• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

لائف و میڈیکل إنشورنس کا حکم

صمیم طارق

مبتدی
شمولیت
دسمبر 10، 2017
پیغامات
17
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
9
لائف کنونشنل إنشورنس و تکافل اور میڈیکل إنشورنس کا حکم الگ الگ مطلوب ہے دلائل کے ساتھ؟ نیز إنشورنس و تکافل کی کمپنی میں کمیشن پر کام کرکے روزی کمانے کیلئے بھی۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
شیوخ سے گزارش ہے کہ جوابات سے پہلے ان اشیاء (معاملات) کی تفصیل بھی بتائیں تاکہ مسئلہ اچھی طرح سے سمجھ سکیں.
جزاکم اللہ خیرا
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
میرا یہ موضوع ہے لیکن یہ طویل موضوع ہے جس پر فی الحال بات کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ دلائل کے لیے اگر مولانا عصمت اللہ صاحب کی تکافل والی کتاب دیکھ لی جائے تو مناسب ہے کہ وہ خود اس میدان میں ہیں۔
دو دن قبل ہم نے پاک قطر تکافل کا دورہ بھی کیا ہے جہاں مفتی شاکر صاحب نے مختلف معاملات پر روشنی ڈالی۔ اس پر ان شاء اللہ ایم بی اے کے امتحانات کےبعد کسی وقت لکھتا ہوں۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم


عمر اثری بھائی نے صحیح لکھا، میری طرف سے بھی کہ سائل کو اس پر کیا معلومات چاہئے اپنے سوال کو واضع کرے تاکہ شیوخ صاحبان کو اسی کو فوکس کرنا پڑے، ورنہ میرے جیسے آپ کو اس پر لنکس پیش کر سکتے ہیں جسے سمجھنا آپکا کام ہے جو شائد مشکل بھی ہو سکتا ہے۔


انشورنس ایک شرعی مطالعہ، کتاب

https://www.jasarat.com/2017/12/18/171218-03-5/

میڈیکل انشورنس جائز یا حرام

لائف انشورنس

انشورنس حصص

والسلام
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,591
پوائنٹ
791
ایک فتویٰ میں بھی پیسٹ کئے دیتا ہوں :
ــــــــــــــــــــــــــــــ
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہماری معلومات کے مطابق ملک میں جتنی بھی انشورنش کمپنیاں ہیں بشمول اسٹیٹ لائف سب سودی کاروبار کرتی ہیں اس لیے ان کا کاروبار حرام ، ان کمپنیوں میں ملازمت حرام نیز زندگی وغیرہ کا بیمہ کرنا کروانا حرام ہے۔

وباللہ التوفیق
احکام و مسائل
خرید و فروخت کے مسائل ج1ص 361
محدث فتویٰ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تجارتی اور انشورنس کمپنیوں کے حصص میں شراکت
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 11 January 2014 02:48 PM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں کویت کا باشندہ ہوں، ہمارے ہاں تجارتی اور زرعی کمپنیوں، انشورنس اور آئل کمپنیوں اور بینکوں کے حصص کو ملک کا ہر شہری اور اس کے افراد خانہ خرید سکتے ہیں، امید ہے آپ رہنمائی فرمائیں گے کہ اس طرح کی کمپنیوں کے حصص خریدنے کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!​
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!​
ہر انسان کے لیے ان کمپنیوں کے حصص میں شراکت جائز ہے بشرطیکہ یہ سودی کاروبار نہ کرتی ہوں اور اگر یہ سودی کاروبار کرتی ہوں تو پھر ان میں شراکت جائز نہیں ہے کیونکہ کتاب و سنت اور اجماع امت سے ثابت ہے کہ سودی کاروبار حرام ہے۔ اسی طرح انشورنس کمپنیوں کے حصص میں شراکت بھی جائز نہیں کیونکہ انشورنس کی پالیسی غرر (دھوکا)، جہالت اور سود پر مشتمل ہے اور وہ پالیسیاں جو غرر (دھوکا) جہالت اور سود پر مشتمل ہوں، وہ اسلامی شریعت میں حرام ہیں۔​
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب​
محدث فتوی​

فتوی کمیٹی​
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,591
پوائنٹ
791
ہیلتھ انشورنس
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہیلتھ انشورنس کے نام سے ایک کمپنی ہے جو ٤٠٠٠ روپے میں ایک کارڈ بنا کر دیتی ہے۔وہ کارڈ پوری فیملی کے لئے ہوتاہے۔ ایک سال تک اس کارڈ کو استعمال کرسکتے ہیں۔ اس میں طریقہ کا ر کچھ اس طرح ہے کچھ مخصوص ہسپتال میں علاج با لکل فری ہے اور کچھ ہسپتال میں ٣٠فیصد کی رعایت ہے جب بھی جتنا بھی علاج کروائیں تو اس پر پیسے نہیں دینے ہو نگے کیا یہ طریقہ صحیح ہے ۔؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

انشورنس کی تمام صورتیں واضح اور صريح سود ہیں، جس میں اوپر آپ کی بیان کردہ ہیلتھ انشورنس بھی ہے۔اس کی متعدد وجوہات ہیں۔
1۔پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ بیع مجہول ہے ،جس میں بیمار ہونے یا نہ ہونے دونوں کا احتمال ہے۔اور پھر اگر وہ بیمار ہو ہی جائے تو اس بیماری کی نوعیت اور اس پر ہونے والے اخراجات بھی مجہول ہیں۔اور شرعی نقطہ نظر سے بیع مجہول حرام ہے۔
2۔یہ جوے کی شکل بن جاتی ہے کہ بیماری کی صورت میں آپ 4000 کے بدلے میں لاکھوں کے مستحق بن جاتے ہیں۔جبکہ عدم بیماری کی صورت میں آپ اس 4000 سے بھی محروم ہیں۔یہ کیوں۔؟ اور شریعت میں جوا بھی حرام ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتوی کمیٹی

محدث فتوی

 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
۔پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ بیع مجہول ہے ،جس میں بیمار ہونے یا نہ ہونے دونوں کا احتمال ہے۔اور پھر اگر وہ بیمار ہو ہی جائے تو اس بیماری کی نوعیت اور اس پر ہونے والے اخراجات بھی مجہول ہیں۔اور شرعی نقطہ نظر سے بیع مجہول حرام ہے۔
2۔یہ جوے کی شکل بن جاتی ہے کہ بیماری کی صورت میں آپ 4000 کے بدلے میں لاکھوں کے مستحق بن جاتے ہیں۔جبکہ عدم بیماری کی صورت میں آپ اس 4000 سے بھی محروم ہیں۔یہ کیوں۔؟ اور شریعت میں جوا بھی حرام ہے۔
انشورنس پر حکم سے قطع نظر یہ دونوں ہی وجوہات مکمل نہیں ہیں،اولاًاس لئے کہ انشورنس اصولی طورپر بیع نہیں ہے بلکہ وہ ایک خدمت ہے جس کا معاوضہ لیاجارہاہے۔
دوسری بات اگرہم مان لیں کہ یہ بیع ہے تویہ بیع مجہول کس طرح ہے،جب یہ معلوم ہے کہ اداکرنے والا ایک سال کیلئے چار سو روپے اداکرے گا اوراس کے بدلے میں اسے فلاں فلاں بیماریوں کیلئے اتنے سے اتنے تک کا علاج ہوگا،توجہالت کس جگہ باقی رہی؟
رہی بات کلیم پر اٹھنے والے جھگڑے اورنزاعات کی تویہ اوراس قسم کے نزاعات تو بذات خود صحیح اورشفاف بیع میں بھی پیش آتے ہیں جس کی وجہ سے کیس مقدموں کی نوبت آتی ہے۔
دوسری وجہ بتائی گئی ہے کہ یہ جوا ہے،اس پر بھی فیہ نظروالی بات ہے،جواکیاہوتاہے،جوا میں صرف اتناہی نہیں ہوتاکہ جیتنے پر کم رقم کے بدلے بڑی رقم ملتی ہے ،بلکہ جوا میں ہار جیت کا پہلو بالکل غیرواضح ہوتاہے ،پتہ نہیں کہ وہ لاکھوں جیتے گایااپنی رقم سے بھی ہاتھ دھوبیٹھے گا۔
اس کے برخلاف زیر بحث انشورنس میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ وہ اداکرنے والاچارسو روپے اداکرے گا اوربدلے میں اسے ایک مقررہ رقم تک کے علاج کی سہولت حاصل ہوگی۔
یہ جوا اوربیع مجہول وہی علماء احناف کی گردان ہے جس کو اہل حدیث حضرات بھی رٹ رہے ہیں،ضرورت ہے کہ فقہاء سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے معاملات پر اصولی اعتبار سے نظرڈالی جائے ،نہ کہ ائمہ وفقہاء حضرات کی تفریعات کے چشمے سے ہی اسے دیکھاجائے۔
بظاہر دوچیزیں کبھی ایک سی لگتی ہیں لیکن دونوں میں کچھ فرق بھی ہوتاہے اسی فرق کی بنیاد پر حلت اورحرمت کاانحصار ہوتاہے، بیع اور ربا ایک سے لگتے ہیں لیکن دونوں میں فرق ہے ،جس کی وجہ سے ایک حلال اور دوسرا حرام ہے،اسی طرح جوا اور انشورنس میں بظاہر کچھ مطابقت ہوسکتی ہے لیکن اگرآپ غورکریں گے تواس میں بنیاد فرق ملے گا اوریہ بنیادی فرق اس پر دلیل ہے کہ جوا اورانشورنس ایک نہیں ہیں۔
تیسری بات :معاملات میں آسانی اورنرمی کاپہلو ہوناچاہئے،آج اگرکسی شخص کو ہاسپٹیل میں داخل ہونے کی نوبت آجائے تولاکھوں کا بل بنتے ہوئے دیر نہیں لگتی،ایک غریب آدمی جس کی بمشکل آمدنی پندرہ ہزار کے دائرہ میں ہے، وہ چاربچوں کی پرورش ،تعلیم وتربیت ،دیگر اخراجات کے ساتھ بیماری پر اٹھنے والے اخراجات کیسے برداشت کرے گا۔
غریبوں کوچھوڑدیجئے خود علماء کا گمنام طبقہ کس مشقت سے زندگی بسر کرتاہے وہ کسی سے مخفی نہیں، آج اگر کوئی بیمار ہوجائے اوربیماری تھوڑی سنگین نوعیت کی ہو اور ہاسپٹل میں داخل ہوناپڑجائے توسوائے اس کے کہ وہ کہیں ہاتھ پھیلائے کوئی اورچارہ نہیں بچتا۔
علماء کا وہ طبقہ جو کسی وجہ سے مشہور ہے،یا جو علماء کےاشرافیہ وایلیٹ طبقہ میں شامل ہے،اورافتاء پر عموماایسے ہی لوگوں کاغلبہ ہے،ایسے حضرات وہ پہلو نہیں دیکھ پاتے جس سے علماء کا گمنام طبقہ گزرتاہے جیسے ہمارے سیاستدانوں کو غریبوں کے دکھ درد کا پتہ نہیں ہوتا،اور روٹی نہ ملنے پر کیک کھانے کا مشورہ دیاجاتاہے،یاپھر بعض نفسیاتی قسم کے لوگوں کا خیال ہوتاہے کہ ہم نے بھی شروع میں سختیاں برداشت کی ہیں، زمانے کے مصائب جھیلے ہیں، لہذا دوسروں کوبھی اسے لازماجھیلناہی چاہئے، جیسے ہرساس اپنی بہو سے اپنے ساس کے مظالم کا بدلہ لیناچاہتی ہے،شعوری یاغیرشعوری طورپر۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
انشورنس پر حکم سے قطع نظر یہ دونوں ہی وجوہات مکمل نہیں ہیں،اولاًاس لئے کہ انشورنس اصولی طورپر بیع نہیں ہے بلکہ وہ ایک خدمت ہے جس کا معاوضہ لیاجارہاہے۔
دوسری بات اگرہم مان لیں کہ یہ بیع ہے تویہ بیع مجہول کس طرح ہے،جب یہ معلوم ہے کہ اداکرنے والا ایک سال کیلئے چار سو روپے اداکرے گا اوراس کے بدلے میں اسے فلاں فلاں بیماریوں کیلئے اتنے سے اتنے تک کا علاج ہوگا،توجہالت کس جگہ باقی رہی؟
رہی بات کلیم پر اٹھنے والے جھگڑے اورنزاعات کی تویہ اوراس قسم کے نزاعات تو بذات خود صحیح اورشفاف بیع میں بھی پیش آتے ہیں جس کی وجہ سے کیس مقدموں کی نوبت آتی ہے۔
دوسری وجہ بتائی گئی ہے کہ یہ جوا ہے،اس پر بھی فیہ نظروالی بات ہے،جواکیاہوتاہے،جوا میں صرف اتناہی نہیں ہوتاکہ جیتنے پر کم رقم کے بدلے بڑی رقم ملتی ہے ،بلکہ جوا میں ہار جیت کا پہلو بالکل غیرواضح ہوتاہے ،پتہ نہیں کہ وہ لاکھوں جیتے گایااپنی رقم سے بھی ہاتھ دھوبیٹھے گا۔
اس کے برخلاف زیر بحث انشورنس میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ وہ اداکرنے والاچارسو روپے اداکرے گا اوربدلے میں اسے ایک مقررہ رقم تک کے علاج کی سہولت حاصل ہوگی۔
یہ جوا اوربیع مجہول وہی علماء احناف کی گردان ہے جس کو اہل حدیث حضرات بھی رٹ رہے ہیں،ضرورت ہے کہ فقہاء سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے معاملات پر اصولی اعتبار سے نظرڈالی جائے ،نہ کہ ائمہ وفقہاء حضرات کی تفریعات کے چشمے سے ہی اسے دیکھاجائے۔
بظاہر دوچیزیں کبھی ایک سی لگتی ہیں لیکن دونوں میں کچھ فرق بھی ہوتاہے اسی فرق کی بنیاد پر حلت اورحرمت کاانحصار ہوتاہے، بیع اور ربا ایک سے لگتے ہیں لیکن دونوں میں فرق ہے ،جس کی وجہ سے ایک حلال اور دوسرا حرام ہے،اسی طرح جوا اور انشورنس میں بظاہر کچھ مطابقت ہوسکتی ہے لیکن اگرآپ غورکریں گے تواس میں بنیاد فرق ملے گا اوریہ بنیادی فرق اس پر دلیل ہے کہ جوا اورانشورنس ایک نہیں ہیں۔
تیسری بات :معاملات میں آسانی اورنرمی کاپہلو ہوناچاہئے،آج اگرکسی شخص کو ہاسپٹیل میں داخل ہونے کی نوبت آجائے تولاکھوں کا بل بنتے ہوئے دیر نہیں لگتی،ایک غریب آدمی جس کی بمشکل آمدنی پندرہ ہزار کے دائرہ میں ہے، وہ چاربچوں کی پرورش ،تعلیم وتربیت ،دیگر اخراجات کے ساتھ بیماری پر اٹھنے والے اخراجات کیسے برداشت کرے گا۔
غریبوں کوچھوڑدیجئے خود علماء کا گمنام طبقہ کس مشقت سے زندگی بسر کرتاہے وہ کسی سے مخفی نہیں، آج اگر کوئی بیمار ہوجائے اوربیماری تھوڑی سنگین نوعیت کی ہو اور ہاسپٹل میں داخل ہوناپڑجائے توسوائے اس کے کہ وہ کہیں ہاتھ پھیلائے کوئی اورچارہ نہیں بچتا۔
علماء کا وہ طبقہ جو کسی وجہ سے مشہور ہے،یا جو علماء کےاشرافیہ وایلیٹ طبقہ میں شامل ہے،اورافتاء پر عموماایسے ہی لوگوں کاغلبہ ہے،ایسے حضرات وہ پہلو نہیں دیکھ پاتے جس سے علماء کا گمنام طبقہ گزرتاہے جیسے ہمارے سیاستدانوں کو غریبوں کے دکھ درد کا پتہ نہیں ہوتا،اور روٹی نہ ملنے پر کیک کھانے کا مشورہ دیاجاتاہے،یاپھر بعض نفسیاتی قسم کے لوگوں کا خیال ہوتاہے کہ ہم نے بھی شروع میں سختیاں برداشت کی ہیں، زمانے کے مصائب جھیلے ہیں، لہذا دوسروں کوبھی اسے لازماجھیلناہی چاہئے، جیسے ہرساس اپنی بہو سے اپنے ساس کے مظالم کا بدلہ لیناچاہتی ہے،شعوری یاغیرشعوری طورپر۔
۔پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ بیع مجہول ہے ،جس میں بیمار ہونے یا نہ ہونے دونوں کا احتمال ہے۔اور پھر اگر وہ بیمار ہو ہی جائے تو اس بیماری کی نوعیت اور اس پر ہونے والے اخراجات بھی مجہول ہیں۔اور شرعی نقطہ نظر سے بیع مجہول حرام ہے۔
رحمانی بھائی ایک تو یہ خدمت کا معاوضہ نہیں ہے کیوں کہ انشورنس کمپنی نہ خود علاج کرتی ہے اور نہ اس کے کارندے یہ علاج کرتے ہیں۔ بلکہ سب کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ علاج کے پیسے ادا کریں گے۔ یہ صراحتاً لین دین ہوتی ہے۔ تم ہمیں اتنے پیسے دو ہم تمہارے لیے پیسے ادا کریں گے۔ اسے بعض علماء بیع الطمانینۃ (اطمینان کی بیع) کہہ کر جائز قرار دیتے ہیں۔ کمپنی کتنے پیسے ادا کرے گی یہ مجہول ہی ہے۔
دوسری بات اگر ہم اسے بیع بھی نہیں کہتے اور خدمت یہ ہے نہیں تو پھر دین اور قرض ہی ہو سکتا ہے جس پر اگر کمپنی نے آگے زیادہ پیسے ادا کر دیے تو وہ سود ہوں گے۔

۔یہ جوے کی شکل بن جاتی ہے کہ بیماری کی صورت میں آپ 4000 کے بدلے میں لاکھوں کے مستحق بن جاتے ہیں۔جبکہ عدم بیماری کی صورت میں آپ اس 4000 سے بھی محروم ہیں۔یہ کیوں۔؟ اور شریعت میں جوا بھی حرام ہے۔
دوسری وجہ بتائی گئی ہے کہ یہ جوا ہے،اس پر بھی فیہ نظروالی بات ہے،جواکیاہوتاہے،جوا میں صرف اتناہی نہیں ہوتاکہ جیتنے پر کم رقم کے بدلے بڑی رقم ملتی ہے ،بلکہ جوا میں ہار جیت کا پہلو بالکل غیرواضح ہوتاہے ،پتہ نہیں کہ وہ لاکھوں جیتے گایااپنی رقم سے بھی ہاتھ دھوبیٹھے گا۔
اس کے برخلاف زیر بحث انشورنس میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ وہ اداکرنے والاچارسو روپے اداکرے گا اوربدلے میں اسے ایک مقررہ رقم تک کے علاج کی سہولت حاصل ہوگی۔
اتنی تعیین تو جوے میں بھی ہوتی ہے کہ ہزار روپے دو تو یا یہ بھی جائیں گے اور یا دس ہزار آ جائیں گے۔
یہاں بھی یہی ہے کہ چار سو روپے دو، یا یہ بھی جائیں گے اور یا چار ہزار تک کا علاج ہو جائے گا۔ تو فرق کیا ہے؟

تیسری بات :معاملات میں آسانی اورنرمی کاپہلو ہوناچاہئے،آج اگرکسی شخص کو ہاسپٹیل میں داخل ہونے کی نوبت آجائے تولاکھوں کا بل بنتے ہوئے دیر نہیں لگتی،ایک غریب آدمی جس کی بمشکل آمدنی پندرہ ہزار کے دائرہ میں ہے، وہ چاربچوں کی پرورش ،تعلیم وتربیت ،دیگر اخراجات کے ساتھ بیماری پر اٹھنے والے اخراجات کیسے برداشت کرے گا۔
غریبوں کوچھوڑدیجئے خود علماء کا گمنام طبقہ کس مشقت سے زندگی بسر کرتاہے وہ کسی سے مخفی نہیں، آج اگر کوئی بیمار ہوجائے اوربیماری تھوڑی سنگین نوعیت کی ہو اور ہاسپٹل میں داخل ہوناپڑجائے توسوائے اس کے کہ وہ کہیں ہاتھ پھیلائے کوئی اورچارہ نہیں بچتا۔
علماء کا وہ طبقہ جو کسی وجہ سے مشہور ہے،یا جو علماء کےاشرافیہ وایلیٹ طبقہ میں شامل ہے،اورافتاء پر عموماایسے ہی لوگوں کاغلبہ ہے،ایسے حضرات وہ پہلو نہیں دیکھ پاتے جس سے علماء کا گمنام طبقہ گزرتاہے
معاملات میں نرمی کا پہلو اختیار کر کے مرجوح اور ضعیف اقوال پر فتوی دیا جا سکتا ہے لیکن صراحتاً ممنوع چیزوں کو کیسے جائز قرار دیا جا سکتا ہے؟ یہی آسانی سود کے بعض معاملات میں بھی ہے پھر تو، جہاں کوئی بوڑھی عورت اپنے پیسے اس لیے بینک میں رکھوائے کہ اس کا کوئی وارث بھی نہ ہو اور نہ کوئی ایسا شخص ہو جس پر وہ اعتماد کر کے اسے کاروبار کے لیے رقم دے سکے۔
باقی جو اہل افتاء کے بارے میں آپ نے کہا اس سے میں غیر متفق ہوں۔ ہم اس کے خلاف مشاہدہ دیکھ رہے ہیں۔ یہ اسلامک بینکنگ تو ابھی شروع ہوئی ہے جس سے کچھ علماء کرام کے پاس کچھ آسائشیں آئی ہیں۔
 

صمیم طارق

مبتدی
شمولیت
دسمبر 10، 2017
پیغامات
17
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
9
آپ حضرات کا بہت بہت شکریا
انشورنس کی حیثیت پر روشنی ڈالنے اور فتاویٰ شیئر کرنے کے لئے٬ میرے لئے بہت مددگار ثابت ہوئے اور میں نے یہ کام پروفیشن چھوڑ دیا
 
Top