• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

لامذہب کون؟

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
اندھی تقلید کی رٹ لگانےسے قبل اندھی تقلید کا مطلب سمجھناچاہئے،اندھی تقلید وہ ہوتی ہے جس میں کوئی کسی اندھے کا ہاتھ پکڑے لے اور وہ جدھے لے چلے چلاجائے لیکن اگرانسان کسی دیدہ وبینا کا ہاتھ پکڑکر چلتاہے تواسے اندھی تقلید نہیں کہتے ،دورحاضر میں کچھ لوگوںکا یہ مشغلہ اورشوق ہے کہ ان کو قرون مفضلہ کے مجتہدین اورفقہاء کے پیچھے چلنے سے توخداواسطے کا بیر ہے لیکن اس دور ہواوہوس میں کچھ نیم ملائوں کے پیچھے بڑے شوق سے چل رہے ہیں۔حالانکہ ان کی یہ روش اندھی تقلید ہے نہ کہ دیدہ وبینا اورمجتہدین کے پیروکار کی روش ۔
کبھی تو یہ سیانے ہمیں ترغیب دیتے ہیں کہ قرآن وحدیث سامنے ہے ۔جب فقہ حنفی کی کتابیں سمجھ میں آسکتی ہیں تو قرآن وحدیث کیوں نہیں، ان کو کون سمجھائے کہ پھولوں کی خوشبو سونگھنا اور پھولوں سےعطرکشید کرنے کا فرق کیاہوتاہے۔جب قرآن وحدیث سے براہ راست اجتہاد کی مشکلات سے ان کو سامناپڑتاہے تو یہ بھی اپنے علماء کی تقلید کرتے ہیں لیکن نام اتباع کا دیتے ہیں، نام دینےسے کبھی حقیقت نہیں بدلتی، جیسے خوارج نے اپنانعرہ ان الحکم الاللہ کا لگایاتھا لیکن سب کو معلوم تھاکہ کلمۃ حق ارید بھاالباطل ہے۔
اب ایک شخص کسی مسئلہ میں ابن تیمیہ،ابن قیم ،شوکانی اور نواب صدیق حسن وخان والبانی وغیرذلک کی رائے اختیار کرے اورکوئی شخص قرون مفضلہ کے مجتہدین کی آراء کو اختیار کرے،حال تو دونوں کا ایک ہے کہ دونوں قران وسنت سے براہ راست اجتہاد کرنے سے معذور ہیں توایک بے چارہ مقلد ہوگیا اوردوسرا محقق ہوگاویل للمطففین۔
محترم -

یہاں میں آپ کو بھی وہی کہنا چاہوں گا جو میں نے اس سے قبل محترم عبدالرحمان بھٹی صاحب کو ان کی ایک پوسٹ کے حوالے سے کہا تھا -

کہ :

جہالت آپ کے الفاظ سے ٹپک رہی ہے- اگر آپ کو تقلید اور تحقیق کا فرق معلوم ہوتا تو اس قسم کی موشگافیاں نہ کرتے- بغیر دلیل کے اہل علم کی پیروی کو "تقلید" کہتے ہیں- اور دلیل کے ساتھ پیروی کو تحقیق کہتے ہیں- اور دین اسلام میں دلیل قرآن و احادیث نبوی صل الله علیہ و آ له وسلم ہیں - ایک غیر مقلد کسی دینی مسلے میں عمل سے پہلے اہل علم سے قرآن و صحیح احادیث نبوی کی دلیل مانگتا ہے- جب کہ مقلد صرف اپنے امام کی راے کو ترجیح دیتا ہے - چاہے اس کا امام کسی ناسخ آیت یا ضعیف حدیث سے مسلے کا انسباط کر رہا ہو - مقلد کی دل میں ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا ایک ہی امام ہے جس سے غلطی یا خطاء محال ہے اس لئے مسلے میں مزید تحقیق کیے بغیر اور کسی دوسرے اہل علم سے اسی مسلے میں اس کی مجتہدانہ راے لئے بغیر "اندھوں " کی طرح اپنے امام کی راے کو حرف آخر سمجھتا ہے - اور یہی ایک مقلد کی جہالت کا خاصا ہے جو کہ بلخصوص "احناف " میں پائی جاتی ہے-
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
جہالت آپ کے الفاظ سے ٹپک رہی ہے- اگر آپ کو تقلید اور تحقیق کا فرق معلوم ہوتا تو اس قسم کی موشگافیاں نہ کرتے- بغیر دلیل کے اہل علم کی پیروی کو "تقلید" کہتے ہیں- اور دلیل کے ساتھ پیروی کو تحقیق کہتے ہیں-
محترم! آپ اپنی حدود سے باہر نکل کر دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے کہ کتنے ”آپ جیسے“ ہیں اور کتنے ”آپ جیسے“ نہیں!!!!!!!
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
غیرمقلدین حضرات کو اہل حدیث کی فضیلت کے مواقع پر شیخ عبدالقادر جیلانی بے ساختہ یاد آجاتے ہیں لیکن تصوف کے باب میں یہی شیخ عبدالقادرجیلانی ان کیلئے کوہ گراں بن جاتے ہیں۔جس شیخ عبدالقادر جیلانی کی پوری زندگی تصوف کے اردگرد گھومی ہو ، وہ خود کسی سے مرید ہوئے ہیں ان کے ہزاروں مریدین ہوں، بیعت وارشاد کا کام دھوم دھام سے چل رہاہو اورتصوف کے تعلق سے اورتصوف کے ائمہ کے تعلق سے ان کے اقوال ان کی کتابوں میں مذکور ہیں جن میں سے بعض کو دورحاضر کے غیرمقلدین کافرومشرک سمجھتے ہیں۔
شیخ عبدالقادرجیلانی نے سے اہل حدیث سے اپنے طائفہ یعنی حنابلہ کو مراد لیاہے، شیخ عبدالقادر جیلانی نے اہل حدیث کی کہیں پر بھی ایسی وضاحت نہیں کی ہے جس میں عدم تقلید کو ان کا شعار بتایاگیاہو،اورائمہ مجتہدین کی تقلید کو بدعت سے تعبیر کیاگیاہو،لہذا شیخ عبدالقادر جیلانی کی تحریرکو دورحاضر کے اہل حدیث پر منطبق کرناہی اصولی لحاظ سے غلط ہے،یہ صرف لفظ کی مشابہت ہے ورنہ حقیقت اورمعنی میں آسمان وزمین کا فرق ہے۔
یہ آپ کی غلط فہمی ہے کہ شیخ عبد القادر جیلانی ؒ مقلد تھے اور انہوں نے آئمہ مجہتدین کی تقلید کو بدعت قرار نہیں دیا -

موصوف غنیۃ الطالبین میں رقمطراز ہیں کہ

''
ولا ینظر إلی أحوال الصالحین (وأفعالھم) بل إلی ما روي عن الرسولﷺ والاعتماد علیه حتی یدخل العبد في حالة ینفرد بھا عن غیرہ'' (ج۲؍ص۱۴۹)


'' صالحین (علماء ومشائخ) کے افعال واعمال (اور اقوال) کو پیش نظر نہ رکھا جائے بلکہ اس چیز کو پیش نظر رکھا جائے جو آنحضرت ؐ سے مروی ہے اور اسی مروی(حدیث) پر اعتماد کیا جائے خواہ اس طرح کرنے سے کوئی شخص دوسرے لوگوں سے ممتاز ومنفرد ہی کیوں نہ ہو جائے۔ ''

مزید یہ کہ :

اگر شیخ جیلانی کے عقائد و نظریات میں کوئی بگاڑ ہوتا (یعنی تصوف ہی آپ کا اوڑھنا بچھونا ہوتا ) تو ابن تیمیہ ؒ اس کی ضرور نشاندہی اورتردید فرماتے مگر اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ ابن تیمیہ ؒ نے شیخ جیلانی ؒ کا نہ صرف ذکر ِخیر فرمایا ہے بلکہ انہیں 'اکابر الشیوخ'، 'الشیخ الامام' اور 'أئمتنا' میں شمار فرمایا ہے۔ (دیکھئے مجموع الفتاویٰ: ج۱۱؍ ص۶۰۴،ج۵؍ ص۸۵)
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
ایک غیر مقلد کسی دینی مسلے میں عمل سے پہلے اہل علم سے قرآن و صحیح احادیث نبوی کی دلیل مانگتا ہے- جب کہ مقلد صرف اپنے امام کی راے کو ترجیح دیتا ہے - چاہے اس کا امام کسی ناسخ آیت یا ضعیف حدیث سے مسلے کا انسباط کر رہا ہو -
چلئے ہم آپ مصنف ابن ابی شیبہ اور مصنف عبدالرزاق اوردیگر کتب آثار کا تھوڑاجائزہ لیتے ہیں اورمعلوم کرتے ہیں کہ کتنے مسئلہ اورفتوی معلوم کرنے والوں نے مفتی اور جن سے مسئلہ معلوم کیاجارہاتھا، ان سے دلیل کا مطالبہ کیا ہے۔ اگر اکثریت ایسی نکلی جنہوں نے دلیل کا مطالبہ نہیں کیا توپھر خیر القرون میں مقلدین کا وجود تسلیم کریں گے یاپھر اپنی ہی ضد اور ہٹ دھرمی پر بدستور اورحسب معمول گامزن رہیں گے۔
مقلد کی دل میں ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا ایک ہی امام ہے جس سے غلطی یا خطاء محال ہے اس لئے مسلے میں مزید تحقیق کیے بغیر اور کسی دوسرے اہل علم سے اسی مسلے میں اس کی مجتہدانہ راے لئے بغیر "اندھوں " کی طرح اپنے امام کی راے کو حرف آخر سمجھتا ہے - اور یہی ایک مقلد کی جہالت کا خاصا ہے جو کہ بلخصوص "احناف " میں پائی جاتی ہے-
مقلد کے دل میں یہ بات کبھی نہیں ہوتی،جس کاآپ اظہار کررہے ہیں، مقلد تویہ کہتا اورمانتاہے کہ ہمارامذہب صواب ہے لیکن خطاکا احتمال ہے اور دوسرے کا مذہب خطاہے لیکن صواب کا احتمال ہے ۔اوریہ بات تقریبا اصول فقہ کی ہرکتاب میں لکھی ہوئی ہے۔اس کے باوجود مطلقایہ کہنا کہ مقلد کے دل میں یہ ہمیشہ ہوتاہے ،غلط تعبیر اور مبالغہ آرائی سے خالی نہیں۔اورکچھ لوگ ہرجماعت ،ہرگروہ اورہرمسلک میں ایسے ہوتے ہیں جن کے اندر تشدد اورغلو ہوتاہے ،جب لوگوں نے اللہ کے رسول کی ذات وصفات اورتعریف میں غلو میں کیاہے توپھر امام ابوحنیفہ اوردیگر ائمہ کیسے اس سے بچ سکتے ہیں؟
دوسری بات یہ فرمائی کہ
مقلد کے دل میں ہمیشہ یہ ہوتاہے

ہم تویہ جانتے تھے کہ دل کی باتیں صرف علیم بذات الصدور اورغلام الغیوب ہی جانتاہے لیکن الہام اور کشف کو شرک کے درجے تک پہنچانے والے بھی دل کی باتیں جاننے کے مدعی ہیں تواب کس سے فریاد کی جائے۔
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستہ تیغ ستم نکلے
ولا ینظر إلی أحوال الصالحین (وأفعالھم) بل إلی ما روي عن الرسولﷺ والاعتماد علیه حتی یدخل العبد في حالة ینفرد بھا عن غیرہ'' (ج۲؍ص۱۴۹)
اس سے تقلید اورعدم تقلید آپ کس منطق سے کشید کررہے ہیں؟وہ ذراہمیں بھی سمجھائیں،شیخ عبدالقادرجیلانی تو بڑی بات ہیں ہرمسلمان یہ کہتاہے کہ رسول اللہ کی ہی اتباع ہونی چاہئے اور بعد از خدا رسول اللہ سے زیادہ اتباع کے قابل کوئی اورنہیں۔لیکن ملین ڈالر کا سوال یہ ہوتاہے کہ اتباع کی شکل کیاہوگی،تقلید یاعدم تقلید ،اگرآنجناب کا جواب یہ ہے کہ اتباع کی شکل عدم تقلید ہے تو اس کی بادلائل وضاحت کردیں ،ہم تو تقلید کو بھی اتباع کی ہی ایک شکل سمجھتے ہیں اور شیخ عبدالقادر جیلانی نے کہیں بھی تقلید کی مذمت نہیں کی،کہیں تقلید کو بدعت نہیں بتایا ،کہیں مقلدین کو گمراہ نہیں کہا۔اورکہتے بھی کیسے، ساری زندگی تو ان کی فقہ حنبلی کی خدمت کرتے ہوئے گزری۔لمحہ فکریہ توان لوگوں کیلئے ہے جو تقلید کو بدعت بھی کہتے ہیں اورپھر شیخ کے کلام سے استدلال بھی کرتے ہیں؟
اگر شیخ جیلانی کے عقائد و نظریات میں کوئی بگاڑ ہوتا (یعنی تصوف ہی آپ کا اوڑھنا بچھونا ہوتا ) تو ابن تیمیہ ؒ اس کی ضرور نشاندہی اورتردید فرماتے مگر اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ ابن تیمیہ ؒ نے شیخ جیلانی ؒ کا نہ صرف ذکر ِخیر فرمایا ہے بلکہ انہیں 'اکابر الشیوخ'، 'الشیخ الامام' اور 'أئمتنا' میں شمار فرمایا ہے۔ (دیکھئے مجموع الفتاویٰ: ج۱۱؍ ص۶۰۴،ج۵؍ ص۸۵)
یہ بڑی اچھی بات فرمائی آپ نے، یعنی معیار حق ابن تیمیہ ٹھہرے، اگرابن تیمیہ کسی کی تعریف کریں اور کوئی نقص وعیب نہ گردانیں تو وہ شخصیت پاک وبے عیب ٹھہرے اور اگر ابن تیمیہ کسی کے بارے میں کچھ لکھ دیں (صحیح یاغلط)توبے چارہ اس داغ کو دھوتے دھوتے زندگی گزاردے لیکن داغ نہ دھلے۔
اب تک تو احناف ہی بدنام تھے کہ ان کیلئے ابوحنیفہ معیار حق ہیں جو ابوحنیفہ نے کہہ دیا وہ آخری بات ہوگئی ،لیکن پتہ چلتاہے کہ ہمارے ناقدین بھی ہم سے کم کسی طرح نہیں ہیں،بس فرق اتناہے کہ احناف جوکچھ کرتے ہیں اسی کا زبانی اقرار بھی کرتے ہیں اورہمارے یہ ناقدین زبان سے کچھ اورکہتے ہیں اورعمل کچھ ہوتاہے یعنی زبان اوردل ایک دوسرے کے رفیق نہیں بلکہ فریق ہیں۔
وماتوفیقی الاباللہ
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
لا ینظر إلی أحوال الصالحین (وأفعالھم) بل إلی ما روي عن الرسولﷺ والاعتماد علیه حتی یدخل العبد في حالة ینفرد بھا عن غیرہ'' (ج۲؍ص۱۴۹)
شیخ مجدد الف ثانیؒ کے مکتوبات میں متعدد مقام پر مروی ہے کہ یہاں فصوص(فصوص الحکم لابن عربی )نہیں بلکہ نصوص (قرآن وحدیث )کی ضرورت ہے۔ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’فتوحات مدینہ‘‘ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال)نےہم کو ’’فتوحات مکیہ‘‘(ابن عربی کی ایک کتاب)سے بے نیاز کردیاہے۔اس کے علاوہ صوفیاء حضرات کے اقوال اور احوال کاشریعت میں معتبر نہ ہونے کے بارے میں تو متعدد اقوال ہیں ۔
کیااس سے عدم تقلید کشیدکیاجاسکتاہے جب کہ شیخ سرہندی پکے حنفی ہیں، لکھتے ہیں کہ تمام ائمہ برحق ہیں اور سب نے دین کی خدمت کی لیکن امام ابوحنیفہ کا مسلک نگاہ کشفی میں ایک بڑے دریا کی صور ت میں آتاہے اوردیگر ائمہ کے مسالک نہروں کی صورت میں ہیں۔اس کے علاوہ دیگر مقامات پر بھی امام ابوحنیفہ کو دیگر ائمہ سے افضل ماناہے۔
بعینہ یہی بات شیخ عبدالقادرجیلانی کے کلام کی ہے اوران کے مذکورہ کلام سے عدم تقلید کشید کرنابجائے خود ایک لطیفہ ہے۔
وماتوفیقی الاباللہ
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
'' صالحین (علماء ومشائخ) کے افعال واعمال (اور اقوال) کو پیش نظر نہ رکھا جائے بلکہ اس چیز کو پیش نظر رکھا جائے جو آنحضرت ؐ سے مروی ہے اور اسی مروی(حدیث) پر اعتماد کیا جائے خواہ اس طرح کرنے سے کوئی شخص دوسرے لوگوں سے ممتاز ومنفرد ہی کیوں نہ ہو جائے۔ ''
صالحین اور فقہاء و مجتہدین کو ایک برابر نہ سمجھیں۔ تقلید صرف فقہا کی کی جاتی ہے۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
چلئے ہم آپ مصنف ابن ابی شیبہ اور مصنف عبدالرزاق اوردیگر کتب آثار کا تھوڑاجائزہ لیتے ہیں اورمعلوم کرتے ہیں کہ کتنے مسئلہ اورفتوی معلوم کرنے والوں نے مفتی اور جن سے مسئلہ معلوم کیاجارہاتھا، ان سے دلیل کا مطالبہ کیا ہے۔ اگر اکثریت ایسی نکلی جنہوں نے دلیل کا مطالبہ نہیں کیا توپھر خیر القرون میں مقلدین کا وجود تسلیم کریں گے یاپھر اپنی ہی ضد اور ہٹ دھرمی پر بدستور اورحسب معمول گامزن رہیں گے۔

مقلد کے دل میں یہ بات کبھی نہیں ہوتی،جس کاآپ اظہار کررہے ہیں، مقلد تویہ کہتا اورمانتاہے کہ ہمارامذہب صواب ہے لیکن خطاکا احتمال ہے اور دوسرے کا مذہب خطاہے لیکن صواب کا احتمال ہے ۔اوریہ بات تقریبا اصول فقہ کی ہرکتاب میں لکھی ہوئی ہے۔اس کے باوجود مطلقایہ کہنا کہ مقلد کے دل میں یہ ہمیشہ ہوتاہے ،غلط تعبیر اور مبالغہ آرائی سے خالی نہیں۔اورکچھ لوگ ہرجماعت ،ہرگروہ اورہرمسلک میں ایسے ہوتے ہیں جن کے اندر تشدد اورغلو ہوتاہے ،جب لوگوں نے اللہ کے رسول کی ذات وصفات اورتعریف میں غلو میں کیاہے توپھر امام ابوحنیفہ اوردیگر ائمہ کیسے اس سے بچ سکتے ہیں؟
دوسری بات یہ فرمائی کہ
مقلد کے دل میں ہمیشہ یہ ہوتاہے

ہم تویہ جانتے تھے کہ دل کی باتیں صرف علیم بذات الصدور اورغلام الغیوب ہی جانتاہے لیکن الہام اور کشف کو شرک کے درجے تک پہنچانے والے بھی دل کی باتیں جاننے کے مدعی ہیں تواب کس سے فریاد کی جائے۔
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستہ تیغ ستم نکلے

اس سے تقلید اورعدم تقلید آپ کس منطق سے کشید کررہے ہیں؟وہ ذراہمیں بھی سمجھائیں،شیخ عبدالقادرجیلانی تو بڑی بات ہیں ہرمسلمان یہ کہتاہے کہ رسول اللہ کی ہی اتباع ہونی چاہئے اور بعد از خدا رسول اللہ سے زیادہ اتباع کے قابل کوئی اورنہیں۔لیکن ملین ڈالر کا سوال یہ ہوتاہے کہ اتباع کی شکل کیاہوگی،تقلید یاعدم تقلید ،اگرآنجناب کا جواب یہ ہے کہ اتباع کی شکل عدم تقلید ہے تو اس کی بادلائل وضاحت کردیں ،ہم تو تقلید کو بھی اتباع کی ہی ایک شکل سمجھتے ہیں اور شیخ عبدالقادر جیلانی نے کہیں بھی تقلید کی مذمت نہیں کی،کہیں تقلید کو بدعت نہیں بتایا ،کہیں مقلدین کو گمراہ نہیں کہا۔اورکہتے بھی کیسے، ساری زندگی تو ان کی فقہ حنبلی کی خدمت کرتے ہوئے گزری۔لمحہ فکریہ توان لوگوں کیلئے ہے جو تقلید کو بدعت بھی کہتے ہیں اورپھر شیخ کے کلام سے استدلال بھی کرتے ہیں؟

یہ بڑی اچھی بات فرمائی آپ نے، یعنی معیار حق ابن تیمیہ ٹھہرے، اگرابن تیمیہ کسی کی تعریف کریں اور کوئی نقص وعیب نہ گردانیں تو وہ شخصیت پاک وبے عیب ٹھہرے اور اگر ابن تیمیہ کسی کے بارے میں کچھ لکھ دیں (صحیح یاغلط)توبے چارہ اس داغ کو دھوتے دھوتے زندگی گزاردے لیکن داغ نہ دھلے۔
اب تک تو احناف ہی بدنام تھے کہ ان کیلئے ابوحنیفہ معیار حق ہیں جو ابوحنیفہ نے کہہ دیا وہ آخری بات ہوگئی ،لیکن پتہ چلتاہے کہ ہمارے ناقدین بھی ہم سے کم کسی طرح نہیں ہیں،بس فرق اتناہے کہ احناف جوکچھ کرتے ہیں اسی کا زبانی اقرار بھی کرتے ہیں اورہمارے یہ ناقدین زبان سے کچھ اورکہتے ہیں اورعمل کچھ ہوتاہے یعنی زبان اوردل ایک دوسرے کے رفیق نہیں بلکہ فریق ہیں۔
وماتوفیقی الاباللہ
محترم -

باقی باتوں کا جواب تو بعد میں دیا جائے گا پہلے آپ یہ فرمائیں کہ جس تقلید کے آپ رات دن گن گاتے ہیں کیا اس تقلید کے اصول نبی کریم صل الله علیہ و اله وسلم سے لے کر قیامت تک کے مسلمانوں پر منطبق ہوتے ہیں ؟؟ اگر ایسا ہے تو پھر آپ کے اپنے امام کی (جن کی تقلید کے گن احناف دن رات گاتے ہیں) اس معاملے میں ان کی کیا حیثیت ہے ؟؟ جو چیز قرون اولیٰ میں نہیں تھی اس کو دین کا جزو بنا دیا گیا - اور اس پر اتباع کا معلمہ چڑھا دیا گیا - "بقول آپ کے کہ "لیکن ملین ڈالر کا سوال یہ ہوتاہے کہ اتباع کی شکل کیا ہوگی،تقلید یاعدم تقلید ،اگرآنجناب کا جواب یہ ہے کہ اتباع کی شکل عدم تقلید ہے تو اس کی بادلائل وضاحت کردیں ،ہم تو تقلید کو بھی اتباع کی ہی ایک شکل سمجھتے ہیں" - تو آپ سے ملین ڈالر نہیں بلکہ ایک سادہ سا سوال ہے کہ صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کے مبارک دور میں اس اتباع کی کیا نوعیت اور صورت تھی؟؟ کیا تب بھی اتباع کی یہ صورت "تقلید" ہی کہلاتی تھی کیوں کہ فقہی مسائل تو ان کے دور میں بھی موجود تھے ؟؟ مزید یہ کہ آپ کے اپنے پیارے امام اتباع کے نام پر کس کی تقلید کیا کرتے تھے؟؟ - کیوں کہ آپ جناب احناف کے خود ساختہ مذہبی اصول کےتحت ہر عامی پر تقلید واجب ہے- تو آپ کے اپنے امام بھی تو کبھی نہ کبھی عامی رہے ہونگے - اب ظاہر ہے کہ وہ پیدائشی مجتہد تو ہو نہیں سکتے- تو اب سوال ہے کے پھر ایسی تقلید کا احناف کے پاس کیا جواز باقی رہا جس تقلید کو ان کے اپنے امام نے کبھی سرانجام نہیں دیا؟؟
 
Last edited:

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
؟ کیا تب بھی اتباع کی یہ صورت "تقلید" ہی کہلاتی تھی کیوں کہ فقہی مسائل تو ان کے دور میں بھی موجود تھے ؟؟ مزید یہ کہ آپ کے اپنے پیارے امام اتباع کے نام پر کس کی تقلید کیا کرتے تھے؟؟ - کیوں کہ آپ جناب احناف کے خود ساختہ مذہبی اصول کےتحت ہر عامی پر تقلید واجب ہے- تو آپ کے اپنے امام بھی تو کبھی نہ کبھی عامی رہے ہونگے - اب ظاہر ہے کہ وہ پیدائشی مجتہد تو ہو نہیں سکتے- تو اب سوال ہے کے پھر ایسی تقلید کا احناف کے پاس کیا جواز باقی رہا جس تقلید کو ان کے اپنے امام نے کبھی سرانجام نہیں دیا؟؟
تقلید اور عدم تقلید کا مسئلہ تو فورم پر بہت جگہ بکھراہواہے،اورمزید کاکوئی فائدہ نہیں ہے،آپ نے مصنف عبدالرزاق اورمصنف ابن ابی شیبہ والی بات کا جواب نہیں دیاکہ قرون مفضلہ کے عوام الناس مفتی حضرات سے دلیل کا مطالبہ کرتے تھے یانہیں کرتے تھے۔سیدھی سی بات ہے اس کا جواب دے دیں اور راحت پائیں۔
امام ابوحنیفہ تقلید کرتے ہیں ،تقلید نہیں کرتے تھے ،وہ عامی تھے یامجتہد تھے، ان سب سوالوں سے کوئی فائدہ نہیں، منکرین حدیث کے بھی سوالات ایسے ہی ہوتے ہیں کہ جب کتب حدیث تالیف نہیں کی گئی تھیں تب لوگ کس کی پیروی کرتے تھے۔
مجتہدین سے کوئی زمانہ خالی نہیں رہاہے، ہرزمانہ میں مجتہدین رہے ہیں اورمجتہدین کا ہوناہی یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ کچھ ان کے مقلدین اورپیروکار بھی ضرور ہوں گے کیونکہ استاد کا وجود تبھی ہوسکتاہے جب کہ اس کے کچھ شاگرد ہوں۔
بہرحال لاطائل مسائل سے کوئی فائدہ نہیں،اصل سوال جس کی وضاحت ماقبل میں طلب کی گئی ہے اس پر توجہ دیں تو مہربانی ہوگی۔
وماتوفیقی الاباللہ
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
تقلید اور عدم تقلید کا مسئلہ تو فورم پر بہت جگہ بکھراہواہے،اورمزید کاکوئی فائدہ نہیں ہے،آپ نے مصنف عبدالرزاق اورمصنف ابن ابی شیبہ والی بات کا جواب نہیں دیاکہ قرون مفضلہ کے عوام الناس مفتی حضرات سے دلیل کا مطالبہ کرتے تھے یانہیں کرتے تھے۔سیدھی سی بات ہے اس کا جواب دے دیں اور راحت پائیں۔
امام ابوحنیفہ تقلید کرتے ہیں ،تقلید نہیں کرتے تھے ،وہ عامی تھے یامجتہد تھے، ان سب سوالوں سے کوئی فائدہ نہیں، منکرین حدیث کے بھی سوالات ایسے ہی ہوتے ہیں کہ جب کتب حدیث تالیف نہیں کی گئی تھیں تب لوگ کس کی پیروی کرتے تھے۔
مجتہدین سے کوئی زمانہ خالی نہیں رہاہے، ہرزمانہ میں مجتہدین رہے ہیں اورمجتہدین کا ہوناہی یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ کچھ ان کے مقلدین اورپیروکار بھی ضرور ہوں گے کیونکہ استاد کا وجود تبھی ہوسکتاہے جب کہ اس کے کچھ شاگرد ہوں۔
بہرحال لاطائل مسائل سے کوئی فائدہ نہیں،اصل سوال جس کی وضاحت ماقبل میں طلب کی گئی ہے اس پر توجہ دیں تو مہربانی ہوگی۔
وماتوفیقی الاباللہ
تقلید مفضی الی الشرک:
تقلید بعض اوقات مفضی الی الشرک ہو تی ہے ۔ جب مقلد قرآن و حدیث کی مخالفت میں کسی عالم کی بات کو مانے اور قرآن و حدیث سے یکسر اغماض برتے، قرآن مجید کو صرف تبرک کے لیے پڑھے لیکن عملاً اس کو دستور حیات ماننے سے انکار کرے اور یہ گمان کرے کہ ہمارے امام سے غلطی اور خطأ ناممکن ہے اور اس کا ہر قول حق اور ثواب ہے اور اپنے دل میں یہ بات جما رکھے کہ ہم اپنے امام کی تقلید ہرگز نہ چھوڑیں گے اگرچہ ہمارے مذہب کے خلاف قرآن وحدیث سے دلیل قائم بھی ہو جائے ۔ایسی تقلید شرک تک پہنچانے والی ہے ۔
مولانا سرفراز خاں صفدر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ کوئی بدبخت اور ضدی مقلد دل میں یہ ٹھان لے کہ میرے امام کے قول کے مخالف اگر قرآن و حدیث سے بھی کوئی دلیل قائم ہو جائے تو میں اپنے مذہب کو نہیں چھوڑوں گا تو وہ مشرک ہے ، ہم بھی کہتے ہیں ، لا شک فیہ(اس میں کوئی شک نہیں)۔‘‘
(الکلام المفید ،ص:۳۱۰)
مگرافسوس ایسی تقلید کے اثرات علماء کرام تک میں موجود ہیں ۔ملاحظہ فرمائیں:
شیخ الہند محمود الحسن صاحب خیار مجلس(البیعان بالخیار ما لم یتفرقا) کے مسئلہ میں لکھتے ہیں :
’’ الحق والانصاف ان الترجیح للشافعی فی ھذہ المسئلۃ و نحن مقلدون یجب علینا تقلید امامنا ابی حنیفہ۔‘‘
’’ حق اور انصاف یہ ہے کہ اس مسئلہ میں امام شافعی رحمہ اللہ کو ترجیح حاصل ہے مگر ہم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مقلد ہیں ہم پر ان کی تقلید واجب ہے۔‘‘(تقریر ترمذی ،ص:۳۹)
تقلید غیر مفضی الیٰ الشرک:
شیخ الحدیث حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ :
’’حنفیہ تقلید کی طرف دعوت دیتے ہیں اور اسے واجب کہتے ہیں اور اہل حدیث تقلید کی مذمت کرتے ہیں اور اسے حرام کہتے ہیں تو پھر اتحاد کیسے؟
جواب: حرمت اور وجوب کے قائل دو قسم کے لوگ ہیں:
(۱)غالی : جن کے درمیان نزاع حقیقی ہے ۔
(۲) محققین: دراصل ان میں نزاع لفظی ہے ۔
جس تقلید کی اہلحدیث مذمت کرتے ہیں اور اس کو حرام کہتے ہیں ان کے ادلہ کو اگر دیکھا جائے تو ایسی تقلید کی حرمت و مذمت کا محققین حنفیہ بھی اقرار کرتے ہیں اور جس تقلید کو حنفیہ واجب کہتے ہیں اس کے ادلہ کو اگر دیکھا جائے تو ایسی تقلید سے اہلحدیث کو بھی مفر نہیں ۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ دین میں تین قسم کی تقلید حرام ہے ۔
۱۔ استحسان تربیت کی وجہ سے’’ تقلید آباء ‘‘پر اکتفاء کرنا اور قوت فکر اور دلیل کی طرف رجوع نہ کرنا یعنی قرآن و سنت سے اعراض اور جدی طریق پر جمود
۲۔ ایسے شخص کی تقلید کرنا جو قابل اتباع نہیں
۳۔ قیام حجت کے بعد بھی سابق طریق پر اڑے رہنا
تقلید کے جواز یا وجوب کی صورت
جب مکلف خود مسئلہ کی تحقیق نہ کر سکے اور اس کو تفصیل معلوم نہ ہو تو اس صورت میں بعض دفعہ تقلید جائز اور بعض دفعہ واجب ہو جاتی ہے مگر جو تقلید کی مطلق مذمت کرتے ہیں وہ اس صورت کو تقلید نہیں کہتے اور جو جائز یا واجب کہتے ہیں وہ اسے تقلید کی قسم قرار دیتے ہیں۔(الاصلاح ص۱۵۹)
 
Top