محترم حافظ عمران بھائی آپ نے شیخ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ کے مضمون پہ کچھ اشکال اٹھائے ہیں لیکن بات ابھی مبہم ہے
حافظ ارشد صاحب بیان کی گئی دو دلیلیں ہی اس موضوع میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں،ادھار کی صورت میں زیادہ قیمت وصول کرنا رسول اللہ اور سلف صالحین سے ثابت ہے،جیسا کہ درج ذیل حدیث اور آثار میں بیان کیا گیا ہے؛
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سےمروی ہے :أَنَّ النَّبِیَّؐ أَمَرَہ، أَنْ یُّجَھِّزَ جَیْشاً فَنَفِدَتِ الْاِبِلُ ، فَأَمَرَہ، أَنْ یَأْخُذَ عَلٰی قَلَائِصِ الصَّدَقَۃِ ، فَکَانَ یَأْخُذُ الْبَعِیْرَ بِالْبَعِیْرَیْنِ إِلٰی إِبِلِ الصَّدَقَۃِ.(مشکٰوۃ المصابیح بتحقیق الألبانی٢/٨٥٨).
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما روایت کر تے ہیں کہ نبی ؐ نے انہیں ایک لشکر کی تیاری کا حکم دیا ،اونٹ کم پڑ گئے تو آپؐ نے انہیں فرمایا : صدقے کی اونٹنیاْں آنے تک ادھار لے لو ،چنانچہ وہ صدقے کے اونٹ آنے تک دو اونٹوں کے بدلے ایک اونٹ لیتے تھے (یعنی جس سے ادھار اونٹ لیتے اسے کہتے کہ جب صدقے کے اونٹ آئیں گے توہم تمہیں ایک کی بجائے دو اونٹ دیں گے )
حافظ زبیر علی زئی البانی اور شعیب الارناؤط نے اسے حسن کہا ہے،
سنن ابوداود حدیث٣٣٥٧،طبع دار السلام لاہور
ارواء الغلیل؛حدیث؛1358،
مسند احمد؛حدیث؛٦٥٩٣
صحيح البخاري: كِتَابُ البُيُوعِ (بَابُ بَيْعِ العَبِيدِ وَالحَيَوَانِ بِالحَيَوَانِ نَسِيئَةً)
صحیح بخاری: کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان (باب : غلام کو غلام کے بدلے اورکسی جانور کو جانور کے بدلے ادھار بیچنا)
ترجمة الباب: وَاشْتَرَى ابْنُ عُمَرَ رَاحِلَةً بِأَرْبَعَةِ أَبْعِرَةٍ مَضْمُونَةٍ عَلَيْهِ، يُوفِيهَا صَاحِبَهَا بِالرَّبَذَةِ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ «قَدْ يَكُونُ البَعِيرُ خَيْرًا مِنَ البَعِيرَيْنِ» وَاشْتَرَى رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ بَعِيرًا بِبَعِيرَيْنِ فَأَعْطَاهُ أَحَدَهُمَا، وَقَالَ: «آتِيكَ بِالْآخَرِ غَدًا رَهْوًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ» وَقَالَ ابْنُ المُسَيِّبِ: لاَ رِبَا فِي الحَيَوَانِ: البَعِيرُ بِالْبَعِيرَيْنِ، وَالشَّاةُ بِالشَّاتَيْنِ إِلَى أَجَلٍ وَقَالَ ابْنُ سِيرِينَ: «لاَ بَأْسَ بَعِيرٌ بِبَعِيرَيْنِ نَسِيئَةً»
ترجمۃ الباب : اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک اونٹ چار اونٹوں کے بدلے میں خریدا تھا۔ جن کے متعلق یہ طے ہوا تھا کہ مقام ربذہ میں وہ انہیں اسے دے دیں گے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ کبھی ایک اونٹ، دو اونٹوں کے مقابلے میں بہتر ہوتا ہے۔ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے ایک اونٹ دو اونٹوں کے بدلے میں خریدا تھا۔ ایک تو اسے دے دیا تھا، اور دوسرے کے متعلق فرمایا تھا کہ وہ کل ان شاءاللہ کسی تاخیر کے بغیر تمہارے حوالے کر دوں گا۔ سعید بن مسیب نے کہا کہ جانوروں میں سود نہیں چلتا۔ ایک اونٹ دو اونٹوں کے بدلے، اور ایک بکری دو بکریوں کے بدلے ادھار بیچی جاسکتی ہے ابن سیرین نے کہا کہ ایک اونٹ دو اونٹوں کے بدلے ادھار بیچنے میں کوئی حرج نہیں۔
حافظ صاحب کیا ادھار کی صورت میں زیادہ قیمت وصول کرنے کے لیے یہ دلائل نا کافی ہیں؟ اگر کوئی اعتراض یا ابہام ہے تو سامنے لائیں،ورنہ بات یہیں ختم ہوتی ہے۔