۔پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ بیع مجہول ہے ،جس میں بیمار ہونے یا نہ ہونے دونوں کا احتمال ہے۔اور پھر اگر وہ بیمار ہو ہی جائے تو اس بیماری کی نوعیت اور اس پر ہونے والے اخراجات بھی مجہول ہیں۔اور شرعی نقطہ نظر سے بیع مجہول حرام ہے۔
2۔یہ جوے کی شکل بن جاتی ہے کہ بیماری کی صورت میں آپ 4000 کے بدلے میں لاکھوں کے مستحق بن جاتے ہیں۔جبکہ عدم بیماری کی صورت میں آپ اس 4000 سے بھی محروم ہیں۔یہ کیوں۔؟ اور شریعت میں جوا بھی حرام ہے۔
انشورنس پر حکم سے قطع نظر یہ دونوں ہی وجوہات مکمل نہیں ہیں،اولاًاس لئے کہ انشورنس اصولی طورپر بیع نہیں ہے بلکہ وہ ایک خدمت ہے جس کا معاوضہ لیاجارہاہے۔
دوسری بات اگرہم مان لیں کہ یہ بیع ہے تویہ بیع مجہول کس طرح ہے،جب یہ معلوم ہے کہ اداکرنے والا ایک سال کیلئے چار سو روپے اداکرے گا اوراس کے بدلے میں اسے فلاں فلاں بیماریوں کیلئے اتنے سے اتنے تک کا علاج ہوگا،توجہالت کس جگہ باقی رہی؟
رہی بات کلیم پر اٹھنے والے جھگڑے اورنزاعات کی تویہ اوراس قسم کے نزاعات تو بذات خود صحیح اورشفاف بیع میں بھی پیش آتے ہیں جس کی وجہ سے کیس مقدموں کی نوبت آتی ہے۔
دوسری وجہ بتائی گئی ہے کہ یہ جوا ہے،اس پر بھی فیہ نظروالی بات ہے،جواکیاہوتاہے،جوا میں صرف اتناہی نہیں ہوتاکہ جیتنے پر کم رقم کے بدلے بڑی رقم ملتی ہے ،بلکہ جوا میں ہار جیت کا پہلو بالکل غیرواضح ہوتاہے ،پتہ نہیں کہ وہ لاکھوں جیتے گایااپنی رقم سے بھی ہاتھ دھوبیٹھے گا۔
اس کے برخلاف زیر بحث انشورنس میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ وہ اداکرنے والاچارسو روپے اداکرے گا اوربدلے میں اسے ایک مقررہ رقم تک کے علاج کی سہولت حاصل ہوگی۔
یہ جوا اوربیع مجہول وہی علماء احناف کی گردان ہے جس کو اہل حدیث حضرات بھی رٹ رہے ہیں،ضرورت ہے کہ فقہاء سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے معاملات پر اصولی اعتبار سے نظرڈالی جائے ،نہ کہ ائمہ وفقہاء حضرات کی تفریعات کے چشمے سے ہی اسے دیکھاجائے۔
بظاہر دوچیزیں کبھی ایک سی لگتی ہیں لیکن دونوں میں کچھ فرق بھی ہوتاہے اسی فرق کی بنیاد پر حلت اورحرمت کاانحصار ہوتاہے، بیع اور ربا ایک سے لگتے ہیں لیکن دونوں میں فرق ہے ،جس کی وجہ سے ایک حلال اور دوسرا حرام ہے،اسی طرح جوا اور انشورنس میں بظاہر کچھ مطابقت ہوسکتی ہے لیکن اگرآپ غورکریں گے تواس میں بنیاد فرق ملے گا اوریہ بنیادی فرق اس پر دلیل ہے کہ جوا اورانشورنس ایک نہیں ہیں۔
تیسری بات :معاملات میں آسانی اورنرمی کاپہلو ہوناچاہئے،آج اگرکسی شخص کو ہاسپٹیل میں داخل ہونے کی نوبت آجائے تولاکھوں کا بل بنتے ہوئے دیر نہیں لگتی،ایک غریب آدمی جس کی بمشکل آمدنی پندرہ ہزار کے دائرہ میں ہے، وہ چاربچوں کی پرورش ،تعلیم وتربیت ،دیگر اخراجات کے ساتھ بیماری پر اٹھنے والے اخراجات کیسے برداشت کرے گا۔
غریبوں کوچھوڑدیجئے خود علماء کا گمنام طبقہ کس مشقت سے زندگی بسر کرتاہے وہ کسی سے مخفی نہیں، آج اگر کوئی بیمار ہوجائے اوربیماری تھوڑی سنگین نوعیت کی ہو اور ہاسپٹل میں داخل ہوناپڑجائے توسوائے اس کے کہ وہ کہیں ہاتھ پھیلائے کوئی اورچارہ نہیں بچتا۔
علماء کا وہ طبقہ جو کسی وجہ سے مشہور ہے،یا جو علماء کےاشرافیہ وایلیٹ طبقہ میں شامل ہے،اورافتاء پر عموماایسے ہی لوگوں کاغلبہ ہے،ایسے حضرات وہ پہلو نہیں دیکھ پاتے جس سے علماء کا گمنام طبقہ گزرتاہے جیسے ہمارے سیاستدانوں کو غریبوں کے دکھ درد کا پتہ نہیں ہوتا،اور روٹی نہ ملنے پر کیک کھانے کا مشورہ دیاجاتاہے،یاپھر بعض نفسیاتی قسم کے لوگوں کا خیال ہوتاہے کہ ہم نے بھی شروع میں سختیاں برداشت کی ہیں، زمانے کے مصائب جھیلے ہیں، لہذا دوسروں کوبھی اسے لازماجھیلناہی چاہئے، جیسے ہرساس اپنی بہو سے اپنے ساس کے مظالم کا بدلہ لیناچاہتی ہے،شعوری یاغیرشعوری طورپر۔