ابن قدامہ
مشہور رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2014
- پیغامات
- 1,772
- ری ایکشن اسکور
- 428
- پوائنٹ
- 198
مولانا محمد تقی عثمانی حفظہ اللہ نے تقلید کی شرعی حیثیت بیان کرتے ہوئےجو کچھ لکھاہے اس کے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:اس بات سے کسی مسلمان کو انکار نہیں ہو سکتا کہ دین کی اصل دعوت یہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کی اطاعت کیجائے ، یہاں تک کہ نبی کریمﷺ کی اطاعت بھی اس لیے واجب ہے کہ حضور ﷺ نے اپنے قول و فعل سے احکامِ الہٰی کی ترجمانی فرمائی ہے ۔ کونسی چیز حلال ہے ؟ کونسی چیز حرام؟ کیا جائز ہے؟ ان تمام معاملات میں خالصۃًاللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرنی ہے ، اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی بجائے کسی اور کی اطاعت کرنے کا قائل ہو ‘ اور اس کو مستقل بالذات مُطاع سمجھتا ہو وہ یقینا دائرہ اسلام سے خارج ہے ، لہٰذا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہےکہ وہ قرآن سنت کے احکام کی اطاعت کرے۔ ……(ص :۷)دین کے بنیادی عقائد میں تقلید ہمارے نزدیک جائز نہیں ہے، تمام اصولِ فقہ کی کتابوں میں یہ مسئلہ لکھا ہوا ہے کہ تقلید عقائد اور ضروریات دین میں نہیں ہوتی ، کیونکہ یہ مسائل نہ اجتہاد کا محل ہیں ‘ نہ تقلید کا ۔……(ص۱۱۶)کے حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:مولانا تقی عثمانی صاحب علامہ خطیب بغدادیشرعی احکام کی دو قسمیں ہیں ، ایک وہ احکام ہیں جن کا جزوِ دین ہونا بداہیۃً ثابت ہے۔ مثلا پانچ نمازیں ،زکوٰۃ ،رمضان کے روزے ، حج، زنا اور شراب نوشی کی حرمت اور اسی جیسے دوسرے احکام ، تواس قسم میں تقلید جائز نہیں ، کیونکہ ان چیزوں کا علم تمام لوگوں کو ہوتا ہی ہے لہٰذا اس میں تقلید کے کوئی معنی نہیں اور دوسری قسم وہ ہے جس کا علم فکر و نظر اور استدلال کے بغیر نہیں ہو سکتا ، جیسے عبادات و معاملات اور شادی بیاہ کے فروعی مسائل، اس قسم میں تقلید درست ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ فَاسْاَلُوْا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ نیز اس لئے کہ اگر ہم دین کے ان فروعی مسائل میں تقلید کو ممنوع کر دیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہر شخص باقاعدہ علومِ دین کی تحصیل میں لگ جائے ، اور لوگوں پر اس کو واجب کرنے سے زندگی کی تمام ضروریات برباد ہو جائیں گی اور کھیتیوں اور مویشیوں کیتباہی لازم آئے گی ، لہٰذا ایساحکم نہیں دیا جا سکتا۔……پھر اس تقلید کی بھی دو صورتیں ہیں ، ایک تو یہ کہ تقلید کے لئے کسی خاص امام و مجتہد کو معین نہ کیا جائے ، بلکہ اگر ایک مسئلہ میں ایک عالم کا مسلک اختیار کیا گیا ہے تو دوسرے مسئلہ میں کسی دوسرے عالم کی رائے قبول کر لی جائے اس کو’’ تقلید مطلق ‘‘ یا’’ تقلید عام ‘‘ یا ’’ تقلید غیر شخصی‘‘ کہتے ہیں ۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ تقلید کے لئے کسی ایک مجتہد عالم کو اختیارکیا جائے ، اور ہر مسئلہ میں اسی کا قول اختیار کیا جائے ، اُسے ’’ تقلید شخصی‘‘ کہا جاتا ہے ۔ تقلید کی ان دونوں قسموں کی حقیقت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ ایک شخص براہِ راست قرآن و سنت سے احکام مستنبط کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو وہ جس مجتہد کو قرآن و سنت کے علوم کا ماہر سمجھتا ہے اس کی فہم و بصیرت اور اس کے تفقہ پر اعتماد کر کے اس کی تشریحات کے مطابق عمل کرتا ہے ۔ ……(ص ۱۵)تقلید کی حقیقت صرف اس قدرہے کہ جو شخص براہِ راست ، قرآن و حدیث کا مطلب سمجھنے ، ان کے ظاہری تعارض کو رفع کرنے ، یا ناسخو منسوخ وغیرہ کا فیصلہ کرنے کی اہلیت اپنے اندر نہیں پاتا وہ کسی مجتہد سےتفصیلی دلائل کا مطالبہ کئے بغیر اس کے علم پر اعتماد اور اس کے فتوے پر عمل کر لیتا ہے ، لہٰذا تقلید کے مفہوم میں یہ بات ہرگز داخلنہیں ہے کہ مجتہد کے فتوےپر عمل کرنے کے بعد قرآن و حدیث کا علم حاصل کرنے کی کوشش ہی نہ کی جائے ، بلکہ یہ دروازہ تقلید کے بعد بھی کھلا رہتا ہے ، اور یہی وجہ ہے کہ سینکڑوں مقلدین نے کسی امام کی تقلید شخصی کرنے کے باوجود قرآن کریم کی تفسیریں اور احادیث کی شروح لکھی ہیں، اور اپنی اپنی بساط کے مطابق اپنے علم کو بڑھانے اور تحقیق و نظر کا سلسلہ جاری رکھا ہے ، اور اگر اس تحقیق کے دوران کسی مسئلے میں قطعی طور سے واضح ہو گیا ہے کہ کوئی حدیثِ صریح مجتہد کے قول کے خلاف ہے ، اور اس کے معارض کوئی قوی دلیل موجود نہیں ‘ تو اس مسئلہ میں اپنے امام کی بجائے حدیثِصریح پر عمل کیا ہے ۔ لہٰذا اگر کسی مقلد کو اپنے امام کا کوئی قول کسی حدیث کے خلاف معلوم ہوتا ہے تو اس حدیث کی تحقیق کرنا تقلید کے خلاف نہیں ہے۔ (ص:۴۶)مولاناتقی عثمانی حفظہ اللہ مقلد حضرات کا عقیدہ و عمل خلاصۃً یوں بیان کرتے ہیں(۱) دین کے بنیادی عقائد میں تقلید نہیں ہوتی،(۲) جو احکام ِ شریعت تواتر و بداہت سے ثابت ہیںان میں کسی کی تقلید نہیں کی جاتی ‘قرآن و سنت کی جو نصوص قطعی الدلالۃ ہیں ، اور جن کا کوئی معارض موجود نہیں ان میں کسی امام کی (۳)تقلید کی ضرورت نہیں،۔تقلید صرف اس غرض کے لئے کی جاتی ہے کہ قرآن و سنت سے اگر مختلف باتوں کا اثبات ممکن ہو تو (۴)کسیایک معنی کو معین کرنے کے لئے اپنے ذہن کی بجائے کسی مجتہد کی فہم پر اعتماد کیا جائے۔مجتہدین امت کسی کے نزدیک معصوم اور خطاؤں سے پاک نہیں ہیں‘ بلکہ ان کے ہراجتہاد میں غلطی کا (۵) امکانموجود ہے ۔ایک متبحّر عالم اگر مجتہد کے کسی قول کو کسی صحیح اور صریح حدیث کے خلاف پائے ، اور اس کا کوئی معارض موجود نہ ہو تو اس کے لئے (ان شرائط کے ساتھ جن کا ذکر ’’ متبحّر عالم کی تقلید ‘‘ کے عنوان (۶)کے تحت گزر چکا ہے ) مجتہد کے قول کو چھوڑ کر حدیث پر عمل کرنا ضروری ہے ۔( تقلید کی شرعی حیثیت ازمحمد تقی عثمانی ص:۱۲۱)شیخ الحدیث حافظ محمد گوندلوی اپنی کتاب ’’الاصلاح ‘‘میں اہلحدیث اور حنفیہ میں نہاصولی اختلاف ہے نہ فروعی کے نام سے ایک عنوان قائم کرتے ہیں اور اس عنوان کے تحت لکھتے ہیںاہلحدیث کے اصول کتاب و سنت ،اجماع اور اقوال صحابہ ہیں ۔یعنی جب کسی ایک صحابی کا قول ہو اور اس کا کوئی مخالف نہ ہو ، اگر اختلاف ہو تو ان میں سے جو قول کتاب و سنت کے زیادہ قریب ہو ، اس پر عمل کیا جائے اور اس پر کسی عمل ، رائے یا قیاس کو مقدم نہ سمجھا جائے اور بوقت ضرورت قیاس پر عمل کیا جائے قیاس میں اپنے سے اعلم پر اعتماد کرنا جائز ہے یہی مسلک امام احمد بن حنبل، دیگر ائمہ اہلحدیث کا ہے ۔شیخ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ کتاب ہذا کے مقدمے میں حافظ محمد کے مذکورہ بالا قول کے بارے میں لکھتے ہیں:’’حافظ صاحب کا یہ بیان ان کے نہایت گہرے مطالعہ اور وسعت کا مظہر ہے اور وہ اس طرح کہ جہاں تک امام ابوحنیفہ اور ان کے جلیل القدر تلامذہ(امام محمد اور قاضی ابویوسف وغیرہ) کا اور ان کا سا طرز فکر و عمل اختیار کرنے والوں کا تعلق ہے ، اس کو اگر سامنے رکھا جائے تو واقعی اہلحدیث اور احناف کے اصولوں میں کوئی فرق نظر نہیں آئے گا۔‘‘(ص۱۴)شیخ صلاح الدین یوسف صاحب حفظہ اللہ احناف کو تین گروہ میں تقسیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں:پہلا گروہ امام ابو حنیفہ اور ان کے شاگردان رشید امام محمد اور امام ابو یوسف رحم اللہ اور ان کا سا طرز عمل اختیار کرنے والوں پر مشتمل ہے ۔ان سے اہلحدیث کا اصولی طور پر اختلاف نہیں ۔حضرت حافظ صاحب گوندلوی رحمہ اللہنے احناف سے اصول و فروع میں اختلاف کی جو نفی کی ہے اس کا تعلق اسی گروہ سے ہے۔‘‘(ص۱۵)امام ابو حنیفہ نے اپنی تلامذہ کی تربیت ایسے انداز میں فرمائی کہ قرآن و حدیث کی نصوص کا احترام اور ان کا تسلیم کرنا ضروری ہے اور یوںان کو فقہی جمود سے بچنے کا درس دیا۔یہی وجہ ہے کہ امام صاحب کے خصوصی تلامذہ امام محمد اور امام ابو یوسف رحمہما اللہ نے اپنے استاد سے بے شمار مسائل میں اختلاف کیا یہاں تک کہ ان کی تعداد دو تہائی بیان کی گئی ہے ۔‘‘(ص۱۷)انہی کے نقش قدم پر چلنے والے وہ بعض علماء ہیں جنہوں نے احادیث صحیحہ کی بنیاد پر فقہ حنفی کے بہت سے مسائل یا بعض کو چھوڑ دیا اور احادیث کو ترجیح دی جیسے مولانا عبدالحیلکھنوی وغیرہ ۔‘‘(ص۱۸)مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب سابق جج وفاقی شرعی عدالت پاکستان جو ایک بہت بڑی حنفی عالم ،مولانا مفتی شفیع مرحوم کے جلیل القدر صاحبزادے ہیں اور خود بھی اپنے علم و فضل کے اعتبار سے موجودہ علمائے احناف میں ایک نہایت ممتاز مقام کے حامل ہیں اور اپنے والد گرامی کی قائم کردہ دارالعلوم کراچی میں تدریس حدیث اور افتاء و تحقیق کے منصب عالیہپر فائز ہیں وہ مولانااشرف علی تھانوی کی کتاب ’’ الحیلۃ الناجزہ فی الحلیلۃ العاجزہ‘‘ کے دیپاچے میں فقہ حنفی سے خروج کا جواز تسلیم کرتے ہوئے اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ فقہ حنفی میں عورتوں کو پیش آنے والی مشکلات کا کوئی حل نہیں ہے ۔وہ لکھتے ہیں:’’ ……حکیم الامت نے بیشتر مسائل میں مالکی مذہب کے مطابق فتویٰدیا ہے ۔‘‘فقہاء احناف سے صراحت کیہے کہ اس طرح کرنے سے کوئی شخص تقلید امام کے دائرہ سے نہیں نکلتا جیسا کہ پاک و ہند کے احناف ، مالکی مسلک اپنانے کی وجہ سے حنفیہ سے خارج نہیں ہوئے ۔مولانا عبدالحی لکھنوی ،شاہ ولی اللہ، شاہ عبدالعزیز اور دیگر بہت سے افراد نے احادیث کی بنا پر فقہ حنفی کے بعض مسائل کو چھوڑ دیا … حقیقت یہ ہے کہ یہ وہی طرز فکر و عمل ہے جو امام ابو حنیفہ اور ان کے تلامذہ نے اختیار کیا اور اس میں کوئی خرابی نہیں بلکہ یہ نہایت پسندیدہ ، مستحسن اور ایک مسلمان سے مطلوب ہے اور احناف کا یہی وہ گروہ ہے جس کی بابت زیرنظر کتاب میں کہا گیا کہ ان کے اور اہل حدیث کے مابین نہ کوئی اصولی اختلاف ہے اورنہ فروعی ۔‘‘ (الاصلاح ص۲۹)علمائے اسلام کے ساتھ ایک نشست!! مہمان ،ڈاکٹر شفیق الرحمان حفظ اللہ تعالی
@عبدالرحمن بھٹی
@رحمانی
@عبدالرحمن بھٹی
@رحمانی