- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
ابتسامہ ۔اس لکھنے کا مقصد محض خضرحیات صاحب کو یہ بتاناہے کہ ٹائپنگ کی غلطیوں کو تعلیات کی وجہ نہ بنائیں۔
ابتسامہ ۔اس لکھنے کا مقصد محض خضرحیات صاحب کو یہ بتاناہے کہ ٹائپنگ کی غلطیوں کو تعلیات کی وجہ نہ بنائیں۔
محترم -اندھی تقلید کی رٹ لگانےسے قبل اندھی تقلید کا مطلب سمجھناچاہئے،اندھی تقلید وہ ہوتی ہے جس میں کوئی کسی اندھے کا ہاتھ پکڑے لے اور وہ جدھے لے چلے چلاجائے لیکن اگرانسان کسی دیدہ وبینا کا ہاتھ پکڑکر چلتاہے تواسے اندھی تقلید نہیں کہتے ،دورحاضر میں کچھ لوگوںکا یہ مشغلہ اورشوق ہے کہ ان کو قرون مفضلہ کے مجتہدین اورفقہاء کے پیچھے چلنے سے توخداواسطے کا بیر ہے لیکن اس دور ہواوہوس میں کچھ نیم ملائوں کے پیچھے بڑے شوق سے چل رہے ہیں۔حالانکہ ان کی یہ روش اندھی تقلید ہے نہ کہ دیدہ وبینا اورمجتہدین کے پیروکار کی روش ۔
کبھی تو یہ سیانے ہمیں ترغیب دیتے ہیں کہ قرآن وحدیث سامنے ہے ۔جب فقہ حنفی کی کتابیں سمجھ میں آسکتی ہیں تو قرآن وحدیث کیوں نہیں، ان کو کون سمجھائے کہ پھولوں کی خوشبو سونگھنا اور پھولوں سےعطرکشید کرنے کا فرق کیاہوتاہے۔جب قرآن وحدیث سے براہ راست اجتہاد کی مشکلات سے ان کو سامناپڑتاہے تو یہ بھی اپنے علماء کی تقلید کرتے ہیں لیکن نام اتباع کا دیتے ہیں، نام دینےسے کبھی حقیقت نہیں بدلتی، جیسے خوارج نے اپنانعرہ ان الحکم الاللہ کا لگایاتھا لیکن سب کو معلوم تھاکہ کلمۃ حق ارید بھاالباطل ہے۔
اب ایک شخص کسی مسئلہ میں ابن تیمیہ،ابن قیم ،شوکانی اور نواب صدیق حسن وخان والبانی وغیرذلک کی رائے اختیار کرے اورکوئی شخص قرون مفضلہ کے مجتہدین کی آراء کو اختیار کرے،حال تو دونوں کا ایک ہے کہ دونوں قران وسنت سے براہ راست اجتہاد کرنے سے معذور ہیں توایک بے چارہ مقلد ہوگیا اوردوسرا محقق ہوگاویل للمطففین۔
محترم! آپ اپنی حدود سے باہر نکل کر دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے کہ کتنے ”آپ جیسے“ ہیں اور کتنے ”آپ جیسے“ نہیں!!!!!!!جہالت آپ کے الفاظ سے ٹپک رہی ہے- اگر آپ کو تقلید اور تحقیق کا فرق معلوم ہوتا تو اس قسم کی موشگافیاں نہ کرتے- بغیر دلیل کے اہل علم کی پیروی کو "تقلید" کہتے ہیں- اور دلیل کے ساتھ پیروی کو تحقیق کہتے ہیں-
یہ آپ کی غلط فہمی ہے کہ شیخ عبد القادر جیلانی ؒ مقلد تھے اور انہوں نے آئمہ مجہتدین کی تقلید کو بدعت قرار نہیں دیا -غیرمقلدین حضرات کو اہل حدیث کی فضیلت کے مواقع پر شیخ عبدالقادر جیلانی بے ساختہ یاد آجاتے ہیں لیکن تصوف کے باب میں یہی شیخ عبدالقادرجیلانی ان کیلئے کوہ گراں بن جاتے ہیں۔جس شیخ عبدالقادر جیلانی کی پوری زندگی تصوف کے اردگرد گھومی ہو ، وہ خود کسی سے مرید ہوئے ہیں ان کے ہزاروں مریدین ہوں، بیعت وارشاد کا کام دھوم دھام سے چل رہاہو اورتصوف کے تعلق سے اورتصوف کے ائمہ کے تعلق سے ان کے اقوال ان کی کتابوں میں مذکور ہیں جن میں سے بعض کو دورحاضر کے غیرمقلدین کافرومشرک سمجھتے ہیں۔
شیخ عبدالقادرجیلانی نے سے اہل حدیث سے اپنے طائفہ یعنی حنابلہ کو مراد لیاہے، شیخ عبدالقادر جیلانی نے اہل حدیث کی کہیں پر بھی ایسی وضاحت نہیں کی ہے جس میں عدم تقلید کو ان کا شعار بتایاگیاہو،اورائمہ مجتہدین کی تقلید کو بدعت سے تعبیر کیاگیاہو،لہذا شیخ عبدالقادر جیلانی کی تحریرکو دورحاضر کے اہل حدیث پر منطبق کرناہی اصولی لحاظ سے غلط ہے،یہ صرف لفظ کی مشابہت ہے ورنہ حقیقت اورمعنی میں آسمان وزمین کا فرق ہے۔
چلئے ہم آپ مصنف ابن ابی شیبہ اور مصنف عبدالرزاق اوردیگر کتب آثار کا تھوڑاجائزہ لیتے ہیں اورمعلوم کرتے ہیں کہ کتنے مسئلہ اورفتوی معلوم کرنے والوں نے مفتی اور جن سے مسئلہ معلوم کیاجارہاتھا، ان سے دلیل کا مطالبہ کیا ہے۔ اگر اکثریت ایسی نکلی جنہوں نے دلیل کا مطالبہ نہیں کیا توپھر خیر القرون میں مقلدین کا وجود تسلیم کریں گے یاپھر اپنی ہی ضد اور ہٹ دھرمی پر بدستور اورحسب معمول گامزن رہیں گے۔ایک غیر مقلد کسی دینی مسلے میں عمل سے پہلے اہل علم سے قرآن و صحیح احادیث نبوی کی دلیل مانگتا ہے- جب کہ مقلد صرف اپنے امام کی راے کو ترجیح دیتا ہے - چاہے اس کا امام کسی ناسخ آیت یا ضعیف حدیث سے مسلے کا انسباط کر رہا ہو -
مقلد کے دل میں یہ بات کبھی نہیں ہوتی،جس کاآپ اظہار کررہے ہیں، مقلد تویہ کہتا اورمانتاہے کہ ہمارامذہب صواب ہے لیکن خطاکا احتمال ہے اور دوسرے کا مذہب خطاہے لیکن صواب کا احتمال ہے ۔اوریہ بات تقریبا اصول فقہ کی ہرکتاب میں لکھی ہوئی ہے۔اس کے باوجود مطلقایہ کہنا کہ مقلد کے دل میں یہ ہمیشہ ہوتاہے ،غلط تعبیر اور مبالغہ آرائی سے خالی نہیں۔اورکچھ لوگ ہرجماعت ،ہرگروہ اورہرمسلک میں ایسے ہوتے ہیں جن کے اندر تشدد اورغلو ہوتاہے ،جب لوگوں نے اللہ کے رسول کی ذات وصفات اورتعریف میں غلو میں کیاہے توپھر امام ابوحنیفہ اوردیگر ائمہ کیسے اس سے بچ سکتے ہیں؟مقلد کی دل میں ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا ایک ہی امام ہے جس سے غلطی یا خطاء محال ہے اس لئے مسلے میں مزید تحقیق کیے بغیر اور کسی دوسرے اہل علم سے اسی مسلے میں اس کی مجتہدانہ راے لئے بغیر "اندھوں " کی طرح اپنے امام کی راے کو حرف آخر سمجھتا ہے - اور یہی ایک مقلد کی جہالت کا خاصا ہے جو کہ بلخصوص "احناف " میں پائی جاتی ہے-
اس سے تقلید اورعدم تقلید آپ کس منطق سے کشید کررہے ہیں؟وہ ذراہمیں بھی سمجھائیں،شیخ عبدالقادرجیلانی تو بڑی بات ہیں ہرمسلمان یہ کہتاہے کہ رسول اللہ کی ہی اتباع ہونی چاہئے اور بعد از خدا رسول اللہ سے زیادہ اتباع کے قابل کوئی اورنہیں۔لیکن ملین ڈالر کا سوال یہ ہوتاہے کہ اتباع کی شکل کیاہوگی،تقلید یاعدم تقلید ،اگرآنجناب کا جواب یہ ہے کہ اتباع کی شکل عدم تقلید ہے تو اس کی بادلائل وضاحت کردیں ،ہم تو تقلید کو بھی اتباع کی ہی ایک شکل سمجھتے ہیں اور شیخ عبدالقادر جیلانی نے کہیں بھی تقلید کی مذمت نہیں کی،کہیں تقلید کو بدعت نہیں بتایا ،کہیں مقلدین کو گمراہ نہیں کہا۔اورکہتے بھی کیسے، ساری زندگی تو ان کی فقہ حنبلی کی خدمت کرتے ہوئے گزری۔لمحہ فکریہ توان لوگوں کیلئے ہے جو تقلید کو بدعت بھی کہتے ہیں اورپھر شیخ کے کلام سے استدلال بھی کرتے ہیں؟ولا ینظر إلی أحوال الصالحین (وأفعالھم) بل إلی ما روي عن الرسولﷺ والاعتماد علیه حتی یدخل العبد في حالة ینفرد بھا عن غیرہ'' (ج۲؍ص۱۴۹)
یہ بڑی اچھی بات فرمائی آپ نے، یعنی معیار حق ابن تیمیہ ٹھہرے، اگرابن تیمیہ کسی کی تعریف کریں اور کوئی نقص وعیب نہ گردانیں تو وہ شخصیت پاک وبے عیب ٹھہرے اور اگر ابن تیمیہ کسی کے بارے میں کچھ لکھ دیں (صحیح یاغلط)توبے چارہ اس داغ کو دھوتے دھوتے زندگی گزاردے لیکن داغ نہ دھلے۔اگر شیخ جیلانی کے عقائد و نظریات میں کوئی بگاڑ ہوتا (یعنی تصوف ہی آپ کا اوڑھنا بچھونا ہوتا ) تو ابن تیمیہ ؒ اس کی ضرور نشاندہی اورتردید فرماتے مگر اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ ابن تیمیہ ؒ نے شیخ جیلانی ؒ کا نہ صرف ذکر ِخیر فرمایا ہے بلکہ انہیں 'اکابر الشیوخ'، 'الشیخ الامام' اور 'أئمتنا' میں شمار فرمایا ہے۔ (دیکھئے مجموع الفتاویٰ: ج۱۱؍ ص۶۰۴،ج۵؍ ص۸۵)
شیخ مجدد الف ثانیؒ کے مکتوبات میں متعدد مقام پر مروی ہے کہ یہاں فصوص(فصوص الحکم لابن عربی )نہیں بلکہ نصوص (قرآن وحدیث )کی ضرورت ہے۔ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’فتوحات مدینہ‘‘ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال)نےہم کو ’’فتوحات مکیہ‘‘(ابن عربی کی ایک کتاب)سے بے نیاز کردیاہے۔اس کے علاوہ صوفیاء حضرات کے اقوال اور احوال کاشریعت میں معتبر نہ ہونے کے بارے میں تو متعدد اقوال ہیں ۔لا ینظر إلی أحوال الصالحین (وأفعالھم) بل إلی ما روي عن الرسولﷺ والاعتماد علیه حتی یدخل العبد في حالة ینفرد بھا عن غیرہ'' (ج۲؍ص۱۴۹)
صالحین اور فقہاء و مجتہدین کو ایک برابر نہ سمجھیں۔ تقلید صرف فقہا کی کی جاتی ہے۔'' صالحین (علماء ومشائخ) کے افعال واعمال (اور اقوال) کو پیش نظر نہ رکھا جائے بلکہ اس چیز کو پیش نظر رکھا جائے جو آنحضرت ؐ سے مروی ہے اور اسی مروی(حدیث) پر اعتماد کیا جائے خواہ اس طرح کرنے سے کوئی شخص دوسرے لوگوں سے ممتاز ومنفرد ہی کیوں نہ ہو جائے۔ ''
محترم -چلئے ہم آپ مصنف ابن ابی شیبہ اور مصنف عبدالرزاق اوردیگر کتب آثار کا تھوڑاجائزہ لیتے ہیں اورمعلوم کرتے ہیں کہ کتنے مسئلہ اورفتوی معلوم کرنے والوں نے مفتی اور جن سے مسئلہ معلوم کیاجارہاتھا، ان سے دلیل کا مطالبہ کیا ہے۔ اگر اکثریت ایسی نکلی جنہوں نے دلیل کا مطالبہ نہیں کیا توپھر خیر القرون میں مقلدین کا وجود تسلیم کریں گے یاپھر اپنی ہی ضد اور ہٹ دھرمی پر بدستور اورحسب معمول گامزن رہیں گے۔
مقلد کے دل میں یہ بات کبھی نہیں ہوتی،جس کاآپ اظہار کررہے ہیں، مقلد تویہ کہتا اورمانتاہے کہ ہمارامذہب صواب ہے لیکن خطاکا احتمال ہے اور دوسرے کا مذہب خطاہے لیکن صواب کا احتمال ہے ۔اوریہ بات تقریبا اصول فقہ کی ہرکتاب میں لکھی ہوئی ہے۔اس کے باوجود مطلقایہ کہنا کہ مقلد کے دل میں یہ ہمیشہ ہوتاہے ،غلط تعبیر اور مبالغہ آرائی سے خالی نہیں۔اورکچھ لوگ ہرجماعت ،ہرگروہ اورہرمسلک میں ایسے ہوتے ہیں جن کے اندر تشدد اورغلو ہوتاہے ،جب لوگوں نے اللہ کے رسول کی ذات وصفات اورتعریف میں غلو میں کیاہے توپھر امام ابوحنیفہ اوردیگر ائمہ کیسے اس سے بچ سکتے ہیں؟
دوسری بات یہ فرمائی کہ
مقلد کے دل میں ہمیشہ یہ ہوتاہے
ہم تویہ جانتے تھے کہ دل کی باتیں صرف علیم بذات الصدور اورغلام الغیوب ہی جانتاہے لیکن الہام اور کشف کو شرک کے درجے تک پہنچانے والے بھی دل کی باتیں جاننے کے مدعی ہیں تواب کس سے فریاد کی جائے۔
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستہ تیغ ستم نکلے
اس سے تقلید اورعدم تقلید آپ کس منطق سے کشید کررہے ہیں؟وہ ذراہمیں بھی سمجھائیں،شیخ عبدالقادرجیلانی تو بڑی بات ہیں ہرمسلمان یہ کہتاہے کہ رسول اللہ کی ہی اتباع ہونی چاہئے اور بعد از خدا رسول اللہ سے زیادہ اتباع کے قابل کوئی اورنہیں۔لیکن ملین ڈالر کا سوال یہ ہوتاہے کہ اتباع کی شکل کیاہوگی،تقلید یاعدم تقلید ،اگرآنجناب کا جواب یہ ہے کہ اتباع کی شکل عدم تقلید ہے تو اس کی بادلائل وضاحت کردیں ،ہم تو تقلید کو بھی اتباع کی ہی ایک شکل سمجھتے ہیں اور شیخ عبدالقادر جیلانی نے کہیں بھی تقلید کی مذمت نہیں کی،کہیں تقلید کو بدعت نہیں بتایا ،کہیں مقلدین کو گمراہ نہیں کہا۔اورکہتے بھی کیسے، ساری زندگی تو ان کی فقہ حنبلی کی خدمت کرتے ہوئے گزری۔لمحہ فکریہ توان لوگوں کیلئے ہے جو تقلید کو بدعت بھی کہتے ہیں اورپھر شیخ کے کلام سے استدلال بھی کرتے ہیں؟
یہ بڑی اچھی بات فرمائی آپ نے، یعنی معیار حق ابن تیمیہ ٹھہرے، اگرابن تیمیہ کسی کی تعریف کریں اور کوئی نقص وعیب نہ گردانیں تو وہ شخصیت پاک وبے عیب ٹھہرے اور اگر ابن تیمیہ کسی کے بارے میں کچھ لکھ دیں (صحیح یاغلط)توبے چارہ اس داغ کو دھوتے دھوتے زندگی گزاردے لیکن داغ نہ دھلے۔
اب تک تو احناف ہی بدنام تھے کہ ان کیلئے ابوحنیفہ معیار حق ہیں جو ابوحنیفہ نے کہہ دیا وہ آخری بات ہوگئی ،لیکن پتہ چلتاہے کہ ہمارے ناقدین بھی ہم سے کم کسی طرح نہیں ہیں،بس فرق اتناہے کہ احناف جوکچھ کرتے ہیں اسی کا زبانی اقرار بھی کرتے ہیں اورہمارے یہ ناقدین زبان سے کچھ اورکہتے ہیں اورعمل کچھ ہوتاہے یعنی زبان اوردل ایک دوسرے کے رفیق نہیں بلکہ فریق ہیں۔
وماتوفیقی الاباللہ
تقلید اور عدم تقلید کا مسئلہ تو فورم پر بہت جگہ بکھراہواہے،اورمزید کاکوئی فائدہ نہیں ہے،آپ نے مصنف عبدالرزاق اورمصنف ابن ابی شیبہ والی بات کا جواب نہیں دیاکہ قرون مفضلہ کے عوام الناس مفتی حضرات سے دلیل کا مطالبہ کرتے تھے یانہیں کرتے تھے۔سیدھی سی بات ہے اس کا جواب دے دیں اور راحت پائیں۔؟ کیا تب بھی اتباع کی یہ صورت "تقلید" ہی کہلاتی تھی کیوں کہ فقہی مسائل تو ان کے دور میں بھی موجود تھے ؟؟ مزید یہ کہ آپ کے اپنے پیارے امام اتباع کے نام پر کس کی تقلید کیا کرتے تھے؟؟ - کیوں کہ آپ جناب احناف کے خود ساختہ مذہبی اصول کےتحت ہر عامی پر تقلید واجب ہے- تو آپ کے اپنے امام بھی تو کبھی نہ کبھی عامی رہے ہونگے - اب ظاہر ہے کہ وہ پیدائشی مجتہد تو ہو نہیں سکتے- تو اب سوال ہے کے پھر ایسی تقلید کا احناف کے پاس کیا جواز باقی رہا جس تقلید کو ان کے اپنے امام نے کبھی سرانجام نہیں دیا؟؟
تقلید مفضی الی الشرک:تقلید اور عدم تقلید کا مسئلہ تو فورم پر بہت جگہ بکھراہواہے،اورمزید کاکوئی فائدہ نہیں ہے،آپ نے مصنف عبدالرزاق اورمصنف ابن ابی شیبہ والی بات کا جواب نہیں دیاکہ قرون مفضلہ کے عوام الناس مفتی حضرات سے دلیل کا مطالبہ کرتے تھے یانہیں کرتے تھے۔سیدھی سی بات ہے اس کا جواب دے دیں اور راحت پائیں۔
امام ابوحنیفہ تقلید کرتے ہیں ،تقلید نہیں کرتے تھے ،وہ عامی تھے یامجتہد تھے، ان سب سوالوں سے کوئی فائدہ نہیں، منکرین حدیث کے بھی سوالات ایسے ہی ہوتے ہیں کہ جب کتب حدیث تالیف نہیں کی گئی تھیں تب لوگ کس کی پیروی کرتے تھے۔
مجتہدین سے کوئی زمانہ خالی نہیں رہاہے، ہرزمانہ میں مجتہدین رہے ہیں اورمجتہدین کا ہوناہی یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ کچھ ان کے مقلدین اورپیروکار بھی ضرور ہوں گے کیونکہ استاد کا وجود تبھی ہوسکتاہے جب کہ اس کے کچھ شاگرد ہوں۔
بہرحال لاطائل مسائل سے کوئی فائدہ نہیں،اصل سوال جس کی وضاحت ماقبل میں طلب کی گئی ہے اس پر توجہ دیں تو مہربانی ہوگی۔
وماتوفیقی الاباللہ