزار ہے۔ (اِدارہ)
دین ودنیا میں عام طور پر کسی بھی علم کے حصول کے لیے معتبر بنیادی ذرائع صرف دو ہی ہیں۔ایک براہِ راست مشاہدہ و حواس سے حاصل شدہ علم اور دوسرا خبرہے ، مثلا بازار میں جاتے ہوئے آپ نے دیکھا کہ ایک شخص کو سرعام ڈاکوؤں نے قتل کر دیاہے،اب آپ کو اس شخص کے قتل کا علم براہِ راست مشاہدے سے ہوا یا یہ بھی ممکن ہے کہ آپ جائے وقوعہ پر موجودنہ ہوں اور آپ کو اس شخص کے قتل کی خبر مل جائے۔یہ خبر بعض اَوقات ایک شخص کے ذریعے پہنچتی ہے اور بعض اَوقات دو، تین، چار یا ایک بہت بڑی تعداد کے ذریعے۔ مخبرین کی تعداد چاہے کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو،دنیا اس کو خبر ہی کہتی ہے۔
اَنبیاء پر نازل کی جانے والی وحی بھی اللہ ہی کی طرف سے ایک خبر ہوتی ہے۔بعض اَوقات یہ وحی خواب کی صورت میں بھی ہوتی ہے۔کسی نبی کا خواب بھی مشاہدہ و خبر ہی کی ایک ملی جلی قسم ہے، جیسا کہ اللہ کے رسولﷺ نے خواب دیکھا تھا کہ آپ صحابہ کے ساتھ عمرہ کر رہے ہیں اور حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے بیٹے کو خواب میں ذبح کرتے دیکھا۔اسی طرح بعض اوقات ایک عام شخص کو بھی بذریعہ خواب کسی بات کا علم ہو جاتا ہے ،لیکن ایک نبی اور عامی کے خواب میں اصل فرق یہ ہے کہ نبی کاخواب دوسروں کے حق میں بھی وحی و حجت کا درجہ رکھتا ہے جبکہ ایک عام آدمی کا خواب خود اس کے لیے تو کسی اہمیت کا حامل ہو سکتاہے لیکن دین میں کسی دوسرے شخص کے لیے کوئی شرعی دلیل نہیں بن سکتا۔
انبیاء کے لیے علم کے حصول کی ایک خاص شکل الہام بھی ہے یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کسی نبی کے دل میں کوئی بات ڈال دیں ۔انبیاء کا یہ علم وحی کی حیثیت سے ایک شرعی دلیل ہے۔ عام افراد کے لیے اسی عمل کو اصطلاحا ًوجدان یا الہام ہی کہتے ہیں۔ دین اسلام میں وجدان یا ایک عامی کا الہام اُمت کے لیے کوئی شرعی دلیل نہیں ہے، اگرچہ صوفیاء کے ایک قلیل طبقے نے اس کو ایک مستند ذریعہ علم قرار دیا ہے۔اگرکوئی شخص یہ کہتا ہے کہ مجھے اللہ سبحانہ و تعالیٰ یا اللہ کے نبیﷺنے یہ بات الہام کی ہے تو اس بات کو معلوم کرنا کہ واقعتا اس شخص کووہ بات اللہ یا اس کے رسولﷺ ہی کی طرف سے الہام کی گئی ہے ، ایک ناممکن امر ہے اور اس کا کوئی معیار بھی اس دنیا میں موجود نہیں ہے کہ جس پر اس کو پرکھا جا سکے کہ یہ بات اللہ ہی کی طرف سے الہام ہے یا شیطانی وساوس ہیں۔اسی لیے کسی بھی بڑے سے بڑے عالم دین یا بزرگ و صوفی کا وجدان اُمتِ مسلمہ کے حق میں کسی شرعی دلیل کے مترادف نہیں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ہاں یہ بات درست ہے کہ خود اس کے لیے وہ الہام ظن و تخمین یا علم و یقین کا کوئی درجہ رکھتا ہو۔ ہم اس بات کو مانتے ہیں کہ اللہ کے نیک بندوں خصوصاً علماء ، متقین اور صلحاء کو الہام ہوتا ہے۔ ہم یہاں پر بحث یہ کر رہے ہیں کہ کسی اُمتی کا ایسا الہام کوئی شرعی دلیل ہے یا نہیں؟ جیسا کہ بعض لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ اللہ کے رسولﷺنے خواب میں آکر انہیں یہ حکم دیا ہے کہ تم الیکشن میں حصہ لو اور کامیابی تمہارا مقدر ہو گی وغیرہ۔
دنیاوی علوم کے حصول کا ایک اور ذریعہ عقل بھی ہے۔فلسفے میں اس ذریعہ علم کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔دین میں عقل، احکام الٰہی کوحاصل کرنے کا ذریعہ تو نہیں ہے، لیکن ان کو سمجھنے میں اس کی حیثیت مسلم ہے۔معتزلہ کے نزدیک عقل سے اللہ کا حکم معلوم ہوسکتا ہے جبکہ غامدی صاحب کا کہنا یہ ہے کہ قرآن میں مذکور’ معروف و منکر ‘ اور ’طیبات و خبائث‘ کا تعین فطرت انسانی سے ہوگا ۔اہل سنت ماتریدیہ (یعنی احناف ) اشاعرہ (یعنی مالکیہ و شوافع) اور سلفیہ (یعنی حنابلہ و اہل الحدیث) کے نزدیک دین اسلام کا کوئی بھی حکم نہ تو عقل سے ثابت ہوتا ہے اور نہ ہی فطرت سے ۔فطرت سے دینِ اسلام کا کوئی بھی حکم ثابت نہیں ہوتا۔
ہمارا موضوع اس وقت دین اسلام ہے ۔اس دنیا میں دین اسلام کے تنہاء ماخذ اللہ کے رسولﷺ ہیں ۔اللہ کا دین قرآن کی صورت میں ہو یا قرآن کے علاوہ ، وہ ہمیں محمد ﷺ کے بتانے سے ہی ملا ہے ۔جب تک آپ ،’کتاب اللہ‘ کو قرآن قرار نہ دیں تو اس وقت تک وہ قرآن نہیں بنتا،یعنی قرآن بھی آپؐ کے بتانے سے ہی قرآن بنا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام غزالی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’جان لو!جب ہم غور سے جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تمام اَحکام کی اصل ایک ہی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے…مگر جب ہم اپنے حق میں کسی حکم کے ظاہر ہونے کی صورت پر غور کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اللہ کا کوئی بھی حکم ہمیں اللہ کے رسولﷺکے قول کے بغیر معلوم نہیں ہو سکتاہے، کیونکہ ہم اللہ کا کلام نہ توبراہ راست اللہ تعالیٰ سے سنتے ہیں اور نہ ہی حضرت جبریل ؑ سے۔پس اللہ کی کتاب بھی آپؐ کے قول سے ہی ہمیں معلوم ہوتی ہے۔‘‘ (المستصفی:۱؍۸۰)
آپﷺکے زمانے میں یہ دین ،قرآن و سنت کی صورت میں موجود تھا اورآپؐ اس دین یعنی دین اسلام کو اپنے اَقوال،افعال اور تقریرات کے ذریعے صحابہ،ؓ تک پہنچارہے تھے۔ اللہ کے رسولﷺسے ہم تک دین (قرآن و سنت)کا علم کیسے منتقل ہوا ہے ؟ یہ ایک اہم سوال ہے ۔دوسرا قابل غور نکتہ یہ ہے کہ کیا ہمارا دین اس بارے میں ہماری رہنمائی کرتاہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے اللہ تعالیٰ سے قرآن و سنت کی صورت میںجو دین حاصل کیا ہے وہ قیامت تک آنے والے آپؐ کے ہر ہر اُمتی تک کن ذرائع سے پہنچے گا ؟ تیسر اتحقیق طلب سوال یہ ہے کہ دین نے ایسے کون سے ذرائع بیان کیے ہیں کہ جن ذرائع سے دین اسلام(یعنی قرآن وسنت) آپؐ کی طرف سے کسی امتی تک پہنچ جائے تو اس اُمتی کے لیے اس ذریعے کی صورت میں ملنے والے دین(قرآن وسنت) کو‘ دین اسلام سمجھ کر قبول کرنا واجب ہے ؟
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ کے رسولﷺ آج ہمارے سامنے نہیں ہیں لہٰذا ہم آپؐ کے اَقوال و اَفعال کے براہِ راست مشاہدے سے اس دین کا علم حاصل نہیں کر سکتے جو آپﷺپر قرآن وسنت کی صورت میں نازل ہواہے یا جسے آپؐ کے اجتہاد کی صورت میں اللہ کی تصویب و تائید حاصل ہوئی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص محض اپنی عقل سے غور و فکر کرتے ہوئے اس دین کو معلوم کر لے کہ جو آپؐ پر نازل ہواتھا تو یہ بھی ناممکن ہے ۔اسی طرح اگر کوئی شخص یہ کہے کہ وہ دین جو آج سے چودہ سو سال پہلے محمدﷺ پر نازل ہواتھا۔ میں اپنے وجدان سے معلوم کر لوں تو دینِ اسلام کے علم کے حصول کی یہ صورت بھی قابل عمل نہیں ہے، کیونکہ اس کا کوئی معیار نہیں ہے کہ جس کو وہ اپنے دل میں محسوس کر رہا ہے وہ واقعتا وہی ہے جواللہ کے رسولﷺ پر نازل ہوا تھا یا وہ شیطانی وساوس ہیں۔ پس دین کے علم کے حصول کاایک ہی ذریعہ ہمارے پاس باقی رہ جاتا ہے اور وہ ’خبر وروایت ‘ہے۔ اب یہ ’خبر وروایت ‘قطعی بھی ہی ہو سکتی ہے اور ظنی بھی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسرے اور تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ بات دین(قرآن و سنت) کا بنیادی موضوع ہے کہ دین(قرآن وسنت) آپ ﷺسے قیامت تک آنے والے ہر ہر اُمتی تک کیسے پہنچے گا اور دین (قرآن وسنت)نے اس کو بیان بھی کیا ہے۔بعض لوگوں کایہ کہنا کہ ’’دین اسلام (قرآن وسنت) کے منتقل ہونے کے ذرائع کیا ہیں؟یہ ایک عقلی یا تاریخی بحث ہے‘‘، عقل و شرع دونوں کے خلاف ہے ۔جس طرح کسی چیز کا دین(قرآن و سنت)ہونا یا نہ ہونا ایک اہم بحث ہے، اتنی ہی اہمیت کی حامل یہ بات بھی ہے کہ وہ دین ہم تک کیسے پہنچے گا۔ دین ہویا دین (قرآن و سنت)کے ہر ہر اُمتی تک پہنچنے کا ذریعہ ہو‘ دونوں کی اہمیت عقلی اعتبار سے برابر ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جناب ِغامدی لکھتے ہیں:
’’دین اس دنیا میں اللہ پروردگار عالم کی ہدایت ہے جو اس نے اپنے پیغمبروں کی وساطت سے انسانوں کو دی ہے۔اس سلسلہ کے آخری پیغمبر محمدﷺ ہیں۔چنانچہ دین کا تنہا مأخذ اس زمین پر اب محمدﷺ ہی کی ذات والا صفات ہے۔ یہ صرف انہی کی ہستی ہے کہ جس سے قیامت تک بنی آدم کوان کے پروردگار کی ہدایت میسر ہو سکتی اور یہ صرف انہی کا مقام ہے کہ اپنے قول و فعل اور تقریر وتصویب سے وہ جس چیز کو دین قرار دیں، وہی اب رہتی دنیا تک دین حق قرار پائے۔‘‘ (میزان:ص۹)
دین(قرآن و سنت) کیاہے ؟ اس اعتبار سے غامدی صاحب کا یہ قول صد فی صد درست ہے کہ دین(قرآن وسنت) صرف وہی ہے کہ جس کو اللہ کے رسولﷺ نے اپنے قول، فعل اور تقریر و تصویب سے دین قرار دیا ہے ،لیکن اگر ہم غور کریں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا عبارت کی اہمیت اس وقت بالکل ختم ہو جاتی ہے جب ہم اس دین (قرآن و سنت)کے پہنچنے کے ذرائع کو ایک عقلی و تاریخی بحث بنا دیتے ہیں۔کیونکہ ہم جس زمانے میں رہ رہے ہیں اس کے اعتبار سے، اللہ کے رسولﷺ کے دور میں کیا چیز دین(قرآن و سنت) تھی؟ سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ وہ دین (قرآن وسنت)ہمیں کس طرح ملا ہے یا دوسرے الفاظ میں وہ دین (قرآن و سنت)آج کہاں ہے؟کیونکہ ایک چیز کو اُصولی طور پر دین(قرآن وسنت) مان لینے سے اس وقت تک فرق نہیں پڑتا جب تک ہم دین (قرآن وسنت)کے ذرائع کی بحث بھی دین(قرآن وسنت) کی روشنی میں ہی نہ کرلیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جب تک سوا ل صحیح نہ ہو تو اس کا جواب بھی درست نہیں ہوتا۔اس میں کوئی شک نہیں ہے اس دنیامیں اللہ کے رسولﷺکی ذات ہی دین اسلام(قرآن وسنت) کا تنہا ماخذ ہے،لیکن یہ اس سوال کا جواب ہے کہ دین اسلام (قرآن وسنت) کے مآخذ کیا ہیں؟ہمارے خیال میں اصل سوال یہ ہے کہ آج،جس زمانے میں، میں زندگی گزار رہا ہوں، میرے لیے دین اسلام (قرآن وسنت)کے مآخذ کیا ہیں؟ یعنی جو دین(قرآن وسنت) اللہ کے رسولﷺ کو اللہ کی طرف سے بذریعہ وحی ملا ہے آج مجھے وہ کہاں ملے گا؟آج میں اسے کہاں تلاش کروں؟کیا اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ پر نازل کردہ دین (قرآن وسنت)کی حفاظت اس طرح سے کی ہے کہ آج بھی مجھے وہ دین (قرآن وسنت)اسی طرح مل جائے جس صورت میں وہ آپؐ پر نازل ہوا تھا یا اللہ تعالیٰ کا یہ فضل صرف صحابہؓ کی جماعت ہی کے لیے تھا۔ میرے سامنے آج اللہ کے رسولﷺ نہیں ہیں کہ میں ان کے اقوال، افعال اور تقریرات کا براہِ راست مشاہدہ کر کے دین(قرآن وسنت) آپ کی ذات سے اخذ کر سکوں۔آپؐ کی حیات میں آپؐ صحابہ کرامؓ کے لیے حقیقتاً دین (قرآن وسنت) کا تنہا ماخذ تھے۔ اس لیے یہ کہنا کہ دین (قرآن وسنت) کا تنہا ماخذ اللہ کے رسول1 ہیں،نظری و اُصولی طور پر بالکل صد فی صد درست بات ہے، لیکن صرف یہ کہنا آج کے مسلمان کا مسئلہ اس لیے حل نہیں کرتا کہ اس کے سامنے آپؐ کی ذات موجود نہیں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
آپؐ نے قرآن اور اپنے اقوال،افعال اور تقریرات کے ذریعے جو دین اس اُمت کو دیا ہے وہ آج کہاں ہے؟ اس سوال کا جواب جب ہم اصول فقہ کی کتابوں میں تلاش کرتے ہیں تو مآخذشریعت کے عنوان کے تحت مذکور بحث کے مطالعے سے ہمیں یہ معلوم ہو جاتاہے کہ اہل سنت کا جواب کیا ہے ۔پس یہ کہنا کہ دین (قرآن وسنت) کے ذرائع کی بحث عقل یا تاریخ کا مسئلہ ہے ‘ ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی شخص یہ دعوی کرے کہ اللہ کے رسولﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے تو دین (قرآن وسنت) کے مآخذ واضح تھے یعنی آپؐ کے اقوال،افعال و تقریرات،جبکہ قیامت تک کے انسانوں کے لیے دین کے مآخذ کیا ہیں ؟یہ عقل و تاریخ سے طے ہو گا۔
عقل و تاریخ تویہ بتلاتی ہے کہ صحابہؓ کے لیے خبر واحد مستقل بالذات ماخذ دین تھی، کیونکہ صحابہؓ دو صورتوں میں اللہ کے رسولﷺ سے دین حاصل کر رہے تھے یا تو براہ راست آپؐ کی مجلس میں موجود ہوتے تھے یا کسی دوسرے صحابیؓ سے اس کی خبر پاتے تھے۔پہلی صورت میں بھی آپؐ کی خبر ان کے لیے خبر واحد تھی جبکہ دوسری صورت بھی عموماً خبر واحد ہی کی ہوتی تھی جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم آپؐ کے ارشادات و افعال اور موقع بموقع نازل ہونے والی قرآنی آیات کی خبر اپنی بیویوں کو جا کر دیتے تھے تو یہ خبر واحد ہی تھی۔اس خبر واحد سے قرآن بھی ثابت ہورہا تھا اور حلال وحرام، عبادات بھی اور معاملات بھی۔ آداب بھی اور حدود وتعزیرات بھی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس عقل و تاریخ کو کیا ہو گیا ہے کہ آج ہمیں یہ کہتی ہے کہ ہمارے لیے خبر واحد مستقل بالذات ماخذ دین نہیں ہے بلکہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع اور پھر اس اجماعِ صحابہؓ کی ہر دَور میں اِجماع ہی کے ذریعے سے حکایت و روایت ہی مستقل بالذات دین کی روایت کا بنیادی ذریعہ ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ جب تک صحابہ رضی اللہ عنہم کا کسی بات پر اجماع نہیں ہوا تھا اور کسی ایک صحابیؓ نے کسی دوسرے صحابی ؓسے مثلا تحویل قبلہ سے متعلق قرآن کی نئی نئی نازل شدہ آیات سنی تو اس صحابیؓ کے لیے وہ خبر واحد مستقل بالذات ماخذ دین تھی یا نہیں؟ اور اس خبر واحد سے قرآن اور تحویل قبلہ جیسا حکم ثابت ہو جاتا تھا یا نہیں؟اگر تو جواب اثبات میں ہے۔ اور یقینا ہے تو آج اس خبر واحد سے قرآن یاتحویل قبلہ جیسے اَحکامات کے اثبات میں کیا رکاوٹ ہے؟کیاصحابہؓ کے دور میں جس قسم کی خبر واحد سے مستقل بالذات دین ثابت ہو جاتا تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام شافعی،امام مالک، امام احمد اور امام بخاری رحمہم اللہ وغیرہ کے زمانے میں اس خبر واحد سے دین ثابت نہیں ہوتا تھا؟ کیاذریعہ،دین پر حَکم ہے کہ وہ دین کو مستقل بالذات یا غیر مستقل بالذات بنا دیتا ہے۔کیا جس چیز پر صحابہ،کا اجماع نہ ہو اس کو ہم مستقل بالذات دین شمار نہیں کریں گے؟احادیث، سیرت وتاریخ کی کتب سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے جمع قرآن کے واقعہ سے پہلے قرآن کی قراء ات کے بارے میں صحابہ رضی اللہ عنہم،میں بہت اختلافات تھے اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہم دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کی قراء ت کا انکار بھی کرتے تھے اور سرحدی علاقوں میں ایسے جھگڑے بہت بڑھ گئے تھے۔
یہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم جو کہ قرآن کی ایک قراء ت پر متفق نہیں تھے تو کیا قرآن صحابہ رضی اللہ عنہم کے اس دور میں ثابت نہیں تھا یا وہ مستقل بالذات ماخذنہیں مانا جاتا تھا۔ یقینا ایسا نہیں تھا ۔ آج بھی تمام اُمت قرآن کریم کی کسی ایک روایت پر متفق نہیں ہے، بلکہ کہیں ’روایتِ حفص‘ ہے تو کہیں ’روایت ِورش‘ اوربعض ممالک میں ’روایتِ قالون‘ رائج ہے تو بعض علاقوں میں ’روایتِ دوری‘ پڑھی جاتی ہے ،اس کے باوجود قرآن ثابت ہے اور مستقل بالذات ماخذ دین ہے۔ مستقل بالذات دین کے ثبوت کے جو طریقے خود دین نے بیان کیے ہیں وہ ’اجماع ‘نہیں ہے، بلکہ ’خبر ‘ہے۔ اگر اس خبر پر اجماع بھی حاصل ہو جائے تو یہ ایک اضافی فائدہ ہے۔ یہی ہمارے اس مضمون کابنیادی موضوع ہے۔
 
Top