ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
روایت’ دوری‘ میں بیروت سے شائع ہونے والے ایک مصحف کے آخر میں ہے:
’’پس اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے احسان اور فضل سے امام ابوعمروبصری ؒکے شاگرد ’دُوری‘ کی روایت میں قرآن کو چھاپنے کی توفیق دی ہے ۔اس مصحف کو شام کے فضیلۃ الشیخ محمد کریم راجح اور محمد فھد خاروف نے علم قراء ات، علم الرسم، علم الضبط، علم الفواصل،علم الوقف اور علم التفسیر کے بنیادی مصادر کی رہنمائی میں تیار کیا ہے‘‘۔
اسی طرح مراکش سے ’وزارۃ الأوقاف والشؤون الاسلامیۃ المملکۃ المغربیۃ‘کے تحت شائع ہونے والے مصحف کے آخر میں بھی قراء کی ایک فہرست بیان کی گئی ہے کہ جنہوں نے اس روایت کی تصدیق کی ہے۔یہ مصحف مراکش کی حکومت کی طرف سے سرکاری طور پر جاری کیا گیا ہے اور یہ روایت ورش میں ہے کیونکہ مراکش اور افریقہ کے اکثر ممالک میں عامۃ الناس روایت ورش میں قرآن پڑھتے ہیں۔
اسی طرح کا معاملہ مصر اور پاکستان سے شائع ہونے والے مصاحف کا بھی ہے ۔مصر میں جامعۃ الازھر کے ما تحت ادارے ’مجمع البحوث الاسلامیۃ‘ کی تصدیق کے بعد مصاحف شائع کیے جاتے ہیں، جبکہ پاکستان میں ’وزارۃ الأوقاف‘ کی طرف سے مقرر کردہ قراء حضرات کی تصدیق کے بعد قرآن کی طباعت اور نشر واشاعت کی اجازت دی جاتی ہے۔
مکتبہ کلِّیہ القرآن، جامعہ لاہور الاسلامیہ میں عالم اسلام میں مروج چار قراء ات میں چالیس کے قریب مطبوع مصاحف موجود ہیں، جن میں تمام مصاحف کے آخر میں ماہر قراء کے تصدیق نامے موجود ہیں اور اس کے بعد ہی وہ مصاحف نشر کیے گئے ہیں۔ شائقین حضرات تحقیق کی غرض سے ان مصاحف کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔
یہ تو مصاحف کا معاملہ ہے جبکہ دوسری طرف مصاحف سے قرآن پڑھنے کے لیے بھی عامۃ الناس قراء ہی کے محتاج ہیں۔ ہمارے معاشرے کا ۹۹ فی صد طبقہ ایسا ہے جو آج بھی مسجد کے قاری صاحب سے قرآن حاصل کررہا ہے، نہ کہ اپنے ماں، باپ یا دادا، دادی یا نانا نانی سے۔جس ایک فی صد طبقے نے اپنی نانی و دادی سے قرآن سیکھا بھی ہے تو امر واقعہ ہے کہ یہ لوگ قرآن کی دو سطریں بھی درست نہیں پڑھ سکتے ہیں۔پس ثابت ہوا کہ اصل قرآن قراء ہی سے حاصل ہوتا ہے نہ کہ عامۃ الناس سے اور عامۃ الناس قرآن کے حصول میں قراء کے تابع ہیں ۔
’’پس اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے احسان اور فضل سے امام ابوعمروبصری ؒکے شاگرد ’دُوری‘ کی روایت میں قرآن کو چھاپنے کی توفیق دی ہے ۔اس مصحف کو شام کے فضیلۃ الشیخ محمد کریم راجح اور محمد فھد خاروف نے علم قراء ات، علم الرسم، علم الضبط، علم الفواصل،علم الوقف اور علم التفسیر کے بنیادی مصادر کی رہنمائی میں تیار کیا ہے‘‘۔
اسی طرح مراکش سے ’وزارۃ الأوقاف والشؤون الاسلامیۃ المملکۃ المغربیۃ‘کے تحت شائع ہونے والے مصحف کے آخر میں بھی قراء کی ایک فہرست بیان کی گئی ہے کہ جنہوں نے اس روایت کی تصدیق کی ہے۔یہ مصحف مراکش کی حکومت کی طرف سے سرکاری طور پر جاری کیا گیا ہے اور یہ روایت ورش میں ہے کیونکہ مراکش اور افریقہ کے اکثر ممالک میں عامۃ الناس روایت ورش میں قرآن پڑھتے ہیں۔
اسی طرح کا معاملہ مصر اور پاکستان سے شائع ہونے والے مصاحف کا بھی ہے ۔مصر میں جامعۃ الازھر کے ما تحت ادارے ’مجمع البحوث الاسلامیۃ‘ کی تصدیق کے بعد مصاحف شائع کیے جاتے ہیں، جبکہ پاکستان میں ’وزارۃ الأوقاف‘ کی طرف سے مقرر کردہ قراء حضرات کی تصدیق کے بعد قرآن کی طباعت اور نشر واشاعت کی اجازت دی جاتی ہے۔
مکتبہ کلِّیہ القرآن، جامعہ لاہور الاسلامیہ میں عالم اسلام میں مروج چار قراء ات میں چالیس کے قریب مطبوع مصاحف موجود ہیں، جن میں تمام مصاحف کے آخر میں ماہر قراء کے تصدیق نامے موجود ہیں اور اس کے بعد ہی وہ مصاحف نشر کیے گئے ہیں۔ شائقین حضرات تحقیق کی غرض سے ان مصاحف کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔
یہ تو مصاحف کا معاملہ ہے جبکہ دوسری طرف مصاحف سے قرآن پڑھنے کے لیے بھی عامۃ الناس قراء ہی کے محتاج ہیں۔ ہمارے معاشرے کا ۹۹ فی صد طبقہ ایسا ہے جو آج بھی مسجد کے قاری صاحب سے قرآن حاصل کررہا ہے، نہ کہ اپنے ماں، باپ یا دادا، دادی یا نانا نانی سے۔جس ایک فی صد طبقے نے اپنی نانی و دادی سے قرآن سیکھا بھی ہے تو امر واقعہ ہے کہ یہ لوگ قرآن کی دو سطریں بھی درست نہیں پڑھ سکتے ہیں۔پس ثابت ہوا کہ اصل قرآن قراء ہی سے حاصل ہوتا ہے نہ کہ عامۃ الناس سے اور عامۃ الناس قرآن کے حصول میں قراء کے تابع ہیں ۔