آپ کی دوسری پوسٹ میں میرے علم کے مطابق جو اعتراضات آتے ہیں وہ اگلی پوسٹ میں ان شاء اللہ بیان کروں گا
محترم
خضر حیات بھائی ایک ایک کر کے جواب دیتا چلوں
پہلا اشکال
راجح نقطہ نظر
1-ادھار کی صورت میں اضافے کا جواز خود قرآن کی آیت
( وَأَحَل اللہُ البیعَ ) '' اللہ تعالی نے بیع کو حال کیا ہے '' سے ثابت ہے ۔ کیونکہ یہ آیت ان لوگوں کے رد میں نازل ہوئی ہے جیساکہ ابن جریر طبری ، علامہ ابن العربی اور امام رازی رحمہم اللہ نے بیان کیا ہے ۔ جن کا اعتراض یہ تھا کہ جب عقد بیع کے وقت ادھار کی زیادہ قیمت مقرر کی جاسکتی ہے تو پھر وقت پر ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں اضافہ کیوں نہیں کیا جاسکتا ۔ وہ کہتے دونوں صورتیں یکساں ہیں ۔
اسکے بارے کچھ تو استادِ محترم عبد المنان نور پوری رحمہ اللہ نے اوپر جواب دے دیا تھا کچھ مفسریں کے اقوال کا جواب یہاں دینا ہے
اس کو سمجھنے کے لئے پہلے دیکھیں کہ اصل قیمت پر اضافہ کون کون سا ہو سکتا ہے اوپر پھر بعد میں دیکھیں گے کہ کون سا اضافہ کس نص کے تحت یا کس وجہ کے تحت حرام ہے تو میرے خیال میں دو وجوہات سے ہوتا ہے
1-ایک وقت کا خیال رکھے بغیر
2-دوسرا وقت کا خیال رکھتے ہوئے
اسکے کے علاوہ کوئی اور وجوہات یا صورتیں بن سکتی ہیں تو بتا دیں تاکہ انکو دیکھا جا سکے
میری اوپر کی تقسیم کرنے میں دو بڑی وجوہات شامل ہیں
1-سود کی علت والا معاملہ بھی حل ہو جاتا ہے
2-یہ بھی پتا تب ہی چل سکتا ہے کہ احل اللہ البیع و حرم الربوا میں معترضین کو کون سا سکیل دیا جائے گا تاکہ انکا اعتراض ختم ہو کیونکہ اگر ہم تقسیم اس طرح کریں کہ شروع اور بعد کا فرق بتائیں (جیسے محترم صاحب مضمون بھائی نے لکھا ہے کہ شروع میں طے جائز اور بعد میں ناجائز ) تو پھر معترضین یہ کہ سکتے ہیں کہ پھر اللہ نے جواب بغیر کسی سکیل کے کیوں دیا
اب جہاں تک مفسرین کے احل اللہ البیع کی تفسیر میں اقوال لکھے گئے ہیں تو میرے خیال میں میری اوپر والی تقسیم کے مطابق احتمال زیادہ ہے اور صاحبِ مضمون کی تقسیم کے لحاظ سے احتمال کم ہے پس صرف صاحب مضمون کے احتمال کا صحیح ہونا ثابت نہیں ہوتا چنانچہ انکو دیکھتے ہیں
1-ابن جریر نے لکھا ہے (ہم بیع کے آغاز میں اضافہ کریں یا مدت پوری ہونے پر دونوں صورتوں میں یکساں ہیں۔ تو اللہ تعالی نے ان کی تردید فرمائی)
2-ابن العربی نے لکھا ہے (یعنی مدت پوری ہونے پر جو اضافہ کیا جاتا ہے وہ شروع عقد میں اصل قیمت میں اضافہ کی مانند ہے تو اللہ تعالی نے ان کے اس قول کا رد فرمایا ہے)
3-رازی نے لکھا ہے (جب کوئی شخص ایک کپڑا دس کا خرید کر گیارہ کا بیچے تو یہ جائز ہے اسی طرح جب دس ( درہم ) گیارہ کے بیچے تو معاملہ بھی جائز ہونا چاہیے ۔ کیونکہ دونوں صورتوں میں عملا کوئی فرق نیہں ہے ۔ یہ شبہ تو ربا النقد کے متعلق تھا ۔ '' رباالنسیئۃ '' کے بارہ میں یہ شبہ تھا کہ وہ کپڑا جس کی نقد قیمت دس ( درہم ) دے کر مہینے بعد گیارہ لے تو یہ بھی جائز ہونا چاہیے کیونکہ عقلی اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں)
ان تفاسیر کو ذکر کرنے کے بعد صاحب مضمون لکھتے ہیں
ان جلیل القدر آئمہ تفسیر کے بیان سے ثابت ہوا کہ اہل جاہلیت کی اصل غلطی یہ تھی کہ وہ وقت پر ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں اصل دین پر اضافہ کو
ادھار کی صورت میں زیادہ قیمت لینے پر قیاس کرتے تھے ۔ تو اللہ تعالی نے اس کا رد کرتےہوئے فرمایا کہ ادھار کی صورت میں قیمت میں اضافہ کرنا بیع میں شامل ہے جوجائز ہے جبکہ بروقت ادائیگی نہ کرنیکی صورت میں اضافہ سود ہے جو حرام ہے ۔
محترم بھائی نشان زدہ الفاظ کو اوپر تفاسیر سے ذرا مطابقت دیں تو پتا چل جائے گا کہ کسی مفسر سے ایسا ثابت نہیں بلکہ وہ شروع میں اضافہ سے مراد تجارت کے عقض منافع ہے جو محنت کے عوض لیا جاتا ہے بلکہ امام رازی کی تفسیر سے تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے اور میری تقسیم ہی ٹھیک قرار پاتی ہے صاحب مضمون والا احتمال بھی نہیں بلکہ میرے والا ہی صرف احتمال ہو سکتا ہے