• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن اور قراء اتِ قرآنیہ کے ثابت و حجت ہونے کا بنیادی ذریعہ خبریاتواتر عملی؟

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
غامدی صاحب لکھتے ہیں :
’’یہی قانون وحکمت وہ دین حق ہے جسے ’اسلام‘سے تعبیر کیا جاتا ہے اس کے ماخذ کی تفصیل ہم اس طرح کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے یہ دین آپ کے صحابہ کے اجماع اور قولی و عملی تواتر سے منتقل ہوا اور دو صورتوں میں اس اُمت کو ملا ہے: (١)قرآن مجید (٢) سنت (میزان: ص ۹)
غامدی صاحب جس کو ذریعہ قرار دے رہے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ ایک ذریعہ ہونے کے علاوہ آج کے دور میں ہمارے لیے مآخذ دین بھی ہیں ۔دین نے صحابہؓ کے لیے بھی اور قیامت تک آنے والے اُمتیوں کے لیے مآخذ دین( یعنی دین کو اَخذ کرنے کی جگہوں) کو بیان کر دیا ہے۔قرآن اور سنت دونوں میں یہ بات صراحت سے بیان ہوئی ہے کہ دین کے اللہ کے رسول ﷺ سے اُمت تک منتقل ہونے کا اصل ذریعہ خبر ہے اور بذریعہ خبر اگر دین اسلام کی کوئی بات اللہ کے رسولﷺ کی نسبت سے کسی اُمتی کو پہنچ جائے تو اس کے لیے اس بات کودین کی حیثیت سے قبول کرنا واجب ہے، چاہے وہ خبرقطعی ہو یا ظنی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دین (قرآن و سنت)کی روایت کا بنیادی ذریعہ؛ قرآن کی روشنی میں
قرآن مجید نے صریحاً اور اشارتاً دین کی روایت و ذریعہ کو ایک موضوع کے طور پر بیان کیا ہے۔قرآن مجید میں اس کے درج ذیل دلائل ہیں:
پہلی دلیل: اِرشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اِیْتُوْنِیْ بِکِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ ھٰذَا اَوْ اَثٰرَۃٍ مِّنْ عِلْمٍ‘‘ (الأحقاف:۴)
’’تم(اپنے موقف کے حق میں) کوئی کتاب اس(قرآن) سے پہلے کی یا (سابقہ انبیاء) کی بچی کھچی منقول علمی روایت لے آؤ۔‘‘
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں:
’’اثارۃ‘ اس روایت کو کہتے ہیں جو سلف سے منقول ہوتی چلی آ رہی ہو۔الأثارۃ البقیۃ من العلم توثروھم علی اثارۃ من العلم أی بقیۃ منہ یاثرونھا من الأولین(اقرب الموارد)۔اس کے ساتھ’ من علم‘ کی قید اس حقیقت کے اظہار کے لیے ہے کہ اس روایت کی بنیاد محض وہم و گمان پر نہیں بلکہ علم پر ہو۔ اگر تم مدعی ہو کہ خدا نے تمہارے معبودوں کو اپنی خدائی میں شریک بنایا ہے تو اپنے اس دعوے کی سچائی ثابت کرنے کے لیے یا تو اس قرآن سے پہلے کی کوئی کتاب پیش کرویا کوئی ایسی روایت جس کی بنیاد وہم و گمان پر نہیں بلکہ علم پر ہو۔مطلب یہ ہے کہ خدا کا کوئی شریک ہے یا نہیں؟اس باب میں اصلی گواہی خود خدا ہی کی ہوسکتی ہے کہ اس نے اپنا شریک کسی کو بنایا ہے یا نہیں اور بنایا ہے تو کس کو؟خدا کی گواہی کو جاننے کا واحد ذریعہ اس کی نازل کردہ کتابیں ہیں یا وہ روایات و آثار جو اس کے نبیوں اور رسولوں سے صحیح طور پر سلف سے خلف کو منتقل ہوئے۔فرمایا کہ اس طرح کی کوئی چیز ہو تو اس کوپیش کرو‘ محض وہم کی بنیاد پر ایک ہوائی قلعہ تعمیر کر کے اپنی عاقبت نہ خراب کرو۔یہاں یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ علم یا تو اس کی کتابوں کے ذریعہ سے خلق کو منتقل ہوا ہے مثلاً تورات و انجیل وغیرہ کے ذریعے سے یا روایات و آثار کے ذریعے سے ‘ مثلا حضرت ابراہیم ؑ اور دوسرے انبیاء کی تعلیمات بعد والوں کو روایات ہی کے ذریعے پہنچیں۔‘‘ (تدبر القرآن،تفسیر سورۃ الاحقاف: ۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
طوالت کے خوف سے ہم اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں باقی مفسرین کی آراء نقل نہیں کر رہے ہیں۔اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ دین کے پہنچنے کا ذریعہ بھی دین ہی کا موضوع ہے اور قرآن نے اس کو بیان کیا ہے۔ قرآن کی اس آیت کے مطابق اللہ کی کتاب اور رسولوں کی طرف منسوب اخبار،چاہے عقائد کی صورت میں ہو یا اعمال و عبادات کی شکل میں، دین اسلام کاماخذ ہیں۔یہ آیت اس بات کی بھی دلیل ہے کہ عقیدہ بھی خبر ہی سے ثابت ہوتا ہے، چاہے وہ متواتر ہو یا خبرآحاد۔
دوسری دلیل:ایک اور جگہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’فَلَوْلاَ نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَائِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنَ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْا اِلَـیْھِمْ لَعَلَّھُمْ یَحْذَرُوْنَ‘‘ (التوبۃ:۱۲۲)
’’پس کیوں نہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت نکلی تاکہ وہ دین کا گہرا فہم حاصل کریں اور تاکہ وہ اپنی قوم کو ڈرائیں جبکہ وہ ان کی طرف لوٹ کر جائیں شاید کہ وہ(یعنی قوم والے اس طرح) ڈر جائیں‘‘۔
اس آیت مبارکہ میں ’طائفۃ‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو کہ عربی زبان میں ایک قلیل جماعت کے لیے استعمال ہوتا ہے چاہے وہ ’فردِ واحد‘ ہی کیوں نہ ہو۔امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’میں یہ کہتا ہوں کہ بہترین نص جس سے اس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ طائفۃ کا لفظ ایک کے لیے بھی بولا جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے : ’’اگر اہل ایمان میں دو افراد آپس میں لڑ پڑیں ‘‘ کیونکہ آگے فرمایا:’’اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کروا دیا کرو‘‘ پس ’اَخَوَیْـکُمْ‘میں تثنیہ کا صیغہ استعمال کیا ہے‘‘۔(تفسیر قرطبی: سورۃ التوبۃ:۱۲۲)
اگر اس کو جمع کے معنی میں بھی استعمال کریں توپھر بھی تین سے جمع شروع ہو جاتی ہے اور تین راویوں کی روایت کوبھی محدثین کی اصطلاح میں ’خبر واحد‘ ہی کہتے ہیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ’فرقۃ‘میں کم از کم تین افراد ہوں گے۔ اور ’فرقۃ‘ میں سے جب ’طائفۃ‘نکلے گا تو ایک یا دو نکلیں گے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ابن عادل الحنبلی لکھتے ہیں:
’’یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ خبر واحد حجت ہے۔ تین افراد مل کر فرقہ بنے۔ اور اللہ نے یہ واجب کیا ہے کہ ہر فرقہ سے ایک طائفہ نکلے۔ پس تین میں سے نکلنے والے دو ہوں گے یا ایک‘ پھر اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی خبر پر عمل کو ’’وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ‘‘ کے ذریعے واجب قرار دیا ہے کیونکہ اس سے مراد ان لوگوں کی خبر ہے۔ اسی طرح ’’لَـعَلَّھُمْ یَحْذَرُوْنَ‘‘کے ذریعے ان کی قوم پر یہ واجب قرار دیا ہے کہ وہ ان کی خبر پر عمل کریں۔ یہ آیت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ایک یا دو افراد کی خبر شریعت اسلامیہ میں حجت قرار پائے‘‘۔(اللباب فی علوم الکتاب:سورۃ التوبۃ:۱۲۲)
اس آیت مبارکہ میں اللہ کے رسول ﷺ سے دین اسلام کو حاصل کرنے اور پھر واپس جا کر اپنی قوم کو بتلانے کے لیے خبر واحد کو حجت مانا گیا ہے۔احادیث‘سیرت او رآثار صحابہؓ کی کتابوں میں بکثرت ایسے واقعات ملتے ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بعض قبائل سے ایک فرد اور بعض سے ایک سے زائد افراد اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے ‘ دین اسلام کے احکامات سیکھتے اور واپس جا کر اپنی قوم کو اس کی تعلیم دیتے تھے۔
تیسری دلیل:اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’یٰٓاَیھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنْ جَا ئَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْا‘‘ (الحجرات:۶)
’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو !اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آ ئے تو تم تحقیق کر لیا کرو(اس خبر کی)۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں دین و دنیا سے متعلق کسی بھی خبرواحد کو قبول کرنے کے لیے یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگراس خبر کا راوی کوئی فاسق شخص ہو تو اس خبر اوراس کے راوی دونوں کی تحقیق کر لیا کرو۔الحمد للہ! محدثین نے آپ ﷺکی طرف منسوب اَخبار میں راویان اَحادیث کی چھان پھٹک کے ساتھ ساتھ متون کی بھی تحقیق کی ہے۔ محدثین کے بارے میں بعض ناواقف حضرات کا یہ خیال غلط ہے کہ ان کے نزدیک کسی حدیث کے صحیح ہونے کا دارومدارصرف اس کی سند کی صحت پر ہے اور وہ حدیث کے قبول و رد میں متن ِحدیث کی جانچ پڑتال نہیں کرتے اور متن کی تحقیق کے اُصول فقہاء نے وضع کیے ہیں۔ محدثین کے ہاں حدیث سند ومتن دونوں کے مجموعے کا نام ہے، چنانچہ ان کے اصول ِحدیث بھی سندو متن دونوں کی تحقیق سے متعلق ہیں اور یہ بات مصطلح الحدیث کی قدیم وجدید تمام کتب کی ابتداء میں فن کی تعریف ، موضوع اور فائدہ وثمرہ کے عنوان کے تحت موجود ہے۔اس موضوع پر ہمارے استاد ڈاکٹر قاری حمزہ مدنی حفظہ اللہ نے اسلامیہ یونیورسٹی، بہاولپور میں پی ۔ایچ ۔ڈی کا مقالہ رقم فرمایا ہے، جس میں درایت ِحدیث کے اعتبار سے محدثین کی خدمات کا تفصیلی و تحقیقی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔یہ مقالہ اِن شاء اللہ کچھ ہی عرصے بعد شائع بھی ہو جائے گا۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر خبر کا راوی فاسق نہ ہو یعنی عادل ہو تو پھر خبر کی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے لیکن اس کے باوجود محدثین نے ہر اعتبار سے خبر کی تحقیق کی ہے ۔ علامہ آلوسیؒ نے اپنی تفسیر روح المعانی میں اس آیت کے بیان میں خبر واحد کی حجیت کے بارے میں عمدہ بحث کی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چوتھی دلیل:بعض جگہ قرآن میں اشارتاً بھی اس بات کا تذکرہ آیا ہے کہ خبر واحد کی صورت میں دی گئی خبر کو قبول کیا جائے گا۔
ایک جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’وَتَفَقَّدَ الطَّیْرَ فَقَالَ مَا لِیَ لَآ اَرَی الْہُدْہُدَ اَمْ کَانَ مِنَ الْغَـآئِـبِیْنَ لَاُعَذِّبَنَّہٗ عَذَابًا شَدِیْدًا اَوْ لَاَاذْبَحَنَّہٗ اَوْ لَـیَاْتِیَنِّیْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ فَمَکَثَ غَیْرَ بَعِیْدٍ فَقَالَ اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِہٖ وَجِئْتُکَ مِنْ سَبَأبِنَـبَاٍ یَّـقِیْن اِنِّیْ وَجَدْتُّ امْرَاَۃً تَمْلِکُہُمْ وَاُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ وَّلَہَاعَرْشٌعَظِیْمٌ وَجَدْتُّہَا وَقَوْمَہَا یَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَزَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَہُمْ فَصَدَّہُمْ عَنِ السَّبِیْلِ فَہُمْ لَا یَہْتَدُوْنَ اَلَّا یَسْجُدُوْا لِلّٰہِ الَّذِیْ یُخْرِجُ الْخَبْئَ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَیَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ قَالَ سَنَنْظُرُ اَصَدَقْتَ اَمْ کُنْتَ مِنَ الْکٰذِبِیْن اِذْہَبْ بِّکِتٰبِیْ ہٰذَا فَاَلْقِہْ اِلَـیْہِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْہُمْ فَانْظُرْ مَاذَا یَرْجِعُوْنَ‘‘ (النمل:۲۰تا ۲۸)
’’حضرت سلیمان علیہ السلام نے پرندوں کا جائزہ لیا تو کہا :کیا ہو گیا ہے مجھے ،میں ہدہد کو دیکھ نہیں پا رہا ہوں یا وہ غائب ہے۔میں اس کو لازماً شدید عذاب دوں گا یا اسے ذبح ہی کر دوں گا یا وہ میرے پاس کوئی واضح دلیل(عذر) لے کر آئے۔پس حضرت سلیمان2 نے زیادہ دیر نہیں گزاری (کہ ہدہد آگیا) پس ہدہدنے کہا: میں نے اس چیز کا احاطہ کیا ہے جس کا آپ احاطہ نہیں کرسکے اور میں آپ کے پاس قومِ سبا سے ایک یقینی خبر لے کر آیا ہوں۔میں نے ایک عورت کو دیکھا ہے وہ ان پر حکمرانی کرتی ہے اور اسے ہر چیز دی گئی ہے اور اس کے پاس ایک بہت بڑا تخت ہے۔میں اس عورت اور اس کی قوم کے لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ اللہ کے علاوہ سورج کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے لیے ان کے اعمال کو مزین کر دیا ہے پس اس نے انہیں سیدھے رستے سے روک دیا ہے۔ پس وہ اس بات کی طرف رہنمائی نہیں پا سکے کہ وہ اس اللہ کو سجدہ کریںجو زمین یا آسمانوں میں چھپی ہوئی ہر چیز کو نکالتا ہے اور وہ جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو یا ظاہر کرتے ہو۔اللہ ‘ اس کے سوا کوئی بھی معبود نہیں ہے اور وہ عرش عظیم کا رب ہے۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا : ہم عنقریب دیکھیں گے کہ تم نے سچ بولا یا تم جھوٹوں میں سے ہو۔تو میرا یہ خط لے جا اور ان کی طرف ڈال دے پھر ان سے منہ موڑ لے پس دیکھ کیا وہ لوٹاتے ہیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ہدہد کے قول’’ فَقَالَ اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِہٖ‘‘سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو جو خبر دی تھی وہ ان کے علم میں نہ تھی اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہدہد کی خبر قوم سبا کے عقیدے کے بارے میں تھی۔حضرت سلیمان ؑ نے اسے یہ نہیں کہا کہ خبر واحد سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا ہے بلکہ زیادہ سے زیادہ جو بات کی‘ وہ یہ تھی کہ ہم تمہاری خبر کی تحقیق کریں گے۔ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ہدہد کی یہ خبر ’خبر الواحد المحتف بالقرائن‘ کے قبیل سے تھی کہ جن سے علم ِیقینی حاصل ہوتا ہے اور قرآن نے’’وَجِئْتُکَ مِنْ سَبَاٍبِنَـبَاٍ یَّـقِیْنٍ‘‘میں اس طرف اشارہ کیاہے کہ اس قسم کی خبر واحد سے علم یقینی حاصل ہوتا ہے۔ یہ دعویٰ درست نہیں ہے کہ علم یقین صرف خبر متواتر سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ علامہ ابن حجررحمہ اللہ، امام نووی رحمہ اللہ کے تعاقب میں لکھتے ہیں :
’’جہاں تک امام نووی رحمہ اللہ کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ تواتر کے بغیر خبر سے علم یقین حاصل نہیں ہوتا ‘تو یہ دعویٰ چند وجوہات سے ناقص دعویٰ ہے۔پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ایسی خبر واحد کہ جس کا قرائن نے اِحاطہ کیا ہو،علم نظری کا فائدہ دیتی ہے جیسا کہ امام لحرمین امام غزالی رحمہ اللہ،علامہ آمدی رحمہ اللہ اور ابن الحاجب رحمہ اللہ وغیرہ نے بیان کیا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ ایسی خبرمستفیض جو کہ کئی طرق سے مروی ہواور اس میں کسی قسم کا طعن نہ ہو،علم حدیث کے ماہرین کو علم نظری کا فائدہ دیتی ہے ۔اس بات کوالاستاذ ابو اسحاق اسفرائینی رحمہ اللہ الاستاذ ابو منصور التمیمی رحمہ اللہ اورالاستاذ ابو بکر بن فورک رحمہ اللہ نے بیان کیاہے۔تیسری بات یہ ہے کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ اس بات پر اجماع ہے کہ ایسی خبر واحد کہ جس کو امت میں ’تلقی بالقبول‘ حاصل ہو،قطعاً صحیح ہوتی ہے او ر کسی خبر کے صحیح ہونے پر اُمت کے اجماع سے جو علم یقین حاصل ہوتا ہے وہ روایت کے طرق کثیرہ یا قرائن محتفہ سے بھی حاصل نہیں ہوتا۔‘‘ (النکت علی ابن الصلاح:۱؍۳۷۷،۳۷۸)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اَحادیث مبارکہ کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ایسا ہے جو’المحتف بالقرائن‘ کی قبیل سے ہے۔ اس بات کو ایک سادہ سی مثال سے یوں سمجھیں کہ زید ۱۵ سال کا ایک نوجوان لڑکا ہے اور اس کے بچپن کے دو دوست حامد اور احمد ہیں۔حامد کی سال میں ایک آدھ دفعہ زید سے ملاقات ہو جاتی ہے جبکہ احمد اس سے مستقل طور پر رابطے میں ہے۔اچانک ایک دن معلوم ہوا کہ زید کو کینسر ہے اور اس کو ہسپتال میں داخل کروادیاجاتا ہے۔ احمد، زید کی عیادت کے لیے بھی ہسپتال جاتا رہتاہے جبکہ حامد کو زید کی اس بیماری کا علم نہیں ہے۔اَچانک ایک دن حامد اور احمد دونوں کو کسی شخص کی طرف سے صرف اتنی خبر ملتی ہے کہ زید کی وفات ہو گئی ہے تو حامد کو ملنے والی خبر، صرف خبر واحد ہے جبکہ احمد کوملنے والی خبر’خبر الواحد المحتف بالقرائن‘ ہے لہٰذ ا اس خبر کو سننے کے بعد دونوں کو حاصل ہونے والا علم یقینامختلف ہوگا۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی تمام روایات ’خبر الواحد المحتف بالقرائن‘میں سے ہیں کہ جن سے علم یقینی حاصل ہوتا ہے۔ اس موضوع پر راقم الحروف کا ایک مضمون ماہنامہ’ محدث ‘ مارچ ۲۰۰۸ء اور ماہنامہ ’حکمت قرآن‘ اکتوبر ۲۰۰۷ء میں شائع ہو چکا ہے۔
اس بات کا امکان موجود ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو یہ معلوم ہو کہ جس علاقے کی خبر ہدہدلے کر آرہا ہے وہاں کوئی قوم آباد ہے، لیکن اس قوم کے عقائد و نظریات کیا تھے اس سے حضرت سلیمان علیہ السلام بے خبر تھے جس کی پھرہدہد نے آ کر ان کو خبر دی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دین (قرآن وسنت)کی روایت کا بنیادی ذریعہ؛سنت کی روشنی میں
اَحادیث میں بھی کثیر تعداد میں اس قسم کے دلائل موجود ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دین(قرآن وسنت) کے منتقل ہونے میں خبر واحد کو بنیادی ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ امام اہل سنت ، امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’الرسالہ‘ میں اس موضوع پر مفصل بحث کی ہے اوردین سے یہ ثابت کیاہے کہ دین کے پہنچنے کا بنیادی ذریعہ خبر واحد ہی ہے ۔
پہلی دلیل:امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’اگر کوئی کہنے والا یہ کہے کہ تم اس بارے میں کہ خبر واحد سے دین ثابت ہوتا ہے، خود خبر سے یا اس خبر کی کسی دلالت سے یا اجماع سے حجت پیش کرو تو میں اس سے کہوں گا: مجھے سفیان نے عبد الملک بن عمیر سے خبر دی ہے۔وہ عبد الرحمن بن عبد اللہ بن مسعود سے اور وہ اپنے باپ سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ اس شخص کو سرسبز و شاداب رکھے جس نے میری کوئی بات سنی پس اس کو محفوظ کیا ہے پھر یاد کیا اور پھرآگے ادا کر دیا۔پس کتنے ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کہ کسی گہرے کلام کے حاملین تو ہوتے ہیں لیکن فقیہ نہیں ہوتے۔اور بہت سارے گہری باتوں کے حاملین ایسے بھی ہوتے ہیں جو کہ اپنے سے زیادہ فقیہ و سمجھدار کو وہ بات نقل کرنے والے ہوتے ہیں۔۔۔پس جب اللہ کے رسولﷺ نے اپنے اقوال کے سننے ‘ ان کو یاد کرنے اور پھر ان کو آگے پہنچانے کو کسی بھی شخص کے لیے مستحب قرار دیاہے ،جب کہ وہ ایک بھی ہو، اس بات پر دلالت کرتاہے کہ آپؐ اپنی طرف سے کسی بھی ایسی بات کوپہنچانے کا حکم نہیں دیں گے کہ جس سے اس شخص پر حجت قائم نہ ہوتی ہو کہ جس تک وہ بات پہنچائی جائے، کیونکہ آپؐ کی طرف سے حلال و حرام بھی پہنچایا جائے گا اور ایسی حدود بھی کہ جن کو قائم کیا جائے ‘ ایسا مال بھی جو کہ دیا یا لیاجائے اوردین و دنیا کی نصیحت بھی۔ ‘‘(الرسالۃ:باب الحجۃ فی تثبیت خبر الواحد)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپؐ کی طرف سے کوئی بھی خبر واحد کسی شخص تک پہنچ جائے تو اس کا ماننا اس کے لیے حجت ہے ۔
امام شافعی رحمہ اللہ نے اس مسئلے کے ثبوت میں کئی ایک دلائل بیان کیے لیکن ہم یہاں صرف انہی دلائل کا تذکرہ کر رہے ہیں کہ جن کے ذریعے قرآن ثابت ہوتا ہے۔امام شافعی رحمہ اللہ کے بقول قرآن بھی ’خبر الواحد المحتف بالقرائن‘سے ثابت ہوتا ہے اور اس کے لیے ان کے پاس درج ذیل دلائل ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسری دلیل:امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ہمیں مالک نے عبد اللہ بن دینار سے اور انہوں نے عبداللہ بن عمرؓ سے خبر دی ہے کہ اس دوران کہ لوگ قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ان کے پاس ایک آنے والا آیا اور اس نے یہ کہا: بے شک اللہ کے رسولﷺپر قرآن نازل ہوا ہے اور آپؐ ،کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ آپؐ بیت اللہ کی طرف رخ کریں تو ان تمام لوگوں نے بیت اللہ کی طرف رخ کر لیا جبکہ اس سے پہلے ان کا رُخ شام کی طرف تھا تو وہ (نماز کی حالت میں ہی) کعبہ کی طرف پھر گئے۔اہل قباء ان لوگوں میں سے ہیں جو انصار میں ایمان و دین کی سمجھ دونوں کے اعتبار سے سبقت لے جانے والوں میں سے تھے۔یہ لوگ اس قبلے پر تھے کہ جس کی طرف رخ کرنا اللہ تعالیٰ نے ان پر فرض کیا تھا اور ان کے لیے یہ بالکل بھی جائز نہیں تھا کہ وہ قبلہ کے حوالے سے ا للہ تعالی کے ایک فرض حکم کو(کسی خبر کی وجہ سے) چھوڑ دیں سوائے اس( خبر )کے کہ جس سے ان پر حجت قائم ہوتی ہوحالانکہ انہوں نے اللہ کے رسولﷺ سے ابھی(اس نئے حکم کی تصدیق کے بارے میں) ملاقات بھی نہ کی تھی اور نہ ہی انہوں نے ان آیات کو سنا تھا کہ جو کہ اللہ تعالی نے تحویل قبلہ کے بارے میں آپؐ پر نازل کی تھیں‘ پس وہ سب اللہ کی کتاب (کے نزول) اور آپؐ کی سنت کی خبر آپﷺ کی طرف سے سن کرقبلہ رخ ہو جاتے اور نہ ہی انہوں نے خبر عامہ کی بنیاد پر ایسا کیا ۔ وہ خبر واحد کو سن کر ‘ جبکہ اس کے نقل کرنے والے ان کے نزدیک اہل صدق میں سے ہوں‘ اس فرض سے منتقل ہو جاتے ہیں کہ جس پر وہ پہلے سے تھے۔ پس وہ ایک شخص کی اللہ کے رسولﷺ کی طرف منسوب اس خبر کی وجہ سے اپنے قبلے کو ترک کر دیتے ہیں کہ آپؐ نے ان کے بارے میں تحویل قبلہ کا ایک نیا حکم جاری کیاہے۔یہ صحابہؓ اس وقت تک کسی خبر کی بنیاد پریہ کام کرنے والے نہ تھے ‘ ان شاء اللہ تعالیٰ ‘ جب تک کہ ان کو اس بات کاعلم نہ ہوتا کہ اس قسم کی خبر سے حجت قائم ہو جاتی ہے‘ بشرطیکہ کہ خبر دینے والا اہل صدق میں سے ہو۔( اسی طرح)صحابہؓ اس وقت تک اس قسم کے عظیم دینی معاملے کو (بذریعہ خبر واحد)بیان کرنے والے نہ ہوتے جب تک ان کویہ معلوم نہ ہوتا کہ اس طرح کے معاملات کو بھی اس طرح(یعنی خبر واحد کی صورت میں) بیان کرنے کی ان کو اجازت ہے اور وہ اللہ کے رسولﷺ کو ضرور اس بات کی خبر دیتے جو کہ انہوں نے آپؐ کی طرف منسوب خبر کی بنیاد پر کیاتھا۔صحابہ کو جو خبر واحد دی گئی تھی ‘ اگر اس خبر کی بنیاد پر ان کے لیے اس قبلہ کو تبدیل کرنا‘ جوکہ ان پر فرض تھا‘ جائز نہ ہوتا تو اللہ کے رسولﷺ ان شاء اللہ ضرور صحابہؓ سے یہ بات کہتے کہ تم ایک قبلے کی پیروی کر رہے تھے اور تمہارے لیے اس قبلے سے پھرنا اس وقت تک جائز نہیں تھا جب تک کہ تمہیں اس ذریعے سے قبلہ کی تبدیلی کا علم نہ ہوجاتا کہ جس سے حجت قائم ہو جاتی ہے مثلاً تم مجھ سے براہ راست سن لیتے یا تم تک کوئی خبر العامہ پہنچتی یا ایک سے زائد افراد تمہیں اس بارے میں خبر دیتے۔‘‘ (ایضاً)
اہل قبا اللہ کے رسولﷺ سے زیادہ دور آبادنہ تھے‘ ان میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ ہم اللہ کے رسول1 کے پاس جا کر پہلے اس خبر کی تصدیق کریں گے کہ واقعتاً قبلہ تبدیل ہو گیا یا نہیں‘پھر ہم اس خبر واحدکو قبول کریں گے۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ’’خبر واحد المحتلف بالقرائن‘‘ سے قرآن بھی ثابت ہوتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تیسری دلیل:امام شافعی رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں:
’’ہمیں مالک نے اسحاق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ سے خبر دی ہے، انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے خبر دی ہے کہ انہوں نے کہا: کہ میں حضرت ابوطلحہ،ابو عبیدہ بن جراح اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہم کو کچی اور پکی کھجوروں کی شراب پلاتا تھا۔پس ان کے پاس ایک آنے والا آیا اور اس نے کہا: بے شک شراب حرا م کر دی گئی ہے تو ابو طلحہ نے کہا: اے انس ! اس مٹکے کے پاس کھڑے ہو جاؤ اور اس کو توڑ دو۔پس میں نے اپنا کھجوریں کوٹنے والا موسل اٹھایا اور اسے مٹکے کے نچلے حصے پر دے مارا یہاں تک کہ وہ ٹوٹ گیا۔ یہ صحابہؓ اللہ کے نبیﷺ کے ہاں مرتبے و علم کے اعتبار سے ایک مقام پر تھے اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کو اللہ کے رسول رضی اللہ عنہم کی جو صحبت نصیب ہوئی ہے اس کا تو کوئی بھی عالم انکار نہیں کرے گا۔ ان صحابہؓ کے نزدیک شراب حلال تھی اور وہ اس کوپی رہے تھے پس ان کے پاس ایک آنے والا آتاہے اور انہیں شراب کی حرمت کی خبر دیتا ہے ۔پس ابو طلحہ جو کہ شراب کے مٹکے کے مالک تھے، اس مٹکے کو توڑنے کا حکم دیتے ہیں۔پس نہ ابوطلحہ نے ، نہ ان سب صحابہ رضی اللہ عنہم نے اور نہ ہی ان میں کسی ایک صحابیؓ نے یہ بات کہی کہ ہم تو شراب کو اس وقت تک حلال سمجھیں گے جب تک خود اللہ کے رسولﷺ سے ملاقات (کر کے اس کی حرمت معلوم ) نہ کر لیں جبکہ آپؐ ان صحابہؓ کے بہت قریب بھی تھے‘ اسی طرح ان صحابہؓ نے یہ بھی نہیں کہا کہ جب تک ہمارے پاس ’خبرالعامہ‘ نہیں آئے گی ہم اس وقت تک شراب کی حرمت کا یقین نہیں کریں گے۔اور یہ اس وجہ سے بھی ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کسی بھی حلال شے کو بہاکے ضائع کرنے والے نہیں ہیں، کیونکہ حلال کوضائع کرنا اسراف ہے اورصحابہ رضی اللہ عنہم مسرفین نہیں تھے۔‘‘ (الرسالۃ:باب الحجۃ فی تثبیت خبر الواحد)
 
Top