دیوانہ و آسیب رسیدہ کاہن رکھا تھا اور یہ سب نام حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات سے بالکل بے تعلق تھے اور کسی طرح سے صادق نہ ہوسکتے تھے۔(غنیۃ الطالبین ،طبع مکتبہ تعمیر انسانیت،لاہور صفحہ143)
غیرمقلدین حضرات کو اہل حدیث کی فضیلت کے مواقع پر شیخ عبدالقادر جیلانی بے ساختہ یاد آجاتے ہیں لیکن تصوف کے باب میں یہی شیخ عبدالقادرجیلانی ان کیلئے کوہ گراں بن جاتے ہیں۔جس شیخ عبدالقادر جیلانی کی پوری زندگی تصوف کے اردگرد گھومی ہو ، وہ خود کسی سے مرید ہوئے ہیں ان کے ہزاروں مریدین ہوں، بیعت وارشاد کا کام دھوم دھام سے چل رہاہو اورتصوف کے تعلق سے اورتصوف کے ائمہ کے تعلق سے ان کے اقوال ان کی کتابوں میں مذکور ہیں جن میں سے بعض کو دورحاضر کے غیرمقلدین کافرومشرک سمجھتے ہیں۔
شیخ عبدالقادرجیلانی نے سے اہل حدیث سے اپنے طائفہ یعنی حنابلہ کو مراد لیاہے، شیخ عبدالقادر جیلانی نے اہل حدیث کی کہیں پر بھی ایسی وضاحت نہیں کی ہے جس میں عدم تقلید کو ان کا شعار بتایاگیاہو،اورائمہ مجتہدین کی تقلید کو بدعت سے تعبیر کیاگیاہو،لہذا شیخ عبدالقادر جیلانی کی تحریرکو دورحاضر کے اہل حدیث پر منطبق کرناہی اصولی لحاظ سے غلط ہے،یہ صرف لفظ کی مشابہت ہے ورنہ حقیقت اورمعنی میں آسمان وزمین کا فرق ہے۔
اسی بغض کا نتیجہ ہے کہ بدعتی حضرات اہل حدیث کے الٹے سیدھے اور ناپسندیدہ نام رکھتے ہیں اور پھر ان برے ناموں کو اس قدر رواج دیتے ہیں کہ معاشرے میں وہ نام گالی بن کر رہ جاتے ہیں۔ اس مذموم عمل سے عام اور سادہ لوح لوگوں کو اہل حق یعنی اہل حدیث سے دور رکھنا مقصود ہوتا ہے ۔کفار ومشرکین نے بھی اسی حربے اور ہتھکنڈے کو اسلام کی یلغار روکنے کے لئے اختیار کیاتھا کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کے ناپسندیدہ نا م رکھے تاکہ لوگوں کو نبی ﷺ کے پاس جانے اور ان کی بات سننے سے روکا جاسکے۔
یہ نہیں فرمایاکہ جواب میں آپ کا گروہ کیاکرتاہے ،کیاوہ خاموش رہ کر صبر کرتاہے یاپھر تعدی سے کام لے کر ایک کے بجائے چارسناتاہے،یہ بھی نہیں ارشاد فرمایاکہ امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ والرضوان کواوراحناف کو دن رات کوسنے کون دیتاہے، مشرک اورکافر کی رٹ کون لگاتاہے؟دوسروں کی آنکھ کا تنکادیکھنے سے پہلے اپنی آنکھوں کی شہتیر پربھی نگاہ دوڑائیں تو کتنااچھاہو،لیکن افسوس کہ اس کی توقع ہی کم ہے۔
طحاوی شرح در مختار میں ہے: وھذہ الطائفۃ الناجیۃ قد اجتمعت الیوم فی مذاہب اربعۃ الخ وتقدم فی مسئلہ
ترجمہ: فرقہ ناجیہ صرف مذاہب اربعہ کا نام ہے(طحاوی شرح در مختار، 4/153)
میں عمومااس طرح کی غلطیوں پر لکھنے کا عادی نہیں ہوں ،ایک دوسرے تھریڈ میں ہمارے کرم فرما خضرحیات صاحب الجزیری کو الجزائری لکھنے پر عتاب فرمایاتھا ،اس پوسٹ میں ایک نہیں دوجگہ طحاوی لکھاہے اوریہ لکھاہے کہ
طحاوی شرح درمختار میں ہےیہاں اس پوسٹ کو انہوں نے پسند ضرور فرمایالیکن نشاندہی کی زحمت گوارانہیں کی یہ طحاوی نہیں طھطاوی ہیں،بعض حضرات طحطاوی بھی لکھتے ہیں لیکن طحاوی توکوئی نہیں لکھتا کیونکہ امام طحاوی صاحب متن کی ولادت سے کئی صدی قبل جواررحمت منتقل ہوچکے تھے ۔اس لکھنے کا مقصد محض خضرحیات صاحب کو یہ بتاناہے کہ ٹائپنگ کی غلطیوں کو تعلیات کی وجہ نہ بنائیں۔
۲۔ اسی کتاب کے باب التعزیر میں شامی تفصیل سے لکھتے ہیں: وایضاً قالوا العامی لامذہب لہ بل مذھبہ مذہب مفتیہ و عللہ فی شرح التحریر بان المذھب انما یکون لمن لہ نوع نظر و استدلال و بصر بالمذاھب علی حسبہ اولمن قراٗ کتابا فی فروع ذلک المذہب وعرف فتاوی امامہ و اقوالہ واما غیرہ ممن قال: انا حنفی او شافعی لم یصر کذلک بمجرد القول کقولہ وانا فقیہ او نحوی۔
عامی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا جیسے حنفی، شافعی نہیں بن سکتا بلکہ وہ تو زندہ انسان کے فتوے پر چل رہا ہوتا ہے، مقلد تو وہ ہوسکتا ہے جو کسی امام کی کتاب پڑھ لے یا اقوال یاد کرلے اور عامی میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی ، تو صرف اپنے آپ کو حنفی شافعی کہہ دینے سے حنفی شافعی نہیں بن سکتا۔ جس طرح اگر کوئی عامی اپنے آپ کو نحوی یا فقیہ کہہ دے تو یہ صرف زبانی جمع خرچ ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں۔اس سے کوئی نحوی او ر فقیہ نہیں بن سکتا۔(ردالمحتار للشامی،باب التعزیر ۳/۱۹۰)
ترجمہ میں اپنی جانب سے اضافہ اورکتربیونت ہے۔جیسے اس جملہ کا
حنفی، شافعی نہیں بن سکتا اضافہ کردیاگیاہے ،اسی طرح
وہ تو زندہ انسان کے فتوے پر چل رہا ہوتا ہے، مذکورہ جملہ غلط طورپر لکھاگیاہے صحیح یہ ہوگاکہ
بلکہ عامی کا مذہب اس کے مفتی کا مذہب ہوتاہے۔
اسی طرح اس میں پورے ایک سطر کا ترجمہ چھوڑدیاگیاہے۔
عللہ فی شرح التحریر بان المذھب انما یکون لمن لہ نوع نظر و استدلال و بصر بالمذاھب علی حسبہ
شرح تحریر میں اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ مذہب سے منسوب وہ شخص ہوسکتاہے جس میں کسی درجہ کا غوروفکر اوراستدلال کی صلاحیت اور اس کی لیاقت کے اعتبار سے مذہب میں بصیرت حاصل ہو۔
تو یہ صرف زبانی جمع خرچ ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں
یہ بھی شاہد نذیر صاحب نے اپنی جانب سے بڑھادیاہے،
ترجمہ کااصول یہ ہے کہ اپنی بات بریکٹ میں ذکر کرتے ہیں لیکن شاہد نذیرصاحب نے سمجھاکہ اس اصول کی میں تقلید کیوں کرون ،کیامیں کوئی مقلد ہوں ؟
ایک نظراس اقتباس کے معنی اورمطلب پر
اس اقتباس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی حنفی اورشافعی اس وقت ہوسکتاہے جب اس کو فقہ حنفی سے کسی نہ کسی حد تک واسطہ اوررابطہ ہواورجس کا کوئی واسطہ ہی نہ ہو اس کے خود کو حنفی یاشافعی کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔جیسے کوئی شخص بغیر نحو کو پڑھے خودکو نحوی کہے،یہ ہوئی ایک بات۔
دوسری بات اسی اقتباس میں مذکور ہے کہ عامی کامذہب مفتی کا مذہب ہوتاہے اورمفتی کا مذہب حنفی ہے توعامی کامذہب بھی حنفی ہوگا۔
اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ فقہ حنفی کی جانب انتساب کی دوشکلیں ہیں ایک تومعرفت کے طورپر اوردوسرے مذہب پر عمل کرنے کے اعتبار سے۔مفتی کا مذہب اگرفقہ حنفی ہے تو عامی کا مذہب بھی فقہ حنفی ہی ہوا،یہ بات اس اقتباس سے بخوبی ثابت ہورہی ہے لیکن شاید شاہدنذیر کی سمجھ میں نہیں آئی یاوہ اس کو سمجھنانہیں چاہتے۔
آل تقلید کے قابل فخر فقیہ شامی کی اس گواہی سے جو مقلدوں کے حق میں انتہائی ذلت آمیز ہے ،ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ حنفیوں کا حنفی مذہب سے انتساب کا دعویٰ سراسر جھوٹا ہے۔مقلد اپنی جہالت کے سبب ہر گز اس لائق نہیں کہ خود کو کسی مذہب کی طرف منسوب بھی کرسکے وہ تو کوئی مذہب ہی نہیں رکھتا یعنی لامذہب ہوتاہے۔
شامی یقینا قابل فخر فقیہہ ہیں لیکن ان کی یہ بات ذلت آمیز کس طورپر ہے وہ میرے کیا ہرسمجھدار انسان کی سمجھ کے پرے ہوگا۔اوریہ خود ساختہ مطلب کہ
موجودہ حنفیوں کا حنفی مذہب سے انتساب کا دعویٰ سراسر جھوٹا ہے۔سمجھداری کا شاہکار ہے،یقینااہل حدیث حضرات کو ایسے ہی سمجھداروں کی ضرورت ہے اورہماری دعاہے کہ اہل حدیث حضرات میں ایسے سمجھدار بکثرت ہوں
کثراللہ امثالہم
مذہب حنفی سے انتساب کا دعویٰ اس لئے سچا ہے کہ
احناف میں دوقسم کے افراد ہیں
ایک تو وہ جوفقہ حنفی کو پڑھتے پڑھاتے ہیں،اس کی کتابوں پر مہارت رکھتے ہیں اورپیش آمدہ مسائل کا حل بتاتے ہیں انہیں چاہئے متبحر علماء کہیں یامفتی کہیں
دوسرے وہ لوگ ہیں جو پیش آمدہ مسائل میں ان حضرات سے رجوع ہوتے ہیں اوران سے اپنے مسائل کا حل پوچھتے ہیں اوریہ حضرات فقہ حنفی کی روشنی میں انکو جواب دیتے ہیں۔
اول الذکر تواس لئے حنفی ہوئے کہ وہ فقہ حنفی کی کتابوں کے مضامین ومطالب سے واقف اور اس میں ایک گونہ نظروبصر رکھتے ہیں
ثانی الذکر اس لئے حنفی ہوئے کہ وہ پیش آمدہ مسائل میں اول الذکر سے ہی رجوع ہوتے ہیں اورجویہ شامی کہہ چکے ہیں کہ جو مذہب مفتی کا وہی مذہب عامی کا۔
اس وضاحت سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ فقہ حنفی کی جانب انتساب علماء اورعوام کا غلط نہیں بلکہ درست ہے ،اگرکسی کو سمجھنے میں کوئی اشتباہ ہواہے تو وہ کسی دارالافتاء جاکر کسی مفتی سے پوچھ لے،فاسئلوااہل الذکر ان کنتم لاتعلمون،چاہے اس کو تقلید سمجھیں یاپیروی لیکن کرناتویہی چاہئے کہ اگرمعلوم نہیں توپوچھ لیں۔
وماتوفیقی الاباللہ