• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قسطوں میں خرید و فروخت ۔

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
ادھار کی صورت میں قیمت کا زیادہ ہونا مسلمانوں میں عام تھا،جسے اسلامی معاشرے میں رواج حاصل تھا جیسا کہ مذاہب اربعہ میں اسے کھول کر بیان کردیا گیا ہے جیسا کہ حنفی مذہب میں ہے:
( الثمن قد يزاد لمكان الأجل ) بدائع الصنائع 5 / 187
بعض اوقات مدت كےعوض قيمت بڑھ جاتي ہے ) بدائع الصنائع ( 5 / 187
مالكي مذهب :
( جَعل للزمان مقدار من الثمن ) بداية المجتهد 2 / 108
وقت كےليے قيمت ميں سے كچھ مقدار ركھي گئي ہے ) بدايۃ المجتھد ( 2 / 108
شافعي مذهب :
( الخمسة نقداً تساوي ستة نسيئة ) الوجيز للغزالي 1 / 85
نقد پانچ ادھار ميں چھ كےبرابر ہے ) الوجيز للغزالي ( 1 / 85
حنبلي مذهب:
( الأجل يأخذ قسطاً من الثمن ) فتاوى ابن تيمية 29 / 499
مدت قيمت ميں سے كچھ حصہ ليتي ہے ) فتاوي ابن تيميۃ ( 29 / 499
لہذا یہ بات تو مسلم ہے کہ ادھار کی صورت میں قیمت نقد کے مقابلے میں بڑھ جاتی ہے،یہی بات رسول اللہ، سلف صالحین اور دیگر سلفی علماء سے ثابت ہے۔
 
Last edited:

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
ادھار کی صورت میں قیمت کے زیادہ ہونے پر یہ حدیث قوی دلیل ہے،جسے امام احمد نے بسند صحیح اپني مسند میں ذکر کیا ہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ، رُدُّوا عَلَيْهِمْ نِسَاءَهُمْ وَأَبْنَاءَهُمْ ، فَمَنْ تَمَسَّكَ بِشَيْءٍ مِنَ الْفَيْءِ، فَلَهُ عَلَيْنَا سِتَّةُ فَرَائِضَ مِنْ أَوَّلِ شَيْءٍ يُفِيئُهُ اللهُ عَلَيْنَا " السلسلة الصحيحة:١٩٧٣
اے لوگو! ان کو ان کے بچے اور واپس کر دو اور جو کوئی مال فئے کی کوئی چیز اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے تو ہمارے پاس پہلا جو مال فئے آئے گا اس میں سے ہمارے ذمے اس کے چھ حصے ہیں۔
امام ابن قيم اس حديث كو ادھار كي صورت ميں قيمت كے زياده هونے کی دليل مان كر لكھتے هيں:


ففي هذادليلعلى جوازبيع الرقيق بلالحيوان بعضه ببعض نسيئةومتفاضلا.
الہدی؛
(3\426)
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
اس فورم کے علمی نگران کےپاس تو اپنی غلطی کی اصلاح کا وقت بھی نہیں ہے،ایک صحیح حدیث کو ضعیف قرار دے کر اپنی جان چھڑا لی اور اب کہ جب اس حدیث کی صحت ثابت ہوگئی ہے،جان بوجھ کر چپ سادھے ہوئے ہیں،اب دیکھنا یہ ہے کہ میری درست پوسٹ پر تو کسی کوئی کمنٹس نہیں دیا ،لیکن اب میرے اوپر اعتراضات کی بھرمار ہوجائے گی
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
اس موضوع پر ناچیز کا بھی ایک مضمون ہے جو کہ المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی سے شائع ہونے والے سہہ ماہی رسالے کی خاص اشاعت معیشت نمبر میں شائع ہوا ہے۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ اس کی اسکین تصاویر یہاں پیسٹ کردوں۔
جناب یونس اثری صاحب اس مضمون کی ایک کاپی عنایت ہوجائے تو بندہ شکر گزار ہوگا
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اس فورم کے علمی نگران کےپاس تو اپنی غلطی کی اصلاح کا وقت بھی نہیں ہے،ایک صحیح حدیث کو ضعیف قرار دے کر اپنی جان چھڑا لی اور اب کہ جب اس حدیث کی صحت ثابت ہوگئی ہے،جان بوجھ کر چپ سادھے ہوئے ہیں،اب دیکھنا یہ ہے کہ میری درست پوسٹ پر تو کسی کوئی کمنٹس نہیں دیا ،لیکن اب میرے اوپر اعتراضات کی بھرمار ہوجائے گی
اشماریہ
کفایت اللہ سنابلی
ابو اسحاق سلفی
علمی ابحاث میں اختلاف عام چیز ہے اور ضروری نہیں کہ آپ پر ہر کوئی کمنٹس دے۔
میں جواز کی رائے کو راجح سمجھتا ہوں۔ اور اس کی وجہ یہ سمجھتا ہوں جب میں زید کو کوئی چیز دیتے وقت کہتا ہوں کہ یہ نقد میں دس کی اور ادھار میں بیس کی ہے تو درحقیقت یہ بیع ہے ہی نہیں بلکہ یہ فقط مقدار ثمن کی اطلاع ہے کہ اگر بیع کرو گے تو ثمن اس اس طرح ہوگا۔
جب زید اس بات کی تعیین کرتا ہے کہ میں ادھار لیتا ہوں یا میں نقد لیتا ہوں تو یہ ایجاب ہے اور میرا اس کو چیز دینا تعاطیاً قبول ہے۔
میں اپنی چیز اگر صرف ادھار بیس کی بیچوں اور نقد نہ بیچوں نہ ذکر کروں تو مجھے اس کا بالاتفاق اختیار ہے۔ اسی طرح یہاں جب زید ادھار کی تعیین کرتا ہے تو بیع اب شروع ہوئی ہے اور یہ بیع ادھار ہے، اس میں نقد کا کوئی شائبہ ہی نہیں ہے۔ اس لیے اس کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ تاخیر کے بدلے پیسے ہیں یا یہ کہنا کہ حدیث من باع۔۔۔الخ کے تحت داخل ہے ابتداءً ہی درست نہیں معلوم ہوتا۔
ہاں اگر میں زید کو نقد اور ادھار کی قیمت بتاؤں اور وہ بغیر تعیین لے جائے تو اس صورت میں میرا بتانا ایجاب ہے اور اس کا لینا آخذاً قبول ہے۔ اس صورت میں یہ ان ادلہ مانعۃ کے تحت داخل ہوتا ہے۔ اور یہی حضرت عبد اللہ بن مسعود رض کے قول کا مفہوم معلوم ہوتا ہے۔
و اللہ اعلم
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی

س 2: اُدھار فروخت کرتے وقت تاجر جو اپنی طرف سے قیمت ميں زیادتی کر دیتا ہے، کیا یہ زیادتی سود میں شمار ہوگی یا نہیں؟
مثال کے طور پر ایک چیز اگر نقد خریدی جائے تو اس کی قیمت پانچ سو درھم ہے،
اور اگر اسی کو اُدھار اور قسطوں میں خريدی جائے، تو اس کی قیمت کے ساتھ، پانچ یا دس فیصد اس کی قیمت پر بڑھا دی جاتی ہے،
تو کیا یہ زیادتی سود میں شمار ہو گی یا نہیں؟ ہم آنجناب سے مع دلیل اطمینان بخش جواب کے متمنی ہیں؟

ج 2: جب سامانِ تجارت ادھار کی شکل ميں اپنے مارکيٹ ريٹ سے بڑھا کر فروخت کیا جائے، اور فروخت کے وقت بڑھائی گئی رقم کے ساتھ، ادھار قيمت کی تعیین ہو جائے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، چاہے ایک مدت کے بعد اس کی یکمشت ادائیگی ہو یا پھر ماہانہ قسطوں میں ایک متعین مدت تک ادا کیا جائے، چنانچہ صحيحين میں حضرت عائشہ رضی الله عنها سے مروی ہے، فرماتی ہیں کہ:

حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا نے اپنے آپ کو اپنے آقا سے نو اوقیہ کے عوض خرید لیا، جس کی ادائیگی سالانہ ایک اوقیہ تھی۔

(جلد نمبر 13; صفحہ 91)


اور یہ ماہواری قسطوں میں کئے جانے والا معاملہ ہے۔

وباللہ التوفیق۔ وصلی اللہ علی نبینا محمد، وآلھ وصحبھ وسلم۔


عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز

ح
http://www.alifta.net/Search/ResultDetails.aspx?languagename=ur&lang=ur&view=result&fatwaNum=&FatwaNumID=&ID=4634&searchScope=3&SearchScopeLevels1=&SearchScopeLevels2=&highLight=1&SearchType=exact&SearchMoesar=false&bookID=&LeftVal=0&RightVal=0&simple=&SearchCriteria=allwords&PagePath=&siteSection=1&searchkeyword=217130216179216183217136218186#firstKeyWordFound

ح
 
Last edited:

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
علمی ابحاث میں اختلاف عام چیز ہے اور ضروری نہیں کہ آپ پر ہر کوئی کمنٹس دے۔
مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ ایک صحیح حدیث کو ضعیف قرار دینااور پھر اس پر اڑے رہنا،مان لیا کہ یہ غلطی سے ہوگیا ہوگا، لیکن اگر کوئی شخص اس غلطی پر متنبہ کرے اور غلطی کرنے والا اس پر کوئی کمنٹس نہ دے، اور سو فیصد غلط ہونے کے باوجود چپ سادھ لے تو بتائیں کہ کیا بندے کو دکھ نہیں ہوتا؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
اس کے علاوہ عرب کے ایسے علما جو فقاہت میں ایک درجہ رکھتے ہیں،ان کا بھی یہی موقف ہے کہ قسطوں والی بیع جائز ہے،ان علمائے کرام میں محمد صالح العثیمین،صالح المنجد،محمد صالح الفوزان وغیرہم کا بھی یہی موقف ہے۔
 
Top